ضلع خوشاب کا تعارف
پاکستان کے پانچ صوبے ہیں اور صوبہ پنجاب ان میں سے ایک ہے۔ ۔ اس کے 36اضلاع اور ۹ ڈویزن ہیں۔ ان ڈویزنز میں ایک سرگودھا ڈویزن ہے اور خوشاب اس ڈویژن کا ایک ضلع ہے۔ ضلع خوشاب کا مرکزی شہر خوشاب ہے جبکہ جوہر آباد کو ضلعی صدر مقام کی حثیت حاصل ہے۔ مشہور شہروں میں خوشاب،جوہر آباد،قائدآباد،نورپور تھل اور نوشہرہ(وادی سون سکیسر کا صدر مقام) شامل ہیں۔ 2017ء میں ضلع کی آبادی کا تخمینہ 1,281,299تھا۔ ضلع خوشاب میں عمومی طور پر پنجابی اور اردو بولی جاتی ہیں۔ اس کا رقبہ 6511 مربع کلومیٹر ہے۔
خوشاب دریائے جہلم کے مغربی کنارے پر آباد صوبہ پنجاب کا ایک تاریخی قدیمی قطعہ ارض ہے۔ سرزمین خوشاب دریا، سرسبز میدان، کوہسار اورصحرا سے مزین ہے۔ صدیوں پرانے تاریخی شہر خوشاب کی تاریخ موہنجوڈرو اور ہڑپہ سے بھی پرانی ہے۔ خوشاب فارسی کے دو الفاظ ’’خوش‘‘ اور ’’ آب‘‘ کا مجمو عہ ہے جس کے معنی ’’میٹھا پانی‘‘ ہیں۔ سینہ بہ سینہ چلتی روایات کے مطابق یہاں سینکڑوں حملہ آور اور کئی بادشاہ وارد ہوئے اور جس نے بھی یہاں کا پانی پیا اس کے شیریں پن کی تعریف کی۔ یہ روایات امیر تیمور، محمود غزنوی، بابر اورشیر شاہ سوری کے ساتھ بالخصوص منسوب ہیں۔ تاہم شیر شاہ سوری کے حوالے سے منسوب روایت کافی مستند اور مضبو ط سمجھی جاتی ہے کہ جب اس مشہور مسلم فاتح کا اس علاقہ سے گزر ہوا اور پڑاؤ کے دوران جب اس نے دریا ئے جہلم کا پانی پیا تو بے اختیارکہہ اٹھا ۔۔۔’ خوش آب‘‘ ۔۔۔۔ اوریوں یہ الفا ظ زبان زدعام ہو کر اس علاقے کو ایک خوب صورت نام دے گئے۔
خوشاب کی تاریخ:
شیر شاہ سوری نے اس شہر کو سنوارنے اور اس کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ مرکزی عید گاہ، جامع مسجد مین بازار، شہر پناہ کے دروازے اور فصیل اس زمانے کی اہم تعمیرات میں سے ہیں۔ ایک روایت کے مطابق شہر خوشاب1503عیسوی میں آباد ہوا جبکہ اس کے گرد فصیل 1593میں مکمل ہوئی۔ 1809میں راجا رنجیت سنگھ نے خوشاب پر قبضہ کر لیا۔محمد شاہ کے زمانے میں خوشاب کا گورنر نواب احمد یار تھا جس کا مقبرہ خوشاب میں موجود ہے۔ دریائے جہلم کے کنارے آباد یہ شہر لا تعداد مرتبہ سیلابوں کی زد میں آکر تباہ ہوا۔ بالخصوص 1849اور1893میں دریائے جہلم میں آنے والی طغیانیوں میں سردار جعفر خان کا قلعہ، تارا چند اور نواب احمد خان کے باغات، فصیل اور دروازوں کا نام و نشان تک مٹ گیا۔ شہرپناہ کی فصیل کو سہ بارتعمیر کیا گیا۔ اول مرتبہ شیر شاہ سوری نے، دوسری مرتبہ سردار لعل خان بلوچ نے 1761میں کچی فصیل کو پختہ بنا دیا جبکہ تیسری مرتبہ 1866میں انگریز ڈپٹی کمشنر کیپٹن ڈیوس نے از سر نو کچھ تبدیلیوں کے ساتھ شہر کا نقشہ بنوا کر فصیل کو مکمل کیا۔ اس باردیوار شہر میں چار بڑے دروازے، مشرق کی جانب کابلی گیٹ، مغرب کی جانب لاہوری گیٹ،شمال کی جانب جہلمی گیٹ اور جنوب کی جانب ملتانی گیٹ تعمیر کیے گئے ۔1865میں ڈپٹی کمشنر کیپٹن ڈیوس نے تیس فٹ چوڑا اور تقریباََ ڈیڑھ کلو میٹر لمبا بازار بنوایا۔ اسی بازار خوشاب کے عین آغاز پر موجود کابلی گیٹ اپنی قدیمی شان و شوکت کا پرشکوہ منظر کچھ اس طرح سے پیش کرتا ہے کہ جیسے آپ صدیوں پرانے شہر خوشاب میں داخل ہو رہے ہوں۔ حکومت انگلشیہ نے اس شہر کا نقشہ صلیب کی طرز پر بنایا۔1866میں کابلی گیٹ مکمل ہوا جس میں ڈاکخانہ اور پولیس چوکی قائم کی گئی۔ اور یہ شہر کی آخری حد تھی، جبکہ دوسرے سرے پر لاہوری گیٹ تھا جہاں پر ایک بڑا پتن بھی تھا۔1945تک دریائے جہلم شہر کی دیواروں کے ساتھ ساتھ بہتا تھا لیکن فی زمانہ دریا شہر سے دور ہوتا چلا گیا اور اب تقریباََ ڈیڑھ میل دور مشرق کی جانب بہہ رہا ہے۔1700 ء میں خوشاب جہلم کمشنری کے تحت تھا اور اس کا صدر مقام شاہ پور تھا۔ تزک بابری میں بابر نے خوشاب کا ذکر کچھ اس طرح کیا ہے کہ: ’’جمعہ کا دن تھا اور خوشاب کے باسیوں نے میری خدمت میں ایک وفد بھیجا جس کے جواب میں میں نے شاہ حسین بن شاہ شجاع ارغوان کا انتخاب کیا کہ وہ خوشاب جا کر وہاں کے لوگوں سے بات چیت کرے۔…‘‘ ترک جہانگیری میں بھی خوشاب کا ذکر کچھ اس طرح سے ہے : ’’یہ سر سبز و شاداب سرزمین ہے جس کی آمدن 30لاکھ دام ہے۔ ‘‘ خوشاب سے ضلع خوشاب تک 1857کی جنگ آزادی سے صرف چار سال قبل1853میں تاج برطانیہ کے تحت اسے ٹاؤن کمیٹی کا درجہ ملا۔ بعد ازاں اسے میونسپل کمیٹی بنا دیا گیا ۔1867ء میں خوشاب کو تحصیل کا درجہ دیا گیا، 1947ء میں قیام پاکستان کے وقت خوشاب ضلع سرگو دھا کی تحصیل تھا،اور 1982میں خوشاب کو الگ ضلع کا درجہ دے دیا گیا جب اسے ضلع کا درجہ ملاتو یہ دو تحصیلوں خوشاب اور نورپور تھل پر مشتمل تھا۔ اب اس کی چار تحصیلین ہیں- خوشاب، نور پور تھل، قائد آباد اور نوشہرہ۔ اس کا لٹریسی ریٹ ۶۵۔۴۲ ہے ۔ اس کی انفرادیت اس بات میں ہے کہ یہاں سرسبز میدان، پہاڑ اور صحرائی علاقے ہیں۔ ضلع خوشاب کے لوگ محنتی اور زراعت پیشہ ہیں۔ یہاں کی زیادہ تر آبادی قبائل سے تعلق رکھتی ہے ۔ یہاں کے اکثر لوگ فوج میں شمولیت کو باقی پیشوں پر ترجیح دیتے ہیں
خوشاب میں آباد قومیں: خوشاب میں سید، آرائیں، اعوان، بلوچ،نیازی، راجپوت، جوئِیہ،بھٹی، گجر- قومیں آباد ہیں۔
اہم ادبی /سماجی شخصیات: اہم ادبی شخصیات میں شامل ہیں:- جناب احمد ندیم قاسمی مرحوم۔ واصف علی واصف مرحوم ، سہیل وڑائچ، عبدالقادر حسن، خوشونت سنگھ مرحوم، اسلم شہزاد مرحوم ملک خدا بخش ساجد اعوان امتیاز حسین امتیاز
اہم سیاسی شخصیات: ملک نعیم خان (مرحوم)،ملک کرم بخش اعوان مرحوم ،ملک صالح محمد گنجیال، ملک محمد علی سانول اعوان، ملک شاکر بشیر، محترمہ جویریہ ظفر آہیر،ملک آصف بھا، ملک غلام رسول سنگھا (موجودہ ایم پی اے)، ملک عمر اسلم(موجودہ ایم این اے)، ملک احسان ٹوانہ(موجودہ ایم این اے)، ملک خدا بخش ٹوانہ، محترمہ سمیرا ملک، ملک وارث کلو(موجودہ ایم پی اے)، محمد شریف بلوچ،کرم الہی بندیال، فتح خالق بندیال(موجودہ ایم پی اے)، ملک جاوید اعوان، امیر حیدر سنگھا، ڈاکٹر کیپٹن رفیق سردار شجاع خان بلوچ مرحوم
تفریحی مقامات /میلہ جات: وادی سون، اچھالی جھیل، کھبیکی جھیل، کنٹی گارڈن، میلہ منڈی خوشاب، میلہ نور پور تھل، میلہ سید المعروف،
دفاعی تنصیبات: سکیسر بیس، پاکستان اٹامک انرجی کمشن پلانٹ گروٹ
مزارات: خوشاب بزرگوں کی سر زمین ہے ، سب سے زیادہ مشہور مزارات میں دربار بادشاہاں اور دربار سیدالمعروف شامل ہیں،
انتظامی عہدہ داران:
ہمہ جہت جغرافیائی خدوخال: تحصیل خوشاب اور قائد آباد میدانی ، تحصیل نوشہرہ پہاڑی اور تحصیل نور پور تھل صحرائی علاقہ ہے۔
سوغات: خوشاب کی سب سے اہم سوغات ڈھوڈا ہے۔ یہ ایک مٹھائی ہے جو یہاں نسل در نسل تیار کی جاتی ہے اور اپنے ذائقہ میں بے مثال ہے۔