گورا شاہی دور
انگریز رنجیت سنگھ کی زندگی میں تو پنجاب پر قبضہ نہ کر سکے کیونکہ اہیں نے اپنے یورپین جرنیلوں سے اپنی فوج کی انگریز فوج کی طرح تربیت کی ہوئی تھی ۔ اس لئے ان کی فوج کسی طرح بھی انگریز فوج سے کم نہ تھی۔ سکھ فوج کے پاس اس کا بہترین توپ خانہ تھا اور فن توپ سازی کے لئے اس کے پاس بہترین کاریگر تھے ۔ انگریز پنجاب پر قبضہ کرنے سے پہلے پورے برصغیر پر قابض ہو چکے تھے ، اب پنجاب پران کی نظریں تھیں۔ رنجیت سنگھ کی وفات نے ان کی اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کا موقع فراہم کردیا۔
انگریزوں کی جنگی تیاریاں:
1844ء میں جب لارڈ ہارڈنگ گورنر جنرل کی حیثیت سے ہندوستان آیا، اس وقت پنجاب طوائف الملو کی اور بدامنی کا شکار ہو چکا تھا۔ اس نے بمبئی میں ایسی کشتیاں بنانے کا حکم دیا جن کی مدد سے وہ تلج میں سفر کر کے پنجاب میں داخل ہوسکتا تھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ لدھیانہ، انبالہ اور فیروز پور میں کثیر فوج بھی جمع کر دی۔ انہی دنوں انگریزوں نے سندھ پر بھی قبضہ کر لیا جس سے سکھ اور بھی خطرہ محسوس کرنے لگے۔ انگریزوں کے مندرجہ بالا اقدامات کی وجہ سے سکھ خطرہ محسوس کرنے لگے تھے۔ ان کا یہ پختہ خیال ہو گیا کہ انگریز بہت جلد لاہور پر قبضہ کر لینگے۔ لدھیانہ میں مسٹر کلارک کی جگہ میسجر براڈنٹ کو برطانوی ایجنٹ مقرر کیا گیا۔ اس نے آتے ہی تلج پار کے تمام علاقے برطانوی حکومت کے تحفظ میں لینے کا اعلان کر دیا۔ اس اعلان نے سکھوں کو انگریزوں کے خلاف کر دیا اور انہوں نے محسوس کیا کہ اب انگریزوں سے جنگ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
رانی جنداں کی غیر ذمہ دارانہ پالیسی :
جب رانی جنداں نے سکھ فوج کو قابو سے باہر ہوتے دیکھا تو اس نے یہ خیال کرتے ہوئے انگریزوں کے خلاف بھڑ کا یا کہ اگر یہ فوج فاتح ہوئی تو علاقے ملیں گے اور اگر شکست کھا گئی تو مداخلت سے باز رہے گی۔
سکھوں کا حملہ:
سکھوں نے حملہ میں پہل کرتے ہوئے ستلج پار کر کے انگریزی فوج پر حملہ کر دیا۔ لارڈ ہارڈنگ نے جونہی یہ خبرسنی اس نے سکھوں کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔
لاہور پر انگریزوں کا قبضہ :
انگریزوں اور سکھوں کے درمیان پہلی جنگ مدکی کے مقام پر ہوئی جس میں سکھوں کو شکست ہوئی اور سترہ تو میں بھی انگریزوں کے ہاتھ لگیں۔ اس کے بعد فیروز شاہ اور علی وال کے معرکوں میں بھی سکھوں کو شکستیں ہوئیں۔ اس کے بعد پھر اؤ میں بھی شکست ہوئی۔ اس جنگ میں گلاب سنگھ نے انگریزوں کی مدد کی۔ اس طرح 20 فروری 1846 ء کو لاہور پر انگریزوں کی مدد کی ۔ انہی خدمات کے صلے میں اسی گلاب سنگھ کے ہاتھ کشمیر کو بیچ دیا گیا۔
