ضلع خوشاب کا تاریخی پس منظر
خوشاب اپنے محل وقوع کے باعث ہمیشہ سے قدرتی آفات کا شکار چلا آرہا ہے۔ دریائے جہلم کے مزاج میں یہ بات صدیوں دائیں کنارے کا کاٹنے کی رہی ہے۔ اسی سبب سے خوشاب کا شہر دریا برد ہوتارہا اور اہل خوشاب کو مجبور مزید مغرب کی طرف مجبورا نے گھر آباد کرنے پڑے۔ یہ اس بات کا نتیجہ ہے کہ خوشاب بہت قدیم ہونے کے باوجود کسی بھی عمارت کے آثار نہیں ملتے کیونکہ سب کچھ دریا برد ہو گیا کبھی بھیرہ اور خوشاب جو اس علاقے کے تاریخی شہر ہیں دونوں دریا کے دائیں کنارے آباد تھے اور باہر جس وقت بھیرہ آیا اس وقت بھیرہ دا میں کنارے ہی تھا۔ ہمایوں کے زوال کے بعد پٹھانوں نے برباد کر کے اس کو ملیا میٹ کر دیا تو شیر شاہ سوری نے اسے نئے سرے سے بائیں کنارے آباد کیا اور یادگار کے طور پر شاہی مسجد بھی بنوائی جواب تک اس کے نام کو زندہ کئے ہوئے ہے۔جب خوشاب بھی بھیرہ کی طرح 1885 ء کے قریب سیلابی ریلوں کی نذر ہوا تو اس وقت کے انگریز ڈپٹی کمشنر کیپٹن ڈیوس نے اسے موجود جگہ پر نئے سرے سے آباد کیا ہے۔ اب منگلا ڈیم کی وجہ سے طغیانیوں کا خطرہ بھی کم ہو گیا ہے۔” بابر کے زمانے میں خوشاب تاریخی لحاظ سے بھیرہ کی طرح ہی اہم تھا۔ یہی دوا ہم شہر اس علاقے میں مشہور چلے آرہے تھے۔ تجارتی لحاظ سے خوشاب کا پلڑا بھاری تھا کیونکہ مغلوں سے پہلے خوشاب ہی افغانستان سے آنے والے تجارتی قافلے گومل اور ٹوچی دروں کو استعمال کرتے تھے اور پھر خوشاب سے گزرتے تھے جس کی وجہ خوشاب کی رونق زوروں پر بھی ۔ یہاں پر تاجروں کے لئے سرا ئیں تھیں جہاں پر مختلف فربانوں کے ترجمان ہوتے ، دلال ہوتے ، جانوروں کے اصطبل ہوتے انکے کھانے پینے کا انتظام ہوتا۔ الغرض ایک دنیا آباد ہوتی تھی۔ ایشیائے تجارت کی بہتات ہوتی تھی۔ سب کی حفاظت کے سرکاری انتظامات ہوتے جب مغل دور حکومت میں درہ خیبر کے ذریعے افغانستان سے تجارت شروع ہوئی تو خوشاب اور اہل خوشاب کا بہت نقصان ہوا کیونکہ پہلے خوشاب نہ صرف افغانستان سے تجارت کے لئے اہم شہر تھا بلکہ وسط ایشیا یک خوشاب کے ذریعے تجارت ہوتی تھی۔ مغلوں کے دور میں اس کی وہ اہمیت نہ رہی جو اس سے پہلے حاصل تھی اور یہ کتنے افسوس کا مقام ہے کہ وہ شہر جو زمانہ قدیم سے ایک مرکزی مقام رکھتا تھا، مورفین نے بھی بھلا دیا اور یہی سبب ہے بابر کے علاوہ کی تحریر میں اس کا ذکر نہیں ملتا۔ ہوسکتا ہے کہ کبھی اس کا یہ نام بھی نہ ہو۔ نیز دریا کی طغیانیوں نے اس شہر کے تمام قدیم اثرات نیست و نابود کر دیئے۔ اس طرح قبل از اسلام کے اثرات کسی طرح بھی سامنے نہیں آئے لیکن اس کے قریب ہی ناڑی جو دریا سے قدرے دور ہے ، وادی سندھ کی قدیم تہذیب کو بھی مات کر رہی ہے۔
تاریخ اور علاقے کے آثار قدیمہ
