جغرافیہ ضلع خوشاب
حدوداربعه
ضلع خوشاب اپنے محل وقوع کے لحاظ سے پنجاب کے مرکز میں واقع ہے اور اکھا کی مثال ایسے ہی ہے جیسے انگوٹھی میں نگینے کی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اس میں ہر قسم کی آب و ہوا کے علاقے پائے جاتے ہیں کیونکہ یہ واحد ضلع ہے جس میں ہر قسم کے موسم پائے جاتے ہیں۔ بلند و بالا پہاڑ ہیں ، معدنیات کی کانیں ہیں ، چشمے ہیں، دریا ہیں، نہریں ہیں اور تھل کا بارانی علاقہ ہے۔ دریائے سندھ سے دو نہریں نکالی گئی ہیں، ایک مہاجر برانچ ہے جو زمینوں کو سیراب کرتی ہے، دوسری چشمہ لنک ہے جس کے ذریعے دریا کا پانی دریائے جہلم میں ڈالا جاتا ہے جس سے علاقے میں سیم ہوگئی ہے۔
حدوداربعه
اس ضلع کے شمال میں ضلع جہلم اور ضلع چکوال ہے، جنوب کی طرف ضلع جھنگ اور مشرق کی طرف ضلع سرگودھا ہے۔ مغرب کی طرف ضلع میانوالی ہے۔ دریائے جہلم اس کو سرگودھا
سے قدرتی طور پر علیحدہ کرتا ہے۔
محل وقوع
ضلع خوشاب 31 . 35 عرض بلد اور 72.73 طول بلد پر واقع ہے۔
ضلع کا نام اگر چہ خوشاب ہے لیکن صدر مقام جو ہر آباد ہے۔ اس ضلع کی چار تحصیلیں
ہیں۔ نوشہرہ ، خوشاب، قائد آباد اور نور پور ۔
جغرافیائی لحاظ سے اسے پانچ حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
(1) پہاڑی علاقہ (2) دامن پہاڑ (3) تھل کا ریگستانی علاقہ (4) نہری علاقہ(5) وادی جہلم ( کدھی)
پہاڑی علاقہ (وادی سون ): یہاں کو ہستان نمک کی سب سے اونچی چوٹی سکیسر ہے جس کی اونچائی تقریباً 5000 فٹ بلند ہے باقی وادی بھی کافی بلند ہے میدانی علاقے کی نسبت یہاں کا درجہ حرارت دس درجے کم رہتا ہے آب و ہوا خوشگوار ہے۔ اسی علاقے میں تین خوبصورت جھیلیں ہیں ۔ (1) جھیل کھبیکی (2) جھیل اچھالی اور (3) جھیل جابر ۔ اچھالی کافی بڑی جھیل ہے اور جاہر چھوٹی جھیل ہے۔ سردیوں میں یہاں سائبیریا سے کافی پرندے آتے ہیں جو ان کی خوبصورتی کونمایاں کرتی ہیں۔
(2) دامن پہاڑ جسے مقامی طور پر دندہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس علاقے میں موسم برسات میں کافی نالے بنے لگتے ہیں اور بعض اوقات سیلاب کی کیفیت پیدا کر دیتے ہیں۔ خوشاب سے قائد آباد کا علاقہ اس کی زد میں آجاتا ہے۔ یہ علاقہ بارانی ہے۔
(3) تھل پی ریگستانی علاقہ ہے کافی رقبہ ابھی ریگستان ہے لیکن اب ایک نئی سکیم کے تحت گریٹر تھل کینال کے ذریعے اس کے کچھ حصے سیراب کرنے کا پروگرام زور شور سے جاری ہے۔
نہری علاقہ
علاقہ تھل کو آباد کرنے کے لئے انگریزی دور میں ملک خضر حیات ٹوانہ کی وزارت کے زمانے میں یہ پراجیکٹ مکمل ہوا۔ کالا باغ ضلع میانوالی میں دریائے سندھ سے نہر نکالی گئی ہے جس سے ضلع میانوالی ضلع بھکر اور خوشاب کے اضلاع کے کچھ حصے سیراب ہوتے ہیں جو برانچ ضلع خوشاب کو سیراب کرتی ہے۔ پہلے اس کا نام خضر برانچ رکھ دیا گیا۔ اس نہر کی بدولت پیداوار میں کافی اضافہ ہو گیا۔ جہاں پہلے لوگ پانی پینے کو ترستے تھے اور مجبور اٹو بھے (چھپر ) کا پانی پینے پر مجبور تھے ، اب وہاں سیم ہو گئی ہے۔ اس سے بچاؤ کے لئے اب تھل میں سیم کی نالیاں نکالی گئی ہیں ایک دوسری نہر جسے چشمہ لنک کینال کہا جاتا ہے۔ اسے دریائے جہلم کے پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لئے بنایا گیا ہے اس کی وجہ سے آدھی کوٹ اور رنگ پور کے علاقوں میں کافی سیم ہوگئی ہے اور رقبے متاثر ہورہے ہیں ۔
(5) وادی جہلم یا کدھی یہ علاقہ دریائے جہلم کے کنارے کنارے واقع ہے۔ کبھی اسی علاقے میں کافی سیلاب آتے تھے اب منگلا ڈیم کی وجہ سے کافی بچت ہو گئی ہے۔ اب اس علاقے میں کافی ٹیوب ویل لگ گئے ہیں اور پہلے جس میں صرف جھاڑیاں اور گھاس ہوتی تھی اب کافی فصلیں ہونے لگی ہیں۔ آبادی کی بدولت شیروں کی اس علاقے میں بادشاہی بھی ختم ہو گئی ہے۔
آب و ہوا
آب و ہوا مختلف علاقوں کی مختلف ہے۔ تھل کے علاقے کی آب و ہوا گرم خشک ہے۔ دن سخت گرم اور رات نسبتا ٹھنڈی ہوتی ہے۔ پہلے تو بہت سخت آندھیاں آتی تھیں جن میں دن کو بھی رات ماں ہو جاتا تھا لیکن اب نہروں کی وجہ سے درختوں نے وہ کیفیت ختم کر دی ہے۔ میدانی علاقے میں سردیوں میں سخت سردی ہوتی ہے اور گرمیوں میں سخت گرمی پڑتی ہے۔ پہاڑی علاقے میں گرمیاں اچھی ہوتی ہیں لیکن سردیوں میں سخت سردی ہوتی ہے کبھی کبھی سکیسر کے آس پاس برف باری بھی ہو جاتی ہے۔ میدانی اور پہاڑی علاقے کے درجہ حرارت میں دس درجے کا فرق ہوتا ہے۔ سردیوں میں جب میدانی علاقے میں دھند ہوتی ہے پہاڑی علاقے میں بالکل نہیں ہوتی ۔ وہاں موسم صاف ہوتا ہے۔
موسم اس ضلع میں عام طور پر پانچ موسم ہوتے ہیں۔
(1) موسم گرما (2) موسم برسات (3) موسم خزاں (4) موسم سرما (5) اور موسم بہار
سالانہ بارش 16.67 انچ تک ہوتی ہے ۔ ضلع خوشاب کی یہ خوش قسمتی ہے کہ یہ علاقہ زلزلے کے مراکز سے دور ہے۔
آبادی
جہاں تک آبادی کا تعلق ہے یہ بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے ۔ 1918ء میں پورے ضلع شاہپور (سرگودھا) کی آبادی 727208 افراد پر مشتمل تھی جس میں تحصیل خوشاب (یعنی اب پورا ضلع خوشاب) کی آبادی 147883 تھی اور خوشاب شہر کی آبادی 9832 تھی۔ پورے ضلع شاہپور میں سوائے بھیرو کے کسی شہر کی آبادی دس ہزار سے زائد نہ تھی۔
اس وقت سرگودھا شہر کی آبادی 100 سال کے اندر پورے ضلع کی آبادی سے زیادہ ہے اور اسی طرح اس وقت ضلع خوشاب کی آبادی 1998ء کی مردم شماری کے مطابق 888194 پر مشتمل ہے۔ خوشاب شہر کی آبادی 87869 نفوس پر مشتمل ہے۔ تحصیل نور پور کی آبادی 174683 ہے اور شہر کی آبادی 16091 ہے۔ اس علاقے میں آبادی کا زبردست اضافہ نہر نفوس پرکے آنے کی وجہ سے ہوا ہے۔ کارخانوں کے لحاظ سے سرگودھا کو بھی مات کر گیا ہے۔
تعلیم
