مغلیہ دور حکومت
مغلیہ خاندان کا بانی ظہیر الدین بابر وسط ایشیا کے موجودہ ملک ازبکستان کا رہنے والا تھا۔ اس کا تعلق دو عظیم خاندانوں سے تھا۔ باپ کی طرف سے وہ ایشیا کے عظیم فاتح امیر تیمور کے خاندان سے تھا اور ماں کی طرف سے وہ عظیم فاتح چنگیز خان کی نسل سے تھا۔ اس کی ماں کا نام تلغ نگار خانم اور باپ کا نام عمر شیخ مرزا تھا۔ بابر کی ذات میں ترکوں والا استقلال، منگولوں والی بر بریت اور اسرانیوں والا ادبی ذوق سب جمع ہو گئے تھے۔ اگر پانی پت اور کنواہ میں اس نے تیموری اور چنگیزی روایات کو نمایاں کیا تو تزک بابری اس کے ایرانی ادبی ذوق کا آئینہ دار ہے۔ 1483ء میں جب اس کی عمر 12 سال تھی تو فرغانہ کا بادشاہ بنا لیکن باوجود کوشش کے وہ اپنی آبائی ریاست قبضے میں نہ رکھ سکا کیونکہ وسط ایشیا میں اس کے مقابلے شیبانی جیسے طاقتور حکمران آگئے تھے۔ اس لئے اس نے اپنی تمام تر کوشش بر صغیر کو فتح کرنے کے لئے وقف کر دی جس میں وہ کامیاب رہا۔
کاہل میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے بعد بابر نے 1519ء میں بھیرہ پر حملہ کیا۔ اس وقت بھیرہ دریا کے دائیں کنارے خوشاب کی طرح تھا۔ ان دونوں شہروں کا ذکر تزک بابری میں بڑی وضاحت سے کیا ہے۔
پانی پت کی پہلی لڑائی :
یہ لڑائی بابر اور ابراہیم لودھی کے درمیان پانی پت کے میدان میں 1526ء کولڑی گئی جس میں ابراہیم لودھی اپنے سولہ ہزار جانثاروں کے ساتھ مقابلے میں کام آیا۔ بابر کی فتح اس کے توپ خانے کے سبب ہوئی۔ ہندوستانیوں کے لئے یہ نیا تجربہ تھا۔ اس کے نتیجے میں لودھی خاندان کی حکومت کا چراغ گل ہو گیا۔ مغلیہ خاندان کا تخت دہلی پر قبضہ ہو گیا۔ اس کے بعد رانا سانگا کے . ساتھ 1527ء میں جنگ کنواہ ہوئی جس میں تو پوں کے بل بوتے پر فتح نصیب ہوئی اور مختصر عرصے میں سلطنت دہلی کی سرحدیں بحال ہو گئیں لیکن فتح کے بعد بابر 1530 ء میں وفات پا گیا اور اس کی وصیت کے مطابق آگرہ سے اس کا تابوت کابل لے جایا گیا اور اس کے پسندیدہ باغ میں دفن کیا گیا جس کے حوض پر بابر کا شعر کندہ ہے۔
نوروز و نوبهار و مه دلبری خوش است
بابر بہ عیش کوش که عالم دوباره نیست
جنگ کنواہ میں بابر نے مے نوشی سے تو بہ کر کے پھر اسے ہاتھ نہ لگایا۔ باقی زندگی شریعت کے مطابق بسر کی۔
نصر الدین ھمایوں (1530-1540) (1555-1556) :
