گوتم بدھ اور بدھ مت
برصغیر کی تاریخ میں گوتم بدھ کی بڑی اہمیت ہے۔ وہ ایک عہد آفرین شخصیت ایک نئے مذہب کے بانی اور بہت بڑے صبح تھے۔ انہوں نے ہندوستان کی سب سے قدیم مذہبی شخصیتوں کو ماند کر کے خود آسمان پر ایک روشن ستارے کی طرح چھلکنے لگے۔
خاندان
بدھ کپل دستو کے راجہ سدودھن کا بیٹا تھا۔ اس کا تعلق سا کا قبائل سے تھا۔ اس لئے اسے ساکیہ منی بھی کہتے ہیں۔ جب یہ بڑا ہوا تو اس کی شادی یشودھرا سے کر دی گئی اور جس سےاس کا بیٹا راہول پیدا ہوا
ترک دنیا
تیس سال کی عمر میں اس کا دل دنیا سے اچاٹ ہو گیا اور وہ والدین محبوب بیوی، پیارے بچے کو گل میں سوتا چھوڑ کر جنگل کی طرف چل دیا۔ جنگلوں میں چھ سال تک سخت ریافت کی۔ آخر گیا کے مقام پر ایک بڑ کے درخت کے نیچے مصمم ارادہ کر کے گیان دھیان میں مشغول ہو گیا، خواہ کچھ بھی ہو جائے اس وقت تک یہ جگہ نہ چھوڑوں گا جب تک مجھے مکمل معرفت حاصل نہ
ہو جائے ۔
اسی گیان دھیان کے دوران حق کا نور اور حقیقی تجملی نظر آئی جس کی وجہ سے اس پر راہ حقیقت کھل گئی تھی اور اس کا دل مطمئن ہو گیا۔ اس طرح وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ بنی نوع انسان ہے محبت کرنا، جانوروں کو گزند نہ پہنچانے ، خواہشات نفسانی پر قابو حاصل کرنے اور پاکیزہ زندگی گزارنے سے ہی نجات حاصل ہو سکتی ہے۔
تبلیغ
35 سال کی عمر سے لے کر اپنی زندگی کے باقی 45 سال گوتم بدھ نے سماجی اور مذہبی خدمت میں صرف کر دیئے۔ آخر اسی سال کی عمر میں کوئی عمر نیپال میں 483 ق م میں وفات
پائی۔
آخری نصیحت
اس کی آخری نصیحت جو اس نے اپنے چیلے آئندا کو کی تھی بدھ مت کی تاریخ میں
ہرے حروف میں لکھی جانے کے قابل ہے۔
اے آئند!! خود شمع فروزاں بنو، کسی دوسرے بیرونی عنصر کی پناہ مت ڈھونڈ وہ شمع کی
طرح حقیقت سے وابستہ رہو۔
بدھ مت کی تعلیمات
(1) زندگی کو برباد نہ کرو (2) چوری مت کرو (3) گندگی اور بداعمالی سے پر ہیز کرو (4) شراب نوشی نہ کرو (5) جھوٹ ہرگز نہ بولو (6) ممنوعہ اوقات میں ہرگز نہ کھاؤ (7) پھولوں کے ہار اور خوشبو مت استعمال کرو (8) اعلیٰ اور مرغن غذا ئیں استعمال نہ کرو (9) دوسروں کی مدد کے
محتاج نہ بنو، خود پر انحصار کرو
بدھ مت کے فرقے
زمانے کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ بدھ مت میں تبدیلی رونما ہوئی، قدیم بدھ مت نے بر صغیر سے آگے پر پھیلانے شروع کر دیئے۔ اس قدیم بدھ مت کو "ہن یان ” کہتے ہیں اس میں کسی مورتی اور مجسمہ کی پو جانہیں کی جاتی ۔ اس فرقے کا سارا ادب پالی زبان میں تھا۔
مهایان
مہاراجہ کنشک کے دور میں بدھ مت کو دوبارہ عروج حاصل ہوا۔ اس دور میں ایک نیا فرقہ ہو گیا جسے مہایان کہتے ہیں اور یہ بدھ مت اشوک کے عہد والا نہ تھا۔ کنشک کے عہد میں بدھ مت میں کافی تبدیلی آگئی ۔ اس دور میں بدھ مت کے مجسموں اور مورتیوں کی پوجا کی جانے لگی حالانکہ یہ گوتم کی تعلیمات کے بالکل خلاف تھا۔ اس فرقے کا سارا ادب اور مذہبی کتابیں سنکرت
زبان میں لکھی جانے لگیں۔
بدھ مت کی ترقی کے اسباب
بدھ نے سنسکرت کی بجائے پالی زبان جو عوام کی زبان تھی استعمال کی جس سے عوام یہ تعلیمات بڑے شوق سے بجھنے کے قابل ہوئے اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بدھی خانقاہی نظام کے تحت بھکشوؤں نے اسے عوام تک پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ بر صغیر سے نکل کر چین، جاپان، ویتنام، سری لنکا، برما، تھائی لینڈ کمبوڈیا تک پھیل گیا۔
