آریہ اور مقامی قبائل
تقسیم ملک سے پہلے تک مدارس میں جو نصاب پڑھایا جا تا تھا اس میں اس بات پر زور دیا جاتا تھا کہ آریوں کا اصل وطن وسط ایشیا تھا۔ انہوں نے سردی اور بھوک سے تنگ آکر اپنا وطن چھوڑا ۔ اب جوں جوں تحقیقات کا دائرہ وسیع ہوتا جارہا ہے تو آریوں کے متعلق نئے نئے انکشافات سامنے آ رہے ہیں اور ماہرین بھی پرانے نظرئیے کو چھوڑ کر نئے نظریات کو اپنانے پر مجبور ہیں۔ چند دہائیاں پہلے تک برصغیر پاک وہند میں یہ خیال عام تھا کہ آریہ انسانوں کی کسی اعلی نسل کا نام ہے جو مختلف علاقوں اور ملکوں سے گھومتی پھرتی اس ملک میں آئی اور یہاں کے لوگ اسی اعلیٰ نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ رفتہ رفتہ جب تحقیق کا دائر و وسیع ہوتا گیا تو آریوں کی آمد اور ان کے پھیلاؤ کے معاملے کو کم سے کم اہمیت دینے کا رجحان پیدا ہوا۔ یہ بھی ثابت کیا گیا کہ آریہ کہیں باہر سے نہیں آئے تھے، یہیں کے مقامی لوگ تھے۔ یہ بھی کہا گیا کہ آریہ 1500 ق م میں پاکستانی علاقے میں آئے جبکہ وادی سندھ کی تہذیب 1750 ق م میں تباہ ہو چکی تھی ۔
اب قدیم ویدوں کے مطالعہ اور آثار قدیمہ کی کھدائیوں سے آریہ مسئلہ کے بارے میں ایک بہتر تصویر پیش کی جاتی ہے جو عمومی طور پر ماہرین تسلیم کرتے ہیں۔ ماہرین اب کسی بھی آریہ نسل کو تسلیم نہیں کرتے ۔ یہ لسانی گروہ تھا نسلی نہیں تھا۔ آریوں نے اپنے دیس کو سپت سندھو ( سات دریاؤں کی سرزمین ) کے نام سے یاد کیا ہے ان سات دریاؤں کے نام جورگ وید میں آئے ہیں وہ یہ ہیں ستلج ۔ بیاس ۔ رادی۔ چناب جہلم اور سندھ ۔ اس کے علاوہ ساتواں شاید باکثرہ تھا جواب خشک ہو چکا ہے۔ اگر آریوں کا وطن کوئی اور ہوتا تو اس کا ذکر بھی کرتے ۔ یہ سارا عرصہ پنجاب میں ہی رہے اور سارے کا سارا رگ وید پنجاب میں ہی لکھا گیا۔ اور یہ صدیوں میں مختلف قبائل کے شعراء نے نظم کیا۔ جہاں جہاں یہ بھانوں یا مرائیوں کا خاندان جا تا رہا وہاں کے حالات لکھتا رہا۔ سوم ریس جس نئے والی ہونی سے آریہ لطف اندوز ہوتے اور اس کی تعریف کرتے نہیں تھکتے وہ پوٹھو ہار کے علاقے کی بھنگ ہے جسے اب بھی لوگ رگڑ کر پیتے ہیں۔ بعض ماہرین کو بعض زبانوں کے الفاظ سے غلط نہی ہوئی کہ شاید یہ قبائل کبھی اکھٹے رہتے ہوں تو اس کا جواب بھی بڑا آسان ہے۔ زبانیں بھی کرنسی کی طرح چلتی رہتی ہیں۔ غیر ملکی لوگوں کے میل جول سے زبانیں اثر لیتی ہیں۔ بڑے بڑ کے شہروں میں تاجروں کیلئے سرائیں ہوتی تھیں جن میں تاجر اپنا سامان لاتے ۔ اگر نیا تاجر ہوتا تو تر جمان مل جاتا اور دو چار بار سفر کرتا تو خود ماہر ہو جاتا۔ خوشاب میں ایسی سرائے تھی ۔ لاہور میں سلطان کی سرائے وغیرہ وغیرہ۔ فاضل ٹی۔ برو نے اس سلسلہ میں ایک عجیب دلیل پر انحصار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ رگ وید میں کوئی ایک منتر بھی ایسا نہیں ہے جس میں ترک وطن کا ذکر کیا گیا ہو تی کہ کوئی ایسا واضح اشارہ بھی موجود نہیں ہے جو اس امر کی دلیل ہو کہ ترک وطن کی یاد تازہ تھی اور وہ اسے نہیں بھولے۔ وہ ساری تعریفیں یہاں کے دریاؤں اور پہاڑوں کی ہی کرتے ہیں کیونکہ یہی ان کا وطن تھا۔ اہل یورپ کو پہلی بار میکس مرنے 1898ء میں آریہ لفظ سے متعارف کرایا۔ اس نے یہ بھی وضاحت کی کہ اس سے مراد نسلی گروہ نہیں، انسانی گروہ ہے لیکن پھر بھی جرمنوں کو یہ لفظ ایسا بھایا کہ وہ خود آریہ بن بیٹھے۔ شاہ ایران بھی اسی رو میں بہہ گیا اور خود کو آریہ مہر کہلوانے لگا۔ افغانستان والوں نے اپنی ہوائی سروس کا نام ہی آریا نہ رکھ دیا۔ اس ساری کہانی کے پس پردہ ہندوؤں کا مذہبی جذبہ کام کر رہا تھا کہ ہندو قوم کو دنیا کی اعلی نسل ثابت کیا جائے حالانکہ آریہ بالکل اجڑ تھے، لکھنے پڑھنے سے عاری تھے، دید یاد کرتے تھے لکھے نہیں سکتے تھے۔ لکھنا انہوں نے بہت بعد میں سیکھا جب آشوریوں کی شاگردی اختیار کی۔ اس مثال سے ان کی برتری کا بت پاش پاش ہو جاتا ہے جو خود تہذیب نے نا آشنا ہو، دوسروں کو کیا دے گا۔