معاہدہ لاہور :
انگریزوں اور سکھوں کی پہلی جنگ معاہد ہ لاہور پر ختم ہوئی جس کی بڑی بڑی شرائط درج ذیل ہیں۔
1 – جالندھر دواب کے علاقے انگریزوں کے حوالے کر دیے گئے۔
2- ڈیڑھ کروڑ روپیہ سکھوں پر تاوان جنگ عائد کیا گیا۔ پچاس لاکھ پنجاب کے خزانے سے وصول کئے ، باقی ماندہ کے لئے کشمیر کو گلاب سنگھ کے ہاتھ فروخت کیا گیا۔
3- خالصہ فوج کی تعداد گھٹا دی گئی۔
4- سکھوں کو بندوقوں سے محروم کر دیا گیا۔
5- دلیپ سنگھ کی مدد کیلئے انگریزی فوج لاہور میں متعین کر دی گئی ۔
6- کرنل ہنری لارنس کو خالصہ دربار میں ریزیڈنٹ مقرر کیا گیا۔
7۔ خالصہ فوج کو توڑ دیا گیا۔
8 – برطانوی فوج کو پنجاب میں آزاد نہ نقل وحرکت کی اجازت دی گئی ۔
9۔ ایسٹ انڈیا مینی کی منظوری کے بغیر لاہور دربار میں کسی یورپی جی کی ملازمت پر پابندی کا دی گئی ۔
10 ۔ انگریزی فوج کے اخراجات کیلئے ایسٹ انڈیا کمپنی کو 20 لاکھ روپے سالانہ کے حساب سے دیئے جائیں گے۔
11 – خالصہ فوج کی تعداد اور تنخواہ میں کمی۔
انگریزوں نے سکھوں کو معاہدہ میں جکڑ لیا اور وہ پنجاب کے حقیقی معنوں میں آہستہ آہستہ حکمران بن گئے ۔ سکھوں نے اگر چہ اپنے وقار کو بحال کرنے کیلئے اس کے بعد بھی جنگیں لڑیں، افغانستان سے بھی مدد لی لیکن یہ تمام اقدامات انہیں شکست سے نہ بچا سکے۔ آخرکار انگریز گجرات کی لڑائیوں کے بعد پورے پنجاب وسرحد کے مالک بن گئے ۔
1857ء کی جنگ آزادی اور پنجاب :
1857ء کی جنگ آزادی میں پنجاب اور خاص کر ضلع سرگودھا نے کوئی خاص دلچسپی نہ لی۔ چند واقعات کو چھوڑ کر پورے پنجاب کے لوگوں نے انگریزوں کی بہت مدد کی کیونکہ وہ سکھوں کے مقابلے میں انگریزوں کو نجات دہندہ سمجھتے تھے ۔
کمپنی کی حکومت کا خاتمہ :
1849ء سے 1857 ء تک پنجاب کمپنی کی حکومت کے تحت کر دیا گیا اور انتظام چلانے کیلئے گورنر جنرل کا تقرر ہونے لگا۔ اس وقت انگلستان میں ملکو وکٹوریہ کی حکومت تھی ۔
انگریزی عہد حکومت :
