رنجیت سنگھ کا خاندانی پس منظر سکھا شاہی
خاندان رنجیت سنگھ 13 نومبر 1780ء کو ضلع گوجرانوالہ کے ایک موضع سکر چک میں پیدا ہوا۔ اس کے والد کا نام مہاں سنگھ تھا۔ اس خاندان کا پہلا فرد جس نے سکھ دھرم قبول کیا بدھول تھا جو سکھ بن کر بدھ سنگھ ہو گیا۔ اس نے سکھوں کا ایک گروہ بنا کے ڈاکے ڈالنے شروع کر دیئے جس سے اس کی دھاک بیٹھ گئی۔ اس کے بعد اس کے بیٹے نو دھ سنگھ نے بھی یہی شغل جاری رکھا۔ اس کے عہد میں نادر شاہ نے حملہ کیا اور اس کی واپسی پر اس کے عقب پر چھاپہ مار کر کافی سامان لوٹ لیا۔ اس کارنامے کی بدولت سکھ اس کا احترام کرنے لگے ۔ 1752ء میں اس کی وفات کے بعد اس کا بیٹا چڑت سنگھ سردار بنا۔ اس نے گوجرانوالہ میں قلعہ بنوایا۔ لاہور کے گورنر عبید خان کو شکست دی۔ اس نے وزیر آباد، جہلم ، پنڈ دادنخان ، سیالکوٹ اور سارا پوٹھوار کا علاقہ رہتاس سمیت فتح کر لیا۔ اس کی وفات کے وقت مہاں سنگھ کی عمر صرف دس سال تھی۔ اس کی ماں مائی دیساں نے اختیارات سنبھال لئے ۔ جب یہ بڑا ہوا تو اس نے کوٹلی لوہاراں ، مڈھ رانجھا اور میانی بھنگی مثل سے چھین لئے تمیں سال کی عمر میں یہ فوت ہو گیا۔ اس وقت رنجیت سنگھ کی عمر بھی صرف 13 برس کی تھی۔ اس نے بڑے ہو کر فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس نے 1803ء میں بھیرہ پر قبضہ کر کے دریا کے دونوں کناروں پر اپنی گرفت مضبوط کر کے جھاوریاں تک قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد . 1804ء میں ساہیوال کی طرف متوجہ ہوا اور معمولی خراج پر صلح کر لی لیکن بعد میں جب اسے بڑھا کر 12000 سالانہ کر دیا تو سردار فتح خان ناراض ہو گیا اور مقابلے کی تیاری کرنے لگا۔ جب” رنجیت سنگھ کو معلوم ہوا تو وہ بذات خود 1809ء میں حملہ آور ہوا اور مانگمو وال کو ہیڈ کوارٹر بنایا۔
فتح خوشاب:
اس نے پہلے خوشاب پر حملہ کیا۔ خوشاب پر اس وقت جعفر خاں بلوچ حکمران تھا۔ ایک ہفتہ تک جعفر خان نے مقابلہ کیا۔ اس عرصہ میں رنجیت سنگھ نے قلعہ کی دیواروں کو بارود سے اڑانے کیلئے اس کی بنیادوں میں سر میں بنا کر بارود بھر دیا۔ جعفر خان کو پیغام بھیجا کہ کسی آدمی کو بھیج کر دیکھے لے کہ اس نے اس کو فتح کرنے کا کیا انتظام کیا ہے چنانچہ جعفر خان نے صلح کر لی اور مہاراجہ نے اس کی گزر اوقات کیلئے معقول جاگیر کا بندوبست کر دیا۔
فتح ساہیوال:
رنجیت سنگھ نے مانگووال سے سردار عطر سنگھ کو فتح خان کو دربار میں لانے کے لئے بھیجا لیکن وہ رنجیت سنگھ کی سیاست سے واقف تھا چنا نچہ اس نے اپنے بچے لنگر خان کو بھیجا۔ رنجیت سنگھ بھی گرگ باراں دیدہ تھا، اس نے کسی قسم کی ناراضگی کا اظہار نہ کیا بلکہ نگر خان کو اچھی طرح ملا اور واپسی پر فتح خان کے لئے قیمتی تحائف ارسال کئے۔ فتح خان کی تسلی کے لیے کہا کہ وہ ہمارا دوست ہے اور یہ دوستی قائم رہے گی۔ اس وقت صرف جعفر خان والی خوشاب کے لئے آئے ہیں۔ چنانچہ فتح خان اس پر اعتبار کر کے ساری فوج کو موقوف کر کے آرام سے بیٹھ گیا لیکن رنجیت سنگھ یہی چاہتا تھا کہ وہ اس پر بے خبری میں حملہ کرے۔ رنجیت سنگھ نے پہلے یہ معلوم کر لیا تھا کہ فتح خان نے تیاری مکمل کی ہوئی ہے اور تو ہیں قلعے میں مقابلہ کیلئے تیار ہیں۔ آخر رنجیت سنگھ نے خوشاب سے فارغ ہو کر اس پر حملہ کر دیا اور باپ بیٹے کو گرفتار کر کے لاہور لے گیا جہاں وہ ایک سال رہے ۔ یہ علاقہ اس نے اپنے بیٹے کھڑک سنگھ کی تحویل میں دیدیا۔ اس کے بعد ان کو گزارے کیلئے جاگیر دی لیکن یہ مطمئن نہ ہوئے اور بہاولپور چلے گئے ۔ ملتان کے محاصرے میں رنجیت سنگھ کو ان کے بہاولپور چلے جانے اور فتح خان کی وفات خبر ہوئی تو اسے اگر ان کو لا کر دلاسا دیا اور جا گیر دیگر مطمئن کر دیا۔
شاہ پور اور بکھر بار کی فتح :
خوشاب اور ساہیوال کی فتح سے فارغ ہو کر رنجیت سنگھ نے شاہ پورسیدوں سے اور بھر بار بدھ سنگھ بھنگی سے لے لیا اور اس کے بعد فاروقہ اور کالو وال پر بھی قبضہ کر کے جھنگ سیالوں سے لے لیا۔ اس کے بعد محمہ ٹوانہ ٹوانوں سے لے لیا۔ اس طرح آہستہ آہستہ رنجیت سنگھ نے پورے پنجاب پر 1834 ء تک اپنی گرفت مضبوط کر لی۔ اس وقت سرحد بھی پنجاب کا حصہ تھا- 1834ء میں رنجیت سنگھ پر پہلی دفعہ فالج کا حملہ ہوا لیکن وہ جان لیوا ثابت نہ ہوا۔ 1839ء میں دوبارہ حملہ ہوا جس سے وہ نہ بچ سکا۔ اسے اپنی چار بیویوں اور کئی داسیوں کے ساتھ چتا میں جلا دیا گیا۔
کردار:
رنجیت سنگھ اگر چہ ان پڑھ تھا لیکن قدرت نے اسے کافی اچھا ذہن دیا تھا جس کی بدولت وہ پنجاب کا حکمران بن گیا۔ اس نے دقیانوسی طریقہ جنگ کو ترک کر کے یورپین طریق جنگ کو اپنایا اور اس مقصد کیلئے یور چین افسروں کو بھرتی کیا۔ جنرل دنتو را اس کا مشہور ترین جرنیل تھا۔ اس کا تعلق اٹلی سے تھا اور جنرل ایلارڈ کا تعلق فرانس سے تھا۔ دونوں نپولین کی فوج میں خدمات سرانجام دے چکے تھے۔ ان کے علاوہ اور بھی انگریز افسر تھے لیکن کسی کو داڑھی صاف کرنے کی اجازت نہ تھی جس پر وہ بختی سے عمل کرتے رہتے۔
معیار ملازمت:
رنجیت سنگھ نے ملازمتوں کے بارے میں قابلیت ہی کو معیار انتخاب مقرر کیا۔ اس سلسلے میں اس کی مجبوری یہ تھی کہ اس کو اپنی قوم یعنی سکھ انتظامی معاملات میں تجر بہ واہلیت نہ رکھتی تھی اس وجہ سے فتح سنگھ نے اسے مشورہ دیا تھا کہ سکھ قوم کو انتظامی ذمہ داریوں سے علیحدہ رکھے اس لئے اس نے سب قوموں کو اہمیت کی بنیاد پر ملازم رکھا۔ اس کا مسلمان وزیر فقیر عزیز الدین دربار میں کافی اثر رکھتا تھا۔ اس کے علاوہ تو پچانے کے افسر کرنل الہی بخش مظہر علی اور قادر بخش کے نام قابل ذکر ہیں۔
مذہبی فرائض پر پابندی :
اذان تکبر اور نماز پڑھنے پر پابندی تھی ۔ اکثر مساجد کو بارود خانوں ، شراب خانوں، مندروں میں تبدیل کر دیا گیا۔ بزرگان دین کے مزارات ، بادشاہوں کے مقابر سے تمام قیمتی پتھر سکھا شاہی کا خاتمہ اتار لئے گئے ۔ آصف خان کا مقبرہ اور نور جہاں کے مقبرے خاص طور پر نشانہ بنے
۔
سکھا شاہی کا خا تمہ :
