ہمارے ریاستی نصاب نے ہمارے لکھاری اور قاری دونوں کی مخصوص انداز میں ذہنی تربیت کی ہے۔ سال کی اس تربیت کے نتیجے میں محدود معلومات اور مخصوص حقائق کے علاوہ دیگر زمینی اور زمانی سچائیوں کو اری کا تربیت یافتہ ذہن بہت کم قبول کرنے کو تیار رہتا ہے۔ چنانچہ کسی بھی سرکاری منصوبے کا پہلا نقشہ یا کسی مسئلے کا ایک ہی لگا بندھاصل، عقیدے کی حد تک ہمارے ذہنوں میں پہلے سے موجود ہوتا ہے۔ سو کسی فوجی، سیاسی ، معاشی اور معاشرتی ایشو پر حکومت، طاقتور سماجی اور معاشرتی حلقے مکالمے کے لیے دلیل پر مبنی بحث کو گنجائش نہیں دیتے۔ ۱۹۵۰ ء کی دہائی میں تھل کی مربوط معاشی ترقی بارے درج ذیل تحریر قاری کے لیے اختلافی نقطہ نظر کی مکمل گنجائش کے ساتھ حاضر ہے۔ امید ہے دلیل اور غیر نصابی سوچ کی روشنی میں قاری اسے سمجھنے کی
کوشش کرے گا۔
اپنا زاویہ نظر کچھ یوں ہے۔ تھل کے علاوہ رادا، روہی ، دامان بھی مختلف خطہ ہائے زمین کے نام ہیں۔ مگر تھل کے ساتھ ان کا گہرا تعلق ہے۔ اس لیے ان کا تعارف ضروری ہے۔ راوا: سکھ بیاس کا پرانا ڈیلٹا یا در یائے ستلج اور ملتان تک کی درمیانی پٹی کو اس کے پرانے باسی را وا کہتے ہیں۔ نہری نظام کے بعد اور انگریز سامراج کی انتظامی تقسیم کے باعث اب یہ علاقہ ملتان ڈویژن کی مختلف جنوبی تحصیلوں میں چک در چک بٹا ہوا ہے۔ اسی
مخصوص پٹی بارے خواجہ غلام فرید نے بھی ذکر کیا ہے:
گیا رول راول ، وچ روہی رادے
نہ یار ملدا، نہ موت آوے
روہی بہاولنگر، بہاولپور، رحیم یار خان (سابقہ ریاست بہاولپور) کے جنوب مشرق میں صحرائے راجھستان اور شمالی تھر پارکر تک پھیلے ہوئے مال مویشی کی بے پناہ دولت سے مالا مال صحرا کو خواجہ غلام فرید نے
اپنی محبوب روہی کا نام دیا۔ جغرافیہ کی کتابوں میں اسے چولستان بھی لکھا جاتا ہے۔
دامان : کوہ سلیمان کے شمالاً جنوباً، پہاڑی سلسلے اور سندھوندی کے درمیان متوازی زرخیز اور مردم زرخیز زمینی پٹی کو تاریخ اور جغرافیہ کی کتابوں میں دامان لکھا ہوا ہے۔ اس کی زرخیزی اور شادابی کا وسیلہ رود کو ہی یا پہاڑی
ندی نالے ہیں۔راوا، روہی ، تھل ، دامان کی مناسبت سے سندھ وادی اور اس کے مقامی لوگ یہاں کے باسیوں کو
رو نچڑ ، روبیلا، تھلو چڑ اور دامانی کہتے ہیں۔ یہ چاروں مختلف مگر مربوط اور یکجا خطے اپنی تاریخ، کلچر ، ثقافت اور مشترک وسائل میں صدیوں سے ایک اکائی کی شکل رکھتے ہیں اور سندھ وادی کا مرکزہ ہیں۔ لہذا ان علیحدہ علیحدہ مگر یکجاز مینی خطوں کی مادی اور ثقافتی ترقی بھی مربوط طریقے سے ممکن ہے۔
