تھل:وادی سندھ کے مقامی قبائل
آریہ کی آمد سے قبل دریائے سندھ کی وادی اور اس کے کناروں پر آباد لوگوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ دراوڑی نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ مطلب سیاہ رنگ، چھوٹے قد چھپنی ناک، بدصورت لیکن کافی محنت کش اور جنگجو طبیعت اور سخت جان کے مالک تھے ۔ اس لیے آرمی ان لوگوں تہذیب کی کو کالے ناگ ( کالے سانپ) کے نام سے پکارتے تھے۔ کیونکہ ان کی نسبت آریہ خوب صورت، گوری رنگت اور درمیانہ قد کے لوگ تھے ۔ داروڈ کا نام بھی آریہ کی طرح مشترک تھا کیونکہ وادی سندھ کے مختلف قبائل کو ملا کر ایک نام تھا، جیسا کہ بہت سارے قبیلواکی پر مشتمل مشترک نام آریہ۔ ان دار اوڑی قبائل کے بارے میں سنسکرت کی کتاب رگ وید میں تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے کہ ان میں بہت سارے قبیلے شامل تھے۔ ان میں خاص قبیلے داس اور اشوا تھے۔
یہ لوگ باقی قبیلوں کی نسبت زیادہ مضبوط اور طاقت ور سمجھے جاتے تھے۔ داس اور اشوا قبائل کے لوگوں کا ان علاقوں میں ایک خاص مقام اور کردار تھا۔ یہ ان علاقوں میں دوسری قوموں پر حاوی تھے اور ممکن ہے کہ وادی سندھ میں حکمران اور بادشاہ ہوں کیونکہ یہ لوگ باقی چھوٹی ذات کی برادریوں سے مالیہ اور تاوان بھی وصول کرتے تھے اور ان کے پاس باقاعدہ جنگجو لوگوں کی اچھی تعداد تھی۔ اس کے علاوہ ممکن ہی نہیں تھا کہ داس اور اشوا خود کو حاکم اعلیٰ کہہ سکیں۔ یہی وادی سندھ کے وہ مقامی قبائل تھے جنہوں نے آریہ کا مقابلہ کیا اور مرتے دم تک ڈٹے رہے۔ در اور قبائل ویسے تو تمام مغربی پنجاب اور دریائے سندھ کے مشرقی کنارے کے ساتھ ساتھ جنوب میں موہنجودڑو تک پھیلے ہوئے تھے لیکن ان کی زیادہ آبادیاں دریائے سندھ اور جہلم کا درمیانی مخطہ موجودہ تھل تھا اور اس علاقے میں یہ لوگ کس طرح منظم تھے، اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آریہ کی مقدس کتاب رگ وید میں تحریر ہے کہ سندھ اور جہلم دریاؤں کے دو آپ میں دراوڑوں کی درجنوں بستیاں اور چھوٹے بڑے شہر آباد تھے۔ مشہور امریکی ماہر عصریات ڈاکٹر جوناتھن مارک کنائر کے مطابق ۲۲۰۰ ق م سے قبل وادی سندھ اور مغربی پنجاب میں بڑی بڑی انسانی آبادیاں وجود میں آچکی تھیں ۔
انسان خانہ بدوشی کی زندگی ترک کر کے اجتماعی زندگی کی طرف آپکا تھا اور اپنے گھروں میں جانور پالنے سیکھ چکا تھا۔ یہ لوگ دریائے سندھ کی مشرقی میدانی پٹی میں پھیلے ہوئے تھے۔ یہاں ان کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی اور مال مویشی پالنا تھا۔ یہ لوگ خانہ بدوشی کی زندگی ترک کر کے سماجی زندگی، گاؤں اور قصبات میں مل جل کر رہنا سیکھ چکے تھے ۔ ۴/۳ ہزار سال قبل مسیح تک یہ لوگ جہالت سے نکل کر ایک باقاعدہ تہذیب یافتہ اور سماجی زندگی کا ارتقائی سفر مکمل کر چکے تھے۔ انہوں نے پڑھنے لکھنے اور حساب کتاب کا طریقہ بھی سیکھ لیا تھا۔ اب انہوں اپنے ملک و وطن سے باہر دوسری تہذیبوں میسو پوٹیمیا اور مصر سے آمد و رفت تجارت اور نقل و حمل شروع کر دی تھی جس سے متعلق پچھلے باب میں تحریر ہو چکا ہے۔ دنیا کی دوسری عظیم تہذیبوں سے رابطہ اور لین دین اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ وادی سندھ کے مقامی آباد تہذیب اور فن سے کتنے حد تک واقف ہو چکے تھے۔ انہوں نے ایک مہذب زندگی کے تمام راز سیکھ لیے تھے۔ وادی سندھ کا قدیم انسان فن و ثقافت سے واقف ہو چکا تھا۔ انہوں نے پودے اُگانے ، جانور پالنے، برتن سازی اور پختہ گھروں کی تعمیر جو پکی اینٹوں سے کی جاتی تھی شروع کر چکے تھے۔
آریہ:
آریہ کون تھے؟ وہ کہاں سے آئے تھے؟ ان کی تاریخی حیثیت کیا تھی ؟ اور ان کی اصل جائے پیدائش اور وطن کون سا علاقہ تھا؟ یہ تمام سوالات غور طلب ہیں اور یہ ایک الجھا ہوا مسئلہ بھی ہے۔ ابھی تک مورخین کے نزدیک واضح نہیں ہو سکا کہ آریہ کس سرزمین کے باسی تھے اور کس قوم سے ان کا تعلق تھا۔ اگر یہ لوگ ایک تہذیب یافتہ قوم سے تعلق رکھتے تھے تو انہوں نے دنیا کو کون ہی تہذیب اور ثقافت سے نوازا یا پھر کہیں ایسا تو نہیں کہ تہذیب و ثقافت کی بجائے انہوں نے صرف اور صرف وادی سندھ کو پامال کر ڈالا ہو اور جنگ و جدل تباہی و بربادی کے علاوہ ان کے پاس کچھ نہ تھا۔ لیکن آریہ کے متعلق بہت سارے مورخین نے اپنی تحقیق میں بڑی حد تک ان کے اصل جائے مقام تک پہنچنے کی کوشش کی ہے اور اپنی اپنی معلومات و نظریات کے پیش نظر یہ بات سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ ہم نے ان مورخین کی آراء کو تحریر کرنے کی کوشش کی ہے جو قاری کے لیے آسان ہو۔
اے۔ ایل باشم جو ایک یورپی تاریخ دان تھا، نے اپنی کتاب ” ہندوستانی تہذیب کی داستان میں بیان کیا ہے کہ جو لوگ وادی سندھ کی سرزمین پر حملہ اور ہوئے تھے، اصل میں وہ ہندوستانی آریہ ہیں۔ انہوں نے مزید لکھا کہ انگریزی میں ان کو آرین کہتے ہیں جبکہ یہ لفظ قدیم ارتقائی عمل اہل فارس نے بھی استعمال کیا ہے، جبکہ ایرانی لفظ آئر کی شکل میں موجود ہے۔ آئر اور آریہ ایک ہی نسل کے الفاظ ہیں جو اس انتہائی مغربی مخطہ کا نام جہاں قدیم زمانوں میں ہند پوری لوگ رہتے تھے۔اے۔ ایل باشم مزید بحث کرنے سے کتراتے ہیں اور اسی پر یقین کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
تقریباً ۲۰۰۰/ ۲۵۰۰ ہزار سال قبل مسیح سے ان عظیم میدانی علاقوں جو پولینڈ سے مرکزی ایشیا تک پھیلا ہوا تھا، خانہ بدوش اور وحشی قبائل آباد تھے۔ یہ لوگ طویل القامت ، گورے رنگ اور لمبے قد کے تھے۔ یہ قبائل اکثر گھوڑا پال مشہور تھے اور ان گھوڑوں کو چار پیسے والی رکھ میں آبادی – جوتے تھے جبکہ اصل ذریعہ معاش مویشی پالنا اور کھیتی باڑی تھا ۔ جب ایک وقت آیا کہ یہ قبائل شفیع صاح جھے بنا کر مغرب سے جنوب مشرق کی طرف بڑھنے لگے تو ان میں سے کچھ یورپ پر حملہ آور گیری دعا ہوئے ۔ وہاں ان کا شمار یونانیوں، لاطینیوں پلیسیوں اور تیونانیوں کے نام سے ہوا۔ ان میں سے کچھ قبائل اناطولیہ میں ظاہر ہوئے ۔ ان کے مقامی باشندوں سے تعلق کی وجہ سے اور باہم مدغم کیسے کر ہونے سے بچوں کی تعظیم مملکت وجود میں آئی اور ان میں جو اپنے آبائی وطن میں مقیم رہے اور بعد کیا ، ان میں بالٹک اور سکھوائی اقوام کے وارث اعلیٰ بنے جبکہ ان کے ایک حصے نے جنوب کی طرف اپنا سفر شروع رکھا ۔ کوہ قاف اور ایرانی پونھار کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے مشرق وسطی کی تبد یوں پر حملہ آور ہوئے ۔ ہاشم مزید لکھتے ہیں کہ بائل کے فاتحین کا تعلق بھی اسی گروپ سے ہے لیکن ۱۴۰۰ قبل مسیح میں شمال مشرقی شام میں ایک متانی نام کی قوم ابھری۔ ان کے بادشاہوں کے نام ہندو ہوں کہ اردو تحر ایرانی تھے۔ ان کے دیوتا کے نام بھی کچھ اس طرح کے تھے جس سے تمام ہندوستانی مذہبی عالم واقف ہیں۔ ان دیوتاؤں کے نام یہ ہیں (اندا ، متر، نسیتہ ، دیدون اور وادن ) ۔ یہ چھاپہ مار قبائل رفتہ رفتہ مشرق وسطی کی قدیم تر آبادی میں ضم ہوتے گئے ، قدیم تہذ یہیں تازہ ہوتی گئیں اور مادی ترقی نئی بلندیوں تک پہنچ گئی مگر جب یہ لوگ وادی سندھ کے قدامت پسند شہروں پر حملہ آور ہوئے تو وادی سندھ کی تہذیب اور مقامی آباد کاروں نے ان کو برداشت نہ کیا اور اپنے آپ میں ضم نہ ہونے دیا جس کی وجہ سے ان حملہ آوروں نے مقامی لوگوں کا قتل عام کیا اور وادی کے تمام شہروں کو برباد کر دیا۔ مزید یہ کہ ان قبائل نے جہاں وادی سندھ کی تہذیب کو برباد کیا ، وہاں خود بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور بالآخر ان کو تہذیب سندھ کے آگے سر جھکانے پڑ گئے۔
دوسرے مورخ کی رائے :
ڈی۔ ڈی۔ کو سمبی ، یہ ایک انگریز جو انگلستان کا رہنے والا تھا، نے بھی قدیم ہندوستان کے نام ایک کتاب لکھی۔ اس میں انہوں نے اپنی کتاب کے باب نمبر ۴ صفحہ نمبر ۱۰۱ پر آریائی اقوام کے بارے میں تحریر کیا ہے کہ لفظ آریہ کے معنی ہر زبان میں مختلف ہیں۔ جیسا کہ شکرت میں آریہ کا معنی ہے کہ پیدائشی آزاد، نجیب السیرت یا تین اعلیٰ ذاتوں کا ایک رکن ۔ کو سبی مزید لکھتے ہیں کہ دوسرے الفاظ کی طرح آریہ کے معنی بھی وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے رہے ہیں ۔ اس طرح کہ جیسے عزت و احترام کی جگہ لفظ جناب ان کے مترادف کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ انتہائی قدیم دور میں جب دنیا جہالت سے نکل کر ایک روشن دور میں داخل ہو رہی تھی تو اپنے آپ کو کسی خاص قبیلہ یا مشترک قبائل کو ایک حیثیت دینے کے لیے لقب استعمال کیا جاتا تھا۔ آگے انہوں نے لکھا ہے کہ ہندوستان کی اصل تاریخ ان قدیم آریوں سے شروع ہوتی ہے۔ کو مبی نے کچھ دوسرے مورخین کے خیالات نقل کیے ہیں اور ان کے حوالہ سے لکھا ہے کہ وادی سندھ کے لوگ بھی آریہ تھے ۔ نازی حکومت اور ان کے سرکاری فلسفہ ساز نے لفظ آریہ کو جو معنی پہنائے ، وہ بہت مکروہ بھیانک تھے۔ ان کے اس پراگندہ ذہن میں اور بھی اضافہ ہو گیا لیکن در حقیقت اس بات کا فوری طور پر شک و شبہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ آریہ کسی طرح کے لوگ تھے ؟ اگر حقیقت میں تھے تو کس قوم اور علاقے سے ان کا تعلق تھا؟ انہوں نے مزید لکھتے ہوئے ایک اور بات کی طرف اشارہ کر دیا ہے کہ آریوں کی ایک نمایاں خصوصیت تھی کہ یہ ایک مشترکہ زبانوں کا خاندان تھا۔ یعنی یہ لوگ بہت ساری زبانوں کو بولتے ہوئے بھی ایک ساتھ چل رہے تھے اور یہ واحد حقیقت ہے جو تہذیب کی ان لوگوں کو ایک بڑے گروہ کو آر یہ نام دینے کا جواز پیش کرتی ہے۔
یہ زبانیں براعظم یوریشیا میں پھیلتی چلی گئیں اور یہی سنسکرت، لاطینی، یونانی ، کلاسیکی اور ارتقائی عمل سے آریائی تھیں ۔ لاطینی سے رومانی ، اطالوی، فرانسیسی ، اسپینی وغیرہ زبانوں کی جماعت جنوبی یورپ ہر پہ اور موہم میں پیدا ہوئی۔ اس کے علاوہ نیونانی میں جرمن، انگریزی، سویڈش زبانیں اور سلامی، روی، پولستانی وغیرہ بھی آریائی لسانی جماعت کی ذیلی شاخیں تھیں ۔ اس کا ثبوت انہوں نے یہ دیا ہے کہ ان تمام زبانوں میں بہت ساری مختلف اشیاء کے لیے استعمال ہونے والے الفاظ ان کا تقابل ان کی باہمی مشابہت کو ظاہر کرتا ہے۔ ان میں استعمال ہونے والے الفاظ کچھ مختلف ہیں۔ یورپ تیلوں میں میں فنی ، ہنگامی اور بیکانی زبانیں آریائی زبانوں سے تعلق نہیں رکھتیں جبکہ عبرانی اور عربی ممکن ہے آبادی کے کہ میرائی عہد تک کی قدیم ثقافتوں سے نکلی ہو لیکن وہ سامی ہیں، آریائی نہیں۔ ایک تیسری والا کے مقے غیر آریائی لسانی جماعت چینی، منگولی ہے جس میں چینی، جاپانی ہمتی، منگولی اور دیگر بہت سی زبانیں شامل ہیں۔ یہ جماعت بھی تاریخی اور ثقافتی اعتبار سے اہم ترین ہے۔ اگر چہ ہندوستان کیلئے اس کی گیری دی ایسی کوئی اہمیت نہیں۔ ہندوستانی آریائی زبانیں سنسکرت سے نکلی ہیں۔ اس طرح پیدا ہونے والی زبانوں میں ایک پالی زبان تھی جو ریاست مگدھ میں بولے جانے کی وجہ سے مگدھی کہلاتی تھی۔
کچھ دوسری زبانیں جو ہندوستان کے مختلف علاقوں میں بولی جاتی تھی ، انہیں پراکرت کا نام دیا کیا ، ان گیا۔ ان سے ہی جدید ہندی، پنجابی، بنگالی اور مراضعی وغیرہ نکلیں لیکن ہندوستان میں بھی غیر آریائی اور ثقافتی لحاظ سے زبانوں کی ایک خاصی جماعت موجود تھی جن میں دراوڑی نسل کی زبانیں ، تامل، تلگو، کنٹرا، ملیالم اور تلگو وغیرہ شامل تھی جو ہمیں ہندوستانی زبانوں کی قدیم ابتدائی شکلوں کے وابستگی ا ہوں کیا بارے میں بتاتی ہیں۔ کسی زمانے میں ان زبانوں کو ملا کر آسٹرک (austric ) جماعت قرار دیا جاتا تھا۔ اب بڑا سوال یہ ہے کہ زبانوں کی برادری یا زبانوں کی ایک جماعت کا مشترک ماخذ کیا اس نتیجے پر پہنچے کا صیح جواز ہوسکتا ہے کہ ایک آریائی نسل یا قوم موجودتھی یا صرف ایک خالی نام ہی ہے۔ ہاں کچھ لوگ زمانہ قدیم میں اپنے آپ کو آریہ کہتے تھے۔ شہنشاہ دارا اول جس کی موت ۴۸۶ ق م میں ہوئی تھی، وہ اپنے آپ کو امینی، ہنما منیشی ، رومانی ( پارسہ ) ابن ایرانی ایک آریہ نسل کا کہتا تھا جبکہ مقدس وید جوسب سے قدیم ہندوستانی دستا ویزات ہے، جس میں لکھا ہے کہ آریہ ان دیوتاؤں کی تعظیم کرتے تھے ۔ کچھ آریائی زبانیں بولنے والے اپنے آپ کو آریہ کہتے تھے۔ دارا کے فرزند رزقیس کی فوج میں آریائی دستے تھے جبکہ قدیم فارس میں سلطنت مد کے باشندے جو اہل فارس سے پہلے گزرے تھے، آریہ نام سے معروف تھے۔