ھمایوں نے والد کی وصیت کے احترام میں سلطنت اپنے بھائیوں میں بانٹ دی۔ کامران کو کابل وقندھار ، ھندال کو الور اور عسکری کو سنبھل کا حاکم بنایا لیکن بھائی ہی ھمایوں کے لئے دردسر بن گئے اور ان کی دیکھا دیکھی مقامی لوگ بھی شیر ہو گئے ۔ شیر خان نے دوسری طرف چوسہ کے مقام پر ھمایوں کو شکست دے کر تخت دہلی پر قبضہ کر لیا اور ھمایوں بھیرہ اور خوشاب سے ہوتا ہوا ۔ عازم ایران ہو گیا جہاں وہ شیر شاہ کی وفات کے بعد تک قیام پذیر رہا اور آخر جب حالات سازگار ہو گئے تو شاہ طہماسپ صفوی کے لشکر کی مددسے کا بل قندھار کو فتح کرتا ہوا سکند رسوری پر حملہ آور ہوا اور 1555ء میں اسے شکست دے کر تخت دہلی پر قابض ہو گیا لیکن باپ کی طرح اسے بھی حکومت راس نہ آئی 1556ء میں فوت ہو گیا۔ اکبر نے اس کی اس قبر پر دہلی میں شاندار مقبرہ بنوایا جو ابھی تک مغل دور کی شاندار نشانی ہے۔
سوری خاندان (1540-1555) :
شیر شاہ سوری (1540-1545) :
شیر شاہ کا اصل نام فرید خان تھا۔ اپنی خدا داد صلاحیتوں کی وجہ سے چوسہ کے مقام ھمایوں کو شکست دے کر تخت دہلی پر قابض ہو گیا۔ کالنجر کے قلعے کا محاصرہ کئے ہوئے تھا کہ بارود کو آگ لگ گئی۔ یہ پاس کھڑا ہونے کی وجہ سے بری طرح جھلس کر فوت ہو گیا ۔ شیر شاہ ایک قابل جرنیل ہونے کے ساتھ اعلی انتظامی صلاحیتوں کا بھی مالک تھا۔ اس نے علاؤالدین خلیجی کے انتظامی ڈھانچے کو پھر سے نافذ کیا جس کی بنیاد عدل وانصاف ،سماجی بہبود اور مذہبی رواداری پر تھی ۔ سلطنت کو 47 صوبوں میں تقسیم کیا۔ تمام زمین کی پیمائش کرائی اور کل پیداوار کا 114 حصہ لکان مقرر کیا۔ اس نے خوبصورت سکے ڈھلوائے جو اپنی مثال آپ ہیں ۔ اس مختصر دور حکومت میں اس کے تعمیری کارناموں نے اسے تاریخ میں ایک خاص اہمیت کا حامل بنا دیا۔ انتظامی ضروریات کے تحت اس نے چار سڑکیں تعمیر کروائیں ۔ اس کی سنار گاؤں سے پشاور تک جرنیلی سڑک آج تک مشہور ہے۔ جہلم کے قریب رہتاس کا قلعہ تعمیر کرایا۔ خوشاب میں عید گاہ، شاہی مسجد ، تالاب، ستگھرہ ، ۔ گنجیال اور بولا کی باولیاں اس کی بہترین یادگاریں ہیں۔ رہتاس کی تعمیر کے سلسلہ میں کافی عرصہ خوشاب میں رہا۔ خوشاب کے پاس دریا پر کشتیوں کا پل بنوایا۔ شیر خان کی وفات کے بعد اس کا بیٹا جلال خان اسلام شاہ کے لقب سے تخت نشین ہوا۔ اس کے عہد میں ہیبت خان نیازی نے بغاوت کی لیکن اسے کچل دیا گیا۔ آخر 2 155ء میں فوت ہو گیا۔ اس کے بعد عادل شاہ سوری ، پھر ابراہیم شاہ سوری یکے بعد دیگرے بادشاہ بنے اور آخر سکن در سوری نے تخت دہلی پر قبضہ کر لیا لیکن اس عرصے میں ھمایوں 15 سالہ جلاوطنی کے بعد ایرانی لشکر لے کر واپس آگیا اور اس نے سکند رسوری کو شکست دے کر دوبارہ حکومت پر قبضہ کر لیا اور سوری خاندان کا خاتمہ ہو گیا۔
جلال الدین محمد اکبر (1556ء تا 1605ء) :