پاکستان بننے کے بعد جہاں ملک نے ہر شعبے میں ترقی کی ہے وہاں تعلیمی لحاظ سے بھی یہ ملک کسی علاقے سے کسی طرح پیچھے نہیں۔ جگہ جگہ تعلیمی ادارے کھل گئے ہیں، بچوں کو مفت کتابیں اور مفت تعلیم کی سہولت میٹرک تک ہو گئی ہے۔ اب سرکاری اداروں کی نسبت پرائیویٹ اداروں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے۔ 1947 ء میں پڑھے لکھے مردوں کی تعداد 29 فیصد اور عورتوں کی تعداد 2 فیصد تھی۔ اب یہ بڑھ کر 65 فیصد اور عور میں 26 فیصد ہیں۔
صحت
عوام کی صحت پر کافی توجہ دی جارہی ہے۔ اسی سلسلہ میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹر ہسپتال جو ہر آباد کافی عرصے سے کام کر رہا ہے جگہ جگہ رورل ڈسپنسریاں بھی قائم ہیں۔ اب ڈاکٹروں کو ” دیہات میں کام کرنے کو پرکشش بنانے کے لئے ان کی تنخواہ 30000 ماہوار کر دی گئی ہے۔ لیڈی ہیلتھ ورکر ز دیہات میں گھر گھر جا کر عورتوں کو صحت کے اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرنے
کی ترغیب دیتی ہیں۔
دریائے جہلم
یہ دریا کشمیر کے پہاڑوں سے نکلتا ہے پاکستان آکر اسی میں دریائے نیلم اور کنہار منظفر آباد کے مقام پر شامل ہو جاتے ہیں۔ منگلا کے مقام پر اس پر بند باندھا گیا ہے جس کی بدولت اب اس کی طغیانی پر کسی حد تک قابو پالیا گیا ہے۔ یہ بند آزاد کشمیر کے ضلع میر پور میں ہے۔ اب اس کو اونچا کر کے مزید بجلی پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس دریا کو آرین دستا کہتے تھے ۔ یہی اس کا نام رگ وید میں لکھا ہے۔ ہندوؤں کی سب سے مقدس کتاب اسی دریا کے کنارے لکھی گئی ہے۔ اسے پنجابی میں کبھی وہت کہا جاتا تھا۔ یونانی اسے HYDASPES, VEDASTA کہتے تھے اس دریا کے پانی سے ضلع خوشاب کے لئے کوئی شہر نہیں نکالی گئی ۔ اب تو بند کی وجہ سے پانی کم ہو گیا ہے جس کی کمی چشمہ لنک کینال کے ذریعے پوری کی جاتی ہے۔ اب صرف اس کے کنارے بور کر کے خوشاب اور جو ہر آباد کو پینے کا پانی مہیا کیا جارہا ہے۔ یہ بھی یادر ہے کہ جو ہر آباد اور خوشاب میں دریائے سندھ کے پانی کو فلٹر کر کے مہیا کیا جا رہا ہے۔ اس ضلع کی اکثر آبادی کا جہاں سے نہر گزرتی ہے گزر اسی نہر پر ہے۔ اس سے بیشتر پانی کا حصول بے حد دشوار تھا۔ شیر شاہ سوری نے اسی سبب کی بدولت باولیاں یا وائیں بنوائیں۔ یہ بولا ، ہڈائی اور گنجیال میں ہیں۔ یہ ہمارے ضلع میں بڑے تاریخی کنو میں نہیں لیکن اب یہ زیر استعمال نہیں کیونکہ پانی عام ہو گیا ہے۔ وادی جہلم تقریباً دو میل چوڑی ہے اس میں 59 گاؤں ہیں۔ یہاں کے لوگ 90 فیصد کا شکار ہیں۔ یہاں تقریباً 780 کنویں اور 300 کے قریب ٹیوب ویل ہیں۔
دریائی پل
اس وقت ضلع خوشاب کو ضلع سرگودھا سے ملانے کے دو پل چالو ہیں جن میں سے ایک انگریزوں نے 125 اپریل 1931 کو بنا کر چالو کیا اور اس کا نام اس وقت کے انگریز گورنر ڈی ماونٹ مورسی کے نام پر رکھا گیا ہے اور اسی کے زمانے شاہپور کا لج جو بعد میں سرگودھا منتقل ہو گیا،
کا نام ڈی مونٹ مورسی کالج تھا اب یہی کالج یونیورسٹی کا درجہ اختیار کر گیا ہے۔ جب یہ پرانا پل اپنی معیاد پوری کر چکا تو آئے دن ٹریفک بند رہتی۔ ایک جانے کا راستہ تھا اور ایک آنے کا درمیان میں ریلوے لائن تھی کبھی ایک طرف کا راستہ خراب ہو جاتا کبھی دوسری طرف کا ، اس تکلیف کے پیش نظر دوسر اپل بنایا گیا۔ جب یہ تیار ہو گیا تو اس میں کئی ایک فنی خرابیاں سامنے آئیں جن کو کئی سالوں کی محنت کے بعد کسی حد تک دور کیا گیا۔ ریلوے کے لئے ابھی تک پرانا پل ہی کارآمد ہے اور دوسرے ٹریفک کو نئے اپیل کی طرف منتقل کر دیا گیا ہے۔ اس پل کا افتتاح 7 جون 2000ء کو ہوا۔
تپن
دریا کو کشتیوں کے ذریعے بھی عبور کیا جاتا ہے کیونکہ ہر جگہ پل تو نہیں بنائے جاسکتے ہیں ۔ جہاں کشتیوں کے ذریعے دریا عبور کیا جاتا ہے اسے یقین کہتے ہیں ۔ ڈھاک ، خوشاب، مشبہ قائم دین لغاری یقین تھے اب سردیوں میں دریا پایاب ہو جاتا ہے کشتیوں کی ضرورت صرف گرمیوں میں ہوتی ہے۔ گورنمنٹ یہ ٹھیکے پر دیتی ہے۔
شاہراہیں
اب پکی سڑکوں کا ضلع میں جال بچھا دیا گیا ہے جس سے آمد و رفت میں آسانی پیدا ہو گئی ہے۔ اب دنوں کا سفر گھنٹوں میں طے کر لیا جاتا ہے اور نی ٹھنڈی گاڑیوں میں سفر کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ ہر گازی کے اندر ٹی وی، وی سی آرشیپ ، ٹھنڈا پانی بیس والوں کی طرف سے سواریوں کے آرام کی غرض سے مہیا کیا جاتا ہے۔
ریلوے
سب سے پہلے خوشاب ملکوال کند یاں تک ریلوے لائن بچھائی گئی۔ اس پر 1900ء میں گاڑیاں چلنی شروع ہو گئیں۔ اس کے بعد ڈی مونٹ مورستی پل بن جانے کی وجہ سے 1931ء میں سرگودھا خوشاب ریل میں لوگ سفر کرتے تھے۔ ہمارے علاقے میں چونکہ سڑک ریلوے لائن کے برابر چلتی ہے اس لئے مسافر بس کے ذریعے جلدی پہنچنے کے لئے سڑک کا سفر اختیار کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ یہاں صرف ایک گاڑی دن کو اور ایک گاڑی رات کو جاتی ہے جس کی وجہ سے عوام مجبور انہیں اگر گاڑیوں کی تعداد بڑھ دی جائے تو عوام بخوشی سفر کریں لیکن وقت بھی عوام کی ضرورت کو مد نظر رکھ کر مقرر کیا جائے نہ کہ یہ کہ گرمیوں میں سات بجے کرنے کی بجائے ساڑھے نو بجے کر دیا گیا ہے۔ ملازمین کیسے وقت پر دفتر پہنچیں گے۔
ملکوال خوشاب روٹ پر گاڑیاں چلانا اب بند کر دیا گیا ہے۔ بہانہ یہ بنایا گیا ہے کہ ریلوے سواریاں نہ ہونے کی وجہ سے خسارے میں جا رہا ہے۔ اب سنا ہے کہ گورنمنٹ پھر چلانے پر غور کر رہی ہے۔
صنعتیں
جیوٹ لمز (1) جیب جیوٹ ملز (2) خلیل جیوٹ ملز (3) علی پور جیوٹ ملز ٹیکسٹائل ملز : (1) صلی ٹکسٹائل ملز (2) نصرت ٹیکسٹائل ملز (3) پاک کو یت ٹیکسٹائل لمز : کوہ نور شوگر ملز ۔ اولمپیا کیمیکل ( آئل ملز ) ۔ کسان آئل ملز – خوشاب آئل من
کھوکھر آئل ملز
فلور ملز : شاداب فلور ملز
رائس ملز :(1) رفیق رائس لمز (12) ایم ۔ ایم رائس ملز (3) ممتاز رائس ملز
