تھل

تھل:گپت خاندان

قدیم ہندوستان کی مذہبی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ گپت خاندان نے چوتھی صدی عیسوی کے وسط سے ہی مشرقی ہند کے علاقوں پر اپنا اثر رسوخ بڑھانا شروع کر دیا تھا۔ یہ وہ خاندان تھا جس کا بانی چندر گپت موریہ تھا جس نے سکندر یونانی کے بعد ہندوستان کے اکثر علاقوں پر قبضہ کر لیا اور ۳۲۱ ق م تک اسے پورے ملک کا بادشاہ تسلیم کر لیا گیا۔ اشوک کے بعد مور یہ سلطنت کا زوال شروع ہوا۔ بالآخر ۱۸۵ ق م میں ایک مرتبہ پھر سے یونانی باختری حکمرانوں نے مغربی ہند پر قبضہ کر لیا۔ اس طرح گپت خاندان پر مکمل نہیں تو کچھ عرصہ کے لیے بادشاہت کا درواز و بند ہو گیا۔ ان پانچ صدیوں کے دوران اس خاندان کے متعلق کوئی تفصیل نہیں ملی۔ چوتھی صدی عیسوی کے آخری دہائی میں مشرقی ہند کے علاقے گدھ، مالوا، پانی پتر میں کشان اور اندھیر خاندان کی کمزوری کی وجہ سے ایک بار پھر روشنی کی کرن دکھائی دی، تاریکی کا پردہ چاک ہوا اور ہندوستان قدیمہ کی تاریخ میں اتحاد و چپی کا رنگ بھر آیا۔ گپت خاندان کی ابتدا کچھ اس طرح سے ہوئی کہ پہلے چندر گپت موریہ کے زمانے میں یہ خاندان موریہ کے نام سے مشہور تھا جبکہ اب یہی خاندان ” گیت” کے نام سے ظاہر ہوا۔ اس کا بانی بھی چندر گپت موریہ کا ہ نام چندر گپت ہی تھا جو ۱۳۰۸ء میں ہندوستان کی ایک قدیم قوم لکھوی سے رشتہ ازدواج کی وجہ سے سامنے آیا۔ چندر گپت کی شادی ایک لکھوی شہزادی کمار دیوی سے ہوئی اور دونوں خاندان کے اتحاد ملاپ کی وجہ سے ایک طاقتور گروپ ہندوستان میں ابھرا۔ اس کا سر براہ چندر گپت تھا۔ اس رشتہ ازدواج کی وجہ سے چندر گپت کو جو عظمت وشان ملی، اس سے وہ ایک عظیم شاہی خاندان کی بنیا درکھنے میں کامیاب ہو گیا۔ لکھوی قبیلہ ہندوستان کی قدیم شاہی خاندانوں میں شمار ہوتا تھا۔ یہ قبیلہ ویشالی پر قابض تھا اور پانی پیتر کے بادشاہوں کا حریف تھا۔ پٹی پتر کے پرفتن زمانے اور کمزوری کی وجہ سے ان کو موقع مل گیا کہ وہ اپنا پورا نہ حساب پورا کر لیں۔ یہی وجہ تھی کہ لکھوی خاندان نے چندر گپت کو شہزادی کا رشتہ دیا بلکہ ساتھ ایک بہت بڑی فوجی طاقت بھی دی جس کی مدد سے چندر گپت برسر اقتدار آیا۔

چندر گپت :

