خوشاب

تا ریخ خوشاب کے اہم ماخذ

شیخ محمدحیات

 

تاریخ خوشاب کے اہم ماخذ

تہمید

ہماری قدیم تاریخ کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے اول قدیم ترین زمانہ جے قبل از تاریخ کا دور کہہ سکتے ہیں یہ ابتدائے آفرنیشن سے 600 ق م تک پھیلا ہوا ہے۔ اسے درست طور پر عہد قدیم کہا جا سکتا ہے۔ اس میں جو واقعات پیش آئے ان کا تاریخی ربط و تسلسل قائم نہیں کیا جا سکتا۔ دوسرے دور کا آغا ز 600 ق م سے ہوتا ہے جس میں پیش آمدہ واقعات زمانے کے تعین کے ساتھ مربوط کئے جاسکتے ہیں اگر چہ سنین اس کے متعلق پوری طرح درست نہیں لیکن اس بارے میں قیاس آرائی کی جاسکتی ہے۔ تیسرا دور 326 ق م سے شروع سمجھا جاتا ہے کیونکہ سکندراعظم اس علاقے پر حملہ آور ہوتا ہے یہ اس علاقے کی تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے جس کی صداقت میں کوئی شک وشبہ نہیں ۔ قدیم تاریخ پاک و ہند کا یہ دور 326 ق م سے لے کر 712 ( مسلم محمد بن قاسم کی آمد کا سال) تک پھیلا ہوا ہے۔

تاریخ مرتب کرنے میں دشواریاں

برصغیر کا انتہائی قدیم زمانہ بالکل تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ تاریخی واقعات کا سلسلہ 326 ق م سے شروع ہوتا ہے لیکن سکندر کے بعد بھی تاریخ کا طالب علم تاریکی میں ہاتھ پاؤں مارتا ہوا نظر آتا ہے۔ کڑیاں نہیں ملتی ہیں۔

وجوہات

(1) بر ہمنوں کی فمن تاریخ سے عدم دلچسپی (2) مختلف علاقوں کا باہمی ربط کا فقدان (3) زمانے کے تعین میں دشواری (4) سنین کی بھر مار (قدیم تاریخ میں تمہیں مختلف من استعمال

قدیم تاریخ کے ماخذ

(1) ہندؤں کی مذہبی کتابیں رگ وید۔ یہ دنیا کی سب سے قدیم کتاب ہے۔ آرسی دت کے مطابق اس کی تدوین 2000 ق م سے 1400 کے درمیانی عرصے پر محیط ہے۔ اس کا بنیادی حصہ جو سمجتا کہلاتا ہے میں 1028 منتر ہیں۔ پوری کتاب دس اجزا پر مشتمل ہے، دسواں جزو 9 سے مختلف ہے اور کافی بعد کا معلوم ہوتا ہے۔ یہ اجزا الگ الگ مضمون کے کارخانے ہیں۔ اس وید کی ہماری تاریخ میں کافی اہمیت ہے۔

رگ وید اور تاریخ خوشاب

رگ دید کی کافی تدوین دریائے جہلم کے کنارے ہوتی رہی۔ اس لئے اس علاقے کے کافی حالات اس میں درج ہیں۔ جہاں تک اس کے مصنفین کا تعلق ہے ان میں سے ایک امیار خاراجہ ہے جو امب شریف کا بانی ہے۔ اسی طرح اس میں راجہ وڈ چو کا ذکر ہے جس نے اندر دیوتا کا مقابلہ کیا تھا اور راجہ ورچو کی ساری فوج عورتوں پر مشتمل تھی ۔ اگر چہ اندر طنزیہ طور پر فوج کو کمزور سمجھتے ہوئے جسنا لیکن اسی فوج نے اس کی ایک نہ چلنے دی اور شکست فاش دی۔ اس کا تسمی گرز بھی نا کام ہو گیا اور اندر شکست کھا کر صلح پر مجبور ہوا۔ ور چودہ راجہ ہے جس نے وڑ چھا آباد کیا تھا۔ آج بھی مقامی قبرستان میں ایک شاندار قبر ہے ایسی قبر پورے علاقے میں نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ وڈ چوکی ہو۔ اس کے پاس اور بھی چبوترے والی قبریں ہیں لیکن وہ سب اس سے کم درجہ کی ہیں۔ وڑ چھا سے پتھر کے اوزار ملے ہیں۔ رگ وید میں لفظ اور چونکھا گیا ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ لفظ – ڑ – سنگسرت اور دیدی زبان میں موجود ہی نہیں، یہ لفظ انگریزی میں بھی نہیں اسی لئے وڑ چھا کو در چھا (WARCHA) لکھا جاتا ہے بالکل اسی طرح یہ بات ہے کہ جب لفظ لکھ عربوں نے لکھا تو وہ اسے لکھ لکھتے اور وہ لفظ کھو کھر سے گڈمڈ ایسا ہوا کہ ان دونوں قوموں کو ملا دیا گیا ہے حالانکہ ان دونوں قوموں کے علاقے مختلف ہونے کی وجہ سے مقامی مورخوں نے اس کی اصلاح کی ۔ کھوکھر خوشاب کے علاقے میں تھے اور گھڑ راولپنڈی کے علاقے میں۔ رگ وید کے کے مصنفین میں امبار خا کا ذکر ہے جو امب شریف کا بانی راجہ تھا۔ رگ وید نے یہاں کے تین مقامی قبیلوں کا ذکر کیا ہے (1) دالیسو۔ یہ کالے رنگ کے اور چھپٹی ناک والے تھے۔ انہوں نے بھی اندر سے جنگ کی۔ پھر غلام بن گئے ۔
(2) رگ وید (VIII-85 ) میں بتایا گیا ہے کہ اندر دیوتا نے اسرور چن کے ساتھ جنگ کی جس میں اسرجیت گئے ۔ یہ لوگ علم و ہنر میں بڑے ماہر تھے ۔ یہ اپنے علم کے زور سے پنڈت بن گئے۔
(3) ”پنی یہ تیسر ا قبیلہ تھا جسے فیقی بھی کہا جاتا تھا۔ یہ تاجر پیشہ لوگ تھے ان کے سو چپوؤں والے جہاز چلتے تھے ۔ رگ وید (1-11-15 ) یہ لوگ لبنان، عراق تک تجارت کرتے تھے۔ اس کا ثبوت ہر پہ اور عراق سے ملنے والی مہروں کی یکسانیت ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے دنیا کو فیتی رسم الخط دیا۔ یہ لبنان سے سمندر کے راستے موجو ڈارو ہر پہ سے دریاؤں کے ذریعے ہوتے ہوئے ہمارے علاقے تک مال تجارت لاتے تھے۔ اس بات کا ثبوت گھونگے کی وہ چوڑیاں ہیں جو ہمارے ضلع کے کھنڈرات سے ملی ہیں۔ بقول ڈاکٹر محمد سلیم قائد اعظم یونیورسٹی یہ سمندری گھونگے زیوارات بنانے کے لئے دریا کے ذریعے ہی لائے گئے ہونگے ۔ ناڑی کے کھنڈرات سے سوائے مہروں کے باقی سب نشانیاں مل گئی ہیں۔ اگر یہاں کھدائی کی جائے ہو سکتا ہے مہریں بھی مل جائیں۔ اگر ایسا ہو جائے تو پھر ہماری تاریخ کی کڑیاں عراق سے مل جائیں گی اور اس کا شہر دریائے جہلم کو جاتا ہے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب یہ دریا بطور موٹر وے کے کام دیتے تھے کیونکہ سڑکیں تھی ہی نہیں ۔ سکندر اعظم کو بھی واپسی اسی دریا کے ذریعے کرنی پڑی۔ وہ کیسا دن ہو گا جب سکندر اعظم اپنی عظیم فوج کے ساتھ یہاں سے گزرا ہوگا ۔

