خوشاب

ضلع خوشاب: مغلیہ دور کے گورنر

شیخ محمدحیات

 

مغلیہ دور کے گورنر

شاه بیگ ارغون : 

تاریخ خوشاب میں دو شاہ بیگ ارغونوں کا ذکر ہے…. ایک شاہ بیگ ارغون بن زوالتون ہے جس کے والد ہرات میں تیموری شہزادے ابوسعید کے تحت کا کام کرتے تھے۔ بعد میں ان کے قتل کے بعد خود تیار ہو گئے ۔ آخر .. .. خان ارکاب کا دلیری سے مقابلہ کرتے ہوئے کام آئے ۔ اس کے بعد شاہ بیگ نے قندھار میں حکومت کی داغ بیل ڈالی۔ آخر بابر کے حوالے کر کے سندھ میں ارغون خاندان کی حکومت کی داغ بیل ڈالی۔ اسی شاہ بیگ ارغون کا بیٹا شاہ حسن باہر کے پاس فتح بھیرہ کے وقت تھا اور اسے اہل خوشاب کو بابر کی اطاعت کے لئے خوشاب بھیجا۔ یہی شاہ حسن بڑ از بردست فاتح ہوا۔ انہی کی لڑکی سے مرزا کامران نے شادی کی ۔ ھمایوں کو ایران کے لئے زاد راہ کے طور پر سواری کے لئے جانور اور رقم مہیا کی ۔ شیخص والد کی طرح عالم فاضل تھا، جنگ سے پہلے دو رکعت نفل پڑھتا ، اسے اس کی زندگی میں کبھی شکست کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اسے اس کے بعد والد کی طرح مکہ معظمہ میں جا کر دفن کیا گیا۔
شاه بیگ خان ارغون خان دوران یہ جہانگیر کے زمانے میں ٹھٹھہ کا گورنر تھا اس کا بیٹا یعقوب خان شاہجہان کا ہم زلف تھا اسے اپنی صحت کی خرابی کی بنا پر بھیرہ اور خوشاب کی جاگیر دی گئی۔ اس کی قبر خوشاب میں ہے۔ بھی دہ مقبرہ اولین مغلیہ دور کا تھا لیکن افسوس کہ نہ اب وہ مقبرہ ہے نہ کوئی نشان ۔ یعقوب لدھیال صاحب نے اس کی قبر پر ایک کتبہ نصب کر دیا تھا۔ ہاں البتہ اس کے بیٹوں کی شاندار قبر میں اس کے قریب ہی موجود ہیں ۔ ان کی بھی حفاظت کی ضرورت ہے ورنہ یہ بھی بنگالی طرز کے بنجیروں کی طرح ملیا میٹ ہو جائیگی۔ ویسے ارغون ھلاکو خان کے پوتے کا نام ہے اور ھلاکو خان مشہور منگول فاتح چنگیز خان کا پوتا تھا۔ بعد میں یہ مسلمان ہو گئے ۔ شاہ بیگ اسی نسل کے منگول تھے۔

احمد یار خان برلاس :

نواب احمد خان یار برلاس کا اصل نام محمد مخاطب تھا، احمد یار خان خطاب تھا۔ انکے والد اللہ یار خان بھی ٹھٹھہ کے گورنر ر ہے۔ احمد یار خان امیر تیمور کے خاندان سے تھے۔ فارسی زبان کے اچھے شاعر تھے اور یکتا تخلص تھا۔ ان کا فارسی کلام پنجاب یونیورسٹی نے گوہر یکتا“ کے نام سے شائع کیا ہے۔ یہ خوشاب کے گورنر تھے۔ ان کا بچپن بھی والد کے ساتھ خوشاب میں گزرا۔ ان کا مقبرہ خوشاب میں موجود ہے اور نواب صاحب کے نام سے مشہور ہے۔ ان کی زندگی میں اس وقت انقلاب آیا جب انہوں نے شاہی انداز چھوڑ کر فقیری اختیار کر لی۔ اہل خوشاب نے ان کی زندگی میں بے حد روحانی فیض حاصل کیا۔ انہوں نے خوشاب میں ایک خوبصورت باغ لگوایا اور مرنے کے بعد اسی باغ میں دفن ہوئے لیکن جب باغ دریا برد ہونے لگا تو ان کی میت کو نکال کر موجودہ جگہ پر نئے سرے سے دفن کیا گیا جسے اب بھی دوصدیاں بیت گئی ہیں۔