ایران آریہ نام سے منسلک ہے جس کے معنی ہیں آریاؤں کا ملک، اگر چہ یونانی، ایرانی اور پنجاب کے ہندوستانی لوگ آریائی زبانیں بولتے تھے لیکن سکندر کے ہم عصر مورخین نے لفظ آریہ کو خاص نام کے قبیلوں کے لیے استعمال کیا ہے جو اس وقت دریائے سندھ کے دائیں کنارے پر آباد تھے جہاں ہم کو مسٹر کو نبی نے لا کھڑا کیا ہے۔ اس ساری بحث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ساری دنیا آریائی نسل سے تھی۔ ممکن ہے جس طرح انسانی نسل سے پوری دنیا آباد ہے اور ساری نسل انسانی کا باپ اور موجد اعلیٰ حضرت آدم علیہ سلام، تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ لفظ آریہ حضرت آدم سے نکالا ہے ۔ ہمیں کون روک سکتا ہے۔
بہر حال ہم اس بحث کو آگے لے کر چلتے ہیں اور جناب غوری صاحب کے بیان پر نظر ڈالتے ہیں جو انہوں نے اپنی کتاب "پاک وہند میں تحریر کیا ہے کہ آریہ شکرت زبان کا لفظ ہے۔ رگ ویدا اور مانا داس میں اس کا اطلاق اس قوم پر ہوا ہے جو ماضی میں آریہ ورثہ کی آباد کبھی جاتی تھی اور برہمنوں کے دیوتاؤں کی پرستار ہونے کی وجہ سے محترم بھی تھی مثلا رگ وید کے جز اول میں دیوتا اندر جو آریہ بادشاہ تھا، سے خطاب میں تحریر ہے کہ اپنے پرستاروں کا سب سے بڑا مددگار تھا۔ مسٹر میکس جو ایک انگریز مورخ ہے، اپنی تحریر میں لکھتے ہیں کہ لفظ آریہ آرا سے مشتق ہے جس کے لفظی معنی بیل جو تنے یا زمین کاشت کرنے کے ہیں ۔ غوری صاحب مزید لکھتے ہیں کہ اب تک جو معلوم ہو چکا ہے، اس کا علم وہ رگ دید اور دیگر مذہبی کتب نے فراہم کیا ہے۔
حالانکہ ہندی کتابوں کو اگر دیکھا جائے تو ان میں آریہ کی آمد سے متعلق کوئی معلومات نہیں ملتیں۔ البتہ موجودہ دور کے ہندومورفین نے یہ ثابت کرنے کی سرتوڑ کوشش کی ہے کہ آریاؤں کا اصل وطن کون سا تھا اور یہ کس علاقے یا سر زمین کے رہنے والے تھے۔ ان ہندی مورخین میں سے چند ایک کے نظریات کو ہم نے تحریر کیا ہے جس میں انباش چندر بوس کے خیال کے مطابق آریاؤں کی اصل جائے پیدائش ہندوستان ہی تھا۔ وہ سپت سندھو یعنی وادی سندھ کے علاقے مغربی پنجاب دریائے سندھ کے پار مغربی کناروں کے ساتھ پہاڑی سلسلہ کوہ سلیمان کے رہنے والے تھے۔ ہال گنگار ہر تک، جو ایک سیاسی راہنما ہونے کے ساتھ سنسکرت کا عالم بھی تھا، کا کہنا ہے کہ آریہ کا پہلا وطن شمالی مغربی پنجاب تھا ۔
