گندھارا اور امب شریف
اگر چہ ماہرین نے گندھارا کوفن بت تراشی کا مرکز قرار دیا ہے اسی بنا پر اس فن کو گندھارا آرٹ کہا جاتا ہے لیکن ہمارے علاقے میں ماہرین نے تحقیق نہیں کی اور نہ ہی ان کی نظروں میں یہاں کے بت آئے اسی لئے وہ ہمارے علاقے کے متعلق کوئی رائے قائم نہ کر سکے حالانکہ یہاں سے ایسے نادر بت ملے ہیں اگر ماہرین ان کو دیکھتے تو شاید گندھارا کو بھول جاتے۔ اب اس علاقے میں بت فروشی زوروں پر ہے جو بت بھی ملتا ہے اسے فوراً کسی کو دکھائے بغیر پشاور کے خریدنے والوں کو فون کے ذریعے اطلاع دی جاتی ہے اور وہ آکر لے جاتے ہیں ۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے کتنے بت غائب ہو گئے اگر آج سے دس سال پہلے عجائب گھر بنا دیا جاتا تو شاید ان میں سے اکثر یہاں تک لانے میں کامیاب ہو جاتے ۔ جو امب سے ملتے رہے ہیں۔ بزرگ ماہر آثار قدیمہ جناب ولی اللہ خان نے فن بت تراشی کی درج ذیل اقسام تحریر کی ہیں جو مختلف زمانوں میں رائج تھیں۔ اس کی روشنی میں ہم یہاں سے ملنے والے بتوں کے متعلق رائے قائم کر سکتے ہیں اور کسی حد تک ان کا زمانہ بھی معلوم ہو سکتا ہے۔ گندھارا میں قبل از بده فن بت تراشی کی خوصیات درج ذیل ہیں۔
(1) قطعی یک رخی (UNIFACIALITY)
(2) بھاری بھر کم اور مظبوط ڈیل ڈول
(3) چیرہ کا قطعی ناک کی سیدھ میں ہونا اور سخت تاثر اور سخت روئی
(4) جانداری یعنی مضبوطی اور طاقت کا تاثر
گندھارا سے پہلے کی فن بت تراشی کی خصوصیات
اس میں اشکال بھر پور ہوتی ہیں اور خالی جگہ بالکل نہیں چھوڑی جاتی جس کی وجہ سے
اشکال گذرند اور گنجان ہو جاتی ہیں۔ اس قدیم فن میں بدن کے مختلف اعضا کا تناسب مقامی ہندی ساخت یعنی کاٹھی اور ہندوستانی فن مجسمہ سازی ..(NAVATALLA) کے اصول کے موافق ہے۔ اس میں چہرہ گول ہوتا ہے یعنی لمبائی تقریبا کل قد کا گیارھواں حصہ ہوتی ہے۔ ناک کسی قدر چپٹی ، عورتوں کے پستان اور سرین بھاری اور ابھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس سے افزائش نسل (FERTILITY) کا اظہار مقصود ہے ہوتا ہے۔ تختیوں کی برجستگی یعنی ابھار سطح سے اوپر اور لباس میں شکنیں تعداد میں کم اور ان کی گہرائی بھی کم ہوتی ہے۔ اس کے برعکس گندھارا کا فن بت تراشی یونانی اور رومن فن بت تراشی کے طرز اور قاعدوں پر چینی ہے جس میں چہرے کی چوڑائی اس کی اونچائی کے دو تہائی ہوتی ہے جسے کتابی یا کلاسیکل (CLASSICAL) چہرہ کہتے ہیں پر قد کا ساتواں حصہ ہوتا ہے ناک یہی اور ابھرواں ہوتی ہے۔ تختی میں مختلف اشکال اس طرح ترتیب دی جاتی ہے کہ ان میں مناسب اشکال گڈ مڈ نہیں ہوتیں چیر و خوش رو ہوتا ہے۔ برجستگی سطح تقریبا دو تہائی اوپر ہوتی ہے۔ لباس کافی ہوتا ہے اور اس میں شکنیں (FOLDS) تعداد میں زیادہ اور کافی گہری ہوتی ہیں یا کم سے کم اصل موافق ہوتی ہیں اور ضروری بات یہ ہے کہ اس فن میں مجسمہ سازی ہر چہار طرف نہیں ہوتی ۔اس کی پشت ان گھر ہوتی ہے یعنی مجسمہ سازی صرف سامنے کے رخ پر ہوتی ہے۔
چند نمونے کے بتوں کی خصوصیات
