خوشاب

ضلع خوشاب :سکندر اور پورس کا جنگی معرکہ

شیخ محمدحیات

 

سکندر اور پورس کا جنگی معرکہ

سکندر اعظم شمالی یونان کی ریاست مقدونیہ کے بادشاہ فیلقوس کا بیٹا تھا۔ وہ 356 ق م میں پیدا ہوا۔ مشہور یونانی مفکر ارسطو اس کا اتالیق تھا۔ سکندر کا شمار دنیا کی عظیم ترین شخصیات میں ہوتا ہے۔ مصر اشیائے کو چک، شام، فلسطین اور عراق کو فتح کرنے کے بعد ایران کے بادشاہ دارا سوم کو شکست دی۔ اس کے بعد افغانستان، ترکستان کو زیر کر کے وہ برصغیر کی ایرانی سلطنت کا وارث ہونے کے باعث ان علاقوں پر اپنا حق سمجھتا تھا۔

پورس سے جنگ

اگر چہ پورس کی سلطنت دریائے جہلم اور چناب کے درمیان تھی لیکن خوشاب میانوالی بھی شامل تھے پورس ایک مضبوط اور طاقتور حکمران تھا۔ وہ مغرب سے آنے والے حملہ آوروں سے اپنی جنم بھومی کو بچانے کا فیصلہ کر چکا تھا۔ وہ راجہ ابھی والی ٹیکسلا کے رویہ سے نالاں اور متنفر تھا کیونکہ اس نے سکندر کی اطاعت قبول کر لی تھی۔ پورس ساڑھے چھ فٹ کا لمبا جوان تھا۔ اس کے سپاہیوں کی فوجی شان سے یونانی بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی فوج میں چار ہزار گھڑ سوار، 50 ہزار پیادہ ایک ہزار جنگی رتھیں اور تین سوجنگی ہاتھی تھے ۔ دریائے جہلم کے کنارے دونوں فوجوں میں جنگ ہوئی ۔ یونانی گھوڑے ہاتھیوں سے ڈرتے تھے راجہ پورس کے ہاتھی نے سکندر کے گھوڑے پر حملہ کر کے اسے مار دیا۔ اس جنگ میں اگر چہ یونانیوں کوزبردست شکست ہوئی لیکن انگریز مورخین نے اسے فاتح قرار دیا حالانکہ اس نے مجبور اپور کو صلح پر آمادہ کیا اور اسے نہ صرف اپنا ملک بلکہ اور بھی علاقہ دے دیا۔ اگر سکندر فاتح ہوتا. تو وہ پورس پر بھی رحم نہ کھاتا جیسا کہ اس نے دارا کے ساتھ کیا۔ اس کا اسے یہ فائدہ ہوا کہ جب وہواپس ہوا تو پورس نے اس کی مدد کی۔ دریائے جہلم کے ذریعے واپسی کے لئے 12 ہزار کشتیوں کا بیڑا پیش کیا۔ اس بحری بیڑے کی حفاظت کے لئے دریاؤں کے دونوں کناروں پر فوج کا کچھ حصہ مقرر کیا۔ یہ فوجی گاتے بجاتے یہاں خوشاب سے بھی گزرے تھے ۔ آخر 32 سال کی عمر میں بابل کے مقام پر وفات پا گیا۔

