خوشاب

ضلع خوشاب: مسلم دور حکومت کے علاقے پر اثرات

شیخ محمدحیات

 

مسلم دور حکومت کے علاقے پر اثرات

غزنوی وغوری کے عہد کے اثرات :

نورالدین محمد عوفی نے لباب الالباب ( تدوین 618 ھ م 1222ء) کی ایک فصل میں اس مرکز کا تذکرہ کرتے ہوئے مسعود سعد سلمان کو تین زبانوں (عربی، فاری، ہندی) کا شاعر قرار دیا ہے۔ اور اسر دیوان است، یکے به تازی، یکے به پاری، یکے بہ ہندوی۔ یہ ایک قریب العمد تذکرہ نگار کا بیان ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ اس دور میں ہندوی (قدیم اردو) کے خدو خال نمایاں ہو چکے تھے اور مسلمان شعرا اسے قابل اعتنا خیال کرنے لگے تھے۔ یہ زبان مشائخ کے آستانوں پر اور گلیوں و بازاروں میں مسلمان فاتحین اور مقامی باشندوں کے میل جول کے نتیجے میں تشکیل پا رہی تھی۔ امیر خسرو کے بیان سے بھی مسعود سعد سلمان کے ہندوی کلام کی تائید ہوتی ہے۔ جو مثنوی نہ پہر میں ہندوی کے علاوہ لاہوری ( پنجابی ) کا ذکر بھی کرتا ہے۔ غزنوی عہد کی یادگار کوئی عمارت تو محفوظ نہیں رہی لیکن اس دور کے بزرگان دین کی تبلیغی کاوشوں کا یہ ثمر ہے کہ لاہور صدیوں سے قبتہ الاسلام کی حیثیت سے بریدہ عالم پر موجود ہے۔ معز الدین محمد بن سام غوری کے ساتھ جب مسلمانوں کے قدم دہلی کی طرف بڑھتے ہیں تو غزنوی عہد میں پنجاب میں پروان پانے والی تہذیبی و معاشرتی روایت کے ساتھ ساتھ یہ ہندوی زبان بھی وہاں کے کوچہ و بازار میں پہنچ جاتی ہے۔

سلاطین دہلی کے علاقے پر اثرات :

ترائن کی فیصلہ کن جنگ (1196ء) نے برصغیر کی تاریخ کا ورق الٹ دیا۔ 1193ء میں دہلی اور اجمیر مسلمانوں کے قبضے میں آئے اور چھ سال کے عرصے میں بنگال تک سارا شمالی ہند ان کے زیر نمین آ گیا۔ سلطان نے مفتوحہ علاقوں میں قطب الدین ایبک کو نائب السلطنت مقرر کیا۔ توسیع سلطنت کے بعد دہلی کو مرکزی حیثیت سے حاصل ہوگئی ۔ تاہم پنجاب کو اس کے بعد بھی صدیوں تک سلطنت کے ہیں کیمپ کا درجہ حاصل رہا۔ سلطان معز الدین محمد بن سام کی شہادت ( 1206ء) کے بعد ان کے بھتیجے سلطان غیاث الدین محمود نے قطب الدین ایک کو سلطان کا خطاب عطا کیا اور وہ ( 1206ء ) مٹک لاہور میں برصغیر کے پہلے خود مختار مسلم فرمانروا کے طور پر سریر آرائے سلطنت ہوئے ۔ وہ جود وسخا کی وجہ سے عوام میں لکھ بخش کے لقب سے مشہور تھے ۔ سلطان قطب الدین ایک کو اپنے معاصر والیوں تاج الدین یلدز (غز نہ ) اور ناصر الدین قباچه (سندھ و ملتان) کے جارحانہ عزائم کی وجہ سے زیادہ تر پنجاب میں رہنا پرا اور یہیں چوگان کھیلتے ہوئے 1210ء میں وہ راہیے ملک عدم ہوئے انہوں نے چودہ سال تک نائب السلطنت اور پانچ سال تک خود مختار حکمران کے طور پر حکومت کی۔ ان سے خاندان غلاماں کی حکومت کا سلسلہ شروع ہوا ۔ جو 1290 ء تک رہا اور اس کے بعد مرکز سلطنت دہلی میں مندرجہ ذیل حکمران خاندان سر برا اقتدار آئے۔
سلاطین خلیجی صبی 129ء تا 1320
سلاطین تغلق :  1320 ء تا 1413
سلاطین سادات : 1414 ء تا  1450
سلاطین لودھی: 1451  ء تا  1526

