مظفر گڑھ

سرزمین مظفر گڑھ (تعارف)

مظفر گڑھ سرائیکی وسیب کا اہم ضلع ہے۔ مظفر گڑھ شہر کی بنیاد ونواب مظفر خان نے 1794ء میں رکھی ۔ لفظ مظفر گڑھ کا لغوی مطلب ہے ” مظفر کا قلعہ” کیونکہ یہاں والئی ملتان نواب مظفر خان نے ایک قلعہ تعمیر کرایا تھا پرانا شہر اس قلعے کی دیواروں کے اندر واقع تھا۔ اس کا پرانا نام موسن دی ہٹی تھا  ۔ اس وقت یہ ایک چھوٹی سی بستی تھی۔ سرزمین مظفر گڑھ دراصل چھ دریاؤں کی دھرتی ہے یعنی یہاں پر چھ دریاؤں کے پانیوں کا ملاپ ہوتا ہے اس کے مغربی کنارے پر عظیم دریائے سندھ بہتا ہے اور مشرقی کنارے پر دریائے چناب۔ اس دو آبے میں واقع دھرتی کی مٹی میں ان دریاؤں کی تمام خصوصیات ہیں اور اس علاقے میں پیدا ہونے والے لوگوں کا خمیر اسی مٹی سے بنا ہے۔ یہ ضلع سندھ ساگر دو آب کا آخری ضلع ہے۔ جغرافیائی طور پر یہ خطہ تقتل کا حصہ ہے ۔ پاکستان کے عین وسط میں واقع ہے تاریخی طور پر مظفر گڑھ ہمیشہ سے خطہ ملتان کا حصہ رہا ہے۔ کہتے ہیں کہ 327 قبل مسیح میں سکندراعظم ملتان میں سخت مزاحمت کے بعد جب واپس ہوا تو مظفر گڑھ کے علاقے میں دریائے سندھ کے ذریعے روانہ ہوا ۔ زمانہ قدیم سے یہ علاقہ وادی سندھ کا حصہ رہا ہے۔ اشوک عہد میں یہ علاقہ بدھ مت کے زیر اثر آ گیا تھا ۔ ہندوشاہی کے عہد میں یہ علاقہ رائے خاندان اور برہمن خاندان کا حصہ رہا ۔ 712 میں محمد بن قاسم نے برہمن راجہ داہر کو شکست دے کر سندھ اور ملتان پر قبضہ کر لیا (5) ۔ مظفر گڑھ میں کھجور کے باغات اسی دور کی یادگار ہیں ۔ غزنوی دور میں عظیم مؤرخ البیرونی ان علاقوں میں آیا۔ البیرونی نے اپنی تصنیف کتاب الہند میں مظفر گڑھ کے علاقے سیت پور سے آگے دریائے سندھ اور چناب کے سنگم کے ساتھ واقع مقام کے بارے حیرت انگیز باتیں لکھی ہیں ۔ اس ضلع کا قدیم ترین قصبہ سیت پور ہے جو سیتا دیوی کے نام پر بسایا گیا تھا یہ سیت پور سلاطین دہلی کے عہد میں لودھی نہر ریاست کا دارلحکومت تھا یہاں اب بھی شاہی مسجد اور مقبرہ طاہر خان نہر موجود ہیں۔ دیگر اہم تاریخی قصبوں میں خانگڑھ، دائرہ دین پناہ ، رنگ ،پور، مراد آباد، بدھ ، سنانواں علی پور محمود کوٹ، شاہجمال اور بصیرہ شامل ہیں ۔ نواب مظفر خان کے عہد میں خانگڑھ کو ضلعی حیثیت حاصل تھی اور سیت پور، رنگ پور اور سنانواں اسکی تحصیلی تھیں مظفر گڑھ 1818 تا 1848 تک سکھ عملداری میں رہا۔ 1849 میں یہ شہر انگریزوں کے زیر تسلط . آگیا ۔ انگریز دور میں 1859 میں خان گڑھ کی ضلعی حیثیت ختم کر کے مظفر گڑھ کو ضلع بنا دیا گیا .سیت پور کی بجائے علی پور اور سنانواں کی بجائے کوٹ ادو کو تحصیل بنا دیا گیا۔ رنگ پور کی تحصیلی حیثیت ختم کر کے اسے تحصیل مظفرگڑھ میں شامل کر دیا گیا۔ انگریز دور میں لیہ کو بھی مظفر گڑھ کی تحصیل بنادیا گیا ۔ 1869 میں مظفر گڑھ کو ٹاؤن کمیٹی کا درجہ دیا گیا ۔ 1952 میں نواب آف بہاولپور اور گورنر جنرل غلام محمد کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت ڈیرہ غازی خان اور مظفر گڑھ کے اضلاع کو ریاست بہاولپور میں ضم کر دیا گیا  ۔ تاہم بعد ازاں ڈیرہ غازی خان مظفر گڑھ، لیہ، راجن پور وغیرہ کو بہاولپور سے علیحدہ کر کے ملتان ڈویژن میں ضم کر دیا گیا۔ 1982ء میں لیہ کو مظفر گڑھ سے علیحدہ کر کے الگ ضلع بنا دیا گیا۔ اس ضلع کی مقامی زبان سرائیکی ہے۔ ضلع کی چار تصیلیں مظفر گڑھ علی پور جتوئی اور کوٹ ادو ہیں ۔ حالیہ مردم شماری 2017 کے مطابق اسکی آبادی 43 لاکھ ہے۔ یہاں قومی اسمبلی کی چھ نشستیں اور پنجاب اسمبلی کی 12 نشستیں ہیں۔ ضلع کی زرعی پیداوار میں آم، کپاس، گندم، چنا، چاول اور کماد شامل ہیں ۔ دو دریاؤں سندھ اور چناب کے درمیان واقع اس ضلع کی زمین بہت زرخیز ہے۔ اہم خد و خال