سکندر کے حملے کے اسباب

رومیلا تھا پر کا خیال ہے کہ سکندر نے انڈیا پر حملہ اس لئے کیا کہ وہ سمندر کے مسئلے کو حل کر سکے جس کے کنارے یونانی جغرافیہ دانوں کیلئے ایک معمہ بنے ہوئے تھے اور یوں وہ اس دیو مالائی ملک کو بھی اپنی فتوحات کی فہرست میں شامل کرنا چاہتا تھا۔ ڈاکٹر احمد حسن دانی نے بدھ پرکاش کی مذکورہ بالا دوسری رائے نقل کرنے کے بعد اس کی اصلاح کرتے ہوئے کہا ہے: دراصل 331 ق م میں دارا کی شکست نے مغربی پاکستان میں سیاسی خلا پیدا کر دیا تھا۔ نیز مقامی سرداروں میں لڑائیوں کو جنم دیا تھا۔ ان میں ایک ASTES پشکلاوتی کی سرزمین یعنی وادی پشاور میں طاقتور ترین تھا اور پورس جہلم اور چناب پر حاوی تھا اور اس کا اثر و رسوخ مزید آگے تک پھیلا ہوا تھا۔ ٹیکسلا کا حاکم ابھی پورس کی طاقت سے حسد کرتا تھا۔ اس نے ASTES کے مخالف نجے سے اتحاد کیا اور دونوں نے مل کر اپنے خود غرضانہ مقاصد کیلئے سکندر سے مدد مانگی ۔ سکندر آگے بڑھا تا کہ سلطنت کے باقی حصے کو بھی غلام بنا لے اور یوں اپنے غرور کی تسکین کرے۔ سر جان مارشل کہتے ہیں: سکندر پنجاب پر 326 ق م میں نازل ہوا۔ بنیادی طور پر وہ ہخامنشی سلطنت کے ہارے ہوئے صوبوں پر اپنا دعوٹی جتانے آیا تھا۔ اس نے جو اپنی فتوحات کو اس سلطنت سے آگے تک پھیلا یا تو وہ کچھ سیاسی ضرورتوں کے ماتحت تھا اور کچھ اس کے مشرقی سمندر تک پہنچنے کے شوق کے تحت تھا جس کو اس سے کہیں قریب تر سمجھتا تھا۔ حملے کے اصل اسباب کو سمجھنے کیلئے آئے، ہم دیکھتے ہیں کہ قدیم یونان کی سیاسی صورتحال کیا تھی۔

ایران سے جنگیں

یونانی ریاستوں اور ایران (PERSIA) کی دارائے اعظم کے وقت سے باہمی جنگوں کی تاریخ چلی آرہی تھی بلکہ ایران اور یونان کے مابین اقتدار کی جنگ کا اصل بیج سائرس اعظم کی ان فتوحات میں ہے جو اس نے ایشیائے کو چک کی آیونی ریاستوں پر حاصل کی تھیں اور جن کے ذریعے اس نے ان ریاستوں کو اپنی سلطنت میں شامل کیا تھا۔ سائرس کی ان فتوحات کا آغاز 546 ق م میں ہوا تھا اور چند ہی سال میں پورا ایشیائے کو چک ایرانی سلطنت میں شامل ہو چکا تھا۔ 500 ق م میں مائے کی نس ( MILET US) نے ایرانی قبضے کے خلاف بغاوت کا آغاز کیا۔ فوراً دوسرے تمام آیونی شہر بھی اس بغاوت میں شریک ہو گئے۔ اس موقع پر ایشیائے کو چک میں واقع ان یونانی شہروں نے اصل سرزمین یونان کی آزاد شہری ریاستوں سے فوجی عدد طلب کی جس کے جواب میں ایتھنز اور اریٹریا ERETRIA)، جزیره یو بیه (EUBOEA) پر ایک چھوٹا سا شہر) نے علی الترتیب میں اور پانچ جنگی جہاز مرد کو بھیجے تھے ۔ یہ تھی وہ بنیادی وجہ جس نے بعد میں عظیم اور تباہ کن ایرانی یونانی جنگوں کو جنم دیا۔ اپنے آیونی مقبوضات پر قبضہ برقرار رکھنے کیلئے ہخامنشی بادشاہوں کو اصل سرزمین یونان پر حملہ کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ دارائے اعظم نے 492ق م میں یونان پر پہلا بڑا حملہ کیا جو سمندری طوفان کی نذر ہو گیا۔ 490 ق۔ م میں میراتھن کی مشہور جنگ ہوئی جس میں ایرانیوں کو شکست فاش ہوئی ۔ بہر حال دس سال بعد خشایارشاہ نے پھر یونان پر حملہ کیا جو نا کام رہا۔ خشایار شاہ نے یکے بعد دیگرے کئی حملے کئے لیکن سب ناکام رہے اور آخر کار ان جنگوں کے نتیجے میں آیونیا کی تمام شہری ریاستیں ایرانی تسلط سے آزاد ہو گئیں ۔