ان حکمران خاندانوں کے زمانے میں پنجاب کو سلطنت کے قیام و استحکام میں بڑی اہمیت حاصل رہی ۔ کیونکہ مرکز میں جب کوئی حکمران خاندان زوال پذیر ہوتا تو نیا حکمران خاندان پنجاب سے جا کر اس کی جگہ سنبھالتا تھا۔ اس طرح مرکز سلطنت کی رگوں میں پنجاب کا تازہ خون رواں دواں رہتا تھا۔ دوسرے برصغیر کی اسلامی سلطنت کے دفاع میں پنجاب ایک اہم حصار تھا۔ خصوصاً چنگیز خانی تاتاریوں کی متواتر یلغاروں نے پنجاب کو عرصہ دراز تک میدان حرب و ضرب بنائے رکھا لیکن یہ سیلاب یہ ہیں جذب ہو جاتا رہا، دیلی اس کے ریلے سے محفوظ رہی سلطان شمس الدین کے عہد (1210ء – 1235ء) میں چنگیز خاں نے صحرائے گوبی سے خروج کیا اور خوارزم شاہی کا خاتمہ کر کے تاتاری ٹڈی دل کی طرح ترکستان، خراسان و ایران میں پھیل گئے ۔ چنگیز خاں سلطان جلال الدین منکرنی کا تعاقب کرتے ہوئے دریائے سندھ تک آیا سلطان جلال الدین دریائے سندھ عبور کر کے چند ماہ سون سکیسر میں رہا اور پھر ملتان ،سندھ اور ایران سے ہوتا ہوا عراق چلا گیا۔ تاتاریوں کی اس پہلی یلغار سے پنجاب محفوظ رہا لیکن آئندہ کے لیے یہ خطرہ مسلسل بن گیا ۔ 1410ء میں منگولوں نے لاہور کو تسخیر کر کے اسے لوٹا اور تاراج کیا غیاث الدین بلبن نے سلطان ناصر الدین محمود کے نائب السلطنت کی حیثیت سے جہاں ملک میں نظم و نسق قائم کیا وہاں تا تاری حملوں کا سد باب کرنے کے لیے پنجاب کے اکثر شہروں میں مضبوط قلعے بنائے اور یہاں سامان حرب ضرب سے لیس افواج مقرر کیں۔ دفاعی نظام کو بہتر بنانے کے علاوہ بلبین نے تاتاریوں سے دوستانہ مراسم قائم کرنے کی بھی کوشش کی اور 1258ء میں ہلاکو خان کے دربار میں سفیر بھیجے ۔ بلبن نے ہمیں سال تک نائب السلطنت کی حیثیت سے اور 21 سال تک (66)۔ 1287ء) حاکم سلطنت کی حیثیت سے برصغیر میں بڑے رعب و دبدبے اور دانش و حکمت سے حکومت کی پنجاب کو اس کے عہد و وزارت وسلطنت میں عسکری لحاظ سے بڑی اہمیت حاصل رہی۔ تا تاری بار بار یہاں آئے اور اس دفاعی حصار سے ٹکر اٹکرا کر واپس چلے جاتے ۔ اسی حرب و پریکار میں بلین کا بہادر اور لائق فرزند سلطان محمد 1286ء میں لاہور اور دیپالپور کے درمیان تاتاریوں سے جنگ کرتے ہوئے شہید ہوا۔ امیر خسرو اور امیر حسن سجری نے اس واقعہ پر بڑے پر درد مرثیے لکھے۔ سلطان کو اپنے بہادر فرزند اور ولی عہد کی شہادت کا اتنا رنج ہوا۔ کہ بقیہ عمر اس نے بڑے غم واندوہ میں گزار کر جان جان آفرین کے سپرد کی۔ تاہم پنجاب میں تغلقوں کا اقتدار محفوظ رہا۔ اور سلطان فیروز شاہ تغلق کے طویل عہد (1351ء) میں مرکز کے علاوہ یہاں بھی نئے شہر بسائے گئے، عمارتیں تعمیر ہوئیں نہریں کھودی گئیں۔ جن سے زمین سرسبز و شاداب ہوئی اور باغات لگائے گئے ۔ فیروز تغلق کے عہد میں حدود د سلطنت گھٹ گئی تھیں۔ لیکن یہ دور خوشحالی اور فارغ البالی کا تھا جس میں پنجاب بھی شریک تھا اس کے بعد 1413 ء تک چار تغلق سلاطین یکے بعد دیگرے برسراقتدار آئے لیکن سلطنت میں ضعف آپ کا تھا۔ 1398ء۔1399ء میں امیر تیمور نے حملہ کیا اور لاہور دیپالپور پر قبضہ کرنے کے بعد دہلی کی طرف بڑھا۔ سلطان محمود تغلق نے مقابلہ کیا اور شکست کھا کر گجرات کی راہ لی ۔ 18 دسمبر 1398ء کو تیمور فاتحانہ دہلی میں داخل ہوا اور پانچ روز تک یہاں قتل عام جاری رہا۔ دہلی کے بعد گر دونوح کے علاقوں کو برباد کر کے تیموری لشکر واپس ہوا۔ تیمور نے واپسی پر لاہور ملتان اور دیپالپور کو خضر خان کے سپرد کیا اور خود سمرقند کا رخ کیا۔ تیموری تخت و تاراج کے اثرات مرکز سلطنت اور پنجاب میں عرصے تک محسوس کئے گئے۔ محمود تغلق (وفات 1413ء) اپنے دارالحکومت میں واپس آیا۔ لیکن نظام سلطنت اس سے بحال نہ ہو گا۔ پنجاب کے حاکم خضر خان نے 1414 ء میں دہلی کو فتح کر کے یہاں خاندن سادات کی حکومت قائم کی اس خاندان کے چار سلاطین نے 37 سال تک دہلی اور اس کے گردو نواح میں حکومت کی ۔ وہ سلطنت دہلی کی قدیم حشمت بحال نہ کر سکے۔ سادات اپنے آپ کو امیر تیمور کا نائب سمجھتے تھے ۔ اس دوران پنجاب میں لودھی افغانوں کو اقتدار حاصل ہوا ۔ دیپالپور اور سر ہند کے والی بہلول لودھی نے 1451ء میں دہلی پر قبضہ کیا آخری سادات حکمران علاؤالدین عالم شاہ بدایوں چلا گیا تھا اور کاروبار سلطنت سے دستبردار ہو گیا تھا۔ بہلول لودھی نے اپنے تدبر اور دانشمندی سے مرکز سلطنت کے وقار کو بحال کیا۔ باغی امراء کی سرکوبی کر کے جونپور تک کھوئے ہوئے علاقے فتح کیے اور اپنے عہد (1451ء – 1488ء) میں شمالی ہند میں مسلمانوں کے اقتدار کو دوبارہ مضبوط کر کے پہلی افغان حکومت قائم کی ۔ بہلول لودھی ایک فراخدل اور سادا مزاج حکمران تھا۔ اس نے اس نظم و نسق کو قائم کیا۔ اور عدل و انصاف کو جاری کیا۔ اس کے عہد میں زراعت و تجارت کو ترقی ہوئی۔ پنجاب میں پٹھانوں کی بہت سی بستیاں آباد ہوئیں ۔ سکندر لودھی (1488ء۔1517ء) نے بھی اپنے باپ کے اس کام کو جاری رکھا اور فتوحات کے حصول کے علاوہ نظم وضبط قائم کیا۔ اس نے 1504ء میں نیا دار الحکومت سکندر آباد (آگرہ) تعمیر کیا۔ سکندر لودھی کے بعد اس کا بڑالڑ کا ابراہیم لودھی تخت نشین ہوا جو اس خاندان کا آخری تاجدار تھا۔ اس کے بھائیوں اور امرا نے بغاوتیں کیں۔ پنجاب کے گورنر دولت خاں لودھی نے کابل سے ظہیر الدین بابر کو دہلی پر حملہ آور ہونے کی دعوت دی جسے قبول کر کے بابر یہاں آیا۔ 1524ء میں بابر نے لاہور پر قبضہ کیا اور اس شہر کو لوٹ کر واپس ہوا ۔ 21 اپریل 1526ء کو پانی پت کی پہلی تاریخی جنگ ہوئی جس میں سلطان ابراہیم کو شکست ہوئی اور وہ مارا گیا۔ بابر نے دہلی و آگرہ پر قبضہ کر کے برصغیر میں مغلیہ سلطنت کی بنیا د رکھی ۔
ترک و افغان سلاطین کا یہ پانچ سوسالہ دور ( جس میں پونے دوسو سال تک مسلمان پنجاب تک محدود رہے اور بعد میں دہلی مرکز سلطنت رہا اس لحاظ سے قابل ذکر ہے کہ اس طویل عرصے میں پنجاب سیاسی قوت کا سرچشمہ رہا۔ ابتدائی فاتحین اگر چہ نسلا ترک تھے لیکن غزنی سے تعلق مقطع ہو جانے کے بعد برصغیر میں انہیں طاقت کے اعتبار سے خود کفیل ہونا پڑا۔ تاتاریوں کی یلغار کے نتیجے میں وسط ایشیا، خراسان، ایران تباہ و برباد ہو گئے۔ مرکز خلافت بغداد کی تباہی (1258ء) کے بعد ایشیاء میں مسلمانوں کے لیے برصغیر ہی ایک گوشہ عافیت تھا۔ یہاں کے مسلمانوں نے نہ صرف تباہ حال مہاجرین کو پناہ دی بلکہ اپنی حفاظت کا سامان بھی کیا اور تاتاریوں کی وحشیانہ بلغاروں کو پنجاب کے میدانوں میں روک کر ان کا رخ پھیر دیا۔ مرکزی سلطنت میں جب کوئی سیاسی بحران پیدا ہوا تو پنجاب نے اسے بھی دور کر کے مرکزی حکومت کے وقار کو بحال کیا۔ اس لحاظ سے سلاطین دہلی کے درباروں اور دارالسلطنت میں اہل پنجاب کا اثر ورسوخ مسلم تھا۔ اس عہد میں ملتان، بھیرہ، دیپالپور، لاہور اور سر ہند پنجاب کے اہم مراکز تھے۔ دیپالپور کو دور سلاطین میں پنجاب کے دارالحکومت کی حیثیت حاصل تھی ۔ اگر پانچ سوسال کے اس طویل زمانے میں دہلی اور پنجاب زبان میں کوئی زیادہ مغائرت پیدا نہ ہوئی تو اس کی ایک بڑی وجہ اہل پنجاب کی مرکز میں اثر پذیری تھی ۔ مغلیہ دور میں پنجاب کی یہ سیاسی اہمیت کم ہوگی ۔ کیونکہ پانچ سو سال کے بعد یہ پہلا خاندان تھا۔ جو پنجاب کی بجائے وسط ایشیا سے آکر یہاں حکمران بنا اور اسے اپنے اقتدار کے استحکام کے لیے نئی حکمت عملی وضع کرنی پڑی جس کے باعث پنجاب پر انحصار کم ہو گیا اور پنجاب کی بجائے کا بل قندھار اور کشمیر آنے جانے کے لیے ایک گزرگاہ یا پڑاؤ بن گیا۔