چندر گپت کے باپ کا نام کھٹو کچی تھا اور دادا کا نام گیت ۔ آرکیالوجیکل سروے اینول ۱۹۰۴/۱۹۰۳ صفحہ ۰۷ الوح ۱۴-۴۱ کے مطابق گھٹو کیچ ویشالی کے مقام کا ایک مقامی سردار تھا ی خود ختیار حاکم کے طور پر ایک چھوٹی سی ریاست پر قابض تھا۔ اس کے نام کی ایک مہر بھی برآمد ہوئی جہاں گپت کا نام بطور لفظ تھا۔ یہ گپت خاندان وہی ہے جس کا بانی چندر گپت موریہ تھا۔ اس کو چندر گپتا بھی لکھا جاتا ہے۔ یہ دوسرے خاندان کے متعلق کوئی قابل قبول شہادت موجود نہیں۔ چندر گپت کی طاقت کا سرچشمہ اور اس خاندان کا عروج کا سبب وہ شہزادی کمار دیوی تھی جس کا تعلق ہندوستان کے ایک طاقتور قبلے لکھوی سے تھا۔ اس شادی کی وجہ سے چندر گپت کو عظمت اور شان و شوکت علی اور وہ شاہی خاندان کی بنیادرکھنے میں کامیاب ہو گیا۔ تقریباً ۳۲۰ء میں چندر گپت کھوی قابیل کی مد سے پاٹھی پتر کے آس پاس کے علاقوں میں قبضہ کرنے میں بھی کامیاب ہو گیا۔ اس کے تھوڑے عرصہ بعد اس نے پاٹلی پتر کے تخت پر بھی قبضہ کر لیا اور خود سے راجہ مہاراجگان کا خطاب بھی اختیار کر لیا ۔ اسی طرح چوتھی صدی عیسوی کے آخر تک مشرقی ہندوستان کے علاقوں سے اندھر خاندان کے حکمرانوں کا اثر ورسوخ ختم ہو گیا۔ اب اندرونِ ہند چندر گپت مرکزی بادشاہ کی سی حیثیت اختیار کر چکا تھا۔ اس کے لیے ابھی بہت سارے خطرات باقی تھے۔ شمال مغرب میں کشان بادشاہ واسودیو کی موت سے ایک خلا پیدا ہو چکا تھا جبکہ مغرب سے ان وحشی حملہ آوروں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا جن کو گورے ہن کہا گیا ہے۔

اس نے محنت اور سیاسی حکمت عملی سے ایک مرتبہ پھر شاہی مقام حاصل کر لیا جو ہندوستان میں طاقتور ترین بادشاہوں کو دیا جاتا تھا۔ اس نے اپنی بیوی اور لکھوی قبیلے کے مشترک ناموں سے سکے بھی جاری کروائے۔ چندر گپت نے اپنی سلطنت کو گنگا اور جمنا کے مقام اتصال تک وسعت دی جہاں آجکل الہ آباد کا شہر واقع ہے۔ چندر گپت نے باقاعدہ تخت نشینی کی رسم بھی ادا کی جو ہندوستان کی قدیم روایت کے مطابق اعلیٰ ترین بادشاہ ہونے کا اعلان تھا۔ اس نے تاج پوشی سے سنہ کا بھی آغاز کیا (سمت گپت) جو صدیوں تک ملک پر چلتا رہا۔ اس کا پہلا سال ۳۲۰ ء یا ۳۲۱ ء سے شروع ہوتا تھا۔ مثلاً ۸۲س گ بمطابق ۴۰۱۔ چندر گپت اپنے مختصر زمانے میں ترہٹ جنوبی بہار اودھ اور دیگر علاقوں تک اپنی سلطنت قائم کر چکا تھا۔ اس نے اپنی زندگی میں ہی اپنے بیٹے سمدر گپت جو لکھوی شہزادی کے بطن سے تھا، کو اپنا ولی عہد مقرر کیا۔ کدر گیت کی تخت نشینی کے دس پندرہ برس کے اندر ہی چندر گپت کی موت واقع ہو گئی۔

سمدر گیت ۱۵اس گ (۳۳۵)

سمدرگپت جو لکھوی شہزادی سے تھا، باپ کی زندگی میں ہی سر براہ مملکت مقرر ہوا۔ اس نوجوان بادشاہ نے باپ کی اس عنایت کا بھر پور حق ادا کر دیا۔ لیاقت و ہنرمندی کا اس قدر مظاہرہ کیا کہ جس امر کا وہ مستحق تھا۔ ان خوبیوں کی وجہ سے وہ ہندی بادشاہوں کی صف اول میں اپنی جگہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ سمدر گپت نے اپنی تخت نشینی کے وقت سے ہی تمام ہمسایہ ریاستوں کو اپنے قبضے میں کرنے کے لیے کوشش شروع کر دی تھی۔ اس نے ایک طویل جنگ شروع کی جو اس کے دور حکومت کے آخر تک جاری رہی۔ سدر گیت کی خواہش تھی کہ وہ اپنے دارا اشوک کی طرح خود کو ایک عظیم بندی بادشاہ بنائے ۔ سور گیت نے سب سے پہلے قریب ترین علاقوں کو اپنے قبضے میں کرنے کے لیے توجہ مبذول کرائی اور ساتھ ہی شمالی علاقے اور کو ہستانی قلعوں کی تسخیر کے بعد پنجاب کے تمام میدانی علاقے اپنے تصرف میں کیے۔

