تھل پر یونانی فوج کا حملہ
سکندر کی فوجیں جب تریموں سے کچھ فاصلے پر شمال میں خیمہ زن ہوئی تو سکندر نے سب سے پہلے ارد گرد کے علاقوں میں موجود تمام قبائل کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے اپنے تجبر بھیجے۔ ممکن ہے کہ پورس نے بھی سکندر کو دیکہ ریاست اور وہاں موجود سرکش قبائل کی نشاندہی کی ہو کیونکہ ایودھیا جیوی سمگھا قائل جن میں ایک سے زیادہ قبائل کے اتحاد سے دریائے جہلم کے مغربی کنارے کے ساتھ ساتھ اس میدانی پٹی موجودہ تھل ، جہاں اس وقت ایودھیا جیوی کی حکومت تھی، جسے ریاست وہیک کہا جاتا تھا، خود پورس کے قابو سے بھی باہر تھی تو اس نے سکندر کو حملہ کرنے کے لیے کہا ہوگا۔ اس مقصد کے لیے پورس نے کچھ خبر بھی بھیجے ہوں گے۔ ان جاسوسوں نے سکندر کو دو علاقوں کے متعلق اطلاع دی۔ ان میں ایک قوم سبوئی جو دریائے جہلم اور چناب کے زیریں علاقوں میں آباد تھے اور دوسری انگلسوئی قوم جو دریائے جہلم کے مغرب کی طرف اس پنچ میدانی پٹی میں حکومت کرتی تھی جس کو قدیم روایتوں میں دہی کا کہا گیا ہے۔ حالانکہ انگلسو ئی اور سوئی قوموں کا ذکر کسی بھی قدیم ہندی روایتوں میں نہیں ملتا۔ یہ نام صرف یونانیوں کے دیے ہوئے ہیں۔
ممکن ہے کہ یہ ہی اور گلا کنوئی جن کا ذکر پانی نے بھی کیا ہے۔ پنی کے مطابق سہی دوسری قوموں سے مل کر گندھارا کے جنوبی میدانوں میں آباد تھے۔ یہ لوگ جنگ کو پیشہ کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ ان کے علاوہ چب، وساطی ، سبوئی یا صوبتی، امباس تھے ، کوشدرک اور مالوے یہ تمام لوگ یودھیا جیوی میں شامل تھے ۔ بدھا پر کاش کے مطابق ان قبائل نے یونانی فوج پر اس وقت چھپ کر حملہ کیا جب وہ اپنے پڑاؤ میں تھے۔ اس حملہ میں یونانی فوج کا کافی نقصان ہوا اور خود سکندر بھی اس جھڑپ میں زخمی ہوا۔ یہ ایک چھاپہ مار کا روائی تھی جس میں مختصر فوج نے حصہ لیا تھا۔ اس کے بعد سکندر نے اپنے جرنل کیریٹر اس جو مغربی کنارے کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا، کو حکم دیا کہ ان حملہ آوروں کا پیچھا کیا جائے اور انہیں عبرت ناک سزادی جائے۔ دی اے سمتھ کے مطابق پانچویں دن یونانی فوج ان دریاؤں کے مقام اتصال جہاں دریائے جہلم اپنے سے بڑے دریا چناب سے ملتا تھا، وہ مقام جہاں ان دونوں دریاؤں کا پانی آپس میں ملتا تھا، بہت کٹاؤ یا گرداب پڑتا تھا۔ اسی مقام پر سکندر کو دو شکلیں ایک ساتھ پیش آئیں۔ ایک یہ کہ یونانی فوج کے دو جہاز بمع فوجی فرق ہو گئے جبکہ وہ جہاز جس پر خود سکندر سوار تھا بڑی مشکل سے بچا تھا۔ دریا میں خطرے کی وجہ سے سکندر نے اپنی فوج کو خشکی پر اترنے کا حکم دیا۔ یہ واضح نہیں کہ یونانی یہاں کتنے دن تک ٹھہرے۔
