پکو ساقی اور ایرانی دور حکومت
چھٹی صدی قبل مسیح کے وسط میں گندھارا کا بادشاہ پکوساقی تھا۔ اس کو سنسکرت کی کتابوں پشکر ساری کہا گیا ہے۔ اس کا پایہ تخت تکش ملا تھا۔ اس زمانے کی مقامی پر ا کرتی تلفظ نکھ ملا تھا۔ اس ریاست میں موجود پورا پنجاب تھا۔ کشمیر بھی اس وقت شامل تھا۔ اس زمانے میں تین بڑے شاہی خاندان تھے جو وسیع علاقوں کو ایک سیاسی لڑی میں پرونے کی کوشش کر رہے تھے۔
بھی سار خاندان
مہاتما بدھ کے زمانے میں مگدھ کا بادشاہ بھی سارتھا۔ اس نے اپنی ریاست کو بیرونی حملوں سے بچانے کیلئے بہت سے حکمرانوں کے خاندان میں شادیاں کیں، اس نے تقریباً 52 سال حکومت کی۔ وہ بدھ مت کا عقیدت مند اور پر جوش بدھ تھا۔ قدیم بدھ اور یونانی تصانیف تھے پکو ساقی نام کے بادشاہ کے جو تذکرے ملتے ہیں ان سے بڑی دلچسپ اور حیرت انگیز معلومات ملتی ہیں جس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ با ہر ایک وسیع سلطنت کا نہ صرف حاکم تھا بلکہ دولت مند بھی تھا کیونکہ ایک طرف اس کے مگدھ کے راجہ بھی سار سے قریبی تعلقات تھے تو دوسری طرف ایشیائے کو چک کی ریاستوں افغانستان، ایران اور عراق کے ملکوں سے اس کے تجارتی اور سفارتی تعلقات تھے ۔ وہ ان دور دراز علاقوں کے سیاسی معاملات میں عملی شرکت کرتا رہتا تھا اور بعض اوقات فوجی تعاون بھی کرتا تھا۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اس کا بعض ریاستوں سے فوجی ٹکراؤ بھی ہوتا رہا۔ بدھ مت کی ایک کتاب جس کا نام مجھما لگایا ہے اس کے ایک حصے کا نام دھاتوو بھگاتا ہے۔ اس کے ایک باب اٹھر کھا میں یہ کہانی درج ہے کہ ٹیکسلا کے کچھ تاجر جو مال تجارت لے کر راج گہر یبا گئے تھے ریاست مدھ کے بادشاہ کی خدمت میں پیش ہوئے اور انہوں نے اپنے بادشاہ پیکو ساقی کی تعریف و توصیف اس کے سامنے کچھ اس انداز میں کی جس سے متاثر ہوکر بھی سارنے ان کے ہاتھ تحائف پکو ساقی کو بھجوائے اور یوں ان دونوں کے درمیان اچھا رابطہ قائم ہو گیا اور دونوں حکمرانوں نے ایک دوسرے کے تاجروں کے لئے محصول معاف کر دیئے۔ پکو ساقی نے تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کیلئے پانچ نہایت قیمتی شالیں بطور تحفہ بھی سارکو ارسال کیں۔ اس نے جوابا پیتل کی ایک پلیٹ بھیجی جس پر مہاتما بدھ کی زندگی اور ان کی تعلیمات کندہ تھیں۔ اس کو پڑھ کر پکو ساقی اتنا متاثر ہوا کہ وہ راج گریبا جا کر بھی سارے ملا اور مہاتما بدھ سےملاقات کروانے کی خواہش ظاہر کی ۔
مہاتما بدھ سے ملاقات