چینی سیاح

اگر چہ کافی چینی سیاح ہمارے علاقے میں آئے جن میں سے فاہیان، ہیون سانگ، سوما کیان اور آئی سانگ مشہور ہیں لیکن ہیون سانگ نے سب سے زیادہ کام کیا۔ وہ بنوں سے میانوالی کی راہ امب شریف پہنچا۔ اسے اس نے سنگھ پورہ لکھا ہے۔ ہمارے علاقے میں ایک قبیلہ سنگھا ابھی تک موجود ہے لیکن یہ بات ابھی تک معلوم نہیں ہو سکی کہ ان کا تعلق کہاں تک اس قدیم شہر سے ہے۔ ولی اللہ خان صاحب ماہر آثار قدیمہ نے بھی اپنی کتاب گندھارا میں اسے یہی نام دیا ہے۔ ہیون سانگ کا اصل نام یوان چوان تھا۔ یہ راجہ ہرش کے عہد میں یہاں آیا۔ اس نے 630ء میں اس علاقے میں قدم رکھا، بدھ مت اس کا مذہب تھا، اس کی کتابوں کی تلاش میں اس نے ہزاروں میل کا سفر کیا۔ واپسی پر کئی گدھوں پر کتابیں لاد کر لے گیا۔ اس کے بعد اس کے شاگرد ہونو نے اس کی سوانح حیات لکھی جس سے بھی اس علاقے پر روشنی ڈالی ہے۔ ہیون سانگ خود بھی آٹھ سال تک صرف ہرش کے دربار میں رہ کر اپنی تحقیق کرتا رہا۔ اس کے بعد یہ بھیرہ گیا۔ 15 سال کے بعد 645ء میں واپس ہوا۔ باقی زندگی یہاں کی کتب کے چینی میں ترجمے میں گزاری۔ اس کی تصنیف "یہی۔ ہو۔ کی ہے جس میں اس زمانے کے سیاسی ، مذہبی اور معاشرتی حالات بیان کئے گئے ہیں۔

آثار قدیمہ

عمارتی شواہد اور کھنڈرات یہاں بھی تہذیب و تمدن کی عکاسی کرتے ہیں جن سے اس زمانے کا فن تعمیر ، رہنے سہنے کے طریقے وغیرہ کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ہندوشاہی عہد کے مقدس مقامات اس عہد کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ہمارے علاقے میں ہندوشاہی دور کے تین منادر ابھی موجود ہیں، دومندر امب شریف میں ہیں اور ایک کٹھہ میں ہے۔ اسی طرح گروٹ میں شاہی مسجد اور روضہ مغلیہ دور کے ہیں۔ گنجیال میں واں یا باولی ہے، بولا میں شاہی مسجد اور باولی تھی۔ ہڈالی میں باولی تھی ، خوشاب میں سراں، تالاب، عید گاہ، مسجد شرف الدین ، قلعه کردند، تلاجحه ، العب شریف، کٹھہ مصرال اور بہت سی قدیم قبور بھی ہیں۔

قدیم تاریخی ماخذ

بر صغیر کی قدیم تاریخ بالکل تاریکی میں ہے کیونکہ پر بموں کی تاریخ سے عدم دلچسپی تھی اس لئے تاریخ مرتب کرنے کے لئے ہمیں دوسرے ماخذوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ ان میں سب سے پہلے کہتے ہیں۔

کتبے

کتبوں کی تاریخی اہمیت سے ایسے زمانے میں جبکہ علم و اطلاع کے ذرائع محدود تھے ، کوئی مورخ انکار نہیں کر سکتا۔ مثال کے طور پر ایشیائے کوچک میں بخاز کوئی (BOGHAZKOI) کا مشہور کتبہ آریاؤں کی برصغیر پاک و ہند کی جانب روانگی پر روشنی ڈالتا ہے۔ اس کتبہ کی تاریخ 1400 ق ۔ م ہے۔ کتبوں سے مروجہ زبان کے علاوہ ملک کی اقتصادی اور اخلاقی حالت، حکمران کا نام اور کارنامے اور وسعت سلطنت کا پتہ چلتا ہے۔ ان کتبات کو تین اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
(1) یادداشتی کتبات: یہ مذہب کے پر چار کیلئے تحریر کئے جاتے ۔ یہ اشوک کے زمانے کے ہیں جس میں بدھ مت کے اصول درج ہیں۔
(2) انتسابی کتبات: ان میں بادشاہوں کے فرمان درج ہوتے ۔
(3) عطیاتی کتبات: ان میں بادشاہوں کی طرف عطیے دیئے جانے کا ذکر ہوتا۔
بادشاہوں کا ذکر خیر بھی ہوتا۔
ہمارے ہاں اس وقت تک دو مشہور کتبے ملے ہیں اور تاریخی اعتبار سے دونوں بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔

(1) کٹھوائی کا کتبہ

اس کتے کا تعلق بدھ مت کے ایک سکول ،اہی ساساکا سے متعلق ہے جو اساتذہ کے بورڈنگ ہاؤس کو بنا کر لگایا گیا۔ یہ کتبہ 1888ء میں کٹھوائی سے دو میل مغرب کی طرف ایک وہار سے ملا تھا، اب یہ کتبہ لاہور عجائب گھر میں ہے۔ اس کی تحریر خط شادر دا میں ہے۔ اسے ایک جرمن پروفیسر بوہلر (BUHLER) نے کمال محنت سے پڑھا تھا۔ اس کتبے میں ایک شہنشاہ کا ذکر ہے جس کا نام تور مانا بتایا گیا ہے۔ اسے بادشاہوں کے بادشاہ کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ یہ مجیب اتفاق ہے کہ من لکھنا بھول گئے ۔ اس کے لئے خالی جگہ چھوڑ دی گئی ۔ شاید یہ خیال ہو کہ جس وقت لگایا جائے گا لکھ لیا جائے گا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ ایک تو ر مانا88ق م میں ہوا ہے۔ ماہرین یہ بھی بتاتے ہیں کہ یہ کوئی ترک بادشاہ تھا۔ تو رمانا ترکی زبان کا لفظ ہے۔ مقامی زبانوں سے اس کا تعلق نہیں۔ اس کا لقب جو لا بھی ترکی ہے جس کے معنی شاہین کے ہیں۔ کتبے کی عبارت سے پتہ چلتا ہے کہ اس عمارت کی تعمیر میں بادشاہ کے علاوہ شہزادوں شہزادیوں اور ملکہ کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ کہ ان کے گراں قدر عطیوں نے یہ کام سرانجام پایا۔ یہ کتبہ 4 فٹ 2 انچ لمبا اور ایک فٹ 8 انچ چوڑا ہے۔ نیچے چھ انچ جگہ خالی ہے۔ اس کتبے میں کل تیرہ منطریں ہیں لیکن ان سب کی کوئی ترتیب نہیں۔ کوئی چھوٹی ہے کوئی لمبی ہے بارہویں اور تیر ہو میں سطریں مٹا کر دوبارہ لکھی گئی ہیں جس کی وجہ سے لکھائی قدرے خراب ہوگئی ہے۔ اس کتنے کی خصوصیت بھی قدیم بدھی کتبوں کی سی ہے ۔ جیسی گیت عہد میں تھی۔ لفظ گا اور سا” کی طرز تحریر راجپوتانہ کے رسم الخط کی طرح ہے۔ جہاں تک کتبے کی زبان کا تعلق ہے وہ نہ ہی خالص سنسکرت ہے اور نہ ہی پراکرت ہے بلکہ دونوں کا معجون مرکب ہے لیکن ان سب کے باوجود اس کا تعلق شمالی علاقے کے بدھوں کی لکھائی سے ملتا جلتا ہے۔ ڈاکٹر یوہلر نے اسی زبان کو پراکرت کا نام دیا ہے۔ پراکرت سے مراد مقامی لوگوں کی زبان مراد ہے جو آریوں کی آمد سے پہلے یہاں بولی جاتی تھی اور یہ قدیم پنجابی کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ آریہ اسے ناگ بانی یعنی سانپوں کی زبان اور اپنی زبان کو دیوتا بانی یعنی دیوتاؤں کی زبان کہتے ۔ پراکرت سے مراد ازل اور قدیم سے ہے یہ ایک ایسی زبان ہے جسے بچے اور عور تیں آسانی سے بول اور سمجھ سکتی ہیں۔ اس کتے کو لگانے کا مقصد یہ بیان کیا گیا ہے کہ ماہی ساسا کا مدرسے کی جو بدھ خانقاہ تعمیر کی گئی اسے روٹا سدھا ور دہی ROTAH SIDHA WARIDHI) ولد جیا وردهی (JAYA VIRDHI) نے تعمیر کرایا۔ مطعنی کے بیان کے مطابق یہ کہ اس کے والد محترم کو نیچیرہ کے حاکم کی طرف سے یہ اعزاز بخشا گیا کہ وہ اس گاؤں یا (ضلع بھی ہوسکتا ہے ) کی وہاروں کا نگران اعلیٰ مقرر کیا گیا ہے۔ اس کتبے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ بدھ مت کے ہن یان فرقے کی عظیم یاد گار تھی ہن یان کا مطلب ( قدیم بدھ مت) ہے اور دوسرا فرقہ مہایان تھا جس کا مطلب جدید بدھ مت تھا۔ مانی ساسا کا مدرسہ بدھ مت کے عظیم چار مدارس میں سے ایک تھا جو پنجاب میں تبلیغ کے لئے مبلغ تیار کرنے کے لئے بنایا گیا۔ بہن یان والے بتوں کے خلاف تھے لیکن مہایان والے بدھ کے مجسموں کو بنا کر پوچھتے تھے۔ یہی سبب ہے کہ اس علاقے میں بدھ کا کوئی بت نہیں ملاور نہ پہاڑوں کی کوئی جگہ خالی نہ ہوتی جیسا کہ سوات میں ہے۔ یہ معلومات ہیون سانگ کے سوانح نگار بیل (BEAL) نے ہمیں پہنچائی ہیں۔ جلد سوم صفحہ 263 تا 273 ہیون سانگ یہاں آیا۔ وہ بنوں ہے بھیرہ جاتے ہوئے یہاں آیا ۔ یہ وہار کٹھوائی سے مغرب کی طرف دو کلو میٹر ہر دو سودھی کے راستے سے پہلے دائیں ہاتھ آتی ہے۔ اسے چند سال پہلے مالک نے گرا کر کمرہ تعمیر کر لیا۔ ابھی کنواں موجود ہے اب دوسرا کنواں بھی کچھ فاصلے پر ہے۔ کتبے کی عبارت کچھ یوں ہے:بادشاہوں کے بادشاہ کی خوشحال حکومت کے دور میں جس کا اسم مبارک تو ر مانا شاہ جو لا ہے مگھر ماہ کی دو تاریخ چمکتے ہوئے سورج کے ساتھ کے جبکہ مہینے کا نصف گزر چکا ہے۔ بدھا جو کہ دیوتاؤں کا دیوتا ہے اور معصوم ہے جس کی طاقت دس کے برابر ہے اس کے بعد جیاور دھی کی تعریف کی گئی ہے کہ اسے نیرہ کے راہب کا بڑا اعزاز بخشا ۔ اس کے بعد بھائیوں، بہنوں، بیویوں، بیٹیوں ، بیٹوں کا روٹا سدھا اور دھی شکریہ ادا کرتا ہے۔ نیز رانیوں، راجکماریوں، راجکماروں اور تور مانا شاہ جولا کا بھی شکر سیادا کرتا ہے جنہوں نے اس کارخیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ یہ کتبہ پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم کتبہ ہے جس سے اس علاقے میں بدھ مت اور تور مانا شاہ کے دور حکومت پر روشنی پڑتی ہے ورنہ اس علاقے میں بدھ مت کے متعلق ہمارے پاس کوئی شہادت نہ تھی ۔ راقم کے پاس اس کی نقل موجود ہے جو پشاور سے منگوائی تھی اس کا حوالہ درج ذیل ہے جو جنرل کنگھم نے اپنی کتاب ”اپنی گرافیا انڈیکا EPIGRAPHIA INDICA VOL IP 238-4. دوسرا کتبہ اب سے ملا تھا۔ اس کا تعلق ہندو مذہب سے ہے۔ یہ اسب کے تاریخی مندر کے پاس سے ملا ہے۔ اسے ایک پنڈت نے پڑھ کر بتایا کہ یہ امبارخا (AMBARKHA) مند ھاتری کے بیٹے نے پروکستا کے بھائی سے متعلق ہے جو ان ابتدائی کسی سورماؤں میں سے تھا جن سے رگ وید کے کئی اشعار منسوب ہیں۔ اس کتبے سے معلوم ہوتا ہے کہ رگ وید جو ہندوؤں کی قدیم ترین مذہبی اور دنیا کی قدیم ترین تاریخی کتاب ہے آج سے ہزار ہا سال پہلے لکھی گئی اس کی تدوین میں ضلع خوشاب کے لوگوں کا بہت بڑا حصہ ہے۔ اسے دریائے جہلم کے کنارے لکھا گیا جو ہمارے علاقے میں ہی ہے (اقتباس از: اے رپورٹ آف نوران دی پنجاب صفحه 34-33) اسی طرح سکیسر سے بھی 12×12 کے کمرے سے بھی ایک کتبہ اور چند سکے برآمد ہوئے تھے لیکن ان کا پتہ نہ چل سکا۔