جبکہ کوہ ہمالیہ سے جنوب کی ریاستوں کے علاوہ راجپوتانہ اور مالوہ کے آزاد وحشی اقوام کو بھی اپنی سلطنت میں شامل کیا۔ آسام اور دریائے گنگا کے میدان برہم پتر کاملی علاقہ جس میں آج کل کلکتہ، مروپ یا آسام واقع ہے ہمدرگیت کی سلطنت کی سرحد میں شمال مغرب میں کو ہستانی سلسلہ کے ساتھ ساتھ دریائے سندھ تک پھیلی ہوئی تھی جس میں پنجاب کا کل علاقہ، مغربی پنجاب کا علاقہ سیتھیا ، آج کل کا تھل ان کی حکومت میں شامل تھا کیونکہ سدر گپت کے سکے روڑاں کے علاقوں سے بھی ملے ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ قدیم تھل کا علاقہ اس کی سلطنت میں شامل تھا۔ سدر گیت نے تقریبا ۵ برس تک حکومت کی۔ دس سال باپ کی زندگی میں، باقی چالیس سال باپ کی موت کے بعد ۔ سمدر گپت کی موت مورخین کے مطابق تقریبا ۳۷۵ء میں ہوئی لیکن یہ تارا بھی صحیح معلوم نہیں ہوتی ۔ یہ بات یقینی ہے کہ سدر گپت ایک لمبی عمر تک زندہ رہا۔ اس نے موت سے قبل اپنا ولی عہد مقرر کیا تھا جو اس کی ملکہ دت دیوی کے بطن سے تھا۔ اس ولی عہد نے اپنے دادا چندر گپت کا نام اختیار کیا۔

چندر گپت دوئم ۳۷۵ (۵۵ سگ):

چندر گپت دوئم سمر گیت کا بیٹا تھا اور گپت خاندان کا تیسرا بادشاہ تھا جس نے اپنے دادا کا نام اختیار کیا۔ چندر گپت دوئم اپنے والد کی موت کے بعد برسر اقتدار ہوا۔ اس کے علاوہ اس نے کرماجیت کا بھی خطاب اختیار کیا۔ یہ بادشاہ شمالی ہند کے تمام مشہور و معروف بادشاہوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ بادشاہ جو خاصی کچی عمر کا معلوم ہوتا ہے، اپنے باپ کی طرح اپنی سلطنت کو وسیع  کرنے کا شوق رکھتا تھا اور اسی وجہ سے اس نے اپنی طاقت اور توجہ جنوب مغرب طرف مبذول کی۔ یہ علاقے غیر ملکی سرداروں کے قبضے میں تھے۔ ان کو اپنی سلطنت میں شامل کیا۔ ان میں ایک ریاست جو قدیم نام مغربی سترپ سے مشہور ہے، پر ایک بیرونی قوم سک قابض تھی ۔ سک قوم کے سردار یا بادشاہ کو بھی اس نے قتل کیا جو کسی اور مرد کی بیوی سے غیر رسمی تعلق کیلئے اس کے گھر موجود تھا۔ دریائے سندھ تک تمام مغربی پنجاب اور شمال میں کوہ ہمالیہ تک کے علاقے اس کی سلطنت میں شامل تھے۔