بزرگان دین کی خدمات :

ابتدائی ترک سلاطین نے اپنی ترکانہ خصوصیات ( شوکت و حمل ، شجاعت و بہادری مهم جوئی و خطر پسندی) اور اسلامی عصبیت کو بڑی شدت سے برقرار رکھا۔ یہ لوگ فاتح تھے ایک اور عظیم الشان تہذیب و تمدن کے نمائندے بن کر یہاں آئے تھے جس میں عرب کا سوز اور عجم کا ساز مل کر ایک نیا اسلوب حیات ( جلال و جمال ) نمایاں ہو رہا تھا۔ یہ اس زمانے کی ترقی یافتہ اور برتر . تہذیب تھی جس کے سامنے وحشی تا تاری بھی زیادہ دیر تک نہ ٹھہر سکے ۔ عربی ، فارسی ، ترکی زبانیں اور ان کا ادب اس تہذیب کی نمائندگی کر رہا تھا اس کے مقابلے میں برصغیر صدیوں سے سیاسی، ذہنی اور فکری انتشار میں مبتلا تھا۔ ہندو تہذیب طبقاتی اونچ نیچ کی وجہ سے پسماندگی کا شکار تھی جو مسلمانوں سے قبل آنے والی نیم وحشی فاتحین کو تو اپنے اندر جذب کر لیتی رہی۔ لیکن نئے فاتحین کے سامنے اس تہذیب کا چراغ نہیں جل سکتا تھا۔ جو تو حید کے عقیدے کے ساتھ انسانی اخوت مساوات کا پیغام لے کر یہاں آئے تھے۔ تاہم ہندو معاشرہ ذات پات کے بندھنوں میں جس طرح جکڑا ہوا تھا اس کا اسلامی معاشرے اور تہذیب کے اندر جذب ہو جانا بھی اتنا آسان نہیں تھا۔ اس لیے قدرتی طور پر شروع میں فاتح و مفتوح میں سخت مغائرت رہی ۔ فاتح اپنی قوت و حشمت اور تہذیبی برتری میں سرشار تھے۔ تو مفتوح حیرت وشرمساری میں گرفتار لیکن فاتحین نے مقامی ہندور عایا سے نرمی کشادہ دلی اور مہربانی کا سلوک کر کے ڈر اور خوف کی فضا کو بہت جلد دور کر دیا خلجی تغلق، سادات اور لودھی عہد میں نرمی اور اعتدال کے مسلک میں اور بھی وسعت پیدا ہوئی اور حکمران اپنی ہندو اور مسلم ساری رعایا سے یکساں عدل وانصاف کرنے اور ان کے حقوق کا خیال رکھنے لگے۔ حکمرانوں کی کشور کشائی اور جہاں بانی سے الگ معاشرتی روابط اور تہذیبی و فکری نفوذ کا ایک دوسرا میدان بھی تھا۔ صوفیا و مشائخ کے متعد سلسلوں نے تبلیغ دین اور تسخیر قلوب کے لیے برصغیر کے مختلف گوشوں میں روحانی مراکز قائم کیے ۔

مغلوں کے عہد کے علاقے پر اثرات :

