چندر گپت موریہ اور اشوک
(نئی سیاسی حرکیات اور ان میں سے نئی سماجی قوتوں کا اوپر اٹھ آنا۔ ایک اور سماجی انقلاب۔ اس انقلاب کا رہنما چندر گپت موریہ ) تھا جس نے ٹیکسلا سے یونانیوں کو مار بھگایا۔ سکندر وادی سندھ میں جن لوگوں سے برسر پیکار تھا یا جو لوگ اس کی رضا کارانہ اطاعت کر رہے تھے، وہ یہاں کی متعدد چھوٹی چھوٹی خودمختار ریاستوں کے حکمران تھے۔ یہ ریاستیں قبائلی، مؤخر قبائلی ، جاگیردارانہ حتی کہ غلام دارانہ سماجی نظاموں پر استوار تھیں ۔ سکندر کے ساتھ ٹکراؤ میں یہ تمام حکمران طبقات بے اثر ثابت ہوئے۔ چنانچہ لوگوں میں ایسی سوچ کا جنم لینا عین فطری تھا کہ غیر ملکی حملوں کا توڑ کرنے کیلئے سیاسی ڈھانچے میں تبدیلی لائی جائے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایسی سوچ نے جنم لیا۔ یونانی مورخین کہتے ہیں کہ: فلسفیوں نے اسے (سکندر کو ) کو پریشان کیا کیونکہ جو شہزادے اس کا ساتھ دیتے تھے وہ انہیں بدنام کرتے تھے اور آزادریاستوں کی حوصلہ افزائی کرتے تھے کہ ان کے اقتدار کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں“۔ ( پلو ٹارک)
ٹیکسلا میں سکندر کی شاہانہ پذیرائی پر برہمنوں اور شرامنوں نے تنقید کی تھی ۔ موشیکان میں برہمنوں نے مسلح بغاوت کی قیادت کی تھی۔ ان پر ہمنوں کو آمادہ جنگ کرنے والے ٹیکسلا یونیورسٹی کے برہمن تھے بھن کی فکری قیادت کوتلیہ نے کی تھی۔ بدھ پر کاش قدیم سنسکرت مآخذ کی سند پر کہتا ہے کہ کوتلیہ اور اس کے شاگردوں نے سکندر کے جاتے ہی آزادی اور اتحاد کی تحریک چلائی تھی ۔ اس تحریک کی فلسفیانہ یا فکری قیادت کوتلیہ نے کی جو ٹیکسلا یو نیورسٹی کا ایک استاد تھا اور اس تحریک کی سیاسی اور فوجی قیادت اس کے لائق شاگرد چندر گپت موریہ نے کی۔
کوتلیہ
کوتلیہ کا اصل نام وشنو گپت تھا ( وشنو : سرایت کر جانے والا ۔ جاری و ساری ، گپت: گم، خفیہ، پوشیدہ) ۔ وہ ٹیکسلا کا رہنے والا تھا اور ذات کا برہمن تھا۔ اس کے باپ کا نام چاٹک تھا۔ اس وجہ سے اسے چانکیہ یا چانکا بھی کہتے تھے یعنی’ چانک کا۔ اس کی پیدائش اور وفات کی تاریخیں تو معلوم نہیں البتہ وہ حملہ سکندر کے وقت (326 ق۔ م ) ٹیکسلا یونیورسٹی میں ٹیچر تھا۔ اس کا علمی کارنامہ اس کی تصنیف ارتھ شاستر ہے ( ارتھ ، مقصود، نیست ، اراده، منصوبه، شاستر کتاب مقدس کتاب مراد منصوبوں اور ارادوں کی مقدس کتاب) یہ حکومت کرنے کے فن پر سائنسی بنیادوں پرلکھی گئی کتاب ہے۔ اسے اپنے موضوع پر قدیم دنیا کی عظیم ترین کتابوں میں شمار کیا گیا ہے اور اسے ارسطو اور افلاطون کی تصانیف کے ہم پلہ یا ان سے بہتر سمجھا جاتا ہے۔ بعض لوگوں نے اس کا موازنہ میکیا ولی سے بھی کیا ہے۔ ڈاکٹر شام شاستری کے بقول یہ کتاب 321 ق۔ م اور 300 ق۔م کے درمیان کسی وقت لکھی گئی۔ فلیٹ کے بقول 321 ق ۔ م تا 296 ق ہم کسی وقت لکھی گئی ہوگی ( حوالہ ایضاً)۔ بہر حال ان تاریخوں سے اس کے زمانہ عروج کی نشاندہی ہو جاتی ہے۔ پالی روایات کے مطابق کوتلیہ ایک سادہ اور غریب آدمی تھا۔ کم سنی ہی میں اس کا باپ وفات پا گیا تھا اور طالب علمی کے دوران اسے اپنی ماں کے اخراجات بھی فراہم کرنا پڑتے تھے۔ اس کی ماں کو ایک دن ایک نجومی نے بتایا کہ کوتلیہ بڑا ہو کر بادشاہ بنے گا۔ وہ یہ سن کر پریشان ہوگئی کیونکہ اس کا اندیشہ تھا کہ بادشاہ بن کر وہ اسے چھوڑ دے گا لہذا اس نے کہا کہ وہ تو چاہتی ہے کہ اس کا بیٹا بڑا ہو کر گرو بنے یعنی ٹیچر ۔ ان دنوں مگدھ میں نندا خاندان کی حکومت تھی جس کا نواں اور آخری بادشاہ نندا برسر اقتدار تھا۔ عوام اس کے خلاف تھے کیونکہ اس کے ٹیکس بہت زیادہ اور بھاری ہوتے تھے۔ لوگ اسے شودر ہونے کا طعنہ بھی دیتے تھے ۔ کوتلیہ فارغ التحصیل ہو کر پاٹلی پتر (پٹنہ) گیا، جیس روایات کے مطابق دولت کمانے کی غرض سے (پری شٹ پروان، 8-214 1215 (233)۔ وہاں گھومتا ہوا وہ شاہی وان شالہ ( خیرات خانہ) میں گھس گیا اور اندر جا کر صدر کی کرسی پر بیٹھ گیا۔ بادشاہ کے حکم پر اسے کرسی خالی کرنے کو کہا گیا تو وہ اشتعال میں آگیا اور سب کو لعنت ملامت کرنے لگا۔ اس پر سرکاری کارندوں نے اسے ہال کمرے سے باہر نکال دیا۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ بادشاہ کے بیٹے نے اس سے کہا کہ وہ اس کرسی کو خالی کر دے اور کسی دوسری پر جا بیٹھے لیکن چانکیہ نے اس کے جواب میں یہ کیا کہ اپنا کمنڈلو (سرائیکی کمنڈل ) اس پر رکھ دیا اور دوسری پر اپنی لاٹھی رکھ دی۔ یہ دیکھ کر بادشاہ غصے میں آگیا اور اسے ہال سے باہر نکالنے کا حکم دیدیا۔ (پری شٹ پروان۔ 8، 233 ، 217) بہر حال تفصیل کچھ بھی ہو دان شالہ میں بادشاہ کے حکم سے اس کی تو ہین ہوئی تھی اور تب سے اس نے یہ بات دل میں رکھی کہ وہ اس بادشاہ کو نہیں چھوڑے گا۔ موقع پا کر بادشاہ دھن نندا کے بیٹے بہت کمار کو اس نے اغوا کرلیا۔ بعد میں اس نے بہت کمار کو قتل کر دیا۔ اسی عرصے میں وہ چندر گپت موریہ کو حاصل کر چکا تھا جس کی تربیت اس نے کرنی شروع کر دی۔ جب چندر گپت بادشاہ بنا تو کوتلیہ اس کا سیاسی مشیر مقرر ہوا۔ کوتلیہ بلند پایه سیاسی مفکر ، لائق سیاستدان، تین ویدوں کا عالم، ماہر دھات سازی اور متفرق علوم اور فنون میں مروجہ تعلیم کے انتہائی معیار کا عالم تھا۔ عرب ملکوں میں اسے صائق کے نام سے یاد کیا جاتا تھا اور اسے دھات سازی پر سند سمجھا جاتا تھا۔ کوتلیہ کی نندا کے خلاف جدو جہد کی وجہ ذاتی تھی یا نہیں اس کے بارے میں تو کچھ نہیں کہا جاسکتا البتہ ارتھ شاستر میں وہ خود کہتا ہے کہ اس نے غلط حکمرانی کو برداشت نہ کرتے ہوئے صحیفوں کو ہتھیاروں کے علم کو اور زمین کو آزاد کرایا جوندا بادشاہ کے قبضے میں چلی گئی تھی ( ارتھ شاستر ۔ کتاب 15 ، باب 1 ص 463 متن کاص 431)۔ دحسن نندا کولوگ شو در ہونے کا طعنہ دیتے تھے حالانکہ وہ خود تو بادشاہ کا بیٹا تھا۔ دراصل اس کا پس منظر یہ تھا کہ نندا خاندان کا بانی شو در تھا۔ اس کا نام است سین (پرا کرتی تلفظ ) یا اگرسین (سنسکرتی تلفظ ) تھا۔ مہا بودھی وشش (پالی ) میں اگر سین ہے جبکہ پرانوں میں اسے مہا پر ماپتی کہا گیا ہے۔ پرانوں میں ہے کہ اس کی ماں شور تھی لیکن جینی کتاب پری ششٹ پروان (ص 46، اصل متن 6، 232-231) میں آیا ہے کہ اس کی ماں درباری طوائف تھی اور اس کا باپ ایک نائی تھا۔ . کر ٹیٹس نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر امیز (AGRAMMES) در حقیقت ایک نائی تھا۔ بہر حال ذا کا تو یہ نائی تھا لیکن پیشے کا چور ۔ اس نے آخری ششو ناگ بادشاہ کوقتل کیا اور خود بادشاہ بن گیا۔ اس اُگ سین کا نواں جانشین دھن نندا تھا۔
چندر گپت موریہ:حالات زندگی
چندر گپت موریہ کے ابتدائی حالات زیادہ معلوم نہیں البتہ مختلف مآخذ تے اتنا پتہ چلتا سے کہ وہ ایک خانہ بدوش مور یہ قبیلے کے سردار کا بیٹا تھا اور تھلی دان میں پیدا ہوا ۔ (لفظی مطلب: پچھلی لال مرچ، دان: جنگل، لال مرچوں کا جنگل، یہ اس جگہ تھا جہاں اب موجودہ ضلع میانوالی کا مشہور شہر پہلاں ہے۔ ایک دوسری روایت کے مطابق وہ وادی سون کا شہزادہ تھا)۔ اس کی پیدائش کے کچھ ہی سالوں بعد اس کا باپ ایک لڑائی میں مارا گیا اور یہ ماں بیٹا دنیا میں بے یارو مددگار رہ گئے ۔ اس کا ماموں ان دونوں یاں بیٹے کو لے کر پاٹلی پتر چلا گیا جہاں اس نے چندر گپت کو ایک چرواہے کے حوالے کر دیا جس نے اسے اپنے بیٹے کی طرح پالا۔ چند سالوں کے بعد چرواہے نے اسے ایک شکاری کے ہاتھ بیچ دیا جس نے چندر گپت کو اپنے جانوروں کی دیکھ بھال پر لگا دیا۔ انہی دنوں جبکہ ابھی وہ کمسن ہی تھا، کہیں چانکیہ نے راہ جاتے اسے دیکھ لیا۔ غالبا اس کی ذہانت اور جسمانی وجاہت سے متاثر ہو کر اس سے اسے شکاری سے خرید لیا اور اپنے ساتھ ٹیکسلا لے گیا۔ یہاں چانکیہ نے چندر گپت کو طویل عرصہ تعلیم دی اور ٹیکسلا یونیورسٹی کا فارغ التحصیل بنایا۔ بدھ پرکاش نے بڑی تفصیل سے بتایا کہ سکندر جب ٹیکسلا آیا تو چندر گپت موریہ نے اس سے ملاقات کی اور مگدھ پر حملے کی دعوت دی۔ پلو ٹارک نے بھی کہا ہے کہ سنڈرا کوٹس نے سکندر کو بیاس پار جانے کی دعوت دی تھی لیکن اے۔ ایل پیشم کا خیال ہے کہ موریہ سکندر سے ملا ہویا نہ ملا ہو، اس نے سکندر کے بارے میں سنا ضرور تھا۔ لاطینی مورخ جسٹن کہتا ہے کہ سنڈرا کوٹس سکندرت مایا تھا اور اس کی بے باکانہ تقریرین کر اس کے قتل کا حکم دیدیا تھا۔ میرے نزدیک اس بات کی اہمیت نہیں ہے کہ موریہ سکندر سے ملا تھا یا نہیں ، اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ اس نے وادی سندھ کے ان لوگوں کو سیاسی طور پر متحرک کیا یا متحرک تھے تو مجتمع کیا جو سکندر کے خلاف تو تھے ہی اپنے ملک کے حکمران طبقات کے بھی خلاف تھے ۔ وہ اس دیس کے کچلے ہوئے اور بیگا نہ کئے ہوئے لوگوں کو حرکت انقلاب کا قائد بن گیا اور اس نے ایک سیاسی اور سماجی انقلاب کی بنیاد رکھی ۔ انقلابی فوج کی تیاری سکندر کے حملے کے دوران تمام خود مختار ریاستوں کے راجے مہاراجے اور حکمران اپنے شہروں اور بستیوں کا دفاع کرنے میں ناکام ہو گئے تھے ۔ اس حملے کے نتیجے میں پرانی قیادتیں تباہ ہوگئی تھیں اور برہمنوں کی بغاوتیں ناکام رہی تھیں لہذا چندر گپت موریہ نے معاشرے کی سب سے چھلی پرتوں کو منظم کرنا شروع کیا۔ اس جدو جہد کی تفصیل قدیم مقامی ماخذ میں بھی درج ہے اور جسٹس اور پلو ٹارک نے بھی ان کا تذکرہ کیا ہے۔ ارتھ شاستر میں کوتلیہ نے غیر ملکی حکومت کو بدترین بدی قرار دیا ہے۔ اس بدی کو ختم کرنے کیلئے ہی موریہ نے اپنی عوامی فوج آزادی بنائی تھی۔ اسی عوامی فوج کے بل بوتے پر چندر گپت نے سیلوکس کو شکست فاش دے کر ملک کے نظم و نسق کو درست کر کے ایک مضبوط حکومت قائم کی ۔
پہلے رواج تھا کہ کچھ مخصوص جرائم کی سزا کے طور پر مجرم کو شہر بدر کر دیا جاتا تھا جس کے بعد کوئی دوسرا شہر بھی انہیں قبول نہیں کرتا تھا اور مجبوراً ایسا شخص جنگل میں چلا جاتا تھا۔ اکثر جنگوں میں ایسے لوگوں کے گروہ بن جاتے تھے۔ یہ لوگ پرتی رو دھک کہلاتے تھے ۔
3- چورگن
گن کا مطلب ہے جتھہ، ہجوم ۔ تو گویا یہ چوروں کے جتھتے تھے۔ اس زمانے میں چوروں اور ڈاکوؤں کے منظم گروہ ہوتے تھے جو شہروں سے دور اپنے خفیہ ٹھکانوں میں رہتے تھے یا شہروں اور بستیوں میں ہوتے تو ان کی خفیہ تنظیمیں ہوتی تھیں ۔ چور گن چوروں اور پرتی رودھکوں سے الگ قسم کے لوگ تھے۔ یہ منظم چور یا ڈا کو تھے جبکہ نہ یہ ایک قبیلہ تھے اور نہ خلاف قانون قرار دیئے گئے افراد کا مجموعہ ۔
4۔ آٹ وک (ATAVIKAS)
یہ جنگلوں میں رہنے والے لوگ تھے۔ میں پہلے کہیں ظاہر کر چکا ہوں کہ وادی سندھ کے جنگلی لوگ ان نسلوں کی یاد گار تھے جو شہروں اور دیہاتوں پر ہونے والے حملوں میں مہذب زندگی کو چھوڑ کر جنگلوں میں چلے گئے تھے۔
5- شاستر و پا جیوی شرینی
اشوک
اشوک کو برصغیر پاک و ہند کی قدیم تاریخ کا سب سے بڑا بادشاہ کہا جاتا ہے اور اسے اشوک اعظم اور اشوکا دی گریٹ کے القاب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اشوک کے حکم سے بنائے گئے سنگ خارا کے ایک ستون کی چوٹی پر بنا تین شہروں کا مجسمہ جدید بھارت کا قومی نشان بن گیا ہے جو کہ سار ناتھ ( دارا ناسی) کے مقام سے ملا تھا۔ یوں اشوک بھارتی حکمران طبقات کا قومی ہیرو ہے۔ بھارتی (ہندو) مورخین (چاہے وہ بنیاد پرست ہوں یا مارکسی ) اشوک کو بھارت یا انڈیا کی اڑھائی ہزار سالہ معلوم تاریخ کا سب سے بڑا بادشاہ کہتے ہیں لیکن بعض دوسرے مورخین نے مثلاًاے ایل پیشم نے یہ رتبہ اشوک سے چھین کر مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کو دیدیا ہے جسے اکبر اعظم بھی کہا جاتا ہے اور مغل اعظم بھی۔ ہیرو پرستی کی یہ بحث تاریخ کے سنجیدہ طالب علموں کیلئے غیر سائسنی اور لہذا غیر متعلقہ ہے۔
