تھل:بند و سار (۲۹۸ ق م ) اور اشوک اعظم
جب چندر گپت موریہ ۲۹۸ ق م میں مر گیا یا تخت سے دستبردار ہوا تو اس کے بعد اس کا بیٹا بند دسار سلطنت کا جانشین مقرر ہوا لیکن وہ اس قابل نہیں تھا کہ اتنی بڑی سلطنت کا انتظام فوجی اور سیاسی لحاظ سے قابو میں رکھ سکے۔ بند و سار ایک مغرور اور سخت مزاج کا آدمی تھا۔ وہ اپنے شہزادگی کے دور سے ہی احمقانہ حرکتیں کرتا رہتا تھا۔ تخت پر بیٹھنے کے بعد اس کے لیے مشکل کام تھا کہ وہ اپنے سیاسی حریفوں کو کنٹرول کر سکے۔ سب سے پہلے تو اس نے اپنے مخالفین کی ایک بڑی تعداد کو قتل کروادیا جس کی وجہ سے وہ ایک لقب ” امتر گھاٹ سے بھی مشہور ہوا تھا جس کے معنی ہیں دشمن کش یادشمنوں کو قتل کرنے والا ۔ بند و سارنے کسی نہ کسی طرح اپنے باپ کی سلطنت کو محفوظ رکھنے کے لیے پوری پوری کوشش کی جس میں اس کے بیٹے وردھن اشوک کا بھی کافی حد تک سیاسی عمل دخل شامل تھا۔ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ حالات کی مشکلات کے پیش نظر بند و سار نے اپنے بیٹے اشوک کو شریک اقتدار کر لیا اور اس کو سلطنت کے شمالی مغربی علاقوں کا نائب مقرر کیا جس میں مغربی پنجاب، کشمیر اور دریائے سندھ کے مغربی علاقے شامل تھے۔ اشوک نے بطور نائب گندھارا کے مرکز ٹیکسلا کو دارالسلطنت قرار دیا کیونکہ ٹیکسلا کو اس دور میں شمال مغربی ہندوستان میں ایک اہم اور مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ اہم ادبی و مذہبی علوم اور فنون کے سبب اس کو باقی شہروں کی نسبت اہم درجہ حاصل تھا۔
مغربی ہندوستان کے اعلیٰ طبقوں اور خاندان کے بچے ٹیکسلا یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے آتے تھے۔ علمی اور ادبی اہمیت کے علاوہ ٹیکسلا کو ایک سیاسی مقام بھی حاصل تھا سرسبز و شاداب جگہ جبکہ موسم گرما میں لوگ مری کی طرح ٹیکسلا کا رخ کرتے تھے۔ اس لیے اشوک نے اپنے ولی عہد کے زمانے میں سے ہی ٹیکسلا ہی کا انتخاب کیا۔ ٹیکسلا ریاست گندھارا کا مرکز تھا جسکے مالی کو ہستان کے علاقوں کے ساتھ جنوب کے میدانی علاقے تھل“ تھے جو زراعت اور کاشتکاری کے لیے موزوں تھے۔ دریائے سندھ اور چناب کا میدان اناج اگانے والا سب سے زرخیز علاقہ مانا جا تاتھا۔ اشوک کچھ عرصہ تک ان علاقوں میں نائب کے طور پر حکومت کرتا رہا ۷۲ ق م میں بند وسار کی وفات کے بعد اس نے سلطنت کا مکمل انتظام سنبھالا ۔ اشوک کی تاج پوشی ۲۶۹ ق م میں ہوئی۔ اشوک کے زمانے میں موریہ سلطنت کی وسعت ور حدود کا اندازہ قری صحت کے ساتھ کیا جاسکتا ہے جس کی سرحدیں شمال مغرب میں کو ہستان ہندوکش اور افغانستان کا اکثر مشرقی علاقہ جبکہ موجودہ بلو چستان، سندھ اور جنوب میں سمندر تک اور مشرق میں نیپال اور کشمیر تک پھیلی ہوئی تھیں ۔