 

رقبہ:

ضلع مظفر گڑھ کا کل رقبہ 8249 مربع کلومیٹر ہے ۔ اس کی چار تحصیلیں ہیں ۔ مظفر گڑھ، کوٹ اڈو، علی پور اور جتوئی ہیں ۔

محل وقوع:

یہ ضلع 31 درجے شمالی عرض بلد اور 71 درجے مشرقی طول بلد پر واقع ہے

حدوداربعه:

مشرق میں دریائے چناب بہتا ہے چناب کے پار شمال مشرق میں خانیوال مشرق میں ملتان اور جنوب مشرق میں بہاولپور واقع ہیں مغرب میں دریائے سندھ کے اُس پار ڈیرہ غازیخاں اور راجن پور واقع ہیں ۔ شمال میں ضلع جھنگ اور شمال مغرب میں لیہ ۔ جبکہ جنوب میں سندھ چناب کے سنگم (سرکی پین ) کے پار ضلع رحیم یار خان واقع ہے۔

آبادی:

2017 ء کی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی 43لاکھ ہے ۔ زیادہ تر آبادی مسلمان ہے ۔ بہت قلیل تعداد میں عیسائی اور ہندو آباد ہیں۔

زبان:

86 فیصد لوگوں کی زبان سرائیکی ہے. پانچ فیصد لوگ اردو اور سات فیصد پنجابی بولتے ہیں

طبعی خد و خال

یہ سندھ یا گردو آپ کا آخری ضلع ہے اس کی سطح کو 3 حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

صحرائے تنقل سر سبز میدانی علاقہ اور کچے کا علاقہ ۔

صحرائے تھل:

صحرائے تھل جو سرائیکی وسیب کے اضلاع میانوالی ، بھکر، خوشاب، لیہ ، جھنگ اور مظفر گڑھ کے حصوں پر مشتمل ہے۔ یہ صحرائے تھل ضلع مظفر گڑھ کے شمال مغرب میں واقع ہے۔ ضلع کا شمالی حصہ صحرائے تھل پر مشتمل ہے تحصیل کوٹ ادو اور تحصیل مظفر گڑھ کے کافی علاقے تھل کے ریلے ریگستان پر مشتمل ہیں۔ میانوالی سے شروع ہو نیوالے صحرائے تھل شاہ جمال (مظفر گڑھ ) کے قریب اختتام پذیر ہو جاتا ہے۔ تھل میں چوک سرور شہید ، رنگ پور محمود کوٹ ، خان پور بگا شیر، مراد آباد، ہیڈ محد والا اور پٹھان ہوٹل جیسے اہم قصبے واقع ہیں ۔

میدانی علاقہ (پکے کا علاقہ):

دریا سے قدرے دور زرخیز علاقہ پکے کا علاقہ کہلاتا ہے۔ تحصیل کوٹ ادو کے اکثر علاقے تحصیل مظفر گڑھ کا مشرقی اور جنوبی علاقہ اور مکمل تحصیل جتوئی اور تحصیل علی پور میدانی علاقے میں واقع ہیں۔

دریائی علاقہ (کچے کا علاقہ):

انگریزوں کے جیولوجیکل سروے اور بندو بستی رپورٹ میں کلور کوٹ سے مظفر گڑھ تک دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ علاقے کو کچھی کہتے ہیں [14]۔ دریا کے کناروں پر واقع علاقہ بیٹ یا کچے کا علاقہ کہلاتا ہے۔ ضلع کے مشرقی جانب دریائے چناب کے آس پاس کا علاقہ اور ضلع کے مغرب میں دریائے سندھ کے آس پاس کا دریائی علاقہ ہے۔ گرمیوں میں اس علاقے میں سیلاب آ جاتا ہے۔ جبکہ سردیوں میں ایک فصل کاشت ہوتی ہے۔ یہ علاقہ بھی بڑا از رخیز اور زرعی خزانوں ، جنگلی حیات اور آبی حیات سے مالا مال ہے۔