تاریخ نویسی کا اصل مقصد چونکہ ہیرو پرستی نہیں بلکہ تاریخی اور سماجی قوتوں کی اندرونی حرکیات، ان کے جدل وارتقاء اور ان سے نکلنے والے نتائج کی جستجو تشخیص اور توضیح ہوتا ہے یا یوں کہئے کہ ہونا چاہئے۔ اس لئے ہمارے لئے اشوک کی یا کسی دوسرے بادشاہ کی ذاتی عظمت کا تعین کرنے کی بہ نسبت یہ جانتا زیادہ ضروری ہے کہ وہ اپنے وقت کی جن سیاسی ، سماجی اور تاریخی قوتوں کا نمائندہ تھا ان قوتوں نے کہاں تک اس کی زیر قیادت سماج کے پیداواری ڈھانچے اور پیداواری رشتوں کو ترقی دی اور سماج کو آگے بڑھایا اور کس حد تک لوگوں کی بہتری ہوئی اور اگر اس کا کردار سیاسی انقلاب کا حامل تھا تو وہ سیاسی انقلاب کیا تھا لیکن پہلے اشوک کے حالات زندگی۔
حالات زندگی
ہندو سار کے بہت سے بیٹے اور بیٹیاں تھیں۔ انہی میں سے ایک اشوک وردھن تھا جو اپنے باپ کی سب سے بڑی اولاد نہیں تھا۔ اس کی ابتدائی زندگی کے بارے میں صحیح واقعات زیادہ معلوم نہیں البتہ اتنا ہے کہ جوانی میں وہ تفریح بلکہ کسی حد تک عیش و عشرت کی زندگی کا دلدادہ تھا ، گوشت شوق سے کھاتا ، شکار کھیلنے کی مہمات پر جاتا، ناچ گانے اور شراب کی محفلیں سجا تا اور بودھی یا جینی تصورات کے برعکس دنیا کی نعمتوں سے ( اعتدال کی حد تک ) لطف اندوز ہوتا ۔ ونسنٹ سمتھ کا کہنا ہے وہ برہمنی ہندو تھا اور شود یوتا کا پجاری تھا۔ سمتھ نے یہ بھی قیاس آرائی کی ہے کہ شاید وہ اپنے باپ کا ولی عہد بھی نامزد ہو گیا تھا اور شاید کچھ عرصہ وہ آپ راجہ ، یعنی نائب بادشاہ بھی رہا ہو ۔ بند وسار کے عہد حکومت میں ٹیکسلا کے لوگوں نے بغاوت کر دی تھی اور پاٹلی پتر سے اشوک کو اس بغاوت کو کچلنے کے لئے بھیجا گیا تھا اور اس نے اس بغاوت کو آسانی سے کچل دیا تھا۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ جب وہ وہاں پہنچا تو لوگوں نے اس کا شاندار استقبال کیا اور کہا کہ ان کی بغاوت مقامی افسروں کے مظالم کے خلاف تھی، بادشاہ کے خلاف نہیں۔ مختصر مدت کیلئے اشوک اتر اپتے یا اونچی ( گندھارا۔ پنجاب ور سرحد ) کا وائسرائے بھی رہا۔ اس دوران اس کا قیام اتر اچھے کے صوبائی صدر مقام ٹیکسلا میں رہا۔ اشوک کچھ عرصہ اجین کا گورنر بھی رہا۔
تخت نشینی
رومیلا تھا پر جس نے اشوک پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا ہے اور جسے مورخین نے بہت سراہا ہے، اس کا کہنا ہے کہ اشوک نے 268 ق۔ م میں اقتدار سنبھالا کیونکہ ود یا ودان (16 ص 380) میں ہے کہ اشوک کے عہد حکومت میں سورج گرہن ہوا تھا جس پر وہ مقدس بودھی مقامات کی زیارت کو گیا تھا۔ بلوغ نے ثابت کیا ہے کہ اشوک نے زیارات کا یہ سفر اپنی حکومت کے اکیسویں سال میں کیا تھا جبکہ ماہرین فلکیات کا حساب کہتا ہے کہ یہ سورج گر با 249 ق م میں ہوا تھا لہذا و میلا تھا پر یہ نتیجہ نکالتی ہیں کہ وہ 268 ق۔ م میں ہی تخت نشین ہوا ہوگا۔ چونکہ بندوسار کی وفات
( 272 ق – م ) کے تین چار سال بعد اشوک کے تخت نشین ہونے کا ثبوت ملتا ہے اس لئے مورخین کا اندازہ ہے کہ اس دوران بھائیوں میں تخت نشینی کی جنگ ہوتی رہی ہوگی ۔ سیلون کی بودھی اور پامالی روایات میں جو تفصیلات ملتی ہیں وہ اتنی افسانوی ہیں کہ اس میں سے حقیقت کو تلاش کرنا بہت مشکل ہے مثلاً ان میں کہا گیا ہے کہ اس نے اپنے 98 یا 99 بھائیوں کو قتل کیا۔ لیکن اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اس نے اپنے سب سے بڑے بھائی نشیم کو رادھا گپت کی مدد سے قتل کیا اور پھر رادها گیت کو اپنا وز یر اعظم ( اگر امانی) مقرر کیا۔ اس کے پانچویں فرمان میں ات کے بھائی بہنوں کے گھروں (خاندان) کی موجودگی کا تذکرہ ملتا ہے( اولو دھنیشو بھائی نام) جس کا مطلب ہے ایسا کوئی قتل عام نہیں ہوا تھا۔
فتوحات