قدیم قبور

وادی سون میں کافی قدیم قبور ہیں جن پر ابھی کافی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر محمد سلیم اور ڈاکٹر سیف الرحمن ڈار صاحب نے بھی ان پر کافی کام کیا ہے لیکن ابھی تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچا گیا۔ حال ہی میں پدھراڑ ایک قدیم اجتماعی قبر کا انکشاف نہوا جو قبل مسیح کی معلوم ہوتی ہے۔ ایسی قبریں قبل از اسلام دور کی ہیں کیونکہ مسلمانوں کی قبریں شمالاً جنوبا ہوتی ہیں۔ اس علاقے میں بعض ایسی قبریں بھی ہیں جو بڑے بڑے چبوتروں کے اندر ہیں۔ ان پر لگے ہوئے بڑے بڑے تراشیدہ پتھر لگائے گئے ہیں۔ میں نے ایک ایسی ہی بڑے بڑے چبوترے والی قبر کا جائزہ لیا جس کے متعلق مشہور تھا کہ کسی بزرگ کی ہے لیکن تقسیم ملک کے بعد کچھ ہندوآ کر اپنا دفن کیا ہوا مال اس میں سے نکال کر لے گئے ۔ اس کے باوجود میں نے جائزہ لینے کا ارادہ کیا۔ جب میں اس چبوترے پر چڑھا تو میری حیرانگی کی حد نہ رہی کہ اس گڑھے میں مردے کا ڈھانچہ نظر آیا جس کی کھوپڑی مشرقی دیوار میں ایک خانہ بنا کر اس میں رکھی تھی اور جس جگہ یہ خانہ بنا گیا تھا اس کے باہر کی طرف تین پتھر زرد رنگ کے لگائے گئے تھے جو سر اور پاؤں کی نشاندہی کرتے ہیں ۔ لیکن افسوس کہ لوگ سب اینٹیں اکھاڑ کر لے گئے۔ اسی طرح سودھی بالا کے جنوب میں ایک اونچی چبوترے والی قبر ہے۔ ہمارے رہنما جناب ملک غلام مصطفی صاحب نے بتایا کہ اس جگہ ایک دفعہ جب بارش کے پانی کار پیلا آیا تو قبر کا ایک حصہ گر گیا۔ اس کے اندر سے مٹی کے برتن نکلے جولوگوں نے دوبارہ اسی جگہ دفن کر دیئے ۔ اب ان برتنوں کو دوبارہ نکال کر جائزہ لینے کی ضرورت ہے تا کہ پتہ کیا جا سکے کہ ان کا کونسا زمانہ ہے۔ یہ بات یادرکھنے کے قابل ہے کہ آریہ شروع میں مردوں کو دفن کرتے تھے ، پھر جلانے لگے لیکن اپنے بعض بزرگوں کو اب بھی دفن کرتے ہیں۔ ہمارے گاؤں جھاوریاں میں ایک ہندوؤں کا مذہبی پیشوا ہوتا تھا جب وہ سامنے آجاتا تو سب رک جاتے اور ہاتھ جوڑ کر آداب عرض کر کے جاتے ۔ جب وہ مر گیا تو اس کو دفن کیا گیا۔ اسے بیٹھی ہوئی حالت میں ایک پکی قبر میں بند کیا گیا۔ اور اس کے ارد گرد نمک کے ڈلے رکھ دیئے گئے۔ نکل جائے۔ اسی طرح بعض کو دریا میں بہا دیتے تھے۔ اس کی کمر میں بوجھ باندھ دیتے کہ تیر کر نہ انگریزوں کی حکومت کے شروع میں یہاں خوشاب میں کچھ زرتشتی مذہب کے پیرو بھی رہتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ جب تک جسم میں جان ہے جسم پاک ہے جب روح نکل جاتی ہے تو روح کے بغیر جسم نا پاک ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے مردے کو ایک مینار پر جسے دشمہ کہتے تھے رکھ دیتے اور گدھ کھا جاتے ۔ بعض قبور میں اگر مرنے والا سپاہی ہوتا تو اس کے ہتھیار بھی اس کے ساتھ ہی دفن کر دیئے جاتے حتی کہ اس کے گھوڑے کو مار کر اس کو پھر جلایا جا تا اور اس کی ہڈیوں کو برتن میں ڈال کر دفن کر دیتے۔ ایسے برتن خصوصی طور پر بنائے جاتے۔ ہر پہ میں بھی ایسے مردے کو جلا کر برتنوں میں ہڈیاں رکھنے کا رواج تھا۔ بعض اوقات عورتوں کو زیورات کے ساتھ دفن کیا جاتا لیکن بعد میں یہ رواج ختم ہو گیا۔ ان سب باتوں کا جائزہ لینے کے لئے تحقیق کی ضرورت ہے کیونکہ قدیم زمانے میں مردے کے ساتھ برتنوں میں کھانے پینے کی چیزیں رکھنے کا رواج بھی تھا۔ ایک قبر چھڑ کی نزد کھوڑو ہے۔ اس کا رخ مشرق مغرب کو ہے لیکن صاحب قبر مسلمانوں کے بزرگ کے طور پر مشہور ہیں حالانکہ کوئی مسلمان بھی اس طرح پر قبر بنانے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اس طرح کی کئی قبرین جاہلر سے چار کلو میٹر ڈھوک سترہ کے تاریخی تالاب سے مغرب کی طرف دو کلو میٹر کے فاصلے پر دو پہلے پتھروں کی 20 لمبی قبریں ہیں اور اس کے آس پاس بے شمار برتنوں کے ٹکڑے پڑے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بھی بڑی آبادی رہی ہے۔ اسی طرح کٹھوائی کے شمال کی طرف نصف کلومیٹر کے فاصلے پر ڈھوک صالح کے پاس تین قبریں شرقا غربا چودہ چود وفٹ لمبی ہیں ۔ ایک امریکی ماہر آثار قدیمہ مسٹر جاسن جو بھارت میں ایک سال بدھ مت پر تحقیق کرتے رہے، نے بتایا کہ وہاں ایک سال رہنے کے باوجود ایسی کوئی قبر نہیں دیکھی۔ اسی طرح چار قبریں کھوڑہ کے قریب تر رڈی میں ہیں جو شہر کے مشرق میں ہیں۔ دو قبریں کنجور پھر کی ہیں اور دو چونے کے پتھر کی ہیں۔ اسی طرح کی قبریں اسی علاقے میں دیکھی گئیں جن پر پتھر کے لنگ بنے ہوئے اور اینٹوں پر چکر بنائے گئے، ایسے نشان چٹہ میں قبر پر دیکھے گئے۔ سوڈھی میں قبر پر بیل بنے ہوئے بھی دیکھے گئے ہیں۔ کنڈ کے ارد گرد بھی ایسی مختلف جگہوں پر قبریں ہیں۔ ان کی تختیوں پر مختلف قسم کے نشانات بنے ہوئے دیکھے گئے ۔ وڑ چھ کے قبرستان میں بھی قبروں کے ایسے قدیم کافی چبوترے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ رکھلہ میں بھی ہوں۔ اسی طرح جب اسب شریف کی طرف مڑتے ہیں تو وہاں سے ادھ کلو میٹر کے فاصلے پر تین چار قبریں قدیم عہد کی بنی ہوئی ہیں۔ اب میں کھنڈرات کے قریب بھی ایک چبوترہ ہے جس پر اب کوئی مسلمان دفن ہے۔ سکیسر کے مغرب میں بھی ایک قلعہ کے پاس قدیم زمانہ کی قبریں راقم نے بھی دیکھی ہیں۔ قائد اعظم یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر مجد سلیم نے ان پر کام کرنے کی دلچسپی لی تھی لیکن وہ صرف ایک دن کے لئے آئے۔ ایسے کاموں کیلئے کافی وقت کی ضرورت ہے۔ پدھراڑ کے قبرستان میں ایک چبوترے والی قبر کی ایک دیوار میں ڈاٹ بنائی گئی ہے اور اس میں سرنگ ہے شایدی قبل از اسلام کی اجتماعی قبر ہو۔

