تھل:سک اقوام
سک اقوام:
سک ایک بڑی قوم یا قبائل میں شمار ہوتے تھے۔ سک قوم میں سک کے علاوہ مختلف قبائل بھی شامل تھے۔ ان کی جائے پیدائش بقول مورخ سر ہو ( ترجمہ وی اے سمتھ صفحہ ۳۴۳ حوالہ نمبر ۲ ) دریائے جیجوں سیر (سیر دریا آمو دریا) اور اس کے گردونواح کے علاقے تھے۔ کیٹر النسن ( ترجمہ ہیروڈوٹس جلد ۲ صفحہ ۴۰۳- جلد ۵ صفحہ ۱۷۰) کے مطابق سک قوم کا شغر اور یا رفتہ کے علاقوں میں آباد تھی۔ وی اے سمتھ دی سکازان ناردرن انڈیا ( زیڈ۔ ڈی۔ایم۔ جی ۱۹۰۷ء صفحہ ۴۲۱/۴۰۳) اور ڈاکٹر ایف ڈبلیو ٹامس (جے۔ آر۔ ایر۔ ایس ۱۹۰۶ء صفحہ ۲۱۹-۱۸۱-۴-۲۲۰) کی بحث کے مطابق سک قوم ۶۰ اقدام سے پہلے دریائے بیجوں جسے آمو دریا بھی کہا جاتا ہے، کے علاقوں میں آباد تھے جواب روی فیڈریشن کے جنوب مشرق میں واقع ہے۔ تقریبا ۶۰ ۱ ق م کے قریب ہی یوچی قبائل جو چین سے نقل مکانی کر کے آئے تھے، نے سکوں کی چراگاہوں پر قبضہ کر لیا اور مجبور اسک قوم کو اپنے ہم وطن قبائل کے ساتھ مل کر جنوب کی طرف نقل مکانی کرنی پڑی۔ ان خانہ بدوش قبائل کے حملے کا سیلاب باختر اور پارتھی پر پڑا۔ پارتی بادشاہ فرائیز معانی جو متھراڈئٹس کا جانشین تھا ، سک قبائل کے حملے کو روکنے کے لیے آگے بڑھا۔
تقریبا ۷ ۱۲ ق م ان کے درمیان جنگ ہوئی جس میں فرائیز مارا گیا اور سک قوم نے باختر اور پارتھیا کے اکثر علاقوں پر قبضہ کر لیا لیکن فرائیز کے جانشین ارتا بانس اول نے بھی ان وحشی قبائل کا راستہ روکنا چاہا اور شکست کھا کر مارا گیا۔ باختر میں آخری یونانی بادشاہ ہیلو کلیز تھا جو پہلے ہی پارتھی اور ایرانی طاقت کے عروج کی وجہ سے کمزور پڑ رہا تھا لیکن سک قوم کے حملوں کے بعد تو یونانی سلطنت ہندوکش کے شمالی علاقوں سے ہمیشہ کے لیے کالعدم ہوگئی۔ پارتھیا اور باختر پر اپنا قبضہ مکمل کرنے کے بعد سک قبائل نے مشرق اور جنوب دونوں اطراف پیش قدمی کی۔ ان میں سے کچھ گروپ نے جنوب کی طرف دریائے ہیلمندر (اریمینڈس ) کی وادی کی طرف جو سکتینے ” یعنی ملک ملک کے نام سے مشہور ہوا ، اس پر سک قوم نے قبضہ کر لیا۔ جبکہ دوسرا اس وحشی قبائل کے جنگجو جتھوں ، جو ہندوستان کے شمالی مغربی دروں میں، شمالی مغربی پنجاب میں داخل ہوئے، نے سب سے پہلے ٹیکسلا کے مقام پر اور دریائے جمنا کے کناروں پر آبادیاں قائم کیں۔ ان میں سے ایک قبیلہ مزید جنوب کی طرف بڑھا اور سراشتر یا کاٹھیاواڑ کے جزیروں پر قابض ہو گیا۔
