لیہ کی تحصیل چوبارہ جسے مشرف دور میں پنجاب کی سب سے پسماندہ تحصیل قرار دیا گیا، بھکر کی تحصیل منکیرہ، خوشاب کی تحصیل نور پور تھل اور مظفر گڑھ میں رنگ پور کے علاقے کو جہاں ریت کے بڑے
بڑے ٹیلے اور بے آب و گیاہ صحرا ہیں جہاں زندگی پانی کی بوند بوند کو ترستی ہے۔ اس صحرا کو سیراب کرنے کیلئے مشرف دورِ حکومت میں گریٹر تھل کینال کا منصوبہ بنا جس کا افتتاح سابق صدر پرویز مشرف نے 16 اگست 2001 کو آدھی کوٹ تحصیل نور پور تھل کے مقام پر کیا۔ اس منصوبے کو سات سال میں پایہ تکمیل تک پہنچایا جانا تھا جس پر چوہدری پرویز الٰہی دورِ حکومت میں ہنگامی بنیادوں پر کام شروع ہوا۔ پہلے فیز میں مسلم لیگ ق کے دورِ حکومت میں آدھی کوٹ تا پلواں 20 کلو میٹر میں نہر اور اس سے نکلنے والی چھوٹی نہریں منکیرہ برانچ، رنگ پور اور راہداری ڈسٹری بیوٹر مکمل کی گئیں اور انہیں مکمل کرنے کے بعد باقاعدہ محکمہ اریگیشن کے حوالے کیا جا چکا ہے۔ لیکن دوسرا فیز جس کے تحت چوبارہ برانچ، ڈنگا برانچ اور نور پور تھل برانچ مکمل کی جانی تھیں پر 17 برس گزرنے کے باوجود ابھی تک کام شروع نہیں ہو سکا جس کی بنا پر مذکورہ علاقوں کی زرعی معیشت کے استحکام کے ضامن اس اہم منصوبے کی افادیت ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ تھل کی پیاس صدیوں سے نہیں بجھ پائی 1970 سے لیکر آج تک اسمبلی میں اس اہم مسئلہ کے تدارک کیلئے کوئی سدباب نہیں کیا گیا۔” ملک نعیم جھمٹ، تجزیہ نگارن لیگ کی حکومت جو جنوبی پنجاب میں مساوی فنڈز کی تقسیم کی دعویدار رہی ہے کے دور میں اس بڑے منصوبے آب کی نظر اندازی نہ صرف احساس محرومی کو جنم دے رہی ہے بلکہ خود پانی کے حوالے سے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے والی موجودہ حکومت کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی جنہوں نے اس منصوبے پر اپنے دور اقتدار میں ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کیا وہ اس وقت نہ صرف حکومت میں ہیں بلکہ ان کے پاس پنجاب میں ایک اہم ترین عہدہ سپیکر شپ ہے۔ ان کیلئے بھی یہ ایک ٹسٹ کیس کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب ہم ماضی کے اوراق اٹھا کر دیکھتے ہیں تو جنوبی پنجاب سے منتخب ہونے والے رکن صوبائی اسمبلی مہر فضل حسین سمراء مرحوم کا روشن کردار نظر آتا ہے۔ جنہوں نے ہمیشہ جنوبی پنجاب کے کاشتکاروں کے پانی کے مسئلے کو پنجاب اسمبلی میں اجاگر کیا۔ تھل کینال اور تھل اریگیشن سسٹم پر اُنہوں نے 26 فروری 2003 کو پنجاب کے حکمرانوں کے ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے باور کروایا کہ تھل کینال اریگیشن سسٹم ضلع خوشاب، بھکر، لیہ اور جزوی طور پر مظفر گڑھ کو سیراب کرتا ہے صرف ضلع لیہ کو 10 ہزار کیوسک پانی ملنا تھا لیکن ہمیں آج تک 4 ہزار کیوسک سے اوپر پانی نہیں ملا۔ متذکرہ بالا اضلاع کے علاقے تھل کو آب پاش کرنے کیلئے تھل کینال جاری کی گئی جس میں علاقہ تھل کی آبپاشی کیلئے کم از کم 10 ہزار کیوسک پانی کی ضرورت ہے جس میں ضلع لیہ کے تھل کا حصہ 35 فیصد بنتا ہے یعنی لیہ کے تھل کو 35 سو کیوسک پانی درکار ہے جبکہ اس ضلع کو اوسطاً 16 سو کیوسک سے 21 سو کیوسک پانی ملتا ہے۔ تھل کینال منصوبے کا افتتاح سابق صدر پرویز مشرف نے 16 اگست 2001 کو آدھی کوٹ تحصیل نور پور تھل کے مقام پر کیا۔ تھل کینال منصوبے کا افتتاح سابق صدر پرویز مشرف نے 16 اگست 2001 کو آدھی کوٹ تحصیل نور پور تھل کے مقام پر کیا۔ واضع رہے کہ علاقہ تھل جو صدیوں سے ایک ویران ریگستان پر مشتمل تھا اس وسیع عریض علاقے کی تعمیر و ترقی کی خاطر سندھ ساگر دو آب ایکٹ 1912ء کی شکل میں ہوا تھا۔ تھل کے زمیندار اور گورنمنٹ پنجاب کے مابین ایک معاہدہ طے پایا کہ حکومت وقت ایک مقررہ عرصے کے اندر تھل میں نہری نظام جاری کرنے کا بندوبست کرے گی اور نہری علاقے کے زمیندار اس کے عوض اپنے رقبے کا دو تہائی حصہ حکومت کو دیں گے۔ مگر جنگ عظیم اوّل میں اورچند دیگر وجوہات کی بناء پر گورنمنٹ پنجاب مقررہ میعاد کے اندر نہر لانے سے قاصر رہیں حتیٰ کہ سندھ ساگر دو آب ایکٹ سال 1932ء میں ختم ہو گیا۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے پر پنجاب گورنمنٹ کو جب مہاجرین کی آباد کاری کا مسئلہ درپیش ہوا تو اس سنگین صورتحال میں کثیر تعداد رقبے کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے گورنمنٹ کو اس علاقے کی طرف توجہ مبذول کرنا پڑی۔کہ کن ذرائع سے رقبے کی کمی پوری کی جانی مناسب ہے۔ ان حالات کے پیش نظر ٹی ڈی اے ایکٹ 1949 منظور ہوا اور ایک نیم خود مختار ادارہ ٹی ڈی اے وجود میں آیا تاکہ مہاجرین کی آباد کاری کا کام جلدی نمٹایا جا سکے اور گنجان آباد اضلاع سے مہاجرین کا بوجھ کم کیا جائے۔ اس پیش رفت میں گورنمنٹ پاک پنجاب نے مختلف نوٹیفکیشن کے ذریعے اور ایک فارمولے کے تحت مقامی مالکان سے ضلع لیہ میں 2 لاکھ 71 ہزار 269 ایکڑ رقبہ حاصل کیا۔ مقامی مالکان سے حاصل کی گئی اراضی مدت ہوئی گورنمنٹ اپنے تصرف میں لا چکی مگر تھل کے اضلاع کو آبپاش کرنے کے لیے جو تھل کینال کا وعدہ کے مطابق پانی دینے کا کہا گیا تھا آج تک تھل کی سلگتی اور پیاسی دھرتی کے لیے ایک سراب ہے۔ بھکر کے تجزیہ نگار ملک نعیم جھمٹ کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ تھل کی پیاس صدیوں سے نہیں بجھ پائی 1970 سے لیکر آج تک اسمبلی میں اس اہم مسئلہ کے تدارک کیلئے کوئی سدباب نہیں کیا گیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر نو منتخب صوبائی رہنما غضنفر عباس چھینہ کا تعلق چونکہ تھل سے ہے۔ کیا وہ پنجاب اسمبلی میں اپنے علاقے کی نمائندگی کر پائیں گے؟ یہ سوالات جواب طلب ہیں۔
شکریہ قائد پاکستان ویب سائٹ