مشہور مورخ اور عالم بیڈن یا دیلی اپنی کتاب انڈین کمیونٹی میں تحریر کرتے ہیں کہ آریہ شمال مغربی دروں سے وادی سندھ میں داخل ہوئے تو انہوں نے سب سے پہلے دریائے سندھ کے شمالی مغربی پہاڑی علاقوں میں قیام کیا۔ اس کے بعد آریہ نے دریائے سندھو ( سندھ) کو پار کر کے کوہ ہمالیہ کے جنوبی میدانی علاقے جو دریائے سندھ کے سات دہانوں سے سیراب ہوتے تھے، وہاں سے داخل ہوئے۔ انہوں نے پہلی آبادی دریائے سندھ کے مشرقی کناروں کے ساتھ قائم کی ہوئی تھی۔ بیڈن مزید لکھتے ہیں کہ آریہ یہاں کچھ مدت رہنے کے بعد آہستہ آہستہ آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ ہر پہ اور اس کے شمال مغرب میں کچھ فاصلے پر دراوڑی قوم نے ان کا راستہ روکا جس پر آریہ نے مقامی لوگوں کا قتل عام کیا۔ ہم ان مورخین کے نظریات کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے ایک بہت بڑے ابہام کا شکار ہوتے نظر آتے ہیں کہ جو نظریہ اے۔ ایل باشم نے پیش کیا، اس سے تو اشارہ سیدھا اسلامی تاریخ کی طرف جاتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے چار بیٹے تھے جو کشتی میں سوار ہوئے، ان کے میں ایک کا نام شام بن نوح ، دوسرے کا نام حام بن نوح، تیسرے کا نام یافث جبکہ چوتھا بیٹا کنعان تھا۔
شام بن نوح نے عرب، دوسرے نے یورپ، تیسرے نے ہندوستان اور چوتھے نے مشرق وسطی کو آباد کیا۔ ممکن ہے کہ ہاشم نے اسلامی نظریہ کو مد نظر رکھ کر بیان دیا ہو جس میں اسلامی نظریہ کائنات اور انسانی ارتقاء جبکہ ڈی ڈی کو میں نے بھی چاہیے ایک اور طریقے سے آریہ پر بحث کی ہے لیکن ان کے اصل معنی ایک ہی ہیں۔ انہوں نے صرف قوم کی جگہ زبان کا لفظ استعمال کیا ہے اور غوری صاحب نے بھی ان دو چار ہندی مورخین کے بیانات کو تحریر کر کے ان سے اتفاق کیا ہے۔ اصل میں بات ایک ہی ہے لیکن ہر مورخ نے اسے اپنے طریقے سے بیان کیا ہے۔ ایک دوسرے سے تھوڑا بہت بدل کر لیکن ہم اس بات کو صاف بیان کر دیں گے۔
ایک دوسرے ماہر آثار قدیمہ اور اس محکمہ کے آفیسر انچارج ہٹر یہ میوزیم حسن صاحب کے خیال کے مطابق جو انہوں نے روڑاں کے مقام پر راقم المعروف سے ملاقات کے دوران کہنا تھا کہ پوری وادی سندھ کے وزٹ میں، شمال میں ٹیکسلا سے لے کر جنوب میں موہنجو در روتک کسی بھی مقام سے آریائی تہذیب کے نشانات نہیں ملے ۔ اگر ملے ہیں تو ان کے تباہ کردہ ان مقامات کے نشان ہیں جو انہوں نے وادی سندھ کے علاقوں میں کیے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ آریائی خود ہندوستانی قوم تھی جو شمالی مغربی پہاڑی علاقوں میں رہتی تھی اور تہذیب وادی سندھ کی فن وثقافت سے متاثر ہو کر ان سرسبز میدانوں میں داخل ہوئے۔ حسن صاحب کا مزید کہنا تھا کہ یہ بھی ممکن ہے یہ لوگ آریا نه یا ایران سے تعلق کی وجہ سے آریہ کہلاتے ہوں۔ پھر وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ آریہ کون تھے اور کہاں سے آئے؟ کیا وہ مشرق وسطی ، ایران یا افغانستان کے رہنے والے تھے؟ یا پھر آریہ قبائل ہندوستانی تھے؟