یہاں انہوں نے سک خاندان کی بنیاد ڈالی جو تقریباً ۳۹۰ ء تک حکومت کرتے رہے۔ آخر میں چندر گپت ثانی بکر جیت نے ان کو شکست دی۔ دوسری طرف ٹیکسلا کے مقام پر یونانی بادشاہ سٹریو اول، جوا پا لوڈوٹس اور مندر کے بعد کابل اور پنجاب کا حاکم بنا تھا، کا پوتا سڑئیے ثانی فلو پیٹر مغربی پنجاب (موجودہ تھل اور ٹیکسلا کے علاقوں پر قابض تھا۔ بقول دی اے کتھ صفحه ۲۸۳ باب ۹ چند غیر ملکی صوبیدار یا گورنر کمانڈروں نے ، جبکہ مورخ مزید لکھتا ہے کہ ممکن ہے یہ نسک ہی ہوں جنہوں نے فلور پیٹر کو بے دخل کر دیا، یہ بات وضاحت سے بیان کی گئی ہے کہ جنوبی میدانی پٹی پھل” متھرا اور ٹیکسلا کے حملہ آوروں کے درمیان قریبی تعلق تھا۔ ان گروہوں کے سرداروں یا سر براہوں کا لقب ”سترپ تھا۔ سترپ ایرانی زبان کا لفظ تھا جس کے معنی ہیں گورنر یا صوبیدار اور درست معنی صوبیدار ہو سکتا ہے کیونکہ تمام کے تمام سک سرداروں کو سترپ کا خطاب دیا گیا تھا۔
یہ سک سترپ ایرانی، شکانی اور پارتھی حکمرانوں کے ماتحت تھل اور شمال مشرقی علاقوں پر حکومت کرتے تھے۔ پہلے یہ سردار اپنے اپنے علاقوں پر قابض تھے جیسا کہ تھرا کے سترپ ٹیکسلا اور جنوبی علاقے تھل کے سترپ جو اپنی اپنی ریاستوں میں رہ کر ایرانی سلطنت کے ماتحت کام کرتے تھے۔ آخر کار ۱۲۰ ق م کے قریب ہی میوس ایک ایسا بادشاہ تھا جو بظاہر ان ہندی پارتھی بادشاہوں میں سب سے پہلا تھا جو پنجاب کا مالک بنا اور شہنشاہ اعظم کا لقب اختیار کیا، نے اپنے نام کا سکہ بھی جاری کیا جس کے ایک طرف ہاتھی کا سر اور دوسری طرف گر یک زبان میں بادشاہ کا نام اور نشان فتح بل سپنڈنڈ تھا۔ وزن میں یہ سکے ۱۳۰ گرام کے ہیں۔ یہ وہ پہلا بادشاہ تھا جس کا تعلق سک خاندان اور ایرانی پارتھی حکمرانوں سے تھا۔ میوس صرف مغربی پنجاب یعنی دریائے سندھ سے لے کر دریائے بیاس اور راوی تک کے علاقوں کا حکمران تھا۔ خاص کر تھل کے علاقے اس کی حکومت میں شامل تو تھے لیکن ان میدانی علاقوں تھل میں ایک سے زائد سک یا ہندی پارتھی جن میں باختری یونانی گروپ بھی شامل تھے، نیم خود مختاری کے تحت اپنے اپنے علاقوں میں حکومت کرتے تھے۔
ان سرداروں کا تعلق براہ راست ایرانی حکومت سے بھی تھا اور میوس کی عارضی اطاعت گزاری بھی کرتے تھے کیونکہ تھل کے میدانی علاقے ہمیشہ سرکش جنگجو سرداروں کے قبضے میں رہے تھے۔ اگر کسی مرکزی حکومت کا ان پر دباؤ پڑتا تو یہ عارضی طور پر اطاعت قبول کر لیتے اور جب بھی موقع ملتا پھر سے خود مختیاری کا اعلان کر دیتے تھے۔ پہلی اور دوسری صدی قبل مسیح کے دوران مغربی ہندوستان کی سیاسی صورتحال ایسی غیر یقینی تھی کہ یہ اندازہ لگانا کہ کس وقت اور کہاں کون بادشاہ تھا ؟ مشکل ہے۔ ۱۴۰ ق م کے بعد ۱۲۰ / ۱۳۰ ق م کے دوران ایران کی پارتھی حکومت کا مغربی ہند پر کافی حد تک اثر رسوخ تھا۔ ہندی پارتھی حکمرانوں کی تاریخ مرتب کرنے والوں کے پاس صرف اور صرف وہ مواد تھا جو ان سکوں کے نتائج سے اخذ کیا گیا تھا۔