دوسری یہ کہ مقامی قبائل نے یونانی فوج پر حملہ کر دیا۔ ایورٹی کا مضمون ” دی مہران اینڈ اٹس ٹری بیوٹریز ” ہے۔ اے۔ ایس بی ۱۸۹۲ء حصہ اول جس کو دی اے سمتھ نے تحریر کیا ہے کہ یہ بالکل صاف ہے نہ دریاؤں کے مواقع متعین ہو سکتے ہیں اور نہ ہی ہم ان کے کناروں پر آباد شہروں کے محل وقوع کا صحیح اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ آج سے ۲۳۰۰ سو سال پہلے ان اقوام کے محل وقوع اور جائے سکونت کا پتہ چلانا جن سے سکندر کا واسطہ پڑا ، بہت مشکل ہے۔ لیکن قدیم تاریخی شہادتیں اور ان آثار قدیمہ کی مدد سے جو ان علاقوں میں پائے گئے ہیں، سے کچھ حد تک اندازہ لگا سکتے ہیں۔ جیسا کہ ہم بڑی محنت اور تحقیق کے بعد اس نتیجہ پر پانچ پائے کہ کس طرح یونانی فوج جہلم اور چناب کے سنگم تریموں کے قریب خیمہ زن ہو کر آس پاس کی قوموں کے خلاف جنگی کاروائیاں کرتی رہی۔ یہ نتیجہ ہم نے بڑی محنت اور کاوشوں کے بعد اخذ کیا کہ جب سکندر کی فوج پر مقامی قبائل کی جانب سے حملہ کیا گیا تو اس کے جواب میں سکندر نے اپنی فوج کے جرنیلوں کو ایک بڑی فوج کے ساتھ اتحادی اقوام پر حملہ کرنے اور ان کے ملک پر قبضہ کرنے کا حکم دیا۔ ساتھ یہ بھی ممکن ہے کہ پورس نے یونانی بادشاہ کو اس علاقے اور یہاں قابض قبائل کے بارے میں معلومات دی ہوں کیونکہ یونانی فوج کی بے پناہ طاقت کا فائدہ اٹھاتا چاہتا تھا اور سکندر ہی کے ہاتھوں اپنے تمام دشمنوں کا خاتمہ چاہتا تھا۔ سکندر کی فوج جس کی قیادت کریٹر اس کر رہا تھا نے بقول ڈیوڈورس ، جبکہ آرین تحریر کرتا ہے کہ انگلسو کی قبائل کو صرف ڈیوڈورس نے ہی مشہور کیا ہے، ساتھ اس کا یہ بھی بیان ہے کہ اس میں بہت کی تو میں آباد تھیں، ان پر یونانی فوج نے حملہ کیا۔ انگلسوئی قبائل جو ۴۰ ہزار پیادے اور تمن ہزار سواروں پر مشتمل تھے، نے مقابلہ کرنے کی ہمت کی۔ دوسری طرف ایک اور مغربی تاریخ دان کر میش کا بیان ہے کہ دریائے جہلم کے مغربی علاقوں میں آباد سبوئی قبائل ان نیم وحشی خانہ بددل جائوں کے آباؤ اجداد تھے جبکہ مہابھارت میں تحریر ہے کہ یہ وہی جنگجو جتھے تھے جو کورو کی فوج میں شامل تھے۔
سنسکرت کے ادیب پینی نے انہیں سبویتی، ورکا، بائیجاویی، بلبس کا ، دریا، دھریتا قرار دیا ہے۔ تاہم ان میں سے اہم کشو درک اور مالوے تھے۔ یہ تمام قو میں ہندوستانی تحریروں کے مطابق یودھیا جیوی سمگھا میں شامل تھیں ۔ ہم ان قبائل کے بارے میں پہلے تفصیلاً بیان کر چکے ہیں کہ یہ جنگجو گروپ جنگ کو بطور پیشہ اختیار کرتے تھے۔ ان میں زیادہ طاقتور قبیلے کشو درک اور مالوے تھے جو اس وقت مقامی لوگوں کی قیادت کر رہے تھے۔ یونانی فوج نے ان پر حملہ کیا اور مقامی قبائل نے بھی مزاحمت کی۔ جب سکندر کی فوج کی طاقت کو نہ روک سکے تو بھاگ کر اپنے ملک کے اندرونی حصوں میں چلے گئے۔ مقامی لوگوں کا عبرت ناک نقصان ہوا، ہزاروں کی تعداد میں تلوار کی نذر ہوئے اور کچھ کو غلام بنا لیا گیا۔ آرین کا بیان ہے کہ مقدونوی فوج ان کا پیچھا کرتی ہوئی ۳۰ میل آگے مغرب کی طرف چلی گئی، یہاں تک کہ ان کے پایہ تخت پر قبضہ کر لیا۔ خیال یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جب ان قبائل کے چھاپہ مار جتھوں نے یونانی فوج پر حملہ کیا ہو گا تو اس کے بدلے میں ضرور سکندر نے اپنی فوج کو حکم دیا ہو گا کہ ان کا پیچھا کرو اور ان کے ملک پر قبضہ کرلو ۔ یونانی فوج نے مغرب کی طرف پیش قدمی شروع کی۔ مقامی لوگ مقابلہ کرنے کے لیے آگے بڑھے۔ لڑائی ہوئی لیکن ایک انتہائی طاقتور فوج کا مقابلہ ان کے بس کی بات نہ تھی۔
اس موقع پر ہندؤوں کو تہہ تیغ کر دیا گیا۔ جو بچے انہوں نے بھاگ کر اپنے پایہ تخت میں پناہ لی لیکن یونانی فوج یہاں بھی پہنچ گئی۔ شہر کا محاصرہ کر لیا گیا ۔ وہاں کے باشندوں نے بھی یونانی فوج کا مقابلہ کیا۔ اس مقام پر آرین کا بیان ہے جس میں انہوں نے ڈیوڈ ورس اور کرٹیس کا بھی حوالہ دیا ہے کہ جب سکندر کے سپاہی شہر کے اندر داخل ہوئے ، اس وقت مقامی لوگوں نے ان پر حملہ کر دیا۔ گلیوں اور کوچوں میں جب یونانی فوج پھنس گئی اور شہر والوں نے اپنے گھروں سے نکل کر ان پر حملے کیے تو اس موقع پر مقدونوی فوج کا کافی نقصان ہوا۔ سکندر کے فوجی جب بے بس ہو گئے تو انہوں نے شہر کو آگ لگا دی۔ ڈیوڈورس کا بیان باب ۱۷ صفحہ ۹۶ میں کہ مقدونوی جب کامیابی سے مایوس ہوئے تو انہوں نے شہر کو آگ لگا دی۔ جبکہ کرٹس باب ۹ صفحہ ۴ میں ہے کہ مقامی لوگوں نے دشمن کے خطرے کے پیش نظر اپنے گھروں کو آگ لگا دی اور بیوی بچوں سمیت خود کو آگ میں جھونک دیا۔ شہر کو آگ لگانے کے دونوں واقعات قابل بھروسہ ہیں۔ مقامی لوگ دشمن کے خوف سے خود کو آگ لگا سکتے ہیں کیونکہ ایسے واقعات ہندوستان میں کئی مرتبہ پیش آچکے ہیں۔ جیسا کہ ہندوستان کی تقسیم کے وقت بھی کچھ ایسے واقعات سنے میں آئے تھے۔ لیکن اول الذکر
بیان کی اہمیت زیادہ ہے۔