ٹیکسلا کے طبق دور پار تھائی عہد ) سے ایک مردانه ایستاد و بت جوتر کی (TARAKI) کے پتھر کا بناہوا ہے اور یہ 25 انچ اونچا ہے۔ تراش ہر طرف ہے چونکہ اونچے جوتے پہنے ہوئے ہے جو ہندو د یو تاسوریہ کی نشانی ہے۔ اس لئے محققین نے اسے سور یہ یعنی سورج دیوتا کا بت تشخیص کیا ہے۔ یہ یقیناً مقامی ساخت ہے اور پوجا کا بت ہے۔ یہ بت ضلع جہلم سے ملا تھا ۔ گندھارا یا ٹیکسلا میں پہلی صدی اواخر قوم میں ابھی بدھ مت کے بتوں کا اجر انہیں ہوا تھا۔ کو ایک اور روایت جسے لینی دار یا دیوار (BRACKETS) قسم کا بت تراشہ ہے۔ جسے بدھ مذہبی اصطلاع میں ناگ دانت (NAGADANTA) کہتے ہیں یہ دیوار کہنیاں بدھ سکولوں کے گرد لگائی جاتی تھیں اور پھولوں کے ہار وغیرہ ان کے ساتھ لٹکائے جاتے تھے۔ ایسی ہی دو کہنیاں ٹیکسلا میں سرکپ سے برآمد ہوئی ہیں ان پر خوو شتی طرز تحریر ہے۔ یہ تحریر قدیم کتبوں کے پڑھنے کے اصول
ON PALEOGRAPHICAL BASB3) یہ تحریر پہلی صدی میہولی کے نصف اول کی ہو سکتی ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہے پہلی صدی عیسیوی میں سرکپ ٹیکسلا میں بدھ وہارا موجود تھا۔ ایک مردانہ ایستادہ بنت جو سولہ انچ اونچا ہے یہ تر کی ریتیلے پتھر میں ہے۔ دھر ماجیکا سٹوپہ سے برآمد ہوا۔ خالصتا مقامی تخلیق ہے۔ اس پر کوئی یونانی اثر نہیں ۔ اس کا داہنا ہاتھ چین (CHINA) ملا ہے ۔ یہ اواخر پہلی صدی کا ہے۔ یہ دھوتی ، باز و بند اور نسلی یا طوق پہنے ہوئے داہنا ہاتھ چین مدرا یا جنا ناJANANA پر ہے جس کا مطلب مراقبہ یا گہری سوچ اور پاکبازی کا بت ہے۔ چونکہ یہ بہت دھر ماجی کا اسٹو پر کے بر آمد ہوا ہے اس لئے یہ یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ بدھ مذہب سے تعلق رکھتا ہے اور بدھی ستوابت اس کا پیش رو ہے۔ یہ بھی یادر ہے کہ دھر ما جی کا یعنی دھرم کا محافظ اشوک کا لقب ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ سب سے پہلا بودھی ستوا کا بت ٹیکسلا میں ہی وجود میں آیا۔ ٹیوٹیلری جوڑا، جو شیو جی اور پاراوتی جی یعنی
( حضرت آدم وحوا) کی شکل میں ہندو دیو مالا جی میں ذکر ملتا ہے۔ شیوا کا اول باریجر وید میں ذکر آتا ہے جس کا وقت 1000 تا 800 قم سمجھا جاتا ہے۔ پارا وتی کی شادی شیوا سے ہوئی۔ بدھوں کے ٹیوٹیلری جوڑے سے بہت پہلے ہندو دیو مالا میں ذکر آتا ہے اس لئے ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ ہندو دیو مالا کے اور بہت سی روایات بدھ مت میں داخل کر لی گئیں تھیں۔ بدھ مت میں اس جوڑے کو پانچھ کا کہتے ہیں۔ بدھ مت کے بتوں کی دو اور نشانیاں بھی ٹیکسلا میں بنائی گئیں ایک سر کے پیچھے نورانی حلقہ جس سے سر کی حفاظت ہو جاتی اور دوسرا انیش یعنی سر پر جوڑا۔ یہ ایک روحانی نشان ہے اور بت تراشی یا بت سازی میں روحانی لوگ یا دیوتاؤں کے سر پر دیکھی جاتی ہے اور ان کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ان کے ہاتھ میں کوئی ڈنڈا یا ہتھیار نہ ہو کیونکہ روحانی لوگ عدم تشدد پر یقین رکھتے ہیں۔ اس قسم کے سارے بت امب شریف سے مختلف اوقات میں ملتے رہتے ہیں ۔ جو بک گئے اب صرف کچھ تصاویر ہی اس کا ثبوت ہمارے پاس رہ گئی ہیں ۔
یہ مضمون شیخ محمد حیات کی کتاب "ضلع خوشاب تاریخ کے آئنے میں "سے لیا گیا ہے