ھمایوں کی وفات کے بعد بیرم خان نے موقع کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے فوراً اکبر کی بادشاہت کا اعلان کر دیا اور خود وزیر اعظم کی حیثیت سے تمام اختیارات سنبھال لئے ۔ اسی اثناء میں ہمیوں بقال نے دہلی پر قبضہ کر کے راجہ بکرماجیت بن گیا۔ اکبر اس وقت سرہند میں تھا۔ بیرم خان نے اپنی حالت کمزور ہونے کے باوجود مقابلہ کرنے کا مشورہ دیا۔ بیرم خان نے ہر اول دستے کے طور پرعلی قلی شیبانی کو بھیجا جس نے چھاپہ مار کرتوپ خانہ چھین لیا جس سے اکبر کی فوج کے حوصلے بڑھ گئے ۔ ہمیوں کے پاس ایک لاکھ فوج دو ہزار جنگی ہاتھی تھے۔ مغلوں کی کل فوج 25 ہزار تھی۔ جب فوجوں کا آمنا سامنا ہوا تو مغلوں کے گھوڑے ہاتھیوں سے بدکنے لگے۔ مغلوں نے گھوڑوں سے اتر کر مقابلہ شروع کیا۔ ہمو ہاتھی پر سوار تھا۔ ایک تیر اسکی آنکہ میں جالگا جس سے وہ گر گیا اور اس کی فوج بھاگ کھڑی ہوئی ۔ مغلوں کو بہت مال غنیمت ہاتھ لگا اور ملک پر دوبارہ قبضہ ہو گیا۔ اکبر نے اپنے دور میں ہمیشہ فوج کو مصروف رکھا اور علاقوں پر علاقے فتح کرتا گیا۔ اس نیے راجپوتوں کو ساتھ ملانے کے لئے ان کی بیٹیاں حرم میں داخل کیں۔ جہانگیر کی ماں اور بیوی دونوں راجپوت تھیں ۔ اس کی ماں پورن مل کی بیٹی اور راجہ بھگوان داس کی بہن تھی اور بیوی بھگوان داس کی بیٹی تھی ۔ اکبر کی حدود سلطنت مشرق میں بنگال سے لے کر مغرب میں بلوچستان تک اور شمال میں کابل سے لے کر راس کماری تک پھیل گئیں۔ یہ ایک بڑی سلطنت تھی نہیں کا انتظام اکبر نے اپنے قابل مشیروں کے ذریعے کیا۔ آخر بڑے جاہ و جلال سے حکومت کرنے کے بعد فوت ہو گیا اور اس کے بعد جہانگر سلطنت کا وارث بن گیا۔ گروٹ میں شاہی مسجد کبر کی یادگار ہے۔
نورالدین جہانگیر (1605ء تا 1627ء) :
جہانگیر اس لحاظ سے خوش قسمت تھا کہ اسے ایک وسیع سلطنت ورثے میں ملی ۔ اس کے عہد میں اس کے بیٹے خسرو نے بغاوت کی لیکن اسے بہت کڑی سزا دی گئی ۔ اسے بیٹریاں اور ہتھکڑیاں لگا کر کابل کا سفر کرایا گیا لیکن جب جہانگیر نے دیکھا کہ اس میں بغاوت کا نشہ ابھی باقی ہے تو اس کی آنکھوں میں سلائی پھرا کر اندھا کر دیا گیا۔ جہانگیر نے اپنے والد کی زندگی میں ہی بہت ہندو خاندانوں میں شادیاں کیں ۔ پہلے بھگوان داس کی بیٹی مان بائی سے شادی کی ۔ اس سے خسرو پیدا ہوا جو باغی ہو گیا۔ اس کے بعد او سے سنگھ کی بیٹی جگت کو سائیں عرف جودھا بائی سے کی جس سے شہزادہ خرم ( شاہجہان ) پیدا ہوا۔ 1590ء میں رنجہ کیشور داس راٹھور کی بیٹی سے کی جس سے ایک لڑکی پیدا ہوئی ۔ لیکن ان تمام میں جو اقبال اور شہرت دوام نور جہان کو حاصل ہوئی وہ کسی دوسری کے حصے میں نہ آئی ۔ نور جہاں سے شادی 1611ء میں کی ۔ مہابت خان نے بغاوت کر کے جہانگیر کو قید کر لیا۔ یہ سانحہ دریائے جہلم کے کنارے کابل جاتے ہوئے پیش آیا۔ نور جہاں نے بڑی حکمت سے کابل میں جہانگیر کو رہائی دلوائی۔ جہانگیر دمے کا مریض تھا 1627ء میں کشمیر کی واپسی پر مہر کے قریب فوت ہوکر لاہور میں دفن ہوا۔