اشوک نے نے سو سال حکومت کی ۔ اس نے اپنے دور حکومت میں بہت ساری اصلاحات بھی کیں۔ دور دراز شہروں کے درمیان راستے اور مہمان خانے بنوائے۔ عوام کو چوروں اور لٹیروں سے بچانے کے لیے محافظ چوکیاں اور نگران مقرر کیے۔ عوام کے لیے معاشی ذرائع پیدا کیے۔ اشوک کی زندگی کا ایک اہم واقعہ کالنگ کی جنگ ہے جس میں تقریباً ایک لاکھ کے قریب افراد ہلاک ہوئے۔ اس خونی جنگ کی وجہ سے اشوک کے اندر ایک ایسی تبدیلی آئی کہ وہ مکمل طور پر بدل گیا اور اس نے جنگ و جدال سے بالکل کنارہ کشی اختیار کر
یونانی اور پارتی خاندان:
۱۸۵ ق م کے آخر میں موریہ بادشاہ بر ہورتھ کے قتل اور موریہ سلطنت کے خاتمہ تک کوہ ہندوکش مور یہ سلطنت اور باختر کے حکمران یونانی بادشاہ اوکس تھیوس کے درمیان ایک سرحد موجود تھی۔ ہندوکش کے شمال مشرق میں ہندوستان کے وسیع میدانوں اور وادیوں پر جو سکندراعظم کے تباہ کن حملوں کے بعد ہندی صوبے جن کو یونانی جرنل سائلو کس اپنے قابو میں نہ رکھ سکا، بالآخر وہ تمام علاقے چندر گپت موریہ کے آپنی پنجے میں آگئے ۔ یہ بعد میں اشوک اور اس کے جانشین کے تنے میں رہے۔ ہمیں اس امر میں شک کرنے کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ دریائے سندھ کے مغربی علاقے کتنی حد تک سائکلو کس نے اپنے ہندوستانی حریف بادشاہ کے حوالے کیے تھے لیکن اس بات کے ضرور اشارے ملتے ہیں کہ راجہ اشوک کی موت اور اس کے جانشینوں کا خاتمے تک کوہستان ہندوکش موریہ سلطنت کی حد فاصل تھا۔
یہ امر یقینی ہے کہ راجہ اشوک کی موت کے بعد ریہ سلطنت کا وہ اتحاد و یگانگت باقی نہ رہا جو چندر گپت سے لے کر اشوک کے زمانے تک فوراً موریہ تھی۔ راجہ اشوک کی موت کی وجہ سے اس سلطنت میں اس زبر دست شخصیت کا اثر اٹھ گیا اور مور یہ سلطنت کو اندرونی اور بیرونی خطرات نے گھیر لیا۔ ملک کے دور افتادہ علاقوں اور صوبوں کی اقوام اور قبائل نے اطاعت کا طوق اپنی گردنوں سے اتار پھینکا اور خود می رسلطنتیں قائم کر لی ۔ قدیم بندی تحریر وشنو پر ان اور والیو پر ان سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح موریہ فوج کے سپہ سالار پشی متر نے اپنے آقا بر بدرتھ موریہ کو قتل کر کے مگدھ کے تخت پر قبضہ کر لیا اور سنگ خاندان کی بنیاد ڈالی۔اس واقعہ کا حال ساتویں صدی عیسوی کے شاعر ہبان نے تحریر کیا ہے کہ پشی متر بر ہور تھ موریہ کی فوج کا سپہ سالار تھا۔ اس نے ایک موقع پر تمام فوج کو بہانے سے اکٹھا کیا اور جائزہ لینے کی غرض سے کہ وہ فوج کو بادشاہ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہے، اس موقع پر پشی متر نے تمام فوجی جرنیلوں سے ساز باز اور فوج کی مدد سے بر ہا تھ کوقتل کردیا اور مگدھ کی حکومت پر بھی قبضہ کر لیا۔