انگریزوں نے بانجاب پر تفر یا ایک صدی حکومت کی۔ اس عرصہ میں انہوں نے ایک جاگیر دار طبقہ پیدا کیا جس نے ان کی حکومت کو استحکام بخشا۔ ہمارے علاقے میں جن جن لوگوں کو نوازا گیا ان کی فہرست دیدی گئی ہے تا کہ اس سے ان کی طرز حکومت کا اندازہ لگایا جاسکے کہ وہ عوام کو ان لوگوں کے ذریعے قابو میں رکھتے تھے۔ ان میں کرسی نشین ، انعام داران ، ڈویژنل درباری قسم کے لوگ تھے جن کو طرح طرح سے نوازا جاتا۔ انگریزی حکومت کا اجمالی خاکہ سب سے پہلے جو یورپی قوم برصغیر آئی وہ پرتگالی تھے۔ انہوں نے سولہویں صدی آرام سے گزاری استر ہویں صدی کے شروع میں انگریز ، ولندیزی اور فرانسیسی بھی ان کی دیکھا دیکھی پہنچی ہے۔ گئے۔ پرتگیز اور ولندیز اپنی دال گلتی نہ دیکھ کر یہاں سے کھسک گئے ۔ ولندیزیوں نے جا کر ملایا اور انڈونیشیا پر قبضہ کر لیا۔ فرانسیسیوں اور انگریزوں کی آپس میں لڑائیاں ہوئیں ۔ آخر فرانسیسی بھی یہاں سے کوچ کر گئے ۔ انگریزا کیلئے میدان میں رہ گئے اور انہوں نے بنگال کی طرف سے شروع کر کے آہستہ آہستہ سارے ملک پر، آخری صوبہ پنجاب رہ گیا تھا، اس پر 1849ء میں سکھوں کو شکست دیکر قبضہ کر لیا۔ بنگال میں انگریزی حکومت کی بنیاد کلائیو نے رکھی۔ اس کے بعد 1774ء میں دارن ہسٹینگز آیا۔ اس نے 1785 ء تک حکومت کی۔ اس کے زمانے میں میسور کی جنگوں کی ابتدائی ہوئی۔ اس کے بعد لارڈ کارنوالس آیا۔ یہ 1793 ء تک رہا۔ اس کے عبد میں میسور کی تمیزی جنگ ہوئی۔ اس کے بعد سرجان شور آیا، یہ 1798 ء تک رہا۔ اس کے بعد لارڈ ولز کی آیا۔ نیہ 1805ء تک رہا۔ اس کے عہد میں میسور پر قبضہ ہوا اور مرہٹوں کی طاقت ختم ہو گئی پنے ائن کی پالیسیوں کی بدولت برصغیر میں انگریزی حکومت کے قدم جم گئے ۔ اسی لئے اسے حقیقی بانی خیال کیا جاتا ہے۔
ولزلی کے بعد لارڈ کار تو الس آیا لیکن وہ تین ماہ بعد مر گیا۔ اس کے بعد سر جان با رسوا یا اور وہ 1807 ء تک رہا۔ اس کے بعد لارڈ منٹو آیا۔ وہ 1813 ء تک رہا۔ اس کے عہد میں رنجیت سنگھ نے پورے پنجاب وسرحد پر قبضہ کر لیا۔ انگریزوں نے اسے روکنے کیلئے معاہدہ کیا اور تاج سرحد قرار پائی۔ اس کے بعد وازن ہیسٹنگز آیا اور وہ 1823 ء تک رہا۔ اس کے عہدہ میں مرہٹوں کی تیسری جنگ ہوئی ۔ اس کے بعد لارڈ ایمرسٹ آیا۔ یہ 1828 تک رہا ۔ اس کے عہد میں برما کی جنگ ہوئی اور شملہ گرمائی دارالحکومت قرار پایا۔ اس کے بعد لارڈ میٹنگ آیا۔ یہ 1835 ء تک رہا۔ اس کا زمانہ اصلاحات کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس کے بعد آک لینڈ آیا۔ یہ 1842 تک رہا۔ اس کے عہد میں افغانستان کی پہلی جنگ ہوئی ۔ اس کے بعد لا پیڈالین برا آیا اور یہ 1844ء، لکھ دیا ۔ اس کے عہد میں سندھ فتح ہوا۔ اس کے بعد لارڈ ہارڈنگ آیا۔ یہ 1848 تک رہا اور اس کے معبد میں سکھوں کی پہلی لڑائی ہوئی۔ اس کے بعد لارڈ ڈلیوزی 1856 ء تک رہا۔ اس کے عہد میں پنجاب پر انگریزوں کا قبضہ ہو گیا اور مواصلات کو بڑی ترقی دی گئی۔ ڈاک، ریل اور تار کا نظام جاری ہوا۔ اس کے بعد لارڈ کینگ آیا۔ اس نے 1858 ء تک بطور گورنر جنرل حکومت کی ۔ اس زمانے میں جنگ آزادی لڑی گئی ۔ 1863 ء تک یہ بطور وائسرائے حکومت کرتا رہا۔ آخر کمپنی کی حکومت ختم کر دی گئی اور ملک ملکہ وکٹوریہ کے ماتحت ہو گیا۔ اسی زمانہ میں یہاں جاگیردار طبقہ پیدا کیا گیا۔ اس کے بعد لارڈ نگین آیا۔ اس نے 1864 تک حکومت کی۔ اس کے بعد لارڈ لارنس آیا۔ اس نے 1869ء تک حکومت کی۔ اس کے بعد لارڈ ڈ میں آیا۔ یہ 1871ء میں قتل ہو گیا۔ میوہسپتال اس کی یادگار ہے۔ اس کے بعد لارڈ نارتھ بروک آیا۔ یہ 1876 ء تک رہا۔ اس کے بعد لارڈلٹن آیا۔ اس کے زمانے میں علی گڑھ یونیورسٹی کی بنیاد رکھی ۔ یہ 1880 ء تک رہا۔ اس کے بعد لارڈر پن آیا۔ اس کے عہد میں لوکل سیلف گورنمنٹ کی بنیاد رکھی گئی ۔ یہ 1884 ء تک رہا۔ اس کے بعد لارڈ ڈفرن آیا۔ یہ 1888 ء تک رہا۔ اس کے بعد لارڈ لینٹرن 1894 ء تک رہا۔ اس کے بعد لارڈ ایلکن آیا۔ اس کے عہد میں قحط اور طاعون پھیلی۔ یہ 1899 ء تک رہا۔ اس کے بعد لارڈ کرزن آیا۔ یہ 1905ء تک رہا۔ اس کے زمانے میں محکمہ آثار قدیمہ کی بنیاد رکھی گئی۔ اس کے بعد لارڈ منٹو آیا۔ اس کے زمانے میں 1906ء میں مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ 1910 ء تک رہا۔ اس کے بعد لارڈ ہارڈنگ آیا۔ اس کے عبد میں پہلی عالمی جنگ چھڑ گئی۔ یہ 1914 تک رہا۔ اسی زمانہ میں کلکتہ کی بجائے دہلی دار الحکومت بنایا گیا۔ اس کا اعلان عمر حیات ٹوانہ نے کیا تھا۔ اس کے بعد لارڈ چمسفورڈ آیا۔ یہ 1912 ء تک رہا۔ اس کے عہد میں جنگ ختم ہوئی۔ اس کے بعد لارڈ ریڈنگ آیا۔ یہ 1926 ء تک رہا۔ اس نے دولت ایکٹ منسوخ کر دیا۔ اس کے بعد لارڈارن آیا۔ اس کے عہد میں سائمن کمیشن بنا۔ یہ 1931ء میں مستعفی ہو گیا۔ اس کے بعد ولنگڈن آیا۔ یہ گورنر جنرل بن کر آیا ، 1936 ء تک رہا۔ اس کے بعد جارج پنجم مر گیا۔ ایڈورڈ ہشتم دستبر در ہو گیا اور جارج ششم بادشاہ بن گیا۔ اس کے بعد لارڈ نلتھگو آیا۔ اس کے عہد میں دوسری عالمی جنگ چھڑی۔ یہ 1943 ء تک رہا۔ اس کے عہد میں جنگ کا خاتمہ ہوا، شملہ کانفرنس ہوئی۔ آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن 1947ء میں آیا ۔ اس کے عہد میں برصغیر آزاد ہو کر تقسیم ہو گیا۔
یہ مضمون شیخ محمد حیات کی کتاب "ضلع خوشاب تاریخ کے آئنے میں "سے لیا گیا ہے