جلال الدین خوارزم شاہ
جلال الدین محمد خوارزم شاہ سلطان علاؤ الدین خوارزم شاہ کے سات بیٹوں میں سے جرات اور دلیری میں سب سے بڑھا ہوا تھا۔ اس نے چنگیز جیسے عظیم فاتح کا مقابلہ کیا۔ وہ چونکہ گردش زمانہ کے سبب ہمارے علاقے میں آیا اس لئے اس کے حالات زندگی درج کئے جاتے ہیں۔ خوارزم کا علاقہ وسط ایشیا میں ہے اور آج کل یہ ازبکستان کہلاتا ہے۔ سلطان علاؤالدین ایک بہت بڑی سلطنت کا مالک تھا لیکن اس نے بڑی فوج اور طاقت ہونے کے باوجود چنگیز خان کا مقابلہ کرنے کے بجائے جان بچا کر بھاگا اور کسمپرسی کی حالت میں ایران میں فوت ہو گیا اور کفن بھی نصیب نہ ہوا۔ اس نے اوزلاق کو ولی عہد بنایا لیکن یہ بھی مغلوں کے سامنے نہ ٹھہر سکا۔ سلطان جلال الدین محمد کے متعلق چنگیز خان بھی پوری معلومات رکھتا تھا۔ چنانچہ اس نے تعاقب شروع کر دیا۔ جلال الدین نے خوارزم سے اپنی جاگیر غزنی کا رخ کیا لیکن چنگیز بھی سائے کی طرح اس کے پیچھے لگا ہوا تھا۔ وہ بہت جلد وہاں پہنچ گیا۔ سلطان نے ایلدرک ملک کو ایک دوراہے پر کھڑا کیا تا کہ مغل فوج کو کچھ دیر کے لئے روکے رکھے۔ جب اس میں مقابلے کی طاقت نہ رہی تو وہ اس طرف بھاگا۔ جس طرف سلطان نہیں گیا تھا۔ اس طرح مغل اس چال میں آگئے اور سلطان ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔ جب منگول مایوس ہو کر چلے گئے اور تو سلطان دوبارہ غزنی میں داخل ہو گیا۔ سلطان کی آمد کا حال معلوم ہونے پر رعایا بڑی خوش ہوئی ۔ امین ملک پچاس ہزار فوج کے ساتھ آ موجود ہوا۔ سلطان نے موسم سرما غزنی میں ہی گزارا۔ سیف الدین اغراق بھی چالیس ہزارسواروں کے ساتھ سلطان کی خدمت میں پہنچ گیا ۔ موسم بہار میں سلطان کو معلوم ہوا کہ منگولوں کا لشکر پیروان کا محاصرہ کئے ہوئے ہے۔ سلطان نے فوراً ان پر حملہ کر کے شکست دی اور مال غنیمت فوج میں تقسیم کر دیا۔ چنگیز خان کو جب اس شکست کی خبر ملی تو اس نے اپنے جرنیل شیکی قو تو قو کو سلطان کے ساتھ لڑنے کے لئے بھیجا۔ سلطان کو اس لشکر کے آنے کی خبر ہوئی تو اس نے آگے بڑھ کر صفیں درست کیں ۔
سلطان نے دائیں طرف امین ملک اور بائیں طرف سیف الدین اغراق کو مقرر کیا۔ درمیانی حصہ میں سلطان خود موجود رہا۔ سلطان نے حکم دیا کہ سب فوج گھوڑوں سے اتر کر پیادہ مقابلہ کرے۔ چونکہ سلطان کی بائیں بازو کی فوج منگولوں سے زیادہ تھی اس لئے دشمن کے جلد ہی پاؤں اکھڑ گئے ۔ دونوں طرف سے خوب مقابلہ ہوا لیکن کسی نے بھی پیٹھ نہ دکھائی۔ رات ہو جانے سے طرفین اپنے اپنے خیموں میں چلے گئے۔ دوسرے دن منگولوں نے سلطان کو دھوکا دینے کے لئے سواروں کے پیچھے بت رکھ دیئے تاکہ مسلمانوں کو مزید کمک آجانے کا دھوکا دیا جا سکے۔ سلطان کی فوج ڈری تو سہی لیکن سلطان نے حوصلہ دیا اور تیروں سے دشمن کے منہ پھیر دیئے جب دشمن نے کمزوری دکھائی تو سلطان نے نقارہ بجا کر اس زور سے حملہ کیا کہ دشمن اپنے پیچھے بے شمار لاشیں چھوڑ کر بھاگ گیا۔ جو بچے وہ چنگیز خان کے پاس جا کر فریادی ہوئے۔