حسین تمر سلطان بلوچ :

یہ ھمایوں کے زمانے میں حاکم خوشاب تھا۔ جب ھمایوں بھیرہ سے خوشاب پہنچا تو اس نے اس کی ہر طرح سے مدد کی بلکہ اس گھمبیر صورتحال میں ھمایوں کے کہنے پر ایران تک ساتھ گیا اور ہر جگہ اس کی خدمت کے کام سرانجام دیئے۔ واپسی پر ان خدمات کے صلے میں اسے خوشاب کی جاگیر عطا ہوئی۔

ماچھی خان تا تاری :

خوشاب اور بھیرہ پر ماچھی خان کی حکومت تھی ۔ چنیوٹ کے حاکم مغلئی نے چنیوٹ پر حملہ کر دیا۔ ماچھی خان اس وقت بھیرہ کی حفاظت کا جائزہ لینے کے لئے بھیرہ گیا ہوا تھا، جب اسے خوشاب پر حملہ کی اطلاع ملی تو وہ فوراً خوشاب پہنچا۔ خوشاب میں اس کا نائب اجیاس کھوکھر موجود تھا لیکن مغلئی کی تازہ دم فوج کے سامنے ان کی کوئی پیش نہ گئی۔ ماچھی خان کام آیا لیکن یہ فتح مغلئی کو مہنگی پڑی۔ اس نے اگر چہ خوشاب پر قبضہ کر کے اسے چنیوٹ کے ساتھ ملا دیا لیکن اس کے دو سال بعد ہی ماچھی خان کی بہن جس کا نام چینی تھا، نے زبر دست تیاری کے بعد خود فوج کی کمان ہاتھ میں لے کر بھائی کا بدلہ لینے کے لئے مغلئی پر حملہ کر دیا۔ مغلئی نے اگر چہ چنیوٹ کے دفاع کی ہر قیمت پر قسم کھا رکھی تھی لیکن چنی منجنیقوں سے قلعہ پر پتھر برسا کر اس کی ایک دیوار گرانے میں کامیاب ہو گئی اور تیروں اور نیزوں کی بوچھاڑ کے باوجود قیادت کرتی ہوئی آگے بڑھتی گئی۔ اس کی باقی فوج بھی قلعے میں داخل ہو گئی۔ گھمسان کی جنگ ہوئی مغلئی مارا گیا۔ چینی نے نئے سرے سے چنیوٹ کا شہر آباد کیا۔ اس نے خوشاب اور چنیوٹ کی حکومت سنبھال لی بہت سی اصلاحات فافذ کیں۔ مالگزاری کے نظام میں تبدیلیاں کیں۔ اس طرح اسوقت سے چنیوٹ ترقی یافتہ شہروں میں شمار ہونے لگا۔ مغلئی کے زمانے کا چنیوٹ موجودہ چناب نگر والی جگہ پر تھا جس کے آثار موجود ہیں۔
پہلے یہ دریا کے دائیں کنارے پہاڑیوں کے درمیان تھا اب بائیں کنارے ہے۔ ان پہاڑیوں پر خط تصویری میں بے شمار کتبے تھے جن میں سے اب چند باقی ہیں۔

راجہ سلامت رائے آئند :

راجه سلامت رائے بھیرہ اور خوشاب کا آخری حکمران تھا۔ اس کی تقرری احمد یار خان برلاس کی وفات کے بعد عمل میں لائی گئی تھی۔ یہ محمد شاہ رنگیلے کا زمانہ تھا جس کی حکومت 1710ء میں شروع ہوئی۔ اس کے عہد میں نادر شاہ نے حملہ کر کے تمام خزانے لوٹ لئے۔

عباس خان خٹک کی غداری :

