تھل

تھل:روڑاں اور قدیم تاریخ ہند

تھل کے اس قدیم مقام پر پائے جانے والے آثار قدیمہ کے نمونے اور شواہد ملے ہیں۔ ان میں قدیم یودھیا قبائل سے لے کر آخری کشان بادشاہ تک کے سکے ہیں جن سے اخذ کردہ نتائج کی بنیاد پر ہم نے روڑاں کے مقام پر پائے جانے والے کھنڈرات اور آثار کو سمجھنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور اس مقام کے ادوار تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں جبکہ یودھیا قبائل سے پہلے کے بھی آثار پائے جاتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام پر آبادی کا سلسلہ عرصہ قدیم سے بدستور چلا آ رہا ہے۔ جس کے تانے بانے وادی سندھ کی قدیم تہذیب سے ملتے ہیں۔ کیونکہ اُس وقت تک سکہ کا رواج نہیں تھا۔ سکہ چھٹی صدی ق م میں اُس وقت ہندوستان میں رائج ہوا جب مصری بادشاہ سائرس اعظم (فرعون مصر ) ہندوستان پر حملہ آور ہوا تھا۔ یہ فن انہوں نے ہندوستانیوں کو دیا۔ دریا سندھ کی یہ وادی جو آج کل تھل” کے نام سے مشہور ہے، مختلف خانہ بدوشوں کے قبضے میں رہی۔ پانچویں صدی قبل مسیح میں مغربی ہند یا صوبہ پر سلطنت ایران کا قبضہ معلوم ہوتا ہے جبکہ چھٹی صدی ق م تک مصری بادشاہ جس کے کئی نام سامنے آچکے ہیں، جن میں سائرس اعظم ، کورش اعظم اور راجہ سوفیٹس ۔ جبکہ پانچویں صدی ق م میں ایرانی النسل قبائل وادی سندھ کے زیریں علاقوں میں آباد تھے۔

چوتھی صدی ق م میں مقامی قبائل جن میں ایک سے زیادہ تو میں شامل تھی، جن میں سربراہ یودھیا قوم تھی ، ان تمام اقوام پر مشتمل ایک مجلس شوری تھی (جیوی سمگھا ) تھی۔ ہم پہلے باب میں ان اقوام کا ذکر چکے ہیں۔ یودھیا دوسری جنگجو خانہ بدوش اقوام کو ساتھ ملا کر وادی سندھ کی اس میدانی پٹی جو اُس وقت وہیکا ریاست کے نام سے مشہور تھی، قابض تھے اور سکندراعظم کے حملے تک حکمران تھے لیکن مقدونی فوج کے نے حملے ان کو کمزور کر دیا۔ ۳۲۶ ق م میں سکندر کی فوج جب دریا چناب اور جہلم کے سنگم پر پہنچی تو سکندر نے اپنی فوج کے جاسوسی کے افسران کو حکم دیا کہ وہ گردو نواح کی اقوام کے متعلق معلومات حاصل کریں کیونکہ سکندر کے سامنے اطلاعات کے مطابق بہت ساری اقوام جن مالوے (ملوی) آکسی، ڈرائی سبوئی، انگلیوئی ایک خطرہ تھی، سکندر جسے دور کرنا چاہتا تھا۔ سکندر کی فوج تریموں ہیڈ کے ۲۳ میل شمال میں کچھ دونوں کیلئے ٹھہری تو سکندر کو دو قوموں کے بارے میں بتایا گیا۔ ان میں سبوی جو دریائے جہلم اور چناب کی زیریں علاقوں میں آباد تھی، جبکہ دوسری قوم انگلیسوی قوم، یہ دریائے چناب کے مغربی خشک میدانی علاقے تھل میں بطور حکمران قابض تھے۔

