اگر چہ کا ئنات کی عمر کے بارے میں سائنس دان متفق نہیں ۔ مغربی ماہرین فلکیات نے دس ارب سال سے لے کر 90 ارب سال تک تصورات پیش کئے ہیں اور سائنس دانوں نے اسے لامتناہی بتایا ہے یعنی اس کا کوئی نقطہ آغاز معلوم نہیں ہو سکا لیکن کہکشاں ، نظام شمسی اور زمین کی عمروں پر سائنس دان تقریباً متفق ہیں۔ جدید ترین اندازوں کے مطابق ہماری کہکشاں کی عمر دس سے لے کر پندرہ ارب سال ہے اور نظام شمسی اور زمین کی عمر پانچ ارب سال ہے۔
زمین کے آغاز کے بارے میں جدید ترین نظریہ یہ ہے کہ آج سے پانچ ارب سال پہلے گیس اور غبار کا ایک وسیع و عریض بادل کشش ثقل کے انہدام کے باعث ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا۔ سورج جو مرکز میں واقع تھا، نے سب سے زیادہ گیس اپنے پاس رکھی ، باقیماندہ گیس سے گولے بن گئے ۔ گیس اور غبار کا یہ بادل ٹھنڈا تھا اور اس سے بننے والے گولے بھی ٹھنڈے تھے۔ سورج ستارہ بن گیا اور دوسرے گولے سیارے، زمین انہی میں سے ایک گولہ ہے۔ سورج میں سارے شمسی نظام کا 99% مادہ مجتمع ہے۔ مادے کی کثرت اور گنجانی کی وجہ سے اس میں حرارت اور روشنی ہے۔ باقیماندہ ایک فیصد مادے سے تمام سیار ہے جو نظام شمسی کا حصہ ہیں، بنے ہیں ۔ جب زمین سکڑتی گئی تو اس سے حرارت پیدا ہوئی۔ حرارت سے مادے کا جو حصہ بخارات بن کر اڑا فضا کے بالائی حصوں کی ٹھنڈک کی وجہ سے بارش بن کر برسا۔ ہزاروں سال یہ عمل چلتا رہا۔ ابتدا میں تو بوندیں زمین پر پہنچتی بھی نہ تھیں بلکہ راستے میں ہی بخارات بن کر اڑ جاتی تھیں مگر کروڑوں سال کے مسلسل عمل سے زمین ٹھنڈی ہوتی گئی۔ زمین پر زندگی کے ارتقا کے بارے میں جو جو تجربات سامنے آتے گئے ، ان کو سمجھنے کیلئے تھوڑا سا پس منظر بیان کرنا ضروری ہے۔ انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا نے درج ذیل زمانوں میں تقسیم کیا ہے۔ ما قبیل کیمبرین (CAMBRIAN)
وقت / زمانه کرہ ارضی میں قدیم ترین چٹانوں کی تشکیل آج سے تقریباً چار ارب پچھتر کروڑ سال قبل شرع ہوئی۔ ماقبل کیمبرین زمانہ اس وقت سے لے کر آج تک 57 کروڑ سال قبل کے طویل دور پر محیط ہے۔ یہ زمانہ چار ارب سال رہا۔ زمین پر زندگی کا آغاز اس دور میں ہو چکا تھا۔ نچلا قدیم مجر حیات کا دور میہ اور 57 کروڑ سال قبل سے شروع ہو کر 39 کروڑ 50لاکھ سال قبل تک رہا۔ اس کا کل عرصہ 18 کروڑ پچاس لاکھ سال بنتا ہے۔ اس دور میں زندگی کے بے شمار شواہد چٹانوں میں محفوظ ملے ہیں۔ اس سے پہلے تقریباً ڈھائی ارب سال زندگی کا وجود تسلیم کیا جاتا ہے مگر اس کے مجرات زیادہ نہیں ملے ۔ اس دور کو تین ضمنی ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