ان تمام حالات و واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم کسی نتیجہ پر پہنچنے سے پہلے ایک الجھن سی محسوس کر رہے ہیں کہ آخر کار یہ لوگ کون تھے اور کہاں سے آئے؟ میں نے ان تمام مورخین کی رائے کو آپ کے گوش گزار کرنے کے لیے تحریر کیا ہے۔ میری ان تمام مورخین کے سامنے کوئی حیثیت نہیں ہے، میں ایک نا اہل آدمی ہوں لیکن ان لوگوں کے بیانات کو سامنے رکھتے ہوئے ہم کچھ گزارشات بیان کریں گے ۔ گتھی کو سلجھانے کے لیے ہم نے پوری کوشش کی ہے۔ سب سے پہلے ہم یہ عرض کرتے چلیں کہ آریہ کی اپنی کوئی تہذیب نہیں تھی۔ وہ ایک غیر تہذیب یافتہ قوم سے تعلق رکھتے تھے اور جب وادی سندھ میں داخل ہوئے تو یہاں ان کی پہچان کے تہذیب یافتہ ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ ظالم ، سفاک اور دحشی تھے۔ اگر ملے ہیں تو ان کی تباہی اور بربادی کے نشان ہی ملے ہیں۔ ان کے اصل وطن کے بارے میں ہم نے پوری کوشش کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکالا ہے کہ یہ لوگ مشرق وسطی کے رہنے والے نہیں تھے ہر پہ اور م کیونکہ آریہ قبائل مشرق وسطی کے باس ہوتے تو وہ ضرور پہلے افغانستان کو فتح کرتے ، وہاں ان کو
جنگیں لڑنا پڑتیں۔
اس علاقے پر مکمل کنٹرول کے بعد وہ آگے بڑھتے اور مشرق کی طرف پیش تین مرتب قدمی کرتے اور وادی سندھ میں داخل ہوتے لیکن ایسا کوئی واقع پیش نہیں آیا۔ وہ نہ ہی مکمل طور پر اہمیت کا ایران کے باشندے تھے۔ ہاں اگر یہ لوگ اہل فارس میں سے ہوتے تو پھر بھی ان کو بہت ساری ئیلوں میں مشکل پیش آتی اور دریائے سندھ کو پار کرنے تک اور ضرور ان کے ساتھ تہذیب وادی دجلہ فرات کے نشانات ملتے اگر یہ بھی نہیں معلوم یہ ایرانی تھے یا نہیں تو پھر ان کے بارے میں میری ایک رائے یہ بھی ہے کو ممکن ہے یہ قبائل دریائے سندھ کے پار مغرب میں واقع پہاڑی سلسلہ کوہ سلیمان اور شمال میں وادی سوات تک کے علاقوں میں پھیلے ہوئے تھے اور وہاں یہ لوگ خانہ بدوشی کی کہ ایک زندگی بسر کر رہے تھے۔ ان کا ذریعہ معاش صرف اور صرف مال مویشی پالنا تھا۔ اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی روزی روٹی کے وسائل نہیں تھے۔
میرے اس بیان میں ایک ثبوت چاروں وید جو شکرت زبان میں لکھی گئیں اور یہ دید آریہ سے منسوب کی جاتی ہیں، ان کا مصنف پانی جو آریہ قوم کا ہی ایک فرد تھا، نے اپنے بارے میں لکھا ہے کہ وہ دریائے سندھ کے مغربی کنارے کے قریب واقع ایک علاقہ رندر کے ایک گاؤں سلاتر کا پیدائشی اور ر ہنے والا تھا تو اس ثبوت کے بعد اب بات واضح ہو گئی ہے کہ آریہ ضرور دریائے سندھ کے مغرب میں واقع پہاڑی سلسلہ کے رہنے والے تھے ۔ ہاں یہ بھی ممکن ہے کہ ان میں ایک سے زیادہ قبائل شامل ہوں ۔ یہ قبائل دو تہذیبوں کے درمیان ایک غیر تہذیب یافتہ محطے میں رہتے تھے کیونکہ پہلے ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ وادی سندھ کی تہذیب ہو یا میسو پوٹیمیا کی تہذیب یا پھر مصریہ، تمام تر تہذیبی ارتقا میدانی اور دریاؤں کے کنارے ہوا۔ وادی سندھ کی تہذیب کی جائے جنم دریائے سندھ کے مشرقی زرخیز میدان تھے جبکہ میسو پوٹیمیا کی تہذیب کا ارتقائی مقام دریائے دجلہ وفرات کے ساتھ واقع میدانی پٹی اور کھیت تھے جبکہ تہذیب مصر سے نینوا کی تہذیب کہا جاتا ہے، دریائے نیل کے قریبی علاقوں میں پھلی پھولی تھی۔