جب چنگیز خان کو اس شکست کی خبر ملی وہ اس وقت طالقان کی مہم سے فارغ ہو چکا تھا اور وہ بجلی کی طرح بے انداز لشکر کے ساتھ سلطان پر حملہ آور ہوا۔ سلطان نے مقابلہ کی تاب نہ لا کر دریائے سندھ کو عبور کر کے کشتیاں بنانے کا حکم دیا لیکن چنگیز نے مہلت نہ دی اور سر پر پہنچ گیا۔ جب صبح ہوئی تو سلطان نے ایک طرف دریا اور دوسری طرف چنگیز کی ٹڈی دل فوج کو پایا پھر بھی ہمت نہ ہاری اور لڑنے پر آمادہ ہو گیا۔ سلطان دو پہر تک چٹان کی طرح ڈٹا رہا۔ جب جنگ کا دائرہ سلطان پر تنگ ہو گیا تو اس نے تازہ دم ہو کر گھوڑا تیار کرنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد عزیزوں، دوستوں کو آنسو بہاتی آنکھوں اور غمگین دل کے ساتھ الوداع کہا۔ جب گھوڑا آ گیا تو سلطان ایک دفعہ پھر لشکر میں گھس گیا۔ اور راستہ بنا کر باگ موڑی اور جسم سے زرہ بکتر اتار پھنکا۔ گھوڑے کو چابک مارا اور چٹان سے سیدھا دریا میں کو گیا اور شیر کی مانند دیکھتے ہی دیکھتے دریا کو عبور کر گیا۔ چنگیز خان اور اس کے جرنیل حیرانی سے منہ میں انگلیاں ڈالے کھڑے سلطان کے حوصلے کی داد دے رہے تھے۔ ادھر سلطان نے پار جا کر زمین پر نیزہ گاڑ کر اس پر اپنا تاج رکھ دیا اور خود دم لینے لگا۔ چنگیز نے بیٹوں کو مخاطب ہو کر کہا۔ مبارک ہیں وہ مائیں جو ایسے شیروں کو دودھ پلاتی ہیں چونکہ سلطان آگ اور دریا سے بچ کر نکل گیا ہے اس لئے یہ ہمارے لئے بڑے بڑے تباہی کا سامان پیدا کرے گا۔ اگر یہ زندہ رہا تو ہماری خیر نہیں۔ چنگیز نے سلطان کا مقابلہ کرنے کے لئے تو ربائی نقشی کو بھیجا جو سلطان کے تعاقب میں خوشاب ہوتا ہوا شاہپور تک آیا لیکن سلطان کوهستان نمک میں تلاجھہ میں چلا جانے سے اس کے ہاتھ نہ آیا اور وہ اس علاقے کو لوٹ کر واپس چلا گیا۔
سلطان نے آہستہ آہستہ تمام کوهستان نمک پر قبضہ کر کے منگولوں کو بھگا دیا۔ اس نے بوچھال کلاں کے قریب اپنے وطن کی یاد میں ایک قلعہ بنوایا اور اسکا نام سمرقند رکھا جو ابھی تک موجود ہے۔ یہاں تلاجھہ کے قلعہ میں مسجد کی محراب ابھی باقی ہے۔ تلاجھہ اصل میں تل آن جا تھا مطلب اونچی پہاڑی ہے۔ سلطان نے یہاں سے اتش اور قباچہ کے پاس سفارت بھیجی کہ وہ منگلوں کے مقابلے میں اس کی مدد کریں۔ انتش اور قباچہ سلطان کی جنگی قابلیت نے واقف تھے۔ اس لئے حکمت سے ٹال دیا لیکن سلطان بھی کب ملنے والا تھا۔ اس نے یہاں کے کھوکھر اور جنوع قبائ کو ساتھ ملا کر تا ہ پر حملہ کر دیا۔ قباچہ نے مقدور بھر مقابلہ کیا لیکن سلطان کے سامنے نہ ٹھہر سکا۔ سلطان نے اس کے دار الحکومت اُچ کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ اس کے بعد سلطان کا سندھ اور ملتان پر بھی قبضہ ہو گیا۔ سلطان کی یہ جد و جہد 1220ء سے 1231 ء تک رہی۔ اس کے بعد اگرچہ سلطان خود ایران چلا گیا لیکن یہاں پر اپنے جرنیل سیف الدین قرلاغ کو چھوڑ گیا۔ جس نے یہاں پر ۔ 1224ء سے 1266 ء تک حکومت کی اور اس نے یہاں پر اپنے نام پر سکے بھی جاری کئے جو اس علاقے میں کثیر تعداد میں ملتے ہیں۔ اس کے سکے چٹہ میں استاد محترم کریم بخش صاحب کے پاس بھی ہیں ۔ ان سکوں کا ذکر شاہپور گزٹیئر میں بھی کیا گیا ہے۔ پہلے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ سکوں پر جلال الدین کی بجائے قرلاغ کا نام کیوں ہے، اب یہ عقدہ کھلا ہے کہ وہ یہاں پر جلال ۔ الدین کی طرف سے گورنر مقرر تھا اور اسکی وفات کے بعد خود مختار حاکم بن گیا۔
جو نہی جلال الدین خوارزم شاہ اور کھوکھروں کے درمیان فوجی اتحاد کی خبریں چنگیز خان کو ملیں اس نے اپنے ایک جرنیل طر طائی کو اس کے پیچھے روانہ کیا۔ طر طائی نے بھیرہ کے قریب دریائے جہلم کو عبور کیا۔ اس کے بعد بھیرہ سے سینکڑوں کشتیوں کے ذریعے خوشاب پہنچا۔ یہاں اس نے تمام علاقہ برباد کر دیا یہاں سے خوراک کے ذخیرے لوٹ لئے اور مال واسباب چھین کر لے گیا۔ اس وقت خوشاب میں کھو کھروں اور کوھستان میں جنجوعوں کی حکومت تھی۔ کھوکھروں نے جلال الدین کے جرنیل ازبک پائی سے اتحاد کر لیا تھا جس کی سزا انہیں دی گئی۔ پھر منجنیقوں میں رکھ کر پھینکے جاتے تھے جس سے دیوار میں ٹوٹ جاتی تھیں۔
تاریخ فرشتہ میں ہے کہ 16 اگست 1227ء کو چنگیز خان وفات پا گیا۔ چنگیز خان کے بیٹے چغتائی نے جب جلال الدین خوارزم شاہ کا تعاقب کیا تو اس نے دریائے سندھ کے کنارے چالیس ہزار مقامی مسلمان قیدیوں کو اس بہانے سے قتل کر دیا کہ ان کی موجودگی سے منگول لشکر کی ہوا میں بدبو پیدا ہوگئی ہے۔ سلطان جلال الدین خوارزم شاہ نے گیارہ سال تک مغلوں کے خلاف بڑی بہادری سے جنگیں لڑیں۔ یہ وہ وقت تھا جب کوئی مسلمان منگولوں کا سامنا نہیں کرتا تھا۔ نسیم حجازی نے اپنا ناول آخری چٹان خوارزم شاہ کے متعلق ہی لکھ کر خراج تحسین پیش کیا۔ وسط ایشیا میں اب آزادی کے بعد جلال الدین ہیرو کا درجہ اختیار کر گیا ہے اور اس کے مجسمے بنا کر لگائے گئے ہیں۔ اور سکوں پر بھی اس کی تصویر موجود ہے۔ واقعی وہ اسی شان کا مالک تھا۔ وہ واحد مسلمان حکمران تھا جس نے چنگیز کے سامنے سینہ سپر ہو کر مقابلہ کیا۔
یہ مضمون شیخ محمد حیات کی کتاب "ضلع خوشاب تاریخ کے آئنے میں "سے لیا گیا ہے