معلوم ایسا ہوتا ہے کہ یہ آگ یونانی لوگوں نے لگائی کیونکہ جس وقت شہر میں داخل ہوئے اور مقامی لوگوں نے اپنے گھروں میں چھپ کر دشمن پر حملے شروع کیے بقول آرین مقدونوی فوج کا کئی جانی نقصان ہوا۔ اب لڑائی کھلے میدان کی بجائے تنگ گلیوں میں ہو رہی تھی ۔ لوگ اپنے گھروں سے نکل کر دشمن فوج پر دار کر رہے تھے اور یونانی سپاہی گلیوں میں پھنس کر رہ گئے تھے۔ ان حالات میں یونانی فوج نے شہر سے باہر نکل کر محاصرہ کر لیا اور شہر کو آگ لگا دی۔ شہر کا اکثر حصہ جل گیا مر قلعہ اور اہم رہائشی عمارتیں جہاں شہر کا امیر طبقہ رہتا تھا، آگ سے بچ گیا۔ وی اے سمتھ اپنے مضمون ” آف دی پنجاب کنٹرڈ بائی الیگزینڈر دی گریٹ میں اکتوبر ۱۹۰۳ء میں تحریر کرتے ہیں کہ سکندر نے یہ شہر فتح کرنے کے بعد وہاں اپنے ایک جرنیل فلوس کو صوبہ دار مقرر کیا۔ مقامی فوجیوں کے علاوہ کچھ یونانی فوجی بھی اس کی کمان میں وہاں چھوڑے۔ اس واقعہ کے بارے میں ہم تفصیل سے روڑاں کے آثار قدیمہ باب میں ذکر کریں گے ۔ موجودہ علاقہ تھل میں فتوحات کے بعد سکندر آگے مزید جنوب کی طرف بڑھے یہاں تک کہ وہ دریائے راوی کی زرخیز وادی میں آباد قوموں پر حملہ آور ہوئے۔ کچھ مقامی سرداروں کو گرفتار کیا گیا اور کچھ نے اطاعت قبول کر لی لیکن سکندر کو اس علاقے میں ایک مشکل ایسے شہر میں پیش آئی جس کا قلعہ ایک بلند مقام پر بنا ہوا تھا۔ یہ چھوٹا سا شہر تھا جس کی سجی لوکیشن کا پتہ نہ لگایا جا سکا۔
کچھ مورخین کے خیال کے مطابق موجودہ ساہیوال سے ۵۰/۴۰ میل جنوب مغرب میں واقع ہو گا جبکہ آرین نے نہایت خوبی سے بیان کیا ہے اور ساتھ ہی انہوں نے ٹولی کے مہیا کردہ مواد کی بنیاد پر بیان کیا ہے کہ یہ چھوٹا سا شہر تھا۔ سکندر نے حسب معمول خطرے کے باوجود جائزہ لینے کے لیے دیوار پر چڑھ گئے۔ اس کے ساتھ تین لوگ اور بھی شامل تھے۔ ایک پوسٹس، دوسرا یونٹ ٹاس اور تیسرا ابریں۔ یہ زرق برق اللہ پہنے ہوئے دیوار پر کھڑے تھے کہ قلعہ کے اندر سے پھینکے گئے تیروں اور نیزوں کا نشانہ بنا گئے۔ ٹولی کہتا ہے کہ ابر میں ہلاک ہو گیا اور سکندر ایک درخت کے ساتھ جودیوار کے قریب بھی تھا۔ پشت لگا کر کھڑا ہو گیا اور حملہ آوروں کے مقابلہ میں اپنی حفاظت کرتا رہا۔
دی اے سمتھ کا بیان ہے کہ اسی مقام پر سکندر نے ہندی گورنر کو قتل کیا جو ممکن نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ جب خود سکندر زخمی حالت میں اپنی جان بچانے کی کوشش کر رہا تھا، وہ اکیلا کیسے اس شہر کے سربراہ کوقتل کرسکتا تھا؟ ہاں یہ ضرور ممکن ہے کہ جب سکندر کی پوری فوج قلعہ میں داخل ہوئی ہوگی تو اس نے ہندی گورنر کو قتل کیا ہوگا۔ یہاں سکندر کے سینے میں ایک ایسا تیر لگا جس سے سکندر گر پڑا۔ پیرکس ٹس جو اس وقت سکندر کے ہمراہ تھا، نے اس ڈھال سے جو اسیان سے لائی گئی تھی، میں چھپا لیا۔ لیونا ٹاس نے ارد گرد کے حملوں سے سکندرکو محفوظ رکھا۔ جب مقدونوی فوج نے اپنے بادشاہ کی یہ حالت دیکھی تو فوجی اس کچی دیوار پر چڑھنے میں کامیاب ہو گئے ۔ سکندر کے کچھ سپاہیوں نے قلعہ کے اندر داخل ہو کر دروازہ کھول دیا جس سے تمام یونانی فوجی اندر داخل ہو گئے اور انہوں نے مقامی لوگوں کا قتل عام کیا۔ غیظ و غضب سے بھری فوج نے بلا تمیز مرد وزن اور بچوں سب کو تہہ تیغ کر دیا۔ سکندر کو زخمی حالت میں کیمپ کے اندر لایا گیا جہاں اس کے سینے سے تیر کو جراحی کے عمل سے نکالا گیا جس کی وجہ سے خون زیادہ مقدار میں بہہ گیا اور سکندر کی فوری موت کا خطرہ پیدا ہو گیا۔ مگر خوش قسمتی سے وہ کیا گیا۔ یہ شہر اور قلعہ کہاں واقع تھا ؟ اس کے متعلق دو متضاد بیان سامنے آئے ہیں۔
ایک آرین کا وہ بیان جو انہوں نے ٹولی کے حوالے سے دیا ہے کہ یہ شہر اور قلعہ دریائے راوی کے مغربی کنارے کے ساتھ آباد تھا۔ جبکہ سڑ یو باب ۱۵ صفحه ۱۳۳ اس شہر کو ملتان (مولستان پور ) قرار دیتے ہیں لیکن ریورٹی صفحہ ۳۶۴ اور وی اے سمتھ کا مضمون ہے ۔ آر۔اے۔ ایس اکتو بر ۱۹۰۳ کا خیال ہے کہ یہ شہر ملتان یا اس کے شمال میں واقع ہوگا کیونکہ ملوی قوم دریائے چناب اور راوی کے علاقوں میں آباد تھی۔ ان مورخین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ٹولی سکندر کی فوج میں شامل نہیں تھا۔ میرے خیال میں جس قلعہ میں سکندر کو زخم آئے ، وہ موجودہ ملتان ہی کی جگہ پر تھا۔ ملوی قوم آباد ہونے کی وجہ سے پہلے اسے مولستان پور کہا جاتا تھا تو ممکن ہے کہ یہ وقت کے ساتھ ساتھ یہی نام ملتان میں تبدیل ہوا ہو۔ ویسے بھی ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ ہندوستان کے حوالے سے جو معلومات ہم تک پہنچی ہیں اور جس طرح ان مورخین نے ہندوستان میں آبادشہروں اور اقوام سے متعلق جگہ اور نام تجویز کیے ہیں ، وہ تمام کے تمام زمینی حقائق سے کچھ مختلف ہیں۔ اس لیے ہم اس بات کو نظر انداز نہیں کر سکتے کہ جن مقام اور اقوام کے لیے تحریری مواد پیش کیا جا جاتا ہے، اس میں کچھ حد تک ضرور غلطی کا احتمال موجود ہوتا ہے۔ سکندر کو کچھ دن علاج کے بعد دریائے چناب اور راوی کے مقام پر جہاں یہ ملتے ہیں، لے جایا گیا جہاں یونانی فوج ٹھہری ہوئی تھی۔ سکندر نے اپنے جرنیل فلپس کو ان مفتوحہ علاقوں اور اقوام کا صوبے دار مقرر کیا۔ اس طرح دریائے سندھ اور چناب کے درمیانی علاقہ کا صوبید دار فلوس جبکہ دریائے چناب اور راوی کے علاقوں کا صوبیدار فلپس کو مقرر کیا گیا۔
