تھل:قدیم شہر” متگر
یہ لفظ مگر اب تو ایک خواب بن چکا ہے لیکن ممکن ہے کہ کسی زمانے میں یہ نام ایک بار وافق شہر اور کسی ریاست کا صدر مقام رہا ہو۔ نجانے اس نام کے شہر کی اُس وقت کیا سیاسی و اقتصادی حیثیت ہوگی ؟ اس کی آبادی کتنے رقبہ پر پھیلی ہوئی تھی؟ آباد کاروں کا تعلق کون سے قبائل اور اقوام سے تھا؟ یہ شہر کس مقام پر آباد کیا گیا؟ اور اس کو صفحہ ہستی سے کیسے مٹایا گیا ؟ یہ تمام سوالات ہمارے ذہن میں اٹک رہے ہیں اور بار بار سوچنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ کیا آج سے پہلے کسی مورخ اور سیاح نے اس شہر منکر کا ذکر کیا ہے؟ کہیں واقعی یہ شہر قدیم روڑاں کے مقام پر تو آباد نہیں تھا؟ اس لیے ہم نے اس بات کو سمجھنے کوشش کی ہے اور اس شہر کا احاطہ کرنے کیلئے تھل کے اکثر علاقوں کا وزٹ کیا۔ پورے نقل کو تو جہ سے دیکھا کہ یہ شہر کہاں اور کس مقام پر واقع تھا ہی لیے ہم جس نتیجے پر پہنچے اور جن نظریات اور دلائل کی روشنی میں سنگر نام کے شہر کو روڑاں کے مقام پر ظاہر کیا وہ تمام تفصیلات تحریر کر رہا ہوں ۔ آپ ملاحظہ فرمائیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے ہم اس مورخ کا جس نے اس شہر کے متعلق تحریر کیا ہے، کے بیان کو ذرا تفصیل سے دیکھتے ہیں ۔
مورخ اپالونیکس جس نے ۴۳ء میں ہندوستان کی سیاحت کی اور پارتھی بادشاہ برڈینس یاور ڈنیس سے دو مرتبہ ملا، نے ایک کتاب پری پلس آف دی ایر یتھرین سی جو تقریباً ۸۰ عیسوی میں لکھی تھی کا تعلق یونان سے تھا۔ ہندوستان میں کہاں سے داخل ہوا اور وہ ہندوستان میں کس مقام اور راستہ سے آیا ؟ یہ توحقیقت ہے کہ سیاح نے یونان سے مشرق کی طرف اپنا سفر شروع کیا اور ایران، باختر اور افغانستان سے ہوتا ہوا پشاور کے راستے ٹیکسلا ء پہنچا۔ اکثر مغربی حملہ آوروں نے بھی اسی راستہ کو استعمال کیا۔ ٹیکسلا سے مزید جنوب کی طرف اپنا سفر شروع کیا۔ ٹیکسلا سے جنوب کے میدانی علاقوں وادی سندھ 32 تھل” کے سفر کیلئے سیاح کے سامنے دو راتے تھے۔ ایک دریائی راستہ جس کو سیات بحری جہاز یا کشتی کے ذریعے لے کر سکتا تھا جبکہ دوسرا راستہ مخشکی کا تھا جو پیدل یا گھوڑ سواری سے عبور کیا جا سکتا تھا۔ سیاح نے کون سا راستہ اختیار کیا؟ میرے خیال کے مطابق سیاح نے دریائی راستہ اختیار کیا ہوگا۔ اب مورخ اس مقام پر پہنچا جس کا اس نے ذکر کیا ہے کہ دریائے سندھ کے کنارے ایک تجارتی بندرگاہ شہر جس کا نام مورخ نے بر بریکان یا بریکان لکھا، کچھ عرصہ سیاح اس شہر میں رہا ہو گا۔ اس کے بعد اس نے مشرق کے میدانی علاقوں کا سفر کیا ہوگا۔ ممکن ہے کہ مورخ کو کسی مقامی گائیڈ کی ضرورت پیش آئی ہوگئی جو اس علاقے سے متعلق اس کی رہنمائی کر سکتا ہو۔ کچھ عرصہ اس شہر میں قیام کے بعد سیاح ضرور مقامی ریاست کے اندورنی علاقوں کی سیاحت کیلئے بھی سفر کیا ہوگا جس کو ساح نے ریاست سیتھیا کا نام دیا ہے۔