اسی زمانے میں خشک قبیلے کا ایک شخص جسے احمد شاہ ابدالی نے سرحد میں حاکم مقرر کیا تھا وہاں خورد بردکر کے پنجاب بھاگ آیا اور راجہ سلامت رائے حاکم بھیرہ سے پناہ کا طلبگار ہوا۔ راجہ سلامت رائے نے اس شرط پر اسے پناہ دی کہ وہ لوٹ مار کا سلسلہ بند کر کے شریفانہ زندگی بسر کرے گا، درخواست منظور کر کے اسے بھیرہ میں رہنے کی اجازت دے دی لیکن اس نے نمک حرامی کر کے اسے زہر دے کر ہلاک کردیا اور خود بھیرہ اور خوشاب کا حاکم بن گیا لیکن راجہ سلامت رائے کی بیوہ نے اپنے بھتیجے کی مدد سے عباس خان پر حملہ کر کے اس کو شکست دے کر بھیرہ اور خوشاب کی حکومت سنبھال لی۔ یہ سب کچھ 1760ء میں ہوا۔ سلامت رائے کی بیوہ نے موضع چادہ کے قلعہ میں بند ہو کر عباس خان کو للکارا اور اس کی مثال کو سامنے رکھ کر فتح گڑھ نزد ہائی سکول بھیرہ میں فتح سنگھے قلعہ بند ہو کر عباس کے مقابلے پر آ گیا۔ ابھی یہ کشمکش جاری تھی کہ احمد شاہ ابدالی جس نے عباس خان کو پنڈ دادن خان اور کوہستان نمک کا حاکم مقرر کیا ہوا تھا، دستہ بھیج کر اس بھگوڑے کو گرفتار کر کے لے گئے اور جیل میں ڈال دیا۔ فتح سنگھ جو سلامت رائے کا بھتیجا تھا سلامت رائے کے عہدے پر بحال ہو کر بھیرہ اور خوشاب کا حاکم مقرر کیا گیا اور دریائے جہلم کے شمالی علاقے پر محمد نواز خان حاکم مقرر ہوا۔

جلال الدین خوارزم شاہ :

سب حکمرانوں سے زیادہ جس نے اس علاقے میں رہ کر حکومت کی وہ سلطان جلال الدین خوارزم شاہ ہے۔ وہ واحد مسلمان حکمران تھا جس نے چنگیز خان کی ٹڈی دل فوج کا مقابلہ کیا اور مردانہ وارلڑتا ہوا 80 فٹ اونچی چٹان سے اپنا گھوڑا اچھال کر دریائے سندھ میں کود گیا اور بخیر و خوبی دوسرے کنارے پہنچ گیا۔ یہاں تلاجھہ میں اپنی حکومت کی بنیاد رکھی اور یہاں سے اچ میں ناصر الدین قباچہ کو شکست دی۔ اس کے آگے جانے کے بعد بھی اس کے ایک جرنیل سیف الدین حسن قرلاغ نے ہیں سال یہاں نہ صرف کامیابی سے حکومت کی بلکہ یہاں ٹکسال بھی قائم کر کے اپنے نام کے سکے جاری کئے اور یہ سکے 1888ء میں چٹہ سے ایک شخص کو ہل چلاتے ہوئے مٹی کے ایک برتن میں 498 ملے۔ ان میں سے صرف ایک سکہ گھڑ سوار اور بیل والا تھا جو ترک شاہی کا معلوم ہوتا ہے۔ یہ پہلی اور آخری ٹکسال تھی جو ضلع خوشاب میں قائم کی گئی اور اس کے سکے بھی موجود ہیں ۔ اس کے بعد بھی 395 سکے اس حکمران کے چٹے سے ملے۔

شمس الدین انگا خان :