تفل : کالا باغ کے مقام سے غازی گھاٹ، سندھوندی کو تھل کی مغربی سرحد مانا جاتا ہے تو ہیڈ تریموں پر گلے ملنے والے جہلم اور چناب دریا، اس کی شرقی سرحد بناتے ہیں۔ آگے جنوب کی طرف راوی بھی چناب میں مل کر تھل کے ہمراہ، رنگ پور مظفر گڑھ تک باہم سفر کرتا ہے۔ شرقی دریاؤں اور مغرب میں سندھوندی کے بیچوں بیچ ۱۹۰۰۰ مربع کلومیٹر مخر وہ اتھل، صدیوں سے روزی رزق سے مامور مال مویشی اور جنگلی حیات سے بھر پور تھا۔ اس کے مغرب میں میانوالی ، بکھر، کوٹ کروڑ، لیہ اور کوٹ ادو بڑے بڑے شہر آباد ہیں۔ تو عین مشرق میں خوشاب، اٹھارہ ہزاری ، گڑھ مہاراجہ، رنگ پور مظفر گڑھ شامل ہیں۔ خطہ پوٹھو ہار ( کوہستان نمک ) تھل کی شمالی سرحد متعین کرتا ہے۔ جیومیٹریکل مخروطی تھل شمالاً جنوبا۱۹۰ میل لمبا ہے۔ اس مخروط کی زیادہ سے زیادہ چوڑائی ۷۰ میل اور کم سے کم ۲۰ میل ہے۔ دنیا کے چند صحرائی خطوں میں سے ایک ایسا صحرا ہے جس کے زیر زمین پانی کا ذخیرہ بھی صدیوں سے موجود ہے۔ وجہ یہ ہے کہ یہ دو آب ہے۔ دریاؤں کے درمیان واقع ہے۔ اس لیے اسے سندھ ساگر دو آب بھی کہتے ہیں۔ زیر زمین پانی کے ذخیرے کی موجودگی میں یہ محرارنگ رنگا تھا۔ انواع واقسام کی نباتات اس زیرزمین پانی کا اعجاز ہے۔ سرسبز و شاداب مختلف نباتات کے یہاں بے پناہ علیحدہ علیحدہ زون تھے۔ تھل میں مال مویشی کی بے پناہ کثرت اور ان کی مکمل خوراک کی فراوانی سے یہاں خوشحالی اور امن شانتی کاصدیوں سے دور دورہ رہا ہے۔۱۹۴۹ء میں ٹی ڈی اے کینال ایکٹ کے نتیجے میں تھل کینال پراجیکٹ سے تھل کے ایک تہائی غربی حصے کی ظاہری شکل یکسر تبدیل ہو کر رہ گئی ہے۔ تھل کینال پراجیکٹ اور اس کا اجمالی جائزہ کچھ یوں ہے۔ ترقی کے نام پر اس منصوبے کو ۱۹۴۹ء میں یک طرفہ طور پر قانونی شکل دے دی گئی ۔ ترقی کی ترغیب میں تھل کی آبادکاری کا منصوبہ بنایا گیا اور پاکستان کا مخصوص طبقہ اس عمل میں اپنے انگریز آقا سے دس قدم آگے نکل گئی۔ تقسیم ہند سے پہلے پنجاب میں نہری نظام کے قوانین کے برعکس مقامی تھلو چڑ مالکان اراضی کی منشاء اور معاوضے کے بغیر ان کی لاکھوں ایکڑ اراضی بیک جنبش قانونی قلم بحق سرکار ضبط کر لی گئی۔ اس ضبط شدہ زمین کا ۷۵ فیصد انتہائی آسان شرائط پر پنجاب کے مشرقی اضلاع کے آباد کاروں کو الاٹ کر دیا گیا۔ جبکہ تھل کے 4 اضلاع کے بے زمین لوگوں کو بالکل نظر انداز کردیا گیا۔ مختلف سکیموں کے تحت چوبارہ منکیرہ میں لاکھوں ایکڑ زمین مقتدر حلقوں میں بھی تقسیم ہوئی۔ اس کے باوجود مقامی بے زمین اور مستحق لوگ سرکاری زمین سے محروم رہے اور تو اور مجوز و گریٹر تھل کینال کے کمانڈ ایریا میں قصور، لاہور کے بارڈر ایریا کے لوگوں کو چوبارہ اور اٹھارہ ہزاری کی حدود میں ہزاروں ایکڑ زمین الاٹ ہو چکی ۔ تربیلا ڈیم، چشمہ بیراج، اسلام آباد کیپٹل ایریا کے متاثرین کے علاوہ کشمیری مہاجرین کو بکھر ، لیہ کی حدود میں زمین الاٹ کی گئی۔ مگر بکھر، ایہ اضلاع میں دریائے سندھ سے دریا بردی کے مقامی متاثرین کا تھل کی سرکاری زمین پر حق تسلیم نہیں کیا گیا۔ ترقی کا خواب براستہ کالونائیزیشن بیچنے کی تاریخ جتنی پرانی ہے اتنی