(4) اظہر محمدیرأس من (5) رفیع رائس لمز (6) بلال رائس ملز
بلڈنگ میٹریل : ( 1 ) اظہار ہاؤسنگ لمیٹڈ (2) پنجاب بلڈنگ پراڈکس لمیٹڈ (3) حرمین لمیٹڈ
جوس فیکٹری: شاہین فروٹ جوس
شوز فیکٹری: فرحت شوز فیکٹری
مز احمدپیپر ملز
سیمنٹ فیکٹری (1) پائیر سیمنٹ فیکٹری (2) زمان سیمنٹ فیکٹری ۔ ایک اور کمپنی نیا
کارخانہ لگانے کی تیاری کر رہی ہے۔
پاکستان ٹیلی ویژن ( بوسٹر )
پاکستان ٹیلی ویژن نے اپنی نشریات کو واضح اور صاف دکھانے کے لئے 8 جولائی 1973ء کو سکیسر کی چوٹی پر بوسٹر چالو کیا جس کی وجہ سے 4300 مربع کلومیٹر کے اندر اسلام آباد کی نشریات واضح نظر آنے لگی ہیں لیکن یہاں ضلع خوشاب میں صرف دو شیشن ہی نظر آتے ہیں۔ ابھی تک معلوم نہ ہو سکا کہ دوسرے سٹیشن نظر نہ آنے کی وجہ کیا ہے۔ امید ہے کہ اس طرف بھی توجہ دی جائے گی۔ اب بہت ترقی کا زمانہ ہے اپنی نشریات کو بہتر بنانا چاہئے جبکہ امریکہ تک نشریات پہنچائی جارہی ہیں مضلع خوشاب میں بھی نظر آنی چاہئیں۔
معدنیات
ضلع خوشاب کے پہاڑی علاقے میں کافی معدنیات پائی جاتی ہیں جن میں سے نمک
اور کونکہ نمایاں ہیں۔ ان کی اب بہت سی کا نہیں ہیں۔ نمک کی مشہور کان رکھلہ میں ہے لیکن اب اس کے علاوہ کئی جگہ سے نمک نکالا جا رہا ہے۔ جہاں تک کوئلہ کی کانوں کا تعلق ہے ان کی مشہور کا نہیں درج ذیل ہیں۔
(1) کٹھہ کالریز (2) حیات ایمر سائنز (3) انڈس مائننگ کمپنی (4) کھٹوائی کول کمپنی (5) شریف کالریز (6) خیبر کول کمپنی (7) جہلم ویلی کول (8) پیرزادہ مائننگ کارپوریشن (9) کول مین مائنز (10) ایم فضل حق کول کمپنی (11) ملک کول کمپنی (12) خوشیہ کالریز(13) امین انجینئر (14) کٹھے کالریز (15) اراڈہ مائنز (16) ضیاء اللہ کول مائن ۔ ان کے علاوہ اور بھی ہیں۔
منڈیاں
اس وقت خوشاب سے باہر چنے بھیجے جاتے ہیں۔ ان منڈیوں میں مٹھ ٹوانہ خوشاب، نور پور چنے کی تجارت کے مراکز ہیں۔ کٹھہ ٹماٹر پیدا کرنے میں پیش پیش ہے۔ اس کے علاوہ پوری سون گرمیوں میں گو بھی پیدا کر کے کافی دولت کما رہی ہے۔ اب آلو کو بھی متعارف کرایا گیا ہے اور تجربہ کافی کامیاب رہا ہے۔ سوڈھی جے والی کے آس پاس کافی آلو پیدا کیا جا رہا ہے۔ نیز یہاں پر ایک کافی بڑا سر کاری باغ ہے جہاں سے لوکاٹ باہر بھیجے جاتے ہیں۔
کنہئی باغ اپنے موسم گرما کے مالٹوں کے لئے مشہور ہے۔ اسے لیٹ ولیشیا کا نام دیا گیا ہے۔ یہاں پر پائن ایپل اور واشنگٹن نیول ریڈ بلڈ بھی پیدا کئے جارہے ہیں۔ یہ باغ کھیکی سے آٹھ میل شمال کی طرف ہے۔ یہ دونوں سرکاری باغ ہیں ۔ اسی طرح سلطانہ گارڈن میں امرود، مالٹے، مجھے بھی لگائے گئے ہیں۔ اب شہری علاقے میں کنو اور امرود عام طور بڑی کامیابی سے پیداوار دے رہے ہیں اور باہر بھیجے جاتے ہیں۔ ان کے علاوہ پہاڑی علاقے میں بادام، خوبانی، آلوچہ، انار، سیب اور آلو بخارا بھی کہیں کہیں پیداوار دینے لگے ہیں۔ زعفران کا بھی کھوڑہ میں تجربہ کیا گیا ہے لیکن شاید ختم کر دیا گیا ہے۔ تھل کے علاقے میں اسبغول بھی پیدا ہوتا ہے لیکن یہ جنگلی تھا اب تھل آباد ہو جانے کی وجہ ہے پیداوار کم ہوگئی ہے۔ اس کے علاوہ پہاڑی علاقے میں پھلاہ اور جنگلی زیتون اور لہوڑا کے درخت اگئے ہیں پھل کے علاقے میں جنڈ اور کھنگل کے درخت ہوتے ہیں۔
نہری علاقے میں اب شیشم، کیکر کے درخت عام ہو گئے ہیں جن کی وجہ سے فرنیچر کے
لئے اب لکڑی باہر سے نہیں منگوانی پڑتی ۔ پہاڑی علاقے میں کئی قسم کی جڑی بوٹیاں بھی پیدا ہوتی ہیں جن پر حقیق تحقیق کرنے کے لئے آتے رہتے ہیں۔ ونا ایک عام ہوئی ہے جس سے رس بنائی جاتی ہے۔ بچوں کو بطور دوائی دی جاتی ہے۔
ربیع اور خریف کی فصلیں ہیں
ربیع کی فصلیں: چنے ۔ گندم – جو – تارا میر اوغیرہ
خریف کی فصلیں: چاول ۔ جوار باجرہ قتل وغیرہ
جانور
پالتو جانوروں کا جہاں تک تعلق ہے وہ اب بھی وہی ہیں جو صدیوں پہلے سے چلے آ رہے ہیں البتہ جنگلی جانور کافی کم ہو گئے ہیں۔ ہرن تھل میں آج سے ایک صدی قبل کافی موجود تھے اب ایک بھی نہیں۔ محکمہ جنگلی حیات اور محکمہ سیاحت کو چاہئے کہ ملکر یہاں بھی ایک لال سوہا ترا کی طرز کا ایک چڑیا گھر بنا ئیں جہاں وہ سب جانور رکھے جائیں جو کبھی یہاں ہوتے تھے۔ ای طرح پہاڑی علاقے میں چیتے کا وجود بھی ختم ہو گیا ہے۔ کبھی پہلے میں شیر بھی ہوتے تھے۔ 1803ء میں رنجیت سنگھ نے دریائے جہلم کے بیلے میں شیر کا شکار کیا تھا۔ جنگل ختم ہونے سے جنگلی جانور بھی ختم ہو گئے۔ گورنمٹ برطانیہ نے ان کے مارنے کے لئے انعامات مقرر کئے ۔ اسی طرح اس ضلع سے 1895ء میں 3 شیر 152 بھیٹرے مارے گئے ۔ صرف یہی نہیں لومڑیاں ، باری بلیے بھی مارے گئے ۔ زہریلے سانپ مارنے پر بھی انعامات ملے ۔ 436 زہریلے سانپ مارے گئے۔ اس سب کے باوجود 43 آدمی سانپ کے ڈسنے سے مارے گئے ۔
ختم ہونے والے جانور
کبھی سارا تھل ہرنوں سے آباد تھا۔ ہرنوں کے ڈاروں کے ڈار پھرتے تھے ۔ جدید اسلحہ سے شکاریوں نے جیپوں کے ذریعے اتنا شکار کیا کہ ان کی تھل سے نسل ہی ختم ہو گئی۔ نوابزادہ عزیز اللہ خان ٹوانہ نے ان کا بڑا شکار کیا۔ ان کے سر جہاں آبادان کی بارہ دری میں لگائے گئے تھے۔ شاید ابھی ان کے کچھ نمونے وہاں موجود ہوں۔ وادی سون میں لاٹ والا دنبہ بہت ہوتا تھا، ان کے چھوٹے بچے قربانی کے قریب بیچنے کے لئے شہروں میں لے جاتے تھے ۔ لوگ انہیں خرید کر سال بھر قربانی کے لئے پالتے تھے۔ بعض کی لاٹ اتنی بھاری ہوتی تھی کہ جانور کے لئے حرکت کرنی شکل ہو جاتی تھی اس کو تکلیف سے بچانے کے لئے مالک اس لاٹ کے نیچے ٹرالی لگا دیتا جس سے وہ آسانی سے چل پھر سکتا۔ قربانی کے لئے دنبہ کا پالنا زیادہ ثواب سمجھا جاتا تھا۔ اسے دھلی تک بھیجا جاتا تھا۔ اب بڑے بڑے سینگوں والے چھترے بھی ختم ہو گئے ہیں ان کے سینگ بڑے ہوتے تھے مالک ان کی لڑائی کرواتے تھے ۔