چندر گپت دوئم نے اپنے باپ کی طرح مغربی حملہ آوروں کا راستہ روکے رکھا لیکن خطرہ اس کی زندگی میں بدستور منڈلاتا رہا کیونکہ ایک طرف ہن اور دوسری طرف ایرانی حکومت واقع تھی۔ چندر گپت دوئم نے ان غیر ملکیوں کو دریائے سندھ سے آگے نہیں جانے دیا اور ہر حملہ پسپا کر دیا۔ چندر گپت دوئم نے تمام ہندوستان کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیا اور تمام شاہی القابات بھی اختیار کیے۔ اس کی موت سے متعلق کوئی واضح شہادت معلوم نہیں ہوتی لیکن چندر گپت دوئم کی وفات ۲۰۱ء کے بعد واقع ہوئی تھی۔ اس کی ایک شہادت فاہیان کی سیاست ہندے ۴۰ تا ۴۱۱ ء سے ملتی
ہے ۔ ہندوستان میں چندر گپت دوئم بکرماجیت کی حکومت تھی جبکہ کمار گپت کی تخت نشینی ۰۴۱۳ میں ہوئی جو چندر گپت کا بیٹا تھا۔ ان اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ چندر گپت دوئم کی موت ۴۱۲ ، یا ۴۱۳ء میں واقع ہوئی تھی ۔ کمار گپت چندر گپت دوئم کی بیوی دھرو دیوی کے بطن سے تھا اور ۴۱۳ء کے قریب ہی عین جوانی کے عالم میں تخت پر بیٹھا لیکن اپنے باپ اور دادا کی سلطنت کنٹرول کرنے میں ناکام رہا کیونکہ اس کی طویل مدت حکمرانی جو ۴۰ سے ۵۰ سال پر مشتمل تھی اور اس بادشاہ کے زمانہ حکومت کے واقعات تفصیلی معلوم نہیں ہوتے سوائے اس کے کہ پانچویں صدی عیسوی کے وسط میں مغرب سے غیر ملکی حملہ آور ، جو ہن کے نام سے مشہور تھے، ایک بار پھر ملک پر ٹوٹ پڑے اور دیکھتے ہی دیکھتے تمام شمال مغربی ہند پر طوفان حشر کی طرح پھیل گئے ۔ خود کمار گیت کی ان حملہ آوروں سے لڑائی کے متعلق کچھ معلوم نہیں ہوتا ۔ کمار گپت اول کی موت ۴۵۰ ء یا ۱۴۵۵ء کے درمیان ہوئی کیونکہ ۴۵۵ء میں بہنوں کا مقابلہ گپت خاندان کے ایک بادشاور جس کا نام یقینا سکندر گیت تھا نے کیا۔ اس لڑائی میں سکندر گپت نے بہن حملہ آوروں کو شکست دی جس کا تفصیلاً ذکر آگے آئے گا۔

سکندر گیت (۶۴۵۵):

کمار گپت اول کی موت کے بعد اس کا بیٹا سکندر گیت تخت پر بیٹھا۔ اس وقت ملک کی سیاسی فضا خطر ناک صورت اختیار کر چکی تھی اور سلطنت میں زوال و انحطاط کی ابتدا ہو چکی تھی۔ ملک کی ہے۔ سکھایا۔ ایک دولت مند قوم پشتی متر کے پاس کافی تعداد میں جنگجو موجود تھے۔ یہ قوم ہندوستان کے بڑے خاندانوں میں شمار ہوتی تھی اور اکثر اوقات خود مختیاری کی زندگی بسر کرتی رہی تھی۔ اس چشتی متر قم کی لڑائی گپت بادشاہ سے ہوئی جس کا باقاعدہ آغاز ۴۵۰ء میں ہوا تھا۔ اس لڑائی نے گیت حکومت کو انتہائی کمزور کر ، یا جبکہ دوسری طرف وہ ہن حملوں کی وجہ سے خطرناک حالات میں پھنس چکا تھا۔ پشتی متر کی جنگ میں شاہی افواج کو شکست ہوئی۔ اس صدمے کی وجہ سے شاہی خاندان کی نے۔

بقاء اور استحکام غیر مستحکم ہو گیا تھا اور ملک میں سیاسی اور معاشی اعتبار سے ایک خلاء پیدا ہو گیا۔ شاہی افواج پشتی متر کی جنگ اور شکست کی وجہ سے پہلے ہی کمزور ہو چکی تھیں جبکہ دوسری جنگ ان کے سر پر تھی۔ اس کے علاوہ من حملہ آور ملکی بقاء کے لیے مسلسل خطرہ تھے۔ ان تمام ایسے حالات کے پیش نظر سکندر گپت کی ہمت، قابلیت اور سیاسی حکمت عملی نے ہنوں کے بڑھتے ہوئے طوفان کو روکا اور ان کو شکست دے کر سکندر گپت نے اپنے خاندان کی شاہی حیثیت کو بحال کر دیا۔ اس راجہ کی عقل مندی اور فہم و فراست کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہن حملہ آوروں سے مقابلہ کرنے کے لیے فوجی تربیت کے سلسلے میں اُسے ایک رات کھلے آسمان کے نیچے گی زمین پر سو کر گزارنی پڑی۔