فصلیں اور پھل

یہاں گندم، کپاس، جوار، باجرہ ہلکی ، چنا، سرسوں، گنا اور چاول جیسی نقد آور فصلیں اگتی ہیں ۔ پھلوں میں آم، کھجور، مالٹا ،سٹرابری، تربوز، خربوزہ ، انار اور بیر کثرت سے ہوتے ہیں ۔ ام کی اقسام لنگڑہ ، دسہری، مالدہ سرولی، موسمی چونسہ، نواب پوری، کالا چونسہ، انور رٹول ،سندھڑی، سہارن پوری بن شائن ، حیدر شاہ والا ، نجری ، طوطا پری، سنگلاخی ہو بھے والی تنگ اور رنے والا جیسی اقسام پائی جاتی ہیں۔ صدیوں سے یہاں کھجور کی کاشت کی جارہی ہے یہاں کی بصرہ خود رادی، بلاوی اور زیدی کھجور کی بڑی مانگ ہے۔ ای طرح علی پور شمالی کا ڈو کا اپنی مثال آپ ہے۔

دریا:

ضلع میں دو عظیم دریا سندھ اور چناب بہتے ہیں ۔

جانور اور پرندے

ڈسٹرکٹ گزیٹر (1930) کے مطابق 1879 میں یہاں کے جنگلوں میں شیر بھی پائے جاتے تھے (15) مگر اب معدوم ہو گئے ہیں۔ ہرن ، پاڑھا، جنکارا، لومڑی ، گیدڑ ہوں، بھیڑیا ، چو ہے، جاہ، نیولہ ،سیہ، سانپ ، کتا، گائے،بھینس، بھیڑ ، بکری ، اونٹ ،گھڑ ہے، پرندے چڑیا طوطا، فاختہ ہد ہد ( درکھان نکی) کوا ، چیل ، گدھ، چاں، کال کر چھی (گوگل) بلبل ، دیہیا ، جل لکڑ ، مرغی ، بگلا ، ٹیٹری اور لالی (مینا) جیسے پرندے پائے جاتے ہیں ۔ سردیوں میں سائبریا سے مہمان پرندے ہجرت کر کے یہاں آتے ہیں اور یہاں کے دریاؤں کے کنارے بسیرا کرتے ہیں۔ ان میں مرغابی کونج تلور ، جنس ، نیل سره سرخاب مگ اور دیگر آبی پرندے شامل ہیں۔

دائرہ دین پناہ نسل کی بکری:

ان کا آبائی وطن پنجاب کے اضلاع مظفر گڑھ اور ملتان ہیں۔ اس نسل کا نام دائرہ دین پناہ مظفر گڑھ کی ایک بستی کے نام پر رکھا گیا ہے۔ ان جانوروں کا رنگ سیاہ، جسم مضبوط اور لمبے بالوں سے بھرا ہوا، قد لمبا، سر بڑا ناک لمبی اور کھڑی ، کان لمبے ، ہل دار اور لٹکے ہوئے، کچھ جانوروں میں گردن کے اطراف میں زائد گوشت لٹکا ہوا ہوئے اور لیے بیچ کھاتے ہوئے سینگ ، ٹانگیں لمبی ، دم درمیانی اور چھوٹے کھردرے بالوں سے بھری ہوئی تھن اور حیوانہ بھاری اور بڑا ہوتا ہے۔ اس بکری کا اوسط وزن 32 تا 41 کلوگرام تک ہوتا ہے۔ روزانہ دودھ کی اوسط پیدوار 2 لیٹر جبکہ اچھی قسم کی بکریاں 5 سے 6 لیٹر تک دودھ دیتی ہیں۔ ان بکریوں کا گوشت بہت لذیذ ہوتا ہے۔

آب و ہوا:

آب و ہو اسخت ہے ۔ یہ ضلع ملک کے کم بارش برسانے والے خطہ میں واقع ہے ۔ گرمیوں میں شدید گرمی پڑتی ہے سردیوں میں شدید سردی پڑتی ہے۔ تھل کے علاقے میں گرمیوں میں دن کے وقت شدید گرمی پڑتی ہے یگر را نیں ٹھندی ہوتی ہیں۔ اس ضلع میں چاروں موسم گرما، سرما، برسات اور بہار پوری آب و تاب سے جلوہ بکھیرتے ہیں۔

 

ذرائع آمد و رفت

اہم شاہرائیں

لاہور، ملتان، کوئٹہ روڈ:

لاہور، ملتان ، کوئٹہ روڈ ملتان سے بطرف مشرق اس ضلع کی حدود میں داخل ہو کر مظفر گڑھ سے گزرتی ہوئی بطرف مغرب ڈیرہ غازیخاں اور کوئٹہ کی طرف چلی جاتی ہے۔ اس شاہراہ پر مظفر گڑھ ، بصیرہ ، کر مداد قریشی اور غازی گھاٹ جیسے قصبے واقع ہیں۔

میانوالی ،مظفر گڑھ روڈ:

میانوالی مظفر گڑھ شاہراہ شمالی طرف یہ سڑک ضلع کو شمالی اضلاع (میانوالی خوشاب بھکر اور لیہ ) کے علاقوں سے ملاتی ہے۔ اس شاہراہ پر چوک سرور شہید ، پٹھان ہوٹل اور خان پور بگا شیر واقع ہیں۔

پنجند روڈ:

اسے علی پور روڈ بھی کہتے ہیں۔ مظفر گڑھ شہر سے علی پور اور پنجند تک جاتی ہے ۔ پنجند سے آگے اوچ شریف اور ضلع رحیم یار خان کے علاقے ترنڈہ محمد پناہ میں قومی شاہراہ کراچی ، لاہور، پشاور سے جاملتی ہے ۔ اس شاہراہ پر خانگڑھ، روہیلانوالی شہر سلطان علی پور اور پرمٹ واقع ہیں۔