پٹی متر ایک قابل اور جنگجو خصلت کا مالک تھا۔ اسی وجہ سے بڑی جلدی تمام مگدھ اور قریب کے صوبوں نے اس غاصب کی اطاعت قبول کر لی۔ یہاں تک کہ کچھ مورخین کا خیال ہے، جس میں دی اے سمتھ جس نے ولنس کا بیان نقل کیا ہے اور جو تھیٹر آف دی ہندوز جلد دوم صفحہ ۳۵۳ تم کرانیکل ۱۸۷۰ء صفحہ ۲۷۷ میں کہ پٹی متر کی فتوحات پنجاب کے تمام میدانی علاقوں دریائے سندھ تک پہنچ گئی تھیں۔ لیکن یہ امر قرین قیاس نہیں کہ پٹی متر کا موریہ سلطنت کو غصب کرنے کے بعد کافی عرصہ تک پنجاب اور دریائے سندھ کی وادی میں تمام علاقوں پر مور یہ خاندان کے آخری تاجدار قابض اور حکمران رہے۔ ان بیانات میں کافی حد تک ابہام پایا جاتا ہے کہ بقول دی سے متا اورانہوں نے خود اپی تحریروں میں ثابت کیا ہےکہ دیر تر ینس یونانی جوصو بہ باشترکی حاکم تھا، ۱۹۰ ق م کے دوران کابل اور شمالی ہند ، پشاور اور ٹیکسلا پر حملہ آور ہوا جبکہ ایک بیان کے مطابق دیمیتر رئیس ۱۹۰ ق م تک شمالی و مغربی پنجاب کے ایک بڑے حصے پر قابض ہو چکا تھا جو ٹیکسلا سے لے کر دادی سندھ کے میدانی علاقوں اور ملتان تک کے علاقے شامل تھے۔
لیکن مشرقی ہندوستان کے علاقے جس میں مرکزی مقام مگدھ شامل تھا، ۱۸۵ ق م تک پیشی متر کے قبضے میں تھے ممکن ہے کہ بر ہا تھ کے قتل اور پیشی متر کے موریہ تخت پر قبضے کے بعد خود مور یہ شہزادوں نے مغربی پنجاب کے علاقے باختری بادشاہ کے حوالے کر دیے ہوں لیکن پشی متر کسی بھی طرح ثالی مغربی پنجاب کے علاقوں پر حکمران نہیں رہا اور نہ ہی دیمیتریس اور پیشی متر کے درمیان کسی جنگ یا امن معاہدہ کا کوئی حوالہ ملتا ہے۔ خود باختری حکمران بھی مغربی شمالی پنجاب اور سندھ کے والا کے کچھ علاقوں تک حاکم رہے۔ ان میں صرف منندر جو یو کرے ٹائیڈز کی طرف سے کابل کا گورنر تھا، یو کرنے کی موت کے بعد ۵۵ ق م میں مگدھا اور مالوہ تک جا پہنچا لیکن یہ بہت بعد کا واقعہ ہے۔ یستریس جب دریائے سندھ کے مشرقی میدانوں پر حملہ آور ہوا تو اس وقت ان علاقوں پر مور یہ خاندان کے کچھ افراد قا بض تھے۔ مور یہ خاندان کی کمزوری کو دیکھ کر دیمستر پیس نے ان علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ ان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ یوتھی ڈیمس کے بیٹے اور انٹی اوکس کے داماد تھے۔
انہیں باختر کا خودمختار بادشاہ تسلیم کر لیا گیا۔ اس یونانی باختری حکمران نے ۲۰ سال تک ہندوستان کے شمالی مغربی علاقوں پر حکمرانی کی جو شمال میں کوہستان ٹیکسلا سے لے کر جنوب مما دریائے سندھ اور چناب کے درمیان تمام میدانی علاقے اس کی سلطنت میں شامل تھے۔ دیمستر ٹیکس کو اپنے ملک باختر میں اس وقت سلطنت سے ہاتھ دھونا پڑے جب اس کے ایک فوجی جرنل یو کرے ٹائیڈ ز نے بغاوت کر کے باختر پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد دیمیتر ٹیکس کو صرف مشرقی صوبوں تک محدود ہونا پڑا۔ اس یونانی بادشاہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ ایک قابل اور رحم دل با شاہ تھا۔ اس نے ہندوستانی عوام کے دل جیت لیے ۔ یہاں تک کہ دیمیتر فیس ” شاہ ہندیاں” کے نام سے مشہور ہوا یعنی ہندوستانیوں کا بادشاہ ۔ یہ سیتریکس ۷۵ ا ق م تک مغربی پنجاب پر قابض رہا لیکن اس کے متعلق ابھی تک واضح نہیں ہو گا کہ اس کا دارالسلطنت کس مقام اور شہر میں تھا؟ صرف یہ کہ اس کی فوجی چھاؤنی دریائے سندھ اور چناب کے درمیان تھل کے علاقے میں واقع تھی جہاں اس کی یو کرے ٹائیڈ ز سے ۶۵ سے ۶۰ ا ق م میں آخری لڑائی ہوئی اور دیمستر ٹیکس قتل یا گرفتار ہوا۔
یو کرے ٹائیڈز :
یو کرے ٹائیڈ زدیمستر کیس کی فوج کا جرنل تھا اور ہند دوستان پر حملہ کے وقت یوکرے کو باختر میں انتظامی امور کا سر براہ مقرر کیا گیا جس نے ۷۵ اقم کے دوران دیمستر کیس کے ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے بغاوت کر دی اور باختر قابض ہو گیا۔ اکثر قبائل کو ساتھ ملانے اور ایک بڑی فوجی طاقت حاصل کرنے کے بعد خود مختاری اور خود سے شہنشاہت کا لقب اختیار کر لیا۔ خود مختاری اور فوجی قوت حاصل کرنے اور باختر کے آس پاس کے علاقوں پر اپنا تسلط قائم کرنے کے بعد اس کے دماغ میں یہ فتور بھی پیدا ہونے لگا کہ وہ اپنی سلطنت کو وسعت دینے کے لیے دیمیتریس کے قدم بقدم چلانا چاہتا تھا۔ اپنی سوچ کو عملی جامعہ پہنانے کے لیے اس نے ۶۵ ا ق م میں اپنے چھوٹے بیٹے میلی کلیز کو باختر میں بطور جانشین چھوڑا اور خود بڑے بیٹے اپالوڈوٹس کے ہمراہ ایک بڑی فوج کے ساتھ کابل پر حملہ کیا۔ کابل کے علاقوں کو با آسانی فتح کرتے ہوئے آگے مشرق کی طرف بڑھا کیونکہ خورد بستر پاس بھی دریائے سندھ کے مشرقی میدانوں میں موجود تھا۔ یو کرے نے کابل پر اپنا قبضہ مکمل کرنے کے بعد ایک اپنے فوجی کمانڈر مغندر کو کابل میں چھوڑا اور خود اپنے بیٹے اپ لوڈوٹس کے ہمراہ مغربی ہند کا رخ کیا۔ ہو کرے دریائے سندھ پار کر کے شمالی گندھارا کے تمام علاقوں کو روندتا ہوا جنوبی میدانی پڑی تھل تک جا پہنچا جہاں پہلے سے دیمستمر میں اپنی فوج کے ساتھ موجود بیٹھا تھا۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ پہلے تو دیمیتر کیس کی فوج نے یوکرے کا راستہ روکا لیکن کافی جنگ وجدل کے بعد دیمیتر نیس کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور یوکرے نے تھل کے تمام علاقوں پر تقریباً ۶۰ ق م سے پہلے اپنا قبضہ مکمل کر لیا۔ دیمیتر کیس کو جرنل ہونے کے باوجود بغاوت کر کے اسے تھل کے تمام علاقوں سے بے دخل کر دیا۔ یو کرے اور دیمیتر ٹیکس کے سال ق درمیان آخری جنگ تقریباً ۱۶۵ سے ۶۰ ق م کے درمیان ہوئی ۔ یہ کس مقام پر ہوئی؟ اس کے متعلق کسی بھی جگہ یا مقام کی نشاندہی نہ ہوسکی۔