ہنوں کا دوسرا حملہ اور ترمان بادشاہ :

پہلے حملے میں ہن قبائل سکندر گپت سے شکست کھا کر واپس لوٹنے پر مجبور ہو گئے کیونکہ اس وقت ان میں مرکزی یا اعلیٰ قیادت موجود نہیں تھی ۔ صرف ایک جیوی قوم تھی ۔ ایک جرگہ تھا جس میں ایک سے زائد جنگی سردار موجود تھے ، ان پر مشتمل تھا اور ہندوستان پر حملہ آوروں کی قیادت کر رہا تھا جن کے پاس کوئی خاص یا بڑی فوجی طاقت بھی نہ تھی ۔ دوسری مرتبہ تقریبا پانچویں صدی عیسوی کے آخر میں ہن ہندوستان پر حملہ آور ہوئے تو اس وقت ہن قوم کی قیادت ترمان نامی ایک شخص کر رہا تھا جو نہایت جنگجو، ظالم اور سفاک تھا۔ اس بادشاہ کا نام ” ترمان” یا ” تو رمان“ بھی ہوسکتا ہے۔ اس نے اپنی فوج کی تربیت اس طرح کی کہ انہیں خونخوار بنادیا۔ ظلم و بربریت کا ایسا سبق سکھایا کہ جب ہن افواج دوبارہ دریائے سندھ کو پار کر کے ہندوستان میں داخل ہوئی تو انہوں نے ظلم اور سفاکی کی وہ داستان رقم کی جس کی ہندوستانی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ ترمان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ بادشاہ ۵۰۰ء سے قبل شمالی اور وسطی ہندوستان کا حکمران بن چکا تھا۔ اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہن فوج کا دوسرا حملہ تقریباً ۴۹۰/۲۸۰ء کے دوران ہوا ہوگا۔ ترمان اور اس کی فوج نے جو ظلم و ستم ہندوستانی علاقوں پر کیے ، وہ دل دہلا دینے والے واقعات ہیں۔ انہوں نے شہروں کے شہر تباہ کر ڈالے۔ سرسبز و شاداب کھیت جلا کر خاک کر دیے۔

ترمان کی فوج نے شہر اور دیہات و قصبات کثیر تعداد میں اس طرح جلائے کہ وہ خاک کا ڈھیر بن گئے ۔ یہاں تک کہ کھیت اور مویشی بھی ان کے ظلم سے نہ بچ سکے۔ حتی کہ اس کے متعلق مشہور کہاوت بھی ہے کہ جلانے والا بادشاہ ۔ اس بادشاہ کے ہاتھوں ظلم کا نشانہ بننے والے شہروں میں ایک شہر روڑاں کے مقام پر بھی تھا جو پانچویں صدی کے آخر میں ہن فوج کے ہاتھوں تباہ و برباد ہوا۔ اس کے اب صرف نشانات باقی ہیں جن کی تفصیل آگے آئے گی۔ ترمان ایک بڑی فوج کے ساتھ کشان سلطنت پر حملہ آور ہوا جو کابل سے لے کر گنگا کے میدانوں تک پھیلی ہوئی تھی۔ واسودیو کی موت کے بعد کشان سلطنت افرا تفری کا شکار ہو چکی تھی جبکہ باقی مانده کسر بین فوج نے پوری کر دی۔ یہ ہن حملہ آور کابل اور پشاور کے راستوں سے گندھارا اور شمالی ہندوستان پر حملہ آور ہوئے ۔ دریائے سندھ کا مغربی علاقہ تو پہلے ہی ان کے قبضے میں آچکا تھا۔ ٹیکسلا اور جنوب کی تمام میدانی پٹی موجودہ محفل سے بھی آگے دریائے سندھ اور چناب کے مقام اتصال تک کے علاقوں کو انہوں نے نیست و نابود کر دیا۔ پہلے پہل تو تر مان نے پشاور کو اپنا مرکز بنایا لیکن جیسے جیسے اس کی فتوحات کا سلسلہ اندرونِ ہند میں بڑھتا چلا گیا، اس نے مالوہ کو اپنا دارالسلطنت قرار دے دیا۔ ہن بادشاہ فتح در فتح چلتا ہوا پانی پتر اور متھرا، جہاں اس وقت گپت خاندان کی سلطنت قائم تھی ، پر حملہ آور ہوا۔ یہاں ترمان نے گیت بادشاہ کو شکست دی۔ اس کا نام بھان گیت تھا ۔

