
نادرشاہ اور احمد شاہ کی لوٹ مار
نادر شاہ کا اصل نام نادر قلی تھا اور افشار قبیلے سے تعلق تھا۔ اس نے اپنی زندگی کا آغاز بطور گڈریا کیا۔ پھر آہستہ آہستہ فوجی بھگوڑوں کو ساتھ ملا کر ایک گروپ بنالیا۔ تھوڑی سی مدت میں اسکے پاس تین ہزار گھوڑ سوار ہو گئے ۔ صفوی خاندان زوال پذیر تھا۔ افغان آئے دن ایران پر حملے کرتے رہتے تھے ۔ جب شاہ طہماسپ نے افغانستان کے لوگوں سے ملک آزاد کرانے کا ارادہ کیا تو نادر قلی بھی اپنے ساتھیوں سمیت اس کے ساتھ شامل ہو گیا۔ اس نے نہ صرف افغانوں کو ایران سے نکالا بلکہ آگے بڑھ کر افغانستان کے بعض علاقوں پر قبضہ بھی کر لیا۔ آہستہ آہستہ اس نے ایران پر حملہ آور کو شکست دے کر اپنی دھاک بٹھا دی۔ ان حملہ آوروں میں از بک ، روسی ، ترک، عرب اور بلوچ شامل تھے ۔ آخر شاہ عباس دوم صفوی کے زمانے میں تمام امراء نے اسے حکومت سنبھالنے کی پیشکش کی جو اس نے قبول کر لی اور یہ نادر قلی سے نادر شاہ بن گیا۔
برصغیر پر حملہ :
نادر شاہ نے پہلے افغانستان جو پہلے مغلوں کے پاس تھا فتح کر لیا۔ اس کے بعد پنجاب پر حملہ کر کے 20 لاکھ روپیہ تاوان جنگ پانچ لاکھ روپے نذرانہ کے طور پر حاصل کئے۔ اس کے علاوہ پانچ سو ہاتھی اور پانچ ہزار گھوڑے بھی تھے ۔ اس سے قبل کابل سے اڑھائی کروڑ روپے نقد کے علاوہ چار ہزار تلوار میں اتنی ہی تعداد میں ڈھالیں ، پانچ ہزار ڈر ہیں اور بڑی تعداد میں گرم کپڑے سکا مکمل کر چکا تھا۔ فتح دہلی کے بعد 9 گھنٹوں میں ڈیڑھ لاکھ آدمی قتل ہوئے۔ قتل عام کا حکم دے کر وہ بنگی تلوار لئے روشن الدولہ کی مسجد میں کھڑا تھا اور قتل کو روکنے کے لئے نظام الملک اپنی دستار گلے میں ڈال کر نادر کے سامنے حاضر ہو کر درج ذیل شعر پڑھا۔
کے نہ ماند که دیگر به تیغ ناز کشی
مگر کہ زندہ کنی خلق مرا و باز کشی
نادر شاہ نے کہا کہ ” به ریش سفیدت بخشیدم
( تری سفید داڑھی کی کی بدولت بخشا ہوں ) قتل عام بند کرنے کا حکم دے دیا۔
اس قتل عام کے بعد دہلی کو خوب لوٹا گیا۔ دہلی سے جس قدر نقد ہیرے جواہرات اور سامان ہاتھ آیا اس کی مالیت ایک اندازے کے مطابق پچاس کروڑ پونڈ مسٹرلنگ کے برابر تھی ، اس لوٹ میں مشہور ہیرا کوہ نور اور شاہجہان کی یاد گار تخت طاؤس بھی شامل تھے۔ دہلی سے پچاس کروڑ نقد اور ساز وسامان کے علاوہ ایک ہزار ہاتھی ، سات ہزار گھوڑے، دس ہزار اونٹ حاصل ہوئے۔ اس کے علاوہ ہر پیشے کے ہنر مندوں کو بھی ساتھ لے گیا۔ اس کے بعد سندھ پر حملہ آور ہو اوہاں بھی لوٹ مچائی۔ اس وقت نادر شاہ کی عمر پچاس سال تھی لیکن وہ بہت جلد بوڑھا ہو گیا۔ اس نے شک کی بنا پر اپنے ولی عہد کی آنکھیں نکلوادیں۔ دماغ بھی چل گیا تھا۔ اس کے بھتیجے علی قلی خان نے اسے قتل کروا دیا۔
