خوشاب

ضلع خوشاب: سکھا شاہی کا عروج زوال

شیخ محمدحیات

 

سکھا شاہی کا عروج زوال

تہمید

سکھ کے لفظی معنی مرید کے ہیں یہ لوگ اپنے گروؤں کے پرستار اور فدائی ہیں۔ ان کے کل دس گرو ہوئے ہیں جنہوں نے اس مذہب کو اپنے اپنے دور میں اصلاحات کر کے ایک نئے مذہب کا روپ دیا جواب سکھ مت کہلاتا ہے اس مذہب کے بانی بابا گرونانک تھے جو بہلول لودھی کے عہد میں موضع تلونڈی میں پیدا ہوئے۔ بابا نانک کی تعلیمات وحدانیت اور مساوات پر مبنی ہیں یہ اصول انہوں نے اسلام سے متاثر ہو کر اپنا لیے اور ہندو فلسفہ سے آواگون کا عقیدہ اپنایا۔ بابا صاحب 32 سال تبلیغ کرنے کے بعد جہان فانی سے کوچ کر گئے۔

گرونانک کی تعلیمات کے مقاصد :

ہندوؤں میں سے موجودہ برائیوں کو ختم کرنا۔
ہندو مسلم اتحاد پیدا کرنا۔
لوگوں کو کئی خداؤں کی بجائے ایک خدائے واحد کی طرف بلانا۔

تعلیمات :

انہوں نے پنڈتوں کی چالوں سے بچنے کی تلقین کی اور کہا کہ لوگ خود اندھے ہیں دوسروں کی کیا راہبری کریں گے ۔ ان کا مذہب صرف روپیہ کمانا ہے۔ اس لیے ان پاکھنڈی لوگوں کو چھوڑ کر بچے گرو کی اطاعت کرنی چاہیے۔ ذات پات انسانوں نے خود بنا رکھی ہے سب انسان برابر میں خدا کی نظر میں چھوٹے بڑے کا کوئی سوال نہیں ۔

اثرات :

بابا کی تعلیمات کی بدولت بھائی چارے کی فضا قائم ہوگئی۔

وفات :

آخر 22 دسمبر 1538ء کو اکہتر سال کی عمر میں دنیا سے کوچ کر گئے۔

گردانگد :

یہ سکھوں کے دوسرے گرو تھے ان کا اصل نام نہا تھا گرونانک کی خدمت کے صلے میں گرونا تک کی وفات کے بعد ان کا گدی نشین بنا۔

گروانگد کی خدمات :

گر وانگر نے گرونانک کی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے اور سکھوں کے مذہبی تشخص کو اجاگر کرنے کے لیے یہ اقدام کیے۔
گروانگر نے سکھ مت کو دوسرے مذاہب سے الگ تشخص دینے کے لیے ایک نئی زبان ایجاد کی اور نیا رسم الخط بھی متعارف کرایا جسے گرمکھی کا نام دیا گیا۔ گرونانک کے حالات زندگی کو اکٹھا کر کے محفوظ کیا نیز ان کے بھجن کو بھی اکٹھا کیا سکھ مت کے ضابطے مقرر کیے جس سے سکھ قوم سخت جان بنادی گئی۔ لنگر خانے قائم کیے جہاں پر کوئی کھانا کھا سکتا تھا اس طرح تبلیغ کی بھی صورت پیدا کی گئی۔ گردانگد کا 1552ء میں انتقال ہوا۔ اور یہ تیرہ سال تک سکھ مت کی خدمت کرتے رہے۔

گرو امر داس :

یہ 1479ء میں پیدا ہوئے گروانگد نے خدمت سے خوش ہو کر جانشین مقرر کیا۔

سکومت کے لیے خدمات :

سکھ مذہب کی تبلیغ کے لیے 22 چیلے مقرر کیے۔
اپنے پیروکاروں کے لیے شراب نوشی کو ممنوع قرار دیا۔
قصبہ گوبند وال میں مرکزی عبادت گاہ تعمیر کروائی۔
22 سال تک سکھ مت کی خدمت کر کے 1574ء میں وفات پاگئے ۔

گرو رامداس : 