اس گپت بادشاہ نے مجبور ہنوں کے ظلم سے بچنے کے لیے ترمان کی حاکمیت اعلیٰ کو قبول کر کے ان کا باج گزار بننا قبول کر لیا۔ کچھ دوسرے بندکی را جاؤں نے بھی بہن بادشاہ کی اطاعت قبول کر لی جین میں بڑھی کا راجہ بھی تھا۔ وہ بھی ان کا اطاعت گزار بن گیا۔ ترمان ۵۰۰ تک ہندوستان کا طاقت ور ترین بادشاہ بن گیا اور اس نے مشہور بندی خطاب "راجہ مہارا جگان” بھی اختیار کر لیا ۔ اس بادشاہ کے سکے کم از کم ہمیں تو کہیں سے بھی نہیں ملے لیکن دی اے سمتھ نے ان کے دور حکومت کے تین کتبوں کا حوالہ دیا ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ بحوالہ ڈاکٹر فلیٹ کی کتاب گپتا انسکر پیشر ایک کتبہ صوبہ جات متوسط کے ضلع ساگر کے مقام ایران پر جبکہ دوسرا کوہستان نمک کے مقام کرائے جس کی تاریخ ضائع ہو گئی تھی ، سے ملا۔ اپنی گریفیا انڈیکا جلد اول صفحہ ۲۳۸ کے مطابق تیر ا کتبہ وسطی ہند میں گوالیار کے مقام پر ملاجس پر ترمان اور اس کے بیٹے ہر کل کی تخت نشینی کے پندرھویں سال کی تاریخ موجود تھی۔

مہرکل (۵۱۰):

ہن بادشاہ ترمان یا تو رمان کی وفات کے بعد اس کا بیٹا مرکل بر سر اقتدار آیا۔ ہر کل باپ کی زندگی سے ہی سلطنت کے کاموں میں شریک تھا۔ یہ بادشاہ ہندوستان کے ان علاقوں کا حکمران بنا جن کو پہلے ان کا باپ محکم کر چکا تھا۔ یہ بھی بہت ظالم اور سناک بادشاہ تھا ۔ اس کے مزاج میں بنوں کی بے رمی اور سلطا کی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی ۔ اکثر مورخین کے پیش نظر اس بادشاہ کی ظالمانہ کارروائیوں کے علاوہ کوئی مفصل تفصیل نہیں جاتی۔ اس کے مظالم سے انسان تو کیا، حیوان بھی نہ بچ سکے۔ ایک روایت میں ہے کہ مہر کل جنگلی ہاتھیوں کو بڑے بڑے گڑھوں اور غاروں میں کیل دیتا تھا۔ اس طرح ان کے چیخنے اور چلانے سے لطف اندوز ہوتا تھا۔ مہرکل کے متعلق جس نے سب سے زیادہ تحریر لکھی، وہ یورپی مورخ گین ہے جس نے ہنوں کی اکثریت قوت اور نقل و حرکت کے بارے میں لکھتے ہوئے ان کی سفا کا نہ اور بے رحمی کے ان واقعات کا ذکر کیا ہے کہ کس طرح مقامی ہندوستانی پریشان حال لوگ ہن بادشاہ کی ظلمانہ کاروائیوں کا ذکر کرنے سے ڈرتے اور مبالغہ آمیز باتوں کے ساتھ ان کو بیان کرتے تھے۔ یہ وجہ صرف مہر کل کے انتہائی ظلم و بربریت کا نتیجہ تھی کیونکہ ان کے کھیت، گاؤں اور گھر اُن کی آنکھوں کے سامنے جلا کر خاکستر کر دیے جاتے تھے اور ان کے مقتولوں کی لاشوں کو کشتیوں میں بھر کر دریا میں ڈال دیا جاتا تھا۔