(1) کیمبرین زمانه (2) آرڈوشین (ORDOUCIAN) زمانه (3) سلورین(SILURIAN) زمانہ
(ج) بالائی قدیم محجر حیات کا دور
یہ دور 39 کروڑ پچاس لاکھ سال قبل سے شروع ہو کر 22 کروڑ پچاس لاکھ سال قبل تک رہا۔ گویا کل 17 کروڑ سال کے عرصے پر محیط رہا ہے۔ اس دور کو مزید چار منی ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
(1) ڈیونین زمانہ: نہ زمانہ پانچ کروڑ سال برہا۔ اس دور میں پہلی بار پانی کے جانور ظاہر ہوئے۔
(2) نچلا کاربن دار زمانہ : یہ ادوار کل آٹھ کروڑ سال کے عرصے پر محیط ہیں۔
(3) بالائی کاربن دار زمانہ: ان ادوار میں کوئلہ وجود میں آیا ۔
(4) پریمن زمانہ: یہ زمانہ چار کروڑ پچاس لاکھ سال پر محیط ہے۔
(5) درمیانی مجر حیات کا دور: یہ دور آج سے بائیس کروڑ پچاس لاکھ سال پہلے سے لے کر آج سے ساڑھے چھ کروڑ سال قبل تک رہا۔ یوں اس دور کا کل عرصہ سولہ کروڑ سال ہوتا ہے۔ اس عہد کو تین ضمنی ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے۔
(1) تمیمن پرتی زمانہ: یہ زمانہ چار کروڑ پچاس لاکھ سال جاری رہا۔ اس زمانے میں رینگنے والے
جانور خوب پھلے پھولے۔
(2) پہاڑی زمانہ: یہ زمانہ بھی چار کروڑ پچاس لاکھ سال کے عرصے پر پھیلا ہوا ہے۔ اس عہد میں ڈائنو سار ا ور ا کٹوپس نما جانور عروج پر تھے۔
(3) چاک دار زمانہ: یہ زمانہ چار کروڑ پچاس لاکھ سال کے عرصے پر پھیلا ہوا ہے۔ اس عہد میں چاک کے ذخائر پیدا ہوئے اور زمین پر پھول دار پودے پہلی بار نمودار ہوئے۔
نئی حیات کا دور
یہ زمانہ چھ کروڑ پچاس لاکھ قبل سے لے کر زمانہ حال تک پھیلا ہوا ہے۔ اس عہد میں زمین نے موجودہ شکل اختیار کی۔ یہ عہد دودھ دینے والے جانوروں اور پھل دار پودوں کا عہد کہلاتا ہے۔ اس عہد کو مزید دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
(1) تیر از مانه (2) چوتھا زمانہ
تیسراز مانه
یہ زمانہ آج سے چھ کروڑ پچاس لاکھ سال پہلے کے وقت سے لے کر پچیس لاکھ سال قبل تک پھیلا ہوا ہے۔ اس زمانے میں زمین پر پہاڑ بنے۔ اس عہد میں ہمالیہ وجود میں آیا۔ کئی نئے سمندر بنے اور کئی ختم ہو گئے۔ ان سب ارضیاتی تبدیلیوں نے شیر دار جانوروں اور پرندوں کی کرہ ارض پر تقسیم اور پھیلاؤ میں نمایاں کردار ادا کیا۔ نیز اس دور میں نباتاتی زندگی کے ارتقا نے زمین کا
حلیہ تبدیل کر دیا ۔ اس کے بعد پتھر کا زمانہ میں لاکھ سال سے بارہ ہزار سال قبل پر ختم ہوتا ہے۔ اس عہد میں انسان نے پتھر کے اوزار بنائے۔ اس کے بعد مکمل نزدیکی زمانہ ہے، اس میں منظم شہروں کا ثبوت ملا ہے جس کا تازہ ترین ثبوت ناڑی کی مدفون تہذیب کی دریافت ہے۔
