تھل کا تاریخی پس منظر
تاریخ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں انسانی تہذیب و تمدن کے تمام تر خدو خال تمام تر خوبیوں کے ساتھ بڑی وضاحت سے نظر آتے ہیں انسانی تہذیب نے جو جو ارتقائی سفر طے کیے اور جہاں جہاں اور جن جن وادیوں سے یہ رنگ و بود گزرا ہے ان کی کہانی جب الفاظ کا پیکر بن جاتی ہے تو یہی ماضی کی تاریخ ہوتی ہے۔ لیکن تاریخ صرف اس چیز کا نام نہیں کہ محض چند مخصوص افراد جن میں صرف بادشاہ یا شہنشاہ اور امراء شامل ہوں یا ان خاص لوگوں کے نام گنوا دینے سے یا ایسے حالات واقعات لکھ کر عہد گزشتہ کو زندہ نہیں کیا جا سکتا بلکہ اصل تاریخ تو وہ ہے جس میں اس علاقے کے تمام زمینی حقائق کو تہذیب و ثقافت، لوگوں کے رہن سہن اور قوموں کے عروج وزوال کی ایک مکمل داستان بلکہ اس سے بھی آگے ان قوموں کے سیاسی و معاشی ، اور جغرافیائی اور فکری تجزیے اسباب و واقعات اور ان کے سیاسی و معاشی اثرات کی ایک ایسی تصویر پیش کرنی پڑتی ہے جو ماضی کے ہر پہلو کا احاطہ کیے ہوئے ہو۔ اس کے علاوہ علم تاریخ کا دوسرے علوم یعنی معاشی و معاشرتی سے بھی ایک گہرا تعلق ہوتا ہے۔ جب مورخ تاریخ لکھتا ہے تو اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ تمام علوم کو مد نظر رکھ کر یعنی تہذیبی، ثقافتی، تمدنی، معاشی ، جغرافیائی اور سیاسی وسماجی علوم کو ایک ساتھ یکجا کر کے تاریخ مرتب کرے ورنہ ان کے علاوہ صحیح معنوں میں تاریخ نہیں لکھی جاسکتی ۔ تاریخ کے بارے میں بے شمار نظریات پیش کیے گئے ہیں جبکہ ہر مورخ نے اپنا ایک علیحدہ نظر یہ تاریخ پیش کیا ہے لیکن اصل حقیقت ان تمام نظریات کے پس پردہ کار فرما ہے۔ ہاں اگر تاریخ سچائی کے رخ سے پردہ نہیں اٹھاتی معاشرتی، جغرافیائی، اور تہذیب و تمدن اور حقیقی اقوام کی عروج و زوال کی نقاب کشائی نہیں کرتی تو وہ محض ایک داستان طرازی تو ہو سکتی ہے لیکن ایک حقیقی تاریخ نہیں کیونکہ ایک حقیقت کو تلاش کرنے کا حربہ ہی وہ تاریخ ہے جو غیر جانبداری سے لکھی جائے ۔ ہاں تاریخ سے ہر دور میں دلچسپی لی گئی کیونکہ تاریخ میں ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اس میں انسانوں کو ہمیشہ اپنے ماضی سے لگاؤ رہا ہے۔
انسان کے پیچھے چھوڑے ہوئے وہ ارتقائی راستے جن سے گزر کر آیا ہے۔ انسان اپنے ماضی کو دیکھ کر مستقبل کا انتخاب کرتا ہے کیونکہ وہ لامتناہی اور ارتقائی راستوں کی طرف مڑ کر دیکھنا زیادہ پسند کرتا ہے۔ انسان کا ہر گزرا ہو المحہ اور اس سے وابستہ یادیں اسے عزیز ہی نہیں بلکہ متاع و حیات یعنی ایک گزری ہوئی زندگی کا درجہ رکھتی ہیں بلکہ اصل بات تو یہ ہے کہ ماضی کا مطالعہ حال کو سمجھنے اور مستقبل کا انتخاب کرنے میں مددیتا ہے۔ اگر انسان گزرے ماضی کو چھوڑ کر صرف حال و مستقبل کو اپنا ساز گار بنانا تو میرے خیال میں مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ اسی بات کو مد نظر رکھ کر اگر ہم اپنے ماضی کی طرف خیال کریں اور اپنے ماضی کے تاریخی، تہذیبی ، سماجی ، جغرافیائی اور ثقافتی حالات کو بھی مدنظر رکھیں اور ان علوم کی اہمیت کو دیکھ کر ہم اپنے مستقبل کی زندگی چاہیں ، وہ ئیلوں میں سماجی یا پھر تہذیب و ثقافت یا مذہب ہو سب کا بڑی آسانی سے احاطہ کر سکتے ہیں۔ اس لیے ہم جس آبادی – خطے میں رہ رہے ہیں، اس کے ماضی کو سمجھنے کے لیے ہمیں تاریخ کے ساتھ ساتھ دوسرے تمام علوم کی بھی مدد لینی پڑے گی ۔ جس میں معاشی، جغرافیائی ، تہذیب، ثقافت اور مذہب وغیرہ یعنی اقوام شفیع صا. اور قبائل کے معاشی ذریعے ملکی سرحدیں، فمن ولطیفہ، رہن سہن، رشتے ازدواج اور لوگوں کا آپس گہری دی میں میل جول ان تمام حالات کو سمجھنے کے بغیر کوئی تاریخ دان میرے خیال میں اپنی کہانی مکمل نہیں کر سکتا۔
ہم جس خطہ ارض میں رہائش پذیر ہیں ، یہاں دنیا کی دوسری بڑی تہذیب نے جنم لیا جو کیسے کرتا بعد میں تہذیب وادی سندھ کے نام سے مشہور ہوئی۔ تمام ہندوستانی چاہیے وہ آج کا پاکستانی ہویا انڈین اسی تہذیب کا مرہون منت ہے اس تہذیب نے ہندوستان اور اس کے باسیوں کو دنیا میں احاطہ کیا۔ متعارف کرایا ہی وہ تہذیب گی۔ دارا، سکندر اعظم یونانی ، فرعون مصر آریہ اور کشانوں کو اپنی طرف کھینچ لائی۔ یہ دنیا کی دوسری تاریخوں سے بہت مختلف ہے۔ قدیم ہندوستانی تاریخ کی بہت ساری وجوہات ہیں کیونکہ یہاں کی قدیم تاریخ ہر دور میں ہزیمت اور شکست خوردہ رہی ہے کئی اردو تحریر ظالم اقوام نے ہندوستانی تہذیب و ثقافت کو تباہ و برباد کر دیا تو کہیں ان کے شہروں اور دیہات کو جلا کر خاکستر کر دیا گیا۔ اور فن و ثقافت کی دھجیاں اڑا دیں۔ اور کیں یہاں کی جغرافیائی حدود کو تبدیل کر دیا گیا اور کبھی ان کے معاشی نظام کو برباد کر کے ان پر قبضہ کر لیا گیا۔ حتی کہ جب بھی ہندوستانی تاریخ و تہذیب اپنے عروج کو پینے لگتی تو غیر ملکی حملہ آوروں کے ظلم کا شکار ہوتی رہی ہے حملہ آور ہونے والے ہر ظالم نے ظلم کی انتہا کر دی یہاں تک کہ آباد قبائل کو قتل کر کے ان کے شہروں کو مسمار کر دیا اور ان کی جگہ نئے شہر اور دیہات آباد کیے گئے ۔
