تھل

تھل:سکندر کے بعد کا تھل

سکندر کی فوجوں کا ہندوستان سے واپس چلے جانے اور پھر جون ۳۲۳ ق م میں بابل کے مقام پر سکندر کی موت کے بعد تقریبا ہندوستان میں یونانیوں کا اثر زائل ہو گیا۔ شمال مغربی ہند کے وہ علاقے جن کو مقدونوی افواج نے روند ڈالا تھا، جنگ و جدل نے جو زخم دیے اور جس طرح آباد شہروں کو ویران کر دیا گیا، سرسبز و شاداب کھیتوں کو اجاڑ دیا گیا ظلم وستم کے بے رحمانہ استعمال اور کشت وخون کے کھیل کی وجہ سے ہندوستان میں جو تغیر و تبدل واقع ہوا ، اس نے مستقل طور پر ہندوستانیوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا تھا۔ یہی وہ سوچ تھی کہ سکندر کی واپسی اور موت کے صرف تین سال بعد مقامی قبائل نے مقدونوی صوبے داروں اور فوجیوں کو تباہ و برباد کر دیا۔ مقامی قبائل نے پھر سے اپنے آپ کو وسیع پیمانے پر منظم کرنا شروع کر دیا۔ تمام رکاوٹیں توڑ کر پہلے کی طرح اب علیحدگی کی زندگی بسر کرنے لگے۔ مختلف قبائل نے مغربی ہند کا سیاسی نظام اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی لیکن اس وقت ملک عدم استحکام کا شکار ہو رہا تھا۔ اسی دوران ٹیکسلا سے ایک اُمید کی کرن دکھائی دی جس کا نام چندر گپت موریہ تھا۔

اس کی ذہانت اور حکمت عملی نے ہندوستان کو ایک مرکزی سلطنت کے دھارے میں بند کر دیا۔ مغربی ہند اور ریاست دپیکا کے قبائل نے ان کی اطاعت قبول کر لی۔ اب شمالی مغربی ہندوستان جو پہلے کئی ایک ریاستوں میں بنا ہوا تھا، ایک بادشاہت کے تحت متحد ہو گیا تھا۔ ریاست و بیکا موجودہ تھل ” جہاں سے چندر گپت نے اپنی سیاسی زندگی کی شروعات کی مقامی قبائل نے ان کا ساتھ دے کر کامیابی سے ہم کنار کیا۔ دریائے سندھ اور جہلم کے درمیانی علاقوں میں سکندر نے اپنے جنرل فلپوس کو بطور نگران چھوڑا ۔ اس کے کچھ عرصہ بعد جب سکندر اور اس کی فوج بھی کر مانیہ پہنچی تھی تو مقامی قبائل نے فلوس کو قتل کر کے اس علاقے پر اپنی خود مختاری قائم کر لی۔ یعنی ایک مرتبہ پھر یودھیا اتحاد نے اپنی ریاست وہیکا پر کنٹرول کر لیا۔ اب چندر گپت موریہ جس نے اپنی فوج میں ایک بڑی تعداد جنگجوؤں کی بھرتی کرنے میں کامیاب ہو گیا جس کی وجہ سے چندر گپت نے پورے شمال مغربی ہندوستان پر ٹیکسلا تک قابض ہو گیا۔ اس دوران روڑاں سائیڈ اے کا کچھ حصہ جو سکندر کے حملے کی وجہ سے تباہ ہو گیا تھا، دوبارہ آباد ہونا شروع ہو گیا۔ بے شمار مقدونیوں کی جگہ اب مقامی آبادی بھر گئی۔

