خوشاب

ضلع خوشاب کی کشان سلطنت

شیخ محمدحیات

 

کشان سلطنت

وسطی ایشیا کے تین خانہ بدوش قبائل ایسے تھے جن پر چین کے ہان حکمرانوں کے حملے جاری رہتے تھے تا کہ وہ سر زمین چین کے کسی حصے پر قبضہ نہ جما سکیں ۔ ان تین قبائل کو چینی زبان میں شیونگ نظ(SHIUNG – NU) اور یو چی (YUE CHI) یا یوچہ (YUE CHIH) کہتے تھے ہیونگ نو یا شیونگ نو یاز یونگ نو تو وہی لوگ ہیں جنہیں مغرب میں ہن یا سفید ہن اور ہمارے یہاں سنسکرت اور پالی میں ہنا کہا گیا اور یوچ ہنہ لوگ تھے جنہیں چینیوں نے بھی یوچی کہا اور ہماری قدیم تحریروں میں بھی انہیں یو پی کیا گیا۔ ان کے دو حصے تھے ایک تایو چی یا بڑے ہو چی اور دوسرے چھوٹے یوچی۔ قدیم چینی تحریروں میں کہا گیا ہے کہ یہ خانہ بدوش لوگ تھے جو اپنے جانوروں کے پیچھے چلتے ہوئے کہیں بھی نکل جاتے تھے۔ چھوٹے یو چی شمالی تبت میں جا کر آباد ہو گئے اور بڑے یو چی باختر کی طرف نکل گئے ۔ جب بڑے یوچیوں نے باختر کے علاقے میں قدم رکھے تو وہاں کی سرسبز و شاداب زمینوں پر آباد ہو گئے اور یہاں انہوں نے اپنی حکومت قائم کی۔ چینی زبان میں باختر کو تا ہیا کہا گیا ہے۔ جب تایوچی تاہیا پر قابض تھے تو چینی سفیر چانگ چین تقریباً 126 ق م میں انہیں آکر ملا تھا اور اس نے ان سے کہا تھا کہ ہیونگ نوؤں کے خلاف چین سے اتحاد کریں۔ بڑے یوچیوں کے کئی قبائل تھے جو وسط ایشیا بشمول باختر کے کئی علاقوں پر خود مختار رجواڑوں کی شکل میں قابض تھے۔ ان میں سے پانچ بڑے قبائل تھے جن میں سے سب سے بڑا قبیلہ کشان تھا۔ کشانوں کے ایک قابل رہنما کیوچھیو کی او(KIU TSIU KIO) نے ان تمام یو اپنی قبائل کو متحد کر کے ایک وسیع تر سلطنت کی تشکیل کی اور یوں وہ پہلا کشان بادشاہ بنا۔ اس کو انگریزی میں کچھ لا کیرا کیڈ فیسز (KUJULA KARA KDPHISES) اور اس کے سکوں پر خروشتی میں اس کا نام کھول کس اور بعض جگہ کچھ سس لکھا ہوا ہے۔ اس نے باختر میں اپنی سلطنت کی بنیاد 40ء میں رکھی یعنی وادی سندھ میں پہلویوں کے خاتمے سے آٹھ سال قبل۔ مورخین اسے کیڈ فیسز ون یا کس اول کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

مہاراجہ کھول کس اول

وسطی ایشیا کے پہلے کشان بادشاہ کو قدیم چینی تحریروں میں کیوچھیو کی او کہا گیا ہے۔ اس کا پایہ تخت باختر (بلخ) تھا۔ تھوڑے ہی عرصے میں اس نے باختر سے آگے بڑھ کر کائی پن پر قبضہ کر لیا۔ کالی پین سے مراد کا پٹی ہے جسے اب بگرام کہتے ہیں۔ کیوچھیو کی اونے مہاراجہ گنڈا کا پرک خلاف بھی فوج کشی کی تھی لیکن اسے کامیابی نہ ہو سکی البتہ مہا راجہ گنڈا پر کی وفات (48ء ) ک بعد وہ وادی سندھ پر قبضہ جمانے میں کامیاب ہو گیا۔ ہمارے ہاں اس کے جو سکے ملے ہیں ان پر ایک طرف یونانی رسم الخط میں اس کا نام کچھ لا کیڈ فیسز لکھا گیا ہے اور دوسری طرف خروشتی رسم الخط میں بعض جگہ کھول کسی اور بعض جگہ کھول کچھ کس لکھا ہوا ملا ہے۔ ایک سکے پر لکھا ہے: ”کچھول کس کشان یاد کس دھرم تھی داس“ اس کا مطلب غالباً یوں ہے: ”کچول کس کشانوں کا سربراہ، دھرم کا داس ایک اور سکے پر لکھا ہے : ”مہاراجہ راجہ دھیر اج عظیم بادشاہ ، بادشاہوں کا بادشاہ) ایک اور سکے پر لکھا ہے : ” جس سچا ورم تھی "واس” ) لنفس سچا دھرم کا غلام) ایک جگہ ہے کیول پھنس۔ اس کے سکوں پر یونانی دیوتاؤں زیوس اور ہر کلیس کی تصویر میں ہیں۔ اس کے علاوہ بیل اور دو کوہان والا اونٹ بھی ہے۔ ایک جگہ آلتی پالتی مار کر بیٹھے ہوئے گوتم بدھ کی تصویر بھی ہے۔ ڈاکٹر دانی کہتے ہیں کہ سرکپ اور شیخاں ڈھیری (چارسدہ) کی اثر می کھدائیوں سے یہ بات حتمی طور پر ثابت ہو گئی ہے کہ اس علاقے کو کھول کس ہی نے فتح کیا تھا جس کا مطلب ہے کھال کس ہی ہمارے علاقے میں بھی کشان سلطنت کا بانی تھا (وسط ایشیاء میں تو وہ تھا ہی ) کسی اول نے لمبی عمر پائی۔ وہ اسی سال کی عمر میں 77ء بلکہ اغلب 78ء میں ایک فوجی مہم کے دوران فوت ہوا۔ کسی اول نے مقامی فنون اور دست کاریوں اور مذہب (بدھ مت) کی سر پرستی کی ۔ کس اول نے وادی سندھ پر تقریبا تین سال حکومت کی ۔ غالباً اس کا پایہ تخت پرش پور ( پشاور ) میں تھا۔

