خوشاب

ضلع خوشاب کی سلاطین دہلی

شیخ محمدحیات

 

سلاطین دہلی

شہاب الدین غوری کی وفات کے بعد اس کی سلطنت اس کے تین جرنیلوں میں تقسیم ہو گئی۔ تاج الدین یلدروز نے غزنی پر قبضہ کر لیا۔ قطب الدین ایبک نے پنجاب اور ناصر الدین قباچہ کے حصے میں ملتان اور سندھ آئے۔ ایک چار سال بعد فوت ہو کر لاہور میں دفن ہوا۔ اس کے بعد امرا نے آرام شاہ ایک کے بیٹے کی بجائے التمش کو بادشاہ چن لیا۔
التمش نے خلافت عباسیہ سے اپنی حکومت کی منظوری لی ۔ اس طرح یہ پہلا بر صغیر کا بادشاہ تھا جس نے اپنی حکومت کی سند خلافت عباسیہ سے لی۔ التمش نے اپنی حدود دہلی تک وسیع کر لیں اور قباچہ سے وہ علاقے بھی واپس لے لئے جن پر اس نے ایک کے زمانے میں قبضہ کیا تھا۔ اسی طرح شورکوٹ ، خوشاب، بھیرہ اور کوہستان نمک کا علاقہ التمش کے قبضے میں آ گیا۔

یلدوز اور التمش کی جنگ

یلد وز نے برصغیر کے علاقے پر قبضہ کرنے کی خاطر انتش پر حملہ کر دیا لیکن انتش نے پوری تیاری کے ساتھ اسے 25 جنوری 1216ء کو تر اوڑی کے میدان میں شکست دی اور اسے گرفتار کر کے قتل کر دیا۔ تاج الدین یلدوز بھی سلطان محمد غوری کا غلام تھا۔ اس نے بھی برسراقتدارآ کر سلطنت کو وسیع کرنے کے لئے کافی کوشش کی لیکن خوارزم شاہ نے جب غزنی پر قبضہ کر لیا تو اس نے بر صغیر پر قسمت آزمائی کی کوشش کی لیکن انتش نے اس کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ یلدوز ذاتی طور پر بے انتہا سادہ انسان تھا۔ اس کے دو بیٹے تھے۔ ایک کو اس کے استاد نے سر پر کوزہ مارا جس سے وہ مر گیا۔ یلدوز کو جب پتہ چلا تو اس نے معلم کو راستے کا خرچ دے کر بڑے تحمل اور بردباری سے کہا کہ بچے کی ماں کو اطلاع ہونے سے پہلے ملک چھوڑ کر چلے جاؤ ، ایسا نہ ہو کہ تم پکڑے جاؤ اور سزا ملے لیکن جہاں تک اس کی سیاسی زندگی کا تعلق ہے وہ اس کے لئے پریشانی کا باعث ہی رہی۔

ناصر الدین قباچہ

مولانا مبناج مراج کے مطابق قباجہ کی دوراندیشی تمیز، زیر کی اور دانائی کمال کو پہنچی ہوئی تھی۔ بقول فرشتہ عقل مندی معاملہ نبی اور بہادری میں وہ اپنی مثال آپ تھا۔ قباچہ کی حکومت مان اور سندھ پر تھی۔ قباچہ کی علم پروری کے سبب وسط ایشیا افغانستان سے اہل علم و ہنر اُچ آنا شروع ہو گئے۔ اس طرح آج ایک بین الاقوامی علمی مرکز بن گیا۔
قباچہ کی سلطنت پر مشرقی اور مغربی دونوں سرحدوں سے مسلسل حملے ہوتے رہے تھے۔ مشرق سے التمش اور مغرب سے پہلے یلدوز اور پھر جلال الدین منکسر نی ، خوارزم شاہ اور پھر منگول حملہ آور ہوتے رہے۔ قباچہ نے طویل عرصے بڑی عقل مندی ، بہادری اور مستقل مزاجی سے دادی سندھ کی آزادی و خود مختاری کی حفاظت کی۔ تمبر 1216 میں التمشن نے قباچہ کے خلاف فوج کشی کی۔ جب التمش نے دریائے بیاس عبور کر کے قباچہ پر حملہ کیا۔ قباچہ نے مقدور بھر مقابلہ کیا لیکن شکست کھائی۔ قباچہ اپنے لواحقین ت کشتوں پر سوار ہو کر دریائے سندھ کے راستے فرار ہونے لگا تو کشتی کے ڈوب جانے سے سمیت فوت ہو گیا۔ قباچہ نے کل بائیس سال حکومت کی اور یہ بائیس سال اس نے وادی سندھ کی خود مختاری کی جنگیں لڑنے میں گذارا۔