جہلم کی عظیم جنگ مزاحمت

ٹیکسلا ہی سے سکندر نے کلیو کاری ( CLEOCHARES) کو ریاست پارادت (دو آبہ بیچ ) کے حاکم مہاراجہ پوروراج کے پاس بھیجا کہ وہ اپنی ریاست کی سرحد پر آ کر سکندر سے ملے اور اس کی اطاعت قبول کرے اور اپنی سلطنت اس کے حوالے کرے۔ ایرین کے بقول پورو نے جواب میں کہلا بھیجا کہ وہ ضرور سرحد پر آکر سکندر کا استقبال کرے گا لیکن ہتھیاروں کے ساتھ اور سلطنتوں کی قسمت کا فیصلہ صرف ہتھیار ہی کرینگے۔ سکندر نے اپنی فوجوں کے خیمے دریائے جہلم کے مغربی کنارے پر اس جگہ لگوائے جہاں موجودہ قصبہ ہرن پور واقع ہے بالخصوص جہاں سے ریلوے لائن گزرتی ہوئی جاتی ہے۔ یہ تشخیص میجر نارمن کی اس تحقیق کے قریب ہے جس میں اس نے ذاتی سروے کرنے کے بعد یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ سکندر نے پنڈ دادن خان کے قریب اپنا کیمپ لگایا تھا اور نا کیہ نامی شہر اس جگہ تھا جہاں جدید سبز پنڈ موجود ہے۔ سکندر نے یہاں مئی 326 ق م میں پڑاؤ ڈالا ۔ اس وقت دریائے جہلم شدید طغیانی پر تھا اور طوفانی موجوں کو عبور کرنا ممکن نہیں تھا۔ لہذا وہ مئی سے آغاز جولائی تک وہیں پڑاؤ ڈالے رہا۔ اس عرصے میں وہ دریا کے کسی مناسب مقام کی تلاش میں رہا جہاں سے وہ فوجوں کو پار لے جایا جا سکے۔ چنانچہ منگلا کے جنوب مشرق میں بھونا کے مقام کو اس مقصد کیلئے چنا گیا کیونکہ یہاں دریا بل کھا کر دو شاخوں میں بٹ جاتا ہے۔ ان دونوں شاخوں کے درمیان چھ میل لمبا اور نصف میل چوڑہا جزیرہ ہے۔ یہاں دریا کے کنارے پر ایک بڑی اونچی چٹان ہے جس پر ان دنوں گھنے درختوں نے جنگل سا بنا رکھا تھا۔ چٹان کے قریب ایک گہری گھائی تھی جس میں چلتے ہوئے فوج دوسرے کنارے سے دیکھنے والوں کی نظر سے اوجھل رہ سکتی تھی۔ چنانچہ سکندر نے فوج کی ہمراہ میں اسی محفوظ مقام سے دریا کو عبور کیا۔ پیچھے سے اپنے خیموں میں کچھ فوجی دستے رہنے دیئے تا کہ ایسا معلوم ہو کہ ابھی مقدونی فوہیں نہیں پڑی ہیں۔ اینالس کو جو کہ چہرے مہرے اور قد کاٹھ کے اعتبار سے سکندر کا ہم شکل تھا، شاہی لباس پہنا کر اپنے شاہی خیمے میں چھوڑ دیا تا کہ پورو کے لوگ دھو کے میں رہیں۔ اس نے کر میٹرس کو بھی اس کی فوجوں سمیت وہیں چھوڑا۔ ملیگر کو نصف راستے میں متعین کیا اور خود بھونا سے دریا کو عبور کر لیا۔ یہ ایک انتہائی طوفانی رات تھی جب کہ بارش ، آندھی اور رعد و برق کا طوفان برپا تھا اور کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ ایسے میں دشمن دریا کو عبور کرے گا لیکن پھر بھی ریاست پارادت کے ذہین محافظوں کا ایک دستہ راجہ پور دوراج کے بیٹے کی قیادت میں قریب ہی جاسوسی اور نگرانی کی غرض سے متعین تھا۔ ٹولی کے بقول ان کی تعداد 2000 افراد تھی اور 120 رتھوں پر مشتمل تھی ۔ کریس کے بقول ان کی تعداد 4000 تھی اور 100 رتھ تھی ۔ ارسٹو بولس کے بقول یہ تعداد 2000 سپاہی اور 60 رتھ تھی ۔ دراصل یہ جاسوس دستہ تھا۔ انہوں نے فوراً مہاراجہ کو اطلاع بھیجی اور خود سکندر کے نمودار ہوتے ہی بجلی کی طرح ان پر ٹوٹ پڑے۔ ایران کہتا ہے کہ اس حملے میں سکندر خود زخمی ہوا اور اس کا گھوڑا بو کفالس(BOUKEPHALAS) مارا گیا ۔ جسٹن کہتا ہے سکندر سر کے بل زمین پر گرا لیکن اس کے محافظوں نے لیک کر اسے اٹھایا اور اس کی جان بچائی۔ پہلے پہلے میں تو رتھوں نے مقدونیوں کو کچلنا شروع کر دیا لیکن جوں جوں آگے بڑھتے ، رتھیں دلدلی زمین میں دھنسنا شروع ہو گئیں اور مقدونی گھڑ سوار اپنی عددی کثرت کی بنا پر ان پر غالب آگئے۔ پاراوت کے فوجی دیوانہ وار لڑتے رہے حتی کہ ان کے چار سو جوان مارے گئے ۔ ان میں ان کا سردار مہاراجہ پورو راج کا بیٹا بھی شامل تھا۔ کچھ دریا کی لہروں کی نذر ہوئے اور باقی واپس صدر کیمپ میں چلے گئے۔ پورو راج نے اپنے بھائی اج(AJA) کی قیادت میں ایک اور دستہ بھیجا تا کہ مقدونیوں کو وہیں روکے رکھے۔ یونانیوں نے اس کا نام ہے جیز (HAGES) لکھا ہے۔ سنسکرت میں ان کا مطلب ہے ”بن جنا ہوا UNBORN ….. لم يلد … اور یہ مختلف دیوتاؤں کی صفت کے طور پر استعمال ہوتا رہا ہے مثلا کرشن ، سوری ( سورج)، یشو بر ہما اور وشنو کے لئے ۔ اس حوالے سے یہ لفظ مردانہ نام کے طور پر استعمال ہوتا رہا ہے ) بہر حال اج نے مقدونی فوجوں کو کچھ دیر روکا۔ ادھر پورو نے کچھ دستے ایٹالس اور کر بیٹرس سے نمٹنے کے خیال سے اپنی جگہ پر چھوڑے اور اپنی بیشتر افواج کو ایک نسبتا پختہ اور کم دلدلی زمین پر ترتیب دیا۔ یہ کری کا میدان تھا جہاں اب سروال پکرال اور سکھ چین پور نامی گاؤں آباد ہیں۔ چیلیاں والا اس کے قریب ہے۔ پورو نے ہاتھیوں کو 33 گز کے وقفوں پر کھڑا کیا۔ ان کے پیچھے خالی جگہوں پر پیادہ فوج کی مضبوط قطاریں کھڑی کیں۔ پیادہ فوج کی دائیں اور بائیں جانب گھڑ سوار فوج تھی اور ان سب کے آگے تھیں تھیں ۔
پورو کے مقابلے پر سکندر نے اپنی فوجوں کو یوں ترتیب دیا کہ دائیں سے بائیں سب سے پہلے سکندر اور اس کا رسالہ۔ اس کے بعد گول ڈھالوں والی لمبی تلواروں والی بھاری پیاده فوج، ہو پاس پیسٹ (HYPASPISTS) اس کے بعد قلب۔ اس پوری فوج کے دائیں بائیں ہلکی پیادہ فوج تھی ۔ دونوں فوجوں کی تعداد کا نقشہ کچھ یوں بنتا ہے۔