ریاست کے اہم مقامات اور مقامی جنگجو سرداروں اور حکمران طبقہ سے بھی ملا ہو گا جس کا اس نے تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ مورخ نے وادی سندھ اور موجودہ تھل” کو ریاست سیتھیا کا نام دیا ہے۔ مزید مورخ بیان کرتا ہے کہ ریاست کا صدر مقام متگر نام کا ایک شہر ہے جو اندرون ملک آباد ہے۔ ہم نے مورخ کے بیانات کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔
نمبر 1: مورخ نے جس علاقے کو ریاست سینتھیا کا نام دیا ہے، کا بیان ہے کہ اس علاقہ کا ستر جس کو صو بیدار بھی کہا جاتا تھا، ٹیکسلا کے بادشاہ کے ماتحت ہے۔
نمبر 2: یہ علاقہ جو دریائے سندھ کا تکونی حصہ جو دریائے سندھ اور جہلم کا درمیانی محلہ
تھل ریاست سیتھیا کے نام سے مشہور ہے۔
نمبر 3: سود مورخ بیان کرتا ہے کہ اس علاقے میں ہندی پارتھی اور ہندی یونانی اقوام کے قبائل اور جنگجو گروپ آباد اور قابض ہیں جن کو ایک مقامی سترپ یا سردار کنٹرول کرتا ہے لیکن یہ جنگجو قبائل اکثر آپس کی خانہ جنگی میں مصروف رہتے ہیں۔
نمبر 4: مورخ نے اس علاقے میں دریائے سندھ کے ساتھ دہانوں ،شاخوں کا ذکر کیا ہے جن میں ایک دریا بڑا ہے جو جہاز رانی کے قابل ہے۔ اسی دریا کے کنارے تجارتی بندرگاہ بر بریکاں نام کا شہر آباد ہے اور اندرون ملک ریاستی در السلطنت منگر نام کا شہر آباد ہے۔
اب ہم مورخ کے بیان کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اس کے بیان کو تفصیل سے دیکھیں عقلی یا نقلی دلائل سے اپنے نظریے کو ثابت کرنے کیلئے ہم نے جو نظریات پیش کیے ہیں وہ بالکل ٹھیک نظر آتے ہیں۔ اس سے پہلے ہم کچھ اور یورپی مورخین کے بیانات کو لیتے ہیں جو میرے لیے قابل فخر اور قابل احترام ہیں لیکن ان کی بات کو مجھنے میں اس لیے مشکل پیش آتی ہے کہ ان لوگوں نے ہزاروں سال بعد یہاں سے دور یورپ میں بیٹھ کر مضمون یا آرٹیکل پڑھ کر ایک نظریہ قائم کر دیا جس کی صحت کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ ان یورپی مورخین کے قائم کردہ نظریات قدیم تاریخ ہند کی حقیقت کو تبدیل نہیں کر سکتے ۔ دیکھیں جس طرح وی اے سمتھ نے اپنی کتاب قدیم تاریخ ہند باب ۱۰ صفحه ۳۱۲ پر ایک یورپی مورخ ریور نیکا بیان نقل کیا ہے کہ دریائے سندھ سے مراد صوبہ سندھ کا دریائے مہران ہے جبکہ اسی مورخ کا بیان ہے کہ پہلی صدی عیسوی کے اختتام تک مغربی مانجاب اور دوسرے بیان میں دریائے سندھ کے تکونی قطعے اور دریائے سندھ کی زیریں وادی پر ہندی پارتھی اور ہندی یونانی باختری قومیں آباد اور قابض ہیں جن کا تعلق باختری اور پارتھی حکمران حملہ آوروں سے ہے، جنہوں نے موریہ سلطنت کے خاتمے کے بعد مغربی پنجاب پر ایک مرتبہ پھر سے حملے شروع کر دے تھے۔