نادرشاہ کے حملے کا اثر :
دربار دہلی کی مرکزیت ختم ہوگئی۔ تمام صوبے آزاد ہو گئے ۔ 1754ء میں پنجاب میں ایک خوفناک قحط پڑا جس میں انسان لقمہ اجل بن گئے۔ سکھ میدان میں آگئے اور مسلمانوں میں سے ان کو روکنے والا ہی کوئی نہ تھا کیونکہ نادر شاہ ملک کو کنگال کر گیا تھا۔ نہ ہاتھی تھے نہ گھوڑے تھے نہ اسلہ تھانہ رو پر تھا ، جنگ کیسے لڑی جاتی۔ محمد شاہ اور اس کے بیٹے کے دربار میں رنگی رنگائی عورتوں کا راج تھا جس کا خمیازہ بہت جلد پنجابی مسلمانوں کو سکھوں کی غلامی کی صورت میں بھگتنا پڑا۔
احمد شاہ ابدالی :
احمد شاہ نادرشاہ کا ایک قابل جرنیل تھا۔ اس کے قتل کے بعد اس نے افغانستان پر قبضہ کر لیا اور اس کے بعد اس نے برصغیر پر آٹھ حملے کئے جو 1748 ء سے لے کر 1768 ء تک جاری رہے جس میں نادر شاہ کی رہی سہی کسر بھی اس نے نکال دی۔ شہزادے اراکین سلطنت کے رم پر ہوتے ان کی عمر قید خانوں میں گزرتی ۔ انہیں حکومت کرنے کا کوئی شعور ہی نہ ہوتا جیسے جو چاہتا وہ کرتا۔ گزر اوقات کے لئے بھی ان کا محتاج تھا۔ ان حالات میں حکومت نام کی کوئی شے نہ تھی اور آنے والے خطرات کا کسی کو شعور ہی نہ تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پنجاب میں سکھ اور مر ہے ۔ مرکز میں قابض ہو گئے اور مسلمانوں کو ذلت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہونا پڑا لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔ وقت ان کے ہاتھ سے نکل چکا تھا۔
احمد شاہ ابدالی نے جتنے بھی حملے کئے اس نے بھی یہاں کے لوگوں کو دل کھول کر لوٹا۔ مسلمان اور کافر کی کوئی تمیز نہ تھی۔ خانہ تلاشی اور لوٹ مار کے لئے امراء کے گھروں کا محاصرہ کر لیا اور خوب خانہ تلاشی لینا نواب انتظام الدولہ کے گھر کو چھانا گیا تو بے شمار زر و جواہر سونا چاندی اور سونے کی اشرفیاں حاصل ہوئیں۔ اس طرح امرا کے گھروں سے کر ڈروں کی مالیت کے ہیرے اور جواہرات دستیاب ہوئے ۔ نواب قمر الدین کے گھر سے لاکھوں کا سونا چاندی اور لاکھوں ہی کے مالیت کے ہیرے جواہرات برآمد ہوئے۔ اس کے بعد فوج کو لوٹ مار کا حکم دے دیا گیا مزاحمت کرنے والوں کو قتل کرنے کی اجازت تھی۔ اس طرح شہر دہلی ابدالی کے ہاتھوں تباہ ہو گیا۔ ہمارے علاقے میں ابدالی کا ایک جرنیل جس کا نام نورالدین یا مزئی تھا، لوٹ مار کرنے پر مقرر تھا۔ اس نے بھیرہ میانی اور چک سانو کولوٹ کر برباد کیا۔ بھیرہ میانی تو دوبارہ آباد ہو گئے لیکن چک سا نو ختم ہو گیا۔ ایک روایت کے مطابق اس کے گیارہ دروازے تھے اور تخت ھزارہ کے سوا یہی وہ واحد شہر تھا جو چھوٹی پختہ اینٹوں سے بنایا گیا تھا۔ اسی لوٹ مار کے متلعق کہا جاتا تھا۔
کھاوا پیتا لا ہے دا
باقی احمد شا ہے دا
یعنی جو کچھ کھا پی لیا ہے غنیمت ہے، باقی جو بچ گیا احمد شاہ ابدالی لوٹ لے گا۔
مرہٹوں کا عروج وزال :
مرہٹے بڑی مدت دہلی کے تخت پر نظریں جمائے بیٹھے تھے اور وہ دکن سے آگے دہلی تک پہنچ گئے تھے ۔ اس عرصہ میں انہیں دہلی میں آنے کا جلد موقع مل گیا چنانچہ جب غلام قادر رہ میلہ کو شاہ عالم ثانی نے پکڑ کر زنانہ کپڑے پہنائے اور اس کے ہاتھوں پر مہندی لگوا کر شاہی دربار میں شراب پلانے کی خدمت پر مامور کیا گیا ۔ غلام قادر یہ ذلت پانچ سال برداشت کرنے کے بعد موقع پا کر بھاگ نکلا۔ اس نے روہیلوں کو اکٹھا کر کے دہلی پر حملہ کر دیا۔ اس نے سب سے پہلے شاہ عالم ثانی سے انتقام لیا اور اسے پکڑ کر اسکی آنکھیں نوک سنجر سے نکال دیں۔ شہزادیوں کو گھنگرو پہنا کر زبردستی ناچنے پر مجبور کیا۔ یہ تاریخی انتقام انتہائی عبرتناک ہے۔ مربے حکومت کے خیر خواہ بن کر دہلی پر حملہ آور ہوئے اور نابینا شاہ کے سر پرست بن کر حکومت پر قابض ہو گئے ۔ غلام قادر پکڑا گیا اور اس کا ایک ایک عضو کاٹ دیا گیا۔ اذیت ناک طریقے سے وہ سسک سسک کرمز جاتا ہے۔ مرہٹوں نے لال قلعے پر قبضہ کر کے ہر طرف پیشوا کے جھنڈے لہرا دیئے اور دیوان خانے سے سونے کے پترے اتار کر اشرفیاں ڈھلوائیں اور انہیں پورے ملک کے راجاؤں کے پاس روانہ کیں اور ساتھ خط بھی لکھے جن کا مضمون یہ تھا کہ ہم نے اور نگ زیب کے باپ کا قلعہ نے لیا ہے اور ہمارے دیش سے لوٹے ہوئے سونے اور دیوان خاص کی جو چھت بنائی گئی تھی وہ سونا ہم نے چھین لیا ہے۔ اس سونے سے یہ اشرفیاں ڈھالی گئی ہیں جو آپ کی خدمت میں روانہ کی
جاتی ہیں۔
کنج پورہ کی فتح :
بھاؤ کے راستے میں کنج پورہ کی افغان ریاست یہاں میں ہزار کے قریب مجاہد تھے ۔ وہ ٹڈی دل مرہٹہ فوج کا مقابلہ کرتے ہوئے ایک ایک کر کے شہید ہو گئے ۔ بھاؤ نے دسہرہ کا تہوار دہلی میں جا کر منایا۔ ابھی یہ جشن منارہا تھا کہ اسے اطلاع ملی کہ احمد شاہ نے دریائے جمنا عبور کر لیا ہے اور وہ سنج پورہ کے قتل عام کی وجہ سے سخت غصے میں ہے۔