پانی پت کی پہلی جنگ (21 اپریل 1526ء) کے بعد فتح مند بابر نے دہلی و آگرہ پہنچ کر مغل بادشاہت کی بنیاد رکھی۔ بابر کا جد امجد تیمور سوا سو سال قبل دہلی فتح کر چکا تھا۔ لیکن اس نے برصغیر کے مفتوحہ علاقوں کو اپنی سلطنت میں شامل نہ کیا تھا۔ بابر نے وسط ایشیاء میں اپنی موروثی سلطنت ( سمرقند ) کے حصول میں ناکام ہو کر ہندوستان میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا تھا۔ اور اس مقصد میں وہ کامیاب رہا اس لحاظ سے برصغیر میں پانچ سوسال کے بعد یہ پہلا خاندان تھا جو وسط ایشیا سے آکر یہاں حکمران ہوا تھا۔ پہلے فرمانروا سلاطین کہلائے تھے ( اور بعض سلاطین کو دربار خلافت سے خلعت وفرمان بھی عطا ہوتے رہے لیکن بابر نے اس سلسلے کو منقطع کر کے بادشاہ کا لقب اختیار کیا تاہم تیموری بادشاہت کو اپنے استحکام کے لیے ابھی کچھ صبر آزما مراحل سے گزرنا تھا۔ پہلا مرحلہ راجپوتوں کی متحدہ قوت سے ٹکراؤ تھا جو میواڑ کے رانا سانگا کی قیادت میں غلبہ ہنود کے لیے کوشاں تھی ۔ سلاطین دہلی کے عہد میں بھی راجپوت راجاؤں نے کبھی کبھار سر اٹھایا لیکن سلطان محمود معز الدین محمد بن سام اور ان کے بعد بلبن ، علاء الدین خلجی مد تعلق جیسے کشور کشاؤں نے برصغیر میں رعب و دبدبے کی فضاء قائم کر کے صدیوں تک ہنود پر ایسی ہیبت طاری کیسے رکھی کہ مقامی راجاؤں کو راجستان سے باہر نکالنے اور متحدہ محاذ بنانے کی کبھی جرات نہ ہوئی تھی ۔ سلطان ابراہیم لودھی کے خلاف بابر کو دعوت دینے والوں میں بعض لودھی سرداروں کے علاوہ رانا سانگا بھی شامل تھا اس کا خیال تھا بابر بھی تیمور کی طرح فتح کے بعد لوٹ مار کر کے واپس چلا جائے گا اور میدان اس کے لیے خالی ہو گا۔ اس لیے وہ پانی پت کی جنگ میں الگ تھلگ رہ کر نتائج کا منتظر رہا۔ جب فتح کے بعد بابر نے یہاں بادشاہت کی طرح ڈالی تو رانا سانگا ایک لاکھ راجپوتوں کا لشکر جرار کے ساتھ خم ٹھونک کر میدان میں نکل آیا۔ بابر کے لیے یہ معرکہ آرائی پہلے سے کہیں زیادہ دشوار تھی۔ چنانچہ اس معرکے میں اس نے مادی وسائل سے زیادہ روحانی اقدار کا سہارا لیا ،شراب سے توبہ کی اور اسلام کے نام پر جہاد کا اعلان کیا۔ اس جذب و شوق کا نتیجہ تھا کہ کنواہ کی فیصلہ کن جنگ (16 مارچ 1527ء) نے مسلمانوں کو کامیاب اور راجپوتوں کی متحدہ قوت کو پاش پاش کر دیا۔ دوسرا مرحلہ افغانوں کی مخاصمت کا تھا۔ پانی پت کے میدان میں ابراہیم لودھی کو شکست ہوئی تھی لیکن افغان سرداروں نے بھی حوصلہ نہیں رہا اور اپنے اقتدار کی بازیافت کے لیے ان کی کوششیں جاری تھیں جن کا خمیازہ بابر کے جانشین ہمایوں کو بھگتنا پڑا۔ تیسرا مرحلہ برصغیر کے عوام سے رابطے کا تھا۔ جو صدیوں سے منگولوں کی یلغاروں کے خوگر تھے اور بابر اور اس کے لشکر کو بھی اسی قسم کے حملہ آور سمجھ رہے تھے ۔ یہ خوف دور کر کے عوام کے دلوں میں جگہ بنانی بھی بادشاہت کی کامیابی کے لیے ضروری تھی ۔ چنانچہ بابر نے اپنی وفات (1530 ء) سے پہلے ہمایوں کو رعایا کے مختلف عناصر سے رواداری اور انصاف سے پیش آنے کی نصیحت کی اور ساتھ ہی بھائیوں سے فیاضانہ سلوک کرنے لیکن ان پر کڑی نگاہ رکھنے کی تلقین کی ۔ یہ دونوں امور آئندہ تیموری بادشاہت کے لیے بڑی اہمیت کے حامل رہے۔ جنہوں نے پنجاب کے مسلمانوں کو خوشحالی اور فارغ البالی تو دی لیکن ساتھ ہی انہیں اس ذمے داری سے سبکدوش اور خود اعتمادی سے محروم کر دیا۔ جو پانچ صدیوں تک ان کا طرہ امتیاز رہا تھا۔ تیموریوں کے اس درخشاں عہد میں لاہور کا ستارہ عروج اقبال چپکا ۔ بابر کے جانشینوں نے لاہور کو خوب رونق دی اور اسے واقعی ایک تختہ گزار بنادیا۔ ہمایوں نے پنجاب، کابل، قندھار اپنے چھوٹے بھائی کامران کو دیئے ۔ کامران نے لاہور میں خوشنما عمارتیں بنوائیں ۔ شیر شاہ سوری نے 1540 ء میں پنجاب پر قبضہ کیا تو لاہور سے ایک اور دیلی تک شاہراہ اعظم تعمیر کی جو آگے بنگال تک چلی گئی لاہور اور ملتان کے درمیان بھی پختہ سڑک بنوائی اور ان سڑکوں پر جگہ جگہ کاروان سرا ئیں، چوکیاں بنا ئیں اور درخت لگوائے۔ جہلم کے قریب قلعہ رہتاس بنایا تا کہ اس علاقے میں امن وامان قائم ہو ۔ ہمایوں کی واپسی پر کچھ عرصہ پنجاب میں ہل چل رہی اور اس کے بعد آگرہ تیموریوں کا مرکز حکومت بن گیا اور دہلی آگرہ کے علاقوں کو مرکزی حیثیت حاصل ہو گئی۔ پنجاب اب نہ سرحدی علاقہ تھا اور نہ مرکزی مقام اس لیے اس صوبے کی دفاعی اور سیاسی لحاظ سے وہ اہمیت نہ رہی جو سلاطین دہلی کے زمانے میں تھی۔ تاہم پنجاب مرکز سلطنت کے قریب تھا اور دار الحکومت ے کشمیر، کابل، بدخشاں، قندھار، سندھ اور بلوچستان جاتے ہوئے ایک اہم پڑاؤ تھا جہاں سے کبھی کبھی شاہی قافلے بھی گزرتے تھے ۔ اس لیے اس شاہی گزرگاہ پنجاب کے مرکز لاہور کو تیموریوں کے دور اقتدار میں بڑی رونق حاصل ہوئی۔ اکبر 1584 ء اور 1598 ء کے دوران لاہور میں رہا اور قلعہ لاہور کی تعمیر کروائی۔ جہانگیر اور شاہجہان کشمیر آتے جاتے لاہور میں قیام کرتے ۔ جہانگیر کی وفات 1627ء میں کشمیر سے آتے ہوئے راجوری میں ہوئی تو اس کا مدفن لاہور بنا۔ نور جہان نے اپنی بیوگی کا زمانہ ہیں گزار کر 1646ء میں انتقال کیا اور اپنے مرحوم شوہر کے قریب شاہدرہ میں دفن ہوئی۔ شاہجہان کے عہد میں شالیمار باغ ، مسجد وزیر خاں (1045ھ) اور بہت سی دوسری عمارات تعمیر ہوئیں۔ داراشکوہ کو بھی لاہور سے بڑا انس تھا۔ کیونکہ اس کے مرشد میاں میر یہیں تھے ۔ اور نگ زیب عالمگیر کو اپنی دکن کی مہمات کی وجہ سے ادھر آنے کے مواقع کم ملے ۔ تاہم ان کے عہد میں پنجاب امن و عافیت کا گہوارہ بنا رہا۔ عالمگیر نے بادشاہی مسجد تعمیر کروا کے لاہور کے حسن میں اضافہ کیا اور راوی پر کئی میل لمبا پختہ بند بنوا کر شہر کو سیلاب سے محفوظ کیا۔ اگر چه وسیع و عریض مغل سلطنت میں پنجاب اپنی سابق سیاسی اہمیت کا حامل نہ رہا تھا لیکن خوشحالی و فارغ البالی میں یہ صوبہ بھی کسی سے پیچھے نہ تھا۔ ثقافتی و تہذیبی لحاظ سے اس دور میں پنجاب نے بھی بڑی ترقی کی سلطنت کے مراکز آگرہ اور دہلی میں ایرانی و تورانی اثرات کے تحت نیا ہندوستانی رنگ ثقافت ابھر رہا تھا۔ مرکز میں پنجاب کا غلبہ واثر نسبتاً کم ہونے لگا تھا۔ اس لیے یہی زمانہ ہے جس میں پنجاب اور دیلی و آگرہ کے مابین لسانی اختلافات ابھر نے لگے اور مرکز سلطنت کا پانا محاورہ روز مرہ بنے لگا۔

مغلوں کے زوال اور سکھا شاہی دور کے اثرات :