شہر کے بار بار دریا برد ہو جانے کی وجہ سے تاریخی آثاروں کا ملنا ناممکن ہے لیکن اس کے ارد گرد ایسے شواہد ضرور ملے ہیں جن سے اس علاقے کی تاریخ پر روشنی ڈالی جاسکتی ہے جس سے اس علاقے میں بنی نوع انسان کے قدیم وسیب تک ہماری رسائی کسی حد تک ممکن ہو سکی ہے۔ ناڑی کے علاوہ گوھستان نمک یا وادی سون سکیسر میں ایسے قدیم آثار ضرور ملے ہیں جس سے اس علاقے کی تہذیب کے نقوش ابھر کر سامنے آئے ہیں۔
امریکن بیل یونیورسٹی
میں یونیورسٹی کے پروفیسر ڈی ٹیرا نے اس سلسلے میں اپنی ٹیم کے ساتھ بڑا کام کیا ہے۔ انہوں نے 1932ء میں جب ذرائع آمد و رفت بھی آج کی طرح آسان نہیں تھے، دوڑ چھا اور چٹہ سے لاکھوں سال پہلے کے پتھر کے انسانی اوزار دریافت کئے ۔ چٹہ کے متعلق تو لکھا ہے کہ یہاں پتھر کے اوزاروں کی فیکٹری ہے اور یہ زمانہ تین لاکھ سال سے چھ لاکھ سال تک ہو سکتا ہے۔ اگر ڈپ شریف کے پاس چٹان پر قدیم انسان کے قدموں کے نشانات کو بھی شامل کر لیا جائے تو پھر اس علاقے میں انسانی تاریخ دنیا کے کسی بھی علاقے کی قدیم ترین انسانی تاریخ کا مقابلہ کر سکتی ہے اور جہاں تک قدیم وسیب کی قدیم تہذیب کا تعلق ہے تو ناڑی سب ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق پاکستان کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ ہمارے ضلع کی قدیم ترین عمارت کھنہ سکھر ال کا وہ ٹوٹا پھوٹا مندر ہے جو بہت قدیم ہے۔ اس کے بعد قدیم ترین عمارت امب شریف کشمیری طرز کا مندر ہے۔ جو 800 – 950 ء تک کے عرصے میں تعمیر کیا گیا۔ اس کے ارد گرد ایک بڑے قلعے کی فصیل کے آثار بھی نمایاں ہیں۔ یہ مندر تین منزلہ ہے۔ جس کی مرمت 1932ء میں جناب ولی اللہ خان صاحب نے کروائی تھی ورنہ یہ کب کا گر چکا ہوتا میکسر کی چوٹی پر بدھ مت کی عبادت گاہ کے آثار ملے ہیں ۔ اسی طرح کٹھوائی سے سیکیسر جاتے ہوئے راستے میں بے شمار لمبے چوڑے چبوتروں کے آثار ملے ہیں جن کے متعلق ابھی پورے وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اگر یہ کسی قدیم نسل کے مدفن ہیں تو ان پر کسی ناہر سے تحقیق کروانے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان سے کسی ایسی گمشدہ کڑی کے آثارمل جائیں جس کا ابھی تک کسی کو علم ہی نہ ہو۔
اسی طرح 1888ء میں کٹھوائی کے قریب تقریط دو کلو میٹر شمال مغرب کی طرف اچھا کے قریب بدھ مت کے ایک مدرسہ جس کا نام ماہی ساسا کا تھا، کے متعلق ایک کتبہ ملا تھا جس میں ترک شاہی راجه تور مانا شاہ جھولا کا ذکر ہے جو ہو سکتا ہے کہ گیتا عہد کا ایک خود مختار فرمانروا ہو ۔ یہ تحریر چوتھی یا پانچویں صدی عیسوی کی معلوم ہوتی ہے جو یقیناً قبل از اسلام کی ہے۔ اس تحریر میں بدھ مت کے مذہبی پیشوا رو با سدھا اور دھی کا ذکر ہے اور کسی بحیرہ شہر کا ذکر ہے۔ ہو سکتا ہے کہ قدیم نوشہرہ ہی ہو۔