اس طرح ہندوستان کی آبادیاں اجڑتی اور آباد ہوتی رہی ہیں اور ہندوستان کی تہذیب و ثقافت بھی تہہ در تہہ زمین بوس ہوتی رہی ایک کے بعد دوسری تہذیب و تاریخ نے جنم لیا جس طرح وادی سندھ کی قدیم تہذیب کو آریائی قبائل نے کچل ڈالا اور وادی سندھ کے لوگوں کا قتل عام کیا ان کے شہروں کو ڈھیر کر دیا۔ اس کی جگہ ایک نئی تاریخ اور تہذیب نے جگہ لی جیسے ہم آریائی تہذیب کہہ سکتے ہیں۔ کئی صدیاں بعد جب آریہ ہندوستان میں رچ بس گئے اور یہ ایک تہذیب یافتہ خطہ بن گیا۔ بہت اچھے انداز میں ایک نئی تہذیب کی ابتدا ہوئی نئے شہر آباد ہوئے اور وادی سندھ سے آگے مشرق میں وادی گنگا اور جمنا کے میدانوں کو رونق ملی ایک نیا انداز زندگی وجود میں آیا۔ ایک ایسا نظام حکومت جو پہلے کبھی ہندوستان میں متعارف نہیں تھا۔ ایک بادشاہتی نظام حکومت دیکھنے کو ملا۔ تمام لوگوں نے ایک بادشاہ کے ماتحت رہنا پسند کیا۔ سب کچھ پہلے سے مختلف تھا۔ آریہ کے ہندوستان میں آباد ہونے کے بعد یہاں کی تہذیب و ثقافت اور فن و لطیفہ اور پڑھنے لکھنے کا نیا طریقہ معرض وجود میں آیا۔
جبکہ سنسکرت کی گریمر بھی اپنی آریاؤں نے ایجاد کی جس سے چاروید لکھے گئے ۔ ایک عرصہ تک آریہ نے ہندوستان کی تہذیب و تاریخ پر مثبت اثرات مرتب کیے اور ہندوستان کو اپنا وطن تسلیم کر لیا اور آریائی تہذیب اپنا ارتقائی سفر طے کرتی ہوئی اپنے عروج کو پہنچی ہی تھی کہ پانچویں صدی ق م میں ایرانی آچمینی ، آشوری حکمران ( ملگا تھے اور پالیسہ سوم) کی طرف سے حملے شروع ہو گئے اور مقامی تہذیب کو کافی نقصان پہنچا یا معاشی اور جغرافیائی لحاظ سے ہندوستان کو بری طرح تباہ کیا گیا۔ ایرانی حملہ آوروں نے دریائے سندھ کو عبور کر کے موجودہ تھل اور دریائے سندھ کی مشرقی میدانی پٹی پر قابض ہو گئے۔ تھل کے اکثر علاقوں جبکہ شمال میں ٹیکسلا تک پر قبضہ کر لیا۔ یہاں تک کہ ان علاقوں میں ایرانی آچمینی لوگوں کی کافی تعداد کو بھی آباد کیا گیا۔ ان حملہ آوروں نے مقامی تہذیب کا نقشہ تبدیل کر کے ایک نیا نظام حکومت قائم کیا۔ چھٹی صدی قوام کے شروع تک ایرانی آچینی نے ٹیکسلا کو اپنا مرکز بنا۔ اور بعد میں انہیں ہ چینی قبائل کے اشارے پر راجا سوفیس ، فرعون مصر ، سائرس اعظم نے ۵۳۰ ق م جبکہ ایک دوسری رادیات کے مطابق چھٹی صدی ق م کے قریب ہی ہندوستان حملہ آور ہوا اور دریائے سندھ کو عبور کر کے مشرقی میدانوں پر قبضہ کر لیا جن کو مغربی ہند یا بعد میں پنجاب کا نام دیا گیا۔ موجودہ تھل بھی ان علاقوں میں شامل تھا جن پر فرعون مصر کی فوج نے قبضہ کیا۔