اکبر سے پہلے اس نے ھمایوں کی ملازمت بھی کی ۔ 1540ء میں قنوج کی شکست کے بعد جب ھمایوں دریا میں ڈوبنے لگا تو اس نے جان پر کھیل کر اس کی جان بچائی ۔ اکبر کو بھی اس پر بہت اعتماد تھا۔ بیرم خان نے جب اکبر کے خلاف بغاوت کی تو اس کو اکبر نے جالندھر مقابلے کے لئے بھیجا اور بعد میں خود بھی بڑی فوج لے کر اس کی مدد کو گیا ۔ پہلے یہ مشیر اعلیٰ مقرر ہوا اور پھر بعد میں 1561ء میں اسے وزیر مقررکیا گیا اور خان اعظم کا خطاب دیا گیا۔ ادھم خان جو کبر کی دائی ماہم انگا کا بیٹا تھا ، اکبر اس کی ماں کی بہت عزت کرتا تھا لیکن یہ اسی بنا پر آپے سے باہر ہونے لگا۔ جب اکبر نے اسے مالوے سے واپس بلایا تو اس نے اپنی تو ہین سمجھا اور ماں بیٹے نے سمجھ لیا کہ اب اقتدار ان کے ہاتھ سے نکلا جارہا ہے تو انہوں نے شمس الدین کو اس کا ذمہ دار گردانتے ہوئے اس کے خلاف ہو گئے اور آخر کار دو ملازموں کو ساتھ لے کر شمس الدین کو موت کے گھاٹ اتار دیا جس سے اکبر کو بہت دکھ ہوا اور اس نے ادھم خان کو پکڑوا کر رسیوں سے باندھ کر قلعے سے سر کے بل نیچے پھینک دیا جس سے وہ مئی 1562ء میں راہی ملک عدم ہوا، اور اس کی ماں بھی اسی غم میں چل بسی۔ اکبر نے شمس الدین کی دیرینہ خدمات کے صلے میں اسے خوشاب کے وسیع علاقے اسے اور اس کے بعد متوسلین کو بطور جاگیر عطا کئے۔ جس طرح ادھم خان ماہم انگہ کا بیٹا تھا اسی طرح انگا خان جی جی انگہ اکبر کی دائی کا خاوند تھا، اسے ھمایوں نے گنگا سے ڈوبنے سے بچانے پر اتگا خان کا خطاب دیا تھا۔ یہ ھمایوں اور اکبر کی فوجوں کا سالار بھی تھا۔ یہ غزنی کا رہنے والا تھا۔ اسے پہلے اکبر کی کابل میں نگہداشت پر مامور کیا گیا۔ اکبر کے دور حکومت میں یہ وزیر اعظم کے عہدے پر بھی فائز رہے اور اس کے بعد اس کا بیٹا عزیز کوکا بھی وزیراعظم بنا۔ اکبر نے اس کے بیٹے کو خان اعظم کا خطاب دیا۔ جب بیرم خان نے بغاوت کی تو اسکا مقابلہ کرنے کے لئے اکبر نے انگا خان کو حکم دیا کہ وہ اسے پنجاب میں داخل ہونے سے روکے۔12 اگست 1560ء کو اکثر نے دہلی سے خود بھی اس خیال سے کوچ کیا کہ اگر اپنے جرنیل کو مزید کمک کی ضرورت ہو تو مہیا کی جاسکے۔ انگا خان نے آگے بڑھ کر جالندھر کے ایک نزد یکی گاؤں میں شکست دی اور جب اکبر سرھند کے مقام پر پہنچا تب اسے فتح کی خوشخبری موصول ہوئی۔ سرہند کے مقام پر ہی منعم خان بھی ان سے آن ملا تھا۔ اس فتح کے صلہ میں انگا خان کو عظیم خان کے خطاب سے نہ صرف نوازا گیا بلکہ خوشاب میں اس کی خواہش کو مد نظر رکھتے ہوئے بہترین جاگیریں نہ صرف اسے دی گئیں بلکہ ان کے ساتھیوں کو بھی نوازا گیا۔ عد میں انکا خان کوشا ہے یہ شکوہ پیدا ہوا کما نے کہ ریاست کے بلند ترین عہدے ما ہم انگہ کے خاندان کے ہاتھوں میں دے رکھے تھے حالانکہ اس کے بیٹے اوہم خان کے سر میں بغاوت کا فتور سا چکا تھا۔ اسے یہ بھی شکایت تھی کہ ماہم انکہ اس کے خلاف اکبر کو غلط خبریں فراہم کرتی ہے۔ انہی دونوں منعم خان کو ادھم خان نے انگا خان کی نگرانی پر مامور کر دیا۔ 16 مئی 1562ء کو ادھم خان اور اس کے ساتھی سازشیوں نے محل کے اس ہال پر دھاوا بول دیا تھا جہاں انگ خان ، شہاب الدین منتظم خان اور دیگر عمائدین سلطنت بحق سرکار بیٹھے مشورے کر رہے تھے ۔ ادھم خان کا اشارہ پاتے ہی اس کے دو ساتھیوں نے اتگا خان پر حملہ کر دیا۔ انگا خان کو گہرے زخم لگے جن کی تاب نہ لاتے ہوئے۔ وہ ہال کے باہر برآمدے ہی میں جان بحق ہو گیا۔ اس کے بعد اد ہم خان نگی تلوار ہاتھ میں لے کر اکبر کی خوابگاہ کی طرف روانہ ہوا لیکن پہرے دار دروازہ بند کر کے اسے روکنے میں کامیاب ہو گیا۔ اکبر جومحو خواب تھا وہ شور و غل سن کر اٹھ کھڑا ہوا اور حالات کی آگاہی کی خاطر جائے وقوعہ پر جا پہنچا جہاں پر انگا خان کی لاش پڑی ہوئی تھی ۔ شاہ یہ دیکھ کر سخت غصے میں آگیا وہ ادہم خان شاہ کو دیکھ کر شل ہو گیا اور اسکی تلوار گر گئی۔ اس نے اکبر کو پکڑنے کی کوشش کی لیکن اکبر نے اس زور سے ادھم کی کنپٹی پر گھونسا مارا کہ ادہم بے ہوش ہو کر گر گیا۔ اس کے بعد اسے رسیوں میں جکڑ کر قلعہ سے نیچے پھنکوا دیا گیا۔ پہلی دفعہ گرتے ہوئے ادهم خان ہلاک نہ ہوا لہذا اسے دوبارہ سر کے بل نیچے پھینکا گیا جس پر وہ گرتے ہی ختم ہو گیا۔ جب اس کی عبرتناک موت کی خبر ما ہم کو پہنچی تو وہ بھی چل بسی۔ اکبر کو اپنی خادمہ کی موت کا بہت دکھ ہوا۔ اس نے کچھ دور تک اس کے جنازے کو کندھا بھی دیا۔ اس کے بعد منتظم خان کو خان خاناں کا خطاب دے کر وز یر اعظم مقرر کر دیا۔ یہ آخر دم تک شاہ کا وفادار رہا۔

