تھل کا قدیم تاریخ ہند کاراز
ہندوستان کی تاریخ کا کہیں کوئی وجود ہی نہیں تھا بجائے اس کے کہ یہ مٹی کے بڑے بڑے ڈھیروں تلے دبی ہوئی تھی۔ اگر کوئی تحریری ثبوت تھا تو وہ بھی فرسودہ حال ہندو کی وہ مذہبی تحریریں تھی جن کی صحت کے بارے میں یقین نہیں کیا جاسکتا تھا بلکہ غیر تسلی بخش وہ رزمیہ فلمیں جو کبھی کسی ایک ہندو راجہ، مہاراجہ ان دیوتاؤں کی شان میں لکھی جاتی تھی۔ اگر کوئی مورخ ان تحریروں کو سامنے رکھ کر تاریخ لکھتا تو مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن تھا۔ اس کے علاوہ دوسرے ثبوت جو بڑے بڑے مٹی کے ٹیلوں کے نیچے وہ آثار جن کو انگریز مورخین نے آثار قدیمہ کا نام دیا ہے۔ جو اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ یہاں دیہات اور شہر آباد تھے اور وہ کون لوگ تھے جو ان شہروں میں آباد تھے اور اب یہ کھنڈرات بن چکے ہیں لیکن ان کھنڈرات اور آثار کو کون چھوتا اور ان مئی کے ڈھیروں کو کھودتا یہ ایک بہت مشکل کام تھا۔ لیکن یہی کام 19 صدی عیسوی کے وسط میں ہندوستان پر حملہ آور ایک قوم جن کو ہم انگریز کہا کرتے تھے، نے کیا ان لوگوں نے ہندوستان کی قدیم تاریخ ہند مرتب کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ کیونکہ ہندوستانی اس بات سے بالکل بے خبر تھے۔
انگریزوں نے اس کام کے لیے ایک باقاعدہ ہی کہ جو آثار قدیمہ ( آرکیالوجیکل سروے ۱۸۶۲ء) میں بنایا۔ انگریز فوج کے ہی ایک کرنل انجینئر ھم کو اس کا سر براہ بنایا ۔ ھم نے بڑی جاں فشانی سے ان تمام مقامات کا دورہ کیا جہاں یہ تاریخی کھنڈرات پائے جاتے تھے۔ انہوں نے ہندوستان کی قدیم تاریخ پر بہت کام کیا ۔ کرنل ھم ۱۸۸۵ء میں فوج سے سبکدوشی کے بعد بھی آبادی 1 می تاریخ ہند پر کم کرتا رہا اور بہت سارے تاریخی راز افشاں کیے جن میں مغربی ہند پٹرپہ موہن جو دڑو وغیرہ شامل ہیں۔ قسم کی ریسرچ نے ہندوستانی تاریخ چار چاند لگا دیے۔ ان کے بعد ا ۱۹۰ء میں واسرئے ہند لارڈن گزرن کی دلچسپی سے آثار قدیمہ کے ایک ماہر نو جوان جن کا نام جان تھا لیکن بعد میں وہ سر جان مارشل کے نام سے مشہور ہوئے ان کو اس محکمہ کا ڈائر یکٹر بنادیا گیا۔ سر جان مارشل نے مشرقی ہند کے ساتھ ساتھ مغربی ہند کے علاقوں کا بھی دورہ کیا اور انہوں نے قدیم ٹیکسلا کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا اور قدیم ریاست گندھارا کے مرکزی شہر کے احاطہ کیا ۔ کھنڈرات کی کھدائی کی۔ جس میں انہوں نے قدیم تاریخ ہند کے بہت سارے راز افشاں کیے جبکہ ان کے علاوہ انگلستان کے کافی مورخین نے بھی قدیم تاریخ ہند پر کام کیا جن میں جنرل ٹاڈ ، جو براش فوج کا آخری جنرل تھا، ریشن ٹی۔ ایس۔ اوز اور وی اے سمتھ جبکہ فرانسیسی فوج کے کچھ افسران نے بھی قدیم تاریخ ہند پر کام کیا اور ان میں چارلس ون کنس۔
ہور لیس ہمین ولسن انہوں نے بھی ایک تنظیم قائم کی جس کا نام کوئی ڈس لنگھن اور تپسی در نہیں تھا۔ فرانسیسی افسر جمشن کو اس کا سر براہ مقرر کیا گیا ان تمام لوگوں کی کوششوں سے اور ذاتی لگن وجستجو کے ذریعے ہندوستان کو اس کا قدیم روپ ملا۔ چنانچہ انہوں نے ایسے ایسے گوشوں کو بھی اجاگر کیا جن کا کسی دیسی شخص کی نظر محض عام بات سمجھ کر ٹھکرادیتا تھا۔ اب دوہی تاریخ جو ایک سائنسی اور ٹیکنیکل طریقے سے ہمارے ہاتھ میں آئی ہم اس پر بھروسہ کرتے ہوئے آگے چل رہے ہیں اس لیے ہم ان لوگوں کے شکر گزار ہیں کہ کہ انہوں نے اپنا قیمتی وقت اور سرمایہ خرچ کر کے ہمیں اپنے ماضی کے گزرے ہوئے ان حالات سے آگاہ کیا جس کا کوئی ہندوستانی یا پاکستانی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ ہی قدیم تاریخ ہند انہیں انگریز مورخین کی مرہون منت ہے ہم نے انہیں مورخین کی آراء کوسامنے رکھ کر تل کی قدیم تاریخ اور روڑاں کے آثار قدیمہ کی نشاندہی کرنی ہے۔ تاہم کی کئیلاگ اور وی اے سمتھ کی تحریر قدیم تاریخ ہند سے مجھے بہت ساری معلومات حاصل ہوئی جن کی مدد سے میں بندہ ناچیز اس حد تک پہنچا ورنہ ہمارے جیسے نا اہل آدمی کے بس کی بات ہی نہیں تھی۔
نوٹ: یہ مضمون ملک محمد شفیع کی کتاب (قدیم تاریخ تھل) سے لیا گیا ہے۔