اسی طرح مختلف اوقات میں ملنے والے سکے بھی اس علاقے کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہیں جو ساسانی چندر گپت موریا، اشوک ، سکندر، کنشک ، ترک شاہی، ہندو شاہی اور مسلمان سلاطین کے متعلق ہیں جس کی وجہ سے ہمارے علاقے میں تاریخی تسلسل قائم ہے۔ وہ قدیم کرسی کے سکے جن پر گھڑ سوار اور بیل بنے ہوئے ہیں وہ بھی ملے ہیں جو ترک شاہی دور کی بڑی اہم کرنسی تھی اور اسی طرز کے سکے بعد میں محمد غوری اور دوسرے سلاطین نے بھی جاری کئے اور ان پر وہی قدیم زبان لکھوائی نہ کہ عربی یا فاری۔ راقم کے پاس بھی موجود ہیں۔
تاریخ خوشاب
معروف محقق آثار قدیمہ ڈاکٹر سیف الرحمن ڈار کے مطابق خوشاب کا ماضی دریا کی طوفانی لہروں کی نذر ہو گیا البتہ جنرل کنگھم نے اس کو کسی حد تک نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کو ہستان نمک اور سندھ سے چناب تک کا علاقہ سوفتی قوم کے قبضے میں تھا اور یہ سکندر اعظم کی ہم عصر تھی، فاہین چینی سیاح کے مطابق پی چانتیا بھینڈا یا بھیرہ اس کا دار الحکومت تھا۔ مورخ ایرئین کے مطابق اس کا دار الحکومت کر میٹرس (CRATERUS) اور ہیںا سیشن (HAPHAISITION) کے فوجی کیمپوں سے جو دریائے جہلم کے دائیں بائیں لگائے گئے تھے ، وہاں سے تین دن کی دوری (مسافت) پر تھا یعنی سکندر کیمپ بیوفالیہ سے، جو اس نے اپنے گھوڑے کی یاد میں بسایا تھا اب پھالیہ کہلاتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کونسی جگہ پھالیہ سے تین دن کی مسافت پر ہے۔ بھیرہ میانی یا خوشاب ۔ بھیرہ میانی تو پھالیہ کے بہت قریب ہیں باقی خوشاب ہی اس شرط پر پورا اترتا ہے۔ فامین بنوں سے بھیرہ جاتے ہوئے یہاں سے گزرا تھا اور اس نے بھیرہ کے پاس دریائے جہلم کو عبور کیا تھا۔ محمود غزنوی نے بھی جب بھیرہ پر حملہ کیا تو وہ بھی 05-1004 ء یا 395ھ میں درہ کرم کے راستے بھیرہ جاتے ہوئے ضرور یہاں سے گزرا ہو گا۔ اسی سرح چنگیز خان نے بھیرہ پر حملہ اسی راستہ سے کیا لیکن کسی مورخ نے بھی خوشاب کا ذکر نہیں کیا۔ اسی طرح امیر تیمور بھی اسی راستے سے بھیرہ گیا تھا۔ اس نے بھی اپنی تزک میں یا اسی دور کے مورخ شرف الدین یزدی نے بھی اپنی تاریخ ظفر نامہ میں خوشاب کا ذکر نہیں کیا لیکن اسی دور کے ایک اور مورخ عبداللہ ہانفی نے تیمور نامہ میں معمولی سا خوشاب کا ذکر کیا ہے۔ یہ حملہ 1398ء میں کیا گیا تھا۔ بایر پہلا شخص ہے جس نے خوشاب کا ذکر واضح الفاظ میں کیا ہے۔ اس میں شہر اور علاقہ دونوں کا ذکر ہے۔ بابر تیمور کے حوالے سے خوشاب کا ذکر کرتا ہے کہ خوشاب تیمور کے مفتوحہ علاقے میں تھا۔ اسی طرح چنیوٹ کا بھی اسی علاقے کے ساتھ ذکر آتا ہے۔ یہ بھی یاد رکھنے والی بات ہے جتنے بھی فاتحین یا سیاح یہاں سے گزرے ہیں وہ خوشاب کا تب ذکر کرتے جب وہ خوشاب آتے۔ یہ سب دامن پہاڑ کے ساتھ ساتھ سفر کرتے کیونکہ تھل میں تو پانی حاصل کرنا سب سے بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ اس لئے سب حضرات خوشاب سے ہٹ کر گزرتے ہیں۔ بابر چونکہ بھیرہ میں رکا اس لئے اس نے خوشاب اپنا نمائندہ شاہ حسن بھیجا اور یہاں سے چند لوگ باہر سے ملنے کیلئے بھی گئے ۔ یہ سب باتیں تزک بابری میں بڑی تفصیل سے بابر نے درج کی ہیں۔ جہاں تک خوشاب کے نام کی وجہ تسمیہ کا تعلق ہے تو وہ مختلف ہیں لیکن تاریخی کسوٹی پر پوری نہیں اتر تھیں ۔ مثلاً سب سے بڑی روایت شیر شاہ سوری کی بیان کی جاتی ہے تو یہ اس لئے ناقص ہے کیونکہ اس سے پہلے بابر اور تیمور خوشاب کا ذکر چکے ہیں اور یہ اس زمانے میں بھی کافی شہرت حاصل کر چکا تھا۔ ایک اور روایت سکندر لودھی سے منسوب کی جاتی ہے کہ اس نے حروف ابجد کے حساب سے یہ تاریخی نام رکھا۔ وہ کچھ یوں ہے۔ خویش۔ اب
2+1+300+6+600
اس طرح یہ جمع کرنے سے 909 هجری بمطابق 1503 ء ہے اور یہ سکندر لودھی کا ہی زمانہ ہے لیکن سکندر لودھی کی تاریخ اس بارے میں بالکل خاموش ہے۔ یہ بات کسی حد تک ممکن ہے کہ سکندر لودھی یا بابر نے بھی کوئی عمارت بنوائی بھی ہو تو وہ سب دریا نے صاف کر دی ہوں اور آج ان کا ڈھونڈنے سے بھی نشان نہیں ملتا ۔ ” ایک اور وجہ بھی ہو سکتی ہے جس کی طرف بعد کے مورخین نے غور نہیں کیا، وہ زبان کی تحریر کا اختلاف بھی ہے مثلاً فاہین بنوں کو اپنی زبان میں PONA لکھتا ہے، بھیرہ کو PICHA لکھا ہے۔ یہی حال دوسرے شہروں کا ہے۔ یہ ہم اندازے سے ہی پونا کو بنوں اور پیچا کو بھیرہ سمجھتے ہیں وگر نہ تحریر میں ایسا نہیں۔ اسی طرح عربی میں گ، ڈ اور چ نہیں تو گھر کو لکھتے ہیں تو لکھر لکھتے جو دوسری قوم کھوکھر ہے۔ اسی طرح منگول مثل بن گئے ۔ اس لئے ترجمہ کرتے وقت زبانوں کی نزاکت کا پتہ ہونا چاہیئے۔ بابر نے واضح الفاظ میں بھیرہ، خوشاب، چناب اور چنیوٹ کا ذکر کیا ہے کہ یہ علاقے امیر تیمور نے فتح کئے تھے اور بعد میں یہ اس کے خاندان کے ماتحت رہے۔ بابر مزید وضاحت کرتا ہے کہ تیمور کی واپسی کے بعد بھی خوشاب کا علاقہ سلطان مسعود مرزا کے ماتحت تھا جو شاہ رخ کا پوتا اور افغانستان
و زابلستان کا فرمانروا تھا۔ اس نے مرزا علی بیگ، بابا قبولی، دریا خان اور غازی خان کو اس علاقے کا نظم ونسق چلانے کیلئے مقرر کیا ہوا تھا اور جب سلطان مسعود مرزا اور اس کے بیٹے علی از بر غازی خان نے کابل پر قبضہ کر لیا۔ یہ سب کچھ 1504ء میں ہوا جب بابر نے کابل پر قبضہ کیا تو غازی خان کا بیٹا سید علی خان بھیرہ کا حاکم تھا اور سکندر لودھی کے نام کا خطبہ پڑھتا تھا لیکن جب بابر نے بنگش کے علاقے پرحملہ کیا تو علی خان بھیرہ سے شیر گڑھ کی طرف بھاگ گیا۔ اس کے بعد دولت خان لودھی لاہور کے گورنر نے اپنے بیٹے جس کا نام بھی علی خان تھا، بھیرہ اور اس علاقے کا حالم مقرر کیا۔ بابر نے جب 1519ء میں اس علاقے پر حملہ کیا تو یہی علی خان حاکم تھا اور یہ وہ زمانہ تھا جب بابر نے شمالی پنجاب کو فتح کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا اور وہ بذات خود اس علاقے کا دوسروں کی نسبت تیمور کی نسل سے ہونے کی وجہ سے جائز وارث خیال کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب بابر نے بھیرہ فتح کیا تو فوجیوں کوختی سے منع کیا کہ وہ کسی شخص کی بھی جان و مال کو نقصان نہ پہنچا ئیں ۔ بھیرہ کو ہیڈ کواٹر بنا کر بابر نے حیدر علمدار کو خوشاب اس غرض سے بھیجا کہ وہ وہاں بلوچ سرداروں کو بات چیت کیلئے ساتھ لے کر بھیرہ پہنچے۔ اس کے ساتھ شاہ حسن بن شاہ بیگ ارغون کو بھی روانہ کیا کہ وہ اس کی طرف سے وہاں جائیں اور جب یہ وفد واپس پہنچا تو اس وفد نے بابر کو ہر طرح سے اطاعت کا اطمینان دلایا۔ یہ سب انتظام کرنے کے بعد بابر نے ہندو بیگ کو بھیرہ ، چناب پر حسین انکر اک اس کے بعد بھیرہ سے دریائے سندھ تک کا علاقہ جس میں خوشاب بھی شامل تھا، لنگر خان بلوچ سردار کے پاس ہی رہنے دیا اور اسے ہدایت کی گئی کہ وہ ضرورت پڑنے پر ہندو بیگ کی مدد کو پہنچے ۔ ابوالفضل کو یہاں غلط بھی ہوئی جو اس نے شاہ حسن کو خوشاب پر حاکم مقرر کرنے کا لکھا ہے۔ اسے تو صرف خوشابیوں سے بات چیت کے لئے بھیجا گیا تھا۔ ” بابر نے جونہی واپسی کیلئے رخصت سفر باندھا، اہل بھیرہ نے پٹھانوں سے مل کر ہندو بیگ جسے بابر نے مقرر کیا تھا ، بھگا دیا۔ ہندو بیگ بھیرہ سے بھاگ کر خوشاب میں پناہ لینے پر مجبور ہوا۔ اس کے بعد اس نے عافیت اسی میں بھی کہ دھن کوٹ سے ہوتا ہوا باہر کے پاس کا بل پیچ گیا۔
یہ 25 ربیع الاول کو کابل پہنچا۔ ایک مقامی روایت کے مطابق 1503 ء مطابق 909 هجری خوشاب دریائے جہلم کی طفیانی کی نذر ہو گیا تو بابر نے اسے دوبارہ تعمیر کروایا اور اس کے گیارہ دروازے تھے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ باہر بھی بھی خوشاب نہیں آیا اور نہ ہی نیا شہر بسانے کا کوئی حکم دیا البتہ یہ واضح ہے کہ بابر اہل خوشاب کی اطاعت گزاری سے مطمئن تھا۔ جب اہل خوشاب کے وفد نے قلعہ جہاں نما بھیرہ میں اس سے ملاقات کی ، اس کے بعد وہ کبھی اس علاقہ میں نہیں آیا لیکن اتنا ضرور ہے کہ وہ اس علاقے پر حکومت کرنا اپنا موروثی حق سمجھتا تھا۔ وہ خود لکھتا ہے: "میرے دل میں ہندوستان کو فتح کرنے کی ہمیشہ امنگ رہی ہے۔ بھیرہ ، خوشاب، چناب اور چنیوٹ کافی عرصہ تک ترکوں کی عملداری میں رہے ہیں ، اب ان کو میں اپنا دراشتی علاقہ سمجھتا ہوں۔ ان کو حاصل کرنے کی میری امنگ رہی ہے چاہے اسے جنگ سے حاصل کروں یا صلح ہے۔“ سلطان ابراہیم کو دہلی میں خط لکھ کر بابر نے اپنی سفارت کے ذریعے یہ بات واضح کی کہ یہ علاقہ کافی عرصہ سے ترکوں کے پاس رہا ہے اس لئے اسے اس علاقے سے دستبردار ہو جانا چاہئے اور مجھے دے دینا چاہئے۔ تذکرۃ الواقعات سے یہ بات کسی حد تک واضح ہو جاتی ہے کہ ہمایوں نے لا ہود سے فرار ہو کر تخت ہزارہ کے قریب دریائے چناب کو عبور کیا اور جب بھیرہ پہنچا تو کامران پہلے وہاں قابض ہو چکا تھا۔ چنانچہ اسے مجبوراً خوشاب حسن تمر سلطان کی دعوت پر آنا پڑا۔ خوشاب آکر ہمایوں نے تمر سلطان سے وفاداری کے متعلق دریافت کیا تو اس نے اپنی جان تک اس کی خاطر قربان کرنے کی بات کی ۔ ہمایوں نے کہا اگر واقعی یہی بات ہے اور میرے لئے جانثاری کی بات کرتے ہو تو سامان باندھو اور میرے ساتھ چلو۔ چنانچہ وہ بغیر کسی تردد کے اس کے ھاتھ ہولیا۔ کامران بھی شیر شاہ سے ڈر کر اس کے پیچھے پیچھے خوشاب آ گیا تو ہمایوں نے یہاں ٹھہر نا مناسب نہ سمجھا اور بھکر کی راہ لی لیکن راستے میں ایک تنگ درے سے پہلے گزرنے پر جھگڑا ہو گیا لیکن ابوالقاسم نے سمجھا بجھا کر پہلے ہمایوں کو جانے کی راہ ہموار کر لی۔ یہی واقعہ جو ہر آفتا بچی نے ہمایوں نامہ میں درج کیا ہے اور گلبدن بانو نے بھی ہمایوں نامہ میں خوشاب کا ذکر کیا ہے۔ عبداللہ نے اپنی کتاب تاریخ داؤدی میں لکھا ہے خواص خان جو شیر شاہ سوری کا جرنیل تھا، وہ بھی ہمایوں کے تعاقب میں خوشاب پہنچ گیا۔ اسے شیر شاہ نے یہ خصوصی ہدایت دی تھی کہ ہمایوں سے الجھنا نہیں، صرف اس کا تعاقب کر کے اسے ملک کی سرحدوں سے باہر نکال دے۔ شیر شاہ سوری کے متعلق ایک یہ مشہور روایت بیان کی جاتی ہے کہ جب اس نے تھل سے گزر کر دریائے جہلم کا ٹھنڈا اور میٹھا پانی پیا تو بے اختیار اس کے منہ سے خوش آب نکل گیا اور بعد میں یہی خوشاب کی وجہ تسمیہ بنا لیکن تاریخی لحاظ سے یہ روایت غلط ثابت ہو چکی ہے کیونکہ اس سے پہلے سکندر لودھی نے خوشاب میں ایک قلعہ تعمیر کرایا تھا جو بعد میں دریائے جہلم کے سیلاب کی نذر ہو گیا۔ ایک اور روایت یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ شیر شاہ سوری نے خوشاب کو نئے سرے سے تعمیر کیا لیکن اس روایت کی بھی عباس خان سروانی مصنف ” تاریخ شیر شاہی نے کہیں بھی مندرجہ بالا روایات کا ذکر نہیں کیا۔ شیر شاہ اس علاقے میں کافی عرصہ رہا۔ اسے رہتاس کا قلعہ تعمیر کرنے کے سلسلہ میں کسی مناسب مقام کی تلاش تھی جہاں سے وہ گھڑوں جیسے جنا جو قبائل کو کنٹرول کر سکے۔ عباس خان سراوانی رو ماہی کے مشہور روحانی بزرگ بازید سروانی کے پوتے تھے۔ شیر شاہ نے تین بلوچ سرداروں کی اطاعت قبول بھی کی جن کے نام غازی خان، فتح خان اور اسمعیل خان تھے جو بعد میں ڈیرہ اسمعیل خان اور ڈیرہ غازی خان کے بانی ہوئے۔ یہ ضرور ہے کہ شیر شاہ نے خوشاب کے لئے یہ کیا کہ اس نے اس کے گرد فصیل بنوائی، چار یا گیارہ دروازے بھی بنوائے۔
(2) ایک پختہ تالاب بنوایا جو ابھی تک اڈے والی مسجد کے ساتھ گلستان بابر کے نام سے
مشہور ہے۔
(3) ایک بڑی جامع مسجد، یہ مسجد بازار میں موجود ہے لیکن اب اس میں شیر شاہ والی کوئی نشانی باقی نہیں۔ میں نے ایک کمرہ محراب کے ساتھ چھوٹی اینٹوں کا دیکھا تھا جسے بھی ختم کر دیا گیا حالانکہ اگر اس کی مرمت کر کے تاریخی نشانی رہنے دی جاتی تو اہل