یہ بادشاہ ہندوستان کی تاریخ تہذیب پر کافی حد تک اثر انداز ہوا۔ انہوں نے شہنشاہ کا بھی لقب اختیار کیا اور اپنے آپ کو خدا مانے اور اپنی پوجا کرنے کا بھی حکم دیا۔ کہا جاتا ہے کہ ہندوستان میں بت پرستی اسی بادشاہ کے دور سے شروع ہوئی تھی اس کے متعلق مشہور ہے کہ یہ رحم دل بادشاہ تھا اسی نے ہندوستانیوں کو ایک نیا معاشی نظام دیا یعنی جدید قسم کی کھیتی باڑی اور کاشتکاری۔ مقامی لوگ اس کے انداز حکمرانی سے شفیع صاحه بہت متاثر ہوئے اور ان کو اپنا بادشاہ تسلیم کر لیا یعنی ہندیوں کا بادشاہ ۔ اس یونانی بادشاہ نے کافی عرصہ تک ہندوستان پر حکومت کی اور پانچویں صدی ق م سے پہلے فوت ہو گیا۔ اس کی موت کے کہ ایک و بعد شهنشاه ایران دارا گشتاسپ نے اپنی فوج کو دوبارہ مغربی ہند پر قبضہ کرنے کا حکم دیا۔ اس طرح ایرانی فوج سپہ سالار رستم کی سربراہی میں تقریباً ۵۱۰-۱۲ ق م کے دوران دریائے سندھ کے پار مشرقی میدانی پٹی موجودہ تھل پر قبضہ کر لیا۔ ایرانی جنرل رستم نے مغربی ہند کے تمام علاقوں اور شمال میں ٹیکسلا تک اپنے قبضہ میں لے لیا اور ایک عرصہ تک ان علاقوں پر حکمرانی کرتا رہا۔ لیکن مد آپ وابستگی او ۴۸۵ ق م کے قریب ہی ایرانی شہنشاہ کی موت کے بعد ہندی راجاؤں کے ایک گروپ نے ایرانی فوج کو شکست دے کر دریائے سندھ تک کے تمام علاقوں کو اپنے قبضہ میں لے لیا۔ ایک طویل عرصہ تک ہندوستان مقامی راجاؤں کے قبضہ میں رہا اور مقامی تہذیب و ثقافت نے ایک نیا انداز اختیار کیا تھا کہ ۲۶ ۳ ق م میں مغرب سے ایک اور ظالم حملہ آور جو سکندراعظم کے نام سے مشہور تھا ، کابل افغانستان سے ہوتا ہوا ہندوستان پر حملہ آور ہو گیا۔
یونانی فوج نے مغربی ہند یا پنجاب ”تھل” کے علاقوں پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ یہاں کا تمام تر نظام حکومت درہم برہم ہو گیا۔ سکندر تو آندھی کی طرح آیا اور چلا گیا لیکن اس کی موت کے بعد ان کے جانشین نے ایک عرصہ تک ہندوستان پر حملہ آور ہوتے رہے حالانکہ ہندوستان میں چندر گپت موریہ نے ایک مرکزی حکومت قائم کر لی تھی جو اشوک اعظم کے دور ۲۴۵ ق م تک قائم رہی لیکن اس کے بعد پھر ایک مرتبہ غیر ملکی حملہ آور یو چی کشان قبائل جو چین کے مغربی صوبے پہلسن سے نکل مکانی کر کے مغربی ہند میں داخل ہوئے اور تمام مغربی ہند کے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ جبکہ مزید مشرق میں متھرا اور مالوہ تک چلے گئے۔ کشان چوتھی صدی عیسوی تک ہندوستان پر حکمران رہے لیکن بدقسمتی سے پانچویں صدی عیسوی کے شروع میں ایک اور ظالم سفاک اور وحشی قوم جو ہن” کے نام سے مشہور تھی مغربی ہند پر حملہ آور ہوئی جو بعد میں گورے ہندن کے نام سے مشہور ہوئے ، یہ اتنے ظالم تھے کہ انہوں نے مغربی ہند کے اکثر شہروں کو جلا کر خاکستر کر دیا۔ لوگوں کو قتل کرتے اور ان کے سرسبز کھیتوں کو بھی جلا ڈالتے۔ ہندوستان میں جو جو وحشیانہ حرکتیں انہوں نے کیں، ان کی مثال تاریخ انسانیت میں نہیں ملتی۔
نوٹ: یہ مضمون ملک محمد شفیع کی کتاب (قدیم تاریخ تھل) سے لیا گیا ہے۔