اور نگ زیب عالمگیر کے عہد میں تیموری سلطنت کی حد پورے برصغیر کا احاطہ کرنے کے علاوہ شمالی مغرب میں بدخشاں اور کابل و ہرات اور مشرق میں اراکان برما تک پھیلی ہوئی تھیں اور ملک میں کوئی فتنہ و فساد باقی نہیں رہا تھا۔ لیکن احمد نگر دکن میں عالمگیر کی آنکھیں بند ہوتے ہی زوال کے سائے پھیلنے لگے ۔ مغلوں کے نظام حکومت کا سب سے نازک مسئلہ دراشت تخت و تاج کا تھا جو باہر سے لے کر عالمگیر تک ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں سر اٹھا تارہا۔ ہمایوں کے لیے سب سے زیادہ دردسر کا باعث اس کے بھائی بنے ۔ اکبر کو بھائی حکیم مرزا اور فرزند سلیم کی بغاوتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جہانگیر کو بھی اپنے بیٹوں خسرو اور خرم کی سرکشی سے واسطہ پڑا۔ شاہجہان کی زندگی ہی میں اس کے چاروں فرزند دارا، شجاع، اور نگ زیب اور مراد حصول تخت کے لیے نبرد آزما ہوئے ۔ تاہم ان مغل شہزادوں کی اس فطری خواہش کے خون آشام اظہار نے سلطنت کے نظم و نسق اور عام کاروبار زندگی کو زیادہ متاثر نہ ہونے یا اول تو معرکہ آرائی کے بعد اعلیٰ صلاحیتوں کا حامل شہزادہ وارث تخت و تاج بفتا۔ پھر وہ کامیابی کے بعد اپنے حریفوں کے امرا و سرداروں کو معاف کر کے ان کے منصب بحال رکھتا اور سلطنت کے قیام و استحکام میں ان سے مدد لیتا اور پھر قدرت نے انہیں بادشاہت کے لیے اتنی مہلت دی کہ وہ اپنی صلاحیتوں کا بھر پور اظہار کر سکے۔ اس لیے ان کی تخت نشینی کے خونریز واقعات لوگوں نے فراموش کر کے ان کی ملکی خدمات کو سراہا۔ لیکن عالمگیر کے بعد یہ باتیں تقریباً مفقود ہو گئیں اور تخت و تاج کے لیے جنگوں کا جو طویل سلسلہ شروع ہوا اس نے دس پندرہ سال میں عظیم مغل سلطنت کی طنابیں ہلا کر رکھ دیں اور زوال و انحطاط کا عمل تیزی سے شروع ہو گیا۔ اس عمل کے اثرات مختلف صوبوں میں اپنے اپنے حالات کے مطابق ہوئے ۔ ہم یہاں صرف پنجاب کے حالات پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں گے۔ عالمگیر کی وفات کے بعد شہزادوں ( معظم اعظم، کام بخش ) کے مابین حصول تخت کی جنگیں ہوئیں۔ محمد معظم نے کامیاب ہو کر بہادر شاہ کے لقب سے تخت شاہی کو رونق بخشی اس کا پانچ سالہ عہد راجپوتوں اور سکھوں کی شورش کو فرد کرنے میں گزرا۔ پنجاب میں گورو گوبند کے بعد اس کے ایک چیلے بندہ بیراگی نے شورش برپا کی اور کر نال ولدھیانہ کے علاقوں میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا اور پھر تلج پار کر کے کئی شہروں اور قصبوں کولوٹتا ہوا لا ہور تک آپہنچا۔ لاہور کے گورنر سید اسلم نے شہر سے نکل کر اس کا مقابلہ کیا اور ہزیمت اٹھائی۔ بہادر شاہ خود اس فتنے کے استبیصال کے لیے پنجاب آیا۔ بندہ بیرا گی شاہی افواج کے مقابلے کی تاب نہ لا کر پہاڑوں میں روپوش ہو گیا۔
1712ء میں بہادر شاہ اس شورش کو دبا کر اپنے چاروں بیٹوں جہاندار عظیم الشان رفیع الشان، جہاں شاہ سمیت لاہور میں تھا کہ اسے پیغام اجل آپہنچا۔ باپ ابھی نزع کے عالم میں تھا کہ چاروں شہزادوں نے حصول تخت کے لیے جدال و قتال کا آغاز کر دیا۔ یہ جنگ لاہور کے نواح میں راوی کے کنارے کئی روز تک جاری رہی۔ پہلے جہاندار شاہ اور عظیم الشان کے درمیان معرکہ آرائی ہوئی جس میں عظیم الشان، اس کے بیٹے اور بے شمار امرا و سپاہی کام آئے ، پھر جہاندار شاہ اور جہان شاہ میں تصادم ہوا۔ اس میں بھی جہاندار کامیاب ہوا۔ آخر میں رفیع الشان اور جہاندار شاہ کی افواج ٹکرائیں جس میں رفیع الشان مع اپنے تین فرزندوں کے بہادری سے لڑتا ہوا مارا گیا ۔ تقریباً تین ہفتے کی اس خون آشام جنگ کے بعد جس میں خون بردار پانی کی طرح بہا، جہاندار شاہ باپ اور بھائیوں کی میتوں کو لے کر دہلی روانہ ہوا۔ مقتول شہزادوں کی افواج منتشر کرد دی گئیں ۔ نامور امرا موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے ۔ بچے کھچے امرا کوطوق وسلاسل میں جکڑ کر دہلی پہنچایا گیا۔ اس طرح حریفان اقتدار کو خاک و خوں میں ملا کر جہاندار شاہ نے تخت شاہی پر قدم رکھا۔ جہاندار شاہ تیمور ہی خاندان کا پہلا بدترین حکمران تھا جس نے کامیابی کے بعد ذمہ داری سے بے نیاز ہو کر ظلم و ستم اور عیش و نشاط کی راہ اختیار کی ۔ سلطنت کے دست و باز امرا مقبول اور محبوس ہوئے اور شاہی قلعہ طوائفوں اور بھانڈوں کا مسکن بنا۔ لیکن یہ دور ایک سال بھی نہ چل سکا۔ عظیم الشان کے بیٹے فرخ سیر نے سادات بارہہ کی مدد سے بلاو شرقیہ سے آکر جہاندار شاہ کے اقتدار کا خاتمہ کر دیا اور وہ اپنے عبرت انگیز انجام کو پہنچا۔ فرخ سیر کے چھ سالہ عہد میں بھی کئی امرا کو قید و بند کے حوالے اور کئی مغل شہزادے نور بصارت سے محروم کر دیئے گئے۔ اقتدار پر سادات بار ہ کی گرفت مضبوط تھی ۔ فرخ سیر کے دور حکومت میں انگریزوں کو تجارتی حقوق ملے۔ راجپوتوں اور سکھوں کی بغاوتیں فرد ہوئیں۔ لاہور کی جنگ تخت نشینی کے بعد بد نظمی و انتشار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پنجاب میں بندہ بیراگی نے پھر سر اٹھایا۔ اس نے سرہند پر قبضہ کر کے وہاں مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ پھر ستلج، بیاس اور راوی کے درمیان کئی قصبوں کو جلا کر تباہ کر دیا اور مسلمانوں کو قتل و غارت کر کے اس کے ایک حصے کو آگ لگا دی جو بعد میں اس کے نتیجے میں کھنڈے کھولے کہلا تا رہا۔ بندہ بیراگی غارت گری سے لاہور بھی نہ بچ سکا۔ فرخ سیر نے نواب عبدالصمد خاں کو لاہور کی صوبیدار پر مامور کر کے بندہ بیراگی کی سرکوبی کا حکم دیا۔ نواب عبد الصمد نے سکھوں کو شکست دے کر گورداسپور کے قلعے میں محصور کر لیا۔ کئی ماہ کے محاصرے کے بعد سکھوں نے ہتھیار ڈالے۔ بندہ بیراگی اور اس کے سرکش ہمراہی گرفتار کر کے دہلی بھیجے گئے۔ جہاں وہ اپنے انجام کو پہنچے ۔ باقی ماندہ سکھ جنگلوں اور پہاڑوں میں جا چھپے۔ بندہ کے قتل کے بعد رصے تک سکھوں کی شورش دب گئی ۔
مرکز میں سادات بارہہ نے فرخ سپر کو معزول و مقتول کر کے دو کمزور شہزادے رفیع القدر اور رفیع الدرجات تخت طاؤس پر بٹھائے ۔ جو تین تین ماہ کی نمائشی بادشاہی کر کے گزر گئے ۔ ان کے بعد ایک تیموری شہزادے روشن اختر کو محمد شاہ کے لقب سے تخت شاہی پر بٹھایا گیا۔ اس کے دوسرے سال جلوس ہی میں بادشاہ گر سادات کا زور ٹوٹ گیا اور یہ تیموری بادشاہ تخت دہلی پرمتممکن رہا۔ اس کا دور حکومت طویل تھا لیکن اس دور میں زوال سلطنت اپنی انتہا کو پہنچا اور صوبے خود مختار ہو گئے ۔ دہلی کے لال قلعے میں مغل بادشاہ کا اقتدار بالا دست امراء کے رحم و کرم کا محتاج ہو گیا۔ اسی زمانے میں طویل سکوت کے بعد دکن میں مرہٹوں نے سراٹھایا اور وہ شمالی ہند تک یلغاریں کرنے لگے۔ 1738ء میں نادر شاہ ہندوستان پر حملہ آور ہوا اور دہلی میں قتل عام کر کے اور کروڑوں روپے کا مال غنیمت سمیٹ کر ایران کولوٹا اور پھر اس کی وفات کے بعد اس کے ایک جرنیل احمد شاہ ابدالی نے کا بل وقندھار میں اپنی حکومت قائم کر کے برصغیر کو مسلسل تخت کا نشانہ بنایا۔

مسلم زوال کے اثرات :