خوشاب کے لئے فخر کی بات ہوتی۔
(4) عید گاہ بھی تعمیر کی گئی جو ابھی تک قائم ہے۔
(5) ایک سرائے بھی قائم کی کئی تا کہ تاجروں اور مسافروں کے کام آ سکے لیکن حالات بدل جانے کی وجہ سے مرور زمانہ کی نذر ہو گئی۔ اتنی بات ضرور مانی پڑے گی کہ شیر شاہ کی نشانیاں ابھی تک سب سے زیادہ ہیں۔ کٹھ مصرال کے قریب ایک عمارت جسے کئی ناموں سے پکارا جاتا ہے جو دراصل ایک قدیم پل دو منزلہ ہے جو اس علاقہ میں ایک تاریخی عمارت ہے، اسے بھی شیر شاہ سے منسوب کیا جاتا ہے جسے روہتاس کے ایک انجینئر نے تعمیر کیا تھا۔ یہ دیکھنے کے قابل ہے۔ اسے بھول بھلیاں بھی کہا جاتا ہے۔ اکبر کے زمانے میں خوشاب سندھ ساگر دو آب میں شمار کیا جاتا تھا اور یہ علاقہ صوبہ پر مشتمل لاہور میں شامل تھا۔ آئین اکبری میں خوشاب کے متعلق یہ تحریر ملتی ہے۔
خوشاب دریائے بہت ( جہلم) کے قریب واقع ہے۔ اس کا بڑا حصہ جنگلات پر ہے۔ اس کا رقبہ 73086 بیگھا یا بسواس ہے۔ اس کا مالیہ 2702509 دام ہے۔ یہاں کی چھاؤنی 500 سو 11 واں7000سپاہیوں پر مشتمل ہے جو عیسی خیل کے نیازی پٹھان ہیں۔ اکبر کے زمانے میں پٹھان اکثر آباد تھے ۔ شاید بلوچ اس وقت اتنی اہمیت نہ رکھتے ہوں حالانکہ ہمایوں اور باہر کے زمانے میں بھی ان کی سرداری قائم تھی۔اکبر کے زمانے میں تین آدمیوں کو خوشاب بطور جاگیر عطا کیا گیا۔ سب سے پہلے ہرات کے ابوالقاسم نمکین کو خوشاب بھیرہ اور نمک کی کانیں بھی عطا کی گئیں۔ اس کے بعد اکبر کے رضائی باپ ثمن الدین محمد انگار کو دی گئی اور اس کے بعد شاہ بیگ ارغون کو دی گئی ۔ اس کی قبر بھی خوشاب میں ہے۔ ساتھ ہی اس کے دو بیٹوں کی شاندار قبریں بادشاہوں کے دربار کے سامنےہیں۔ جہانگیر بھی اس خاندان پر مہربان تھا۔ اس نے بطور پیشن ان کے پاس ہی رہنے دی۔ شاہجہان کے عہد میں خوشاب سرکاری طور پر نظر انداز ہو گیا جس سے اس کی رونق کم ہو گئی لیکن اور نگزیب نے اس کی اہمیت کے پیش نظر اس پر بھر پور توجہ کی اور یہاں فوجی چھاؤنی کی بنیاد ڈالی اور ان کے رہنے کے لئے پختہ پیر کیں بنوائیں جسے مقامی زبان میں ہجیرہ کہتے ہیں لیکن یہ بنگالی آرٹ کا بہترین نمونہ بھی دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے ختم ہو گئے اور لوگ اینٹیں بھی لے گئے ۔ محمد شاہ رنگیلے کے دور میں نواب احمد یار خان بر لاس خوشاب اور بھیرہ کے گورنر تھے۔ یہ فارسی زبان کے شاعر بھی تھے اور یکتا تخلص تھا۔ ان کا کلام گوھر یکتا“ کے نام سے پنجاب یونیورسٹی نے شائع کیا ہے۔ ان کی وفات کے بعد یہ عہدہ راجہ سلامت رائے آنند آف بھیرہ کو ملا۔ نواب صاحب نے اپنے دور میں دریائے جہلم کے کنارے شاندار باغ لگوایا تھا لیکن وہبھی دریا برد ہو گیا اور ان کی قبر وہاں سے موجودہ جگہ منتقل کر دی گئی۔ انہوں نے قصہ ہیر رانجھا فارسی زبانمیں نظم کیا تھا۔ راجہ سلامت رائے کو عباس خان خٹک نے دھو کے سے ہلاک کر کے خود قابض ہو گیا لیکن سلامت رائے کی بیوی اور اس کے بھتیجے فتح سنگھ نے مقابلہ کر کے اسے شکست دی۔ عباس خان احمد شاہ ابدالی کا کار دار تھا بعد میں وہ خورد برد کرنے کی وجہ سے جیل میں ڈال دیا گیا۔ احمد شاہ ابدالی نے اپنے بیٹے تیمور شاہ کو نور الدین با مزکی کے ساتھ مرہٹوں کو خوشابکے قریب دریائے جہلم کو عبور کرنے سے روکنے کے لئے مقرر کیا۔ احمد شاہ کے کمزور جانشینوں کی وجہ سے 1767ء میں چتر سنگھ نے اس علاقے میں ہاتھ پاؤں مارنے شروع کر دیئے ۔ اس وقت خوشاب مٹہ ٹوانہ مسلمانوں کے پاس تھے۔ اسوقت لال خان خوشاب اور شیر خان مٹھ ٹوانہ کے سردار تھے۔ رنجیت سنگھ نے حملہ کر کے دونوں سے علاقے چھین لئے۔ ساہیوال فتح خان سے لے لیا اور 1810ء میں خوشاب اور ساہیوال کو کھڑک سنگھ جو رنجیت سنگھ کا بیٹا اور ولی عہد بھی تھا کی تحویل میں دے دیا گیا۔ معمہ ٹوانہ ہری سنگھ منگوا کو بطور جاگیر دے دیا۔ بعد میں جب 1821ء میں رنجیت سنگھ نے خوشاب کا دورہ کیا تو احمد یار خان ٹوانہ بھی اس کے ساتھ تھا کیونکہ اب سکھ دربار میں ان کا اثر و رسوخ کافی بڑھ چکا تھا اور وہ مٹہ ٹوانہ واپس لے چکا تھا۔ سکھوں کی دوسری جنگ کے نتیجے میں برطانوی راج قائم ہو گیا اور خوشاب ضلع لیہ کے ساتھ ملا دیا گیا لیکن لیہ دور ہونے کی وجہ سے 54-1853ء میں خوشاب کو شاہپور کے ساتھ ملا دیا گیا جو بعد میں سرگودھا کہلایا۔ 1867ء میں یہاں میونسپل کمیٹی قائم کی گئی۔ 1965ء میں پینٹن ڈیوس نے نیا شہر آباد کیا جس میں تقریباً میل لمبا بازار اور 30 فٹ چوڑا بنایا گیا اور اسے صلیب کی شکل پر تعمیر کیا گیا۔ اس کے گرد فصیل بھی تھی لیکن اب اس کا کوئی نشان باقی نہیں۔ پاکستان بنے کے بعد اس کی آبادی خوب بڑھی ہے۔ 1981ء میں اسے ضلع کا درجہ دیدیا گیا۔ اس کا ہیڈ کوارٹر جو ہر آباد ہے جو جدید شہر ہے جس کا سنگ بنیاد سردار عبدالرب نشتر گورنر پنجاب نے 1951ء میں رکھا تھا ۔جہاں تک خوشاب کے نام کا تعلق ہے وہ میرے نزدیک ایرانیوں کا دیا ہوا ہے جنہوں نے اس علاقے پر تقریباً 600 سال
حکومت کی۔ جس کی تفصیل یہ ہے دور هخامنشی ۔ 546 ق م سے 331 ق م تک دوبارہ ساسانی عہد236 سے 651 تک خوشاب کا علاقہ ایرانی حکومت کے ماتحت تھا۔ اسی طرح بنوں کا نام بھی اسی دور کا ہے جو دراصل بانو ہے جو رستم کی بیٹی کے نام پر رکھا گیا۔ یہ علاقہ رستم کے ماتحت تھا۔ اپنی لئے یہ بجاطور پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ نام مسلمانوں کی آمد سے بہت پہلے کا چلا آ رہا ہے اور قدامت کے لحاظ سے بھیرہ کے برابر کا ہے جو قبل مسیح کا ہے۔
یہ مضمون شیخ محمد حیات کی کتاب "ضلع خوشاب تاریخ کے آئنے میں "سے لیا گیا ہے