کی دانی مہاتما بدھ اس زمانے میں راج گریہا میں مقیم تھا۔ یہیں پکو ساقی مہاتما کے پاس آیا اور اس نے مہاتما کا ایک وعظ سنا جس سے اس نے متاثر ہو کر بدھ مت قبول کر لیا۔ بدھ نے یہ درخواست قبول کرلی اور اسے بدھ مت میں داخل کر لیا۔ پکو ساقی نے بدھ چولا پہنا، ہاتھ میں کشکول گدائی پکڑا اور وہاں سے چل دیا۔ اسی پکو ساقی کے تعلقات سائرس اعظم (کوروش ) ایرانی بادشاہ کے علاوہ سلطنت ماد اور کلدانہ، آرمینیا اور لٹویا سے بھی تھے ۔ وہ مغربی ایشیائی ریاستوں کے سیاسی امور سے بھی واقفیت رکھتا تھا اور ان میں اس کا اثر و رسوخ بھی تھا۔ اس کے سفیر مغربی ایشیائی ریاستوں میں تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کچھ کلدانی لوگ اس کی فوج میں ملازم تھے ۔ اسی طرح یہاں کے لوگ هخامنشی فوج میں بھرتی کئے گئے تھے اور یہ دارا کے ہمراہ یونان پر حملے میں شریک تھے۔ اسی کے زمانے میں فیقی جنہوں نے دنیا کو حروف ابجد سے آشنا کیا وہ یہیں کے تھے اور انہوں نے لبنان اور شام میں تجارتی منڈیاں قائم کر لی تھیں۔ 630 ق م میں انہوں نے آشوریوں کی سلطنت کو وہاں ختم کر کے اپنی حکومت قائم کرلی۔ ان کے تعلقات بھی پکو ساتی سے اچھے تھے۔ وہ اپنے جہازوں کے ذریعے وہاں سے مال یہاں لاتے اور یہاں سے وہاں لے جاتے تھے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ گھونگے کی چوڑیوں کے ٹکڑے ہمارے کھنڈرات میں کثیر تعداد میں ملتے ہیں۔ وہ سمندر سے یہاں تک ان کے ذریعے ہی پہنچتے تھے۔دریائی بندرگاہ میں آ کر یہ لوگ اپنا مال تجارت سجاتے تھے اور لوگ خرید کر لے جاتے تھے۔ مہا بھارت میں یہ ذکر ہے کہ یہ مال تجارت کہاں سے آتا تھا۔ مثلاً افغانستان سے سونے کی تاروں کی کشیدہ کاری والے کپڑے مخمل کی شمالیں اور جانوروں کی کھالیں آتی تھیں، گجرات کاٹھیا وار سے گھوڑے آتے تھے، بھیرہ سے بکریاں بھیڑیں، بیل، گدھے، اونٹ ،شہد، کمبل اور جنگی پیداوار میں لائی جاتی تھیں۔ بلایا سے عورتیں اور عجیب و غریب پرندے لائے جاتے تھے۔
ٹیکسلا یونیورسٹی
پکو ساقی کے عہد میں یہ یونیورسٹی شہرت کے لحاظ سے عروج پر تھی۔ یہ صرف شاہی خاندانوں کے نوجوانوں کے لئے وقف تھی۔ ایک وقت میں یہاں 103 شہزادے زیر تعلیم تھے اور پھر بڑھتے بڑھتے طالب علموں کی تعداد 500 تک بھی پہنچ گئی ۔ یہاں اٹھارہ علوم کی تعلیم دی جاتی تھی۔ بنارس کے شاہی پروہت کے بیٹے جیوتی پال نے تیراندازی اور فنون جنگ میں اعلی تعلیم اسی درسگاہ سے حاصل کی ۔ جب واپس گیا تو بنارس کی فوجوں کا سپہ سالار بنا دیا گیا۔ یہ مرہ کے بادشاہ بھی سار کے شاہی طبیب جیوک کمار نے اسی یو نیورسٹی سے سات سال تک تعلیم حاصل کی۔ یونیورسٹی میں داخلہ اس قدر مشکل تھا کہ بھی سارنے ٹیکسلا کے بادشاہ پکو ساقی کے نام ذاتی خط لکھ کر جیوک کمار کو داخلہ دلوایا تھا۔ جیوک نے میڈیسن اور سرجری دونوں شعبوں کی تعلیم حاصل کی تھی اور وہ اپنے وقت کا نامور جراح ( سرجن ) تھا۔ یہ بھی روایت ہے کہ وہ مہاتما بدھ کا بھی معالج تھا۔ کیوں کر اس یونیورسٹی نے بڑے بڑے عالم اور جرنیل پیدا کئے ، کو شمالا کا بادشاہ پریسین اجیت، عظیم قواعد وان پانینی، ارتھ شاستر کا مصنف کو تلیہ اور چندر گپت موریہ اسی یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے۔ اس درسگاہ میں جن علوم وفنون کی تربیت دی جاتی تھی ان میں تیراندازی ، شکار، فیل بانی، سیاست، قانون، لغت نویسی، عروض،صوتیات، گرائمر، تاریخ ، ریاضی، فلکیات، کھانہ داری (اکاؤنٹس)، دینیات (دیدی ادب)، مابعد طبیعات، فلسفہ ، طبیعات، سمیات (زہروں کا علم ) طب ( میڈیسن)، جراحی ( سرجری ) وغیرہ شامل تھے ۔ اس کے اخراجات شاہی خاندانوں کے عطیات سے پورے ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ اور بھی عوامی درسگاہیں تھیں ۔ اس کے طلباء گھروں سے کھانا مانگ کر لاتے تھے اور سب مل کر کھا لیتے تھے۔ مضامین عام طور پر وہی ہوتے تھے جو ہو نیورسٹی میں پڑھاتے جاتے تھے لیکن معیار میں بہت فرق تھا۔ امرین کے مطابق ٹیکسلا اس علاقے کا سب سے بڑا شہر تھا۔ ہر درسگاہ کا ایک سربراہ ہوتا تھا۔ مدرس یا استاد گوگرد کہتے تھے اور شاگرد کو چیلہ ۔ اکثر گرواپنے شعبے میں نہایت بلند پایہ، عالم اور تجربے کے مالک ہوتے تھے۔ یہ درسگاہیں شہر کے مضافات میں ہوتی تھیں۔ طالب علم سولہ سال کی عمر میں داخل کئے جاتے تھے بشرطیکہ وہ ابتدائی تعلیم مکمل کر چکے ہوں۔ یہ بھی یادر ہے کہ راج گری کنگھم کی تحقیق کے مطابق دریائے جہلم کے کنارے جلال پور شریف کے قریب تھی۔
هی نشی خاندان کے حکمرانوں نے بر صغیر کی دولت اور جاہ وحشمت کی داستانیں سن کر اس پر قبضہ کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ سائرس اعظم جب ایران میں اندرونی اقتدار کی جنگوں میں مصروف تھا تو سب سے پہلے لٹویا کے بادشاہ کری کس نے سپارٹا، مصر اور بابل کے بادشاہوں سے ایران کی بڑھتی ہوئی طاقت کے خلاف مدد مانگ لی۔ جب سائرس یا ( کوروش) کو پتہ چلا تو اس نے پکو ساقی سے فوجی مدد طلب کی۔ اس مقصد کیلئے اس نے آرمینیا اور کلدانہ کے بادشاہوں سے بھی کہا کہ وہ بھی اپنے فوجی دستے اپنے سفیروں کے ہمراہ ٹیکسلا بھیجیں۔ یہ ایک قسم کی سفارش کا درجہ رکھیں گے ۔ یونانی مورخ زمینوفن کے بقول سائرس نے اپنے سفیر کے ہاتھ جو پیغام بھیجا اس کا
مفہوم یہ تھا:
اے شاہ ہند سائرس نے مجھے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اسے مزید رتم کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے وطن پارس میں فوجوں کی ضرورت ہے۔ اس لئے جتنی رقم بھی سہولت سے مہیا کر سکیں تو بھجوا دیں ۔ وہ مزید اس بات کا بھی اقرار کرتا ہے کہ اگر خدا نے اسے کامیابی دی تو وہ کوشش کرے گا کہ آپ کو ایسا موقع فراہم کرے کہ آپ کہیں کہ آپ نے ایسے آدمی سے دوستی کر کے اچھا ہی کیا تھا۔ ڈیوڈ سترونیک کا خیال ہے کہ سائرس نے یہ پیغام میدان جنگ سے بھیجا تھا جہاں وہ مشکلات کا شکار تھا اور پارس سے تازہ کمک کا منتظر تھا۔ زمینوفن آگے چل کر شاہ ہند سے اس درخواست کے بارے میں سائرس کے تبصرے کو یوں بیان کرتا ہے۔ سائرس کہتا ہے: دم اگر ہمیں پکو ساقی سے مدول گئی تو ہمارے پاس رقم کی فراوانی ہو جائے گی اور اگر ہمیں کچھ نہیں ملتا تو پھر ہم اس کے زیر بار نہیں ہونگے اور جہاں تک اس کا اپنا تعلق ہے ہم اس کے ساتھ معاملات اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کے نقطہ نظر سے طے کرینگے۔