مقدونی افواج

زیر قیادت سکندر زیر قیادت کوئی نس ہلکے تیر انداز
500    5300  1450
كل…… 20,300
15000 (قلب)
ٹکشاشلا کے معاون فوجی: 5000
منجنیقیں : تعداد نامعلوم
یہ دو قسم کی تھیں جنہیں کیٹا پلٹ (CA TAPULT) اور بیلسٹ (BALISTS) کہتے تھے۔ یہ 300 گز تک پھر اور شہتیری میزائل پھینک سکتی تھیں
پار اوت کی ہر جنگی رتھ کو چار گھوڑے کھینچتے تھے اور اس پر چھ فوجی سوار ہوتے تھے دائیں اور بائیں ۔ سرے پر دو فوجی ہوتے تھے جن میں سے ایک تیرانداز اور دوسرا ڈھال بردار ہوتا تھا۔ درمیان میں دور تھے بان ہوتے تھے جن کے پاس نیزے ہوتے تھے۔ ہر ہاتھی پر ایک مہاوت اور تین تیرانداز ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ تیروں، نیزوں اور برچھوں کا وسیع ذخیرہ بھی ہاتھی پر لدا ہوتا تھا۔ پیادوں کے پاس ایک کمان ہوتی تھی جن کی لمبائی یعنی تانت کی لمبائی انسانی قد کے برابر ہوتی تھی۔ اسکا ایک سرا جہاں تانت اور لکڑی باہم بندھے ہوتے ہیں۔ زمین پر رکھ کر پاؤں سے دبایا جاتا تھا اور دوسرے سرے کو بائیں ہاتھ سے تھاما جاتا تھا جبکہ دائیں ہاتھ سے تیر چلے پر چڑھا کر چلایا جاتا تھا۔ کچھ پیادہ دستے نیزہ بردار ہوتے تھے اور کچھ صرف تلوار اور زرہ سے سح ہوتے تھے۔ یہ زرہ تنکوں کی بنی ہوتی تھی غالبا مزاری کی ۔ ان کے پاس بھینس کی کھال کی بنی ہوئی ڈھال بھی ہوتی تھی جبکہ مقدونیوں کے سینے کی زرہ بکتر بھی لوہے کی تھی اور اس کے علاوہ ان کے پاس لوہے کی لمبی لمبی ڈھالیں ہوتی تھیں ۔ پاراوت کے پیادوں کے پاس لمبے نیزے نہ تھے اور گھڑ سوار دستے زرہ بند نہ تھے، نہ ہی ان کے پاس کوئی بکتر بند تیرانداز تھے جبکہ مقدونی فوج میں لکڑی کے بنے پہیوں والے ٹینک تھے ( چھت اور پیندے کے بغیر لکڑی کی چار دیواری) جن کے اندر چار چارسپاہی دشمن کے تیروں سے محفوظ پیدل چلتے جاتے تھے ۔ برن ہارڈ برولر نے ثابت کیا ہے کہ پورو نے اپنی فوجیں ان فوجی قوانین کے مطابق صف آراء کی تھیں جو کوتلیہ کے ارتھ شاستر میں مذکور ہیں۔ ارتھ شاستر میں لکھا ہے کہ ہاتھیوں کو فوج کے ہراول میں کھڑا ہونا چاہئے۔ نیز یہ کہ ہاتھی کیچڑ والی زمین، دلدلی علاقے اور زیر آب جگہوں اور بارش کے موسم میں نہایت کامیاب ثابت ہوتے ہیں۔ ہاتھی دشمن کی مضبوط صف بندیوں کو توڑنے اور خوف و ہراس پھیلانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک بہت بڑے ہاتھی پر ایک بکتر بند ہودہ کسا گیا تھا جس میں مہاراجہ پور و خود سوار تھے اور ان کے پاس نیزوں برچھوں بھالوں کا وسیع ذخیرہ تھا جنہیں وہ بے پناہ طاقت سے جب پھینک کر مارتے تھے تو وہ دشمن کی زرہ بکتر کو چیرتے ہوئے اس کے سینے میں داخل ہو جاتے تھے۔ پورو کا قد کاٹھ غیر معمولی طور پر لمبا تھا جو کہ ساڑھے چھ فٹ تھا اور جسمانی ڈیل ڈول نہایت متناسب، خوبصورت اور بارعب تھا جس سے دشمنوں پر ہیبت طاری ہو جاتی تھی۔ شروع شروع پورس کی فوج میں کچھ انتشار پیدا ہوالیکن پورواس حالت میں بھی گھبرایا نہیں اور اس نے اپنے ہاتھی سوار دستے کو مجتمع کرنے کی کوشش کی۔ کرٹیکس ، جسے مغربی مصنفین قدیم یونانی مورخیں میں کافی کم معتبر سمجھتے ہیں کیونکہ اس کے بیانات سے سکندر کی عظمت کافی گھتی ہے اور میں اسے زیادہ اہمیت دیتا ہوں کیونکہ اس کے بیانات میں زیادہ معروضیت نظر آتی ہے، کہتا ہے کہ اس کی فوج میں کل 83 ہاتھی تھے۔ ڈایوڈ درس کہتا ہے کہ اس مرحلے پر بھی اس کے چالیس ہاتھی مکمل کنٹرول میں تھے۔ ان چالیس کو اس نے اکٹھا کیا اور دوبارہ دشمن پر حملہ کیا۔ اپنے ہاتھ سے دشمن کے سپاہیوں کا قتل عام کیا۔ جو نیزے وہ پھینکتا تھا وہ منجنیق کے میزائلوں کی طرح جاتے تھے ۔ ہاتھیوں کے اس فوٹریز جملے نے مقدونی فوج کے چھکے چھڑا دئیے۔ ویس بج (W.BUDGE) کہتا ہے کہ مقدس رسالے کا بیشتر حصہ تباہ ہو چکا تھ اور باقیماندہ سپاہی صد سے اور غم سے نڈھال تھے۔ ان میں سے بعض نے اپنے ہتھیار پھینکنے شروع کر دیئے اور دشمن کی فوجوں سے جاملنے کی تگ ودو کرنے لگے۔ سکندر کا خود اپنا برا حال تھا۔ اور اس صورتحال کو دیکھ کر اس نے جنگ بندی کا حکم دیا اور پور دکوصلح کیلئے پیغام بھجوایا۔ ادھر پور و اس وقت بری طرح زخمی ہو چکا تھا۔ اس کے جسم پر نو زخم لگے تھے جن میں سے سب سے بڑا زخم اس کے دائیں کندھے پر لگا تھا۔ دیر تک زخمی حالت میں نیزے پھینکتے رہنے سے اس کی طاقت جواب دے گئی اور اس کا مہادت جلدی سے اس کے ہاتھی کو نکال کر پیچھے لے گیا۔ کر فیس کہتا ہے اس موقع پر سکندر پورو پر جھپٹتا لیکن ان کا گھوڑا ہاتھیوں کی ضربوں کی تاب نہ لا کر ڈھیر ہو گیا اور سکند رزمین پر آرہا۔ جب پوروکو اس کا مہاوت پچھلی صفوں کی طرف لے جار ہا تھا لڑائی کی شدت میں مزید اضافہ ہو گیا تھا۔ اب صورتحال ایسی تھی کہ پورو کی فوج تنگ جگہ میں گھر گئی تھی جبکہ مقدونیوں کے پاس کھلی جگہ تھی۔ مقدونی گھڑ سوار بار بار حملہ کرتے آگے بڑھتے اور جب ہاتھی ان پر یلغار کوتے تو وہ پیچھے ہٹ جاتے لیکن بالآخر اس کشمکش میں ہاتھیوں کے حوصلے پست ہو گئے اور بقول بدھ پر کاش وہ الٹے پاؤں اپنی فوج کی طرف چلنے شروع ہو گئے جبکہ ان کے منہ مقدونی فوج کی طرف تھے۔ ان دوران پورو کی فوج کے کچھ پیادہ جوان اپنے ہاتھیوں کے پاؤں تلے کچلے گئے ۔ اس کے بعد کیا ہوا آیا واقعی سکندر کو مکمل فتح ہوئی یا فتح و شکست کے بغیر جنگ ختم ہوگئی ، اس بارے میں قدیم مورخین کی آراء آپس میں متصادم ہیں البتہ اس بات میں سب متفق ہیں کہ آخر میں فریقین کے درمیان صلح کا معاہدہ ہوا۔ پورو کا اپنی ریاست پر اقتدار تسلیم کیا گیا، سکندر نے اردگرد کے اپنے دیگر مقبوضات پورو کے حوالے کئے اور پورو نے سکندر کو اپنے علاقے سے بحفاظت گزر جانے کے انتظامات کئے ۔ جنگ کے انجام کے بارے میں بدھ پر کاش نے نہایت خوبصورتی سے مختلف مورخین کے بیانات جمع کئے ہیں، آئیے ہم بھی ان کی ایک جھلک دیکھتے ہیں۔ امیرین کہتا ہے پورو اس وقت تک لڑتا رہا جب تک ان نے دیکھا کہ انڈین جم کر لڑ رہے ہیں لیکن دائیں کندھے میں زخمی ہو جانے کے باعث وہ واپس مڑا ۔ سکندر نے اس کی زندگی بچانے کے لئے بے حد فکرمند ہونے کے باعث ٹکشا شلا کے بادشاہ کو اس کے پاس بھیجا جو کہ گھوڑے پر سوار اس کے پیچھے گیا اور اس سے التجا کی کہ وہ رکے اور اس پیغام کو سنے جو وہ لے کر آیا تھا۔ اسے دیکھ کر پورس نے ایک نیزہ اس پر پھینکا جو کہ شاید اسے مار ہی ڈالتا اگر وہ فوراً گھوڑے کو بھگا کر اس کی پہنچ سے دور نے نکل گیا ہوتا لیکن سکندر اس بات سے بھی ناراض نہ ہوا اور قاصد یہ قاصد پورو کے پاس بھیجتا رہا۔ سب سے آخر میں اس نے ایک انڈین میرو (MEROES) میر کو بھیجا چونکہ اس نے سن رکھا تھا کہ پورو اور یہ میر و آپس میں پرانے دوست ہیں۔ میر کو دیکھ کر پورور کا۔ اس نے پانی کا ایک گھونٹ پیا اور سکندر سے ملاقات کیلئے راضی ہو گیا۔ جب وہ دونوں قریب آئے تو سکندر خود گھوڑے پر سوار آگے بڑھ کر ملا۔ اس نے دیکھا کہ پورو نہ دل شکستہ تھا اور نہ اس نے حوصلہ ہارا تھا۔ سکندر کے پوچھنے پر کہ میں آپ کیلئے کیا کر سکتا ہوں، پورو نے کہا کہ اس سے وہ سلوک کیا جائے جو بادشاہوں سے کیا جاتا ہے۔ اس پر سکندر نے اسے اپنی ریاست پر حکومت کرنے کا حق دیا بلکہ اس سے بھی وسیع تر علاقہ اس کی سلطنت میں شامل کر دیا۔ بدھ پر کاش نے تفصیل سے ثابت کیا ہے کہ سکندر نے دوسری تمام جنگوں میں جنگ کر کے ہارنے والے سرداروں اور بادشاہوں کے ساتھ نہایت برا سلوک کیا۔ ان میں سے کسی کی بہادری کی اس نے قدر نہ کی تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ پورو کے ساتھ برابری کا سلوک کرتا۔ نیز یہ که سکندر اپنی شکستوں کو فتح ظاہر کرنے کا ماہر تھا اور یہ کہ اس جنگ میں بھی سکندر فاتح نہیں تھا اور یونانی مورخین کے بیانات بغیر شک کے قبول نہیں کئے جاسکتے۔