دلچسپ بھی ہے۔ ۶ ویں صدی سے برطانیہ سمیت دیگر یورپی نو آباد کاروں نے کالونائزیشن کی ابتداء کی۔ تل وطنی وسائل پر قبضہ اور مقامی لوگوں کو غلام بنانے کا عمل شروع ہوا۔ جو آج تک جاری ہے۔ برصغیر میں کالونائزیشن کے ذریعے ترقی کا پراجیکٹ بھی انگریز دور سے شروع ہوتا ہے۔ لہذا پنجاب کے نہری نظام سے نام نہا د زرعی ترقی کی مختلف سکیموں کو سمجھنا اتنا مشکل نہیں۔ نے ۱۸۵ء میں دلی بگڑ گاؤں سے لے کر درہ خیبر تک کا علاقہ پنجاب تھا۔ پانچ دریاؤں کی سرزمین پر انیسویں صدی کے آخر میں نہری نظام شروع ہوتا ہے۔ انگریز نے کالونی کینال کے ذریعے یہاں ترقی کا ڈھونگ رچایا۔ ترقی کے نام پر نہری پراجیکٹ کو سامراج نے دراصل دو مقاصد کے لیے استعمال کرنا تھا۔ اس مخطے اور پورے ہندوستان سے زرعی پیداوار کو خام مال کے طور پر برطانیہ کے کارخانوں میں لے جانامقصود تھا۔ دوم ۱۸۵۷ء کی بغاوت کے نتیجے میں دلی سے جنوب مشرقی ہندوستان کے سول اور فوجی اہل کاروں سے انگریز کا اعتماد اٹھ گیا۔ چنانچہ شمال مغربی ہند ( پنجاب ) کو مستقبل میں اپنی فوجی اور سول خدمات اور وفاداریوں کے لیے منتخب کیا گیا۔ لالچ اور ترغیب سے یہاں سے وفاداروں کا چناؤ مقصود تھا۔ سابقہ سرکار خالصہ کے غیرت مند سکھ جتھے انگریز کی خدمت گزاری کے لیے پہلے پہل ملنا شروع ہوئے۔ ہندوستان پر انگریز قبضے کو مضبوط بنانے کے لیے بعد ازاں اسلحہ بند قبائل پختون بھی جوق در جوق سامراجی فوج میں شامل ہوتے گئے۔ مغل حکمرانوں کے تابع فرمان جاگیردار، بچے مسلم اسلحہ بردار سابق مغل اور سکھ حکمرانوں کے کاسہ لیس، گدی نشین بھی انگریز کی خدمت کے لیے کسی سے پیچھے نہ رہے۔ ہندوستان کی تمام زمین پر جو مغل دور تک ہندوستان کی ریاستی ملکیت تھی، انگریز سامراج نے انگریزی خدمات کے عوضانے میں مشرقی پنجاب کے مسلم اور سکھ آباد کاروں سول فوجی ملازمین ( زیادہ تر سکھ اور مسلم پنجابی ) اور وفاداریاں بیچنے والے جاگیر داروں اور گدی نشینوں میں اس ریاستی زمین کو نجی ملکیت میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ترقی کے نام پر پنجاب میں سول فوجی خدمات اور وفاداریاں تبدیل کرنے والے کاسہ لیسوں میں نہری زمین کی بندر بانٹ کا ہول سیل کام شروع کر دیا گیا۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اپنے کالونیل ماہینڈ سیٹ کے ساتھ ۷۰ سال سے سندھ، بلوچستان کے ساتھ راوا، روہی جھل اور دامان کے مادی وسائل پر اپنا آقانی حق سمجھ کر آج تک اسے شیر مادر کی طرح استعمال کر رہی ہے۔ تقسیم کے بعد تھل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی ایکٹ ۱۹۴۹ء بھی ترقی کے نام پر تھل کی عملا کالونائیزیشن انگریز مائینڈ سیٹ ہی کا تسلسل ہے۔ متل وطنی بندے کیساتھ، ترقی کے نام پر صدیوں سے کھلواڑ ہوتا چلا آرہا ہے۔ ترقی کے مبہم مگر دل فریب خواب کے پیچھے سادہ لوح مقامی بندے کے وسائل کو کا لوٹا کر ڈ کرنا حکمرانوں کا پرانا وطیرہ ہے۔ بعینہ TDA ایکٹ ۱۹۴۹ء کو قانونی شکل دیکر اس کے اطلاق اور تھل کینال کے اجراء سے خوشاب کے علاوہ میانوالی ، بکھر ، لیہ، مظفر گڑھ کی تقریباً ۸ لاکھ ایکڑ بغیر معاوضے کے بحق TDA ضبط کر کے مشرقی پنجاب (انڈیا / پاکستان) کے کاشتکاروں میں آسان شرائط پر الاٹ کر دی گئی۔ اس بہتی گنگا میں طاقتور حلقوں نے بھی خوب ہاتھ دھوئے۔ اپنے اور رشتہ داروں کے لیے قیامت تک کے وسائل محفوظ کیے گئے ۔ مگر مقامی بے زمین باشندے اپنی سرزمین حقوق ملکیت لینے سے محروم رہے۔ ۷۰ سال گزرنے کے بعد بھی ان بدنصیب اور راندہ درگاہ لوگوں کے حصے میں ترقی کا کوئی پروانہ نہ آیا ۔ تقریباً ۸ لاکھ ایکڑ اراضی کی یک طرفہ ضبطی غیر منصفانہ بندر بانٹ ( الا ٹمنٹ) پر پنجابی افسرشاہی محض اظہار تاسف کرنے کو بھی تیار نہیں۔ نتیجتاً فیصلہ سازوں اور الائمنٹ یافتہ لوگوں کے بارے ترقی سے محروم لوگوں کے دلوں میں بتدریج فاصلے بڑھے۔ اس کا اظہار معاشی تضاد، کلچرل بعد اور سیاسی کشیدگی کی شکل میں سامنے آتا رہتا ہے۔ پچھلے ۷۰ سال کے محتاط تال میل کے باوجود مقامی بندے اور آباد کار کے درمیان تھل کینال اور ہمسایہ بارانی ایریا کی ڈیموگرافی تبدیل ہوئی ہے۔ لوکل باڈیز ،صوبائی ، قومی الیکشن کے موقع پر ضلع لیہ کی انتخابی حدود میں زبان ، برادری اور متضاد کلچر کی بنیاد پر ووٹرز بے پناہ کشیدگی کے ماحول میں اپنی رائے کا اظہار کرتے نظر
آتے ہیں۔آخر میں اس کا جائزہ ضروری ہے، ٹی ڈی اے کینال سے مطلوبہ ترقی کے تھل میں کیا نتائج مرتب ہوئے ؟ اس وقت دو تہائی بارانی تھل کے مقابلے میں تھل کینال سے آباد ایک تہائی غربی تھل کا زمینی منظر نامہ چشم کتا ہے۔ شہر یافتہ تھل ۷۰ سال بعد واقعی سر سبز و شاداب نظر آتا ہے۔ یہ بھی بیچ ہے راتوں رات چھوٹے چھوٹے اڈے بڑے بڑے کاروباری مراکز میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ آدم زاد کی آبادی میں اضافے کا اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا ہے۔ میں سال پہلے ضلع لیہ میں قومی اسمبلی کی ایک اور صوبائی اسمبلی کی تین نشستیں تھیں۔ آج کل قومی اسمبلی کی دو سیٹیں ہو چکی ہیں اور صوبائی نشستیں بڑھ کر پانچ ہو چکی ہیں۔ زرعی پیداوار میں ترقی کے باوجود تیز رفتار بڑھتی آبادی کے لیے روزگار کے مواقع بڑی تیزی سے سکڑ رہے ہیں۔ ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق وسطی پنجاب کے مقابلے میں آج تھل کے ۵۰ فیصد سے زیادہ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ مطلوبہ ترقی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ترقی کی وجہ سے علاقے میں خوشحالی کا دور دورہ ہوتا، مگر اُلٹا جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا اور جرائم کی نوعیت بھی وسیب میں تبدیل ہو گئی۔ زمین کے حق واپسی، زمین کے نا جائز قبضے کے ہزاروں مقدمات پچھلے ۶۰ سال سے عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔ نتیجتاً متحارب گروہوں میں جھگڑوں ، تصادم اور مقابلے بازی میں خون ریزی کی جیوں وارداتیں مختلف تھانوں میں آئے دن رپورٹ ہوتی ہیں۔ جبکہ ۷۰ سال پہلے وسیب میں نقب زنی اور بھیڑ ، بکری، اونٹ کی چوری کے علاوہ یہاں پر کسی دوسری نوعیت کے بڑے جرائم کی رپورٹ کا ریکارڈ نا پید ہے۔ تھل کینال کی آمد کے بعد لیہ اور بکھر کے ہمسایہ مشرقی اضلاع سے جرائم پیشہ افراد نہری علاقہ میں اپنے اقارب کے ہاں پناہ لیتے ہیں۔ برادری تعاون سے اقارب کی رہائش گا ہیں، کمین گاہوں کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ قتل، ڈکیتی اور ٹریکٹر کار چوری کے ساتھ ساتھ دھو کہ دہی ، فریب اورمویشی چوری کی وارداتوں میں تقریباً ۲۰۰ فیصد اضافے کے سرکاری شواہد موجود ہیں۔ ضلع لیہ کے ایک تھانہ انچارج کے مطابق یہاں سے چوری شدہ ٹریکٹروں کی اکثر بر آمدگی شیخو پورہ، گوجرانوالہ، گجرات، حافظ آباد اور فیصل آباد کے علاقوں سے ہوتی ہے۔ چوک اعظم ، فتح پور، سرائے کرشنا، چوک منڈا کے تھانوں کے ریکارڈ ایسے جرائم کی تصدیق کے لیے کافی ہے۔ ایک چشم کشا مصدقہ رپورٹ کے مطابق تھانہ چوبارہ کی عمر ایک سو سال سے اوپر ہے۔ ۱۹۶۰ء تک یہاں قتل کی ایک بھی واردات ریکارڈ پر نہیں ملتی تھل کینال کی آمد کے بعد ۱۹۶۰ ء کی دہائی میں سڑک پر دن دیہاڑے ڈکیتی کے نتیجے میں تقریباً ۱۰۰ بھیڑوں کو بندوق کی نوک پر زبردستی ٹرک میں لا دا جاتا ہے۔ مزاحمت پر بھیڑوں کے مالک کو یہ جھنگ روڈ پر اڈہ بھائی والا کے نزدیک رکھ چوبارہ میں قتل کر دیا گیا۔ نہر کی آمد کے بعد جرائم کی نوعیت تبدیل ہونا شروع ہوئی اور جرائم کی شرح میں بے پناہ اضافہ تھانوں کے ریکارڈ میں منہ بولتا ثبوت ہے۔ ایک سوال یہ بھی اٹھایا جاسکتا ہے۔ جرائم میں اضافے میں انتظامی کمزوریوں کا عمل دخل ہے۔ یہ آدھا ئی ہے۔ پورائچ یہ ہے، جرائم کے عمومی اسباب میں ترقی کا کھو کھلا منصو بہ اور اس کی نا پائیداری ہی مضمر ہے۔ زمین کی تقسیم میں زمین زاد سے نا انصافی اور دوسری طرف ریاستی فیصلوں میں ہٹ دھرمی میں ان اسباب کو تلاشا جاسکتا ہے۔ سندھ، بلوچستان کے ساتھ راوا، روہی پھل دامان کی عارضی ترقی کے نام ریاست نے جو ہاتھ کیا وہ صرف غیر نصابی سوچ کے حامل افراد بھی سمجھ سکتے ہیں۔ نام نہاد قومی ترقی کا بیانیہ ریاستی ترقی کے بیانیے سے مختلف ہے۔ نو آباد کار ملکوں کے پاس اپنی نو آبادیوں کی ترقی کا بیانیہ مختلف تھا۔ جبکہ ان کے اپنے ممالک میں پائیدار اور شراکتی ترقی کا الگ قومی تصور ہے۔ متحدہ ہندوستان میں محکوم قوم کے وسائل کو ترقی کے نام پر انگریز نے خوب ایکسپلائیٹ کیا۔ نوآبادکار ممالک کی آج چکا چوند ترقی اور روزگار کے بڑھتے ہوئے امکانات اور ان کی سابقہ نو آبادیوں کے درمیان ترقی کا تقابل تیسری دنیا کی پسماندگی کو مجھنے میں مددیتا ہے۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان ایک قومی ریاست کے طور پر نہیں ابھرا۔ ہماری حکمران اشرافیہ کا ترقی بارے تصور بھی اپنے سامراجی آقاؤں سے جدا نہیں۔ چنانچہ ترقی کا ماڈل تحل کینال کی شکل میں ہمارے سامنے آئی ۔ جس کی ہلکی تصور اوپر بیان کی گئی ہے۔اس وقت ترقی کے دو ماڈل سامنے ہیں۔ ایک وہ جو ڈیڑھ صدی قبل ہندوستان ( نو آبادی) میں مروج ہوا۔ اور وہی آج تک ہماری غیر نمائندہ اشرافیہ کے ہاتھ جادو کی چھڑی کی طرح موجود ہے۔ ایوب خان نے زرعی سیکٹر میں سبز انقلاب کا نعرہ لگایا۔ انڈسٹری کی ترقی کی آڑ میں ۲۲ امیر ترین گھرانوں میں دولت کا ارتکاز ممکن ہوا۔ اس کا اختتام ایوب مخالف عوامی غضب کی شکل میں تاریخ کا حصہ ہے۔ ایک ترقی نواز شریف نے موٹر ویز کی شکل میں پیش کی۔ ہر ضلع میں انڈسٹریل اسٹیٹس کے قیام میں ترقی کے غبارے میں مسلسل ہوا بھری گئی۔ ستم ظریفی ملاحظہ ہو، کاشن ایریا میں شوگر ملوں کا جال بچھا کر زراعت کو ترقی دینے کا آغاز کر دیا گیا۔ سندھ اور سرائیکی ریجن میں کاٹن کو گنا نگل گیا۔ پھر بھی چینی کی قیمت غریب عوام کی پہنچ سے دور نکل گئی۔ نتیجہ کاٹن برآمد کرنے والا ملک آج کاٹن امپورٹ کر رہا ہے۔ اس کے بعد طالع آزماؤں نے ایک معصوم شخص کو میدان سیاست میں اتارا۔ اس 0 نے ترقی کی رنگ برنگی سیر بین دکھائی۔ سیربین والی ترقی کے فریب میں مبتلا لوگ ڈھائی تین سال سے اُس معصوم کو ڈھونڈھ رہے ہیں۔ تھل اور تھل کے باسی اس دھرتی کے ویسے ہی وفادار ہیں جیسے دیگر قومیوں کے دھرتی جائے ہوتے ہیں۔ تفصیل دینے کا مقصد یہ ہے کہ تقل بالخصوص یہ تھل کی تہذہبی، ثقافتی، مقامی اور تاریخی صورت حال کو اجا گر کر کے آنے والی نسلوں تک اس کا تعارف پہنچایا جائے۔
(نوٹ: اس مضمون کے مندرجات سے ادارتی بورڈ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)