پنجاب میں 1717ء اور 1738 ء کے درمیانی عرصے میں سکھ بالکل دبکے رہے۔ نواب عبد الصمد کے بعد اس کا بیٹا زکریا ناں پنجاب کا گورنر ہوا۔ ان دونوں گورنروں کے عہد میں پنجاب خوشحال زیبا اور یہاں فن تعمیر اور علم و ادب کو بہت فروغ ہوا۔ شرف النساء بیگم اسی نواب عبدالصمد کی دختر تھی جس نے قرآن اور شمشیر کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھا اور وفات کے بعد یہ دونوں چیزیں حسب وصیت اس کی لحد پر رکھی گئیں۔ نومبر 1738ء میں نادر شاہ پنجاب کے دریاؤں کو عبور کرتا ہوا آگے بڑھا۔ زکریا خاں نے پہلے وزیر آباد میں مقابلہ کیا ، پھر لاہور میں راوی کے پار تین روز تک مقابلہ کیا۔ نا کامی کے بعد شہر میں محصور ہو کر صلح کی درخواست کی جسے نادر شاہ نے منظور کر لیا اور شہر کو امان ملنے کے علاوہ زکریا خاں کی صوبیداری بحال رہی ۔ ہندوستان سے نادر شاہ کی واپسی کے بعد سکھوں نے پھر سرنکالا اور مختلف مقامات پر گڑھیاں بنا کر انہوں نے غارت گری کا سلسلہ شروع کیا۔ اس اثناء میں ذکر یا خاں فوت ہوا اور اس کا بیٹا بیٹی خان صو بیدار بنا۔ اس کے عہد میں سکھوں نے شورش بر پا کر دی اور نور کے دیوان لکھپت رائے کے بھائی جپت رائے فوجدار ایمن آباد کو مل کر دیا۔ 1746ء میں لکھپت رائے بیٹی خان کی فوج کے ہمراہ سکھوں کی سرکوبی کے لیے گیا۔ سکھ جموں کی طرف بھاگ گئے۔ ایک ہزار گرفتار ہوئے جنہیں لاہور لا کر دہلی دروازے کے باہر قتل کیا گیا۔ کچھ عرصے کے لیے سکھوں کا فتنہ پھر دب گیا۔ اس کے بعد پنجاب کی گورنری کے لیے صوبیدار شہنواز خاں نواب عبدالصمد کا پوتا اور نواب بیٹی خاں کے درمیان وراثت کا جھگڑا شروع ہوا۔ بیٹی خاں شکست کھا کر دہلی بھاگ گیا اور شہنواز خاں لاہور کا والی بن بیٹھا۔ اس نے جالندھر کے ناظم آدینہ بیگ کے مشورے سے احمد شاہ ابدالی سے موافقت کر لی اور ابدالی نے 1748ء میں برصغیر پر اپنے حملوں کا آغاز کیا۔ اس حملے میں اسے سر ہند کی لڑائی میں ہزیمت ہوئی اور اسے واپس جانا پڑا۔ اسی سال محمد شاہ فوت ہوا اور احمد شاہ اس کا بیٹا تخت دہلی پر بیٹھا مغل وزیر نواب قمر الدین جو سر ہند کی لڑائی میں ہلاک ہوا کا بیٹا معین الملک عرف میرمنو پنجاب کا نیا صوبیدار مقرر ہوا۔ مغلوں اور افغانوں کی لڑائی کے نتیجے میں جو ابتری پھیلی سکھوں نے اس سے فائدہ اٹھا کر پھر لوٹ مار کا بازار گرم کر دیا تھا۔ میر منو سکھوں کی سرکوبی کے لیے نکل تو سکھ پھر اپنی پناہ گاہوں میں دبک گئے۔ احمد شاہ ابدالی نے پنجاب پر دوسری بار 1749ء میں اور پھر تیسری بار 1752ء میں یلغار کی میر منوانے مقابلہ کر کے شکست کھائی اور پنجاب کے چار اضلاع کا مالیہ بطور خراج دینا قبول کر کے صلح کر لی۔ میر منو ایک حادثے میں فوت ہوا تو اس کا شیر خوار بیٹا لاہور کا صوبیدار بنایا گیا اور میر منو کی بیوہ مراد بیگم عرف مغلانی بیگم اس کی سر پرست بنی۔ لاہور کے اس وقت دو دعویدار تھے۔ مغل بادشاہ احمد شاہ بن محمد شاہ اور افغان حکمرانی احمد شاہ ابدالی ۔ مغلانی بیگم نے اپنی ڈپلومیسی سے دونوں درباروں سے موافقت رکھی لیکن ان دوطرفہ تعلقات نے لا ہور اور پنجاب کے لوگوں کا مستقبل تاریک کر دیا تھا۔ 1754ء میں احمد شاہ کو معزول اور آنکھوں سے معذور کر کے عالمگیر ثانی کو تخت دہلی پر بٹھایا گیا۔ مغلانی بیگم کی دعوت پر احمد شاہ ابدالی چوتھی بار پنجاب پر یلغار کر کے واپس ہوا تو وزیر عماد الملک نے سپاہیوں کے ذریعے مغلانی بیگم اپنی ساس کو گرفتار کرا کے دہلی منگوایا اور آدینہ بیگ کو لاہور کا صوبیدار مقرر کیا۔ وزیر کے اس فعل کو شاہ ابدالی نے اپنی تو ہین سمجھا اور 1756ء میں لاہور کا رخ کیا۔ آدینہ بیگ نے راہ فرار اختیار کی ۔ ابدالی اپنے بیٹے تیمور کولاہور میں چھوڑ کر دہلی پہنچا۔ دہلی کولوٹا اور وہاں قتل عام کیا۔ دو ماہ بعد واپسی پر محمد شاہ کی دختر سے شادی کی اور تیمور کا نکاح عالمگیر ثانی کی بیٹی سے کیا۔ عمادالملک نے اپنی ساس کی سفارش سے معافی حاصل کی اور اپنا اقتدار بحال کیا۔ احمد شاہ ابدالی نے نجیب الدولہ کو دہلی میں اپنا مختار اور تیمور کو لاہور کا ناظم مقرر کیا۔ تیمور خاں سکھوں اور آدینہ بیگ کی سرکوبی پر کمر بستہ ہوا۔ سکھ ” حسب معمول پہاڑوں کی طرف چلے گئے ۔ آدینہ بیگ بھی ان کے ساتھ روپوش ہو گیا اور انہیں تیمور خاں کے خلاف ابھارتا رہا۔ 1758 ء میں سکھوں نے ٹڈی دل کی طرح اپنی کڑھیوں اور پہاڑی کمین گاہوں سے نکل کر لاہور کا محاصرہ کر لیا۔ تیمور خاں مقابلے کی تاب نہ لاکر چناب کی طرف پسپا ہو گیا اور پہلی بار سکھوں نے جسا سنگھ کلال کی سرکردگی میں لاہور پر قبضہ کر لیا۔ آدینہ بیگ نے مرہٹوں سے ساز باز کر لی اور مرہٹوں نے پنجاب پر قبضہ کر کے آدینہ بیگ کو 75 لاکھ سالانہ خراج کے عوض یہاں کا گورنر بنا دیا۔ سکھوں نے لاہور خالی کر دیا اور افغان سپاہ اٹک کے پار چلی گئی۔ 1759ء میں عماد الملک نے عالمگیر ثانی کو قتل کر دیا۔ مرکز اور پنجاب میں مرہٹوں کے غلبے کی یہ خبریں سن کر احمد شاہ ابدالی نے ہندوستان کا رخ کیا۔ مرہٹے ملتان ولا ہور خالی کر کے دیلی کی طرف آگئے۔ 1761ء میں پانی پت کی تیسری جنگ میں مرہٹوں کی ابھرتی ہوئی طاقت کا خاتمہ ہو گیا۔ فاتح احمد شاہ ابدالی کو نجیب الدولہ کے حوالے کر کے اور لاہور میں بلند خاں کو حاکم بنا کر کابل واپس چلا گیا۔ ابدالی کی واپسی کے بعد سکھوں نے پھر سر اٹھایا۔ چڑت سنگھ رنجیت سنگھ کے دادا نے گوجرانوالہ میں گڑھی بنالی تھی ۔ بلند خاں نے 1762ء میں اس پر حملہ کیا اور شکست کھائی۔ سکھوں کے حو صلے اور بڑھ گئے ۔

ابدالی کے حملے اور سکھ حکمت عملی :