ہمارے پاس ان کا تاریخی مواد اس قدر کم ہے کہ ہم اگر نا قابل تردید واقعات کا ایسا سلسلہ قلم بند کریں جو حقائق پر مبنی ہو، ناممکن ہے۔ اس لیے ان نتائج کو جو بڑی حد تک محض خیالی یا قیاسی ہوں، ہم نے ان باتوں کو محوظ خاطر رکھتے ہوئے مذکورہ مورخین کی آرا کے مطابق تمام واقعات کو خواہ وہ یقینی ہوں یا قیاسی ، قلم بند کر دیا ہے۔ ناظرین کتاب کو یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ جو مناظر یا واقعات اس کتاب میں دیے گئے ہیں ، ان سب میں چند سالوں یا د ہائیوں کی گنجائش موجود ہے۔ اب رہا سکہ، مطلب یہ کہ میوس کب تک پنجاب کا حکمران رہا، میوس جو غالباً ۱۲۰ ق م میں پنجاب کے علاقوں کا حکمران تھا ، فان سیلٹ ” فان کشمد ، صفحہ ۱۴۰ میوس یا تا میکس کے نام کے ساتھ مٹا کی جوگا گیلا یا اربیلا کے مقام پردارا کے سک سوار اور تیر اندازوں کا سردار تھا۔ ممکن ہے کہ اس کو بعد میں پنجاب کا حکمران بنا دیا گیا ہو لیکن دوسری طرف اس بات کے اشارے بھی ملتے ہیں کہ ایرانی بادشاہوں کی کمزوری اور مرکزی حکومت کا ہندوستانی دور افتادہ علاقوں پر آہنی پنجہ ڈھیلا پڑ جانے سے میوس ، جو ممکن ہے کہ سک قوم سے ہو، نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور پنجاب پر قابض ہو گیا جو تقریبا ۹۰ ق م تک رہا۔ اس کے بعد از لیس اس کا جانشین بنا۔ ازلیس کے جانشینوں میں از سیلیس اور از لیل ثانی کے نام آتے ہیں ۔
یہ ایک عرصہ تک پنجاب پر حکومت کرتے رہے لیکن آخری صدی قبل مسیح کے دوران پنجاب یا شمالی مغربی ہندوستان میں دو خاندان جن سے متعلق مسئلہ اور زیادہ تاریک ہو گیا کہ تمام مصنفین نے ان دو خاندان جن میں سک اور ہندی پارتھی شامل تھا، کے بارے میں کوئی نشاندہی نہیں کہ یہ خاندان کب اور کہاں کہاں قابض تھے؟ یہاں ایک صدی یعنی سو سالہ دور دھندلا سا لگتا ہے لیکن پہلی صدی عیسوی کے دوران ایک یونانی سیاح اپالونیکس نے ہندوستان کا سفر کیا اور اس نے پارتھی ٹیلوں میں بادشاہ بز ڈیس یاور ڈیفنس یونانی بادشاہ سے دو مرتبہ ملاقات کی جو بائل میں مقیم تھا۔ اس کی حکومت کا سن ۴۷/۳۹، کے قریب معلوم ہوتا ہے۔ اس سیاح کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ٹیکسلا کا بادشاہ بالکل خود مختیار تھا۔ اس کے متعلق اپالونیکس نے باب ۱ / ۲ فصل ۲۸ / ۱۷ بحوالہ وی اے ستی صفحه ۲/۳ باب ۹ لکھا ہے کہ وہ خود مختیار بادشاہ فرو میس تھا جس کا تعلق سک قوم سے ہو سکتا ہے۔ ایک دوسری شہادت پری پلس، یہ کتاب غلطی سے آرین سے منسوب کی جاتی ہے، اس کا کیا ۔ ترجمہ میک کر نڈل نے انڈین انٹی کو لیری ۱۸۷۹ ء اور شراف نے ۱۹۱۳ء میں کیا ہے جبکہ ریناڈ نے آخری دفعہ کیا۔ ان تینوں مورخین کے مطابق اس کتاب کا سن اشاعت میک کر نڈل نے ۸۹/۸۰ ، اور دیناڈ نے ۲۴۶ ۲۴۷ ، اور شراف نے ۶۰ء کہا ہے۔ دی اے سمتھ نے ان تمام کے بیانات کو بڑی تفصیل سے تحریر کیا ہے کہ پری پلس کے مصنف کے مطابق دریائے سندھ اور جہلم کے درمیان ملاقے موجود تھ پر ہاتھی اور دوسرے سردار چھوٹی چھوٹی ریاستوں پر تائیں تھے اور آپس کی خانہ جنگی میں بتا رہے تھے۔
سیاح نے اس علاقے کو سیتھی کا نام دیا ہے۔ اس علا قے کے شہر کا نام متگر جہاں دارالسلطنت واقع تھا، اندرونِ ملک آباد تھا۔ یہ سردار اپنے اپنے علاقے اور قوم پر اختیار رکھتے تھے۔ ساتھ ہی ان سرداروں نے اپنے اپنے نام کے سکے بھی جاری کر رکھے تھے۔ یہ کرنسی مقامی طور پر تیار کی جاتی تھی اور صرف ان کے ہی علاقے تک ان سکوں سے لین دین ہوتا تھا۔ ایک وقت میں اور ایک ساتھ مغربی پنجاب کے علاقوں میں ایک سے زیادہ نام کے سکے جاری ہونے کی وجہ سے ہمیں کسی مرکزی بادشاہ کے متعلق جاننے اور ایک مکمل تاریخی سلسلہ قائم کرنے میں مشکل پیش آرہی ہے۔ آخری صدی ق م میں کون سے حالات رہے اور کون کہاں قابض تھا؟ حتمی نہیں لیکن یو چی کشان بادشاہ کڈ فائس اول جس کو با قاعده ۱۵ ء تک بادشاہ تسلیم کر لیا گیا، اس نے کابل کے تخت سے میوس ثانی کو اتار کر قبضہ کر لیا جبکہ مغربی پنجاب کے علاقوں میں قابض پارتھی سرداروں میں آخری بادشاہ جس کا نام مصنف نے خیرہ” کہا یا کوئی اور بھی ہو سکتا ہے تو اس کو کشان بادشاہ کنشک نے ۱۰۸ ء سے پہلے شکست دی۔ اس واقعہ کے بعد پہلی صدی عیسوی کے آخر اور دوسری صدی کے اول میں پنجاب پر کشان مکمل قابض ہو گئے تھے۔
دریائے سندھ کے مشرق کے علاقے تھل میں آخری حکمران جو یا تھی یا سک قوم سے ہو، کے متعلق کوئی واضح ثبوت نہیں ملتا۔ صرف روزاں کے مقام سے اس آخری بادشاہ کے سکے کافی تعداد میں ملے ہیں جو گمنام بادشاہ کے نام سے مشہور ہے۔ بادشاہ کڈ فائس نے جب مغربی پنجاب پر حملہ کیا تو اس وقت وہ یہاں قابض تھا۔مورخ کے مطابق ان دونوں نے سوٹر” کا لقب اختیار کیا اور یہ ان کی غلطی ہے کیونکہ کشان بادشاہوں میں کسی نے بھی سوڑ کا لقب استعمال نہیں کیا۔ سوٹر کا لقب صرف یونانی النسل بادشاہ اختیار کرتے تھے ۔ سوڈر میکس ہی تھا جن کو سکوں میں گم نام کہا گیا ہے۔
نوٹ: یہ مضمون ملک محمد شفیع کی کتاب (قدیم تاریخ تھل اور روڑاں کے آثارِقدیمہ) سے لیا گیا ہے۔