شہاب الدین شاہجہان (1628ء تا 1658ء) :
شاہجہان کا اصل نام دادا نے خرم رکھا۔ اسے دادا اور دادی سے بڑی محبت تھی اور ان کی نگرانی میں ہی پروان چڑھا۔ باپ کی بغاوت کے وقت بھی دادا کے پاس رہ کر اس کی وکالت کر کے اکبر کو انتہائی قدم اٹھانے سے باز رکھا۔ اس نے تین شادیاں کیں جو تعلق آصف خان کی بیٹی ارجمند بانو سے تھاوہ کسی اور سے نہیں۔ اسے ممتاز محل کا خطاب دیا۔ اس کے علاوہ مظفر خان کی بیٹی نے پہلی شادی کی اور تیسری عبدالرحیم خان خانان کی پوتی سے کی لیکن بدقسمتی سے ممتاز محل بادشاہ بننے کے تیسرے سال 1631ء میں وفات پاگئی مگر شاہجہان نے اس کے ساتھ محبت کا جو نشان چھوڑ اوہ تاج محل کی شکل میں رہتی دنیا تک یادگار رہے گا۔
جانشینی کی جنگ :
1657ء میں شاہجہان شدید بیمار ہوا ۔ بڑا شہزادہ دادا اس کے پاس تھا۔ شجاع بنگال میں اور نگزیب دکن ہیں اور مراد گجرات میں جاکم تھا۔ یہ سب بھائی اپنی اپنی جگہ بادشاہت کے لئے ہاتھ پاؤں مارنے لگے۔ آخر کار اور نگ زیب سب پر حاوی رہا اور اس نے شاہجہان کو آگرے کے قلعے میں نظر بند کر دیا۔ شاہجہاں کا عہد استحکام اور خوشحالی کے لئے منفرد ہے ۔ اس طرح بادشاہ کا انجام اور تحقیقی بھائیوں کی لڑائی والد کی زندگی میں خونریز جنگ ہوئی۔ صرف اس کی بیٹی جہاں آراء باپ کی تنہائی کا واحد سہارا تھی۔ اس نے اپنی شگفتہ کلامی اور پر خلوص جذ بہ خدمت سے شاہجہان کی زندگی کی تلخیوں کوحتی الوسع کم کرنے کی کوشش کی۔
ایک دفعہ شاہجہان نے اور نگ زیب سے بچے پڑھانے کی اجازت کی تو اس نے جواب میں کہا کہ ابھی بادشاہت کی خواہش اس کے دماغ سے نہیں گئی ۔ شاہجہان نے اپنے عہد میں دہلی کی جامع مسجد اور لال قلعہ، آگرہ میں تاج محل بنوائے ۔ اسی طرح تخت طاؤس بھی اس کا شاہکار ہے۔
اور نگ زیب عالمگیر (1658ء تا 1707ء) :
اورنگ زیب عالمگیر تمام بھائیوں کو شکست دے کر بادشاہ بنا۔ اس سے برادر کشی کی۔ ایسی مثال قائم ہوئی جو آئندہ مغلیہ سلطنت کا زوال بنی۔ اور نگ زیب نے والد کو قید میں رکھا۔ مغلیہ خاندان میں سب زیادہ عرصہ حکومت کرنے کے باوجود زوال کو روکا نہ جاسکا۔ اور نگ زیب کا زیادہ وقت دکن میں گزرا جس کی وجہ سے پنجاب میں سکھوں نے پر پرزے نکالنے شروع کر دیئے ۔ اس کی اولاد میں بھی وہ دم خم نہ رہا اوتھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد معزول ہوتے رہے۔ اور نگ زیب کی پنجاب میں واحد نشانی بادشاہی مسجد لاہور ہے جو اس کے رضائی بھائی فدائی خان کو کہ جو پنجاب کا گورنر تھانے بنوائی ۔ اس پر اس وقت کے حساب سے چھ لاکھ روپیہ خرچ آیا ۔ 1707ء میں 90 سال کی عمر میں فوت ہوئے۔ ان کا پچاس سالہ عہد کامیاب حکمران کی حیثیت سے گزرا اور آخر دم تک امور مملکت پر مکمل گرفت رہی ۔ وہ اعلی پایہ کے صاحب سیف و قلم تھے۔ اس کا سب سے اہم امتیاز مذہب سے اس کی پر خلوص وابستگی ہے۔