اس دور کی اپنی ایک سائنس بھی تھی۔ اس کے دو بڑے شعبے تھے۔ اوزاروں کی مدد سے اوزار بنانے کا کام طبیعات کی سائنس کی بنیاد تھا۔ یہ وہ شروعات تھی جس سے آگے چل کر طبیعات کی ترقی کیلئے راستہ کھولنا تھا۔ یہ فزکس کی ابتدا تھی۔ دوسرا شعبہ آگ پر قابو پانے کے باعث وجود میں آیا۔ جس طرح اوزار سازی طبیعات کی بنیاد بنی اسی طرح آگ کیمیا کی بنیاد بنی۔ بذات خود آگ کا لکڑیوں کو جلانے کا عمل کیمیاوی عمل ہے۔ اس انسان نے اس پر گوشت کو بھوننے کا طریقہ سیکھا۔ یہ بھی کیمسٹری کی ابتدائی کارروائی ہے۔ بعد میں جب انسانوں نے پتھر اور مٹی کے پیالے بنانے سیکھے تو پانی ابالنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ آج بھی شمالی امریکہ میں ابلا ہوا گوشت کے الفاظ اصطلاحاً ضیافت کے معنوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ یہی بھونا اور ابالنا اس دور کی کیمیا تھی ۔ سائنس کی یہ ابتدا انسان کی مادی ضرورتوں کے اندر سے ہوئی تھی ۔ طویل عرصہ نباتات اور حیوانات کا گوشت کھانے کے بعد اس نے ان دونوں اشیاء نباتات اور حیوانات کی صفات اور خصوصیات کا مطالعہ کرنے کے بعد کچھ چیزوں کے نام رکھنا شروع کئے ہونگے ۔ کچھ درختوں، پودوں ، گھاس کی صفات کا علم، کچھ جانوروں کا علم، کچھ شکار کرنے کے طریقوں کا علم، اوزار سازی کے مرحلے ان سب چیزوں نے آگے چل کر برتن اور تن ڈھانپنے کے لئے جانوروں کی کھالوں کو استعمال کرنے کی راہ دکھائی ہو گی۔ لباس یعنی کھالوں کو قدرتی کانوں کے ذریعے جوڑنے کا کام اول اول یقیناً عورتوں نے کیا ہوگا۔ یہ دور گاؤں مہی زندگی سے پہلے کا تھا۔ ماں کی اس سماج میں مرکزیت تھی۔ شروع میں زمین پر خشکی کا ایک ہی بہت بڑا ٹکڑا تھا۔ براعظم ٹوٹ کر دو حصوں میں تقسیم ہوا۔ شمالی حصے کو انگار الینڈ اور جنوبی حصے کو گونڈوانہ لینڈ کہتے تھے ۔ یہ قطب جنوبی والی جگہ اور پہلا آرکٹک کی جگہ دکھائی تھیں۔ سمندر بھر جانے کی وجہ سے بیٹھ گیا اور زمین اونچی نیچی ہوگئی۔ خشکی بحر کی کی جگہ آگئی اور جو زمین اور پر اٹھی ہمالیہ وجود میں آیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان پہاڑوں میں سمندری جانوروں کے فاسلز ملتے ہیں۔
قدیم حجری دور
دنیا بھر میں انسانی زندگی کا ارتقا مادی ترقی کے حوالے سے مختلف زمانوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ انسانی زندگی کا آغاز اس وقت تسلیم کیا گیا ہے جب اس نے اپنی مدد کے لئے اوزار بنانے شروع کے سب سے پرانے آلات جو تاریخ نے محفوظ رکھے ہیں وہ پتھروں کے بنے ہوئے ہیں اور انسانی زندگی کا سب سے پہلا زمانہ پتھر کا زمانہ یا دور مجری کہلاتا ہے۔ اس کے بعد کانسی کا زمانہ اور پھر لوہے کا زمانہ ہے ۔ حجری دور سب سے طویل ترین دور ہے۔ یہ لاکھوں سالوں پر پھیلا ہوا ہے بعد کے دور اور اس میں مادی ترقی کی رفتار تیز ہوگئی ہے حجری دور کو تین بڑے حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
