تھل:آریہ کی آمد اور مقامی تہذیب
وادی سندھ میں آریہ کی آمد اور مقامی قبائل کو شکست دینے کے بعد ان نو آبادکاروں نے پہلے پہل تو دریائے سندھ کی پوری وادی اور مشرقی میدانی خطہ جو دریائے سندھ اور جہلم کے درمیان واقع تھا، ایک باقاعدہ شہری اور سماجی زندگی کی شروعات کی۔ یہ علاقہ بعد میں تھل کے نام سے مشہور ہوا۔ رگ وید اور ہندو مذہب کی دوسری تحریروں سے معلوم ہوا ہے کہ دریائے سندھ اور جہلم کے درمیان آریہ کے چھوٹے بڑے شہر آباد تھے۔ ان میں ہر ایک کی آبادی پانچ ہزار نفوس پر مشتمل تھی جبکہ کچھ آبادی تو دس ہزار نفوس پر مشتمل بھی تھی۔ اس کے بعد آر یہ جنوب اور مشرق کی طرف بڑھتے چلے گئے اور ہر پہ پر قبضہ کر کے کچھ عرصہ مقیم رہے۔ اس کے بعد اس شہر کو برباد کر دیا اور مزید مشرقی ہند کی طرف پیش قدمی کی۔ یہاں تک کہ گنگا اور جمنا کے میدانوں تک پہنچ گئے۔ جبکہ جنوب میں موہنجودڑو اور اس سے بھی آگے سمندر کے قریب پہنچ گئے ۔ یہاں تک کہ اکثر ہندوستانی علاقوں میں آریہ کے قبضہ اور مکمل آباد کاری کے ایک ایسا شہری سماج وجود میں آیا جس سے ہندوستان کا نقشہ ہی بدل گیا ۔ اب ہندوستانی خانہ بدوشی کی زندگی سے نکل کر با قاعدہ ریاستی اور معاشی نظام کی طرف بڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں جبکہ قبائل اور کثیر القومی معاشرہ وجود میں آتا ہے ۔ دس ہزار ق م تک ہندوستان ایک سے زائد قومی اور ریاستی نظام میں تقسیم ہو چکا تھا جیسا کہ سال ق مشرقی ہندوستان میں۔ ایک سرسری مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ دریائے سندھ سے لے کر گنگا اور
جمنا کے علاقوں تک سماجی اور مذہبی مسلک کی بنیا درکھ دی گئی تھی۔
ساتویں صدی قبل مسیح تک ہندوستان میں روایتی اعتبار سے سولہ بڑے چھوٹے علاقے یا ریاستیں قائم ہو چکی تھیں۔ ان میں چودہ تو ایسی ریاستیں تھیں جنہوں نے باقاعدہ اقتدار کی اہمیت کو سمجھ رکھا تھا۔ مغرب سے مشرق تک علیحدہ علیحدہ ریاستوں کے حوالے ملتے ہیں جن میں کچھ تو ایک اہمیت کا حاکم اعلیٰ کے تحت جبکہ ان میں سے کچھ ریاستیں ایسی تھیں جہاں آباد قبائل کے اپنے اپنے سردار را جے ہوتے تھے۔ اسی طرح شمالی مغربی ہندوستان میں بھی ایک سے زائد ریاستوں کی نشاندہی والا کے ملتی ہے جہاں مختلف قبائل کی موجودگی ظاہر ہوتی ہے۔ جیسا کہ شمالی پہاڑی سلسلہ کے علاقوں پر شفیع صا تکسیلا جو بعد میں ٹیکسلا کے نام سے مشہور ہوا۔ ٹیکسلا ۱۰۰۰ سے ۷۰۰ قبل مسیح کے دوران آباد ہو چکا تھا جس کی تصدیق سرجان مارشل نے بھی کی۔ ٹیکسلا کے جنوب مشرق کے علاقوں پر ایک کرد دیش نام کی ریاست جو مغربی پنجاب کے پہاڑی اور دامن کوہ سے واقع جنوب میں کھلے یا نیم صحرائی پٹی اور دریائی علاقوں پر پھیلی ہوئی تھی، جو کوہ ہمالیہ کے دامن سے لے کر جنوب پنج ند یعنی پانچ دریاؤں کے محکم تک کے علاقے پر مشتمل تھی۔ یہ وہی علاقے تھے جو بعد میں تھل کے نام احاطہ کر سے مشہور ہوئے۔