ویماکس دوم

کس اول کھول کر کسی کے بعد 78ء میں اس کا بیٹا و بیماکس تخت نشین ہوا ہے کسی دوم یا کیڈ فیسر || (CADPHISES II) کہتے ہیں۔ اس کے سکوں پر یونانی رسم الخط میں اس کا نام اوایمو یا دیمو (OOEMO WEMO) لکھا ہوا ہے اور چینی مورخین نے اس کا نام اور القابات اس طرح لکھے ہوئے ہیں: مراجس، راجہ پیرا جس، سروا لوگ ایشوری، مہیشوری ، دیما کچھ مکس ، تر اور ” یعنی "مہاراجہ، راجوں کا رجہ، تمام لوگوں کا آقا عظیم آقا، دیما کچھ پھس محافظ ” ۔ ایک اور جگہ لکھا ہے کہ : ”مہاراجہ، راجہ دیراج ، دیم کچی کس یعنی شہنشاہ، بادشاہوں کا بادشاہ، وسیم کی سکس۔کس دوم کے دور حکومت کی ایک نمایاں بات یہ ہے کہ اس کے نام کے سکے بہت زیادہ تعداد میں ملے ہیں اور برصغیر میں دور دور تک ملے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس کا اقتدار پوری وادی سندھ پر تھا اور بھارت میں بنارس تک تھا۔ جنوب میں دریائے نربدا تک اس کا راج تھا۔ چینی مورخین نے اس کی (ین کاؤ۔ کسی دوم) کی عظمت کی بہت تعریفیں کی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس نے اپنی سلطنت کو متھر اتک پھیلا دیا۔ متھرا کے قریب ایک جگہ ”مت نامی ہے، وہاں پتھر کا ایک دیو ہیکل مجسمہ ہے جس میں شیر کی شکل والے تخت پر بادشاہ بیٹھا ہے اور اس کے پاؤں کے درمیان یہ عبارت کندہ ہے: ”مہاراجہ ، راجہ تی راجہ، دیوپتر ، کشان پیتر ، شاہی دیم بکشم، یعنی شہنشاہ ، بادشاہوں کا بادشاہ، خدا کا بیٹا، کشان کا بیٹا، بادشاہ دیم طاقتور۔ اس زمانے میں مشرقی سندھ، گجرات اور راجستھان میں جو شا کا بادشاہ رہ گئے تھے۔ کسی دوم نے انہیں اپنا ماتحت بنایا۔ شمالی ہند سے شاکوں کا راج ختم کر کے اپنے کشترپ مقرر کئے۔ یہ بات کہ سندھ اور گجرات کے شا کا کس دوم کی بالا دستی تسلیم کرتے تھے ۔ اس بات سے بھی ثابت ہے کہ شا کا شاہی نے ایک کیلنڈر جاری کیا تھا جو بظاہر ان کے اقتدار کے آغاز کو ظاہر کرتا تھا لیکن دراصل سن 78 عیسوی سے شروع ہوتا تھا اور سن 78 عیسوی وہ سال ہے جس کسی دوم تخت نشین ہوتا ہے جس نے انہیں اپنا ماتحت بنایا تھا۔ اس زمانے میں سندھ میں شاہ کا حاکم پشتن تھا جو شروع میں اپنے تمین کشتر پ پشتن لکھتا تھا اور بعد میں مہا کشتر پ بن گیا۔ یہ کس دوم کے ماتحت تھا۔ او پر شمال میں لداخ سے ایک پتھر پر کند تجرریلی ہے جس پر دیم کس کا نام کندہ ہے۔

شہنشاہ چین سے جنگ

ازھر وادی سندھ میں کشانوں کی حکومت تھی اور ادھر شہنشاہ چین جنوبی علاقوں کو فتح ـ

 

 

یہ مضمون شیخ محمد حیات کی کتاب "ضلع خوشاب تاریخ کے آئنے میں "سے لیا گیا ہے

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com