اس کے بعد یونانی فوج نے مزید جنوب کی طرف اپنا سفر شروع کیا اور سکندر دریائے سندھ کے راستہ سے سمندر تک پہنچا۔ زیریں سندھ کے علاقہ الور موجودہ سکھر روہڑی اضلاع کے قریب واقع تھا، جہاں بقول آرین موسی کنات مملکت تھی۔ اس کو فتح کرنے کے بعد سکندر نے فوج کو تین حصوں میں تقسیم کیا۔ ایک حصہ جرنل کریٹر اس کی سربراہی میں وطن واپس بھیج دیا گیا، جس میں زخمی اور بیکار فوجی اور ہندوستان سے لائے گئے ہاتھی شامل تھے۔ ان کو حکم دیا گیا کہ براستہ قندھار سیتان کرمانیہ تک جائیں جبکہ بحری بیڑے کی کمان امیر البحر نیار کس کے سپرد کی اور اسے حکم دیا کہ وہ ساحل سمندر کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا خلیج فارس سے ہو کر دریائے فرات کے دہانے پر پہنچے ۔ تیسرے حصے کی خود سکندر نے کمان سنبھالی اور وہ ان جنگی علاقوں گد روسیه ( مکران) کے راستہ سے ہوتا ہوا ایران میں داخل ہوا۔ سکندر دریائے دجلہ کے شمال مشرق میں سوسہ کے مقام پر پہنچا جبکہ یونانی فوج کا وہ حصہ جو بحری بیڑے پرمشتمل تھا ، دریائے دجلہ کے راستہ سکندر سے جا ملا۔ اب دونوں فوجیں مل کر کر مانیہ اور اس سے آگے جون ۲۳ ۳ ق م میں بابل پہنچی تھی کہ سکندر جو ہندوستان سے زخمی حالت میں یہاں پہنچا تھا، اس کی حالت مزید بگڑ گئی اور وہیں پر اس فاتح عالم اور انسانیت پر مظالم ڈھانے والے کو موت نے گھیر لیا۔ اس طرح سکندر دو خواب دل میں لیے ہوئے مقدونیہ سے ہندوستان یک پہنچا تھا تعبیر پا کر بھی ادھورے رہ گئے۔ قدرت کے فیصلے کچھ الگ نوعیت کے ہوتے ہیں کہ اتنی بڑی سلطنت جس کے لیے اس نے لاکھوں جانوں کا قتل عام کیا ، اس کا کوئی جانشین نہیں تھا۔ اس مقبوضہ سلطنت کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔
ہندوستانیوں نے بغاوت کر کے سکندر کے مقرر کردہ صوبیداروں کو قتل کر دیا اور خود مختیار ہو گئے۔ ایران سے لے کر مقدونیہ تک فوجی جرنیلوں نے اپنے اپنے علاقوں پر قبضے جمالیے۔ لیکن ہندوستان میں اس مہم سے کوئی تغیر و تبدل واقع نہیں ہوا۔ جنگ نے جو زخم دیے، وہ جلد مندمل ہو گئے۔ ویران کھیت، بارکش اور محنتی کا شہکاروں کی کا شیکاری چند سالوں میں پھر سے ہرے بھرے ہو گئے ۔ مقتولوں کی جگہ روز افزوں بڑھتی ہوئی آبادی نے لے لی۔ ہندوستان پر یونانی تہذیب کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ انہوں نے مقدونوی حملہ آوروں کے ظلم کو بہت جلد فراموش کر دیا اور پہلے کی طرح شاندار علیحدگی اور خود مختاری کی زندگی بسر کرنے لگے۔ ایک مصنف میتھیو آرنلڈ اس حملے کے متعلق یہ الفاظ استعمال کرتا ہے کہ مشرق نے مقدونوی طوفان کے آگے نفرت و حقارت سے سرتسلیم خم کر دیا۔ فوجیں تمام تباہیوں کو ہم رکاب لیے ہوئے اس کے سر پر سے گزر گئیں اور وہ پھر اپنے خیال میں محو ہو گئے۔
نوٹ: یہ مضمون ملک محمد شفیع کی کتاب (قدیم تاریخ تھل اور روڑاں کے آثارِقدیمہ) سے لیا گیا ہے۔