ان ریاستوں کا حاکم ایک پر یشت نامی شخص تھا جس کا تعلق کر و قبائل سے بتایا جاتا ہے۔ اس بادشاہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ۸/۹ ویں صدی قبل مسیح کے دوران اس ریاست کا حکمران تھا۔ قدیم ہندی مذہبی تحریر مہا بھارت” کے ایک باب میں اس راجہ کے متعلق تفصیل سے اردو تر بنایا گیا ہے کہ مہابھارت کی جنگ تقریبا ۸۵۰ ق م میں لڑی گئی تھی۔ یہ کرو یا کورد راجہ سندھو ست یعنی وادی سندھ کے تمام شمالی مغربی علاقوں کا حکمران تھا۔ ہندی مورخ بدھا پر کاش کا بیان ہے کہ کورو کی پنجاب اور شمال مغرب پر مضبوط گرفت تھی ۔ یادر ہے کہ کورو ایک باقاعدہ قوم تھی جبکہ کرو ان کے راجہ کی معرفت تھی جیسے بلوچ سردار، بگٹی سردار وغیرہ۔ کوروں نے شمال مغرب میں پنجاب سے لے کر اتر دیش اللہ آباد تک کے علاقوں کو اپنے قبضہ میں کر لیا تھا۔
پرانہ جات جو قدیم ہندوستان کے حالات پر مبنی مذہبی اور تاریخی مسودے ہیں، ان میں کو رو سے متعلق معلوم ہوا ہے کہ اس کرو راجہ یا کورو بادشاہ کے تین بیٹے تھے۔ پہلا پار کستا ، دوسرا ہو اور تیر اسدھنوان ۔ ان میں سے پار کپتا ایک قابل اور طاقتور حکمران تھا جس کا ایک بیٹا جنم جایا تھا۔ دونوں نے مل کر شمال مغربی پہاڑوں کے علاقوں پر کور کشتر نام کی ایک ریاست قائم کی جس کا صدر مقام اس ریاست میں واقع تھا ہممکن ہے کہ ٹیکسلا ہو۔ ان کی ریاست میں مغربی پنجاب دریائے سندھ کا مشرقی علاقہ موجودہ پھل اور جنوب میں دریائے جہلم اور چناب کے ساتھ ساتھ پھیلا ہوا تھا۔ سنسکرت کی کتاب انتصر و دید کے باب میں ان فرمانرواؤں کے دور کی خوشحالی پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ پار کسپتا کے دور میں ملک بہت خوشحال تھا۔ ملک میں دودھ اور شہد کی اتنی فراوانی تھی کہ لوگ پانی کی جگہ دودھ اور شہد کا استعمال کرتے تھے ۔ راجہ کا بیٹا جنم جایا بھی ایک جنگجو اور مشہور فاتح تھا۔ باپ کی موت کے بعد اس نے شمال کی طرف پیش قدمی کر کے ٹیکسلا پر قبضہ کر لیا اور اسے اپنا پایہ تخت بنایا۔ جنوب کے تمام میدانی اور صحرائی علاقے با قاعدہ ان کی ریاست میں شامل تھے لیکن اس وقت تک سندھ کی مشرقی میدانی پڑی دریائے جہلم تک کے علاقوں میں کافی ساری دوسری قو میں اور قبائل آباد تھے۔
ان میں سر فہرست ایک طاقتور قبیلہ جو پورڈ کے نام سے مشہور تھا، دریائے جہلم ، چناب اور راوی تک کے علاقوں میں پھیلا ہوا تھا اور اس وقت ان علاقوں پر اپنی گرفت مضبوط کر رہا تھا۔ جب شاہ بھارت کے ساتھ ایک لڑائی میں جو تقریبا ۸۵۰ ق م دریائے راوی کے مشرقی کنارے پر لڑی گئی ، جس کا ذکر رگ وید میں دس بادشاہوں کی لڑائی کے نام سے لتا ہے۔ اس میں پورو کی قیادت پورو کس نے کی اور پورو کے اتحادی دس بادشاہوں کے اتحاد میں شامل ایک یا دوتر ، واشس، بھر گو، در وهیو، پکتا، بھلنا، الینا، شوا، دشمن اور انو قبائل شامل تھے۔
اتحادی افواج نے سروں کے بادشاہ رتسو بھارت یا واستھ کے ساتھ راوی کے کنارے جنگ لڑی اس جنگ میں اتحادی افواج کو شکست ہوئی۔