کرم داد قریشی تا جتوئی روڈ:

یہ سڑک کرم داد قریشی سے بطرف جنوب جتوئی تک اور وہاں سے علی پور تک جاتی ہے اس سڑک پر شاہ جمال، بکائنی ، بیٹ میر ہزار اور کوٹلہ رحم شاہ واقع ہیں۔

کوٹ ادو، لیہ روڈ:

یہ سڑک شمال مغرب میں محمود کوٹ ، سنانواں سے ہوتی ہوئی کوٹ ادو، دائرہ دین پناہ اور لیہ تک جاتی ہے۔

شاہ جمال روڈ:

یہ سڑک مظفر گڑھ شہر سے شاہ جمال کو جاتی ہے اس روڈ پر شاہ گڑھ مونڈ کا اور مہر پور کے جیسے قصبے واقع ہیں۔

کرم داد قریشی ، قصبہ گجرات ، سنانواں روڈ:

یہ سڑک کرم داد قریشی سے قصبہ گجرات اور سنانواں تک جاتی ہے اس سڑک پر قصبہ گجرات ، پارکو پاک عرب آئل ریفائنری) اور قصبہ گرمانی واقع ہیں۔

جھنگ روڈ:

مظفر گڑھ شہر سے یہ سڑک ضلع جھنگ کو جاتی ہے اس سڑک پر مراد آباد، رنگپور اور جوانہ بنگلہ جیسے تھے واقع ہیں

 ہیڈ محمد والا تا کوٹ ادوروڈ:

یہ سڑک تو نسہ پنجند لنک کینال (ٹی پی لنک ) کے کنارے پر واقع ہے ہیڈ محمد والا سے کوٹ ادو تک جائی ہے۔ اس سڑک کے بنے سے ملتان ، کوٹ ادو اور لیہ کے درمیان سفر آسان ہو گیا ہے۔

دریاؤں پر بنے پل

غازی گھاٹ برج:

یہ پل 1984 میں مکمل ہوا اس سے پہلے لوگوں کو طویل رستہ طے کر کے ہیڈ تونسہ پر بنے پل کے ذریعے سفر کر کے ڈیرہ غازیخاں جانا پڑتا تھا۔ تونسہ بیراج بنے سے بھی پہلے مظفر گڑھ اور ڈیرہ غازیخاں کے درمیاں دریائے سندھ میں غازی گھاٹ کے مقام پر سٹیمر چلتا تھا۔

شیر شاہ چناب برج:

یہاں ریلوے برج 1886 میں بنا تھا۔ پہلے ٹریفک اسی ریلوے لائن پر چلتی تھی مگر 1974 ء میں مظفر گڑھ کے شہریوں نے چندہ کر کے اس ریلوے برج کے اوپر سڑک بنوائی جو 2008 تک چلتی رہی۔ 2008ء میں ریلوے برج کے ساتھ نیا پل بن گیا ہے۔ وزیر مملکت برائے مواصلات انجینئر شاہد جمیل قریشی کی کاوش سے اس نئے پل کی تعمیر کا کام 2006ء میں ہوا اور 2008ء میں مکمل ہوا ۔

ہیڈ محمد والا چناب برج:

ملتان اور ہیڈ محمد والا کے درمیان دریائے چناب پر یہ پل سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے دور میں 2009ء میں مکمل ہوا۔ یہ ملتان کو رنگپور ، لیہ ، کوٹ ادو اور چوک سرور شہید سے ملاتا ہے۔

شیر شاہ ریلوے برج:

یہ منفرد پل انگریز دور میں 1886ء میں بنایا گیا تھا۔ یہ پل ملتان سے روالپنڈی جانے والی ریلوے لائن کو مغربی اضلاع سے جوڑتا ہے۔

ہیڈ تو نسہ ریلوے برج:

یہ ریلوے برج 1971 ء میں بنایا گیا تھا اسکی مدد سے کوٹ ادو کو ڈیرہ غازیخاں اور راجن پور ریلوے سے جوڑا گیا تھا۔

مظفر گڑھ ریلوے

برصغیر پاک و ہند میں ریلوے لائن بچھانے کا کام انگریز دور میں شروع ہوا ۔ 1886ء میں سندھ ساگر ریلوے لائن بچھائی گئی تو مظفر گڑھ میں بھی ریل کی پٹڑی بچھائی گئی ، جو ملتان کو راولپنڈی سے ملاتی ہے ۔ ریل کی یہ پری ملتان ، مظفر گڑھ ، لیہ ، بھکر ، کندیاں ، میانوالی ، فتح جنگ اور راولپنڈی تک جاتی ہے۔ یہ ریلوے لائن صحرائے تھل میں گزرتی ہے اور قتل کے کئی قصبوں اور شہروں کو آپس میں جوڑتی ہے ۔ مظفر گڑھ میں اس ریلوے لائن پر کئی چھوٹے چھوٹے ریلوے اسٹیشن قائم ہیں۔ جن میں دریائے چناب کے کنارے پر چناب ویسٹ بنگ ،مظفر گڑھ شہر ، قصبہ بدھ ، گورمانی ، سنانواں کوٹ ادو، دائرہ دین پناہ اور احسان پور کے ریلوے سٹیشنز شامل ہیں ۔ پاکستان بنے کے بعد کوٹ ادو سے ریلوے لائن کو ڈیرہ غازیخان ، راجن پور، روجھان اور کشمور تک توسیع دی گئی اور ملتان کو ئٹہ کیلئےریل چلائی گئی۔