ویدک ادب
آریہ جو بھی تھے، جہاں سے بھی آئے ، اب موضوع بحث نہیں رہے لیکن انہوں نے دنیا کو ویدک ادب کی صورت میں جو معلومات پہنچائی ہیں وہ اس زمانے کا قدیم ترین ادب ہیں۔ یہ سب معلومات ویدوں کے منتروں سے حاصل ہوتی ہیں جو مختلف دیوتاؤں کی مدح و ثنا میں ہیں اور یہ مذہبی رسومات ادا کرتے وقت پڑھے جاتے ہیں۔ اس میں زیادہ تر بیجن، رما میں منتر اور قربانی کے اصول بیان کئے گئے ہیں۔ ویڈوں میں سب سے اہم اور قدیم رگ دید ہے۔
رگ وید
میہ آریاؤں کی سب سے قدیم کتاب ہے اور اسی وجہ سے آریاؤں کی قدیم تہذیب کا مرقع ہے۔ اس میں 1028 بھیجن ہیں جو دس ہزار اشعار پر مشتمل ہیں۔ یہ بھجن دس کتابوں یا منڈلوں میں منقسم ہیں۔ یہ تمام بھجن کی بحر میں لکھی گئی ہیں جس میں آریائی دیوتاؤں، اندر و روتا اور آئی وغیرہ کو مخاطب کیا گیا ہے۔ دگردید کی ہر مناجات کو سوکت کہتے ہیں اور مذہبی عقیدہ یہ ہے کہ لکھنے والوں نے یہ گیت تخلیق نہیں کئے بلکہ دیکھے تھے۔ دیکھنے والے کو رشی کہا جاتا۔ رشیوں نے خود یاد کئے اور پھر شاگردوں کو یاد کروائے۔ ہر منڈل پر مختلف شعراء نے طبع آزمائی کی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہر منڈل کو کئی خاندانوں نے تالیف کیا۔ اس لئے ان میں زبان و بیان میں یکسانیت نہیں۔ صرف چھو میں یکسانیت ہے۔ رگ وید میں آریہ اندر دیوتا سے دعائیں مانگتے رہتے ہیں کہ وہ غیر آریہ لوگوں کا ستیاناس کر دے، ان کے مال و اسباب چھین کر ان کو دے دے۔ رگ میں ہی ہے کہ اندر نے 100 قلعے جلا کر راکھ کر دئیے اور ان کی زرخیز زمینیں ان سے چھین کر آریوں میں بانٹ دی گئیں۔ یہ بات بھی یادر کھنے کے قابل ہے کہ ایسی خواہشات ہر حا کم سے رعایا کرتی ہے اور ہر حاکم جس دور کا بھی ہو، وہ یہی چیز میں مال غنیمت کے طور پر اپنے جانثاروں میں بانٹ دیتا ہے کہ آریوں نے اپنے اس جنگی ہیر کو دیوتا سمجھ کر پوجنا شروع کر دیا حالانکہ یہی اندر دیوتا اور چھا کے راجہ دور چمن سے شکست کھا جاتا ہے۔ اس لئے اس کو انسان ہی سمجھنا چاہئے ۔ اسی طرح رامائن میں رام چندر جی کو بھی اوتار مانا گیا ہے اور اب ترقی کر کے دیوتا سے خدا بنا دیا گیا ہے حالانکہ حضرت مجدد الف ثانی چروی رام ہندو کو ہی بات سمجھاتے ہیں کہ رام جو دست رتھ کا بیٹا سیتا کا خاوند، چمن کا بھائی ہے، کس طرح خدا بن سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو ان دشتوں کی حاجت نہیں ۔ اسی رامائن میں ہے کہ سروپ نکھا سری لنکا سے چل کر رام چندر کے پاس آئی تو پچھمن نے اس کی ناک کاٹ دی ، اس کا بھائی راندن سری لنکا سےآیا میت کو اٹھا کر ے گیا۔ رام چندر جی نے آخر کار جنوبی ہند کے راجہ شنگریوسے مدد مانگی تو اس نے اپنے سپہ سالار ہنومان ( جو نسلاً انسان نہیں بلکہ بندر تھا) کو بھیجا اور سیتا واپس آئی۔ اسی طرح ایک اور کہانی ہے جو ٹلہ جوگیاں سے متعلق ہے کہ ایک گرو کیا نا تھ” پہاڑ توڑ توڑ لے جا رہا تھا تا کہ ہند اور سری لنکا کے درمیان پل بنایا جائے تو جو پتھر راستے میں گرے وہ سرگودھا میں کڑانہ کی پہاڑیاں بن گئیں حالانکہ ماہرین کے مطابق یہ پہاڑیاں ہمالیہ سے بھی قدیم ہیں ، ان کی عمر کروڑوں سال ہے اور رام چندر جی زیادہ سے زیادہ بمشکل تین ہزار سال پہلے ہوئے ہونگے۔ آریوں کی آمد سے پہلے پاکستان میں دراوڑ یا اشوری قبائل رہتے تھے۔ ان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ مشرق وسطی سے آئے تھے ۔ یہی سبب ہے کہ یہاں ان کی لائی تہذیب بابل و نینوا اور مصر کی تہذیبوں کے مقابلے میں کسی طرح بھی کم نہیں۔ مورخین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ یہاں وادی سندھ کی تہذیب کو آریوں نے تباہ کیا تھا۔ یہ بھی ایک مفروضہ تھا۔ یہ تہذیب کئی صدیاں پہلے برباد ہو چکی تھی۔ یہ تو 1750 ق م میں تباہ ہو گئی تھی اور آریا 1500 ق م کے قریب اس علاقے میں آنے شروع ہوئے۔ ماہرین اس کی تباہی کی مختلف وجوہات بیان کرتے ہیں۔ ہر یہ اور موئن جو ڈارو کئی مرتبہ آباد اور کئی مرتبہ برباد ہوا ۔ ہر دفعہ اس کی مختلف وجوہات تھیں جن میں سے ایک وجہ سیلاب بھی ہے۔ یہ کہنا کہ وہ تاجر ہونے کی وجہ سے لڑ نہ سکے۔ تاجر تو اپنا مال بچانے کیلئے بڑے اچھے محافظ رکھتے ہیں کیونکہ چوری اور ڈا کے کا خطرہ ہر دور میں رہا ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس تہذیب پر کوئی ایسی افتاد پڑی کہ اس کے رسم الخط کی کڑی ہی گم ہو گئی جس کی وجہ سے یہ آج تک پڑھا ہی نہیں جاسکا ۔ آریوں کے نزدیک دریائے سندھ سمندر تھا ، وہ اس سے بہت ڈرتے تھے۔ مسٹر میٹنگ نے اپنی تصنیف ”انٹنٹ اینڈ مڈ ایول انڈیا کی جزواول میں سینٹ مارٹن اور پروفیسر ولسن مترجم رگ وید کے حوالے سے متعدد ایسے گیت نقل کئے ہیں جو رگ وید کے شعراء نے دریائے سندھ کی عظمت و جلالت کی قسمیں کھائی ہیں اور اسے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ سندھو ایک عظیم تاجدار ہے جو بڑے وقار سے اور شان و شوکت کے ساتھ پہاڑوں کے اندر سے راہ بناتا آگے بڑھتا ہے اور ادھر ادھر کے دریا اس کے حضور سجدہ ریز ہوتے اور اس کے وجود میں اپنے وجود کو کم کر دینے کا شوق دیوانہ وار دوڑتے چلے آتے ہیں ۔ دریائے سندھو اور ان دریاؤں کی مثال ایسے ہے جیسے اس عظیم تاجدار کی کی ہے جس کے دونوں طرف اس کی کی فوجیں چلی آرہی ہوں۔ ان حمد یہ گیتوں کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ دشمنوں سے ان کے وطن کی اس سمت سے حفاظت کرتا ہے اور انہیں اور ان کی قوم کو دشمن کے حملوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس علاقے میں آکر آریوں نے اقتدار کی خاطر جنگیں بھی لڑیں، کبھی اپنوں سے کبھی غیروں سے لڑے۔ یہاں ان کی ایک مشہور جنگ جسے دس بادشاہوں کی جنگ کہا جاتا ہے، بڑی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے پورا پاکستان اس لڑائی میں شامل تھا۔
دس بادشاہوں کی لڑائی
رگ وید کی رو سے دس بادشاہوں کی یہ لڑائی اس دور کا سب سے بڑا المیہ ہے اور یہ ایک ایسی داستان ہے جس کے حرف حرف سے عبرت نمایاں ہے۔ یہ لڑائی یوں تو عام قبائلی بڑائیوں کی طرح خاندانی عصبیت کی پیداوار تھی لیکن اس کے بعض ہنگامی اسباب بھی تھے اور یہ ہنگامی اسباب دوشاہی پروہتوں کی باہمی دشمنی اور ہوس اقتدار کے خمیر سے پیدا ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک کا نام وستھے اور دوسرے کا نام وشوا مترا تھا اور دونوں کے منتر رگ وید میں موجود ہیں۔ گودشو متر ازیادہ ذہین، زیادہ قابل اور زیادہ ہوشمند تھا تاہم دوستھ کو شاہی خاندان کی مذہبی قیادت کے سلسلے میں تقدم حاصل تھا اور بادشاہ سود اس کی اس پر بڑی توجہ تھی ۔