قدیم حجری دور (2) وسطی حجری دور ( 3 ) جدید حجری دور پھر قدیم مجری دور کے بھی اپنی جگہ دوسر حملے کر دیے گئے ہیں۔ نچلا اور بالائی ۔ نچلا قدیم جری دور پرانا ہے اور بالائی قدیم حجری دور بعد میں آتا ہے۔ نچلا اور بالائی کہنے کی وجہ سے یہ ہے کہ جو زمانہ جتنا زیادہ قدیم ہو گا اس کی باقیات زمین کے اندر اتنی ہی زیادہ گہری دفن ہونگی اور جو زمانہ آج سے جتنا قریب ہو گا اس کی باقیات سطح زمین کے قریب یعنی اوپر ہونگی۔
پاکستان کا قدیم حجری دور تقریبا چھ لاکھ سال قبل شروع ہوتا ہے۔ یہ سارے کا سارا انتہائی قریبی پلیسٹوسین زمانے سے تعلق رکھتا ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق انسانی ڈھانچوں کی باقیات اور اس سے بنائے ہوئے جو بھی اوزار کازمانہ شمار کیا جاتا ہے۔یہ سارا دور زیر دست موسمی تبدیلیوں کا دور تھا۔ بار بار کرہ ارض کے اکثر اور بیشتر حصوں پر برف کی چادر چھا جاتی تھی اور دشوار گزار ہو جاتی ۔ پھر برفیں پچھلتی سیلاب آتے اور پھر سکون کے دن آتے۔ اس کے بعد برف آجاتی۔ اس سارے زمانے میں چار برفانی اور تین درمیانی دور تسلیم کیے گئے ہیں۔ برفانی دور میں پوری کی پوری زمین پر برف کی چادر بچھ جاتی۔مکانی اور زمانی اعتبار سے پوری دنیا میں انسان کی کارگزاری ایک ہی رفتار سے ترقی کر رہی تھی۔ سارے حجری دور کے دوران دنیا بھر میں انسان کی بقا کا دارو مدار شکار کرنے اور خوراک ڈھونڈ نے پر تھا۔ انسان گروہوں میں بٹا ہوا تھا اور سرگرم سفر تھا۔ مستقل آبادیوں کا وجود نہ تھا۔ ہمالیہ کی مچھلی ڈھلوانوں کشمیر شمالی علاقہ جات اور پنجاب میں موسمیاتی ارتقا یورپ کی طرح ہوا۔ پاکستان کے اس حصے میں انتہائی نزدیکی زمانہ وقفے وقفے کی برف باری کا زمانہ ہے۔ برف کے لحاظ سے یورپ کے بھی چارہی زمانے متعین کئے گئے ہیں۔ کشمیر اور پنجاب اس علاقے یعنی خوشاب میں ارضیاتی ذخیرے کے مطالعے سے اس علاقے کے برفانی ادوار کا سراغ لگایا گیا ہے۔ وادی سون سکیسر میں امریکہ کی بیل (YALE) یونیورسٹی کی ٹیم نے اچھالی اچٹہ اور وڑ چھا کے علاقے میں تحقیق کی۔ پہاڑوں سے لایا ہوامٹی کا ملبہ پھیلا ہوا ہے اور جگہ جگہ پانی نے بہاؤ سے اوپر نیچے زینےبنا دیئے اور ایسے ہی دوسرے شواہد کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ خوشاب کے اس علاقے میں پانچ برفانی دور گزرے ہیں جن کے چار درمیانی دور گزرے ہیں۔ انہی درمیانی ادوار میں انسانی زندگی وادی سون سکیسر اور پوٹھو ہار کے علاقے میں ترقی کرتی رہی ہوگی۔انسان کی افرادی قوت میں اضافہ ہوتا رہا ہوگا اور برفانی دور میں یہ عمل رک جاتا ہوگا۔ پاکستانی انسان کے قدیم حجری دور کی ماہرین نے تین زمانی مرحلوں میں تقسیم کیا گیاہے۔ پاکستان کی سب سے قدیم ترین پتھر کی صنعت کو قبل از سون صنعت کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے بعد ابتدائی سون صنعت اور پھر آخری صنعت ہے۔ یورپ اور برصغیر میں جتنے بھی پتھر کے اوزار ملے ہیں وہ سب دریاؤں کے قریبی میدانوں میں ملے۔ انسان اونچی خشک جگہ پر رہتا تھا۔ اس کا سارا سفر دریاؤں کے کنارے یا پہاڑی چشموں کے ارد گرد ہوتا ہوگا۔ اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ خود اسے پانی کی ضرورت تھی دوسرے وہ شکار پر گزر بسر کرتا تھا۔ اس کے لئے ضروری تھا کسی نہ کسی ایسی جگہ پر جائے جہاں جانور پانی پینے بار بار آتے ہوں۔ یہ جگہ سوائے دریاؤں اور چشموں سے کوئی اور نہیں ہو سکتی ۔ ان علاقوں سے جو اوزار ملے ہیں، انکی ساخت پر موسمی تبدیلیوں کے مطابق تبدیلیاں نظر آتی ہیں۔ یہ زمانہ چھ لاکھ سال قبل سے لے کر ایک لاکھ سال قبل کا زمانہ ہے اس کو نچلا قدیم حجری دور سمجھنا چاہئے اور یہ زمانہ پاکستان کے قدیم ترین باشندوں کا زمانہ سمجھنا چاہئے ۔ جب وہ وادی سون سکیسر اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں رہتے تھے۔ انسان کی کثرت تعداد ان بے شمار ہتھیاروں کی موجودگی سے ثابت ہے جو اس علاقے میں جگہ جگہ بکھرے ہوئے مدفون ملے ہیں۔ یہ دوسری برف باری کا زمانہ ہے۔ اسی زمانے کے ہاتھی اور کچھ ہڈیوں کے فاسلز ملے ہیں، یہ اوزار انگه اگالی، چٹہ ، اچھالی کے نزدیک اور دیگر مقامات سے ملے ہیں۔ یہ سون صنعت کے پتھر کے اوزار بڑے حجم کے ہیں۔ یہ پتھر کے قدرتی ٹکڑوں کو ایک ہی ضرب سے تو ڑ کر بنائے گئے ہیں۔ ان کو مزید نہیں تراشا گیا یہ بخت پتھر سے بنائے گئے ہیں جن کی تراش خراش خاصا مشکل کام ہے۔ اس کے کنارے بعض اوقات کثرت استعمال سے گھس چکے ہیں۔ بعض اوقات قدرتی چٹانوں کے بڑھے ہوئے حصے کو توڑ کر چھلکا سا اتارا ہے پھر اس چھلکے کو مزید ضربوں سے تراش کر اوزار بنا لیا ہے۔ یہ اوزار عمو ماٹو کا ہے۔ اور اس کی شکل بھی کلہاڑے کے قریب آجاتی ہے اور یہ حجری دستی کلہاڑے اور جدید آہنی دستی کلہاڑے کی ابتدائی شکل اختیار قرار دیاگیا ہے۔