کو نج: کونجیں وسط ایشیا سے قطاروں میں وی کی شکل بنا کر اڑتی تھیں ۔ راقم نے انہیں 4 ستمبر 2001 ء کو آخری مرتبہ جو ہر آباد میں اڑتے ہوئے دیکھا تھا۔ یہ اڑتے ہوئے مخصوص آواز بھی نکالتی جاتی تھیں پھر باری باری آگے رہبری کرتیں۔ سنا ہے کہ نر کے مرنے سے مادہ کسی اور نر کے ساتھ زندگی گزارنا پسند نہیں کرتی باقی عمرا کیلی رہتی ہے۔
گدھ: یہ ایک ایسا جانور تھا کہ کسی مرے ہوئے جانور کا چمڑا اتارنے سے پہلے یہ آ موجود ہوتے اور دیکھتے دیکھتے تمام جانور کو چٹ کر جاتے ۔ اب جانور مر کر پھول کر بد بو پھلاتے رہتے ہیں، ان کو کھانے کے لئے کبھی گدھ نظر نہیں آتا ۔ بھارت میں بھی ان کی کمی ہو گئی ہے اس لئے وہاں کی گورنمٹ نے دو تجربہ گاہیں قائم کی ہیں تا کہ انکی نسل کو بڑھایا جا سکے۔ کہتے ہیں کہ جانور مختلف دوائیں استعمال کرنے سے زہر یلے ہو جاتے ہیں اور جب یہ گوشت کھاتی ہیں تو ان کے گردے ختم ہو جاتے ہیں جس سے تیزی سے انکی تعداد ختم ہورہی ہے۔ بارہ سال قبل 2001. میں راقم نے ضلع سرگودھا میں موضع دودہ میں انہیں دیکھا تھا۔ ہماری حکومت کو بھی اس مفیڈ پرندے کو بچانے کے لئے کام کرنا چاہئے ۔ اسی طرح سفید چیل اور پہاڑی کو ے بھی نہیں دیکھنے میں آتے ہیں۔
پہلے تھل کے علاقے میں میری جنڈ اور کھنگال کے علاوہ کوئی درخت نہ ہوتا تھا لیکن نہر آجانے سے حالات کافی حد تک بدل گئے ہیں۔ اب ضلع خوشاب میں بھی ہر قسم کے پھل دار درخت لگائے گئے ہیں۔ دن بدن باغات میں اضافہ ہو رہا ہے اور پھل باہر کے اضلاع کو بھیجا جاتا ہے۔ میدانی علاقے میں کنو، امرود، مالٹا، مٹھا، لیموں، آم اور جامن بڑے اچھے پھل دے رہے ہیں لیکن شیشم کا سایہ دار درخت ختم ہو رہا ہے۔ پہاڑی علاقے میں کنپٹی اور سوڈھی جے والی کے سرکاری باغ مشہور ہیں۔ ان میں لوکاٹ کافی مقدار میں پیدا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ شہوت، خوبانی، آلو بخارا، بادام، آڑو، الوچہ، انار، سیب بھی پیدا ہو سکتے ہیں لیکن ابھی تک اس کو بڑے بجانے پر کاشت نہیں کیا گیا۔ کمیٹی کے باغ میں لیٹ ویلیشا مالٹے کی ایک قسم گرمیوں میں لگتا ہے جو کہ اپنی نوعیت کی حیرت انگیز پیداوار ہے لیکن یہ بھی ابھی کافی مقدار میں نہیں ۔ اس کو مزیدترقی دینے کی ضرورت ہے۔ وادی سون میں اب ٹیوب ویل بھی کافی تعداد میں لگ گئے ہیں جس سے کئی فصلیں مثلاً آلو اور پیاز کافی مقدار میں پیدا ہوتا ہے اور باہر بھیجا جاتا ہے۔ گو بھی کی گرمیوں کی فصل سےکافی آمدنی ہورہی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ جغرافیائی تبدیلیوں کی وجہ سے موسم بھی کافی بدل گیا ہے۔ کبھی تھل میں سخت آندھیاں آتی تھیں جو سیاہ رنگ کی ہوتی تھیں ، اس سے اندھیرا چھا جاتا تھا، لوگ کھانا نہ پکا سکتے تھے ، بھنے ہوئے اپنے جو اس مقصد کیلئے رکھے ہوتے تھے استعمال کرتے ۔ ریلوے لائن اور سڑکیں ریت سے اٹ جاتی تھیں جس سے کئی دن آمد ورفت رک جاتی اور راستہ صاف ہونے تک آمد و رفت بند رہتی۔ اب نہ وہ آندھیاں رہی ہیں اور نہ آمد و رفت کا سلسلہ رکتا ہے۔ اب یہ ضلع بھی راہ ترقی پر گامزن ہے۔ تھل میں ابھی تیک چنے کی فصل کو اولیت حاصل ہے لیکن اب گندم اور دوسری فصلیں بھی ہوئی جاتی ہیں جس میں سے جو ، باجرہ، جوار، مادر، چاول بتل کافی مشہور ہیں۔ اونٹ ہتھل میں بار برداری کا واحد ذریعہ تھا لیکن اب سڑکیں عام ہو جانے سے ان کی اہمیت ویگنوں نے بہت کم کر دی ہے۔ ان کی کئی قسمیں ہوتی تھیں ۔ رجانی، سندھی ، دیسی، سٹریکچے اور مریلے، اس علاقے میں بہت مشہور تھے۔ ان کی مزید دو تمہیں تھیں ایک بوجھ اٹھانے کے کام آتے تھے اور ایک سواری کیلئے کام آتے تھے، یہ دوڑتے ہیں اونٹ کے علاوہ گھوڑا اور گدھا بھی سواری کے کام آتے ہیں۔ پھل میں بیل بھی بوجھ اٹھانے کے کام آتے ہیں۔
دودھ دینے والے جانوروں میں پہلے بھیڑ بکری ہوتی تھی ، اب گائے اور بھینس بھی عام ہوگئی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اب دودھ بیچنے والے موٹر سائیکلوں پر دودھ کے ڈرم لا دے پھرتے نظر آتے ہیں۔
ہران کبھی تھل اور پہاڑوں کی زینت ہوتے تھے لیکن اب تھل میں تو بالکل ہی ختم ہو گئے ہیں۔ سون میں کچھ وائلڈ لائف والوں کی حفاظت میں اپنی نسل بڑھارہے ہیں ۔
پرندے
پہلے صرف چڑیا اور کوے ہوتے تھے کیونکہ کھانے کو کچھ نہ ملتا تھا، اب زراعت کی ترقی کے ساتھ ساتھ ہر قسم کے پرندے آگئے ہیں جن میں طوطا، کوئل ، تیتر ، چیل، فاختہ، لالی وغیرہ عام ہیں اور جھیلوں میں سردیوں میں بہت سے سرد ممالک کے پرندے آ جاتے ہیں جن میں مرغابی عام
ہے۔ گدھ ختم ہو گئی ہے۔
سانپ
سانپوں کی کئی قسمیں ہیں جن میں بعض زہر یلے اور بعض کم زہریلے ہوتے ہیں۔ زہریلے سانپوں میں پھیر ہنگچور کر ونڈیا مشہور ہیں۔ ایک زرد رنگ کا میٹر بھر لمبا سانپ ہوتا ہے، وہ نقصان دہ نہیں ہوتا بلکہ چوہے کھاتا ہے اور زہر یلا نہیں ہوتا۔ ان کے علاوہ بند وا بھی زہریلا مشہور ہے لیکن یہ زہریلا نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے زمین پر توازن قائم رکھنے کے لئے جہاں دوسرے جانور پیدا کئے ہیں وہیں ان کی تعداد کو کم کرنے کیلئے ان کو کھانے کیلئے مختلف جانور پیدا کئے ہیں ۔ پرندوں کے لئے عقاب، چرگ ، بحری شکر تھے لیکن یہ جانور بہت مہنگے داموں بکنے کے سب ختم ہو گئے ۔ اسی طرح کونجوں نے مارے جانے کے خوف سے راستے تبدیل کرلئے ہیں۔
مشہور قصبے
خوشاب