جس قلعے میں یہ جنگ ہوئی ، اس کے متعلق صرف اتنی معلومات بہم ہیں کہ اس لڑائی میں ہو کرے کی فوج کی تعداد صرف ۴/۳ سوتھی جبکہ دیستر میں کے پاس ۲۰۰۰ ہزار فوجی تھے اور یہ لڑائی ۵ مہینوں تک جاری رہی۔ یوکرے کے تین سو فوجیوں نے ایک قلعے میں بند ہو کر دیمیتر کیس کے ۶۰۰۰ ہزار فوجیوں کا مقابلہ کیا لیکن پھر بھی دیمیتر کیں کی فوج کو شکست ہوئی جس کے بعد تمام مغربی پنجاب کے میدانی علاقوں پر یو کرے کا قبضہ ہو گیا۔
اپالوڈوٹس:
اپ لوڈوٹس یو کرے ٹائیڈ ز کا بڑا بیٹا تھا لیکن اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ پا تھی النسل تھا۔ ہو کرے کی ایک بیوی جو پارتھی خاندان سے تھی، اس کا بیٹا تھا۔ پا تھی قوم ایک وحشی اور جفاکش قوم تھی جو ایرانی ریگستانوں کے جنوب مشرق کی طرف بحیرہ خضر کے بے آب و گیاہ علاقوں میں آباد تھی۔ اس کا وطن کو سموئی سگنڈ وئی اور اردی خوارزم ہمر قند اور ہرات علاقوں میں تھا اور یہ لوگ بعد میں یونانیوں کے باختر اور ایران پر قبضہ کے وقت سے فرمابردار اور اطاعت پذیر تھے۔ اپالوڈوٹس اسی خاندان سے تھا۔ غالباً وہ اپنے باپ یوکرے کے ہمراہ کابل اور ہندوستان پر فوجی مہم میں ساتھ تھا۔ ان دونوں باپ بیٹے نے کابل اور مغربی ہندوستان کے علاقوں کو فتح کیا۔ ان تمام فتوحات کے بعد باپ بیٹے کے درمیان اس بات پر اختلاف پیدا ہو گیا کہ اپالوڈوٹس چاہتا تھا کہ ہندوستان کے مفتوحہ علاقے اس کی حکمرانی میں ہونے چاہیں لیکن یوکرے نے پہلے تو باختر کا حکمران اپنے چھوٹے بیٹے بھیلو کلیز کومقرر کیا جبکہ کابل میں ایک فوجی کمانڈ رمنندر کو چھوڑا اور اب وہ پنجاب کے قبضہ والے علاقوں پر کسی دوسرے آدمی کو سر براہ مقرر کرنا چاہتا تھا۔ اس پر اپ لوڈوٹس نے بغاوت کر دی اور اپنی فوج سے ساز باز کر کے دریائے سندھ کے مشرق موجودہ تھل کے کسی مقام پر اپنے باپ یو کرنے کو تل کر دیا۔ اپالوڈوٹس کے دل میں یوکرے کے خلاف دشمنی اور حسد کی ایک ایسی آگ بھڑک رہی تھی کہ اس نے باپ کی لاش کو دفن بھی نہ کرنے دیا۔ اس طرح اپالوڈوٹس ۲۰ اقم کے قریب ان تمام علاقوں کا از خود حاکم بن گیا جو اس نے یوکرے کے ساتھ مل کر فتح کیے تھے۔ اس نے شہنشاہ کا بھی لقب اختیار کر لیا اور اپنے نام کے سکے بھی جاری کر دیے۔
یادر ہے کہ ان تمام باختری حکمران کے متعلق جنہوں نے مغربی ہند کے میدانوں پر قبضہ کیے رکھا، کے متعلق کسی مرکزی جگہ یا مقام سے متعلق کوئی نشاندہی نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ کس کس شہر میں اپنا مرکز قائم کیے ہوئے تھے۔ اسی طرح اپالو ڈونٹس سے منسوب کسی شہر یا قلعہ کے بارے . وضاحت سے کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن اس کے نام کے کچھ سکے ہمیں ملے ہیں جو ہندوستانی سکوں سے سائز اور وزن میں بھاری تھے۔ یہ سکے بندہ ناچیز کے گاؤں ”روڑاں کے کھنڈرات میں پائے گئے ہیں۔ ممکن ہے کہ ان کا مرکز یہ علاقہ جو آجکل روڑاں کے نام سے مشہور ہے، رہا ہولیکن اس کے بارے سوائے سکوں کے کوئی ٹھوس شواہد نہیں ملے ۔ اپالو ڈوٹس نے مغربی پنجاب موجودہ جھل کے علاقوں پر کتنا عرصہ حکومت کی؟ اس کے بارے میں صرف یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب بیلو کلیز کو خبر موصول ہوئی کہ اپالوڈوٹس نے اپنے باپ یوکرے کو قتل کر کے مفتوحہ علاقوں پر خود حاکم بن چکا ہے تو اس نے کابل کے گورنر منندر کو ایک مراسلہ بھیجا جس میں حکم دیا گیا تھا کہ وہ اپالوڈوٹس پر حملہ کر کے اس کو زندہ یا مردہ گرفتار کر کے باختر اس کے پاس بھیج دے۔ کیونکہ مندر باختری حکمران کے تحت کابل پر حکومت کر رہا تھا۔ منندر نے تقریباً ۱۵۶ ی ۵۵ ا ق م میں جب مغربی پنجاب کے ان علاقوں پر حملہ کیا تو اس وقت وہاں باختری فوج کی طرف سے ایک دوسرا کمانڈ رسرئیو اول حاکم موجود تھا اور اپالو ڈوٹس پہلے ہی مر چکا تھا یا قتل ہو چکا تھا۔ اس کی ہلاکت کے متعلق دو روایتیں ہیں۔ ایک یہ کہ یوکرے کی موت کے تھوڑا عرصہ بعد باختری فوج نے بغاوت کر کے اپالو اوس کول کر دیا اور ام علاقوں کا انتظام سر کو اول جو فوج کا ایک جرنل تھا، کے سپردکر دیا جبکہ دوسری روایت میں یہ کہا گیا ہے کہ پالولا اس طبعی موت مرا اور اس کے بعد بطور جانشین سرید اول نے انتظام سنبھالا ۔ جب منصور نے ان علاقوں پر فوج کشی کی تو اس وقت اس کی
سریو اول سے جنگ ہوئی۔
مغندر اور سر ئیواول:
باختر کے بادشاہ ہیلی کلیز کے حکم پر کابل کے گورنر مندر نے دریائے سندھ کے اس پار مغربی پنجاب کے میدانی علاقے تھل پر حملہ کیا تو اس وقت یہاں باختری فوج کا ایک جنرل حکومت کر رہا تھا۔ مندر تقریب ۵ ق م میں پنجاب پر اس غرض سے حملہ آور ہوا کہ وہ اپالوڈوٹس کو ہلاک یا گرفتار کرکے باختر بھیج دے لیکن اپالوڈوٹس پہلے ہی مر چکا تھا۔ مندر جب ان علاقوں میں پہنچا تو اسے کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑا بلکہ سری نے مندر کے آگے ہتھیار ڈال کر خود اس کی فوج میں شامل ہونے کا اعلان کر دیا۔ سرئو اول نے کیوں منندر کے سامنے ہتھیار ڈال کر اطاعت قبول کرلی؟ اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ سرٹیو نے باختری فوج سے مل کر بغاوت کی اور اپ لوڈوٹس کوقتل کیا، اس غرض سے کہ وہ بیلیو کلیز باختر کے بادشاہ سے وفاداری قائم رکھ سکے اور دوسری یہ کہ جب منندر نے ان علاقوں پر حملہ کیا ، جہاں سرئیو قابض تھا اور سرئیو کی فوجی حالت ا انتہائی کمزور ہو چکی تھی، باختری فوج اور اور سردار کئی حصوں میں بٹ چکے تھے اور خود مختاری کا اعلان کر دیا، ان حالات کے پیش نظر سر یومندر کی فوجی طاقت سے مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں کر سکتا تھا۔