پکو ساقی نے نہ صرف سائرس اعظم کی فوج سے مدد کی بلکہ اس کو خطیر رقم کے ساتھ ایسے جہاندیدہ افراد بھیجے جو مغربی ایشیا کی سیاست کو سمجھتے تھے اور وہاں کے سیاسی افراد سے ذاتی تعلقات کھتے تھے ۔ زینوٹن کے بقول یہاں کے سفیر نے یہ پیغام دیا کہ میں تمہارا دوست بننا چاہتا ہوں اور میں تمہیں رقم بھیج رہا ہوں، اگر مزید کی ضرورت ہو تو منگوا لینا۔ اس کے علاوہ میں نے اپنے نمائندہ سے کہہ دیا ہے کہ جو کام آپ ان سے لینا چاہیں گے یہ کرینگے۔ یہ سن کر سائرس نے برصغیر کے نمائندوں سے کہا کہ آپ لوگوں کو جن مکانوں میں ٹھہرایا گیا ہے آپ فی الحال وہیں قیام کریں اور جو ر تم آپ لے کر آئے ہیں اپنے پاس محفوظ رھیں البتہ آپ میں سے تین آدمی دشمن کے پاس جائیں اور یہ بہانہ کریں کہ انہیں ہند کے بادشاہ نے باہمی معاہدہ کرنے کے لئے بھیجا ہے، پھر وہاں سے ان کے تمام منصوبوں کی تفصیلات معلوم کر کے اور ان کے ساز و سامان کا پتہ چلا کر ایک تو مجھے اور دوسرا ہند کے بادشاہ کو اطلاع کر دیں۔ اور اگر آپ یہ فرض اچھے طریقے سے سرانجام دیں گے تو میں آپ کا اس سے زیادہ ممنون ہونگا جتنا اس رقم کے لانے سے ہوں جو آپ ساتھ لے کر آئے ہیں اور یہ کام کرنے کے لئے آپ انتہائی موزوں بھی ہیں۔ کیونکہ جو جاسوس غلاموں کے بھیس میں جاتے ہیں وہ صرف اتنی معلومات ہی لا سکتے ہیں جو عام لوگوں کے علم میں ہوتی ہیں۔ لیکن آپ کے مرتبے کے لوگ عموماً ان چیزوں کا بھی پتہ لگاتے ہیں جن کے منصوبے بنائے جارہے ہوتے ہیں۔ اس سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ پکو ساقی کے سائرس کے ساتھ تعلقات نہایت دوستانہ تھے لیکن بعد کے واقعات نے یہ ثابت کیا کہ سائرس کا چیکو ساقی کو ساتھ ملانا وقتی مصلحت کے تحت تھا اور بلا آخر وہ خود اس علاقے کو فتح کرنا چاہتا تھا۔ جب سائرس نے مغربی ہمسایہ ریاستوں پر قبضہ کر لیا تو پھر اس نے مشرقی مہم شروع کی جو 545 ق م سے 529 یعنی اس کی موت تک جاری رہی ۔ اس کی ان دیوانہ وار مہارت سے پکو ساقی نے اپنے لئے خطرہ محسوس کرتے ہوئے اپنی سرحدی ریاستوں سے کہا کہ ہخامنشی سلطنت کی . سرحدوں کو چھوڑ کر وادی سندھ پر بھر پور حملے کا منصوبہ بنایا۔ اس نے اپنی فوجوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا ایک خود لے کر بلوچستان کے راستے آیا لیکن خراب موسمی حالات نے اس کی فوج کو تباہ کر دیا۔ وہ خود بمشکل سات آدمیوں کے ساتھ واپس ہوا لیکن دوسرے رستے کو افغانستان میں کامیابی ہوئی۔ اس کے بعد سائرس نے دوسری فوج بھیجی جو چھ لاکھ پیادہ سپاہیوں اور بارہ ہزار گھڑ سواروں مشتمل تھی۔ اس کے علاوہ اس کے ساتھ منجنیقوں کی خاصی بڑی تعداد تھی۔ اس نے وادی سندھ میں آکر پکو ساقی کے حلیف قبیلہ مساگا پر حملہ کیا۔ ملکہ کو شادی کی دعوت دی لیکن اس نے ٹھکرا کر مقابلہ کی ٹھانی۔ اس کے بیٹے نے رسم کے مطابق خود کشی کر لی جس سے اس کی فوج کے لئے مکمل ہمہ گیر اور فیصلہ کن حملے کا اعلان تھا۔ ملکہ کی قیادت میں مساگا فوج ایرانیوں پر ٹوٹ پڑی۔ ایک فیل سوار سپاہی نے تیر مار کر سائرس کو زخمی کر دیا جس سے وہ گر پڑا۔ اس کے بعد مسا گا سپاہیوں نے لپک کر اسے قتل کر دیا۔ یوں 529 ق م میں وہ اپنے انجام کو پہنچا۔ سائرس کی فوج کو شکست فاش . ہوئی ملکہ نے سائرس کا سر قلم کر کے ایک خون کی بھری ہوئی مشک میں ڈال کر کہا۔ ہوتا ہے گو کہ میں نے تمہیں فتح کر لیا ہے اور زندہ ہوں ۔ اب دیکھو میں اپنی دھمکی پوری کرتی ہوں ۔ یہ اپنی شکم سیری کا خون لے لو۔ انھیں سائرس کی فوج سربریدہ لاش لے کر واپس چلی گئی اور دار الحکومت پارسا گرد میں شاہی محل سے ایک میل کے فاصلے پر دفن کر کے اس کے اوپر مقبرہ بنایا۔ یہ مقبرہ آج بھی اچھی حالت میں ہے۔
سائرس کے بعد ایرانیوں کے حملے
سائرس کے بعد اس کا بیٹا کمبوجیہ تخت نشین ہوالیکن اس کے بھائی باردیہ نے بغاوت کر دی۔ اس کے بعد دارا تخت نشین ہوا لیکن اس کے تخت نشین ہوتے ہی ملک میں بغاوتیں شروع ہو گئیں۔ بے ستون کے کتبے سے پتہ چلتا ہے اس نے 19 جنگوں اور 9 باغیوں کو یکے بعد دیگرے زیر کیا۔ اس کے بعد اس نے وادی سندھ پر حملہ کر دیا 499 میں یونان پر حملہ کیا۔ یہ جنگ میراتھن کے مقام پر ہوئی جس میں ایران کو شکست ہوئی اور فتح کی خوشخبری لانے والے نے 26 میل دوڑ کر سفر طے کیا۔ اسی کی یاد میں اب میراتھن ریس ہوتی ہے۔ 486 ق م میں دارا وفات پا گیا۔ دارا نے بڑی شاندار عمارتیں بنوائیں۔ نیا شہر پارسا بیس لیا۔ اسے دار الحکومت بنایا جسے پری پونس کہا جاتا ۔ موجودہ نام تخت جمشید ہے۔
وادی سندھ کی فتح
دارا کے افسروں میں ایک پیشہ ور مہم جو اور کھوجی تھا۔ اس کا نام سکائی کس تھا۔ وارا نے اسے یہ معلوم کرنے کے لئے بھیجا کہ وہ دریائے سندھ کے دہانے سے لے کر سمندر تک یہ معلوم کرے کہ اس میں دریائی سفر مگن ہے۔ جب اس نے مثبت رپورٹ دی تو کشتیوں کا بیڑا تیار کر کے اس علاقے کو تیرہ برس میں فتح کر لیا۔ وادی سندھ سے ایران کو تین کروڑ ساٹھ لاکھ خراج وصول ہوتا تھا اور یہ خراج باقی کی سب ریاستوں سے زیادہ تھا۔ ایرانی اسے ست گوش کہتے تھے۔ دارا کی فوج میں پنجابی بھی تھے۔ جو تصاویر پہاڑوں پر کھدی ہوئی ہیں ان میں کچھ سیاہی دھوتی باندھے ہوئے ہیں اور یہ بات صاف ہے کہ وہ پنجابی ہی ہونگے ۔ مخامشی قبضہ 358 ق م تک رہا۔ اس کے بعد سکندراعظم نے اس علاقے پر حملہ کر دیا۔ ہو سکتا ہے کہ خوشاب کی بنیاد اسی ایرانی دور میں رکھی گئی ہو۔
یہ مضمون شیخ محمد حیات کی کتاب "ضلع خوشاب تاریخ کے آئنے میں "سے لیا گیا ہے