نواب ابوالقاسم خان نمکین :

ان کا آبائی وطن بحبق تھا جو سبزوار کے مضافات میں تھا۔ اس کے والد کا نام ملامیر سبزواری تھا۔ پہلے مشہد مقدس کی تولیت بھی ان کے سپرد تھی۔ ازبکوں کے آئے دن حملوں سے تنگ آکر وطن کو چھوڑ کر قندھار آ گئے ۔ ان کا بیٹا میرابوالقاسم ابتدا میں کابل کے والی میرزا محمد حکیم (جوا کبر کا بھائی تھا) کے پاس ملازمت اختیار کر لی۔ بعد میں لاہور آ کر اکبر کے دربار میں پیش ہوا اور امرائے اکبری کے زمرے میں شامل ہو گیا۔ میرا ابو القاسم اپنے سرکاری عہدوں کی وجہ سے زیادہ تر سندھ میں مقیم رہا اور بھر کو اپناٹن بنا کر وہیں مکانات وغیرہ بنائے اور اپنی حیات تک بھکر ان کا وطن رہا لیکن جب ان کا بیٹا میر ابوالبقا امیر خان ٹھٹھے کا گورنر بن کر آیا تو یہ کچھ عرصہ کے لئے ٹھٹھہ چلے گئے۔
میر ابو القاسم جب اکبر کی ملازمت میں منسلک ہوا تو اکبر نے اسے بھیرہ اور خوشاب میں جا گیر دے دی جہاں نمک کی کا نہیں تھیں۔ ان کانوں سے میر صاحب کو بہت آمدنی ہوئی۔ میر صاحب نے نمک کا ایک پیالہ اور ایک رکابی بنوا کر اکبر کی خدمت میں پیش کی جس سے اپنی نمک حلالی کی طرف اشارہ مقصود تھا۔ بادشاہ کو اس کی یہ ادا بہت پسند آئی اور اسے نمکین کا لقب عنایت کیا۔ یہاں تک کہ یہ لقب اس کے نام کا جزو ہو گیا۔