یہ گرو امرد اس کے داماد تھے ان کو اکبر نے 500 بیگھہ زمین دینے کی پیشکش کی لیکن انہوں نے اس کے بدلے میں بارش نہ ہونے کے سبب غریب زمینداروں کو مالیہ معاف کرنے کی درخواست کی جو منظوری ہوئی۔ زمینداروں نے ان کی اس مہربانی سے خوش ہو دھڑا دھڑ سکھ مذہب قبول کرنا شروع کر دیا۔ انہوں نے امرتسر کا شہر بسایا۔ جو آج تک سکھ مذہب والوں کے لیے متبرک مقام رکھتا ہے۔ 1581ء میں ان کا انتقال ہوا۔

گروارجن مل :

یہ 1563ء میں پیدا ہوئے یہ عالم فاضل شخص تھے فارسی زبان پر عبور تھا۔

سکھ مت کے لیے خدمات :

انہوں نے امرتسر اور رامداس پور کے شہروں کو مکمل کرنے نیز دوسرے مذہبی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے سکھوں پر اپنی آمدنی کا دسواں حصہ بطور دان چندہ مقرر کیا۔ جس سے ان کی آمدنی میں اضافہ ہوا۔ انہوں نے چندہ اکٹھا کر کے لانے کے لیے بیساکھ کی پہلی تاریخ مقرر کی۔ اس طرح انہوں نے اس آمدنی سے نہ صرف شاندار عمارت تعمیر کروا ئیں بلکہ سکھوں کو سیاست میں داخل ہونے کا شعور دیا۔ جس کے لیے انہوں نے فوجی جتھے بنائے ۔ سکھ قوم کو تجارت کی طرف بھی راغب کیا جس سے یہ قوم آسود کا حال ہوگئی ۔ گرنتھ صاحب کی تدوین کا کام مکمل کیا جس میں سکھ گروؤں کے علاوہ مسلمان اور ہندو بھگتی پیشواؤں کے اقوال درج ہیں۔ یہ سب نظم میں ہیں اس طرح یہ کتاب ایک طویل نظم کی صورت میں مرتب ہوئی۔ اور یہ سکھ مذہب کی مذہبی کتاب ہے۔ سکھ مذہب میں حکومت خاص کرنے کے لیے جدو جہد کرنے کی بنیاد رکھی جس کے لیے فوج بنانی شروع کر دی۔ جہانگیر کے بیٹے خسرو نے بغاوت کی تو ان کو خسرو کی طرف داری کرنے کے سلسلے میں جہانگیر کے زمانے چند ولال نے قتل کرا دیا۔ جہانگیر کو جب معلوم ہوا تو اس نے چند ولال کو نوکری سے برخاست کر کے اسے گروارجن کے بیٹے گوہر گوبند کے سپرد کر دیا تا کہ وہ خود باپ کو قتل کا بدلہ لے۔

گرو گوبند :

جس وقت یہ گرو بنے اس وقت ان کی عمر صرف گیارہ سال تھی اپنے باپ کے قتل کی وجہ سے یہ بات ان کے ذہن میں سا گئی کہ زندہ رہنے کے لیے اپنے آپ کو عسکری لحاظ سے متظام کرنا ہو گا ۔

سکھ مت کے لیے خدمات :

جس وقت یہ گدی نشین ہوئے تو ان کی عمر صرف گیارہ برس تھی۔ انہوں مذہبی کام بابا گورد ته کو سونپ دیا اور خود سکھوں کو ایک عسکری قوت کے طور مضبوط کرنے میں لگ گئے ۔ انہوں نے داراشکوہ کی دی ہوئی جاگیر پر کیرت پور شہر بسایا جو پہاڑی علاقے میں ہونے کی وجہ سے سکھوں کو دفاعی لحاظ سے ایک محفوظ مقام میسر آ گیا۔ یہ کہنا درست ہوگا کہ پنجاب میں سکھ حکومت کی بنیا درکھنے والا یہی گر و تھا۔

گرو ہر رائے :

گرو ہر رائے صلح جو اور امن پسند انسان تھے۔ یہ دراشکوہ کے دوست تھے اور نگ زیب کے خلاف بھائیوں کی جنگ میں اس نے دارا کے لیے ایک سکھ فوج کا دستہ بھی روانہ کیا۔ جس سے اور نگ زیب کو اس کا یہ فعل ناگوار گزرا۔ آخر یہ 16 اکتوبر 1661 ء کو جہان فانی سے ہی کوچ کر گیا اور جھگڑے سے الجھنے کی نوبت نہ آئی۔