قطب الدین ایبک

قطب الدین ایبک موجودہ ریاست قزاقستان کے شہر ترکستان کا رہنے والا تھا۔ بچپن میں اسے غلاموں کا ایک تاجر خرید کر لایا اور نیشا پور میں قاضی فخر الدین نے اسے خرید لیا۔ قامتی صاحب نے اسے عمدہ تعلیم دلوائی نے ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹوں نے اسے بیچ دیا۔ سوداگر نے اسے سلطان محمد غوری کو برائے فروخت پیش کیا جس نے بھاری قیمت کے عوض خرید لیا ۔ محمد غوری کے دربار میں ایک ترقی کرتے کرتے امیر آخور ہو گیا لیکن خوارزم شاہ نے حملہ کر کے ایک کو قیدی کی حیثیت سے لوہے کے پنجرے میں بند کر کے لے گیا لیکن جلد ہی غوری نے جوابی حملہ کر کے قطب الدین کو آزاد کرالیا۔ اس کے بعد غوری نے اسے برصغیر کے لئے فوجوں کا پہ سالا و مقرر کیا ۔ قطب الدین ایک نے 1193 ء میں دہلی تک کا علاقہ فتح کر لیا اور مسجد قوت الاسلام تعمیر کرائی۔ ان فتوحات کے بعد غزنی گیا تو غوری نے ایک کی شادی تاج الدین یلدوز کی بیٹی سے کر دی۔ اس کے بعد وہ واپس دہلی آ گیا۔ 1260ء میں محمد غوری کی وفات کے وقت وہ دہلی میں تھا ۔ 24 جون 1206ء کو اس نے اپنے آزاد ہونے کا اعلان کیا۔ غوریوں نے اسے ملک ( گورنر ) سے سلطان بنانے کا اعلان کر کے اسے آزادی اور خود مختاری کا فرمان مع چتر شاہی دور باش اور دیگر لوازمات کے بھیج دیا ایک نے آگے بڑھ کر لاہور میں ان چیزوں کو وصول کیا اور لاہور ہی میں اپنی تخت نشینی کی رسومات ادا کیں۔ یہ گویا غوریوں سے آزادی اور انتقال اقتدار کا اعلان تھا۔ ان رسومات کے بعد وہ دہلی روانہ ہو گیا کچھ ہی عرصے بعد ایبک نے لاہور کو مستقل پایہ تخت بنایا اور باقی ماندہ چار سال لاہور ہی میں رہا 1210ء میں چوگان کھیلتے ہوئے اچانک گھوڑے سے گر کر جان بحق ہو گیا۔ بعد میں التمش نے ایک شاندار مقبرہ تعمیر کرایا۔ صدر ایوب خان کے دور تک مقبرہ کی حالت خراب ہوگئی تھی، انہوں نے مکانات خرید کر اس جگہ ایک شاندار مقبر و تعمیر کروایا جو انار کلی کے قریب ہی ہے۔

سلطان شمس الدین

التمش الشمس قطب الدین ایبک کا زرخرید غلام تھا۔ یہ قراختائی ترک تھا اور ابری قبیلے کے سردار ابل خان یا ایلم خان کا بیٹا تھا۔ بچپن میں اسے چا زاد بھائیوں نے پکڑ کر ایک غلاموں کے تاجر کے ہاتھ بیچ دیا تھا۔ تاجر نے اسے بخار الا کر حاجی بخاری کے ہاتھ بیچ دیا۔ اس کے بعد جمال الدین چست نے خرید کر دہلی میں قطب الدین ایبک کے سامنے پیش کیا۔ ایک نے بھاری قیمت ادا کر کے اسے خرید لیا۔ التمش کا نام ایبک نے ہی رکھا تھا اصل میں ترکی لفظ ( آل تت مش ) تھا جس کا مطلب ہر اول قائد ہے بعد میں مخفف ہو کر التمش بن گیا ۔ کھوکھروں کو شکست دینے کے بعد محمد غوری نے قطب الدین سے اسے آزاد کر دینے کی بھاری سفارش کی چنانچہ التمش آزاد ہو گیا۔ ایبک کی وفات کے بعد آرام شاہ نے ایک سال تک حکومت کی۔ بعد میں التمش سے شکست کھا کر قتل ہوا اور التمش بادشاہ بن گیا۔ اس نے لاہور کے بجائے دہلی کو راجدھانی قرار دیا۔