اجڑے ہوئے کھیت مقامی کاشتکاروں کی محنت سے ہرے بھرے ہو گئے۔ یہاں پر آباد قوموں میں کچھ حد تک تبدیلی ضرور واقعی ہوئی۔ چندر گپت موریہ کی مرکزی حکومت سے لے کر اشوک اعظم کے دور ۶۰ ق م تک اس علاقے تھل کی تاریخ خاموش نظر آتی ہے۔ بظاہر اس کی وجہ موریہ خاندان کی مرکزی حکومت تھی جس کی وجہ سے مقامی ریاستی نظام بالکل ختم ہو گیا تھا۔ وادی سندھ کے تمام قبائل نے چندر گپت کی اطاعت قبول کر لی لیکن یودھیا قبائل کے بارے میں جو اطلاعات ہمیں موصول ہوئیں کہ انہوں نے چندر گپت کی اطاعت قبول نہیں کی اور چندر گپت کی بڑھتی ہوئی طاقت سے خوفزدہ ہو کر وادی سندھ سے نقل مکانی کر کے جنوب مشرق کی طرف چلے گئے۔ ممکن ہے انہیں چندر گپت موریہ کے ساتھ ان کے حالات خراب ہونے کی وجہ سے انہیں نقل مکانی کرنا پڑی۔ ایک مرکزی حکومت کی وجہ سے وادی سندھ کے اس میدانی علاقے مچھل” کی علیحدہ ریاستی حیثیت ختم ہوئی اور تقریبا ایک سو سال تک اس علاقہ تھل سے متعلق تاریخ خاموش نظر آتی ہے۔ پھر جب ۹۰ ق م میں یونانی بادشاہ یوتھی ڈیمس کا بیٹا اور انٹی اوکس اعظم یونانی کا داماد دیمیتر ٹیکس، جس کو ہندویوں کا بادشاہ بھی کہا جاتا تھا جو اس وقت باختر حکمران تھا، نے شمالی ہند کے ایک بڑے حصہ پر قبضہ کر لیا۔

اس کے قبضے میں کابل سے لے کر پنجاب اور وادی سندھ کے علاقے کھل شامل تھے۔ لیکن تھوڑے عرصہ بعد ۱۷۵ ق م میں دیمیتر ٹیکس کی ہندی جنگی مہم کی وجہ سے باختر پر اس کا اثر کم ہو گیا تو ایک دوسرے یونانی سردار یو کر یٹائیڈ ز نے سر اٹھایا اور بغاوت کر کے باختر کا مالک بن بیٹھا۔ باختر پر مکمل قبضہ کر کے اس نے مشرقی صوبوں کا رخ کیا اور کابل سے ہوتا ہوا پشاور، ٹیکسلا اور مغربی پنجاب تک پہنچا تو وادی سندھ کے اس میدانی علاقے چھل” میں ان کا دشمن دیمیتر سکیں موجود تھا یو کرے نے اس کو شکست دے کر اس علاقے پر قبضہ کر لیا۔ یو کرے ٹائیڈز کے بعد ا پا لوڈوٹس، جو کہا جاتا ہے کہ اس کا بیٹا تھا، اس علاقہ پر حکمران رہا جبکہ کچھ حد تک منندر جو یوکرے کی طرف سے پشاور کا حاکم تھا، بھی مغربی پنجاب پر قابض رہا۔ ساتھ ہی اپالو ڈونٹس کا جانشین سوٹر کس بھی ان علاقوں پر حکمران تھا۔ باختری بادشاہوں کی ان علاقوں پر سے گرفت کمزور ہوتے ہی ان کی جگہ اب پارتھی بادشاہوں کا سلسلہ شروع ہو گیا اور کئی پارتھی بادشاہوں نے اس علاقہ تھل اور مغربی پنجاب پر خود مختار یا ماتحت حکومت قائم کی۔ یہ بعد میں ہندی پارتھی بادشاہوں کے نام سے مشہور ہوئے۔

اس علاقہ تھل سے متعلق پری پلس آف دی ایر یتھرین سی کے مصنف اپالو ئنس جو تقریبا پہلی صدی عیسوی میں ہندوستان آیا، نے اس علاقہ کو سیتھیا کا نام دیا ہے اور اس کا بیان ہے کہ اس علاقہ پر پارتھی سردار قابض ہیں۔ ممکن ہے کہ چھوٹی چھوٹی ریاستیں کچھ عرصہ تک ان علاقوں میں قائم رہی ہوں گی۔ یہاں تک کہ پہلی صدی عیسوی کے آخر میں ایک دوسری قوم یو چی کشان نے کابل اور شمال مغربی ہندوستان پر آہستہ آہستہ قبضہ کر لیا۔ اس علاقے سیکھیا ۔ تھل پر واسود یو کشان کے دور تک پر تھی، جنگجو سردار قا بض تھے لیکن آپس کی خانہ جنگی کی وجہ سے اپنی خود مختاری کی حیثیت کھو چکے تھے اور کشان بادشاہوں کے ماتحت کام کرتے تھے۔

 

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com