جب شاہ بھارت کے دستوں نے دریائے سرسوتی کو عبور کر کے موسم برسات میں اتحادی افواج پر حملہ کیا جو دریائے راوی کے مشرقی کنارے کے ساتھ خیمہ زن تھے ، اچانک حملے کو روکنے ارتقائی عمل کے لیے اتحادی فوج نے جنگی حکمت عملی کے تحت دریائے راوی کے پانی کا رخ سدا فوج کی طرف موڑ دیا لیکن ہوا اس کے برعکس۔ پانی دشمن فوج کی بجائے اتحادی فوج کے کیمپ میں داخل ہو گیا اور پانی کی وجہ سے زمین دلد لی ہو گئی۔ ان کی رتھیں زمین میں دھنس گئیں اور شاہ بھارت کی فوج کا حملہ روکنے میں کامیاب نہ ہو سکے جس کی وجہ سے اتحادی فوج کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس جنگ میں پوروکس گرفتار یا قتل ہونے کے بعد شاہ بھارت کی افواج نے دریائے راوی کے مشرق ائیلوں میں کے تمام علاقے فتح کر لیے جو پہلے پو رو بادشاہ کے قبضے میں تھے ۔ اس شکست کے بعد پوروں نے مغرب کا رخ کیا اور دریائے راوی اور چناب کے دو آب میں اپنی حکومت قائم کی جبکہ دریائےجہلم اور سندھ کے علاقوں پر کور وقبائل ہی قابض تھے۔ ۸ دیں اور ے دیں صدی قبل مسیح میں جہلم گہری دو اور چناب کے مشرق میں پور و قبائل جبکہ جہلم و سندھ کے درمیان شمال میں ٹیکسلا تک کور و قبائل کہ ایک حکمران تھے جبکہ قدیم روایتوں میں چھٹی صدی قبل مسیح کے دوران ان علاقوں میں پورو، کورد کیسے کر سلطنت کا وجود ملتا ہے۔
ممکن ہے کہ یہ کورو پورو اتحاد کے تحت وجود میں آئی اگر چہ پرانوں کے تحریروں میں پنجاب سے متعلق کوئی خاص حالات نہیں ملتے مگر بدھ کے قدیم نسخوں میں ایک کیا ، الا طاقتور ریاست گندھارا کا ذکر آیا ہے جس پر چھٹی صدی ق م میں ایک طاقتور بادشاہ کوستی حکمران تھا جس کی سلطنت شمال میں ٹیکسلا سے لے کر دریائے سندھ کے مشرقی کناروں کے ساتھ ساتھ تمام میدانی علاقوں چھل” کے جنوب میں ملتان جبکہ شمال مشرق میں کشمیر کی سرحد تک پھیلی ہوئی تھی۔
ایک یونانی مورخ بیکا ٹائس موجودہ ملتان کے بارے میں تحریر کرتے ہیں کہ کیا پاور باش یا پورا شہر یا علاقے کو ملتان سے جوڑا ہے ممکن ہے کہ اس نام کا کوئی علاقہ یا شہر ملتان نہیں بلکہ اس کے شمال میں دریائے جہلم چناب اور راوی کے سنگم کے اس پار کا کوئی شہر ہو سکتا ہے جو گندھارا سلطنت کا حصہ تھا۔ ایک خیال کے مطابق کشی یا پورا نام کی کوئی ریاست تھل کے اس زریں حصہ میں واقع ہو جہاں روڑاں کے کھنڈرات پائے جاتے ہیں اور ریاست پکوتی کو رو بادشاہ کی باج گزار ہو کیونکہ یہ ٹیکسلا سے کافی دور دریائے سندھ کے زریں حصہ میں واقع تھی جبکہ ٹیکسلا گندھارا ریاست کا دارالحکومت تھا یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چھٹی صدی ق م تک کو رو بادشاہ کی ان علاقوں پر مضبوط گرفت تھی جو ٹیکسلا سے لے کر دریائے سندھ کے مشرقی ریگزاروں سے آگے ملتان تک پھیلی ہوئی تھی ۔ ممکن ہے کہ آمینی بادشاہ سائرس اعظم جس نے دریائے سندھ کو عبور کر کے چھٹی صدی قبل مسیح کے وسط میں ان علاقوں پر حملہ کیا اور اس وقت یہی کو رو بادشاہ ان علاقوں پر حکمران تھا جس نے آمینی شہنشاہ کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے یا پھر ان دونوں کے درمیان کوئی امن معاہدہ طے پا گیا ہو اور کو رو بادشاہ نے مصری بادشاہ کی اطاعت قبول کر لی ہو اور اس طرح چھل” کے علاقے جو دریائے سندھ اور جہلم کے درمیان ٹیکسلا تک تقریباً سائرس اعظم کی عمل
داری میں آگئے ۔
نوٹ: یہ مضمون ملک محمد شفیع کی کتاب (قدیم تاریخ تھل) سے لیا گیا ہے۔