خلافت عباسیہ سے تعلق

التمش نے اپنی حکومت کو مذہبی طور پر جائز قرار دینے کیلئے عباسی خلیفہ الناصر سےحکومت کی سند حاصل کی ۔ خلیفہ نے اسے السلطان معظم شمس الدنیا والدین ابوالمظفر السلطان ناصر امیر المومنین کا لقب دیا۔ اس موقع پر شہر کو دلہن کی طرح سجایا گیا۔ آرائشی مراجعین بنائی گئیں اور خوشی کے شادیانے بجائے ۔

التمش کا حملہ خوشاب

یلدوز نے قلب الدین کی وفات کے بعد پنجاب پر حملہ کر دیا۔ دریائے سندھ کو عبور کر کے تھل پہنچا۔ اتمش نے جھنگ اور خوشاب سے کھوکھر ، شورکوٹ سے کاٹھیا، کوهستان سے جنجوعوں کو مدد کے لئے بلایا ۔ سلطان خود بھی بھیرہ اور پنڈی بھٹیاں سے قبائل کے ہمراہ تھل آیا۔ دریائے جہلم کے دائیں کنارے سخت لڑائی ہوئی جس میں یلدروز نے شکست کھائی۔ التمش نے اس خوشی میں خوشاب کی حکومت کھو کھروں کو ، کوهستان کی حکومت جنجوعوں کو ، اموائی تھل کی حکومت میکیوں کو ، جھنگ کی حکومت نولوں کو عطا کی۔ اس کے بعد 633 ء مطابق 1236 سلطان نے وفات پائی۔ التمش کی وفات کے بعد امراء اور جرنیلوں نے اس کے بڑے بیٹے رکن الدین فیروز کو سلطان چن لیا اور تاجپوشی بھی کی لیکن یہ بے کار ثابت ہوا ۔ وہ عیاشی میں پڑ گیا۔ ملکی نظام درہم برہم ہو گیا جس سے اس کے خلاف بغاوت ہوئی اور رضیہ کو مشترکہ طور پر سلطان تسلیم کر لیا گیا ۔ رضیہ کا شاہی لقب سلطان جلالت الدین مقرر کیا گیا۔ رکن الدین گرفتار ہو کر قید ہی میں چل بسا۔ کل چھماہ حکومت کی ۔

سلطان رضیہ شہید

برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں سلطان رضیہ کا نام ایسا ہے جسے اندھیرے میں روشنی کی کرن ہے جب تک تاریخ پڑھی جاتی رہے گی اس کا نام روشن ستارے کی طرح چمکتا رہے گا۔ اس عہد کی تمام مورخین اس کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے۔ نیز جدید مورخین بھی اس کی عظمت ملے قائل ہیں۔ قدرت نے اسے عقل و دانش عطا کی تھی ، وہ برابر عدل پر قائم رہی ۔ لطف و کرم کو اپنا شیوہ بنائے رکھا۔ اس میں تمام وصنف تھے جو بادشاہ میں ہونے چاہئیں ۔ ایک کمی جو تھی وہ عورت ذات تھی۔ اتمش نے خود سے ولی عہد مقرر کیا تھا۔
رضیہ نے سندھ سے لے کر برہم پتر تک کے وسیع و عریض علاقے پر حکومت کی اور وہ ایک عظیم بادشاہ تھی ۔ رضیہ نے چہل گانی ترک امراء کے زور کو توڑنا چاہا جس کی وجہ سے وہ سازشیں کر کے بغاوتوں پر اتر آئے جن کے فرو کرنے میں وہ خود کام آئی۔ رضیہ کے بعد اس کا بھائی بہرام شاہ بادشاہ بنا لیکن سازش سے قتل ہوا۔ اس کے بعد سلطان رکن الدین فیروز شاہ کے بیٹے علاؤ الدین مسعود شاہ جو انتشن کا ہوتا تھا، بادشاہ بنایا گیا۔ سلطان نے اپنے چا ناصر الدین محمود کو قید سے رہائی دلائی جو بعد میں بادشاہ بنا۔ مسعود نے مغلوں کے حملوں کو کامیابی سے روکا۔ اس نے بھی ترکوں سے اقتدار چھینے کی کوشش کی جس میں اسے ناکامی ہوئی اور معزول کر دیا گیا۔