اشوک کی حکومت کے ابتدائی سات سال اپنی سلطنت کی سرحدیں پھیلانے میں گزرے۔ ان سات سالوں کی کوئی مستند تفصیل ہمیں کہیں نہیں ملتی لیکن یقینا اس عرصے میں کچھ نہ کچھ جنگیں اس نے لڑکی ہونگی جیسا کہ مختلف داستانوں سے ظاہر بھی ہوتا ہے۔ تخت نشینی کے آٹھ سال بعد اس نے کالنگا کو فتح کیا۔ اس کے ساتھ ہی اس کی سلطنت کی سرحد میں اپنی وسیع ترین شکل کو پہنچ چکی تھیں۔ سلطنت اشوک کی سرحد مغرب میں امیت یا کو یونا راجہ یا انتیوک یونا راجہ انٹیو کس دوم: یونانی شاہ سوریہ ) سے ملتی تھی۔ شمال میں ہمالیائی ریاست نا بھک سے جو کہ کپل دستو سے بارہ میل جنوب کی طرف تھی۔ مشرق میں گنگاری وٹی (بنگال کے گنگا خاندان کی ریاست) سے اور جنوب میں چتل ورگ( ٹو بہ کرنا تک بھارت ) تک اس کی سرحد تھی ۔ کالنگا موجودہ اڑیسہ کے جنوبی علاقے کا پرانا نام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اشوک کی سلطنت جن علاقوں پر پھیلی ہوئی تھی ان میں بلوچستان کا جنوب مغربی علاقہ اور صوبہ سرحد میں شمالی علاقہ جات کو چھوڑ کر پورا پاکستانی علاقہ شامل تھا۔ جیسا کہ اس باب کے اخیر پر دئیے گئے نقشہ سے ظاہر ہے ارض پاکستان کے اس سارے علاقے کو ایک صوبے کا درجہ حاصل تھا اور اس کے دو نام تھے اتر اپتھ بھی اور او بچی بھی۔ اس کا دار الحکومت ٹیکسلا (بھڑ ڈھیری) تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چینی ترکستان کا علاقہ ختن بھی اشوک کی سلطنت میں شامل تھا لیکن برصغیر کے جو علاقے اشوک کی سلطنت میں براہ راست شامل نہیں تھے وہ بھی اس کے حکم کے تابع ضرور رہے ہونگے اور کسی نہ کسی قسم کا نذرانہ یا خراج بھی دیتے ہونگے۔
جنگ کا لنگا
اشوک کی زندگی کا غالبا سب سے اہم واقعہ کا لنگا کی لڑائی ہے کیونکہ اس کے فرامین میں صرف اسی ایک لڑائی کا تفصیلی ذکر آیا ہے۔ اس جنگ میں اسے مکمل فتح ہوئی اور کا لنگا پر قبضہ ہو گیا لیکن اس میں وسیع پیمانے پر انسانی جانوں کا زیاں ہوا اور بظاہر اس جنگ کی روح فرسا تباہ کاریوں کے نتیجے میں اشوک نے اپنی جنگجویانہ پالیسی کو ترک کیا اور امن و آشتی کے مذہب بدھ مت کو اپنا لیا۔ اپنے پہاڑی فرمان 13 میں وہ کہتا ہے: (پف (13) ” جب دیوتاؤں کے محبوب ، راجہ پیا داسی (دیوان نا پیا، پیاداسی لاجه) کے ابھیشک ( تخت نشینی ) کو آٹھ سال ہو چکے تو اس نے کالنگا کا ملک فتح کیا۔ 50,000 آدمی تھے جو وہاں سے لے جائے گئے (اپ ڈڈھے گئے ) 100,000 وہ تھے جو وہاں قتل کر دیئے گئے اور ان سے کئی گنا زیادہ وہ تھے ، جو مر گئے”۔ کو بمبی کہتا ہے ” لے جائے گئے” سے مراد یہ نہیں کہ غلام بنا کر لے جائے گئے (جیسا کہ پرانی جنگوں میں رواج ہوتا تھا ) بلکہ انہیں شاہی زمینوں پر جا کر بسایا گیا تا کہ غیر آبادزمینوں کو صاف کر کے انہیں زیر کاشت لائیں جو کہ موریہ سلطنت کا معروف طریقہ تھا جیسا کہ ارتھ شاستر (102، 107 ، 1607 ، 409، 1011 ، 5013 ) میں یہ لفظ اپ ڈڈھے انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔ اس فرمان میں آگے چل کر وہ کہتا ہے: کوئی ایسا ملک نہیں جہاں یہ فرقے ، برہمن اور شر یمن موجود نہ ہوں ماسوائے یونوں کے۔ اور کوئی ایسی جگہ) نہیں جہاں آدمی کی اپ وڈھے سے وابستہ نہ ہوں ، اس وقت جس کا لنگا لیا گیا (لیکن) اب دیوتاؤں کے محبوب کے نزدیک قابل مذمت سمجھے جائیں گے جنگلوں کے باسی بھی جو دیوتاؤں کے محبوب کی سلطنت میں بستے ہیں اور وہ بھی جن پر وہ شفقت کرتا ہے اور انہیں ( مذہبی طور پر ) تبدیل کرتا ہے اور انہیں بتایا جاتا ہے، اس طاقت کے بارے میں جو دیوتاؤں کا محبوب (رکھتا ہے ) بلھ جود پچھتاوے کے تا کوہ (وہ اپنے جرائم پر ) شرمندہ ہوں اور مارے نہ جائیں اور یہ (دہم کے ذریعے فتح) دیوتاؤں کے محبوب نے بار بار جیتی ہے۔ یہاں بھی اور تمام سرحدوں کے درمیان بھی حتی کہ 600 یوجن دور بھی جہاں انتوک یو نا راجہ ( حکومت کرتا ہے ) اس انتیوں سے آگے بھی جہاں چار بادشاہ حکومت کرتے ہیں ۔ تومی ( ٹولمی فلاڈیلفس شاہ مصر ) ، اٹکنی (انٹی گونس دوم، گونائس ۔ شاہ مقدونیه) ، ماک (ماگ شاه قیروان Magas of Cyrene) اور الیکسد رو (الیگزینڈر سکندر شاہ الی رس یا سکندر شاہ کو رنتھ ) اور جنوب کی طرف چوڑے (چولے: چولا قبائل) اور پانڈئیے، اتنی دور تک جہاں تامرہ پرنی (راس کماری پر ایک دریا کا نام ۔ نیز سیلون یا سری لنکا کا پرانا نام ہے)۔ اس طرح بادشاہ کا علاقہ یونوں اور کمبوجوں کے درمیان اور نالکھوں اور کھیتیلیوں کے درمیان اور بھوجوں اور پٹی نکیوں کے درمیان اور آندھروں اور پلندوں کے درمیان ہر جگہ (لوگ) دیوتاؤں کے محبوب کی ہدایات اور دھم کے مطابق چل رہے ہیں ۔ ان بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سلطنت کی موجودہ وسعت سے مطمئن ہے اور اب مزید فتوحات جنگوں سے نہیں دھم سے کرنا چاہتا ہے۔ بودھی داستانوں میں اشوک کی تبدیلی مذہب کے کئی مختلف قصے بیان ہوئے ہیں مثلاً یہ کہ اس نے ایک اذیت خانہ بنارکھا تھا جہاں وہ لوگوں کو ذہنی اذیت دے کر خود تما شاد دیکھا کرتا تھا اور مزے لیتا تھا۔ ایک دن ایک بدھ بھکشواذیت کے سلسلے سے صحیح سلامت بیچ نکالا تو اشوک نے فورا ہندومت قبول کر لیا یا یہ کہ اسے اس کے سات سالہ بھتیجے نگرودہ نے ہندو سے بودھ بنایا حالانکہ اشوک نے نگر ودھ کے باپ اور اپنے بھائی سمن کو قتل کیا تھا لیکن یہ محض کہانیاں ہی ہیں جن کا مقصد بقول رومیلا تھا پر یہ ثابت کرتا ہے کہ ظالم اشوک جب بودھ ہو گیا تو (نیک) اشوک بن گیا۔ در اصل اسکی تبدیلی مذہب ایک بتدریج فکری تبدیلی کا نتیجہ تھا۔ وہ خود کہتا ہے کہ وہ آہستہ آہستہ بدھ مت کی طرف مائل ہوا۔
اشوک کے فرامین اور اس کا دھم
اشوک کی ایک خوبی ایسی ہے جس کی بنا پر وہ وادی سندھ بلکہ پورے برصغیر کے قدیم بادشاہوں میں سب سے نمایاں ہے اور وہ ہیں اس کے فرامین ۔ اس نے اپنے تمام سرکاری احکامات، اعلانات اور ہدایات کو عوامی اجتماع کے قریب کسی پہاڑی پر یا کسی چٹان پر کندہ کروایا۔ بہت سے فرامین کیلئے اس نے بطور خاص سنگ خارا کے بلند و بالا ستون ترشوائے اور ان پر اپنے فرمان کندہ کرائے۔ پھر ان کو عام گزرگاہوں یا لوگوں کے اٹھ کی جگہوں پر نصب کروایا۔ یہ دیو ہیکل ستون یک سنگی ہیں۔ ان کے علاوہ بہت ساری ہدایات کو مذہبی غارورں میں دیواروں پر کندہ کروایا۔ انہیں اشوک کے فرامین یا ای ڈکٹس آف اشوک ( EDICTS OF ASHOKA) کہا جاتا ہے۔ اکثر ایک ہی فرمان کی کئی کئی تقلیں مختلف علاقوں میں کندہ کی جاتی تھیں۔ اب تک ایسے کل 36 فرامین دریافت ہوئے ہیں۔ ان سب کی قسم بندی کر دی گئی ہے۔ اسی حساب سے ان کے نمبر شمار لگا دیئے گئے ہیں۔ انکی تفصیل یوں ہے۔
1- پہاڑی چٹانوں پر چھوٹے فرامین : ایسے کل دو فرمان ہیں جو کہ 258 ق۔ م یا 257 ق م کے لگ بھگ جاری کئے گئے۔ انہیں پہاڑی فرمان یا ( MINOR ROCK EDICTS) کہا جاتا ہے۔ فرمان نمبر 1 مختلف ترامیم کے ساتھ آٹھ مختلف علاقوں میں پایا گیا ہے۔ فرمان 2 صرف دو جگہوں پر پایا گیا ہے۔
2۔ بھابڑ و فرمان: یہ ایک پتھر کے بڑے ٹکڑے پر کندہ ہے۔ اسے بعد میں کلکتہ لے جایا گیا اور اب وہیں ہے۔ اس فرمان کو کسی دوسری جگہ نہیں دہرایا گیا۔ اس کا زمانہ بھی 258 ق۔م۔ 257 ق۔ م کے درمیان ہے۔
3۔ چودہ بڑے پہاڑی فرامین MINOR ROCK EDICTS) : یہ سب تقریباً آٹھ یا سات جگہ دہرائے گئے ہیں۔ ہر جگہ الفاظ میں معمولی رد و بدل پایا جاتا ہے۔ ان سب کا زمانہ 257 ق ۔ م تا 256 ق ۔ م ہے۔
4- کالنگا فرامین: یہ دو ہیں یعنی فرمان تو ایک ہی ہے لیکن دو جگہ پر ذرا مختلف عبارتوں میں ہے۔ اس میں جنگ کا لنگا کا ذکر ہے۔ یہ اشوک کا طویل ترین فرمان ہے۔ ان کا زمانہ تحریر تقریباً256 ق ۔ م ہے۔
5- غاروں میں کندہ عبارتیں: بھارت میں گیا کے مقام پر برابر کی پہاڑیوں میں تین غاروں کی دیواروں پر مذہبی عبارات تحریر ہیں جو اشوک کی جانب سے ہیں۔ ان کا زمانہ 257 ق یم یا 250 ق۔ م کا ہے۔
6۔ ترائی ستون فرمان: (THE TARAI PILLAR EDICT) نیپالی ترائی میں پھر کے دو یک سنگی ستون ہیں جن پر یادگاری عبارتیں کندہ ہیں ۔ ان کا زمانہ تحریر 249 قیم ہے۔
7- سات ستونی فرامین: یہ بڑے ایک سنگی ستونوں پر کندہ سات فرامین ہیں۔ پہلے چھ فرامین کی چھ چھ نقول مختلف جگہوں پر ہیں جبکہ فرمان 7 صرف ایک ہی جگہ پر ہے۔ ان کا زمانہ 243 ق۔ م تا 242 ق۔ م ہے۔ انہیں بڑے ستونی فرامین