مرہٹوں کے منصوبے:
مرہٹوں نے اس کے لئے ایک مجلس بلائی جس میں یہ طے پایا کہ مسلمان افغانستان کے راستے ہندوستان میں آئے تھے اور آتے رہتے ہیں ۔ اب بھی احمد شاہ کے پاس اتنی بڑی فوج ہے جو ہمارے لئے تباہ کن ہوسکتی ہے۔ اس لئے سب ہند و قوم متحد ہو کر کابل پر قبضہ کر کے افغانی طاقت کو ختم کر دیا جائے تا کہ وہ ہندوستان آکر مسلمانوں کی مدد نہ کر سکیں ۔ پھر ایک ایک کر کے مسلمانوں کی باقی ماندہ ریاستوں پر قبضہ کرنے کے بعد مسلمانوں کو ختم کر دیا جائے۔
مرہٹہ فوجوں کی کل تعداد ایک لاکھ سوار دو لاکھ پیادے اور ان کے ساتھ دوسوتو نہیں تھیں جن کے تو بچی ابراہیم خان گاردی تھے ۔ ان کے مقابلے میں احمد شاہ کی کل فوج چھیاسٹھ ہزار تھی جن میں 26 ہزار سوار تھے ۔ مرہٹوں نے ابدالی کو دریا عبور کرتے ہی حملہ کر دیا۔ مسلمانوں کو ذرا سنبھلنے میں وقت ضرور لگا لیکن انہیں سوسو کے قراولوں کا دستہ کر کے میدان میں بھیجنا شروع کر دیا۔ مسلمان نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے آگے بڑھتے ، ان کے سو قدم پیچھے ایک اور دستہ نعرہ تکبیر بلند لگا تا آگے بڑھتا۔ اس طرح قراولوں کے ایک ہزار آدمی دس دستوں میں تبدیل ہو کر آگے بڑھتے تھے۔ جب ایک ہزار مجاہدین کی تعبیر میں جب مسلسل گونجیں تو مرہٹوں نے سمجھا کہ مسلمان لاکھوں کی تعداد میں ہیں انڈے چلے آرہے تھے۔ مرہٹہ سردار پوچھتے کہ ہمیں تو مسلمانوں کی تعداد بہت کم بتائی گئی ہے اب یہ لاکھوں کی تعداد میں کدھر سے آگئے ہیں۔ مرہٹے تین مرتبہ پیچھے ہٹے تا کہ مسلمان قراول سواروں سے دور ہو جائیں اور انہیں گھیر کر ختم کر دیا جائے۔ ابدالی جو دور سے جائزہ لے رہا تھا اور حکم دیا کہ سوار پیادوں سے مل جائیں۔ اس طرح ہٹتے ہٹتے مرہٹہ فوج پانی پت کے میدان میں پہنچ گئی۔ ابدالی نے میدان پر قبضہ کر کے اس کے گرد خندق کھودنے کا حکم دیا جو کم از کم 2 گز چوڑی تھی۔ اتنی جلدی خندق تیار کرنے کی مثال نہیں ملتی۔ ہر شخص اسے سنت نبوی میں نے سمجھ کر کھو رہا تھا۔ احمد شاہ خود بھی یہ کام کر رہا تھا۔ جب خندق تیار ہوگئی تو مرہٹے جے جے ہر دیو بھجوانی جی کی جے کے نعرے لگاتے ہوئے حملے کرتے مسلمان ان کے جواب میں نعرہ تکبیر بلند کرتے ۔ بھاؤ نے گوبند پنڈت کو دس ہزار سپاہی دے کر مسلمانوں کی رسد روکنے کے لئے بھیجا۔ ابدالی نے عطائی خان کو دو ہزار کا شکر دے کر مقابلے کے لئے بھیجا۔ وہ پنڈت کا سرکاٹ کر لائے اور اس کا لشکر تر بتر ہوگیا اور رسد بحال ہوگئی۔ پانی پت کی ٹرائی میں ابدالی کی فوج نے غلیل بازی کے کمالات بھی دکھائے ۔مٹی کا ایک گولہ آگ میں پکا کر کمان کے ذریعے پھینکا جاتا تھا اور وہ گولی کی طرح لگتا تھا۔ مرہٹوں کے سردار بھاؤ اور نوبت راؤ کے بھیجے اسی مٹی کے گولوں سے ہی اڑائے گئے تھے۔ مرہٹوں کی پہل ابراہیم خان گاردی کے توپوں سے ہوئی۔ اس سے مسلمانوں کا بھی کافی نقصان ہوا ۔ نجیب الدولہ کی فوج کے پاؤں اکھڑ گئے احمد شاہ جو ٹیلے سے جنگ کا منظر دیکھ رہا تھا۔ جب افراتفری دیکھی تو ہر کاروں کا حکم دیا کہ بھاگنے والوں کو روکیں اور خود محافظ دستہ کے ساتھ میدان جنگ میں کود پڑا۔ شاہ پسند بھی اپنی فوج لے کر قلب کی طرف بڑھا جس سے قلب مضبوط ہو گیا۔ مرہٹوں کا سیلاب رک گیا نجیب الدولہ تیزی سے بسواس اور بہاؤ کی فوجوں کے پیچھے آگئے۔ مسلمانوں نے چاروں طرف سے مرہٹہ فوج کو گھیر لیا ۔ نواب شجاع الدولہ ابھی تک مخمصے میں تھا کہ کون جیتا ہے۔ اس نے اپنے مشیر سے رائے لی ۔ اس نے جواباً عرض کیا اللہ کا امر سب پر غالب ہے۔ ابھی وہ یہ کہ ہی رہا تھا کہ نعرہ تکبیر بلند ہوئے اور اعلان ہوا بسو اس راؤ مارا گیا۔ بھاؤ مارا گیا۔ مر ہے یہ سن کر بے حوصلہ ہو گئے اور بھاگنا شروع کر دیا۔ احمد شاہ ابدالی نے حکم دیا کہ کوئی زندہ بھاگنے نہ پائے۔ چنانچہ ساٹھ میل تک تعاقب کیا گیا میدان جنگ میں تین لاکھ میں سے چند آدمی بمشکل بچے ۔ پٹھان بسواس راؤ کی لاش حنوط کر کے کابل لے جانا چاہتے تھے تا کہ وہاں دکھا سکیں لیکن احمد شاہ نے ایسا کرنے سے منع کر دیا اور ہندوؤں کو دے دی۔ مسلمانوں نے پورے ہند کی جیتی ہوئی جنگ سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا۔ مرہٹوں کی طاقت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو گئی۔ احمد شاہ پھر واپس چلا گیا۔ سکھوں نے فائدہ اٹھایا اور پورے پنجاب اور سرحد پر قابض ہو گئے ۔ وہ سندھ پر بھی قبضہ کر لیتے اگر انگر یز انہیں سختی سے ایسا کرنے
سے منع نہ کرتے ۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ جس طرح مرہٹوں کا توپ خانہ مسلمان تو بچیوں کے پاس تھا، اس طرح سکھوں کا توپ خانہ بھی مسلمان تو چی کرنل الہی بخش کے پاس تھا۔ اس طرح موجودہ چینی تو پخانہ بھی مسلمانوں کے پاس بتایا جاتا ہے۔
سکھوں اور ابدالی کی کشمکش :