گرد هر یکشن :

یہ گرو ہر رائے کے چھوٹے لڑکے تھے۔ جب یہ گرو بنے اس وقت صرف عمر چھ سال تھی۔ یہ صرف دو سال گرور ہے اور چیچک کے مرض کی وجہ سے وفات پاگئے۔

گر و تیغ بہادر :

یہ گرد بڑے ٹھاٹھ سے رہتے تھے ۔ شاہوں کی طرح سواری پر نکلتے ۔ اس گرو کے زمانے میں سکھ سیاسی طاقت کے طور پر ابھرے اور ان کی اور نگ زیب سے مخالفت بھی ہو گئی ۔جب اور نگ زیب نے گرو کو وضاحت کے لیے دربار طلب کیا تو گر نے جانے کی بجائے اپنے ایک چیلے کو حکم دیا کہ میں سرجھکاتا ہوں اور تم تلوار کا وار کر کے سرکوتن سے جدا کرد و آخر بڑے شش و پنج کے بعد چیلے نے گرو کے حکم کے تحت ان کا سر تلوار کے وار سے تن سے جدا کر دیا۔

گرو گوبند سنگھ :

پر سکھوں کے دسویں اور آخری گرد تھے۔ جس وقت یہ گدی نشین ہوئے اس وقت ان کی عمر 9 برس تھی۔ اسی عمر سے ان کے ذہن میں مغلوں سے ٹکر لینے کی بات بٹھائی گئی۔ انہوں نے فاری ہندی اور سنسکرت پڑھ رکھی تھی اور ساتھ ہی فنون جنگ میں بھی کافی مہارت کر لی تھی۔

گورو گوبند کی تعلیمات:

سکھو ایسی جدو جہد کرو کہ جس سے پنجاب کی حکومت مسلمانوں سے چھین لو۔ ہندو کی طرح جس نے جنیو گلے میں پہن رکھا ہے وہ اس وقت تو ڑ دے۔ سکھ ہر وقت مسلح رہا کریں کبھی ہتھیار بدن سے نہ اتاریں اگر ہتھیار میسر نہ آئیں تو کم از کم ایک چھری کر پان اپنے پاس ضرور رکھیں ۔ پگڑی کو خوب چکر دے کر رکھیں۔ پیالے میں پانچ قسم کی شرینی حل کر کے اپنے پاؤں کے دانے انگوٹھے کو اس میں پھیر کر دس قبیلوں کے دس آدمیوں کو بلا کر پلایا اس شربت کو پاہل کہا جاتا ہے اس کے بعد ان سے عہد لیا
کہ آئندہ:۔
میں گرنتھ پر عمل کرونگا۔
جسم کے بال بڑھاؤں گا۔
صرف گرد سے محبت کرونگا۔
حقہ نہیں پیوں گا۔
جنہوں نے گرو کے ہاتھ سے پاہل پی لی ہے وہ اپنے قبیلے کو بھی پاہل لے جا کر پلائیں کا اضافہ کریں گے۔ گے ۔ اور جنہوں نے پال پی لی ہے انہوں نے سکھ مذہب قبول کر لیا ہے وہ اپنے نام کے ساتھ سنگھ سکھ آنکھوں میں سرمہ نہ لگا ئیں گے اور نہ ہی سرخ کپڑے پہنیں گے۔ سکھ ہر روز غسل کریں گے۔ ہر سکھ جائیداد کا چوتھا حصہ گرد کے خزانہ میں داخل کرائے گا۔ اس طرح جب گرو کے پاس کافی رو پید اور فوج اکٹھی ہوگئی تو اس نے پہاڑی راجوں سے چھیڑ چھاڑ شروع کر دی جس کی بناء پر انہوں نے اور نگزیب سے مدد کی درخواست کی۔ اور نگزیب نے لاہر اور سرہند کے حاکم زبر دست خان اور شمس الدین خان اور سکھوں وال کے معرکوں میں گرو کو شکست دی۔ کچھ عرصہ جنگلوں میں پھرنے کے بعد گرو نے اورنگ زیب سے صلح کر لی اور دکن میں ہی رہائش رکھ لی وہاں ہی ایک پٹھان نے اپنے والد کے بدلے میں موقع پاکر گرو کو قتل کر دیا۔