اس قالمہ بن بادشاہ کے متعلق ایک عیسائی راہب جس نے ۵۷۴ء میں ہندوستان کی سیاحت کی ، نے ایک عجیب و غریب کتاب کا مس انڈ کو پلیسیئز ن ” لکھی جس میں وہ گورے ہن بادشاہ کا ذکر بھی کرتا ہے کہ اس بادشاہ کے ظلم و ستم کی حد تو یہ ہے کہ جب یہ بادشاہ اپنے باج گزاروں کے پاس ملک میں وصولی کیلئے جاتا تھا تو اپنے ساتھ ایک بڑی فوج جس میں دو ہزار جنگی ہاتھی اور بہت سی فوج لے کر جاتا تھا۔ جس ریاست کا حاکم خراج دینے میں تاخیر کا مظاہرہ کرتا ، بادشاہ اس ریاست کو نیست و نابود کر دیتا تھا۔ قوم گاتھ کی طرح ان وحشی بنوں کی ظلم و ستم اور دہشت گردی کی وجہ سے ہندوستانیوں کو بہت سارے مصائب برداشت کرنا پڑے۔ ان وحشی بنوں کے ظلم و ستم اور قابل نفرت عادات و خصائل کی وجہ ایک یہ بھی تھی کہ ان کے نزدیک کوئی چیز بھی پاک یا متبرک نہیں تھی، اس لیے وہ ہر قسم کی وحشیانہ حرکتیں کرتے تھے۔ عیسائی راہب اس ہن بادشاہ کو گلاس کا نام دیتا ہے اور اسے ظالم ترین بادشاہوں کی فہرست میں شامل کرتا ہے۔ میرکل نے اپنے باپ کے دارالسلطنت مالوہ کی بجائے سائل” موجودہ سیالکوٹ کو اپنا مرکز بنایا اور قلم سم کو اس قدر وسیع کر لیا کہ ہندوستانیوں نے تنگ آکر بالآخر ایک ایسے اتحاد کی ضرورت کو محسوس کیا جو اس ظلم کا قلع قمع کر سکے۔ اس لیے مگدھ کے راجہ بالادت رسد گیت وسطی ہند کے ایک دوسرے راجہ بیسو درھن کی کار کردگی میں دس مقامی راجاؤں کا اتحاد قائم کیا گیا جس میں تمام را جاؤں کی مشترک فوج ترتیب دی گئی جس کی تعداد تقریباً پچاس ہزار سے ایک لاکھ کے درمیان تک ہو سکتی ہے۔

یہ فوج تمام جنگی سامان سے لیس تھی۔ ہنوں کے ساتھ اس فوج کی جنگ تقریباً ۵۲۸ کے قریب ہوئی۔ اتحادی افواج نے جنوب مشرق کی طرف سے ہر کل پر حملہ کیا۔ یہ واضح نہیں کہ یہ جنگ کس مقام پر ہوئی لیکن مورخین کا خیال ہے کہ موجودہ پاک و ہند سرحد کے قریب سیالکوٹ کے مشرق میں ہوئی تھی۔ مہر کل کی فوج کو شکست ہوئی اور بادشاہ کو گرفتار کر لیا گیا۔ ہن بادشاہ نے نرسمہ گپت کے ساتھ جان کی امان کے معاہدے کے تحت گرفتاری پیش کر دی اور وہ اس ہندی راجہ کی سفارش پر رہا بھی کر دیا گیا۔ رہائی کے بعد مہر کل جب سلطنت سائل (سیالکوٹ) پہنچا تو اس کا چھوٹا بھائی یا کوئی دوسرا ہن سردار جس کو خود مہر کل بطور نگران کھڑا کر کے گیا تھا، حکومت پر قابض ہو چکا تھا اور اس نے خود تختیاری کا اعلان بھی کر دیا۔ ہر کل کو صرف شہر میں داخل ہونے سے ہی نہیں روکا ، بلکہ اس کے قتل کا حکم بھی جاری کر دیا۔ ان حالات میں مہر کل نے بھاگ کر کشمیر میں پناہ حاصل کر لی اور وہاں کے بادشاہ نے اس کی بہت خاطر تواضح کی اور ایک مختصر سا علاقہ بھی ہن بادشاہ کو بطور جاگیر عطا کر دیا۔