پتھر کے قدیم ترین اوزاروں کے ماہرین آثار قدیمہ نے جو تقسیم کی ہے اس میں پہلی تقسیم مغز (Core) اور بلیڈ یا چھری (Flake) اوزار کی ہے ۔ ایک پتھر کو لے کر اس سے فالتو حصہ بناتے بناتے آخر میں پھر مطلوبہ ہتھیار کی شکل اختیار کر لیتا اور یہ طریقہ کار پتھر کی ابتدائی مجسمہ سازی کے فن کی ابتدا تھی۔ بعض ماہرین نے ایک تیسری قسم بھی بتائی ہے جونو کا اوزاروں پر مشتمل ہے، اسے CHOPPING TOOLS کہتے ہیں۔ یہ خاص اس علاقے کا ہتھیار ہے۔ یورپ اور افریقہ سے نہیں ملا۔ یہ سب بڑے بڑے کھردرے اوزار ہیں۔ اس علاقے میں جو پتھر کے اوزاروں کی صنعت ملی ہے وہ انسانی کی زندگی کی نمائندگی کرتی ہے۔
سون صنعت کا زمانہ کافی وسیع ہے تقریباً چار لاکھ سال قبل سے لے دس ہزار سال قبل مسیح تک ۔ سون صنعت کا علاقہ خاصا وسیع ہے اس میں وادی سون اس سے متصل کوهستان نمک کا
پورا سلسلہ ہے۔
درمیانی سون صنعت
یہ صنعت پہلی سے ترقی یافتہ تھی ، اب اوزاروں پر محنت کر کے رگڑ کر باریک دھار کے چا تو پتھر سے بنانے لگے۔ اسی طرح اسی نیزے کی آنی بنے لگی۔
آخری سون صنعت
اس صنعت میں دستی کلہاڑے بنائے گئے ۔ یہ اوزار چھوٹی جسامت اور نفیس میں اس دور کی مجری در کشاپس بھی ملی ہیں ان میں بچہ اور ناڑی کی ورکشاپس شامل کی جا سکتی ہیں جہاں سے ڈاکٹر ڈار ماہر آثار قدیمہ نے وہ پتھر بھی ڈھونڈے ہیں جن سے کاٹ کاٹ کر وہ نفیس ہتھار بناتے تھے اور چاتو کی قسم کے ہتھیار سے مختلف رنگ کے سخت پتھروں کے کثیر تعداد میں ملے ہیں۔کچھ راقم کے پاس بھی ہیں۔
وسطی پتھر کا زمانہ
انسان ابتدائی وقت چشموں اور دریاؤں پر گزارتا تھا۔ وہاں اپنا شکار مار کر کھاتا تھا۔ آج بھی پہاڑی علاقوں میں چرواہے اندھی بارش اور طوفان میں اپنے جانوروں کو ساتھ لے کر غاروں میں پناہ لیتے ہیں۔ سخت گرمی میں دو پہر بھی گزار لیتے ہیں ۔ بعض اوقات شکاری ان غاروں میں چھپ کر گھات لگا کر جانور شکار کر لیتے ۔ جب جنگلی جانور چشموں پر پانی پینے آتے تھے انسان نے غاروں کو محفوظ خیال کرتے ہوئے ان میں رہائش رکھ لی۔ یہ سلسلہ نسلاً بعد نسلاً صدیوں تک رہا۔ اس وقت انسان پتھر کے ہتھیار استعمال کرتا تھا۔ صدیوں بعد انسان نے ان قدرتی ٹھکانوں کو چھوڑ کر خود ضرورت کے تحت ٹھکانے جھونپڑوں کی صورت میں بنانے شروع کہئے جن سے گاؤں وجود میں آئے۔
ماہرین نے قدیم انسان کی طرز زندگی کا مطالعہ کرنے کی خاطر غاروں کو چھان مارا اور بعض غاروں سے کافی معلومات بھی ملیں۔ مثلاً انسان جن جن جانوروں کا شکار کرتا تھا ان کے سینگ کیٹر تعداد میں ملے ہیں۔ جو پتھر کے اوزار ملے ہیں وہ گار پتھر کے بنے ہوئے ہیں۔ یہ چیزیں وسطی حجری دور سے تعلق رکھتی ہیں ان کا دورانیہ پچاس ہزار سال قبل سے پندرہ سال قبل تک ہے۔ وادی سون سے ملنے والے اوزاروں کو ان پتھر کے اوزاروں کے مماثل قرار دیا ہے جو میل یونیورسٹی کی ٹیم نے پوٹھوھار کے کھدائی کر کے نکالے تھے۔ اس ٹیم کا سربراہ ڈی ٹیرا (DETRRA) تھا۔ ایسی ٹیم نے پہلے 1932ء میں چہ سے اس قسم کے اوزار ڈھونڈے تھے۔ اس کا مطلب وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ غار والی زندگی کا مطلب یہ کہ انسان خوراک تلاش کرنے کے مرحلے سے نکل کر خوراک جمع کرنے کے مرحلے میں پہنچ گیا تھا۔