ہندی بادشاہ چندر گپت موریہ نے برسر اقتدار آتے ہی ان کو بیدخل کر دیا اور ان کے پاس ۴۰۰۰ پیادے اور ۳۰۰۰ گھڑ سوار فوج موجود تھی۔ ان کے علاقے پر سکندر نے حملہ کیا۔ جس کی تفصیل ہم پہلے بیان کر چکے ہیں۔ ہندوستان کی قدیمی تحر یروں میں اس انگلیسو ئی قوم کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ یہ نام صرف سکندر کے ساتھ سفر کرنے والے مورخین نے دیا ہے اور بعد میں اس نام کو مغربی مورخ ڈیوڈرس نے مشہور کیا ہے۔ اصل میں یہ یودھیا قبائل کے اتحادی اقوام تھی جس نے سکندر کی فوج کا مقابلہ کیا۔ اس میں شک کی گنجائش نہیں کہ روڑاں کے مقام پر یونانی بادشاہ سکندر کی افواج نے حملہ کیا یا نہیں کیا؟ اس واقعہ سے متعلق دو اہم تاریخی حوالے موجود ہیں۔ ایک یہ کہ سکندر نے تریموں کے مقام پر پڑاؤ کیا تو وہاں دو قوموں نے ان پر حملہ کر دیا۔ بقول مورخ ایک سبوئی اور دوسری انگلیسوئی۔ سبوئی قوم دریا کی زیریں وادی جس کو قتل“ اور ” بیٹ“ جیسا کہ دریا سے وابستہ زمین جو تریموں کے جنوب اور شمال کا علاقہ جیسے آجکل کے جھنگ اور شور کوٹ یہ علاقے دریا کے زیریں حصہ میں آتے ہیں۔

ان لاقوں پر قوم سوئی آبادتھی جن کو طبع کرلیا گیا جبکہ دوسری قوم انگلیسو ئی جو دریا کے مغربی خشک اور میدانی علاقے (موجودہ تھل ) پر آباد تھیں ۔ ان کا دارالسلطنت اندرون ملک دریائے چناب سے تقریباً چالیس میل مغرب میں واقعے تھا جہاں سکندر کی فوج نے حملہ کیا۔ ہم نے اس بات کا اندازہ لگانے کی کوشش کی ہے کہ کیا واقعی یونانی فوج نے وادی سندھ کے اس علاقہ پرحملہ کیا یا نہیں؟۔ اس بات کو ثابت کرنے کیلئے ہم نے تاریخی حوالہ جات کو آپ کے سامنے رکھا ہے کہ کریر اس جو سکندر کا اہم ترین جزل تھا اور ایک بڑی فوج کی کمان کر رہا تھا کو دریا کے مغربی کنارے کی نگرانی پر مامور کیا گیا تھا۔

اب یہ بات ذہن میں رہے کہ خشک علاقہ اور ۳۰ میل ۴۵ کلومیٹر دریا چناب سے دور دوسرا یہ کہ اس علاقہ پر یونانی فوج کے اس حصہ نے حملہ کیا جو دریا کے مغربی کنارے کی نگرانی پر تھی جس کی کمان کر یٹر اس کر رہا تھا۔ بُدھا پر کاش نے اپنی کتاب مہاراجا پورس میں تحریر کیا ہے کہ سکندر کی فوج پر مقامی قبائل نے حملہ کر دیا۔ جبکہ وی اے سمتھ نے اس واقعہ کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ وہ اپنی کتاب قدیم تاریخ ہند میں (ایرین، انا باس آف الیگزینڈر۔ باب ۶ فصل ۵ ، کریٹکس باب ۹ فصل ۴۔ ڈیوڈرس باب ۱۷ فصل ۹۲ ) ان مورخین کے بیانات کو پیش کرتا ہے۔ اس کا بیان ہے کہ کریٹر اس کے کیمپ پر مقامی قبائل نے حملہ کیا۔ وہ نیم خانہ بدوش جائوں کا ایک اتحاد تھا جو اس علاقہ میں آباد تھے۔

 

 نوٹ: یہ مضمون ملک محمد شفیع کی کتاب (قدیم تاریخ تھل اور روڑاں کے آثارِقدیمہ) سے لیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com