نواب امیر خان ابوالبقا (1039-1041ھ ) :

2۔ نواب ابوالقاسم خان نمکین بن ملا میر سبزواری کا آبائی وطن بحبق نامی ایک قصبہ تھا جو سبزوار (اسفزاز ) کے مضافات میں تھا۔ ملا میر کے متعلق صرف اس قدر پتہ چلتا ہے کہ کسی زمانے میں مشہد مقدس کی تولیت ان کے سپرد تھی ۔ ازبکوں کے فتنے کے زمانے میں وہ اپنے وطن کو چھوڑ کر قندھار آ گئے تھے۔ ان کا بیٹا سید ابو القاسم ابتدا میں کابل کے والی میرزا محمد حکیم کے پاس ملازم تھا۔ بعد میں وہ ہندوستان آیا اور لاہور میں اکبر کے دربار میں پیش ہوا اور امرائے اکبری کے زمرے میں شامل ہو گیا۔ میر ابو القاسم اپنے سرکاری عہدوں کی وجہ سے زیادہ تر سندھ میں رہا اور بھکر کو اپنا وطن بنا کر وہیں مکانات وغیرہ بنوائے۔ اس کی زندگی تک بھکر ہی اس کا وطن رہا لیکن جب اس کا بیٹا میر ابو البقا امیر خان ٹھٹھے کا گورنر بن کر آیا تو اس کے خاندان کا ایک حصہ ٹھٹھہ میں منتقل ہو گیا جن کی رہائش کے لئے ابوالبقا امیر خان نے قلعہ حاکم نشین کے سامنے اور جامع مسجد ٹھٹھہ کی مشرقی دیوار کے متصل ایک محلہ آباد کیا جو اس کے نام پر محلہ امیر خانی سے مشہور ہو گیا۔ اس خاندان کے افراد جو ٹھٹھے میں رہ بس گئے وہ اور ان کی نسل سادات امیر خانی کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس خاندان کے بعض مشاہیر میں بھی تو سیوہن میں بھی تو طن اختیار کیا۔
میر ابو القاسم نمکین جب اکبر کے ملازموں میں منسلک ہوا تو اکبر نے بھیرہ و خوشاب میں جاگیری دی جہاں نمک کی کا نہیں تھیں۔ ان کانوں سے میر صاحب کو بہت آمدنی ہوئی۔ میر صاحب نے نمک کا ایک پیالہ اور ایک رکابی بنوا کر اکبر کی خدمت میں پیش کی جس سے اپنی نمک حلالی کی طرف اشارہ مقصود تھا۔ بادشاہ کو اس کی یہ ادا پسند آئی اور اسے نمکین کا لقب عنایت کیا یہاں تک کہ یہ لقب اس کے نام کا جزو ہو گیا۔ میرزا حسام الدین کے بعد 12 ربیع الاول 1039ھ (1629ء) نواب امیر خان ابوالبقا جو اس وقت ملتان میں یمین الدولہ کا نائب تھا، اس کا تبادلہ کر کے اسے ٹھٹھے کا گورنر مقرر کیا گیا۔ یہ تیسر اسندھی نژاد گورنر تھا جو ٹھٹھے کی حکومت پر فائز ہوا۔ بقول صاحب تاثر الامرا کو اب امیر خان ابوالبقا نواب ابوالقاسم خان نمکین کا رشید ترین اور سب سے بڑا فرزند تھا۔ وہ تجربہ کاری فہم و فراست اور معاملہ دانی میں بھی اپنے والد کے سامنے بھی وہ منصب پانصدی تک پہنچ چکا تھا۔ میر ابوالقاسم خان نمکین کی وفات کے بعد اس نے غیر معمولی ترقی کی ۔ جہانگیر کے زمانے میں وہ دو ہزار و پانصدی سوار کے منصب سے نوازا گیا اور یمین الدولہ کی نیابت میں صوبہ ملتان کی حکومت پر مقرر ہوا۔