خانقاہی نظام
بودھی سانگا یا خانقاہی نظام بدھ مت کا وہ نظام تھا جس کے تحت ایک خانقاہ میں بدھ مت کے بھکشو اور گلشنی رہا کرتے تھے ۔ یہی مقامات علوم و فنون، سچائی اور پاکیزگی کے مراکز تھے۔ اس نظام نے بدھ مت کی اشاعت اور مقبولیت میں کافی حصہ لیا۔ گوتم بدھ کے دو ستم کے پیرو
ہوا کرتے تھے۔
(1) اپا سک جو اپنے خاندان کے ساتھ بدھ مت کے اصولوں پر چلتے تھے۔ یہ لوگ اگر چہ بدھ مت کے اعتقادات کو خلوص دل سے قبول کرتے تھے لیکن تارک الدنیا نہ ہوتے تھے بلکہ گرہستی کی زندگی بسر کرتے تھے۔
(2) بھکشو جو خانقاہوں میں بدھ مت کے اعتقادات اور اصولوں کے مطابق راہبانہ زندگی بسر کرتے تھے ۔ شادی بیاہ نہ کرتے تھے اور نہ دنیاوی معاملات سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ اپنا وقت عبادت وریاضت میں صرف کرتے تھے۔ بدھ عقیدہ کے مطابق بھکشو کو ا پاسک کی نسبت جلد نزوان حاصل ہوتا تھا۔ اپا سک کا فرض تھا کہ بھکشو کی دل و جان سے خدمت کرے۔ یہی وہ نظام تھا جس کی وجہ سے بدھ مت نے ترقی کی اور صدیوں بعد عسیائیوں نے اسی نظام کی طرز پر اپنے تبلیغی مشن بنائے ۔ وہ بھی بھکشو کی طرح شادی نہیں کرتے اور یہ راہب اور راہبہ کہلاتے ہیں۔ یہ بدھ مت کی خوش قسمتی تھی کہ اسے اشوک جیسے راجہ ملے جس نے اپنے بیٹے مہندر اور بیٹی سانگا مترا کو بھکشو اور بھکشنی بنا کر تبلیغ کے لئے وقف کر دیئے ۔ اس کے بعد کنشک اور ہرش نے بھی بدھ مت کو پھیلانے میں کافی کام کیا۔
بدھ مت اور اہل خوشاب
کبھی یہ سارا علاقہ بدھ مت پر فدا تھا۔ اس روایت کے مطابق سون سکیسر کا نام ہی بدھ مت کی یادگار ہے۔ اصل نام سوہن سا کیا منی سر تھا جو بعد میں صرف سون سکیسر رہ گیا۔ سوہن کے معنی خوبصورت، سا کیا منی سے مراد گو تم بدھ اور سر کے معنی جھیل یا تالاب کے ہیں یعنی جھیل اچھالی۔ دوسرے لفظوں میں اسے گو تم کے نام پر رکھا گیا۔
اس کے علاوہ وہ کتبہ کٹھوائی کے قریب ملا تھا جو ماہی ساسا کا مدرسہ کی تعمیر کے متعلق ہے جو 1888ء میں ملا تھا وہ بھی بدھ مت کے متعلق ہے جس میں گوتم بدھ کی تعریف کی گئی ہے اور بودھوں کے اس عقیدے کا بھی اظہار کیا گیا ہے بودھ ہر جگہ جہاں چاہے پہنچ سکتا ہے۔ شاید ان کی روایت کے مطابق گو تم یہاں آئے ہوں۔ سکیسر کی چوٹی پر ان کا بڑا مرکز تھا۔ چاروں طرف سے عقیدت مند گوتم بدھ کو بدھا ہے سدھارہ کہتے ہوئے بینڈ باجوں کے ساتھ اوپر جاتے تھے، وہ کتنا سہانا سماں ہوتا ہوگا۔ یہ کتبہ 13 سطروں پر مشتمل ہے۔ یہ کتبہ روٹا سدھا اور یدھی نے لکھوایا تھا۔ وہ اس علاقے میں بدھ وہاروں کا بڑا مذہبی پیشوا تھا۔ اس علاقے میں بدھ مت تیرہویں صدی تک رہا۔ محمود غزنوی سے پہلے یہاں اگر چہ ہندوشاہی حکومت تھی لیکن رعا یا بدھ مذہب کی پیرو تھی اور اس علاقے میں قدیم بدھ یعنی بہن یان کے ماننے والے تھے۔ یہاں ان کے کوئی بت نہیں ملے حالانکہ سوات جہاں مہایان فرقہ تھا پوری وادی آج بھی بدھ کے بتوں سے پُر ہے۔ یہاں کئی ایک پہاڑیوں پر بدھ کے بتوں کا زور ہے۔ یہاں کئی ایک پہاڑیوں پر بدھ روایت کے مطابق اس کے قدم کے نشان بنائے گئے ہیں۔ یہ کر ڈھی، کیلا اور جاہلر کے ارد گرد دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بعض قبریں بھی اسی دور کی ہیں جن پر چکر کا نشان ہے جو کہ مہاراجہ اشوک کا نشان ہے ۔ یہ چھہ میں ایک قبر پر دیکھا جا سکتا تھا ، اب کوئی لے گیا ہے۔
یہ مضمون شیخ محمد حیات کی کتاب "ضلع خوشاب تاریخ کے آئنے میں "سے لیا گیا ہے