وشوا متر انسلا پنڈت نہیں تھا ، وستھ کے راستے میں کیسے حائل ہوا، اس باب میں ہمیں کچھ زیادہ معلوم نہیں۔ فاضل رنگ اچاریہ کی رو سے صرف اتنا کہا جا سکتا ہے کہ پنڈت وشوا مترا نے بھی بعض شاہی عبادات اور قربانیوں کا اہتمام کیا تھا اور سود اس نے اس پر انعامات کی خوب بارش کی تھی لیکن یہ سلسلہ کچھ زیادہ دیر نہیں چلا اور سود اس نے دوستھ کو اس پر ترجیح دینا شروع کر دیا اور دشوا مترا کو مجبور اور بار چھوڑ دینا پڑا۔ اور یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ اس نے بھرت قبیلے میں جا کر پناہ لی جو سود اس کا حلیف تھا لیکن وشوا مترا نے نہ صرف بھرتوں کو بلکہ پورے پاکستان کے بادشاہوں کو اپنے پہلے بادشاہ کے خلاف لڑنے کے لئے آمادہ کر لیا۔ ان لڑائی میں 21 بادشاہ مارے گئے جن میں بھیدا بھی تھا۔ مقتولین کی تعداد 66660 تھی۔ بہت سے دریا میں ڈوب گئے ۔ مسٹر رنگ اچاریہ کے مطابق سود اس کے خلاف جو قبیلے صف آراء ہوئے ان میں متسیا، پکھت ، پختو ، بهلان، بلان ناس اسینا، وشنی ، سیوا، سیوی، آجا سگر و اور بکشو شامل تھے اور ان کے بادشاہوں کے نام تمع ، تر و اسا، دھرویو، کورشا، پرو، آنو، بھیدا، کھرا، وکار نیکا اور یدو تھے۔ ان میں سے پان قبیلوں کو پہاڑی ظاہر کیا ہے مثلاً میا چترال کا بادشاہ تھا، پھتو شمال مغربی سرحد کا، بھولان کوئٹہ کے میری ، شورکوٹ اور جھنگ کے وشنی راولپنڈی اور جہلم کی سرزمین کا باشندہ تھا۔ ان میں سے پورد راجہ پورس کا خاندان اسی علاقے کا تھا۔ اس پر شاعر نے خاص توجہ دی ہے اور اس کے بادشاہوں کے نام بھی لکھے ہیں۔ پہلا بادشاہ واگھا، دوسرا گرگشت، تیسرا پوروکستا، یہ بادشاہ سودات کا ہم عصر تھا۔ اس نے سود اس کے خلاف اپنے قبیلے کی قیادت کی۔ اس کے بعد کئی پور و بادشاہوں کے نام رگ وید میں درج ہیں مثلا تر ایتھی ، کورد کرونا تر یار نا تر درین اور تری واتو ۔ اتنے سارے بادشاہوں کے نام یہ ظاہر کرتے ہیں کہ پور و قبیلہ صدیوں بر سر اقتدار رہا۔ اگر مہاراجہ پورس اسی نسل سے تھا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ قبیلہ سکندر کے زمانے تک برسر اقتدار تھا۔ پورس ہمارے علاقہ خوشاب کا بھی راجہ تھا۔ اسی وجہ سے سکندر نے واپسی کا سفر دریائے جہلم کے ذریعے کیا تھا اور وہ سرزمین خوشاب سے گزرا تھا۔ دریائے جہلم اور سندھ کے درمیان جو قبیلے آباد تھے ان میں گندھارا ، سیوی کی کائی اور در جان ونت کو بھی بڑی حیثیت حاصل تھی۔ جنرل کنگھم کے مطابق کی کائی قبیلہ جہلم سے ملحق علاقے میں رہتا تھا۔ اس کے بارے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ مشہور سیوی شہنشاہ اسی راجہ کی اولاد میں سے تھے۔ پرانوں اور رزمیہ داستانوں میں لکھا ہے کہ اجودھیا کے بادشاہ تر سنکو نے ایک کی کائی شہزادی سے شادی کی تھی ۔ رامائن میں مذکور ہے کہ کی کائی بادشاہ اسانتی کی ایک بہن رام چندر جی کے باپ و سارتھ کی دوسری رانی تھی اور رام چندر جی کے سوتیلے بھائی بھرت اپنے ماموں اسواپتی کے ہاں بہت پسند کئے جاتے تھے۔ ابسواپتی کے علم کی بڑی دھوم تھی، اسی اسواپتی نے اپنے بعد بھرت کو اپنا وارث قرار دیا تھا اور اس کے جانشین کی حیثیت سے بھرت نے جب کی کائی ریاست کو اپنی تحویل میں لیا تو اسے بہت ترقی دی اور گندھارا کو بھی فتح کر لیا۔ نیز سندھ پر بھی قبضہ کر لیا۔ بھرت کے بیٹے تک شا اور پشکلا جنہوں نے ٹیکسلا اور چارسدہ (پشکلاوتی) آباد کئے ، کیکائی بڑے اچھے تیرانداز تھے، ان کا پائی تخت کنکھم کی رو سے ضلع جہلم میں جلال پور شریف تھا۔ ان کی کائی بادشاہوں میں اکشیو اس اور بدھ جیت نے بڑا نام پایا تھا۔ آخر الذکر تو بھرت کا ماموں تھا۔ آریوں میں کی کائیوں کو بڑی حیثیت حاصل تھی ۔ ان کے تعلقات سب قبیلوں نے اچھے تھے کیونکہ یہ سب اسی نارا کی اولا د بتاتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ رشتہ دار تھے ۔ اس تارا کا بیٹا سیدی تھا جس نے جھنگ میں حکومت کی دائع بیل ڈالی۔ ہندو مذہب کی تقریباً سبھی کہتا ہوں میں اس کا ذکر ہے۔ سیوی کے چار بیٹے تھے ۔ کیا، سویرا، ویشدر بھا اور مدر تھے جنہوں نے چار ریاستیں قائم کیں اور چار بڑے قبیلوں کے جد امجد تھے ۔ مدرا کا علاقہ موجودہ کشمیر ہے، مشہور عالم فیکے کا تو یہ بھی خیال ہے کہ سنسکرت زبان بھی کشمیر میں پروان چڑھی تھی۔ ویدک انڈکس کے مؤلفین نے بھی اس رائے سے اتفاق کیا ہے۔ رنگ اچاریہ کے مطابق کسی زمانے میں جنوبی ہندوستان کے لوگ زبان سیکھنے کے لیے کشمیر یا درا — جایا کرتے تھے۔ عام خیال یہ تھا کہ پہلاں کی زبان بہت پاکیزہ ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ۔ ہے کہ آریا یہیں کے تھے، باہر سے نہیں آئے تھے۔
آریوں کے دشمن قبائل
آریوں نے رگ وید میں اپنے دشمن قبیلوں کا بھی ذکر کیا ہے جس میں تین قبائل ایسے ہیں جن کا ذکر بار بار آتا ہے (1) دسیو (2) آسر (3) پنی۔ ان قبائل نے آریوں کا مقابلہ کیا۔ یہ قبائل آریوں سے بہت زیادہ تہذیب یافتہ تھے۔ اس لئے کچھ ہی عرصہ بعد سب آریہ ان ہی کے رنگ میں رنگ گئے ۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے عباسیوں کے دربار کا رنگ ایرانی (ساسانی) رنگ اختیار کر گیا۔
وسیو
ید ایک غیر آریائی قبیلہ تھا جس کی آریوں سے لڑائیاں ہوتی رہیں اور ان کے قلعے اندر کے ہاتھوں تباہ ہونے کا ذکر ہے۔ یہ لوگ چونکہ مقابلہ کرتے تھے اس لئے آریہ شعرا نے انہیں طرح طرح کے برے القاب سے یاد کیا ہے مثلاً ان کو اناسن” کہا گیا جس کے معنی بغیر ناک کے یں یعنی ” پھیئے، جن کی ناک چھپٹی ہوتی ہے۔ کالی چمڑی والے، چورا چکے کہا گیا ہے۔ لیکن اسی قبیلے نے ہڑپہ اور مو جو ڈارو کی بنیاد رکھی۔ لنگ کے پجاری تھے ۔ یہ آثار وادی سون میں ملتے ہیں۔
آئسر
پیہ بھی ایک مقامی قبیلہ تھا۔ آریوں نے انہیں آئر کا نام دیا جس کے معنی شیطان کے ہیں ۔ الف نفی کے معنوں میں آتا ہے ویسے سر کے معنی دیوتا کے ہیں ۔ جیسے ٹوٹ سے اٹوٹ اردو میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ ان کی علیحدہ زبان تھی یہ کی بجائے ل استعمال کرتے تھے اس لئے ان کو مر هر داک یعنی جو ٹھیک طور پر بول نہ سکتے ہوں۔ ان کی بیوی خرید کر لانے کا رواج تھا ۔ یہ مردوں کی پوجا کرتے تھے ان کی قبرستانوں کے گرد چاردیواری ہوتی تھی۔ یہ لنگ کی بھی پوجا کرتے تھے۔ ناڑی ۔ ھڑپہ میں یہی لوگ آباد تھے۔ ارتھ شاستر کے مطابق لڑائی کا ان کا اپنا خاص طریقہ تھا۔ ویدوں ۔ منوسمرتی سے پتہ چلتا ہے کہ آئر ایک علیحد و نسلی گروہ تھا جن کی اپنی بولی ، مذہب ،سائنس اور کلچر تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شروع میں آریا ان کے خلاف تھے لیکن بعد میں شیر و شکر ہو گئے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ذات پات کا مسئلہ آئروں نے بنایا تھا اور پھر آریوں نے بعد میں اپنایا۔ اس کے بعد ایسا لگتا ہے یہی آئر آریہ سماج پر چھا گئے۔ طبقاتی تقسیم کے وقت یہ خود برہمن بن بیٹھے، آریوں کو کھتری ، پایوں کو ویش اور دیو کو شو در بنا دیا۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ باقی تین دید یعنی سام، اتھر یجر ان سے متاثر ہیں کیونکہ یہ خود جالو وٹو نے پر یقین رکھتے تھے، ان ویدوں میں داخل کر دیئے۔
پنی