سلطان ناصر الدین محمود

سلطان مسعود کے بعد سلطان ناصر الدین محمود سترہ سال کی عمر میں بادشاہ بنا۔ اس نے تخت نشین ہونے کے تیسرے دن شاہی محل میں دربار عام کیا۔ دوسری رسومات کے علاوہ بلین کو الغ خان کا بلند پایہ خطاب دیا جس کا مطلب عظیم جرنیل تھا۔ بعد میں خان اعظم یا فیلڈ مارشل بنا دیا گیا۔ اسے چتر اور دور باش دیئے گئے جو مخصوص شاہی علامات تھیں۔ جس کا مطلب تھا کہ بلین کو بھی سلطان ہی سمجھا جائے۔ سلطان ناصر الدین نے جب بلبن کو وزیر مقرر کیا تو اسے تنہائی میں لے جا کر کہا میں نہیں اپنا نائب مقرر کیا ہے۔ اور خدا کی مخلوق پر حکمران بنایا ہے۔ تم کبھی ایسا کام نہ کرنا کہ مجھے ند تعالی کے سامنے جوابدہ اور شرمندہ ہونا پڑے۔ ناصر الدین نے تقریباً انیس سال حکومت بلبن نے نیابت میں کچھ ایسے سخت اور مستحکم اصول و قوانین بنائے کہ اصل اقتدار اس کے ہاتھ میں آگیا۔ امراء اور ارکان حکومت میں اتنی طاقت نہ رہی کہ وہ اس کے کاموں میں دخل دیتے۔

غیاث الدین بلبن

ناصر الدین محمود کی وفات کے بعد بلبن بغیر کسی وقت کے خان اعظم سے سلطان بن 20 فروری 1266ء کو تخت پر بیٹھا۔ اس نے اپنے لئے غیاث الدنیا و دین کا لقب اختیار کیا۔ بلین کا زمانہ زیادہ تر فوجی مہمات کا زمانہ ہے جس میں اس نے باغی عناصر اور آزاد قبائل کو کچل کر سلطنت کو مضبوط کیا۔ انتظامی مشینری کو دور دور تک منظم کرنے کی مسلسل جدوجہد کی ۔ ناصر اد بین صرف نام کا بادشاہ تھا، بادشاہی در حقیقت بلبن ہی کرتا تھا۔ وہ خان ہونے کے زمانے میں ر دور باش، ہاتھی اور شاہی شان و شوکت رکھتا تھا۔

کوهستان نمک کی بغاوتیں

کوهستان نمک میں بغاوتوں کا سلسلہ کافی عرصے سے جاری تھا۔ یہاں مقامی سردار مغلوں سے مل کر انہیں دہلی پر حملہ کے لئے اکساتے رہے تھے۔ چنانچہناصر الدین محمود نے بلین کو ان کی سرکوبی پر لگایا اور خود بھی ساتھ رہا۔ 1247ء میں دریائے راوی کو عبور کر کے اسلامی لشکروں کو حکم دیا گیا که کوهستان جود ( کوهستان نمک) اور اطراف کو لوٹ کر غارت کیا جائے ۔ بلین سالار اعظم تھا۔ سلطان نے خود دریائے چناب کے کنارے مقام کیا اور بلین کو کھو کھروں اور مغلوں سے چہ آزمائی کے لئے بھیجا۔ بلین کا مقابلہ منگو خان کی فوجوں سے تھا جو چنگیز خان کا پوتا اور ولائی خان کا بیٹا تھا۔ اس کا سپہ سالار کرت تھا لیکن بلبن نے اس فوج کو دریائے سندھ عبور کرنے سے باز رکھا۔

