تھل

تھل: سکندر سے قبل تھل کے حالات

چوتھی صدی قبل مسیح کی آخری دہائیوں میں یونانی بادشاہ سکندر نے ہندوستان پر حملہ کیا تو اس وقت مغربی پنجاب یا گندھارا ریاست کئی حصوں میں تقسیم ہو چکی تھی۔ ہم پہلے باب میں بیان کر چکے ہیں کہ دریائے سندھ سے لے کر جہلم چناب تک بشمول موجودہ تھل اور مغربی پنجاب کے ” علاقے جہاں اس سے پہلے کو روکشتر یا کور وسلطنت ہوا کرتی تھی ، اس کے خاتمے کے بعد ادہ آچینی و ایرانی تسلط کے بعد اس علاقے میں ایک سے زائد حکمرانی کے دعویدار پیدا ہو چکے تھے۔

جیسا کہ آپ پڑھ چکے ہیں کہ گندھارا سلطنت جو کوروں اور ان کے بعد آچمینی و ایرانی دور میں گندھارا اپنے عروج پر تھی جبکہ ٹیکسلا جو گندھارا سلطنت کا مرکز تھا ، اسے پورے ہندوستان میں مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ سکندر کے حملے سے کچھ عرصہ قبل تک یہ پورا علاقہ افراتفری اور مقامی قائل کی خانہ جنگی کی وجہ سے چھوٹی چھوٹی ۴/۵ ریاستوں میں بٹ چکا تھا۔ یعنی مغربی گندھارا جس کا پایہ تخت پشکلاوتی (چارسدہ) تھا، پر ہستا یان نامی شخص حکمران تھا جبکہ مرکز ٹیکسلا میں مجھی خاندان کا ایک راجہ ابھی قابض تھا۔ جنوب میں کوہستان نمک کے پہاڑی سلسلے میں راجہ سو بھائی کی حکومت تھی جسے یونانیوں نے سوفائی ٹیز مشہور کیا ہے۔

دریائے جہلم کے اس پار جھنگ کے شمال میں راجہ پورس کی حکومت تھی جبکہ تھل“ اور مزید جنوب میں ملتان تک بھی ایک سے زائد تو میں اپنے علاقوں پر قابض تھیں۔ جیسا کہ دریائے سندھ کی مشرقی میدانی پٹی چھل” کے علاقوں پر ایودھا جیوی اتحاد کی ریاست تھی جو انہوں نے کچھ دوسری قوموں سے مل کر اس علاقے پر قائم کر رکھی تھی ۔ ملتان کے گردو نواح میں ملوی قوم آباد تھی۔ یہ ملوی تھے جن کو سنسکرت میں مالوے کہا گیا ہے۔ ان کے اتحادی کو شدرک بھی آباد تھے۔ تھل کے کچھ حصوں پر ایودھا قبائل کے علاوہ کچھ دوسری اقوام بھی آباد تھیں جن میں سبوئی ، ہلسی کا ، دریا اور دھریتا وغیرہ شامل تھیں۔

معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کے سب ایودھا قوم کے اتحادی تھے جنہوں نے مل کر تھل کے علاقوں پر ایک ریاست و ہیک قائم کی تھی جبکہ دریائے چناب اور جہلم کے سنگم پر جنوب میں ایک دوسری قوم انگلسوئی آباد تھی۔ یہ نام یونانیوں نے دیا تھا۔ ان حالات کو سامنے رکھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ راوی کے علاقے میں میں ایک طرح سے افراتفری کا ماحول تھا۔ ہر طرف خود مختار سردارا اپنے اپنے علاقوں پر قابض تھے۔ ان میں کئی علاقوں میں تو ریاستی نظام موجود تھا اور بعض ایسے تھے جنہوں نے خود مختاری تو اختیار کر لی تھی مگر ان کے پاس کوئی خاص ریاستی ڈھانچہ موجود نہ تھا اور نہ ہی فوج تھی بلکہ صرف قبائلی جتھے تھے جولڑائی میں اپنے سردار اور قوم کا دفاع کرتے تھے۔

 

 نوٹ: یہ مضمون ملک محمد شفیع کی کتاب (قدیم تاریخ تھل) سے لیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com