رنجیت سنگھ کے انتقال کے بعد سکھ دربار افراتفری کا شکار ہو گیا۔ سکھ فوج رنجیت سنگھ کے ہر جانشین کو قتل کر دیتی تھی۔ سکھ فوج نے خود سر ہو کر انگریزوں سے لڑائی کی ابتدا کی جو اس کے بعد چیلیاں والے میں ختم ہوگی اور پنجاب پر انگریز قابض ہو گیا۔ یہ سکھوں کی بد قسمتی تھی کہ 1839ء میں جب رنجیت سنگھ نے وفات پائی تو ساتھ ہی اگلے سال 5 نومبر 1840 ء کو کھڑک سنگھ اور اس کا بیٹا نو نہال سنگھ اسے جلا کر واپس آرہا تھا تو قلعے کی ایک بوسیدہ عمارت کے اچانک گر جانے کی وجہ سے نیچے آ کر مر گیا۔ اس کے بعد سکھوں پر کسی کی حکومت نہ رہی تو ان کی طاقت کو ختم کرنے کیلئے انگریزوں کے خلاف جنگ پر ابھارا گیا۔ مرکزی قیادت کے نہ ہونے کی وجہ سے سکھوں کو شکستوں پر شکستیں ہوئیں۔ آخر کار 1849ء چیلیانوالہ ضلع گجرات میں حکومت ختم ہوگئی۔ مہاراجہ دلیپ سنگھ کو پنشن دے کر ولایت بھیج دیا گیا جہاں پر اس نے سکھ مذہب چھوڑ کر عیسائیت قبول کر کے ہندوستان سے تعلق ختم کر لیا اور فوت ہو گیا۔ انگریز بلا شرکت غیر تے پنجاب پر قابض ہو گئے۔
نواب مقرب خان :
لگھڑرد سردار مقرب خان نے احمد شاہ ابدالی کے حملوں میں اس کا ساتھ دیا اس لئے احمد شاہ کے دل میں مقرب خان کی خاصی قدر و منزلت تھی۔ تاریخی اعتبار سے لگھڑوں کا یہ آخری خود مختار سردار تھا۔ احمد شاہ نے نواب کے خطاب سے نواز کر دریائے اٹک سے لے کر دریائے چناب کے مابین علاقہ پر اس کو حاکم بنا دیا لیکن احمد شاہ ابدالی کی واپسی پر 1765ء میں گوجر سنگھ بھنگی نے گجرات کے قریب ہمت خان کی غداری سے مقرب خان کو شہید کر دیا ۔ سکھوں نے گھڑوں کو ختم کرنے کیلئے ایک روپیہ سر کی قیمت مقرر کی۔
سرگودھا پر با قاعده حکومت:
رنجیت سنگھ نے 1803ء میں بھیرو پر قبضہ کر کے سرگودھا ضلع کے علاقوں پر قبضہ شروع کیا اور 1809 تک بلوچوں کو شکست دے کر پورے ضلع پر قابض ہو گیا۔ شاہ پور اور اس کی ذیلی وملحقہ ریاستوں پر سکھ افسران مستعین ہو گئے تھے لیکن رنجیت سنگھ نے انتظامی سہولت کے لئے ٹوانوں اور بلوچوں کے علاوہ بہت سے لوگوں کو جاگیریں دے رکھی تھیں جن کی بدولت وہ ملک کا انتظام چلا تا تھا۔
سکھ گردی اور مسلم معاشرہ :
سکھوں کی قریباً بارہ مسلیں جو مختلف ناموں سے پنجاب، پشاور اور کابل تک پہچان برس قبل سے لوٹ مار میں مصروف تھیں، ہر مسل کا الگ پروگرام اور طریق واردات تھا مگر ان تمام میں یہ قدر مشترک تھی کہ مسلمانوں کو مرعوب کیا جائے اور ان پر اس قدر ظلم ڈھائے جائیں کہ یا نیا حکومت کا خواب پھر نہ دیکھ سکیں چنانچہ یہی مقصد لئے ان سکھوں مسلوں نے پنجاب سے کابل تک مسلمانوں کو پریشان کئے رکھا۔ ایک طرف مسلمان اپنی سلطنت ختم ہو جانے کی وجہ سے پریشان تھے ، دوسری طرف سکھ گردی نے ان کی نیند اور آرام چھین لیا تھا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ان متفرق سکھ مشلوں کو شکست دیگر پنجاب پر حکومت قائم کی ، گو اس کی حکومت خود مختار نہیں کہلا سکتی کیونکہ ہندوستان کے دیگر علاقوں پر انگریز براہ راست حکومت چلا رہے تھے۔ انگریزوں اور سکھوں کا مفاداسی میں تھا کہ وہ مسلمانوں کی سیاسی قوت ختم کر دیں چنانچہ انگریز نے یہ مقصد سکھوں کے ذریعے حاصل کیا۔ انگریز نے پنجاب میں یہ مقصد تاوان، قرقیاں ، ضبطیاں وغیرہ اس طریقہ سے کیں کہ بڑے بڑے روڈ سا مقابلہ کی تاب نہ لا سکے اور روپوش ہوتے گئے ۔ جو بڑا زمیندار چپ جا تا سکھ حاکم اس کی اراضی ضبط کر لیتے تھے ۔ بڑے بڑے زمینداروں کی اراضی ضبط کر لی گئی۔ سکھ سپاہی جس گاؤں کا رخ کرتے مسلمان خوفزدہ ہو کر گاؤں چھوڑ جاتے تھے۔ سکھ فوجیوں نے خانقاہ حضرت سلطان باہو گو ویران کر دیا اور مزار کے سجادگان میں سے بیشتر کو گرفتار کیا۔ کچھ خانقاہ چھوڑ کر سندھ اور بلوچستان چلے گئے ۔ کتاب مناقبت سلطانی” کے مطابق اولاد حضرت سلطان باہو پر . زمانہ سخت اور مشکلات کا تھا چنانچہ جب سکھوں کی حکومت ختم ہو گئی اور انگریزوں نے نظم و نسق سنبھالا تو خانقاہ کی سجادگان میں جو زندہ تھے واپس آگئے ۔ سکھوں نے اذان اور نماز پر پابندیاں عائد کر دیں۔ ذبیحہ گاؤ حکما بند کرا دیا۔ جھٹکے کا گوشت بازاروں میں سرعام فروخت ہونے لگا، مساجد میں شراب پی جانے لگی۔ علماء کی توہین و تذلیل کیلئے ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے تھے۔ خوشاب کے مسلمانوں پر 35 برس کا عرصہ انتہائی صبر آزما گزرا۔
جد و جہد آزادی اور شاہ اسمعیل شہید کی تحریک :
کھوں اور انگریزوں کو اس امر کا احساس تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی امیدیں اب افغان حکومت سے وابستہ ہیں اور مسلمانوں کو امید کی اگر کوئی جھلک نظر آتی ہے تو وہ افغانستان ہی کے لوگ تھے جو کسی وقت بھی منظم ہو کر پنجاب یا ہندوستان سے انگریزوں کی حکومتیں ختم کر سکتے ہیں اسی لئے انگریز نے نہایت ہوشیاری سے سکھوں کو پٹھانوں سے لڑا دیا۔ عین اس وقت مجاہد کبیر سید احمد بریلوی اور حضرت شاہ اسمعیل شہید نے جہادکا پر چم لہرایا۔ مجاہدین کی اس تحریک میں حافظ علی محمد نقشبندی جن کا مزار چوک بزار جھنگ صدر میں ہے، کے پوتے حافظ غلام حسن شامل ہوئے اور بالاکوٹ میں شہادت پائی۔
صاحب خان اور لنگر خان کا سکھوں سے اتحاد:
مجاہد کبیر سید احمد بریلوی نے ضلع ہزارہ میں سکھوں کے خلاف جو تحریک شروع کر رکھی تھی اس کے اثرات جھنگ وسرگودھا خوشاب میں بھی محسوس ہوئے ۔ جنجوعہ قبیلہ نے سکھوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور اپنی تمام عسکری قوت سکھ حکومت کے خلاف تریمو اور کچھی کے علاقہ میں جمع کرلی ۔ مرزا غلام مرتضیٰ نے سکھوں کی ملازمت اختیار کی۔ 1841ء میں جنرل ونچوار کے ہمراہ کلو اور منڈی کی مہم میں حصہ لیا۔ 1843 ء میں ضلع ہزارہ میں مجاہدین کے خلاف مصروف رہا اور اپنے بھائی محی الدین کو وسطی پنجاب روانہ کیا جہاں اس نے لنگر خان حاکم ساہیوال (سرگودھا) اور صاحب خان ٹوانہ کو ساتھ ملا کر سکھوں سے باغی مسلمانوں کے خلاف فوجی مہم چلائی۔ چنانچہ بھی الدین نے تریمو کے قریب زبر دست اور اچانک حملہ کیا جس سے مسلمانوں کو شکست ہوگئی اور چھ سو مسلمان مجاہد دریائے چناب میں ڈوب کر جاں بحق ہوئے ۔ اس خدمت کے صلہ میں سکھ حکومت نے ان کی قادیان کی جا گیرواگزار کی ۔ جنجوعہ مسلمانوں کی اس بغاوت کو کچلنے کیلئے گوجرانوالہ کے دو سکھ بھائیوں شیر سنگھ اور فتح سنگھ نے بھی حصہ لیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سکھ حکومت پورے پنجاب میں قائم ہوگئی۔
یہ مضمون شیخ محمد حیات کی کتاب "ضلع خوشاب تاریخ کے آئنے میں "سے لیا گیا ہے