جبکہ ساتھ ہی ان تمام مورخین کا بیان ہے کہ دوسری صدی قسم کے وسط تک یونانی باختری بادشاہوں نے مغربی پنجاب دریائے سندھ اور جہلم کے میدانی خطے اور شمالی ہندوستان کے کوہستانی علاقے ان کی سلطنت میں شامل ہیں۔ مزید ان مورخین کا بیان ہے کہ ریاست سیتھیا کی حد دریائے سندھ اور جہلم کے تکونی حصہ جہاں دریائے سندھ اور جہلم چناب کے سنگم تک سے شمال کا علاقہ، اب تو دریاؤں کا ملاپ مظفر گڑھ سے بھی جنوب میں واقع ہے لیکن ۲- اصدی ق م تک ان دریاؤں کا ملاپ مظفر گڑھ کے شمال میں خانپور بگا شیر کے پاس ہوگا، اس کے شمال کا تمام علاقہ تھل کے نام سے مشہور ہے جو ریاست سیتھیا میں شامل ہوگا کیونکہ 190 قبل مسیح میں یونانی باختری بادشاہ دیمستر ئیس نے کابل شمالی ہند اور مغربی پنجاب کے اکثر علاقوں پر قبضہ کر لیا اور ریاست سی تھیا تھل کے تمام علاقے ان کے پاس تھے۔
اس علاقے میں پارتھی بادشاہوں کی حکمرانی کا سلسلہ تقریبا پہلی صدی عیسوی تک رہا جس کے آخری بادشاہ فرو میں ایک دوسری روایت کے مطابق گنڈ وفریس اور اس کا بھائی ایدکس مغربی پنجاب پر قابض تھا، انہی میں سے کسی ایک سے یونانی سیاح اپالونیس کی ملاقات ہوئی ہوگی۔ اسی بات کا جائزہ لینے کیلئے کہ متگر شہر کس مقام پر آباد تھا، ہم نے سیاح کے بیانات اور علاقے کی حد بندی کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ بقول سیاح قدیم متگر شہر واقع روڑاں کے مقام پر آباد تھا یا کہیں اور جگہ، اس مقصد کیلئے ہم نے پورے تھل کا بہت ہی قریب سے مشاہدہ کیا اور ہر اس مقام پر گئے جہاں ہمیں کسی بھی قدیم بستی کے آثار اور کھنڈرات نظر آئے۔ اس بات کو سمجھنے کیلئے ہم دریائے سندھ اور جہلم کے درمیانی علاقہ تھل میں بہت کوشش سے کام کیا۔ میری معاونت میں جناب محمد حسن صاحب ڈائریکٹر انچارج ہر پہ میوزیم اور زبیر شفیع غوری صاحب جنہوں نے اس علاقہ تھل پر ایک کتاب ” تھل آف دی سندھ ساگر THAL OF THE SINDH SAGAR لکھی ہے جس میں انہوں نے ۲۲۶ قدیم بستیوں کے نام دیے ہیں۔