بندہ بیراگی :

اس کا اصل نام پچھن دیو تھا۔ یہ شخص انتہائی متعصب اور مسلمانوں کا سخت ترین دشمن تھا۔ وہ کئی سال تک سادھوؤں کے ساتھ پھرتا رہا۔ گرو گوبند سنگھ سے اس کی ملاقات دکن میں ہوئی اور جلد ہی اس کا معتمد خاص بن گیا۔ گرو گوبند نے اسے اپنا سیاسی جانشین مقرر کر کے پنجاب روانہ کیا۔اس نے کوہ شوالک کی پہاڑیوں میں اپنا اڈہ قائم کر کے مسلمانوں کی بستیوں کو لوٹنا شروع کر دیا۔ اس طرح آہستہ آہستہ اپنی کارروائیوں کا دائرہ وسیع کرتا گیا۔

شاہ عالم اور اس کے بعد :

شاہ عالم نے اس سے نمٹنے کے لیے لاہور کا رخ کیا لیکن وہ 1712ء کو وفات پا گیا۔ اس کے بعد جہان دارشاہ اور اس کے بعد فرخ سیر کے عہد میں عبدالصمد خان پنجاب کا گورنر مقرر ہوا۔ اس نے مسلمانوں اور ہندوؤں کو سر کے بال کٹوانے کا حکم دیا تا کہ سکھوں کا پتہ چل سکے۔ آخر کار اس نے بندہ بیرا گی کو پے در پے کئی شکستیں دیں۔ بندہ مجبور ہو کر لونگڑھ کے قلعے میں محصور ہو گیا۔ بعد میں ہتھیار ڈال دیئے ۔ 17 ستمبر 1715ء کو اسے گرفتار کر کے دہلی بھیج دیا گیا جہاں شاہ عالم کے مزار پر لے جا کر 740 ساتھیوں سمیت قتل کر دیا گیا۔

پنجاب کی سیاست اور سید برادران :

اور نگزیب کے بعد مغلیہ در بار مکمل طور پر محلاتی سازشوں میں گھر چکا تھا ا سازشوں میں دوسید بھائیوں حسین علی اور عبداللہ نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ 1719ء میں بہادر شاہ اول کے ہوتے روشن اختر کومحمد شاہ کے لقب سے تخت نشین کر دیا گیا۔ 1736ء میں نواب عبد الصمد کے لڑکے ذکریا خان کو لاہور کا گورنر مقرر کیا گیا۔ اس کے عہد میں جنگ پناہ بھٹی نے حسن ابدال سے دادی تک قتل و غارت کا بازار گرم کیا۔ اس بغاوت کو فرد کیا گیا۔ سکھوں کو بھی مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی۔

نادرشاہ کا حملہ:

1738ء میں نادر شاہ درانی نے لاہور پر حملہ کیا ذکریا خان نے 30 لاکھ دے کر لاہور اورعوام کو بچالیا واپسی پر پھر اس نے ایک کروڑ کا مطالبہ کیا جوکسی نہ کسی طرح ادا کر کے جان چھڑائی اور تمام جنگی قیدیوں کو رہا کر والیا۔

احمد شاہ ابدالی :

1747ء میں نادر شاہ کے قتل کے بعد اس کی سلطنت کے مشرقی حصے پر احمد شاہ ابدالی جو کہ اس کی فوج کا جرنیل تھا قابض ہو گیا۔ 1748ء میں احمد شاہ نے لاہور پر حملے کی غرض سے سرگودھا کے علاقے کو لوٹا اور لاہور پر حملہ کر کے زر کثیر لوٹ کر لوٹ گیا۔ اس کے بعد اس نے اس علاقے پر بار بار حملے کیے بچی کچھی کسر اس کے جرنیل نورالدین بامزئی نے نکال دی اس نے سرگودھا کے علاقے کو خوب لوٹا۔ بھیرہ میانی چک ساہنو اس کے خاص نشانہ بنے ۔ چک ساہنود نہ کے نقشے سے ہی مٹ گیا۔