ہاتھ اور پاؤں کے نشانات

ایسے نشانات پتھر پر کھود کر بنائے جاتے تھے اور اکثر ننگے پاؤں کے ہوتے تھے۔ ایسے نشانات جاہر کے جنوب موضع کیلئے میں ہیں۔ کچھ نشانات کھبیکی کے شرف الدین کے تالاب کے جنوب میں اور اسی طرح کے نشانات مختلف مذاہب کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ ہندو مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ بھی یادر ہے کہ سب وادی سون میں ہیں کیونکہ میدانی یا صحرائی علاقے میں ایسی چیزوں کا باقی رہنا بڑا ہی مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ ان سب چیزوں کو سرکاری طور پر ریکارڈ میں لانے کی ضرورت ہے۔ ایسی کچھ قدیم نیاں اوکھلی موبلہ کے قبرستان میں بھی ہیں۔ ایک کتبہ راڈار کا کھمبافٹ کرنے کے لئے جب 1960 ء میں بل ڈوز چلا گیا تو نیچےسے نکلا جس کمرے سے ملاوہ مربع شکل کا تھا۔ اس کے علاوہ امب سے ایک اور کتبہ مل تھا جو بھی تیک پڑھا نہیں جاسکا ۔ ایک کتبہ سب میں راقم نے بھی دیکھانہ اس کی تصویر بن سکی اور نہ پڑھا جاسکا۔

کھرے

ڈھوک سترہ کے پاس کھروں والی پہاڑی ہے جس پر کھرے ہیں یعنی پاؤں کے نشان بنے ہوئے ہیں یہ بدھ مت کی علامت ہیں اور کئی جگہ پر ہیں۔ ایسے نشانات ڈاکٹر احمد حسن دانی نے گلگت میں تلاش کئے تھے اور ان کی تصاویر ان کی کتاب ” چیلاس“ نامی میں ہیں۔

خط تصویری

ایسی تحریر میں کڑا نہ پہاڑیوں پر کندہ تھیں جن میں فوجی سواروں کو ہتھیاروں سے لیس دکھایا گیا ہے اور بعض شکاریوں کو شکار کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ بعض گھوڑوں پر سوار دکھائے گئے ہیں ۔ ایک عورت کے ہاتھ میں کنول کا پھول اور آئینہ ہے ستی میں سوار لوگ بنے ہوئے ہیں۔ ان کے ہتھیار تیر کمان اور کلہاڑے ہیں۔ پنجاب میں اپنی نوعیت کا واحد تاریخی قدیم ترین نمونہ ہے لیکن افسوس کہ پھر توڑنے والوں نے کرشنگ مشینوں کے لئے ان کو توڑ کر بجری بنا کر بیچ دی ہے۔ اس کو بچانے کے لئے ڈاکٹر دانی نے بھی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہو سکے۔ یہ ہماری حکومتی سطح پر کسی چیز کی اہمیت کو نظر انداز کر دینا بہت بڑا المیہ ہے۔ اگر ایسی کوئی چیز یورپ میں ہوتی تو یو این او بھی حرکت میں آجاتی اور اسے بچایا جاتا ۔

غاریں

وادی سون میں غاروں کو مہلے کہتے ہیں۔ اپنے گھر بنانے سے پہلے انسان قدرتی گھروں میں رہتا تھا۔ اس علاقے میں بے شمار غاریں لیکن ابھی تک ان پر تحقیق نہیں کی گئی۔ راقم نے بھی سوڈھی جے والی کے پاس غار دیکھی لیکن اندر جا کر جائزہ لینے کی نوبت نہیں آئی۔ اس کے لئے طاقتور بیٹری کا پاس ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح سیکیسر سے مغرب کی طرف محترمی استاد محمد بخش صاحب آف چہ جو کہ آج کل سکیسر میں بطور ہیڈ ماسٹر کام کر رہے تھے، کے ساتھ قدیم فیور قلعہ اور غار دیکھی لیکن وہاں ہمارے مطلب کی کوئی چیز نہ تھی ۔ قدیم غاروں میں لوگ تصاویر بناتے تھے، جانوروں یا انسانوں کے ڈھانچے ہوتے تھے، ان کے پتھر کے ہتھیار ہوتے تھے لیکن ابھی تک مجھے ایسی غارد یکھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ استاد کریم بخش صاحب کے صاحبزادے نے ایک غار دکھانے کا وعدہ کیا تھا۔ کبھی پروگرام بنا کر دیکھی جائیگی ۔ ہو سکتا ہے کہ وہاں ایسی چیزیں ہوں۔ دیسے ڈی میرا، امریکن ماہر نے اس علاقے میں پھر کے ہتھیاروں کا 1932ء میں سراغ لگایا تھا۔ اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ اس نے اولین انسان کی بنائی ہوئی پتھر کے اوزاروں کی فیکٹری ڈھونڈ نکالی تھی۔ 1932 ء کا زمانہ آج سے بہت مختلف تھا۔ ڈی ٹیرا (DE TERRA) نے یہ سفر وڑ چھا سے ہوتے ہوئے چٹہ بیچ کر یہاں حقیق کا مرکز بنایا تھا۔ اس کی ٹیم میں دو بھائی بھی تھے جن کے نام یہ ہیں ۔
JCQUETTA CHRISTOPHER
HAWKES CHRISTOPHER
ڈی ٹیرا (DE TERRA) لکھتے ہیں کہ میرے ساتھ ان دو بھائیوں نے خوب کام کیا۔ خوشاب پہنچ کر یہ دونوں تو وادی سون چلے گئے اور میں رکھلا ، وڑ چھا، امب سے ہوتا ہوا بعد میں چہ پہنچا۔ یہاں بیچ کر اسے گو ہر مقصودل گیا۔ یہاں اس نے برفانی دور کے نشانات اور اولین انسانی تہذیب کا سراغ لگایا جو پتھر کے اوزاروں کی صورت میں تھے۔ یہ وضاحتیں انہوں نے اپنے ایک مضمون میں کی ہیں جن کا عنوان درج ذیل ہے۔
PALACOLITHIC HUMAN INDUSTRIES INNORTH WEST PUNJAB
اس میں انہوں نے اولین انسان کی بود و باش پر روشنی ڈالی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ پی ای کن تو چہ میں کام کرنے میں مگن ہو گیا اور میں دامن پہاڑ کے ساتھ جب رکھ منڈی سے آگے وڑ چھا پہنچا تو مسٹر گھوش بھی آملے جو انڈین سروے کے محلے سے تعلق رکھتے تھے۔ میں نے رکھلا کے پاس سے پھر کے اوزار اکٹھے کئے لیکن جہاں تک چٹہ کے پتھر کے اوزار بنانے کی صنعت کا تعلق ہے وہ سب مسٹر ایچ ای سن کا کارنامہ ہے۔ مسٹر گھوش اس سے پہلے بھی تین ماہ تک کام کر چکے تھے اور ان کے تجربے سے فائدہ اٹھانا چاہتا تھا۔ جہاں تک کہ میرے دوسرے ساتھی (G.EVELYN) جی۔ای۔ وی لین کا تعلق ہے وہ بیالوجی کے شعبے میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ اس شعبے میں انہوں نے جو خدمات سرانجام دیں، میں ان کے متعلق یہ ہی کہہ سکتا ہوں۔
The comradeship and spirti of cooperation which Mr. EVELYN HUTCHINSON displayed on the journey will for me always belong to the delightful memories of this expedition
یہ حقیقت ہے کہ اگر یہ نیم ادھر نہ آئی تو ہمارا مشن ابھی تک گمنامی کی حالت میں ڈوبا ہوا ہوتا حالانکہ اس ٹیم کا کام صرف برفانی دور کی نباتات، فاسلز اور پھروں کی کیمیائی تبدیلی کے متعلق تحقیق کرنا تھا۔ اس سلسلے میں انہوں نے اچھالی کے مغرب میں کافی تحقیق کی۔ وہ خود لکھتے ہیں:
The scacnty material of pre-historic impliments described above are chance finds which were made while HUTCHISNSON and myself.. … were engaged in geological and biological studies in the salt range. Neither of us had planned to search for human industries and use therefare were quite unprepared for a find of this sort.
اس دریافت کی اہمیت کے متعلق وہ لکھتے ہیں۔
The primitive character of flake industry at "CHITTA” as emphasized alone also would suport such tentalive geologic dating