خوشاب ایک قدیم تاریخی شہر ہے جسے ایرانیوں نے بسایا۔ شیر شاہ سوری کے بہانے والی روایت تاریخ سے ناواقفیت کی وجہ سے ہے کیونکہ اس سے پہلے تیمور اور بابر اس کا ذکر کر چکے ہیں۔ اسی نام کا ایک شہر بلوچستان میں تربت کے پاس بھی ہے۔ تاریخوں میں بھیرہ کے ساتھ خوشاب کا نام بھی آتا ہے۔ بھیرہ کا شہر سکند بر اعظم بجھے زمانے میں بھی تھا۔ پھر خوشاب اور بھیرہ کے مشترکہ گورنر بھی رہے۔ دو گورنروں کے مزار خوشاب میں موجود ہیں۔ ان میں سے ایک کا نام شاہ بیگ ارغون اور دوسرے کا نام نواب احمد یار خان بر لاس ہے۔ ان دونوں کے مقبرے تھے جن میں اب احمد یار خان کا باقی ہے۔ احمد یار خان فارسی زبان کے بڑے اچھے شاعر بھی تھے۔ انہوں نے سب سے پہلے فارسی زبان میں ہیر رانجھا کا قصہ اعظم کیا۔ آپ یکتا خلص کرتے تھے۔ خوشاب میں بہت سی تاریخی یادگاریں ہیں جن میں شیر شاہ کی جامع مسجد عید گاہ، تالاب جہاں گلستان بابر بنایا گیا۔ شرف الدین کی مسجد، اس میں بلوچوں کے قلعے بھی تھے اور فصیل بھی تھی لیکن اب سب دریا برد ہو چکی ہیں۔
خوشاب ریلوے جنکشن تھا۔ یہاں سے گاڑیاں ملکوال اور کندیاں جاتی تھیں ، اب ملکوال والی کا ر : ۔ بند کر دی گئی ہیں۔ یہاں حضرت کی معروف کا روضہ اور بادشاہوں کا دربار ہے۔ کسی زمانے میں چار دروازے تھے جن کے نام جہلمی ۔ لاھوری ملتانی اور کا بلی تھے۔ اب صرف کالی دروازہ ہی موجود ہے یہ دروازہ 1865ء میں کیپٹن ڈیوس ڈپٹی کمشنر شاہپور نے بنوایا 1809ء میں اس پر رنجیت سنگھ نے تباہ کر کے قبضہ کر لیا۔ اس وقت یہاں سردار جعفر خان کی حکومت تھی 1849ء میں یہ علاقہ انگریزوں کے قبضے میں چلا گیا۔ آخر 1947 ء میں ملک کے ساتھ یہ بھی آزاد ہو گیا۔ 1983ء میں اسے نے ضلع کا نام دیا گیا۔
اسے ایک ہندو حلوائی ہنس راج نے شروع کیا تھا۔ اب اس کے مسلمان شاگرد کامیابی سے چلا رہے ہیں ۔ امین ڈھوڈھا سنو چڑاں دی بیٹی کا سب سے مشہور ڈھوڈھا تھا اب اس نام سے ملتی جلتی بے شمار دو کا نہیں بن گئیں ہیں۔
یہاں دیسی کپڑے کا بڑا کارو با رتھا۔ 600 کھنڈیاں لگی ہوئی تھیں۔ یہاں کی لنگی اور بلبل چشم کپڑا بڑے مشہور تھے۔ قدیم زمانے میں یہ تجارتی منڈی تھا یہاں سے کپڑ اوسط ایشیا اورافغانستان تک جاتا تھا۔ یہاں ہندو آبادی کافی آگے تھی۔ انہوں نے یہاں من موہن ہائی سکول 1929ء میں قائم کیا جہاں اب موجودہ ہائی سکول چل رہا ہے۔ اس کے ہال کی دیوار پر یادگاری پتھر اب تک موجود ہے۔
اب ضلع خوشاب کا آبادی کے لحاظ سے بڑا شہر ہے 1998ء کی مردم شماری کے مطابق اُس کی آبادی 87859 ہے جبکہ 1891ء میں 9832 تھی۔ یہاں کے مٹی کے برتن کھیں، حمد ، ریشمی انگلیاں صافے بڑے مشہور تھے۔ دور دور جا کر فروخت ہوتے تھے۔ بچوں کے لکڑی کے کھلونے بھی بہت مشہور تھے ۔
قائد آباد
قائد آباد قائد اعظم کی یادگار میں سردار عبدالرب نشتر نے اس کا سنگ بنیاد 13 فروری 1951ء کو رکھا تھا۔ یہ جدید شہر ہے۔ لڑکوں اور لڑکیوں کے کالج ہیں۔ کافی ترقی یافتہ جدید شہر بن
چکا ہے اب اسے تحصیل کا درجہ مل گیا ہے۔
نور پور
ایک بزرگ بابا نور حسین نے آباد کیا۔ ٹوانوں کا کافی اثر رہا۔ یہاں بھی کبھی قلعہ تھا اور ان کی فوج رہتی تھی تا کہ منکیرہ کے افغان حملے کو روکا جا سکے۔ خوشاب ضلع بننے کے بعد نور پور کو تحصیل کا درجہ دے دیا گیا۔ اس کا تقریباً سارا رقبہ ریگستانی ہے۔ یہ بھی نور پورٹوا نہ بھی کہلاتا تھا۔ 1854ء میں اس کا بندوبست مسٹر سکسن کی نگرانی میں کرایا گیا۔ اس وقت یہ علاقہ ضلع لیہ میں شامل تھا 1865ء میں پھر یہ بندوبست مسٹر ڈیوس نے کیا جو اس ضلع شاہپور کا ڈپٹی کمشنر تھا اور خوشاب شہر کا دروازہ بھی اس نے بنوایا تھا ۔ 1892 ء میں پھر اس کا بندو بست مسٹر ولسن ڈپٹی کمشنر کے عہد میں ہوا۔ ولس وہ ڈپٹی کمشنر ہے جس نے ضلع شاہ پور کا گز می تحریر کیا۔ بھی اس جگہ پیری کے درختوں کا باغ ہوتا تھا جو نیلام کر دیا گیا۔ 1913ء میں پھر بندو بست مسٹری کی نگرانی
میں ہوا۔
1917ء میں اسے دولت رام ایس۔ ڈی۔ او کی رپورٹ پر نور پور کو سمال ٹاؤن کا درجہ دیا گیا۔ 1960ء میں یونین کونسل کا درجہ دیا گیا ہے۔ 1975ء میں ٹاؤن کمیٹی کا درجہ ملا اور 1983ء میں ضلع خوشاب بننے پر اسے تحصیل کا درجہ دے دیا گیا۔
مٹھ ٹوانہ
مٹھ ٹوانہ کی بنیاد ملک میر احمد خان نے 1580ء میں رکھی تھی۔ مٹھ ٹوانہ میں ان سے پہلے یہ خاندان اوکھلی موبقہ میں رہتا تھا۔ ان کے والد ملک میر عالی اپنے زمانے کے بڑے مشہور نیزہ باز تھے ۔ شیر شاہ سوری جب اس علاقے میں آیا تو انہوں نے ان کی بڑی آؤ بھگت کی جن
سے خوش ہو کر اس نے انہیں ملک کا خطاب دیا۔
محہ ٹوانہ ریاست کا بہت جلد مرکزبن گیا۔ اس ریاست کی حدود کچھ اس طرح تھیں:
مشرقی طرف دریائے جہلم حد تھی
مغربی طرف ماڑی کوٹ اور کند یائی
جنوب کی طرف ماڑی شاہ بخیرہ موجودہ ضلع جھنگ
شمال کی طرف … دامن کوہ ، وڑ چھا کی کان بھی ان کی ملکیت تھی۔ موجودہ بولا ۔ بڑائی ۔ بوتالہ ۔ روڈہ۔ چسو نور پور
ان کی حفاظتی چوکیاں تھیں ۔
مٹھ ٹوانہ میں ایک قلعہ بھی تھا جس کی یاد گا ر اب مسجد گڑ گج رہ گئی ہے۔ جس شخص نے اس خاندان کی شہرت کو چار چاند لگائے وہ ملک فتح خان المعروف موتیاں والا تھا۔ اس نے سکھوں اور انگریزوں کے زمانے میں بڑا اقتدار حاصل کیا۔ اسکی سواری کے لئے ہاتھی تھا۔ جب انگریزوں نے کشمیر کا سودا کیا تو وہاں کا گورنر امام الدین گلاب سنگھ کو کشمیر حوالے کرنے پر تیار نہ تھا۔ ملک فتح خان ہر برٹ ایڈورڈز کے مشیر کی حیثیت سے گیا اور شیخ امام الدین کو کشمیر چھوڑنے پر راضی کر لیا۔ شیخ امام الدین باغی ہو گیا تھا۔ یہ 1846ء کی بات ہے۔ سکھوں کے زمانے میں مٹھ ٹوانہ پر سکھوں نے قبضہ کر لیا تھا اور اسے بطور جاگیر ہری سنگھ نلوا کو دیا۔ جب ہری سنگھ جمرود کی لڑائی میں مارا گیا تو سکھوں نے ملک فتح خان کو نہ صرف ھا گیر واپس کی بلکہ جمرود فتح کرنے کے لئے ملک فتح خان کو بھیجا جس نے جمرود فتح کر لیا۔ بعد میں سکھوں کے زوال کے بعد اپنی وفاداریاں انگریزوں سے وابستہ کرلیں ۔
مٹھ ٹوانہ میں سکھوں نے ایک پرائیویٹ گورونانک ہائی سکول کی بنیاد رکھی تھی جس کے خرچ کے لئے کافی رقبہ واقف تھا۔ اب موجودہ ہائر سیکنڈری سکول اسی میں قائم ہے۔ یہ ضلع
خوشاب کا دوسرا بڑا شہر ہے۔
جو ہر آباد