اس لیے اس نے مندر کے ساتھ اطاعت اور وفاداری اور امن معاہدہ کر لیا لیکن کوئی بھی واجہ اور یہ ظاہر ہے کہ مندر نے سرئیو کے حصے کی فوج کے ساتھ مشرق کی طرف پیش قدمی کی اور دریائے جہلم کو پا کر کے سنگ کے اقتدار پرحملہ کیا جومشرقی ہند پر حکمران تھا۔ سنگ خاندان کا ایک فر پانی مت جس نے آخری مور یہ بادشاہ ہر ہر تھ کوقتل کر کے مگدھ تخت پر قبضہ کر لیا تھا، نے رنگ بادشاہ نے مندر کے حملے کو روکا اور مندر کاحملہ ناکام ہو گیا۔ اس جنگ کے متعلق صرف اتنا کچھ معلوم ہے کہ یہ تقریب ۱۵۲ یا ۱۵۱ ق م میں ہوئی تھی جبکہ ایک دوسری شہادت جس میں پیشی متر کی وفات ۱۴۹ ق م میں ہوئی اور پشی متر اور منندر کے درمیان جنگ ضروری ہوئی تھی لیکن دو سال پہلے واقع ہوئی تھی۔ مندر کو جب پٹی متر کے مقابلے میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تو اس نے مغربی پنجاب کے ان علاقوں پر اپنی گرفت مضبوط کر لی اور دریائے راوی تک تمام علاقوں پر اپنی گرفت کو مضبوط کیا۔ مندر کے حملے سے متعلق ایک اہم شہادت سریو باب ۱۱/ ۱۵ حصہ ۲/۱۱ فصل ۳/۱ کا راوی اپولو ڈورس ارٹی مٹیا کا باشندہ تھا۔
ان کا بیان ہے کہ منندر نے دریائے ہائی پے فیس (بیاس) جو سکندر کے حملے کی حد تھا کو عبور کیا اور اسامس تک بڑھتا چلا گیا۔ یہ معلوم نہیں کہ اساس کا شہر کس جگہ واقع تھا۔ منندر آخر کار جنوب مغرب کی طرف سراشتر کاٹھیا واڑ اور دریائے سندھ کے مثلثی دہانے کے مقام سیرویس تک کے علاقوں کو زیر نگیں کیا جبکہ دریائے سندھ کے مغربی ساحلی علاقے موسومہ سگر ڈس جو غالبا راجن پور اور رحیم یار خان اضلاع میں واقع تھے ، تک اپنی سلطنت کی سرحدیں بڑھالیں۔ ان بیانات کی مزید تائید پری پیلس یا پلس کے مصنف کے بیان سے ہوتی ہے۔ یہ کتاب ۸۰ء میں لکھی گئی تھی ۔ جس نے پہلی صدی عیسوی کے اختتام پر یہ دیکھا تھا کہ اپالوڈوٹس اور منندر کے یونانی سکے بیری گیزا (بھروچ ) کی بندرگاہ میں عام طور پر رائج تھے لیکن منندر کے سکے گنگا اور جمنا کی وادی میں پائے گئے۔ ان کی شہادت کے لیے ایک قدیم ہندو نجومی پین جلی کے بیانات جو شکرت میں علم ہیت کی کتاب موسومه ( گارگی سمہتا ) متن جلی کے ان الفاظ کو کئی مورخین نے تحریر کیا ہے جن میں پروفیسر بھنڈارکر، گولڈ سکر شامل ہیں۔