یہ تیسرا غیر آریائی قبیلہ ہے جس کے متعلق آریائی شعرا کچھ یوں لکھتے ہیں رگ وید میں ان کو دیوتاؤں کی قربانی نہ دینے والے، خراب بولی والے اور دیوتاؤں کی خدمت نہ کرنے والے کہا جاتا ہے۔ ان کو بھیٹریوں کی طرح لالچی بتایا گیا اور ان کی زبان کے متعلق کہا گیا ہے وہ ایسی ہے جو مجھ میں نہیں آتی۔ ان کے ساتھ ہی آرین بر یو جو پنی تھا اس کی تعریف بھی کرتے ہیں۔ وہ عالی مرتبہ ہے کیونکہ اس نے اندر کو ایک ہزار گائیں دی تھیں۔ اس کا مطلب صاف ظاہر ہے کہ جو ان کو کچھ دے وہ بہت اچھا ہے اور جو نہ دے وہ بہت برا۔ رگ وید میں ان کے 100 چپوؤں والے جہازوں کا ذکر ہے اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ جہازوں کے بادبانوں کا بھی ذکر نے اصل میں ہی اپنی فیقی” تھے جنہوں نے دنیا کو ابجد سکھائی۔ آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق (14) فیقوں کو ہی (POENI) کہا گیا ہے۔ یہ چونکہ اچھے تاجر تھے اس لئے ہڑچ سے ملنے والی مہریں عراق سے بھی ملی ہیں۔ اور بیان بینیوں کے ذریعے ہی وہاں پہنچی ہونگی ۔ انہوں نے مراکش تک تجارتی کوٹھیاں قائم کیں اور پھر لبنان میں اپنی حکومت قائم کر لی جسے ایرانیوں اور رومیوں نے حملوں سے ختم کردیا۔ اس بات پر ساری دنیا متفق ہے کہ بیعتی رسم الخط دنیا کے تمام رسم الخطوں کی ماں ہے۔ ساری دنیا کے رسم الخط چاہے وہ یونانی ہو یا براہمی ہو سب نے اس سے خوشہ چینی کی ہے۔ ڈاکٹر پروین تالپور کے مطابق یونانیوں کو جیومیٹری سے متعارف کروانے والے بھی فیضی تھے ۔ اس ساری بحث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اپنی لوگوں نے دنیا کو بہت کچھ دیا۔ ہمارے ہاں آثار قدیمہ کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہاں کے لوگ قدیم زمانے میں گھونگوں اور سمندری سیوں نے زیورات بناتے تھے ایسے زیورات روڈ پنڈ اور ناڑی سے کثیر تعداد میں ملے ہیں اور ظاہر ہے کہ سمندر سے دریائی سفر کے ذریعے یہاں لائے گئے ہوں گئے اور یہاں لانے والے یہی فیقی ہوں گئے ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان میں سے بعض خاندان یہاں بھیرہ اور خوشاب میں بھی آباد ہو گئے ہوں اور یہاں سے تجارتی مال دریا کے ذریعے باہر لے جاتے ہوں اور باہر سے یہاں لاتے ہوں گے۔ جہاں تک آریوں کے مذہب کا تعلق ہے تو رگ وید میں ان کے بھگوان رام کا نام تک نہیں۔ اس کے علاوہ غیر آرین جولنگ کی پوجا کرتے تھے بعد میں آریوں نے بھی اپنالیا اور شولنگ کے مندر بننے لگے۔ ذات پات کی تقسیم کو بھی اپنا لیا گیا۔ خوشاب کے مقامی راجوں میں سے وڑ چھا کے در چن اور ان کے اتحادی شمبرا کا ذکر بھی رگ وید میں ملتا ہے۔ ور جن کی فوج عورتوں پر مشتمل تھی جس نے اندر کی فوج کے چھکے چھڑا دیئے اور شکست فاش دی۔ آخر اسے مجبور اصلح کرنی پڑی۔ ایک رشام قبیلے کا ذکر آیا ہے اس سے وہ علاقہ مراد لیا جاتا تھا جو پنجاب میں نمک کی کانوں کا علاقہ ہے۔ رگ وید میں اندر کا سب سے بڑا دشمن شام ہر ایا شمبرا تھا جو وڑ چھا کے راجہ ور چن کا اتحادی تھا۔ اس کے کئی قلعے تھے ۔ یہ دیوداسی کا بھی دشمن تھا۔ دیود داس کا لفظ رگ وید کے آخری زمانے میں آتا ہے ۔ اب آریہ دیو کی بجائے دیوداس ہو گئے ۔ واسوں کو اپنے ساتھ ضم کر لیا۔ اقتھی گوا جیسے مشہور دیود اس کو کافی عروج حاصل تھا حالانکہ وہ غیر آریہ تھا۔ یہ تینوں غیر آریہ قبائل کے حوالے رگ وید میں موجود ہیں ۔
آریدرگ دید تہذیب