سکھوں کا عروج :

احمد شاہ کے بار بار حملوں اور بجائے یہاں مستحکم حکومت قائم کرنے کے واپسی کی وجہ سے سکھوں کے لیے میدان صاف ہو گیا۔ کیونکہ مغلیہ سلطنت اپنے آخری دموں پر تھی ۔ احمد شاہ کی واپسی پر سکھ پھر علاقوں پر قابض ہو جاتے احمد شاہ کی وفات کے بعد اس کے لڑکوں کی خانہ جنگی کی وجہ سکھوں کا وہ ڈر بھی ختم ہو گیا۔ آخر نوبت یہاں تک پہنچی کہ امیر شاہ کے پوتے نے زمان شاہ نے رنجیت سنگھ کولا ہور کا گورنر بنادیا جس سے اس کی پوزیشن بے حد متحکم ہوگئی اور رفتہ رفتہ اس نے ساری مشکلوں کو ختم کر کے پورے پنجاب سرحد پر قبضہ کر لیا۔
خوشاب کا علاقہ مغلوں کے زوال کے بعد سکھوں اور افغانوں کی لوٹ مار کا شکار رہا۔احمد شاہ کے بیٹے تیمور شاہ اور پوتے زمان شاہ نے یہاں پر حکومت کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہوئے۔ حتی کہ رنجیت سنگھ کے دادا چڑت سنگھ نے احمد شاہ کے جرنیل نورالدین کو شکست دے کر جہلم تک کے علاقے پر قبضہ کر لیا مغلیہ اقتدار بہت مدت پہلے اس علاقے سے ختم ہو چکا تھا۔ مسلمانوں میں محلاتی سازشوں کی وجہ سے مقابلے کی ہمت ہی نہ تھی مقابلہ کون کرتا اور کس کے لیے کرتا۔ جب کہ حکومت نام کی کوئی شے ہی نہ تھی ۔ اس عرصہ میں سکھ مشکلوں نے اتحاد کر کے پورے پنجاب وسرحد پر قبضہ کر لیا۔ ان سب کو آخر کار رنجیت سنگھ نے نیچا دکھا کر پورے پنجاب پر قبضہ کر لیا اور مہاراجہ بن گیا۔ پورے پنجاب پر کسی پنجابی کی یہ پہلی حکومت قائم ہوئی چونکہ یہ سکھ حکومت تھی اس لیے مسلمان اس حکومت میں کافی پریشان رہے انہیں اذان دینے اور جانور ذبح کرنے کی اجازت نہ تھی یہی سبب تھا کہ بعد میں مسلمانوں نے سکھوں کے مقابلے میں انگریزوں کو نجات دہندہ سمجھ کر ان سے تعاون کیا۔ اور نگ زیب کے دور ہی میں اس کی دکن میں مصروفیت کی وجہ سے پنجاب میں سکھوں نے اپنی حالت کو کافی مضبوط بنالیا اور وہ اس قابل ہو گئے کہ آئندہ وہ مغلوں کو پنجاب سے بے دخل کر دیں اور بعد میں انہوں نے آہستہ آہستہ ایسا کر کے دکھایا۔ آخر کار رنجیت سنگھ کے زمانے میں ان کا پورے پنجاب پر قبضہ ہو گیا۔ جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔

سکھا شاہی کی ابتداء:

بابا گرونا تک بابر کے ہم عصر تھے انہوں نے ہندو مذہب کی خرابیوں سے تنگ آ کر اس کے خلاف مذہی جہاد کیا بت پرستی اور ذات پات کے خلاف مذہبی جہاد کیا بت پرستی اور ذات پات کے خلاف آواز بلند کی اور مساوات کی تعلیم دی۔ آہستہ آہستہ یہ مذہب پنجاب میں ترقی کرتا گیا۔ اس کے پیشواؤں نے سیاست میں بھی حصہ لینا شروع کر کے اور اپنی فوج بنانی شروع کر دی۔

 

 

یہ مضمون شیخ محمد حیات کی کتاب "ضلع خوشاب تاریخ کے آئنے میں "سے لیا گیا ہے

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com