اچھالی کے متعلق لکھتے ہیں۔ .
On the slope of the lime stone rings are younger fonglome erectes of avidently recent date while below it lie course congioner-rates and slightly cemented river grareels. Those are exposed in the glen N.W of Uchcili,where they make an ancient valley.
ان تحریروں سے ثابت ہوتا ہے کہ اس علاقے میں انسان تین لاکھ سال سے قیام پذیرتھا۔ یہ تمام دنیا کا متفقہ فیصلہ ہے۔

البيروني

یہ عربی اور فارسی زبان کا فاضل اور مورخ جس کا اصل نام ابوریحان البیرونی تھا، سلطان محمود غزنوی کے ساتھ بر صغیر میں داخل ہوا۔ اس نے کئی سال کی تحقیق کے بعد بے مثل کتاب تحقیق ہند لکھی۔ اسے 1030ء میں ترتیب دی جو ہند و علوم اور ہند و تمدن کے متعلق مستند ذریعہ معلومات ” ہے۔ واقعات کی صحت اور حالات کی فراوانی میں کوئی کتاب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ البیرونی کے مطابق ہند و علیحدگی پسندوں نے بیرونی دنیا سے رابطہ کے ذریعے اپنی تہذیب کو جانچنے اور پر لکھنے کے تمام امکانات کا خاتمہ کر دیا۔ وہ لکھتے ہیں وہ غیر ملکیوں سے بھی تعصب کی بنا پر نہیں ملتے اور انہیں ملیچھ یا نا پاک سمجھتے ہیں۔ ان کے ساتھ کسی قسم کے تعلق کو ممنوع قرار دیتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ ان کے ملک کے سوا کوئی اور ملک نہیں۔ ان کی قوم کے سوا کوئی اور قوم نہیں ۔ ان کے بادشاہوں جیسا کوئی بادشاہ نہیں۔ ان کے علم جیسا کوئی علم نہیں۔ البیرونی بخارا کے مضافات کے رہنے والے تھے اس لئے البیرونی مشہور ہوئے۔ یہاں انہوں نے طویل عرصہ گزار کر سنسکرت زبان سیکھ کر کتاب کے لئے معلومات فراہم کیں۔ قلعہ ندنہ کے پاس انہوں نے زمین کا قطر معلوم کرنے پر تحقیق کی۔ نندنہ بھی ضلع جہلم میں پنڈ دادنخان کے پاس ہے۔ آج کل نیچے باغاں والا گاؤں ہے، یہاں چشمے کے پانی کی بہتات ہے، کھانے کی شکل میں بہتا ہے، بند نہ ہندوشاہی کا آخری گڑھ تھا۔ محمود نے یہاں آنند پال کو شکست دیگر ہندوشاہی کا خاتمہ کرکے اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی ۔ شہداء کی قبریں وہیں قلعے میں موجود ہیں۔ اس کے بعد وہ بھیرہ بھی آئے ، آگے دریائے جہلم کے ذریعے ملتان کا سفر کیا۔

قدیم کھنڈرات

ہمارے علاقے میں ناڑی کے علاوہ پہلو دیس، روڈہ پنڈ، اراڈا، قلعہ اکرند، کھنکہ ، اوچھالہ، دھڑ ، مرد اوال کے راجہ کا مدیو کے کھنڈرات، چٹہ ، ڈھاکہ، جلے والی کلیال، ترژی، کولی انگالی، ہر دو سودھی وغیرہ میں بھی قدیم کھنڈرات ہیں۔

برتنوں کے ٹکڑے

برتنوں کے ٹکڑے بھی ماہرین کو بھی کھنڈر کی قدامت کے متعلق بنیادی معلومات فراہم کرتے ہیں۔ مثلاً اگر سوراخ دار برتنوں کے ٹکڑے ہوں اور پتھر کے چاقو کے ٹکڑے بھی مل جائیں تو یہ کھنڈر ہڑپہ کے مقابلے کا ہے۔ اگر برتن چاک کی بجائے بھدے اور موٹے ہاتھ سے بنائے گئے ہوں تو یہ بھی قدامت کی نشانی ہے۔ اگر بیل بوٹے کی بجائے جانوروں کی تصاویر ہوں یا سفید سطح پر لال رنگ کی لکیر ہو تو یہ بھی قبل از اسلام ہیں۔ اگر بیل بوٹوں کی بجائے کسی تیز آنے سے لکیروں سے ڈیزائن بنائے گئے ہوں تو یہ بھی قبل از اسلام کے ہیں ۔ ہمارے علاقے میں ایسے ٹکڑے نہیں بلوچاں، ناڑی، روڈہ پنڈ سے ملے ہیں اور ماہرین نے ان کی قدامت کی تصدیق کی ہے۔ ان ماہرین میں ڈاکٹر احمد حسن دانی ، ڈاکٹرمحمد سلیم، ڈاکٹر سیف الرحمن ڈار، ڈاکٹر عبدالرحمن اور ڈاکٹر انجم رحمانی ہیں۔