جوہر آباد ضلع خوشاب کا ضلعی ہیڈ کواٹر ہونے کی وجہ سے اس کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کا سنگ بنیاد سردار عبدالرب نشتر گورنر پنجاب نے 13 فروری 1951ء کو رکھا اس کا نام مولانامحمد علی جو ہر کے نام پر رکھا گیا۔ 1960ء میں بلد یہ جو ہر آباد وجود میں آئی۔ اس سے پہلے یہ کام ٹی۔ ڈی۔ اے کے ذمہ تھا 1966ء میں اسے انڈسٹریل ایریا قرار دیا گیا جس کی وجہ سے اس ضلع میں کافی بڑی صنعتیں لگائی گئیں جن میں سے ٹیکسٹائل ، شوگر ، ہیمنٹ کی صنعتیں نمایاں ہیں۔ الھا وقت اس شہر میں بہت سارے تعلیمی ادارے قائم ہو چکے ہیں ۔ گورنمٹ کالج میں اب ایم ۔ اے تک تعلیم حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ کمرشل کالج اور ووکیشنل ادارے بھی کام کر رہے ہیں ۔ اسے کراچی کے بعد پاکستان کا دار الحکومت بنانے کی بات بھی چلی ۔ کچھ مرکز کے دفاتر بھی یہاں اگر کام کرتے رہے جن میں سے A.G.P.R کا بہت بڑا دفتر تھا لیکن اسلام آباد کو بعد میں بنانے کی وجہ سے یہ دفتر بھی آہستہ آہستہ وہاں منتقل ہوتا گیا۔ یہاں کی تقریباً ساری آبادی دوسرے ضلعوں سے یہاں منتقل ہوئی ہے۔ یہاں کشادہ سکیں، پارک، باغات اور جنگل کی بڑی رونق ہے۔ صاف ستھرا جدید شہر کہا جا سکتا ہے لیکن پہنے ے پانی کی تکلیف ابھی تک دور نہیں کی جاسکی جس کی وجہ سے اکثر لوگ سائیکلوں پر بھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اب اس کا رقبہ کافی پھیلتا جارہا ہے۔ کافی نئی کالونیاں بھی بنتی جارہی ہیں۔ صحافت میں بھی اب بڑی ترقی ہو رہی ہے کافی پرچے نکل رہے ہیں جن میں ایک نمایاں نوائے جو ہر ہے۔ یہاں کے جن صحافیوں نے بڑا نام پیدا کیا ہے ان میں سہیل وڑائی نمایاں ہیں جن کا تعلق روز نامہ جنگ سے ہے۔ ان کی ایک کتاب غدار کون” کافی مقبول ہوئی ہے۔”
ہڈالی
ہڈالی ضلع خوشاب کا ایک اہم قصبہ ہے۔ اس قصبے نے کئی بڑے بڑے عظیم انسان پیدا کئے ۔ پاکستانی فوج کو بڑے جرنیل دیئے۔ فوجی خدمت ان کی زندگی میں رچی بسی ہے سکول کے پچھتر فیصد طالب علم فوج میں ہی بھرتی ہوتے ہیں۔ ہڈالی کی وجہ تسمیہ ایک اور روایت کے مطابق ٹوانوں اور اعوانوں کی یہاں جنگ ہوئی جس میں بہت سے لوگ کام آئے۔ ان مقتولین کی ہڈیاں ایک ڈھیر کی صورت میں کافی عرصہ پڑی رہیں۔ اس جگہ کا نام ہڈاں آئی ہو گیا جو بعد میں بدل کر ہڈالی مشہور ہوا۔ یہ شروع میں مٹھ ٹوانہ ریاست کی ایک حفاظتی چوکی جو آہستہ آہستہ ایک بڑے قصبے میں تبدیل ہو گئی۔ بڑائی میں ایک واں یا باولی بھی ہے۔ جس کی 186 میٹھیاں ہیں ۔ ہڈالی کے قبرستان میں نواب مبارز خان ٹوانہ اور نواب ممتاز خان ٹوانہ دونوں بھائیوں کی قبریں ہیں ۔ نواب مبارز خان نے بڑے رفاہی کام کئے ۔ شاہ پور صدر میں آپ نے اسلامیہ ہائی سکول جاری کیا جو ترقی کر کے ڈگری کالج بن گیا اور سرگودھا جا کر وہ یونیورسٹی کا درجہ حاصل کر گیا۔ یہی ان کی کوشش تھی ۔ جو سرسید کی تحریک سے متاثر ہو کر شروع کی تھی۔ ان کے بھائی ملک ممتاز خان نے قائد اعظم کی خواہش پر ملک خضر حیات ٹوانہ کا مقابلہ کرنے پر تیار ہو گئے حالانکہ یہ قریبی رشتہ دار تھے۔ خضر حیات اس وقت پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے۔ اس لئے ان کے مقابلے پر کوئی آنے کو تیار نہ تھا۔
دنیائے صحافت کی ایک قد آور شخصیت خوش ونت سنگھ کا تعلق بھی ہڈالی سے ہے۔ 1986 ء میں وہ اس وقت بڈالی آئے جب راقم بڈائی ہائی سکول میں ہیڈ ماسٹر تھا۔ اپنا سکول بھی دیکھنے کے لئے تشریف لائے۔ جب اپنے گھر کے اس کمرے کے سامنے آئے جہاں انہوں نے دنیا میں آنکھ کھولی تو جذبات امڈ پڑے اور آنسو بن کر باہر نکل آئے ۔ یہاں کے مکینوں کے ساتھ ان کا مسلسل رابطہ رہتا ہے۔ جب انہیں پتہ چلا کہ انہوں نے اس کمرے کا دروازہ 25 ہزار میں بیچ دیا ہے تو انہوں نے بڑی تگ و دو کے بعد دو لاکھ میں دروازہ خرید کر ہندوستان لے جا کر لگایا۔ اب وہ سبحان سنگھ پارک نیو دہلی میں ہڈالی ہاؤس کے نام سے موجود ہے۔ یہاں ہڈالی میں بھی ایک بہت بڑا بورڈ بنوا کر لگوادیا ہے۔
پیلودینس
پیلو ایک پنجابی زبان کا کلاسیک درجہ کا شاعر تھا اور شاہد و نیم قبیلہ کا تھا تو دونوں کوملاکر پیلو ونیس بن گیا۔ یہاں کے لوگ قدرتی طور پر عام محل کی نسبت کافی ذہین ہیں۔ اپنی ذہانت کی بنا پر اب کافی لوگ اچھے اچھے مختلف عہدوں پر فائز ہیں ۔ اگر چہ اس کی مشہوری کا سب پہلو ہے لیکن روایات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ جگہ قبل از تاریخ سے آباد ہے۔ یہاں سے ملنے والے سکے اس بات کی شہادت دیتے ہیں۔ دو سکے کنشک کے عہد کے استاد احمد خان صاحب اور عزیزی ضیغم علی نے لا کر دکھائے تھے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کبھی تھل بارشوں کی کثرت کی وجہ سے سرسبز و شاداب تھا۔ پیلو شاعر نے بھی ان کھنڈرات کا ذکر کیا ہے۔
پیلو پچھیا ٹھیکریے تیرا کت دل گیا جہاں
نہ اوہ مٹ شراب دے نہ اوہ نیل دوکان
یعنی اسے ہر چیز تباہ ہوئی نظر آتی ہے یہی شاعر ابھی تک پنجابی زبان کا پہلا صاحب دیوان شاعر ہے۔ اس نے سب سے پہلے مرزا صاحباں کی کہانی نظم میں لکھی تھی۔
نوشہرہ
یہ وادی سون کا مرکزی شہر ہے۔ کٹھوائی والے کتے کو اگر بنیاد بنایا جائے تو اس کا قدیم نام کبیر ہ تھا اور یہ بدھ مت کا مرکز تھا۔ اعوانوں کے اس علاقے پر قبضہ کے بعد نہ وہ قدیم مذہب رہا نہ ماننے والے رہے اور نہ ہی ان کی کوئی یادگار قائم رہ سکی کیونکہ دوسرے مذہب والوں کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ اب اس علاقے میں صرف بڑے بڑے چبوترے رہ گئے ہیں جن کے متعلق وثوق سے ابھی تک کچھ کہا نہیں جا سکتا جب ماہرین ان کی جانچ پڑتال کر کے کوئی رپورٹ مرتب نہ کر لیں ۔ ایک مقامی روائت کے مطابق اس شہر کا بانی ہمت نامی اعوان تھے جنہوں نے کنڈ سے آکر اسے آباد کیا۔ لطفیال، مہرال پھتیال روھنال اس کی اولاد سے ہیں ۔ کرتی ہے اس وقت اس کی آبادی 8952 نفوس پر مشتمل ہے اور یہ 1981ء میں 7878ء تھی۔ اب یہاں لڑکوں کا کالج اور بچیوں کے لئے ہائر سکینڈری سکول موجود ہے 1976 ء میں اسے ٹاؤن کمیٹی کا درجہ دیا گیا۔ ملک محمد سرور اعوان جو راقم کے بزرگ دوستوں میں سے تھے، نے گھر میں ایک پرائیویٹ عجائب گھر بنارکھا تھا جسے ٹی وی والوں نے فلمایا اور کبھی کبھی وادی سون کے حوالے سے دکھایا جاتا ہے۔ ملک صاحب اس علاقے کی تاریخ کے بارے میں زبر دست معلومات رکھتے تھے جن کی وجہ سے احمد غزالی جیسے صاحب قلم بھی معلومات حاصل کرنے کی غرض سے ان کے در دولت پر حاضری دینے آئے۔