برصغیر پاک و ہند کا جو دور 1000 ق م تک گزرا ہے اس کو زمانہ شجاعت یا رزمیہ عبد کہتے ہیں اس دور میں جو تاریخی واقعات پیش آئے ان کا سب سے بڑا ماخذ اس عہد دور زمیہ نظمیں رامائن اور مہا بھارت ہیں۔ رزمیہ نظمیں ان نظمون کو کہتے ہیں جس میں کسی قوم یا ہیرو کے تاریخی کارنامے بیان کیے جاتے ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ سننے والے میں بھی عزائم کی بلندی اور قومی جذ بہ انگڑائیاں لینے لگے۔ اقوام عالم کے ادب میں ان کا بہت بڑا درجہ ہے اس قسم کی نظمیں لکھنے میں یونان روم، ایران اور برصغیر کے شعراء نے بہت شہرت پائی ہے۔
یونانی شاعر ہومر ، رومی شاعر در جبل اور ایرانی شاعر فردوسی اس سلسلہ میں مشہور ہیں لیکن ان مصنفین کے مقابلے میں رامائن اور مہا بھارت کے مصنفین کے حالات بہت کم دنیا کو معلوم ہیں کیونکہ ہندو مذہب کی اکثر کہتا ہیں کسی ایک شاعر کی لکھی ہوئی نہیں ہیں بلکہ اسی موضوع پر مختلف شعر اطبع آزمائی کرتے رہے اس لئے ان کے نام محفوظ نہ رہ سکے۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ ہندو مذہب کی اکثر کتب سنسکرت زبان کے اشعار میں ہیں۔
را مائن
اس نظم میں شامل خاندان کی ریاست اجودھیا کے راجہ دشرتھے اور اس کے بیٹے را چند رکا قصہ بڑے دلچسپ پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ راجہ دشرتھ کی تین بیویاں تھیں کو ملیہ ہمترا اور کیلئی ۔ کوشلیا کے بطن سے رامچند رجی، ہمترا کے بطن سے لکشمن اور شترو گھن کیکئی کے بطن سےبھرت پیدا ہوئے ۔ ان سب بیٹوں کو گورو وششٹ سے رواج کے مطابق تعلیم دلوائی گئی۔ راجہ جب بوڑھا ہو گیا تو اس نے اپنے بڑے بیٹے رامچندر جی کو ولی عہد بنانے کا ارادہ کیا تو رانی کیکئی آڑے آگئی اور اس نے راجہ کو دو وعدے یاد دلائے جو اس نے زخمی حالت میں اس کی جان بچا کر لئے تھے۔ چنانچہ رانی نے وعدے کو یاد کرا کے راجہ کو مجبور کیا کہ وہ اس کے بیٹے بھرت کو ولی عہد مقرر کرے اور رامچندر جی کو چودہ برس کا بن باس دے دے۔ راجہ مجبوراً ایسا کرنے پر تیار ہو گیا اور رامچندر جی نے والد کے کی حکم بجا آوری میں بن باس جانے پر رضامندی کا اظہار کیا۔ ان کی بیوی سیتا اور بھائی لکشمن ان کے ساتھ گئے ۔ بھرت اس وقت اپنے ننھیال گیا ہوا تھا۔ جب واپس آیا تو اسے رامچند رجی کے بن باس کا حال معلوم ہوا۔ چنانچہ وہ ان کے پیچھے گیا اور مجبور کیا کہ وہ واپس آجائیں۔ جب انہوں نے انکار کیا تو ان کی کھڑاویں حاصل کر لیں اور وہ اکھڑاؤں کو تخت پر رکھ کر رامچند رجی کے نائب کی حیثیت سے حکومت کرنے لگا۔
دیوالی
چودہ برس کے بعد اجودھیا میں واپسی پر رامچند رجی کی یاد میں دیوالی تہوار کی صورت میں منائی جاتی ہے جس میں چراغاں ہوتا ہے۔
مہا بھارت
یہ دنیا کی سب سے زیادہ لمبی نظم ہے اس میں تقریباً ایک لاکھ اشعار ہیں اور اس کو اٹھارہ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یہ بھی سنسکرت زبان میں ہے۔ اس میں کورووں اور پانڈ دوں کے حالات اور ان کی لڑائی کا ذکر ہے۔
مہا بھارت کا قصہ
اس کہانی کا مرکز ہستناپور کی ریاست جہاں چندر بنسی خاندان کی حکومت تھی اور راجہ شانتو راج کیا کرتا تھا ۔ اس کی پہلی شادی سے بھیشم پیامہ اور دوسری سے و چتر دیر یہ پیدا ہوئے۔ بھیشم پیامہ اپنی سوتیلی ماں کی خواہش کے مطابق راج پاٹ کے تمام حقوق سے دستبردار ہو گیا اور تمام عمر اپ نے شادی نہ کی تاکہ اس کی اولاد کبھی تخت کی دعویدار نہ بن سکے۔ شانتو کی موت کے بعد و چتر یا حکمران ہوا ۔ اس کے دو بیٹے تھے۔ بڑے کا نام دھرت راشٹر اور چھوٹے کا نام پاند و تھا۔ بڑا بیٹا پیدائشی اندھا تھا اس لئے چھوٹا بیٹا پاٹھ وگدی پر بٹھایا گیا۔
کورواور پانڈو