ان کے علاوہ حبیب اللہ سا ہو صاحب اسٹنٹ ڈائریکٹر ملتان نے بھی اپنی کوششوں سے مجھے نوازا۔ ان سب کی تحقیق اور نظریات کے مطابق پورے محل میں روڑاں سے بڑی بستی ہم نے نہیں دیکھی جبکہ حبیب اللہ سا ہو گا تو بیان یہ تھا کہ ہم نے سکردو سے لے کر سمندر تک کے علاقوں کا وزٹ کیا لیکن ہم نے اس روڑاں جیسی اتنی بڑی بستی نہیں دیکھی۔ خود ارقم الحروف نے بھی ان تمام قدیم بستیوں کا وزٹ کیا۔ بلا شبہ ہم نے اتنی بڑی بستی نہیں دیکھی۔ تمام چھوٹی چھوٹی بستیاں معلوم ہوتی ہیں جبکہ روڑاں کے مقام پر پائے جانے والے کھنڈرات تقریبا ۳-۴ کلومیٹر تک پھیلے ہوئے ہیں جو اس بات کی واضح نشاندی کرتے ہیں کہ واقعی قدیم شہر مگر اسی مقام یعنی روڑاں پر ہی موجود تھا۔ روڑاں کے کھنڈرات سے ملنے والے آثار قدیمہ سے میرے ان نظریات کو تقویت ملتی ہے کہ اس مقام پر جو آبادی قائم تھی اسے علاقے یار یاست میں اہم اور مرکزی حیثیت حاصل ہوگی ۔
اس مقام کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے کہ روڑاں کے کھنڈرات سے ہزاروں کی تعداد میں سکے ملے ہیں۔ شاید پورے مغربی ہندوستان میں کوئی ایسا مقام نہیں ہوگا جہاں اتنی زیادہ تعداد میں سکے ملے ہوں۔ صرف راتم الحروف کو ۴/۳ ہزار کے قریب سکے ملے ہیں جو مختلف بادشاہوں کے ہیں۔ جبکہ ان کھنڈرات کو آن سے عرصہ ۱۵۰ سال قبل یعنی ۱۸ ویں صدی عیسوی کے اواخر میں پلین کر دیا گیا اور اس مقام پر نئی آبادی قائم ہو گئی۔ اگر مجھے اتنی تعداد میں سکے ملے ہیں تو اُس وقت کتنی تعداد میں سکے ملے ہو گے، اس کا محض اندازہ ہی لگایا جاسکتا ہے۔ ہم نے پوری ذمہ داری سے عقلی اور نقلی دلائل سے کوشش کی ہے کہ قدیم روڑاں کے کھنڈرات کی جگہ پر ضرور کوئی شہر موجود تھا جو کسی نہ کسی نام سے منسوب ہوگا۔ بد قسمتی سے پانچویں صدی عیسوی کے بعد سے اکثر تھل ویرانے کی کسی صورت اختیار کر گیا۔ اس لیے جب چینی سیاح فاہیان نے ہندوستان کا سفر کیا، اس کے بیان کے مطابق، اس نے بھکر سے دریائے سندھ کو پار کرنے کی صورت میں چینی سیاح کو ویران صحرا سے گزرنا پڑا۔ سیاح کا بیان ہے کہ دریائے سندھ کے مشرق میں ریگزار اور وسیع کلر زدہ صحرا سے گزر کر وسطی ہند میں جانا پڑا۔
مزید ان کا بیان ہے کہ دریائے سندھ پار کرنے کے بعد ریت کے دریا سے گزرنا پڑتا ہے۔ ہندوستان کی قدیم تاریخ کی بنیاد یا تو مغربی اور یورپی سیاحوں اور مورخین نے رکھی یا پھر ۱۸ ویں صدی عیسوی میں برطانیہ نے جب برصغیر پر قبضہ کیا تو انہوں نے ہندوستان کی قدیم تاریخ پر کام کرنے کی غرض سے آثار قدیمہ نام کا ایک محکمہ بنایا اور برطانیوی افسران نےہندوستان کی قدیم پر کچھ حد تک کام کیا لیکن بہت سارے علاقے جو ان نظر سے پوشیدہ رہے جن میں خاص کر تھل کا پورو خطہ جہاں انگریزوں نے قدم نہیں رکھا ۔ اس لیے تھل کا علاقہ ہندوستان کی قدیم تاریخ سے غائب ہے۔ میں نے کتنی کوشش سے نظریات آپ کے سامنے پیش کیے ہیں کہ متگر نام کا شہر روڑاں کے مقام پر آباد تھا اور دریائے سندھ، جہلم کے بمونی محلہ پر سیٹھ یا نام کی ریاست قائم تھی ، میں اپنے اس نظریے کو سچ ثابت کرنے میں حق منجانب ہوں۔ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ چوتھی اور پانچویں صدی عیسوی تک علاقہ تھل ریاست سیتھیا کے نام سے منسوب تھا اور اس علاقہ میں مختلف قبائل آباد تھے جن کا ذکر آگے آئے گا لیکن پانچویں صدی عیسوی کے آخر میں اس شہر کو تباہ و برباد کر دیا گیا۔
اب اس شہر کی جگہ کھنڈرات اور ٹوٹے ہوئے مٹی کے برتنوں کے ٹکڑے ملتے ہیں جو اپنی ماضی کی یادیں اپنے سینے میں لیے درد بھری آہوں سے ہر آنے والے کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ مجھے اس مقام پر میاں میر کی ایک نظم یاد آتی ہے، اُس کا ترجمہ کچھ اس طرح سے ہے کہ میاں صاحب ایک ویران جنگل سے گزر رہے تھے کہ ان کا پاؤں ایک بوسیدہ انسانی کھوپڑی سے ٹکرایا تو میاں نے عالم تصورات میں اس کھوپڑی سے سوال کیا کہ تم کس انسان کی کھوپڑی ہو اور تمہاری داستان کیا ہے؟ کھوپڑی نے جواب دیا جو دل ہلا دینے والے الفاظ ہیں کہ میں بھی آپ کی طرح ایک زندہ انسان تھا اور صاحب طاقت بھی تھا، علاقے کی سرداری اور حکمرانی میرے ہاتھ میں تھی، عوام میرے حکم کی اطاعت گزاری کیلئے میرے دروازے پر جمع ہوتے تھے لیکن افسوس کہ میں ہلاک ہو گیا یا بلاک کر دیا گیا۔ میرے جسم کا گوشت حشرات الارض نے کھا لیا اور میری ہڈیاں زمین میں گل سڑ رہی ہیں ۔ ہر راہ گزار میری طرف حیرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور یہی سوال کرتا ہے۔ اگر میں ، راقم الحروف، یہ کہہ دوں کہ میاں میر ا نہی روڑاں کے کھنڈرات سے گزرے تھے تو آپ مانیں گے؟ ممکن نہیں ، لیکن حالات کچھ اس مقام پر بھی ایسے ہیں ۔
میاں میر کی لعلم خیالی تھی۔ انہوں نے عالم تصورات میں یہ نظم لکھی ہوگی لیکن میرا اس مقام سے متعلق نظر یہ حقیقی ہے کہ متگر نام کا شہر روڑاں کے مقام پر آباد تھا اور یہ علاقہ تصل سنتھیا نام کی ریاست تھی۔ یادر ہے کہ ہزاروں سال پہلے کے واقعات سے متعلق کوئی نظریہ چاہے ہم جیسا کوئی نا اہل شخص کا ہو یا کسی یورپی مورخ کا، ایک خیالی خاکہ ہے جس کو مصنف ایک تصویری شکل میں ڈھال کر ایک ثبوت کے طور پر پیش کرتا ہے جو حقیقت سے کسی حد تک قریب تو ہوتا ہے لیکن اس پر سو فیصد بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہی حال ہندوستانی قدیم تاریخ کا ہے جس کو صرف یورپی مورخین نے سائنسی ٹیکنالوجی کے ذریعے ایجاد کیا اور یہی قدیم ہندوستانی تاریخ کا راز ہے جس پر ہمیں مجبوراً بھروسہ کرنا پڑتا۔
نوٹ: یہ مضمون ملک محمد شفیع کی کتاب (قدیم تاریخ تھل اور روڑاں کے آثارِقدیمہ) سے لیا گیا ہے۔