پانی پت کی تیسری جنگ برصغیر کی تاریخ میں اس لحاظ سے فیصلہ کن ہے کہ اس میں مفتوح بھی نہیں گئے اور فاتح نے بھی اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا۔ شمالی ہند میں جو سیاسی خلا پیدا ہوا۔ اسے ایک تیسری طاقت ایسٹ انڈیا کمپنی نے پر کیا جو شاہ عالم ثانی کو یکسر کی جنگ میں شکست دے کر بتدریج آگے بڑھی اور 1803ء میں آگرہ و دیلی پر قابض ہوگئی۔ جہاں تک پنجاب کا تعلق ہے یہاں معین الملک میر منو کے بعد بدامنی اور انتشار کا جو دور شروع ہوا تھا اس جنگ کے بعد اس میں مزید اضافہ ہو گیا۔ بظاہر پنجاب اس زمانے میں ابدالی کی مملکت میں شامل تھا لیکن اس کے مقرر کردہ ناظم پنجاب کی حفاظت میں قطعاً نا کام رہے۔ پنجاب کو لاوارث سمجھ کر سکھوں نے چاروں طرف یلغار میں کر کے لوٹ مار کا سلسلہ شروع کیا ۔ مسلمان خاص طور پر ان کے انتقام کا نشانہ بن رہے تھے سکھوں نے گورو نا تک کی تعلیم کو بھلا کر بہیمیت کی راہ اختیار کر لی تھی۔ احمد شاہ ابدالی نے سکھوں کا زور توڑنے کے لیے دو تین بار پنجاب کا رخ کیا لیکن ہر بار فوجی یلغار کر کے کابل کی راہ لی اور یہاں کے نظم ونسق کو خدا کے حوالے کر دیا۔ بقول سید محمد لطیف اس بادشاہ کی حالت عقاب کی طرح بھی ۔ پہاڑی کی بلندی پر سے زمین پر تیز نظروں سے تا کتا رہتا۔ جہاں شکار اس کی نظر پڑتا اپنے پہاڑی آشیانے سے پرواز کر کے میدان میں آتا اور اپنے صید کا کام کر کے اس کے استخوان، گوشت پوست جو کچھ ہاتھ لگتا چونچ میں دبا چل دیتا، اور پھر ویسے ہی موقع کی تاک میں بیٹھا رہتا۔
1762ء میں ابدالی نے چھٹا حملہ کر کے سکھوں کو تلج پار دھکیل دیا۔ اس موقع پر آلا سنگھ کو سات لاکھ کے عوض پٹیالہ بخش دیا۔ کابلی مل کو لاہور کا والی مقرر کیا۔ تین سکھ سرداروں گوجر سنگی، مناسنگھ، سوبھا سنگھ نے کابلی مل کو لاہور سے نکال کر یہاں اپنا قبضہ کر لیا۔ لاہور کے علاوہ سکھوں نے قصور، مالیر کوٹلہ ، سرہند کو بھی لوٹا اور تباہ کیا۔ ابدالی ایک بار پھر 1764ء میں یلغار کرتا ہوا آیا اور چلا گیا۔ اس کی واپسی کے بعد سکھوں نے جمنا اور جہلم کے درمیان اپنی چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم کر لیں۔ مسجدوں کو مسمار اور مسلمانوں کو قتل عام کرنا ان کا روز مرہ کا معمول بن گیا۔ پنجاب میں لاقانونیت کے اس دور کو صحیح معنوں میں سکھ گروی کا دور کہا جاسکتا ہے۔ ابدالی آخری بار 1767ء میں یہاں آیا تو نقشہ ہی بدلا ہوا تھا۔ سکھ ہر طرف وند نارر ہے تھے حالات کو قابو سے باہر دیکھ کر ابدالی خاموشی سے واپس ہوا اور پھر زندگی میں ادھر کا رخ نہ کیا۔ اس کی واپسی پر سکھوں نے راولپنڈی کے علاقے تک قبضہ کر لیا۔ ابدالی کی وفات کے بعد اس کا جانشین تیمورشاہ بھی ایک دو بار یہاں آیا ۔ 1777ء میں تیمورشاہ نے ملتان پر قبضہ کیا۔ 1793ء میں شاہ زمان کابل کے تخت پر بیٹھا اور 1797ء میں پنجاب آ کر سکھ سرداروں سے تحائف اور نذرانے وصول کر کے واپس ہوا۔ اگلے سال پھر آیا لیکن اس کے بھائی محمود خان نے کابل میں شورش بر پا کی تو تیزی سے واپس ہوا۔ واپسی کے موقع پر دریا طغیانی پر تھا بھاری تو ہیں دریا سے گزارنے میں رنجیت سنگھ نے اس کی امداد کی اس خدمت پر شاہ زمان نے اسے لاہور کی حکومت کا پروانہ لکھ دیا۔
شاہ زمان کے پروانہ حکومت کی حیثیت کاغذ کے ایک حقیر پرزے سے زیادہ نہ تھی لیکن اس نے رنجیت سنگھ کی حکمرانی کے لیے ایک آئینی جواز فراہم کر دیا۔ رنجیت سنگھ نے ایک اور ستلج کے درمیانی علاقے پر اپنا اقتدار قائم کرنے کے بعد فرید کوٹ اور انبالہ پر قبضہ کرلیا لیکن انگریزوں نے اسے واپس جانے پر مجبور کیا اور شلج کوسرحد قرار دینے پر اصرار کیا۔ 1809ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی اور رنجیت سنگھ کے درمیان معاہدہ امرتسر ہوا ، جسے اس نے ساری عمر حرز جاں بنا کر رکھا اور اپنی توجہ مسلمانوں کے علاقوں کو فتح کرنے پر مرکوز کر دی ۔ 1816ء میں جھنگ پر قبضہ کیا۔ 1818ء میں ملتان فتح ہوا۔ 1819ء میں کشمیر پر تسلط جمایا۔ 1820ء میں جنوب مغرب کے بقیه مسلمان علاقے فتح کر کے 1823ء میں پشاور اور جمرود پر قبضہ کیا۔ یہ رنجیت سنگھ کے انتہائی عروج و اقبال کا زمانہ تھا۔ رنجیت سنگھ کی شخصیت خوبیوں اور خرابیوں کا مجموعہ تھی۔ وہ نا خواندہ اور عیاش تھا لیکن ساتھ ہی زیرک، معاملہ فہم اور دور اندیش بھی تھا۔ ان پڑھ ہونے کے باوجود وہ عالموں کا قدردان تھا اور اسے اپنی رعایا کی بہبود کا خیال تھا۔ وہ درندہ خصلت سکھوں کی وحشیانہ حرکات کو قابورکھنے میں خاصا کامیاب رہا۔ اگر چہ کالی سکھ جن کا سردار پھولا سنگھ ایک تند خو، اکھڑ سردار پر تھا۔ کبھی کبھی اس کے لیے درد سر بنتے رہے لیکن پھر بھی اس نے مدیر سے کام لے کر حکومت میں ایک نظم وضبط پیدا کیا۔ انتظامی معاملات میں اس کے مسلمان وزیر فقیر عزیز الدین اور فقیر نورالدین بڑے معاون ثابت ہوئے۔ بقول سید محمد لطیف انیسویں صدی کی ابتداء میں تمدن کے لحاظ سے مہاراجہ رنجیت سنگھ کا عروج خلق اللہ کی آسودگی کا باعث ہوا جسے وخوش خصال سکھوں نے اپنی جہالت سے سخت اذیت و آزاردے رکھا تھا اور تمام ملک کو جو کبھی تختہ گلشن تھا اجاڑ کر بستر خار و گلخن بنا دیا تھا۔

سید احمد کی تحریک :