وسطی حجری دور کی تصاویر
اس زمانے کے انسان نے یہ آثار ان بے شمار خوبصورت تصویروں کی شکل میں چھوڑے ہیں۔ یہ تصاویر جگہ جگہ چٹانوں پر مہارت کے ساتھ ساتھ کندہ کی گئی ہیں۔ یہ سب بڑی گہری کھدی ہوئی ہیں۔ مرور ایام سے ان پر سیاہی چڑھ چکی ہے یا سبز کائی جم چکی ہے۔ قدیم دور کی تصویریں وسطی دور کے انسان کے ہاتھوں نے بنائی ہیں۔ یہ سب اس کی زندگی کو سمجھنے میں مدد دیتی ہیں۔
یہ قدیم تصاویر ماہر فنکاروں کی بنائی ہوئی معلوم ہوتی ہیں ان کو کسی نوک والے اوزار سے بنایا گیا ہے۔ یہ ایک طرف حقیقت پسندانہ ہیں اور مشاہدے کی گہرائی کو ثابت کرتی ہیں اور دوسری طرف ان میں تخیل کی رنگ آمیزی بھی نمایاں نظر آتی ہے۔ ان تصویروں کے موضوعات بیشتر دوہنی میں جانور اور انسان اور ان دونوں موضوعات میں بھی اصل موضوع ایک ہی ہے شکار ۔ انسان کو جانوروں کا شکار کرتے دکھایا گیا ہے۔
جانوروں کی تصویریں نہ یادہ حقیقت پسندانہ ہیں، ان کو کسی حرکت کی حالت میں دکھائی ہیں البتہ انسانی شکلیں صرف خاکے ہیں اور زیادہ بھر پور تاثر پیدا نہیں کرتیں ۔ ان تمام تصاویر میں دو باتیں مشترک ہیں ایک تو یہ کہ ان کے بنانے میں ایک تکنیک استعمال کی گئی ہے یہ سب ۔موضوعاتی ہیں چونکہ اکثر و بیشتر کا موضوع شکار ہے ۔ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ ان کی زندگی کا بیشتر ذریعہ معاش شکار تھا۔ دوسرے شاید تائیدی جادو ( SYMPATHETIC MAGIC) طور یر بنائی گئی ہوں تا کہ عملی شکار میں کامیابی حاصل ہو ۔ ان تصویروں میں کہیں بھی زراعت کی نمائندگی کرنے والی کوئی تصویر نہیں ملی ۔ وسطی مجری انسان کے جس اسلحے کی تصویریں بنائی گئی ہیں ان میں تیر کمان مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ اکثر چلے پر چڑھا ہوا ہے۔ پتھر کی چھریوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جانوروں کی باقاعدہ کھال اتاری جاتی تھی اور پھر لوگ ان کھالوں ہے تن ڈھاپنے کے لئے استعمال کرتے تھے، چٹانوں پر بنی ہوئی انسانوں کی اکثر تصویروں میں ٹانگوں کے درمیان اس کھال کی دم شکی نظرآتی ہے۔ بعض چٹانوں پر ہاتھ اور پاؤں کی تصویریں بنائی گئی ہیں ہاتھ کے خاکے میں انگوٹھا ہمیشہ دائیں طرف ہے اور پورے پنجے کا نشان پتھر کے اندر کھودا گیا ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ وہاں ہاتھ بنایا گیا ہے گویا ہم دائیں ہاتھ کی کھلی ہتھیلی کو دیکھ کر ہاتھ اور کھلی ہوئی انگلیوں کے اردگرد نشان لگایا گیا ہے اور اس کے بعد اس نشان کو مزید کھود کر ہاتھ کا نقشہ بنایا گیا ہے۔ پتھر کے اوپر رکھنے کی جگہ اندر دھنسی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ اس صورت میں یہ نہ بائیں ہاتھ کا نقش ہے۔ بہر حال ایک ہی ہاتھ کا نشان جگہ جگہ ملتا ہے۔ کہیں دوسرے ہاتھ کی تصویر اس کے ساتھ یکجا نہیں۔ پاؤں کا نشان بھی کئی جگہ ملتا ہے لیکن ہر جگہ ایک چٹان پر پاؤں کا صرف ایک نشان ہی ملتا ہے۔ کہیں دو نہیں اس میں بھی پاؤں کا نقش پورا نہیں کھودا گیا ۔ بلکہ صرف خاکہ بنایا گیا ہے۔ انگلیاں وضاحت سے ہاتھ کی طرح نہیں بنائی گئیں صرف آخر میں ہلکا سا انگلیوں کا تاثر دیا گیا ہے۔ کہیں وہ بھی نہیں ہے اور اندر ایک لکیر لگا کر علیحد ہ کیا گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پاؤس چنان پر رکھ کر اردگرد لکیر لگا کر بعد میں گہری کھودی جاتی تھی۔ پاؤں کے دائیں یا بائیں کا انداز ہ لگانا مشکل ہے لیکن جہاں تک پتہ چلتا ہے دایاں پاؤں ہی ہے۔ غالبا دایاں پاؤں اور بایاں ہاتھ بار بار اس کند و مصوری میں دکھایا گیا ہے۔ ہاتھ کا نشان ترقی یافتہ انسان کے دستخط کی قدیم شکل سمجھنا چاہئے، پاؤں کا نشان اس جگہ قیام کی علامت سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جب ایک گروہ اس پہاڑی پر قبضہ کر لیتا ہو گا تو اس پر ہاتھ کا نشان بنا دیتا ہو گا اور جب چلنے لگتا تو پاؤں کا نشان بنادیتا ہے۔ ایسے نشان جاہلر اور ڈھوک سترہ میں کھرے والی پہاڑی پر ہیں۔ بعض تصاویر میں گھوڑے پر سوار کو دکھایا گیا ہے۔ یہ شاید ان بہن سواروں کو ظاہر کرتی ہیں جن کا قبضہ کبھی اس علاقے میں تھا۔ بقول ارشد مغل کے ایک عورت کی تصویر بھی ہے جس کے ایک ہاتھ میں آئینہ اور دوسرے میں کنول کا پھول ہے جس کی آٹھ کلیاں ہیں۔ چونکہ یہ لوگ سفر کشتیوں کے ذریعے کرتے تھے اس لئے دو کشتیاں بھی بنائی گئی ہیں جن میں سوار آدمی دکھائے گئے ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی تصاویر ہیں کچھ نیچے دی ہوئی ہیں۔ کچھ بدھ مت کے سٹوپہ کی شکل کی بھی ہیں۔ ایک شکاری کے ساتھ ایک کتا بھی دکھایا گیا ہے۔ دو جگہ کلہاڑے سے حملہ دکھایا گیا ہے۔ کچھ جانور بھی دکھائے گئے ہیں ۔ یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ یہ سب اس زمانے کی تحریری علامتیں ہیں اور وہ اپنا پیغام ان تصاویر کے ذریعے دینا چاہتے ہوں ۔ افسوس کہ ان میں سے اکثر پتھر توڑنے والوں نے تو ڑ دی ہیں ۔
یہ مضمون شیخ محمد حیات کی کتاب "ضلع خوشاب تاریخ کے آئنے میں "سے لیا گیا ہے