سکے

کسی جگہ کی قدامت کی نشاندہی کرتے ہیں۔ پہاڑی علاقے سے سکے قدرے درست حالت میں بل جاتے ہیں لیکن میدانی علاقے میں اتنے زنگ آلودہ ہو جاتے ہیں کہ ان کا پڑھنا یاکسی اور نشانی کا معلوم کرنا خاصا مشکل ہوتا ہے۔ یہ بھی ہمارے لیے تاریخی لحاظ سے اچھی بات ہے کہ تھل میں بھی سکے خراب نہیں ہوتے تھل سے راہداری اور پیلونفیس سے یونانی اور کنشک کے دور کے سکے ملے ہیں۔ اسی طرح شاہپور گزیٹر کے مطابق 1886ء میں امب شریف ے 549 سکے جن کا تعلق مختلف زمانوں سے تھا یعنی 1060 تا1215ء کے زمانے کے تھے۔ بعض معز الدین بن سام ( المعروف محمد غوری ) جس نے برصغیر کو فتح کیا جس کا زمانہ 1193ء تا 1205 ء ہے اور کچھ اجمیر کے ہندو راجہ سری چہاڑ کے دور کے تھے۔ انہیں تحقیق کے لئے کلکتہ بھیجا گیا۔ 1888ء میں چٹہ سے 498 سکے ملے تھے جن کا تعلق سیف الدین قر لدغ سے تھا جو جلال الدین خوارزم شاہ کا جرنیل تھا اور اس نے اس علاقے پر 20 سال حکومت کی ۔ اسی طرح 304 سکے سوڈھی سے ملے جو غیاث الدین بلبن کے تھے جس کا عہد حکومت 1265ء تا 1287 ء ہے۔ اسی طرح جتی جلال ( شاہ نگر ) سے لودھی خاندان کے سکے ہیں۔ اسی طرح تھر چک میں بھی کافی سکتے ہیں لیکن ان سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ کسی جگہ سے ملے۔ ہمارے لئے جگہ کا تعین ضروری ہے۔ کسی کھنڈر یا بھڑ کی اہمیت اسی وقت ہو سکتی ہے جب پتہ چلے کہ سکہ یا ٹھیکری کا تعلق فلاں بھر سے ہے۔ ماہرین یہ بتاتے ہیں کہ سکے ملیں تو ان کو مختلف تھیلوں میں ڈال کر ساتھ چٹ پر اس جگہ کا نام لکھ دیں تا کہ جگہ معلوم رہے۔ ٹھیکری کی صورت میں اس کے اوپر بال پوائنٹ سے لکھ دیا جائے تا کہ آپس میں گڈی نہ ہو جائیں ۔ ویسے سکے لوگوں کے پاس بھی کافی ہیں لیکن ہمارے لئے اپنے علاقے کی تاریخ کے سلسلے میں اپنے علاقے سے ملنے والے سکے ہی اہمیت رکھتے ہیں۔

بت

بت بھی تاریخی لحاظ سے بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کو پہلی نظر میں دیکھ کر اس کا زمانہ مذہب، کلچر تک بیان کیا جا سکتا ہے۔ قدیم ترین بت پہلے صرف سامنے سے بنائے جاتے تھے۔ اس کا پچھلا حصہ ویسے ہی چھوڑ دیا جاتا تھا۔ پہلے یہ چونے کے پتھر یا چونے کے ڈھال کر بنائے جاتے تھے۔ اس سے بھی پہلے مٹی کے بنا کر پکائے جاتے تھے۔ اس کے بعد سنگ مرمر کے بت بنانے کا رواج ہوا۔ بدھ مت کے بت سلیٹی رنگ کے پتھر سے بنائے جاتے تھے۔ ایسا پتھر صرف کڑانہ کی پہاڑیوں سے حاصل ہوتا ہے۔ آج کل روڑی اسی پتھر کی چل رہی ہے۔ بدھ مت کے بت کے سر پر جوڑا ہوتا تھا۔ ہندومت کے سونڈ والے بت گنیش کے ہوتے یا چار ہاتھوں والے بت ہوتے جو شو اور لکشمی کے ہوتے ۔ ہمارے علاقے میں بدھ مت کے بت امب سے ملے ہیں اور ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے جتنے بت بھی ملے ہیں اکثر کا تعلق امب شریف سے ہے اور دو تشنج علی کے پاس بڑے وزنی بت تھے ۔ سنا ہے کہ بٹ صاحب ان کے ٹکڑے کر کے لے گئے ہیں۔ اس سے ہی دو حرا ہیں ملی تھیں جن کے آس پاس چھوٹے چھوٹے کافی بت بنے ہوئے تھے۔ وہ راقم نے ضلع چکوال کی تحصیل تلہ گنگ میں ایک شخص کے پاس دیکھے۔ اس سے کہا تھا کہ ان کے فوٹو ہی دے دیں تا کہ ریکارڈ میں تو آجائے۔ ایک مٹی کا بنا ہوا چہرہ راقم کے پاس ہے جو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تعلق کسی حبشی قبیلے سے ہے۔ موٹے ہونٹ ، چینی ناک ہے۔ یہ قدیم معلوم ہوتا ہے۔ اسی طرح کا ایک استاد کریم بخش صاحب کے پاس چلیہ میں بھی ہے۔ لال حسین سے ایک بچے کو کسی سپاہی کا بت ملا تھا جس کے ہاتھ میں تلوار اور ڈھال تھی لیکن استاد محترم نے اس کے ٹکڑے کر دیئے ۔ اگر وہ ہوتا تو اس علاقے پر کچھ روشنی ڈالی جاسکتی تھی ۔ ایک اور مٹی کے بت کا سر ہے جس کے سر میں سوراخ ہے، شاید اس جگہ تاج لگایا گیا ہو۔ یہ سیاہ رنگت میں ہے۔ اس سے اس کی جنس کا بھی پتہ نہیں چلتا۔

غاریں

وادی سون سکیسر میں بے شمار قدرتی غاریں ہیں لیکن ابھی تک ان پر تحقیق نہیں کی گئی۔ ان کو مقامی زبان میں مہلے کہتے ہیں۔ ان کے اندر پتھر کے زمانے کے اوزار، تصاویر اور مختلف جانوروں، انسانوں کی ہڈیاں ملنے کے امکانات ہوتے ہیں۔ چند مشہور غاریں یہ ہیں۔ گنجہ پہاڑ کی غار: یہ نوشہرہ کے جنوب میں ہے۔
کیری پہاڑ کی غار: یہ ڈھوک سیداں کے جنوب میں سوڈھی چائیل روڈ پر ہے۔ چڑی والا مہلا : یہ جنگل پٹیال میں ہے، اس میں چار سو بکریاں سماسکتی ہیں۔ تھ تھوڑ والی غار: یہ ڈھوک سترہ سے آگے جبی والے راستے پر ہے۔ اس جگہ مفرور لوگ
چھپتے تھے ۔ سنا ہے کہ اس غار میں کچھ تصاویر بنی ہوئی ہیں۔

سادھو والا مہلہ

یہ امب شریف کے مغرب میں بڑی غار ہے۔ اس میں تین سو کے قریب بکریاں ٹھہر
سکتی ہیں۔

مہلہ کھنگری

یہ جگہ چٹہ اور انگہ کے درمیان ہے۔ اس میں دھوپ نہیں جاسکتی ۔ موسم گرما میں بھی یہ جگہ ٹھنڈی رہتی ہے۔

غار سوڈھی

یہ سوڈھی ہے والی کے قریب ہے۔ یہ کوئی چار سو میٹر لمبی ہے۔ ای طرح برج کنواریاں، میاں اسلم والا مہلہ، بلیاں مہلیاں ، موڑ شہیداں والا مہلہ، کا کے والا مہلہ، میلہ کالا ہونا، مہلہ سلطان ابراہیم . ان میں اکثر بزرگوں کی چلہ کشی کی وجہ سے
مشہور ہیں ۔