آثار قدیمہ والے تو ان کے مداح تھے ۔ ڈاکٹر سلیم ، ڈاکٹر احمد حسن دانی اور ڈاکٹر سیف الرحمن ڈار سب نے ان سے فیض حاصل کیا۔ لوک ورثہ والوں نے تو ایک گیلری ان کا بت بنا کران کے نام سے منسوب کی ہے۔ راقم کو جب بھی معلومات کی طلب ہوتی تو فون پر رابطہ کیا جاتا۔ اکثر غیر ملکی سیاح بھی ان کے ہاں معلومات کے لئے حاضری دیتے ۔ ان کی بنائی ہوئی تصاویر ان کی
البم کی زینت ہیں ۔
چٹہ
اگر چہ چھوٹا سا گاؤں ہے لیکن تاریخی لحاظ سے یہ پوری وادی میں انسانی تاریخ کی واحد جگہ ہے جہاں سے مشہور ماہر نسلیات DETERRA نے انسان کے بنائے ہوئے اوزاروں کی ایک فیکٹری کا سراغ لگایا اور جس زمانے کا انہوں نے ذکر کیا ہے وہ زمانہ تین لاکھ سال سے چھ لاکھ سال تک کا ہے اور اس وقت اولین انسان کے پوری دنیا سے شواہد ملے ہیں۔
سیکر
یہ جگہ ضلع خوشاب کا صحت افزا مقام ہے۔ بلکہ ہمارے علاقے کی مری ہے۔ یہاں کبھی ضلع میانوالی ضلع اٹک اور ضلع شاہیوں کے ڈی سی صاحبان جو کہ انگریز ہوتے تھے گرمیوں میں یہاں دفتر منتقل کر لیتے تھے ۔ تینوں ضلعوں کی حدود بھی یہاں ملتی ہیں۔ یہ سطح سمندر سے تقریباً 5000 فٹ بلند ہے یہاں کبھی بھی سردیوں میں برف باری بھی ہو جاتی ہے۔ آج کل یہاں ائر فورس کا قبضہ ہے۔ یہ واحد ہائی سکول ہے جہاں گرمیوں کی بجائے سردیوں میں چھٹیاں ہوتی ہیں ۔ اسے پہاڑی سٹیشن قرار دیا گیا ہے۔ کافی پر رونق جگہ ہے۔ یہاں ٹی وی کا بوسٹر بھی لگا ہوا ہے یہ علاقہ بھی بدھ مت کا گڑھ ہوتا تھا۔ سیکس بھی ایک روایت کے مطابق ساکیہ منی سر ہے جو بگڑ کر سکیسر رہ گیا ہے۔ اس کا مطلب بدھ مت کا تالاب – سکسیر کی چوٹی پر بدھ مت کی زیارت گاہ ہوتی تھی ۔ بدھ مت کے پیرو خصوصی تہواروں پر نیچے سے گاتے بجاتے ہوئے او پر جاتے تھے۔
کھبیکی
یہ گاؤں جھیل کے کنارے ہے۔ اس علاقے میں تیل کے آثار ہیں لیکن اس طرف ابھی تک گورنمنٹ نے کوئی توجہ نہیں دی مقامی لوگ وہاں لگ کی شکل کا موادلا کر پھلجھڑیاں بناتے ہیں۔
GAZETTEER OF THE SHAH PUR DISTRICT 1897
میں یہ عبارت درج ہے
PETROLEM has beenn noticed on the surface of spring near khabakki
1918ء میں شائع ہونے والی جغرافیہ ضلع شاہپور میں صفحہ 20 پر درج ہے۔ تھوڑا
عرصہ ہوا ہے کہ تیل کے چشمے پہاڑ سے برآمد ہوئے ہیں۔ سرکار اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے
سوچ رہی ہے۔
گروٹ
یہ قدیم قصبہ دریائے جہلم کے دائیں کنارے واقع ہے اسے بلوچوں نے بسایا۔ دیہی کپڑے کا بھی مرکز تھا یہاں سے کپڑ اوسط ایشیا تک جاتا تھا۔ یہاں سے دور استے ایک افغانستان کو اور دوسرا ملتان کو جاتا تھا۔ ہمایوں بادشاہ بھی یہاں آیا تھا۔ یہاں ایک شاہی مسجد ہے جو ضلع خوشاب میں سب سے قدیم ہے اسے محمد مہدی نے بنوایا تھا جو اکبر بادشاہ کے عہد میں منصب بارہ ہزاری رکھتا تھا۔ یہاں محمد جمالی کا شاندار مقبرہ ہے جو اورنگ زیب عالمگیر کے عہد میں بنوایا گیا۔ یہاں میلہ بھی لگتا ہے۔ تقسیم ملک سے پہلے یہاں دیال بھون کا میلہ بھی لگتا تھا جو ہندوؤں کا گرو تھا۔ دیال بھون پہلے کپڑے کا تاجر تھا اور وشنو کا پجاری تھا پھر وہ گیان حاصل کرنے کا اعلان کر کے گرد بن گیا۔ بجیسا بھی پر ایک میلے کا اہتمام کیا جاتا۔ ہندو اس میں شامل ہونے کے لئے دور دور سے آتے۔ اپنے سروں کو منڈوانے کے لئے راہم سرنامی تالاب کے گرد جمع ہو جاتے۔ جنیو تبدیل کرتے اور اپدیش سنتے۔ اگر چہ یہ ہندوؤں کا میلہ تھا لیکن اس پر بھی نیزہ بازی اور کبڈی خوب ہوتی تھی۔ قدیم دور میں یہاں کی تجارت وسط ایشیا تک تھی۔ گروٹ میں ہی اب بھی محمد جمائی کا میلہ لگتا ہے۔
کٹھ
یہ پہاڑ کے دامن میں واقع ہے۔ یہ بڑی پرفضا جگہ ہے یہاں پہاڑ سے پانی آکر ۔ یہاں کی زمینوں نیکو سیراب کرتا ہے۔ کبھی اس پر بہت پن چکیاں لگی ہوئی ہوتی تھیں اور لوگ خوشاب اور شاہپور تنگ آٹا پسوانے کے لئے آتے ۔ یہاں باغ بھی ہیں اور یہاں آجکل یہاں ٹماٹر اور پیاز کی فصلیں خوب ہوتی ہیں ۔ کبھی یہاں کپاس بھی بہت ہوتی تھی لیکن اس میں کوئی ایسی بیماری لگی کہ انگریز سرکار نے اس کی کاشت پر پابندی لگادی۔ کٹھ پشتو زبان میں چشمہ کو کہتے ہیں سوات میں یہی نام چلتا ہے۔ یہاں ایک ٹیلے پر قدیم قلعے کے آثار اب ٹیلے کی شکل میں ہیں یہ ضلع خوشاب کے میدانی علاقے کی قدیم ترین عمارت ہے اور یہ ابھی تک ماہرین آثار قدیمہ کی آنکھوں سے اوجھل ہے۔ اس کے علاوہ جتنے بھی منادر ہیں وہ سب کے سب پہاڑ کے اوپر ہیں اور اس سے یہ تصور ابھرتا ہے کہ شاید ہندوشاہی کے راجے میدانی علاقے میں سرکاری عمارتیں بناتے ہی نہ تھے ۔ وہ میدانی علاقے میں غیر محفوظ خیال کرتے تھے لیکن کٹھے والے مندر کی موجودگی اس نظریے کو باطل کرتی ہے۔ اسی کے ساتھ کٹھ مصرال میں جہاں اب بچیوں کا ایلنیٹری سکول ہے وہاں بھی کبھی قلعہ تھا اب صرف دو دیوار میں رہ گئی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی شیر شاہ کے زمانے کا بند بھی ہے۔ یہیں اس کے بانی سکھر ال کی قبر ہے۔
ناڑی