یہ ظالم کچھ عرصہ تو اپنی حالت پر قناعت کر کے بیٹھا رہا اور خاموشی سے حالات کا انتظار کرتا رہا مگر جونہی اسے موقع ملا، اس نے اپنے محسن کی سلطنت پر شب خون مار دیا۔ کشمیر اس کی سلطنت کے ساتھ جڑا ہوا ملک تھا اور مہر کل وہاں خاموشی سے ایک فوج جمع کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ کشمیر کی ریاست پر قبضہ کرنے کے بعد اس نے مغرب کا رخ کیا اور گندھارا کے علاقے پر حملہ کر دیا۔ یہاں کے حاکم کو جو غالباً من قوم سے ہی تھا، اچانک اور دغا بازی سے قتل کر دیا۔ شاہی خاندان جو کہ ممکن ہے کشان ہوں، کے تمام افراد کو تل کر دیا۔ قتل و غارت کی ایسی کوئی پہلے مثال نہیں تھی۔ ہزاروں آدمیوں کو قتل کر کے دریائے سندھ میں ڈال دیا گیا اور کئی ہزار آدمی جن کو گرفتار کیا گیا تھا دریائے سندھ کے کنارے ذبح کر دیا گیا۔ انسانی خون کی کثرت سے دریا کا پانی سرخ ہو گیا۔ کافی دنوں تک انسانوں اور حیوانوں نے دریا کا پانی بھی استعمال نہ کیا۔ اس وحشی حملہ آور نے جو تباہی و بربادی کے دیوتا شیو کا پجاری تھا، نے بدھ مت مذہب کے ماننے والوں کو جو اس علاقے میں اکثریت سے آباد تھے، دشمنی کا اظہار کرتے ہوئے بے دردی سے ان کی خانقاہوں اور سٹوپوں کو لوٹ کر تباہ کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت ان بدھ خانقاہوں میں بہت زیادہ خزانہ بھی
موجود تھا جو مہر کل نے لوٹ لیا۔

یہ ظالم ان لوٹے ہوئے خزانوں سے اپنے وحشیانہ ارادوں کی تکمیل نہ کر سکا اور ایک سال کے اندر ہی مر گیا۔ اس کی موت کے وقت زمین میں زلزلے آئے ، گرج اور بجلی کی تیز اور آنکھیں پھاڑ دینے والی چمک کے ساتھ ژالہ باری ہوئی، تیز طوفان آئے اور ہندوستانی علاقے تیر و تاریک ہو گئے۔ انسانیت کا دشمن ہلاک ہو گیا۔ بدھ مذہب اور ہون سانگ کی تحریروں کے مطابق بدھ مت مذہب کے مقدس ولیوں نے انسانیت پر رحم کھا کر دعا کی کہ بے شمار جانوں کے مارنے والے اور بدھ مذہب و شریعت کو مغلوب کرنے کی وجہ سے یہ ظالم دوزخ کے اسفل ترین درجے میں ڈال دیا جائے جہاں بے شمار زمانوں تک انقلاب ہلاکت خیز میں پڑا رہے۔ مہر کل کی موت کے وقت اور مقام کے بارے میں کوئی شہادت نہیں ملتی جس سے اس کی موت کی تاریخ و مقام کا تعین کیا جائے۔ چینی سیاہ ہون سنگ جس نے ۶۴۰ء میں ہندوستان کی سیاحت کی ، وہ مہر کل کی موت سے ۱۰۰ سال بعد ہندوستان آیا۔ ہون سنگ کی تحریروں کا ترجمہ ڈاکٹر فلیٹ اور ویٹرس نے کیا ہے۔ ویٹرس جلد اول صفحہ ۲۲۸ بیل الکار ڈس جلد اول صفحہ ۱۶۵-۱۷۲، بیل انڈین انٹی کو میری جلد ۱۵ صفحہ ۳۵۴ کے مطابق سب نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ مہر کل کی موت چینی سیاح کی آمد سے ۱۰۰ سال قبل ہوئی۔ ہون سنگ نے مہر کل کی موت سے متعلق بہت سارے بیان دیے ہیں۔ ایک بیان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مہر کل کی موت چنیوٹ کے شمال میں کوہ نمک کے علاقے میں واقع ہوئی کیونکہ مہر کل کشمیر سے نکل کر اپنی ریاست پر قبضہ کرنا چاہتا تھا جس کے لیے اس نے اس علاقے پر حملے شروع کیے تھے۔ اس دوران وہ اپنی ریاست کے قریبی مقام چنیوٹ کے قریب مقیم تھا کہ اس پر موت واقع ہوگئی تھی۔

 نوٹ: یہ مضمون ملک محمد شفیع کی کتاب (قدیم تاریخ تھل اور روڑاں کے آثارِقدیمہ) سے لیا گیا ہے۔

 

 

 

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com