انہوں نے پتن جلی کے سن وفات کو ۱۵۰ ق م قرار دیا ہے (ہسٹری آف انڈین لٹریچر ) جبکہ انڈین انٹی کو لیری ۱۹۰۴، صفحہ ۲۱۷ کا بیان ہے کہ منندر کے سکے پنجاب اور اس سے آگے دریائے جمنا کے جنوب میں میں مسلم پور کے ضلع میں پائے گئے ہیں جو مصنف کے پاس لائے گئے تھے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ منندر بہت آگے تک اپنی سلطنت کو وسیع کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ مندر کو دو سال بعد مجبور اواپس آنا پڑا کیونکہ مندر کو اپنی ہی سلطنت میں کئی خطرات لاحق تھے جن کے لیے وہ اپنی طاقت صرف کرنا چاہتا تھا۔ اس کے اپنے وطن کے ہمسایوں سے کئی تنازعات تھے۔ مندر ۱۴۸ ق م میں مرگیا۔ اس کی موت کے بارے میں ہمیں کوئی تفصیل نہیں لی۔ اس کی موت کے بعد سرئیو ادل پنجاب اور کابل کا حکمران بنا۔ منندر کے بارے مشہور ہے کہ وہ ایک نہایت عادل حکمران تھا۔ جب وہ مرا تو اس کا جنازہ بڑی دھوم دھام سے اٹھایا گیا۔ اب باختری افواج کی کمان سٹرئیو اول کے ہاتھ میں تھی اور دریائے جہلم اور سندھ کے علاقے چھل” سے بلے کر کابل تک کا علاقہ اس کی دسترس میں تھا۔ سٹرئیو اول نے ٹیکسلا کو اپنا مرکز بنایا اور ۱۳۴۰ ق م تک امن وامان کے ساتھ حکومت کی لیکن ۱۳۸ ق م کے دوران ایران کے پارتھی بادشاہ متھراڑ میں جو ایک طاقتور اور لائق حکمران تھا، نے اپنی سلطنت کو وسعت دینے کے لیے دریائے سندھ اور بیاس کے درمیان تمام اقوام اور علاقوں کو اپنے ساتھ ملحق کر لیا۔
مورخ وئیس کے مطابق ٹیکسل اور مغربی پنجاب تھل کے سردار اپنے آپ کو ایرانی یا پارتھی بادشاہ کے زیر فرمان
تصور کرتے تھے۔ ان حالات سے اس بات کے اشارے ملتے ہیں کہ ۱۴۰ ق م کے بعد گیری و سری اول کی گرفت ملک میں کمزور ہوگئی تھی یا پھر سرئیو ۱۴۰ ق م کے قریب ہی مر گیا جس کے بعد کہ ایک کیسے کرے اس کے پوتے سڑئیو ثانی نے حکومت سنبھالی ۔ وہ بظاہر ٹیکسلا کے مقام پر ہی تھا کہ چند غیر ملکی جنگجو سرداروں کو، جو ممکن ہے کہ سک ہوں یا ایرانی یا پارتھی ہوں، اس نے بے دخل کر دیا۔ اس بات احاطہ کیا۔ کے اشارے بھی ملتے ہیں کہ سڑ یونانی فلو پیٹر نے پارتھی بادشاہ غالباً متھرا ڈٹیس (ثانی) جو فرائیں اور ارتا بانس کے بعد ۱۲۵ ق م میں یار تھی سلطنت کا حاکم بنا اور اس نے شہنشاہ اعظم کا لقب بھی اختیار کیا۔ ایرانی طاقت پھر سے لوٹ آئی۔ اس طاقتور بادشاہ نے ان صوبوں کا انتظام جن پر پہلے دو نونیں اور ان کا خاندان حکمران تھا، اپنے ہاتھ لیے اور اس کے علاوہ پنجاب کے دور افتادہ صوبے موجودہ تھل پر بھی اپنا شہنشاہی حق نئے سرے سے قائم کر لیا۔ اس طرح دریائے سندھ کے مشرقی میدانی علاقے ٹیکسلا تک ایک مرتبہ پھر ایران کی نگرانی میں چلے گئے لیکن دوسری طرف ۱۲۰ ق م تک مغربی پنجاب کی صورت حال کچھ غیر یقینی ہی نظر آتی ہے جہاں پارتھی باختری سک اور ہندی اقوام اور سردار گڈمڈ ہو چکے تھے۔ یہاں کشانوں کی آمد سے پہلے کئی ایک بادشاہ نام بے نام کاذکر کیا گیا ہے جن کی تفصیل اگلے باب میں آئے گی۔
نوٹ: یہ مضمون ملک محمد شفیع کی کتاب (قدیم تاریخ تھل اور روڑاں کے آثارِقدیمہ) سے لیا گیا ہے۔