( MAJOR PILLAR EDICTS) کہتے ہیں۔
8- چھوٹے ستونی فرامین: یہ کل چار ہیں۔ ان میں سے دو اصل ہیں جو سار ناتھ اور سانچی میں ہیں اور دوسرے دوالہ آباد کے ستونی فرامین کا تمہ یا پس نوشت ہیں۔ انہیں MINOR PILLAR EDICTS کہتے ہیں۔
9۔ سفید سنگ مرمر کے 75 سنٹی میٹر اونچے ٹکڑے پر بارہ سطروں کی نامکمل عبارت جو ٹیکسلا سے ملی ہے۔
ابھی یہ امکان باقی ہے کہ آئندہ کبھی ماہرین اثریات اشوک کے کئی مزید فرمان بھی کہیں سے ڈھونڈ نکالیں گے۔
ارض پاکستان میں اشوک کے فرامین
اشوک کے ان 36 فرامین میں سے ارض پاکستان میں صرف تین ہیں ایک پہاڑی فرمان شہباز گڑھی میں (پف 4) دوسرا پہاڑی فرمان مانسہرہ میں ہے۔ شہباز گڑھی، مردان شہر سے سولہ کلو میٹر کے فاصلے پر جانب مشرق واقع ہے اور مانسہرہ ایبٹ آباد سے تقریبا 20 کلو میٹر شمال کی جانب ہے۔ یہ دونوں فرمان مقامی پراکرت میں لکھے گئے ہیں اور ان کی پی خروشتی ہے۔ تیسرا فرمان سفید سنگ مرمر کے ایک ٹکڑے پر ہے جو ٹیکسلا کی سرکپ ڈھیری کی کھدائی میں ایک دیوار میں چنا ہوا ملا ہے۔ غالبا یہ کسی بڑے ستون کا حصہ تھا جو بھڑ ڈھیری میں لگوایا گیا ہو گا کیونکہ بھڑ ڈھیری ہی اشوک دور کا ٹیکسلا شہر تھا۔ ٹوٹنے کے بعد یہ ٹکڑانئی جگہ پر پہنچ گیا۔ یہ عبارت آرامی زبان اور رسم الخط میں ہے۔ ارض پاکستان کی قدیم ترین تحریر یں تہذیب سندھ کی مہروں پر ہیں۔ دوسری تحریریں وہ دو آرامی کندہ تحریریں ہیں جو پشاور کے قریب بھائی خان سے ملی ہیں اور ان کا زمانہ ساتویں آٹھویں صدی قبل مسیح ہے ۔ جبکہ اشوک کی یہ تحریک جو سرکپ سے ملی ہے تیسری قدیم ترین پاکستانی تحریر ہے۔ اس کی عبارت کا ترجمہ سطر وار اس طرح ہے:
اہنسا
برائے مخلوقات، برائے ( رشتہ داروں)
توجہ برائے ( بھکشوؤں)
نیک مردوں کی توجہ (اس کی ماں کی طرف)
اور اس کے باپ (اور ) بزرگوں کی طرف
اچھی اطاعت ۔ یہ (اور نیز )
وہ بہوو ( ر ) یدا ( برتاؤ )
اچھے حکم کا ( یہ ہے ) جس کو اس نے آگے بڑھایا ہے
ہمارا آقا پر یا در ( ی …)
(اچھے حکم ) کا یہ برتاؤ
اور اس کے بیٹے بھی
ہمارے آقا پر یا درسی کا ، بادشاہ کا۔
اس عبارت میں یا درسی سے مراد اشوک ہے اور اس کے لئے مرن کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا مطلب ہے مالک۔ یہاں مالک کا لفظ نہیں لکھا گیا جس کا مطلب تھا شہنشاہ لہذا یہ ابتدائی دور کی تحریر ہوگی۔ اس عبارت میں برائے یا کی طرف کے الفاظ تر جمہ ہیں اصل متن کے لفظ پویے“ کا فارسی میں نے انہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ پویے پہلوی کے زیادہ قریب لگتا ہے۔ بریکٹوں کے اندر دئیے گئے الفاظ مفروضہ ہیں کیونکہ یہاں پر اصل متن کا پتھر ٹوٹا ہوا ہے۔پے کا استعمال غالب کے ہاں دیکھئے
نقش ناز بت نا ز به آغوش رقیب
پائے طاؤس پئے خامہ مانی مانگے
غیر کی منت نہ کھینچوں گا پئے تو قیر درد
زخم مثل خندہ قاتل ہے سر تا پا نمک
شہباز گڑھی میں جو فرمان ہے اسے پہاڑی فرمان کہتے ہیں۔ اس کی عبارت مکمل محفوظ ہے جو یوں ہے:
(پ (4) ‘ اس طرح کے (کام) سینکڑوں سالوں میں نہیں ہوئے تھے جس کو اب آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ دیوتاؤں کے محبوب راجہ پیاداسی کے ذریعے دھم کے احکامات کے مطابق ۔ جانوروں کو قتل کرنے سے اجتناب، جانداروں کو تکلیف دینے سے اجتناب ، رشتہ داروں کے ساتھ مروت، برہمنوں اور شرامنوں کے ساتھ مروت، ماں باپ کی اطاعت
مندرجہ بالا تین فرامین تو ارض پاکستان میں تھے لیکن موریہ سلطنت کا صوبہ اتر پتھے جس کا دارالحکومت ٹیکسلا میں تھا اس میں ارض پاکستان کے علاوہ مشرقی پنجاب اور افغانستان کا بیشتر علاقہ بھی شامل تھا۔ اتر اپتھ سے مزید چھ فرامین بھی پائے گئے ہیں جن کی تفصیل اس طرح ہے:
1 – لمپاک کی کندہ عبارت
2۔ قندھار میں دو بڑے پہاڑی فرمان یعنی فرمان 13، 14