شاہ عالم بہادرشاہ (1707 ء تا 1712ء) :
عالمگیر کی وفات کے بعد معظم شاہ عالم شاہ بہادر شاہ کے لقب سے بادشاہ بن گیا۔ اس نے اپنے بھائیوں اعظم اور کام بخش کو ختم کیا۔ آخر 71 سال کی عمر میں فوت ہو گیا۔ اس کے بعد جہاندادشاہ نے 1712ء تا 1713 ء حکومت کی۔ اس نے بھی برادرکشی بلکہ خاندان کشی کی اور آخر فرخ سیر نے شکست دے کر قتل کر دیا۔ اسے سید بھائیوں کی حمایت حاصل تھی ۔
فرخ سیر (1713 ء تا 1714ء) :
فرخ سیر برائے نام بادشاہ تھا، اصل طاقت سید برادران حسن علی اور عبداللہ کے پاس تھی ۔ آخر انہی کی وجہ سے اسے قتل کر دیا گیا۔ اس کے عہد کا کارنامہ بندہ بیراگی کا خاتمہ ہے۔ اس کے بعد رفیع الدرجات (1719 ء تا 1719 ء) صرف دس ماہ بعد ٹی بی کے مرض سے فوت ہو گیا۔ اس کے بعد رفیع الدولہ تین ماہ بادشاہی کرنے کے بعد چل بسا۔
روشن اختر محمد شاه (1720-1748) :
روشن اختر المعروف محمد شاہ کا زمانہ افراتفری کا ہے۔ اس نے سید برادران سے خلاصی حاصل کی لیکن نادر شاہ کے حملے نے ملک کو کنگال کر دیا مغلیہ سلطنت کے زوال کی رفتار کو تیز ترکر دیا۔ دہلی کو جی بھر کرلوٹا گیا اورقتل عام کیا گیا۔
احمد شاہ (1748ء تا1754ء) :
محمد شاہ کے بعد احمدشاہ تخت دہلی پر بیٹا لیکن پرلے درجے کا عیاش نکلا۔ اس کے عہد میں نادر شاہ کے جرنیل احمد شاہ ابدالی نے حملوں کا سلسلہ شروع کیا۔ اس کا پہلا حملہ 1748ء میں ہوا ۔ آخری حملہ 1767ء میں ہوا۔ اس عرصے میں ملک کی حالت بد سے بدتر ہوتی گئی۔ سکھ اور مرہٹے امن عامہ کو تباہ کرنے میں پیش پیش تھے۔ ابدالی نے بھی ان کو دبانے کی کوشش کی لیکن سکھوں نے چھاپہ مار جنگیں لڑنے میں نقیمت کبھی ۔ اس طرح ان کی طاقت بچی رہی اور احمد شاہ ابدالی کی وفات کے بعد ان کو کوئی روکنے والا ہی نہ تھا۔ آخر احمد شاہ کو غازی الدین نے گرفتار کر کے قتل کر دیا۔
عالمگیر ثانی (1754 ء تا1759 ء) :
یہ برائے نام بادشاہ تھا عمر 55 سال تھی جو قید میں گزری۔ تمام اختیارات غازی الدین وزیر اعظم کے پاس تھے ۔ سلطنت صرف دہلی کے آس پاس تک تھی۔
شاہ عالم ثانی (1459 ءتا1806ء) :
یہ انگریزوں کا پینشن خوار بن گیا۔ اس کے بعد شاہ عالم ثانی 30 برس برائے نام بادشاہ رہا۔ 1838 ء میں بہادر شاہ ظفر بادشاہ بنا۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد رنگون جلا وطن ہوا۔ 1861ء میں فوت ہو کر سلطنت مغلیہ کا چراغ گل کر گیا۔
یہ مضمون شیخ محمد حیات کی کتاب "ضلع خوشاب تاریخ کے آئنے میں "سے لیا گیا ہے