اندھے بیٹے کی ایک بیوی کا نام گندھاری تھا اور اس کے تقریباً 99 بیٹے تھے جن میں سب سے بڑا دریودھن تھا۔ یہ سب بھائی کو روکہلاتے تھے۔ ویسے بھی کور سے مراد اندھا ہے (یعنی اند ھے کی اولاد ) ادھر پانڈو کی دو بیویاں تھیں ۔ فادوری کے بطن سے نکل، ہد یو اور کنتی کے بطن سے یدھشٹر بھیم اور ارجن پیدا ہوئے ۔ یہ پانچوں بھائی پانڈ کہلائے ۔ پانڈ کا بہت جلد انتقال ہو گیا جس کے بعد دھرت راشٹر اپنے خورد سالہ بھتیجوں کی جانب سے حکومت کرنے لگا۔
درون اچاریہ
اپنے بیٹوں اور بھتیجوں کی تربیت کے لئے اس نے گرو درون اچاریہ کی خدمات حاصل کیں۔ پانڈ وسب بھائی ذہین اور مفتی تھے اس لئے بہت جلد وہ کوروں سے کھیل کود اور پڑھائی میں سبقت لے گئے ۔
ید هشٹد
ایک ماہر نیز علو باز ہونے کے علاوہ نیک خوئی اور راستبازی میں شہرت رکھتا تھا۔ بھیم کشتی اور گر ز زنی میں لاثانی تھا۔ نکل نے شہتواری میں اور سہد یو نے علم نجوم اور شمشیر زنی میں مہارت حاصل کی۔
کورو علم میں اگر چہ کورے تھے لیکن چالبازی اور مکرو فریب میں اپنی تمام صلاحیتیں استعمال کرنے میں ماہر تھے۔ انہوں نے پانڈووں کو مکان میں مارنے کی کوشش کی جس میں لاکھ کا گارا لگایا گیا تا کہ آگ سے جل کر راکھ ہو جائیں لیکن ہر وقت اطلاع ملنے پر بھاگ گئے ۔
دروپدی
ارجن نے سوئمبر کی رسم جیت کر دروپدی سے شادی کر لی۔ اس وقت کے رواج کے مطابق پانچوں بھائیوں کی مشترکہ بیوی تھی۔ کورووں نے پانڈووں کو جوا کھیلنے کی دعوت دی اور اپنی چالاکی سے نہ صرف حکومت مال و دولت حتی کہ در و پدی بھی جیت لی اور ان کو تیرہ برس کے لئے بن پاس بھیج دیا۔ جب واپس آکر انہوں نے اپنی ریاست کا مطالبہ کیا کو کورووں نے صاف انکار کر دیا۔ اس کے بعد سری کرشن جی ان کو سمجھانے گئے لیکن وہ نہ مانے۔ ایک روایت کے مطابق درو پری ہمارے علاقے کی رہنے والی تھی۔ سیکیسر کے قریب پانڈ وال اب بھی ہیں۔
کوردوکشیتر کی لڑائی
پانڈووں کو حق دینے سے دریودھن نے انکار کیا جس کی بنا پر کروکشیتر کے میدان میں خونریز جنگ ہوئی جس میں ہندوستان کے تمام راجے مہارا ہے شریک ہوئے ۔ کورووں کی طرف ے ان کے دادا کا بھائی بھیشم پنامہ گرو درون اچاریہ (استاد ) شریک ہوئے ۔ ان کے علاوہ بنگال سندھ اور گندھارا وغیرہ کے راجاؤں نے ساتھ دیا۔ پانڈووں کی طرف سے دوارکا کے راجہ سری کرشن جی نے ساتھ دیا۔ ان کے دوسرے مددگار، یادو، پانچال، کاشی اور مگدھ کے راجہ تھے۔ اٹھارہ دن تک خوب اپنٹ سے اینٹ بجی ۔ تمام کو رو مارے گئے۔ ہستنا پور اور اندر پرست دونوں ریاستیں پانڈووں کے قبضہ میں آگئیں۔
بھگوت گیتا
بیان کیا جاتا ہے کہ مہا بھارت کی جنگ میں سری کرشن مہاراج نے ارجن کے رتھ بان کے فرائض سر انجام دیئے تھے ۔ جب ارجن نے جنگ میں اپنے مخالفوں کی صف میں اپنے عزیزوں دوستوں اور استادوں کو دیکھ کر لڑنے سے انکار کر دیا تو سری کرشن جی مہاراج نے اسے جنگجو کے فرائض بتا کر حق و صداقت کے لئے لڑنے پر آمادہ کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ ” جو فرض ذاتی خواہشات کے لئے نہیں بلکہ دھرم کے لئے ادا کیا جارہا ہے اس کے راستے میں کوئی ذاتی تعلق یا شخصی میلان رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔ اس لئے ارجن کو بلا روک ٹوک اپنا فرض ادا کرنا چاہئے ۔ آتما یعنی روح غیر فانی ہے اسے تلوار نہیں کاٹ سکتی اور نہ ہی آگ جلا سکتی ہے۔ موت سے ڈرنا نہیں چاہئے بلکہ نتائج سے بے پروا ہو کر اپنے دھرم (مذہب) اور فرض پر چلنا چاہئے ۔ سری کرشن جی کے اس اپدیش ( وعظ ) کو بھگوت گیتا کا نام دیا گیا ہے اور یہ ہندوؤں کی ایک مقدس کتاب ہے۔
یہ مضمون شیخ محمد حیات کی کتاب "ضلع خوشاب تاریخ کے آئنے میں "سے لیا گیا ہے