ٹھٹھے کی صوبیداری پر تقریر :

10 جلوس شاہجہانی 1039 ھ (29-1630 ء) کو مرتضی خان انجو کی وفات کے بعد اس کے سابقہ منصب نے اس کے منصب میں اضافے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ جب شاہجہاں کو اس کی اطلاع ملی کہ مرتضی خان ولد میر جمال الدین حسین خان انجو کی وفات ہو گئی تو امیر خان ولد ابو القاسم نمکین کو جو اس وقت یمین الدولہ کی نیابت میں حکومت ملتان پر متعین تھا، اس صوبے کے انتظام کے پیش نظر اس کے منصب سہ ہزاری دو ہزار سوار میں پانصدی ذات و پانصد سوار کا اضافہ کر کے ٹھٹھے کی صوبیداری سے سرفراز کیا۔ تحفہ الکرام میں ہے کہ شاہجہان نے امیر خان کو ٹھٹھے روانہ ہوتے وقت خاص طور پر ہدایت دی تھی کہ وہ ان ملازموں اور منصبداروں کو جو شریف الملک کی گورنری کے زمانے میں اس کے ساتھ کام کر رہے تھے، سزائیں دے۔ چنانچہ اس نے ٹھٹھہ پہنچتے ہی ان میں سے اکثر عہدہ داروں کو موقوف کر دیا جو شریف الملک کے زمانے میں کارگزار تھے اور کرالہ کے جام کو بھی سزادی کہ اس نے اس زمانے میں جب کہ شاہجہان اپنی شاہزاد گی کے زمانے میں ٹھٹھے میں ٹھہرا ہوا تھا، اس کے لشکر کے بازار کو لوٹ لیا تھا اور رانا دھا راجہ جنھوں نے شاہجہان کے ٹھٹھے کے قیام کے. زمانے بہترین خدمات انجام دی تھیں، ان دونوں کو در بارشاہی میں بھجوایا۔
ابوالبقا کے بھائی میرک یوسف نے اپنی مرتب کردہ تاریخ مظہر شاہجہانی میں ٹھٹھے کی رغبت کے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا کہ اس شہر میں علماء، فضلا ، شعرا، کاتب ، خوش نویس اور خدا پرست لوگ بکثرت ہیں۔ اس شہر کے اکثر لوگ پیشہ ور اور متبع شریعت ہیں چنانچہ جامع مسجد میں علاوہ اور مسجدوں کے شہر میں واقع ہیں، نمازوں کے وقت میں ہزار آدمی جمع ہوتے ہیں۔ سرکار ٹھٹھہ کے لوگ غریب ہیں، بالکل سرکش نہیں، کسر اور نکامرہ قوم کے لوگوں سے یہاں کے لوگ ڈرتے ہیں، تر خانیوں نے اپنی حکومت کے زمانے میں ان کے سرداروں سے صلح کر کے ان کو اپنی مٹھی میں لے لیا تھا۔ جب یہ علاقہ مغلوں کے قبضے میں آیا تو ان کے وکیلوں نے بھی جام ہالہ، رعنا اور عمر کو جزوی منصب دے کر راضی کر لیا تھا کہ وہ اپنے اپنے علاقے میں رہیں اور ہمیشہ ٹھٹھے کے صو بیدار کی خدمت میں موجود ہیں۔ میرا بوالبقا جب اس صوبے کا گورنر ہو کر آیا تو اس نے سب سے پہلے کہر اور ان کے سردار جام ہالہ کی طرف توجہ دی اور ان کا استیصال کر دیا۔ چونکہ نکامرہ قوم کے استصیال کا حکم اسے نہ ملا تھا اس لئے وہ ان کی طرف متوجہ نہیں ہوا۔
سر کار چاچکان جو صوبہ ٹھٹھہ کا ایک جزو ہے، یہ سرکار عبدالزاق معموری کے زمانے میں اس کو جاگیر میں ملی تھی ۔ یہاں کی بسنے والی ایک قوم مندرہ سرکش تھی جسے اسی وقت ایسا سیدھا کر دیا گیا کہ وہ پھر کبھی سر نہ اٹھا سکے۔ اسی طرح سرکار نصر پور میں جو قبیلے سرکش و متمرد تھے مثلاً سوڈہ، سمجھ کبر ہمچہ ساندہ مچھ جو نیچا، مچھ کیریا اور سمجھ دل وغیرہ جن کی وجہ سے اس علاقے کی حالت نہایت ابتر ہو چکی تھی ، ان سب پر قابو پا کر اس علاقے کو اس نے از سر نو آباد کر دیا۔ اس کے علاوہ اس نے سرکار چاکر ہالا کے نظم ونسق درست کرنے کی طرف بھی خاص توجہ دی ۔ 14 شوال 1041ھ (32-1631 ء) تک ٹھٹھہ کا صوبیدار رہا۔