احمد شاہ ابدالی کے دور میں سکھوں کے ساتھ مسلمانوں کی کافی کشمکش رہی ۔ ادینہ بیگ گورنر پنجاب نے ایک دستہ سکھوں کی سرکوبی کے لئے روانہ کیا۔ ماجھہ کے علاقے میں 12000 سکھ گرفتار ہوئے۔ ان سب کو بٹالہ لایا گیا اور ان سب کو قتل کرا دیا گیا۔ بٹالہ اس وقت پنجاب کا صدر مقام تھا جس کا ردعمل یہ ہوا کہ کہ اسی رات چند نقاب پوشوں نے ادینہ بیگ کو قتل کر دیا گیا۔ ادینہ بیگ کے قتل بعد شمہ جی راؤ مرہٹہ نے گورنر کا عہدہ سنبھال لیا۔ پنجاب کے انتظامات خود کرنے لگا۔ اس نے مرہٹہ فوجوں کو دریائے سندھ تک پھیلا دیا تا کہ وہ ابدالی فوجوں کے حملوں کو دیں اور کسی قسم کا نقص ملک میں پیدا نہ ہو۔ روک سکیں۔ ابدالی نے بھی ان کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے جرنیل مقرر کئے تا کہ وہ انہیں ختم کر سکھوں نے اپنے طریق جنگ گوریلا کو رکھا جبکہ مربہے بھی اس طریقہ جنگ میں ماہر تھے۔ پہلی دفعہ انہوں نے میدان میں نکل کر پانی پت کی جنگ لڑی جس کا انہیں تجربہ نہ تھا جس کی وجہ سے وہ شکست کھا گئے ۔ مسلمان تو ہمیشہ ہی کھلے میدان میں جنگ کرنے کے عادی تھے ۔ احمد شاہ اپنے بیٹے کو لاہور میں امن و امان قائم رکھنے کے لئے چھوڑ گیا اس نے چاہا کہ سکھوں کو دبائے لیکن وہ بری طرح ناکام رہا وہ اور اس کا وزیر اعظم جہاں خان بری طرح ناکام رہے اور سکھ لاہور پر قابض ہو گئے اور جب مرہٹوں نے حملہ کیا تو افغان اس طرح حواس باختہ ہوئے کہ اٹک تک بھاگتے ہوئے پیچھے مڑکر نہ دیکھا۔ اس وقت تیمور شاہ کے پاس صرف دوسوسوار رو گئے تھے۔ باقی ساری افغان فوج سکھوں اور مرہٹوں کا مقابلہ کرتی ہوئی کام آچکی تھی ۔ سکھ مسلمانوں کو پکڑ کر امرتسر لے جاتے ، ان کو سارا دن بھوکا پیاسا رکھ کر بیگار لیتے اور ستی دکھانے پر کوڑے مارتے ۔
احمد شاہ کا چھٹا حملہ صرف سکھوں کی سرکوبی کے لئے تھا۔ چنانچہ سکھوں نے بھی متحد ہو کر ڈیڑھ لاکھ فوج کے ساتھ ابدالی کا مقابلہ کیا لیکن شکست کھائی بیشمار سکھ قتل ہو گئے جس کی وجہ سے سکھ اسے گھلو گھاڑہ کہتے تھے یعنی قتل عام – ابدالی نے امرتسر میں ان گرودوارہ ہر د یونامی کو مسمار کر دیا اور مقدس تالاب رام راوتی کو ملبے سے بھروا دیا جس سے سکھوں کے مذہبی جذبات بھڑ کے اور اس کے جاتے ہی سکھوں نے قصور اور مالیر کوٹلہ میں تباہی مچادی۔ 1764ء میں ساتویں بار ابدالی آیا لیکن اس مرتبہ سکھ بھاگ کر جنگلوں میں چھپ گئے اور طاقت مضبوط رہی۔ جب احمد شاہ واپس ہوا تو سکھوں نے لاہور پر قبضہ کر کے شاہی مسجد کو اصطبل بنا دیا۔ اس نے آٹھویں بار آخری حملہ کیا لیکن سکھ جان بچا کر بھاگ گئے ۔
یہ مضمون شیخ محمد حیات کی کتاب "ضلع خوشاب تاریخ کے آئنے میں "سے لیا گیا ہے