چلتن ایکسپریس:

ماضی میں کئی ریل گاڑیاں یہاں چلتی تھیں جواب بند ہو چکی ہیں مشہور زمانہ چلتن ایکسپریس لاہور سے کوئٹہ اس ریلوے روٹ پر چلتی تھی ۔ یہ ملتان سے مظفر گڑھ ، کوٹ ادو ، ڈیرہ غازیخان راجن پور، کشمور، شکارپور، جیکب آباد، ہیں اور کوئٹہ تک چلتی تھی جو 2008ء میں بند ہوئی  ۔ یہ ریل گاڑی اس مخطے کے لوگوں کیلئے آمد و رفت کا بڑا ذریعہ اور تاریخی اہمیت کی حامل تھی ۔

مہرایکسپریس:

یہ ریل گاڑی عرصہ دراز سے ملتان اور روالپنڈی کے درمیان اس ریلوے ٹریک پر چل رہی ہے۔ یہ ریل گاڑی معروف صوفی شاعر اور بزرگ پیر مہر علی شاہ آف گولڑہ شریف سے منسوب ہے ۔

تھل ایکسپریس:

یہ ریل گاڑی ملتان سے براستہ اٹک راولپنڈی تک جاتی ہے۔ صحرائے تھل میں سے گزرتی ہے اس وجہ سے اسکا نام تھل ایکسپریس رکھا گیا ہے۔ یہ اپنے ٹریک پر رواں دواں ہے۔

ماڑی انڈس ایکسپریس:

یہ ملتان سے ماڑی انڈس (میانوالی) تک جاتی تھی۔ یہ پسنجر ٹرین تھی 2014 میں یہ بند کردی گئی ۔

موئن جو داڑ وایکسپریس:

یہ ریل گاڑی 2020 تمیں ملتان سے کراچی براستہ مظفر گڑھ، ڈیرہ غازی خان، کشمور، موہنجو داڑو اور کوٹری چلائی گئی ہے ۔ یہ پسنجر ٹرین ہے ۔ یہاں کے عوام کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ یہاں سے لاہور کے لئے بھی ریل گاڑی چلائی جائے ۔

جھیلیں

غضنفر جھیل:

یہ جھیل خان گڑھ سے تھوڑا آگے قلعہ فر گڑھ کے پاس علی پور روڈ پر واقع تھی یہ چند سال پہلے سوکھ گئی ہے۔ اس جھیل میں بارش کے علاوہ گرمیوں میں دریائے چناب کا پانی آتا تھا اب آنا بند ہو گیا ہے۔ اب جھیل کے رقبے پر محکمہ فشریز نے مچھلی گھر بنا دیئے ہیں

گیر ینج جھیل:

یہ ضلع کی سب سے بڑی جھیل ہے جو علی پور کے مغرب میں موضع کھمیری اور کوٹلی لاں کے ساتھ واقع ہے۔ یہ جھیل دریائے سندھ کے سیلابی پانی سے سیراب ہوتی تھی مگر اب خشک سالی کا شکار ہے ۔

مظفر گڑھ کا نہری نظام:

پہلے کسان سخت مشقت کے باوجود رہٹ اور کنویں کی مدد سے بمشکل چند کنال زمین سیراب کر کے فصل کاشت کرنے کے قابل ہوتے تھے ۔ یہ بڑا مشکل دور تھا۔ اناج کی قلت تھی ۔ لوگ جو ، ہاجرہ اور مکئی پر گزارہ کرتے تھے ۔ گندم خال خال پیدا ہوتی تھی۔ تھل کے بارانی علاقوں میں چنا کاشت کیا جاتا تھا۔ ہیڈ تریموں کے بننے اور وہاں سے نہریں نکلنے سے پہلے ضلع مظفر گڑھ کا اکثر علاقہ غیر آباد اور بارانی تھا۔ دریائے سندھ اور دریائے چناب کے کنارے بیٹ کے علاقے سرسبز اور آباد تھے ۔ دریا کے آس پاس کچے کے علاقے میں واقع ان بیلوں کی رونق سے زندگی اور ہریالی تھی ۔ پکے کے علاقے کے لوگ جب قحط سالی کا شکار ہوتے تھے تو بیٹ اور بیلے کی ان سرسبز چراگاہوں کا رخ کرتے تھے ۔ نواب مظفر خان شہید کے عہد میں دریائے چناب سے نہریں نکالی گئی تھیں ۔ نواب آف بہاولپور نے بھی اپنے دور میں نہریں کھدوائیں۔ سرزمین مظفر گڑھ کا مشرقی کنارا نہروں کے پانی سے آباد ہوا۔ انگریز دور میں پکے کے علاقے میں بسنے والوں کے دن بھی بدل گئے ۔ ہیڈ تریموں سے 1939ء میں پہلی نہر نکالی گئی [25] اور کسانوں کے وارے نیارے ہو گئے ۔ رنگ پور کینال سے نہر تیری نکلنے سے مظفر گڑھ کا مشرقی علاقہ جو دریائے چناب کے پاس واقع تھا آباد ہونا شروع ہوا۔ اس دور میں آم کے وسیع باغات کی کاشت شروع ہوئی۔ مظفر گڑھ کا غر بی حصہ 1960ء میں دریائے سندھ پر کوٹ ادو کے قریب تو نسہ بیراج کے بننے اور وہاں سے مظفر گڑھ کینال نکلنے سے آباد ہوا ۔ 1960ء میں سندھ طاس معاہدے کے بعد مظفر گڑھ کے طول و عرض میں سرکاری ٹیوب ویلز قائم ہوئے اس سے زراعت میں انقلاب برپا ہوا آج یہ صورتحال ہے کہ ضلع کا اکثر و بیشتر علاقہ آباد ہے اور فصلیں کاشت کی جارہی ہیں۔ اگر چہ یہ سرکاری ٹیوب ویلز بند ہو چکے ہیں مگر ششما ہی نہروں سے گرمیوں میں نہری پانی میسر آجاتا ہے اور سردیوں میں کسانوں کے اپنے ٹیوب ویلز سے فصل کاشت کی جاتی ہے۔ ضلع پر اللہ کا خاص کرم ہے کہ زیرزمین پانی میٹھا اور کم گہرا ہے۔جدید نہری نظام سے پہلے ضلع میں دریائے سندھ اور چناب سے کچھ نہریں نکالی گئی تھیں جن میں سیلاب کے دنوں میں پانی آتا تھا۔

تلیری نهر:

یہ سیلابی نہ تھی۔ سیلاب اور بارش کے دنوں میں اس میں پانی آتا تھا۔ کہتے ہیں کہ یہ نہر نواب مظفر خان شہید والٹی ملتان نے تیری باغ مظفر گڑھ کی آبپاشی اور شہر مظفر گڑھ کی پانی کی ضروریات کی پورا کرنے کیلئے دریائے چناب سے نکلوائی تھی ۔ نواب بہاولپور نے بھی اسکی تعمیر میں مالی معاونت کی تھی اور اسکی تو سیع کروائی تھی ۔

گنیش واہ نہر (نهر غوث واه):

یہ نہر 1813ء میں نواب مظفر خان شہید نے رنگپور اور خان پور بگا شیر کے علاقوں کو سیراب کرنے کیلئے کھدوائی تھی ۔ اس کا پرانا نام غوث واہ ہے  ۔ دیوان ساون مل کے دور میں اس کا نام گنیش واہ رکھا گیا۔ 1883ءمیں اسکی از سر نو تعمیر ہوئی۔

کرم کینال:

یہ شهر دیوان ساون بل گورنر ملتان کے بیٹے دیوان کرم نرائن نے 5 ہزار روپے کی لاگت سے تعمیر کروائی تھی۔ یہ نہر دریائے چناب سے نکلتی تھی دریائے سندھ سے بھی کچھ موسی اور سیلابی نہریں نکلتی تھیں ان میں ہزارہ ہنکسن بھی گھٹہ سلیمان اور پورن کینال شامل ہیں ۔ ان میں پورن کینال بہت پرانی تھی۔ اسی طرح اپنے وقت میں سردار کوڑے خان نے اپنے خرچے پر دریائے سندھ سے ایک نہر نکلوائی تھی

تونسہ پنجند رابطہ نہر:

سندھ طاس معاہدے کے بعد کئی رابطہ نہریں نکالی گئی تھیں جو ملک کے مغربی دریاؤں (سندھ ، جہلم) سے پانی لیکر مشرقی دریاؤں (ستلج ، راوی اور چناب ) میں پانی کی کمی کو پورا کرتی ہیں ۔ یہ رابطہ نہر ہیڈ تونسہ بیراج سے نکالی گئی ہے جو ہیڈ محمد والا کے قریب دریائے چناب میں گرتی ہے۔ یہ 12000 کیوسک پانی لے جانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کا یہ پانی ہیڈ پنجند کے مقام سے نہر صادقیہ اور نہر بند کے ذریعے نکال کر ستلج وادی کےاضلاع بہاولپور اور رحیم یار خاں کو سیراب کیا جاتا ہے۔

رنگ پور کینال سسٹم (دریائے چناب):