رنجیت سنگھ کے دور میں بھی مغلیہ دور کی طرح دفتری زبان فارسی تھی ۔ مہارجہ ہمیشہ پنجابی زبان میں گفتگو کر تالیکن انگریزوں سے بات چیت ہندوستانی اردو زبان میں ہوتی ۔ مہاراجہ چونکہ سلیس ہندوستانی نہ بول سکتا تھا اس لیے اکثر مترجم کی وساطت سے گفتگو ہوتی ۔ رنجیت سنگھ کو زمانے کی تبدیلیوں کا احساس تھا۔ ان سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے اس نے اپنی سپاہ کی تربیت یور چین طرز پر کی اور یورپین جرنیل ملازم رکھے۔ لدھیانہ کے مشنری سکول میں سکھ نو جوانوں کو انگریزی زبان فمن طبابت اور جراحت وغیرہ سیکھنے کے لیے بھیجا۔ بحیثیت مجموعی رنجیت سنگھ کا دور حکومت پنجاب کے لیے قدرے سکون و عافیت کا دور تھا۔ مہاراجہ کی جنگی مہمات اور فتوحات کا سلسلہ جاری رہا۔ جس کا ہدف مسلمان امرا تھے رنجیت سنگھ اپنی ہند و مسل سکھ رعایا کو اگر چہ ایک آنکھ سے دیکھا تھا یہ الگ بات ہے کہ وہ کانا تھا لیکن عام مسلمانوں پر جنونی سکھوں ، اور انگالیوں کے جبر واستبداد کو پوری طرح ختم نہ کیا جا سکا۔ ان سے بیگار کی جاتی تھی اور اہانت آمیز سلوک کیا جاتا تھا ان کی عزت و ناموس محفوظ نہ تھی۔ انہیں اذان دینے کی اجازت نہ بھی۔ ان کی بڑی بڑی مساجد سکھوں کے قبضے میں تھیں ۔ مسجدوں کو اصطبل اور بارود خانے کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ خود بادشاہی مسجد لاہور ہی کام آتی تھی۔ پنجاب میں مسلمانوں کی اس حالت زار کو دیکھ کر مولانا سید احمد اور ان کے رفقا نے ہندوستان سے سرحد پہنچ کر سنکھوں کے خلاف جہاد شروع کیا۔ مجاہدین اپنی ان کوششوں میں مقامی آبادی کے عدم تعامون اور مخاصمت کی وجہ سے ناکام رہے اور سید احمد اور ان کے اکثر رفقا بالاکوٹ کے معرکے میں شہید ہو گئے لیکن یہ سکھا شاہی دور بھی رنجیت سنگھ کی وفات کے ساتھ ہی انتشار بدنظمی کا شکار ہو کر چند برسوں میں ختم ہوگیا۔

سکھا شاہی کا خاتمہ :

رنجیت سنگھ کے بعد اس کے جانشین کھڑک سنگھ، نونہال سنگھ، شیرسنگھ ، دلیپ سنگھ یکے بعد دیگرے گدی نشین ہوئے لیکن وراثت کے جھگڑوں میں خالصہ فوج کی وحشت و بربریت عود کر آئی تھی ۔ جس فوج کو رنجیت سنگھ نے بڑے چاؤ سے تیار کیا تھا وہ اس کے بعد کسی نظم وضبط کی پابند نہ رہی ۔ حکمران طبقہ اور عوام بھی ان کا شکار تھے۔ خالصہ سپاہ کے زور کو توڑنے کے لیے لال سنگھ پر سالا ہر نے کوشش کی کہ فوج کو انگریزوں سے بھڑ دیا جائے۔ چنانچہ 1845ء میں خالصہ فوج ستلج پار کر کے انگریزی علاقے پر حملہ آور ہوئی جو آبادیاں راستے میں آئیں لوٹ لی گئیں ۔ مد کی بھائی پھیرو، بدووال عملی وال، پھر اؤں کے مقامات پر پانچ لڑا ئیں ہوئیں ۔ سخت خونریزی کے بعد خالصہ فوج کو شکست ہوئی۔ قصور پر انگریزی قبضے کے بعد سکھوں نے ہتھیار ڈال دیئے ۔ معاہدہ لاہور کے مطابق مستلج سے بیاس تک کا علاقہ کمپنی کے قبضے میں چلا گیا۔ ڈیڑھ کروڑ روپیہ تاوان جنگ کی وصولی کے لیے وادی کشمیر 175 کچھ کے عوض گلاب سنگھ کے حوالے کر دی گئی ۔ اور اسے بھی دلیپ سنگھ کے ساتھ خطاب مہارا جنگی دے کر اپنا ماتحت بنالیا گیا۔ تین سال بعد سکھوں سے انگریز کی دوسری جنگ ہوئی جو چناب کے آس پاس رام نگر ، چیلیا نوالہ گجرات میں لڑی گئی شکست کھانے کے بعد سکھوں کے سپہ سالار شیر سنگھ اٹاری والا نے 12 مارچ 1849ء کو مانکیالہ میں انگریزی سپاہ کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور 29 مارچ 1849ء کو گورنر جنرل نے پنجاب کی اپنی سلطنت کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا۔اس طرح پنجاب نے غزنوی اور دہلوی سلاطین اور پھر مغلیہ عہد کی طویل خوش حالی و ترقی کے بعد پون صدی تک سکھ گردی کا جو اذیت ناک دور دیکھا وہ اپنے پیچھے تباہی و بربادی کے بھیا نک مناظر تاریخی عمارتوں کے کھنڈروں کی صورت میں چھوڑتا ہوا رخصت ہوا۔ یہ مناظر ایک عرصے تک مقامی باشندوں اور غیر ملکی سیاحوں کے لیے عبرت کا سماں پیش کرتے رہے اور بربادی کے بعض نقوش اب بھی چند عمارتوں میں نمایاں ہیں لیکن ان زخموں کو کون دیکھ سکتا ہے جولوگوں کے جسموں اور روحوں پر لگے۔ پنجاب میں آٹھ صدیوں پر پھیلا ہوا اسلامی عہد کا طویل دور نفسیاتی لحاظ سے تین رجحانات کا آئینہ دار ہے پہلا رجحان عہد سلاطین کے پانچ سو سالہ تاریخ میں ملتا ہے اس دور میں پنجاب قوت اقتدار اور استحکام کا سرچشمہ بنارہا۔ مرکز سلطنت کو ضرورت کے موقع پر نئی قیادت اور تازہ خون فراہم کرنا اور تاتاریوں کی وحشیانہ یلغاروں کو روکنا پنجاب کی تاریخی ذمہ داری ہو گئی تھی۔ اس ذمے داری کو اہل پنجاب کے بڑے اعتماد اور جرات سے سرانجام دیا۔ عہد مغلیہ میں پنجاب کی یہ ذمہ داری ختم ہو گئی نتیجتاً وہ عسکری قوت اور خود اعتمادی بھی باقی نہ رہی۔ تاہم مغل سلطنت کے خوشحال صوبجات میں پنجاب کا شمار ہوتا تھا۔ اس خوش حالی نے تہذیب و ثقافت کی ترقی میں نمایاں حصہ لیا، اگر چہ اس تہذیب و ثقافت کے مرکز دہلی و آگرہ تھے ۔ اس تقلیدی رجحان میں رفتہ رفتہ قوائے عمل کو شل کر دیا اور دور زوال میں یہاں مسلمان اکثریت میں ہوتے ہوئے بھی قليل التعداد سکھوں کے محکوم اور ان کے مظالم کا شکار ہو گئے ۔ آخری دور کا یہ منفعل رجحان اور شکست خوردگی پہلے دور کے رجحان سے بالکل مختلف نظر آتا ہے لیکن اس رجحان کے تارو پود مغلیہ عہد کے سیاسی تہذیبی اور ثقافتی رویوں سے ملتے ہیں جنہوں نے پنجاب کے مسلمانوں کو خوشحالی اور فارغ البالی تو دی لیکن ساتھ ہی انہیں اس ذمے داری سے سبکدوش اور خود اعتمادی سے محروم کر دیا۔ جو پانچ صدیوں تک ان کا طرہ امتیاز رہا تھا۔

 

یہ مضمون شیخ محمد حیات کی کتاب "ضلع خوشاب تاریخ کے آئنے میں "سے لیا گیا ہے

 

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com