تھل

تھل کے آثار قدیمہ

روڑاں کے قدیم کھنڈرات اور قدیم انسانی آبادی کے آثار کے علاوہ تھل کے بہت سے اور بھی قدیم بستیوں اور قصبوں کے نشانات اب کھنڈرات یا ٹوٹے ہوئے مٹی کے برتنوں کے ٹکڑوں کی شکل میں میدانوں اور ریت کے ٹیلوں میں مدفون پڑے ہیں۔ یہاں سے اب بھی تاریخی مواد حاصل کیا جا سکتا ہے جیسا کہ سکے، مورتیاں اور برتن وغیرہ۔ ایسے مقامات تھل کے طول و عرض میں بکھرے ہوئے ہیں۔ روڑاں کے جنوب میں تحصیل چوبارہ کے علاقہ جبکہ شمال میں تحصیل منکیرہ کے ریگستان جہاں بہت سے ایسے مقامات ضرور ملیں گے۔ ان مقامات میں چوبارہ کے قریب لوڈے والا بیراں والا، ہزارے والا ، نواں کوٹ اور بٹ والا وہ مقامات ہیں جن کا تاریخی تعلق وادی سندھ کی قدیم تاریخ سے ہے۔ ہر پہ میوزیم کے انچارج حسن صاحب نے ان مقامات پر تحقیق کی ہے۔

ان کے مطابق ان تمام مقامات کا تاریخی تعلق دوسری صدی قبل مسیح سے لے کر پانچویں صدی عیسوی تک ہے۔ اس دور میں بہت ساری اندرونی اور بیرونی اقوام جن میں یونانی، باختری، پارتھی، ایرانی، یو چی کشان اندھر اور گپت خاندان کے لوگوں نے ان علاقوں پر حکمرانی کی۔ یہ وہی دور تھا جب تھل کا علاقہ ریاست وہیک اور سیتھیا کے نام سے مشہور تھا۔ خاص کر سیتھیا ریاست قتل پر جب مختلف اقوام کا قبضہ تھا۔ ان میں بندی ، سیتھی ، باختری اور پارتھی تو میں شامل تھیں۔ یہ پہلی صدی تا تیسری صدی عیسوی کا دور تھا۔ اس وقت اس علاقے تھل میں جگہ جگہ لوگوں کی چھوٹی بڑی بستیاں قائم تھیں جن کے آثار اب بھی تھل میں دستیاب ہیں اور یہ قتل کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان مقامات سے کچھ حد تک ان بادشاہوں کے سکے جو اس زمانے میں حکمران تھے، پائے گئے ہیں اور کچھ دوسری اشیاء جن میں مٹی کے برتنوں کے ٹکڑے پیالہ ہیں نمونے دیوی اور دیوتا کی بہت مورتی ، پائی گئی ہیں۔ کچھ چیزوں کی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دوسری صدی ق م سے  لیکر چوتھی اور پانچویں صدی عیسوی صدی تک کا زمانے شامل ہیں۔

اب ان تحل کے مقامات کے متعلق تاریخی بیان اور تحقیق و شواہد کو منظر عام پر لانے سے پہلے ہمیں ان حالات و مسائل کا بھی ذکر کرنا پڑے جن کی مشکلات کی وجہ سے پریشانی میں جتلا ہیں۔ وہ یہ کہ اس پورے تھل دریائے سندھ کا تکونی خط جو کسی زمانے میں قدیم ہندوستان کی شہ رگ تھا۔ اس میں ایک تو یہ کہ وہ تمام آثار جن پر بہت عرصہ پہلے ریسرچ اور تحقیق کی جانی تھی، نہ ہو سکی اور اس کی بہت ساری وجوہات ہیں جو میں پچھلے باب میں تحریر کر چکا ہوں جبکہ دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ تھل گریٹر کینال کے منصوبے کی وجہ سے مغربی تھل کا وہ حصہ جو دریائے سندھ کے مشرقی کنارے کے ساتھ ساتھ تھا اور سب سے زیادہ آثار قدیم کے مقامات بھی اس علاقے میں تھے ، وہ رقبوں کی تیاری اور پانی کے لگاؤ سے وہ تمام نشانات مٹ گئے۔ اب بندہ ناچیز نے کچھ حد تک علاقہ تھل کے ان قدیمی مقامات کے متعلق تحقیق ریسرچ شروع کی جن میں خاص کر روڑاں کا مقام شامل ہے۔ جب میں نے روڑاں کے آثار قدیمہ پر کام شروع کیا تو بہت مشکلات تھیں۔ ایک تو بہت دیر ہو چکی اور دوسرا میری تعلیم اور وسائل کم تھے لیکن میں کچھ دوستوں کی وجہ سے اور اللہ کے فضل سے کچھ حد تک کامیاب ہو گیا۔

 

 نوٹ: یہ مضمون ملک محمد شفیع کی کتاب (قدیم تاریخ تھل اور روڑاں کے آثارِقدیمہ) سے لیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com