مشہور چشمے

پوری وادی کا گزراوقات چشموں کے پانی پر تھا۔ اب کچھ ٹیوب ویل لگ جانے سے
حالات بدل گئے ہیں۔ مشہور چشمے یہ ہیں۔

چشمه جل وتری: نوشہرہ کے مشرق میں ہے۔
واہندے والا چشمہ: یہ احمد آباد ( کھنکہ ) کے قریب ہے۔
پیرا چھا صاحب کا چشمہ : پیل کے شمال میں ہے۔
پیری والا چشمہ: یہ بھی جابہ کے قریب ہے۔
چشمہ کوڑہ: اس کا پانی انسانوں کے پینے کے قابل نہیں ۔ اسی طرح چشمہ کامل والا باغ کھیکی کے شمال میں ہے۔
چشمہ امب شریف: یہ چشمہ کاریز کی شکل میں ہے، اس کے منہ کا پتہ نہیں چل سکا۔ یہ صدیوں سے امب والوں کی خدمت کر رہا ہے۔ اس پر موسم کا کوئی اثر نہیں ہوتا ۔
چشمہ کنبہٹی باغ: یہ کافی بڑا چشمہ ہے۔ اس کا پانی کھالے کی طرح بہتا ہے لیکن اس پر موسم کا کافی اثر ہوتا ہے۔ اس پر پن چکیاں بھی لگی ہوئی ہیں۔
چشمہ سر کی : اس کا پانی پر نالے کی طرح گرتا ہے۔
چشمہ نڑواڑی: یہ چشمہ نڑواڑی کے باغ کو سیراب کرتا ہے۔
ان چشموں کے پانی سے پن چکیاں چلائی جاتی ہیں اور کئی باغ بھی لگائے گئے ہیں جن میں کنہٹی اور سوڈھی بجے والی کے باغ مشہور ہیں۔ یہ دونوں سرکاری باغ ہیں اور ان کی ہر سال نیلامی ہوتی ہے۔

چورے

چورے سے مراد کسی شہید کی یادگار بناتا ہے ۔ وادی سون میں یہ رواج ہے کہ کوئی آدمی جس جگہ مارا جاتا ہے اس کے لئے ہر آنے جانے والا دو پتھر رکھ جاتا اور اس طرح اس جگہ ڈھیر بن جاتا۔ یہ عجیب بات ہے کہ ایسا رواج چین میں بھی ہے لیکن اس کی روایت مختلف ہے۔ وہ کچھ یوں ے ، جب کوئی کسی کا عزیز کہیں دور فوت ہو جاتا اور اس کی قبر کی جگہ اسی طرح چورا تیار کیا جاتا۔ بعض جگہوں پر ایک پتھر پر اس کی تصویر بنا کر لگا دی جاتی ۔ ایران میں فتح علی شاہ قا چار کی قبر پر اس طرح بنائی گئی ہے۔ وادی سون میں مشہور چورے درج ذیل ہیں۔

دادے بھٹی دا چورا

یہ ایک ڈھول بجانے والے کی یادگار ہے جو جنگ کے دوران ڈھول بجاتے ہوئے مارا گیا لیکن اگر چہ سرتن سے جدا ہو گیا مگر پھر بھی وہ ڈھول اس وقت تک بجاتا رہا جب تک اس کا سارا خون ختم نہیں ہو گیا اور وہ گر نہیں گیا۔ یہ جگہ مردوال ہائی سکول کے پاس ہے۔ اس کی اولا د بچے کی پیدائش کی خوشی میں وہاں جا کر بکرا ذبح کر کے گوشت برادری میں تقسیم کرتی ہے۔

چورا داد گولڑہ

حضرت عبد اللہ عرف دادا گولڑہ وادی سون کی اعوان برادری کے جد امجد تھے۔ وہ خانقاہ ڈوگراں میں شہید ہو گئے کچھ مدت کے لئے کٹھواہی کے قریب اماتنا دفن رہے پھر بغداد لے جائے گئے۔ اس جگہ چورا بنایا گیا۔ اب اس جگہ شاندار مسجد ہے اور اس کا بلند بالا مینار میلوں سے نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی مختلف جگہوں پر چورے ہیں گو ہر والا چوره نور خان والا چورہ – چوره زعان شاہ چورہ دامن یہ سب چورے کسی نہ کسی کی یاد کو تازہ کرنے کے لئے بنائے گئے ہیں لیکن ان کا رواج صرف پہاڑی علاقے میں ہی ہے کیونکہ پتھر آسانی سے مل جاتے ہیں۔

تالاب

بارانی علاقے ہونے کی وجہ سے جگہ جگہ پانی اکھٹا کرنے کے لئے تالاب بنائے گئے بعض تالاب صدیوں پرانے ہیں۔ ریگستانی علاقے میں ایسی جگہ کو ٹو بھر کہتے ہیں جبکہ پہاڑی علاقے میں بن کہتے ہیں۔ ایسی جگہ پر بھی لوگ آباد ہو جاتے ہیں جیسے پیلو ونی ڈھوک سترہ کی بن یا تالاب ۔ یہ تالاب سون وادی کا سب سے بڑا تالاب ہے یہ تقریبا سات بیگھہ کے رقبے پر پھیلا ہوا۔ اس کے چاروں طرف سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں نیچے پختہ فرش بھی ہے اس کے اوپر چبوترے بنے ہوئے ہیں۔ لوگ دور دور سے پانی بھر کر لے جاتے ہیں۔

تالاب مردوال

یہ بھی کافی بڑا ہے ساتھ مجد ہے لیکن اس کا پانی رنگ تبدیل کر جاتا ہے راقم نے جب مسجد میں وضو کرنے کا ارادہ کیا تو سبز رنگ دیکھ کر ڈر گیا۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ تالاب یعنی چھر سے بلایا گیا ہے۔ لوگ ان میں ہی نہاتے تھے کپڑے دھوتے تھے۔ جانور پیشاب کر دیتے تھے لیکن مجبوری یہ تھی کہ اس کے علاوہ کوئی اور ذریعہ نہ تھا تالاب تو واٹر سپلائی کی بدولت دور دور تک چشموں کا پانی پہنچایا جار ہا ہے۔ زمانہ قدیم میں لوگ جانوروں پر میلوں دور چل کر پانی لاتے تھے۔ گھر کے اکثر افراد کی ڈیوٹی ہی یہی ہوتی تھی کہ وہ دو وقت صبح شام جا کر پانی ملے آئیں۔ ان کے علاوہ درج ذیل تالاب وادی سون نہیں ہیں۔ قلعہ تلاجھہ میں بھی ایک بڑا تالاب ہے۔ تالاب کھبیکی ، سوڈھی وغیرہ ہیں ان کے علاوہ قدیم زمانے کے کنویں بھی ابھی تک کام دے رہے ہیں جن میں کنواں شکر کوٹ ، واں کری سکھاں والا، کلیال. کنواں ، واں کھوڑہ وغیرہ ہیں۔

 

یہ مضمون شیخ محمد حیات کی کتاب "ضلع خوشاب تاریخ کے آئنے میں "سے لیا گیا ہے

 

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com