ناڑی بھی کٹھہ کی طرح پشتو میں چشمے کو کہتے ہیں بالاکوٹ میں ایک مسجد اسی نام کی ہے۔ کبھی جے کا پانی زمانہ قدیم اسے سیراب کرتا تھا۔ یہ جگہ پاکستان میں قدیم ترین تہذیب کی امین ہے۔ اپنی قدامت کے لحاظ سے یہ ہر پہ اور موجو ڈارو سے بھی قدیم ہے۔ یہاں سے ایسے آثار قدیمہ ملے ہیں جن کی بدولت ماہرین آثار قدیمہ وثوق سے کہہ رہے ہیں کہ یہ جگہ ہر پر سے بھی پہلے کی ہے۔ اس جگہ دو ماہرین آثار قدیمہ ڈاکٹر سیف الرحمن ڈار صاحب اور ڈاکٹر محمد سلیم صاحب خود تشریف لائے ان کے ساتھ اور ساتھی بھی تھے سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ یہ جگہ پاکستان کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ یہ صرف سطح زمین کے اوپر کے جائزے کے بعد نتیجے میں مرتب کئے گئے ہیں اگر اس کی باقاعدہ ماہرین کھدائی کر کے دکھیں تو مزید انکشافات ظاہر ہونے کی توقع ہے۔ ہر پہ تہذیب کے لئے۔ سوراخ دار برتن مٹی کی پکی ہوئی تکونی نکیاں اور پیڑے کی طرح بھول پکے ہوئے باٹ، پتھر کی چھریاں، مٹی کی پکی ہوئی چوڑیاں، برتنوں پر جیومیٹریکل ڈیزائن یہ سب چیزیں موجود ہوں تو ایسی جگہ ہڑپہ تہذیب سے میل کھاتی ہے۔ ابھی تک اس علاقے میں یہ پہلی دریافت ہے اور اس کا سہرا محترم استاد محمد الحق ہیڈ ماسٹر ہائی سکول ناڑی کے سر ہے جنہوں نے راقم کے آثار تک پہنچنے میں مدد دی بلکہ میرے ساتھ اس جدو جہد میں شامل ہو کر اسے دنیا کے سامنے پیش کرنے کا ذریعہ بنے۔ اب ڈار صاحب نے ایک مقالے کی شکل دے دی ہے۔
امب شریف
یہ بھی تاریخی لحاظ کافی اہم مقام ہے۔ یہاں پر مختلف ادوار پر تحقیق کرنے والے ماہرین اکثر آتے رہتے ہیں۔ یہاں دو مندر موجود ہیں اور قلعے کے آثار موجود ہیں اس کے علاوہ رہائشی مکانوں کی بنیادیں کافی رقبے پر بکھری پڑی ہیں۔ یہاں سے لوگوں کو کافی چیزیں ملتی ہیں خاص کر بت جن میں سے تین بت راقم نے بھی دیکھے تھے لیکن بعد میں یہاں سے غائب ہو گئے۔ یہاں کے راجہ کے متعلق جس کا نام امباز خا تھا کہا جاتا ہے کہ اس نے اس شہر کو آباد کیا تھا۔ اس کے کہے ہوئے اشعار رگ وید میں شامل ہیں۔ اس کا تعلق بھی سور ماؤں سے تھا۔ یہ راجہ مند ھاتری کا بیٹا اور پروکتا کا بھائی تھا۔ یہاں ایک قدیم چشمے کا پانی کاریز کی صورت میں لایا گیا ہے اور آج تک لوگ اسی کو استعمال کر رہے ہیں۔ یہاں سے بھی کئی کتبے ملے تھے لیکن ایک گم ہو گیا اور دوسرا لاہور عجائب گھر میں ہے۔ آجکل یہاں سے ملنے والے بتوں کا کاروبار زوروں پر ہے۔
ضلع خوشاب کی یونین کونسلیں
1- اوچھالی۔ اچھالی ، چٹہ ، کور ڈھی، رکھ سکیسر، رکھ جی ۔
2- انگہ۔ انگہ، کوٹلی ، اوگالی ، مردوال، رکھ مردوال، کورنگ۔
3- کفری – کفری، کھر ال شکر کوٹ ، سر ہال سر کی ، رکھ سر کی۔
4- گھوڑہ ۔ گھوڑہ، رکھ حیات المیر ، ہر دو سودھی، کلیال، جاہلر، رکھ جاہلر، رکھ چمنکی ،اراڑہ۔
5- سوڈھی جے والی۔ سوڈی جے والی ، ڈھاکا ، اوچھالہ، مناواں، احمد آباد، مکڑومی، رکھ
کیری رکھ پار۔
6- کھبیکی کھبیکی ، جاہا ، دھد ھر چھونگا، رکھ کھیروٹ ،سلو ہی رکھ شیں ۔
7- پدھراڑ ۔ پدھراڑ ، کپز ، کدھر، پیڑا کھاری۔
8- کٹھ ۔ کٹھ ،سکھرال، کٹھ میصر ال ، پیل ، رکھ کٹھ ۔
9- دئیوال ۔ دئیوال ، منگوال ، جسوال ، رکھ بہوٹ۔
10- تلوکر کو کر شمالی، جنوبی ، کرڑ، ڈھاک، بانسی، بلوال، بجار غوث نگر ، 65 ایم بی ۔
11- ناڑی۔ ناڑی شمالی ، ناڑی جنوبی ۔
12- نلی نلی شمالی ۔
13- و ہیر۔ وہیر شالی، وہیر جنوبی پہلی جنوبی، پنڈی، برج مبر ، چک 65،55،54 ایم بی ۔
14- گنڈ کنڈ، ناڑا اور کھ گولڑہ ۔
15- سندرال – سندرال، کوڑا، ٹوروواند، ہر دو لکھ ، نامے والی ٹھٹھہ کرانی، اُڈیک پور جندراں، خیرپور
16- 59 ایم بی۔ چک 57 58 59، 61 62 63 ایم بی ، خوشاب رورل ، منگور، گر پالکہ، شوالہ۔
17- حسن پور ٹوانہ محمد شاہ جلال پور بھٹی گھنجیرا، جوئیہ، سن پور ٹوانہ، میلی صدر، میلی
پیر بخش میلی۔
18- محبت پور – محبت پور، رنگ پور، کدھی، کوٹلہ جا گیرنٹی والا، بھین، شیخوال، 39 ،40A 45A، 41 ایم بی گوگوچکی ۔
19 – گروٹ ۔ گروٹ، واسو، جوڑا جاگیر، شاہ ،اجمل ، چھینہ ، دُھپ سڑی ہنکر والا ، وٹو لکو، رکھ روڈہ، چک 3338 ایم بی ۔
20- 50 ایم بی ۔ چکوک 44،43،42، 53،52،51،50،49،48،47،46 ایم۔ بی
21- روڈہ ۔ روڈہ ۔
22- کو تالہ ہو تاکہ مٹھ ٹوانہ، جنوبی رورل پنجہ ۔
23- بجار بیجار شمالی، پار جنوبی، مٹھ ٹوانہ شمالی، شیخو ابادی
24- 14 ایم بی ۔ چوک، 8ایم بی ، 9، 10، 11، 154،15،14،13،12،15B، 132.31.30.28 27.26.25A-25.24.23.22.21 4،2،1 ٹی ڈی اے
25- اوکھلی موہلیہ اوکھلی موہلہ جنوبی، شمالی۔
26- جی جی شمالی جی جنوبی، چٹکی ۔
27- چوہا، ڈھوکڑی۔
28- وڈ چھوڑ چھ فتح پور، بندیال شمالی ۔
29- گولیوالی گولیوالی، اسب ، رکھ امب ۔
30- اقراء ۔ انتہاء، مٹھا کھوہ، جے سنگھ۔ شاہ والا ۔
31- بندیال- بندیال، بندیال جنوبی ، چکوک 33 34 35 ڈی بی ۔
32 – جیاں تیجیاں ہیجیال جنوبی میجیال شمالی ۔
33- اتراہ شمالی ۔ اسلام آباد، 5 ٹی دی اے، چکوک 6،5، 7 ایم بی ، چکوک ، 40،3836 ڈی بی
34- آدمی کوٹ ۔ آدھی کوٹ، آدمی سرگل ، ڈرادی، چک 130 ایم بی ، 148 ، 17ایم بی۔
35 چن چن رکھ چن رکھ بلند ، رکھ پیلو د فیس ، رکھ رنگ پور، چوک 144، 16، 18، 2019 ، 29 ایم بی ۔ چکوک،44،43،42،14، 45 ڈی بی ۔
36- رنگ پور رنگ پور ، رنگ پور جنوبی محمود شہید۔
37- راہداری – راہداری، رکھ راہداری ، بلند ، پلو ہاں۔
38- جھر کل جھر کل میکن نسیدها، شاہ والا، اعوان والا، نکرد و شہید ، رکھ محمود شہید۔
39- کھاٹواں ۔ کھائواں، ٹاہلہ کھانواں، بمبول ، شاہ حسین، رکھ نواں سگو۔
40- کھائی خورد۔ کھائی خورد ، کھائی کلاں، برہان ، بوڑ وانہ ، رکھ ٹاہلہ کھاٹواں۔
41- جوڑا۔ جوڑا کلاں، شیر گڑھ، پہلی سیداں، چاند یہ، حویلی چراغ لعل حسین ، لغاری،بیتری۔
42- جمالی ۔ جمالی ، کا کا، ڈھمک، رکھ ٹور پور، رکھ گھائی خورد۔
43- پیلو وینسن پیلو دیس، عینوں۔
یہ مضمون شیخ محمد حیات کی کتاب "ضلع خوشاب تاریخ کے آئنے میں "سے لیا گیا ہے