1937-39 میں ہیڈ تریموں کا کام مکمل ہوا ۔ رنگ پور کینال ہیڈ تریموں سے نکالی گئی ہے۔ اس سے ضلع مظفر گڑھ کی تحصیل مظفرگڑھ کے مشرقی علاقے رنگ پور، مراد آباد لنگر سرائے مظفرگڑھ، خان گڑھ اور رومیلانوالی سیراب ہوتے ہیں۔ یہ 4 ہزار کیوسک پانی کی حامل ہے ۔ ہیڈ تریموں سے نکلنے والی رنگ پور کینال میں سے 1035 کیوسک پانی مظفر گڑھ کو ملتا ہے۔ رنگ پور کینال سٹم سے مزید کئی چھوٹی نہریں نکلتی ہیں ۔ جن میں علی پور شمالی ڈی مراد آباد ڈسٹ، دو آبہ ڈسٹ اور گنیش ڈسٹی شامل ہیں۔ گنیش ڈٹی سے مزید چھوٹی نہریں نکلی ہیں جن میں جگت پور مائن ، خان پور مائن ، ولی واہ مائنز اور جلال آباد مائنز ہیں ۔ رنگ پور کینال سے شاہنواز ڈسٹی تلمیری ڈسٹی ، حاجی واہ ڈسٹی اور وفا ڈسٹی نکلتی ہیں ۔
مظفر گڑھ شہر کے قریب رنگ پور کینال سے تیری ڈسٹری بیوٹری روہیلانوالی تک جاتی ہے اس سے مزید کئی چھوٹی چھوٹی شاخیں نکلتی ہیں جن میں خان گڑھ مائنز، کمال پور مائنز همراه مانتر فر مائنز لکھنو مائنز، نوراه بائنری علی واہ مائنز، گانگامائنز اور جھنڈ او مائنز شامل ہیں۔ تحصیل مظفر گڑھ کے آخری موضع جھنڈے والی میں رنگ پور کینال سٹم اختتام پذیر ہو جاتا ہے

مظفر گڑھ کینال سسٹم (دریائے سندھ):

یہ نہر 1960 میں تو نسہ بیراج سے نکالی گئی تھی۔ یہ 8400 کیوسک پانی کی حامل ہے۔ اس سے تحصیل کوٹ ادو، مظفر گڑھ ، علی پور اور جتوئی کا علاقہ سیراب ہوتا ہے ۔ 4400- مظفر گڑھ علی پو راور جتوئی کو ملتا ہے جبکہ 4000 کیوسک کوٹ ادو کیلئے ہے۔
یہ نہر ضلع کے مغربی حصے میں واقع زمینوں کو سیراب کرتی ہے اس کی لمبائی تقریباً 164 کلومیٹر ہے۔ اس سے مزید کئی شاخیں نکلتی ہیں ۔ جیسے مکسن کینال پھل برانچ کینال ، ڈنگا کینال بہشتی کینال ، جتوئی برانچ کینال اور علی پور برانچ کینال وغیرہ ۔

مسکن کینال:

مظفر گڑھ مین کینال سے نکلتی ہے۔ مظفر گڑھ کینال سے سب سے پہلی نہر جو نکالی گئی ہے وہ مکسن کینال ہے یہ 1342 کیوسک پانی کی حامل ہے ۔ اس سے تحصیل کوٹ ادو کے علاقے سیراب ہوتے ہیں۔ میکسن کینال سے مزید کئی چھوٹی بڑی نہریں نکلتی ہیں ان میں اپر سردار ڈسٹی بوٹ مکسن ڈسٹی اور گی ڈسٹی شامل ہیں ۔

تھل برانچ کینال:

تھل برانچ کینال 1021 کیوسک پانی کی حامل ہے اس سے تھل کے علاقے سیراب ہوتے ہیں پھل برانچ کینال سے مزید کئی شاخیں نکلتی ہیں جن میں منڈا ڈسٹی ، پکا ڈسٹی ، خان پور ڈسٹی اور غازی پور ڈسٹی شامل ہیں ۔ مظفر گڑھ مین کینال سے نکلنے والی لوئر کوٹ سلطان ڈسٹی 213 کیوسک پانی کی حامل ہے۔ کوٹ ادو کینال ڈویژن کے علاقے میں مظفر گڑھ کینال سے نکلنے والی مزید نہروں میں عباس ڈسٹی ، زکریا ڈسٹی ، لوئر سردار ڈسٹی پتل ڈسٹی ، لوئر ہزارہ ڈسٹی ،لوئرکشن، عربی ڈسٹی بلوئر کوٹ واہ، سلمان ڈسٹی تھل واہ، کالو واہ اور گجرات ڈسٹی شامل ہیں۔

ڈنگا کینال:

قصبہ گجرات کے قریب ہیڈ کالو سے مظفر گڑھ کینال سے ڈنگا ڈسٹی نکلتی ہے جو 446 کیوسک پانی کی حامل ہے۔ ڈنگا سے بھنگر مائنز، میر پور مائنر مونڈ کا مائنز، چکلی سب مائنز، ٹا نگ واہ مائنز اور جڑھا سب مائنر نلتی ہیں ۔ اس سے بیٹ والا ڈسٹی اور قائم شاہ ڈسٹی بھی نکلتی ہیں ۔

عادل واہ:

مظفر گڑھ مین کینال سے نکلنے والی عادل واہ ڈسٹی 364 کیوسک پانی کی حامل ہے ۔ عادل واہ سے راج داه بکن شاه مائنز، پیرواه مائنز ، جلال مائنز اور ڈیوالہ مائن نکلتی ہیں ۔

بهشتی کینال:

اس سے نکلنے والی بہشتی ڈسٹی 281 کیوسک پانی کی حامل ہے جبکہ بہشتی ڈسٹی سے بخت واہ عظیم واہ اور حیدرواہ نکلتی ہیں۔

ڈ مروالا کینال:

ہیڈ بہار کے مقام پر اس سے ڈمر والا ڈٹی نکلتی ہے جو 333 کیوسک پانی کی حامل ہے ۔ ہیڈ بہار سے تجرا ڈسٹی اور ہر نام ڈسٹی نکلتی ہیں ۔

علی پور برانچ کینال:

ہیڈ بکائنی کے مقام سے علی پور برانچ کینال (1225) کیوسک ) کوڑے خان ڈسٹی ، جتوئی برانچ کینال (633 کیوسک ) اور سہراب ڈسٹی نطقی ہیں۔ علی پور برانچ کینال سے لنڈ اؤسٹی سہائے والا ڈسٹی ، چندر بھان ڈسٹی،ننور ڈسٹی ،گھلواں ڈسٹی ، قاور ڈسٹی علی پور ڈسٹی ، کبیر خاص ڈسٹی، عارف ڈسٹی بھی ڈسٹی اور قطب ڈسٹی نکلتی ہیں

جتوئی برانچ کینال:

جتوئی برانچ کینال سے سوئی ڈسٹی سمیت دیگر کئی چھوٹی نہریں نکلتی ہیں ۔ مظفر گڑھ مین کینال سے جھگی والا مائنز، سوہانراڈ سٹی سلیمان ڈسٹی خیر پور مائنز ، یارے والی مائنز ، گھری سب مائنز، عمر واہ، مائنز اور سلطان پورسب مائنز نکلتی ہیں، تحصیل علی پور کے علاقے بارے والی میں مظفر گڑھ کینال سسٹم اختتام پذیر ہوتا ہے۔

جنگلات

ماضی میں سرزمین مظفر گڑھ کے طول و عرض میں قدرتی جنگل پائے جاتے تھے۔ مغربی طرف دریائے سندھ کے کنارے پر وسیع و عریض خودرو جنگلات تھے جو انسانی آبادی کی بڑھتی ضروریات کی وجہ سے ختم ہوتے جارہے ہیں۔ ضلع مظفر گڑھ میں اب بھی کافی رقبے پر جنگلات واقع ہیں۔ پرانے سرکاری ریکارڈ کے مطابق سرکاری جنگلات کا رقبہ چھ لاکھ ایکڑ تھا۔ اب ضلع بھر میں لگ بھگ ایک لاکھ ایکڑ رقبے پر جنگلات موجود ہیں۔ مظفر گڑھ میں اس وقت صوبائی محکمہ جنگلات کے پاس کل 48 جنگل ہیں جن میں آبپاش جنگلات 156403 ایکٹر رقبے پر جبکہ ہیلا جنگل 145034ایکڑ رقبے پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ 1250 میل طویل نہروں کے کناروں پر 219 میل صوبائی شاہرات پر اور 77 میل دیہی سڑکوں پر واقع جنگلات ان کی تحویل میں ہے۔ مظفر گڑھ کے بڑے جنگلات میں خان پور جنگل 131555 ایکڑ ، رکھ خان پور 15070 کیکڑ، چھینہ ملانہ 14180 کیڑ، بیٹ دیوان 13164 کیکٹر بلی والی 14629 ایکٹر بیسن والا 17072 ایکٹر ، غازی گھاٹ 12106 ایکٹر علی پور کھیڑا 12306 ایکٹ ، ڈمر والا12612ایکڑ ، بیٹ میر ہزار خان 13614 ایکڑ ۔ احمد موہانہ 2370 اور باقر شاہ 12314 ایکڑ شامل ہیں [34]۔ محکمہ جنگلات ضلع میں جنگلات کے اضافے کیلئے کوشاں ہے۔ بلین ٹری سونامی مہم کے تحت ہر سال شجر کاری کی جارہی ہے اور نئے علاقوں میں پودے لگائے جارہے ہیں ۔

پارک

سرزمین مظفر گڑھ میں چند پارکس بھی موجود ہیں۔ ان میں فیاض پارک مظفر گڑھ شہر میں واقع ہے۔ تلیری باغ قدیم ترین سیر گاہ ہے جو اس وقت زبوں حالی کا شکار ہے۔ یہ باغ نواب مظفر نے لگوایا تھا [35] ۔ اسے سفاری پارک میں تبدیل کرنے کا منصوبہ زیر غور ہے۔ کوٹ ادو میں اقبال پارک جتوئی میں کوڑے خان پارک اور علی پور میں بھی پارک موجود ہیں۔ مظفر گڑھ سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر دریائے چناب کے کنارے پر واقع چناب کنارہ پارک بہت خوبصورت اور تاریخی پارک ہے ۔ عرصہ دراز سے یہ زبوں حالی کا شکار تھا ۔ چند سال پہلے ضلعی حکومت نے اس پارک کو ٹھیکے پر دے دیا ہے ۔ اب اس کی کایا پلٹ گئی ہے۔ نعیم احمد خان نے اس جنگل کو بہت خوبصورت اور دلکش سیرگاہ میں بدل دیا ہے ۔ اب یہاں ہر وقت لوگوں کا ہجوم رہتا ہے۔

نوٹ: مضمون محمد شہزاد کی کتاب "سر زمین مظفرگڑھ” سے لیا گیاہے

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com