توسیع بندی کے بجائے شیرازہ بندی

بلبن نے سلطان بنتے ہیں توسیع پسندی کی پالیسی ترک کر دی۔ فوجوں کی با قاعدہ تنخواہیں مقرر کیں۔ وہ کہتا تھا کہ وہ ملک کی تمام آمدنی فوج پر خرچ کرتا ہے۔ اس نے تجارتی راستوں کو محفوظ بنانے کے لئے فسادیوں کا قلع قلع کر دیا۔ کوھستان نمک میں تجارتی سفر محفوظ بنانے کے لئے لشکر کشی کی اس کے قرب و جوار کو پامال کر ڈالا اور خوب لوٹا۔ اس حملے میں بہت بڑی تعداد میں گھوڑے فوج کے ہاتھ آئے۔ چنانچہ گھوڑوں کی کثرت کی وجہ سے شاہی کیمپ میں گھوڑے کی قیمت گر کر تمیں چالیس ٹنکا یعنی ٹکہ ہوگئی۔ بلبن کو شکار کا بھی شوق تھا۔ جب اس کے کثرت سے شکار کھیلنے کی خبر ھلاکو کو بغداد پہنچی تو اس نے کہا ” سلطان بلبن کی حکومت بہت مضبوط ہے اور اس نے حکمرانی کا بہت تجربہ حاصل کیا ہے ظاہر میں وہ شکار کو جاتا ہے۔ لیکن اس کی کثرت سے سوار اور گھوڑوں کو دوڑانے کا مطلب یہ ہے کہ بادشاہ اور شاہی دستے اس کے عادی ہو جائیں اور گھوڑوں کو پسینہ آتا رہے تا کہ بڑی لڑائیوں اور سخت معرکوں میں ان میں کابلی اور کم ہمتی پیدا نہ ہو۔ جب لشکر تاخت کا عادی ہو گا اور میں گھوڑوں کو پسینہ آتا رہے گا تو جنگ کے روز دشمن ان پر غلبہ نہ پاسکے گا بلبن بادشاہ درحقیقت شکار کو نہیں جاتا بلکہ اپنی سلطنت کی حفاظت کرتا ہے”۔جب سلطان کو یہ معلوم ہوا کہ ملا کوخان یہ کہتا ہے تو اس کو ھلاکو کی بات پسند آئی اور اس کی تعریف کی اور کہا کہ مصلحت ملک کو وہی لوگ خوب سمجھتے ہیں جنہوں نے حکومت کی ہے اور ممالک فتح کئے ہیں ۔ ”

بلین کا نظریہ بادشاہت

مسلمانوں کے ڈھائی سو سالہ عہد حکومت میں بہلن پہلا سلطان تھا جس نے اپنے دربار میں شعوری کوشش سے بڑی محنت کر کے ایک نئی شاہی پروٹوکول بنائی اور کافی سخت پالیسی کے ساتھ اس پر خود عمل بھی کیا اور دوسروں نے بھی کرایا۔ اس کے عناصر ترکیبی آرائش و زبانش، گلیمر، ٹھاٹھ باٹھ ، رعب داب ، وقار اور تمکنت اور غلام دار حفظ مراتب تھے ۔ برنی لکھتا ہے۔ بلبن نے تخت نشین ہوتے ہی دربار کی شان و شوکت اور جلوس سواروں کی عظمت و دید بہ پر بہت زور دینا شروع کر دیا تھا۔ اس نے بہت سے سیستانی پہلوان بطور باڈی گارڈ بھرتی کئے جن کی تنخوا میں ساٹھ اور ستر ہزار جیل تھی جونگی تکوازیں کاندھوں پر رکھے ہوئے اس کے ہمرکاب ہو کر چلتے تھے۔ چنانچہ جلوس سواری کے وقت اس کا چمکدار چہرہ بھی چمکتا اور ٹنگی تلواریں بھی چھلکتی سورج کی روشنی میں نیا ایک کے نو سو نظر آتے یہ دیکھنے والوں کی آنکھوں میں پانی آجاتا اور وہ تعریف کئے بغیر نہ رہ سکتے ۔ دربار تمام کو دیکھنے والوں حاجیوں سلاح دارون سہم اشموں، چاؤشوں، نقیبوں اور پہلوانوں کو دیکھ کر دنگ رہ جاتے ۔ دور سے آنے والے راجوں اور سفیروں سے زمین بوی کرائی جاتی اور اکثر اینا ہوتا کہ وہ ہم کر بے ہوش ہو جاتے ۔ دور دراز کے باغی بھی سن کر ہی مطیع ہو جاتے۔ دربار میں نہ خود ہنستا نہ کسی کو ہنے کی جرات ہوتی ۔

 

یہ مضمون شیخ محمد حیات کی کتاب "ضلع خوشاب تاریخ کے آئنے میں "سے لیا گیا ہے

 

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com