جونا گڑھ تبادلہ :

امیر ابوالبقا ٹھٹھے کی صو بیداری پر 1041ھ (1631ء) تک رکھا۔ مظہر شاہجہانی سے معلوم ہوتا ہے کہ ٹھٹھے سے اس کا تبادلہ جونا گڑھ کی صوبیداری پر ہوا۔ جونا گڑھ میں ابو البقا کتنے دن رہا، اس کا پتہ مظہر شاہجہانی سے نہیں چلتا البتہ ماثر الامرا میں ہے کہ جلوس شاہجہان 1045-46ھ (36-1535ء) میں جب کہ شاہزادہ دولت آباد سے دار الخلافہ لوٹا ہے، میر ابوالبقا کے سپر د دولت آباد صوبہ دکن کے مضافات میں سرکار بیٹر اس کی جاگیر میں دے کر اسے وہاں متعین کیا گیا۔

سیوہن کی صو بیداری پر تقرر :

14 جلوس شاہجہانی 1051ھ (42-1641 ء میں وہ سیوہن کا صوبیدار مقرر ہوا۔ ”
بادشاہ نامہ میں ہے کہ
امیر خان ولد قاسم خان نمکین خلعت واسپ و خدمت ضبط سیوستان از تغیر قزاق خان سر برافراخت-

ٹھیٹھے کی دوبارہ حکومت :

میر ابوالبقا ایک سال تک سیو جن میں رہا۔ 15 جلوس شاہجہانی 1052 ھ میں شاد خان کے سیوہن تبادے کے بعد پھر وہ دوبارہ ٹھٹھے کا صوبیدار مقرر ہوا۔ شاہجہان نامہ میں اس کے تبادے کی تاریخ 4 ربیع الاول 1052ء (43-1642ء ) مندرج ہے۔
1 – تذکرہ امیر خانی سندھی مرتبہ سید حسام الدین راشدی ص 104
2 – تذکرہ امیر خانی سندھی 104 – 105 بحوالہ بادشاہ نامہ ص 105

ٹھٹھے کی جامع مسجد کی تعمیر :

ٹھٹھے کی مشہور جامع مسجد مسجد شاہجہانی جسے آج بھی سیاح دور دور سے دیکھنے آتے ہیں ، اسی امیر نے شاہجہان کے حکم سے اس زمانے میں بنوائی جب وہ دوسری مرتبہ ٹھٹھے کا گورنر ہو کر آیا تھا۔ اس نے اس کی مسجد کی تعمیر 1054 ھ (1644ء) میں شروع کرائی اور 1007ھ (1647ء) میں اس کی تعمیر ختم ہوئی۔ میرا بوالبقا کے زمانے کا کتبہ آج بھی اس مسجد میں موجود ہے۔
ندیده چشم فلک مسجد بدین خوبی
که آمدند ملائیک برای دیدن فیض
هستم از خرد و عقل سال تعمیرش
بدیدہ کر دا شارت که هیبت معدن فیض
وفات 1052 ھ (1642ء) میں سو سال سے زیادہ عمر پا کر ٹھٹھہ میں وفات پائی۔ صفہ صفار و ہبری کے قبرستان میں دفن ہوئے۔

 

 

یہ مضمون شیخ محمد حیات کی کتاب "ضلع خوشاب تاریخ کے آئنے میں "سے لیا گیا ہے

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com