یونانیوں کے مقابلے میں دوسرے مورخین اس جنگ کے حقائق بالکل برعکس ہی بتاتے ہیں۔ مثلاً حبشہ کے مورخین کہتے ہیں کہ سکندر کے بیشتر گھڑ سوار متقل ہو گئے تھے اور اس کے سپاہیوں میں اتنا غم تھا کہ وہ کتوں کی طرح چلا چلا کر روتے تھے اور چاہتے تھے کہ ہتھیار پھینک دیں، سکندر کو چھوڑ دیں اور دشمن سے جاملیں۔ جب سکندر نے یہ دیکھا تو جنگ بندی کا حکم دیا اور پورو سے دو بدو (DUEL) لڑنے کی پیشکش کی۔ جوزف بن گوریان لکھتا ہے کہ مقدونیوں اور انڈینز کے درمیان جنگ لمبی ہوتی گئی اور سکندر کے فوجیوں کی ایک بھاری تعداد تباہ ہوگئی اور جو باقی بچے انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ سکندر کو پکڑ کر انڈیا کے بادشاہ کے حوالے کر دیں۔ اس پر اس نے جنگ بندی کا حکم دیا اور پورو سے التجا کی کہ وہ دونوں آپس میں دو بدور ہیں۔ فردوسی نے طرفین کی تباہی و بر بادی کا تفصیلی بیان لکھنے کے بعد یہی کہا ہے کہ سکندر نے فور ( پورو) سے التجا کی کہ وہ دونوں ہی آپس میں دو بدو ہو کر فیصلہ کر لیں، جو جیت جائے وہ تمام لشکر و تاج و تخت کا مالک بن جائے۔ کر ٹیکس کہتا ہے کہ سکندر نے جو قاصد پورو کے پاس بھیجا تھا وہ راجہ پیکسلی کا بھائی تھا اور راجہ پورو نے اس پر ایک نیزہ پھینکا تھا جس سے وہ مارا گیا تھا۔ اب آپ یورپی مورخین کے مقابلے میں افریقی اور ایشیائی مورخین کے بیانات بھی سامنے رکھیں تو جنگ مہم کا نتیجہ فتح و شکست سے زیادہ معاہدہ صلح کی شکل میں نظر آتا ہے اور در حقیقت کری کا میدان جنگ ہی وہ نقطہ ہے جہاں سے سکندر کا فتح مشرق کا خواب بکھرتا ہوا نظر آتا ہے اور اس جنگ کے بعد مندر کا باقیماند و سارا سفر در اصل واپسی کا سفر ہے۔ ہر چند کہ وہ بھی جنگوں سے پر ہے۔ جہلم کی عظیم جنگ مزاحمت کل آٹھ گھنٹے جاری رہی جس نے مقدونی فوج کے دانت کھٹے اور پاؤں زخمی کر دیے۔ اس جنگ میں پورو کے ہیں ہزار پیادے اور تین ہزارسوارشہید ہوئے۔ یہاں سکندر نے اپنے آپ کو فاتح ثابت کرنے کیلئے دوشہر بسائے ، ایک اپنے گھوڑے بو کفالس کے نام پر بکفالہ رکھا اور دوسرا اپنے کتے کے نام پر تکیہ یا نکلیا (NIKAIA لفظی معنی فتح ۔ بوکفالہ احمد آباد کی جگہ تھا اور نکیہ سبز پنڈ کی جگہ۔ جو میانی اور بھیرہ کے درمیان ہے چونکہ ہمارے زمانے کی تاریخیں انگریزی دور کی لکھی ہوئی ہیں۔ وہ اس لئے سکندر ہارے ہوئے کو فاتح قرار دیتے تا کہ اپنے یورپی حملہ آور کو پورس کے مقابلے بر تر بنا کر پیش کریں اور یہ ثابت کریں کہ یورپی اقوام کے جرنیل باقی اقوام کے مقابلے میں زبر دست صلاحیتوں کے مالک تھے ۔ کیونکہ انگریز خود بھی یورپ سے آئے تھے۔ ان کا مقصد اہل ہند پر دھاک بٹھانا تھا۔ حالانکہ نئی تحقیق کے مطابق سکندر شکست خوردہ تھا۔ صلح کی مجبوری یہ تھی کہ وہ بحفاظت واپس جانا چاہتا تھا۔ اور پورس نے اس کی کشتیوں کے ذریعے پوری مدد کی ۔

 

یہ مضمون شیخ محمد حیات کی کتاب "ضلع خوشاب تاریخ کے آئنے میں "سے لیا گیا ہے

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com