3۔ قندھار میں ایک چھوٹا پہاڑی فرمان
4 قندھار کا دو لسانی فرمان جو یونانی اور آرامی میں ہے
5 ٹو پرہ (ضلع انبالہ مشرقی پنجاب کا بڑا ستونی فرمان جسے بعد میں سلطان فیروز تغلق 1350ء میں اکھاڑ کر دہلی لے گیا تھا۔”
تقریباً یہ سارے فرامین ٹیکسلا کے کندہ نویسوں نے لکھے تھے اور سارے یک سنگی ستون ٹیکسلا کے ماہر سنگتراشوں نے پہاڑ کی بڑی چٹانوں سے تراشے تھے۔ موضوعات کے اعتبار سے اشوک کی یہ تحریر میں دو قسم کی ہیں۔ ایک تو وہ ہیں جن میں اس نے بدھ مت کی بطور ایک مذہب کے تبلیغ کی ہے اور اپنے تمین بدھ مت کا پیروکار ظاہر کیا ہے۔ ان میں اس کا رویہ مذہبی اور یک طرفہ ہے مثلاً وہ کہتا ہے کہ نا فرمان بھکشوؤں اور بھکشو نیوں کو سنگھ سے نکال دیا جائے۔ اس قسم کے تنگ نظر مذہبی فرامین کی تعداد کم ہے۔ اس کے زیادہ اہم فرمان وہ ہیں جنہیں چٹانوں پر کندہ بڑے اور چھوٹے پہاڑی فرامین (پف MAJOR AND MINOR ROCK EDICTS) اور ستونی فرامین PILLAR EDICTS ( س ف PE) کہا جاتا ہے۔ ان پر مجبو عبارتیں کندہ ہیں وہ شاہی اعلانات اور احکامات کا درجہ رکھتی ہیں۔ یہ فرامین شاہراہوں پر یا لوگوں کے اکٹھا ہونے کی جگہوں پر پائے گئے ہیں۔ ان اعلانات میں دھم کی گئی تبلیغ کی ہے جو حض بدھ دھرم نہیں بلکہ سیاسی مفہوم رکھتا ہے اور اس کا جو ہر سیکولر ازم ہے ۔ سیکولر ازم کا مطلب تمام مذاہب کی نفی نہیں ہوتا بلکہ تمام مذاہب کو برداشت کرنا اور تمام انسانوں کو ان کے عقائد سمیت برداشت کرنا ہوتا ہے۔ ایک لفظ میں ادا کرنا چاہیں تو سیکولر ازم کا مطلب ہے مذہبی غیر جانبداری، ہر چند کہ مذہبی غیر جانبدار شخص کا اپنا بھی کوئی مذہب اور مذہبی فرقہ ہو سکتا ہے مگر مذہبی یا فرقہ وارانہ تعصب کے بغیر ۔ ایک فرمان میں اشوک نے خود بھی یہی بات کہی ہے۔ وہ کہتا ہے: ق ف 12: ہر موقعہ پر آدمی کو دوسرے آدمی کے فرقے کا احترام کرنا چاہئے کیونکہ ایسا کرنے سے آدمی اپنے فرقے کے اثر کو بڑھا لیتا ہے اور دوسرے کے (فرقے) سے فائدہ اٹھا سکتا ہے جبکہ اس کے برعکس کرنے سے آدمی اپنے فرقے کے اثر کو کم کرتا ہے اور دوسرے آدمی کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اسی لئے ہم آہنگی کی تعریف کرنی چاہئے تا کہ لوگ ایک دوسرے کے اصولوں کو سن سکیں۔ اشوک کے ان فرامین میں ایک نیا سماجی فلسفہ اور زندگی کا ایک نیا تصور نظر آتا ہے جو دیدی اور برہمنی تصور حیات کے برعکس ہے۔ در حقیقت گوتم بدھ کی تحریک جس سماجی تبدیلی کی نشاندہی کرتی تھی ، چندر گپت موریہ کا انقلاب اور اشوک کے نئے قوانین اس تبدیلی کی تکمیل یا کمل فتح کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس دور میں غلام دار اور قبائلی عناصر ریاستی اقتدار سے محروم ہو جاتے ہیں اور ایک وسیع سماج بغیر غلام دارانہ طرز پیداوار اور قبائلی پیداوار نی رشتوں کے مجتمع اور مضبوط ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ اشوک کے فرامین کی تاریخی اہمیت یہ ہے کہ وہ اس تبدیلی کے بارے میں حتمی تاریخی ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ آئیے چند فرامین کو دیکھتے ہیں:
(پف (1): ” دیوتاؤں کے محبوب راجہ پیاداسی نے دھم کے بارے میں یہ فرمان لکھوایا ہے ( یہاں میری سلطنت میں ) کسی جاندار کو قتل یا قربان نہ کیا جائے اور کوئی سماج (عوامی اجتماع، جلسہ ) نہ کیا جائے کیونکہ دیوتاؤں کے محبوب، راجہ پیار اسی کی سماج میں بہت برائی نظر آتی ہے تاہم کچھ سماج ایسے ہیں جن کو دیوتاؤں کا محبوب راجہ پیارائی اچھا سمجھتا ہے پہلے راجہ پیاداسی کے لنگر میں ہر روز لاکھوں جانور سالن کیلئے کائے جاتے تھے لیکن اب صرف تین جانور روزانہ کاٹے جا رہے ہیں۔ دو مور اور ایک ہرن ۔ اگر چہ یہ ہرن بھی بلا ناغہ نہیں۔ آئندہ یہ تین جانور بھی نہیں کاٹے جائیں گے۔ ڈی ڈی کو نبی کے انگریزی ترجمہ سے اردو ترجمہ)
یہ مضمون شیخ محمد حیات کی کتاب "ضلع خوشاب تاریخ کے آئنے میں "سے لیا گیا ہے