اس لیے آریہ دنیا کی قدیم ترین اور عظیم تہذیبوں کے درمیانی علاقوں میں رہنے کی وجہ سے ان لوگوں اور تہذیبوں سے متاثر ہوئے بغیر کیسے رہ سکتے تھے۔ ضرور انہوں نے ان دونوں تہذیبوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہوگی اور ممکن ہے کہ ان میں سے کچھ قبائل نے مغرب کا رخ کیا ہو اور ان علاقوں میں گھنے کی کوشش کی ہو لیکن اس وقت میسو پوٹیمیا کی وادی میں ایک مضبوط اور مکمل بادشاہت اور سلطنت موجود تھی جہاں ان کے قدم ممکن ہے کہ نہ جم سکے۔ لیکن جب وہ دریائے سندھ کو پار کر کے وادی سندھ کے علاقوں میں داخل ہوئے تو میسو پوٹیمیا کے مقابلے میں یہاں نہ کوئی خاص حکومت تھی اور نہ ہی مقامی قبائل اتنے طاقت ور تھے کہ ان کا راستہ روک سکتے ۔ پھر بھی کافی حد تک مقامی قبائل جنہیں دراوڑی نسل کہا جاتا ہے، نے مقابلہ کیا، جنگیں بھی لڑیں اور اپنی دھرتی پر قربان ہو گئے۔
آریہ نے وادی سندھ کی تمام سرزمین، میدانوں اور کھیتوں پر قبضہ کر لیا اور شمال سے جنوب تک پورے علاقے پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے بعد سماجی زندگی کی شروعات کی جس میں ان کی با قاعدہ بادشاہت کے ثبوت بھی ملتے ہیں جو انہوں نے ہر پہ اور موہنجو دڑو جیسے قدیم شہروں کو تباہ کرنے کے بعد قائم کی تھی۔ انہوں نے باقاعدہ حکمت عملی سے بادشاہت قائم کی۔
آریہ کا سب سے پہلا سر براہ ایک طاقتور آدمی رندر تھا جس کو یہ اپنا خدا اور دیوتا مانتے تھے اور اس کی پوجا کرتے تھے۔ اندر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ ایک بہت ظالم اور سفاک آدمی تھا۔ اس کے پاس تقریبا پانچ ہزار لڑا کا فوج تھی جو آہنی اسلحہ سے لیس تھی۔ اندر نے وادی سندھ کے علاقوں میں اس حد تک تباہی کی کہ کوئی بستی اور کوئی شہر ایسا نہ تھا جو اندر کی وحشیانہ حرکتوں سے محفوظ رہا ہو۔ تمام شہر، سرسبز میدان اور کھیت بلکہ یہاں تک کہ پانی کے ندی نالے اور وہ بند جو مقامی لوگوں نے اپنے کھیت کو سیراب کرنے کے لیے بنائے تھے ، تباہ کر دیے۔ آریہ بادشاہ اندر کی سب سے پہلی جنگی کاروائی جس کے متعلق قدیم تر تاریخی حوالہ جات ملتے ہیں اور جس کا ذکر رگ وید کے باب سے لیا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ اندر نے وادی سندھ کے علاقے میں پہلی جنگ چنیوٹ کے مقام پر لڑی جس میں اندر کی فوج کا مقابلہ ایک ایسی فوج سے ہوا جو عورتوں پر مشتمل تھی اور چوبدار لکڑی کے نیزہ نما ہتھیاروں سے مسلح تھی جبکہ اندر کی فوج تعداد میں زیادہ اور آہنی اسلحہ سے لیس تھی۔
اس لیے آریہ فوج نے مقامی لوگوں کو شکست دی، ان کا قتل عام کیا اور ان کے بادشاہ کو گرفتار کر لیا جسے بعد میں قتل کر دیا گیا۔ اس فتح کے بعد آریہ فوج آگے دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ جنوب کی طرف پیش قدمی کر کے ہر پہ اور موہنجودڑو پر حملہ آور ہوئی اور وہاں بھی اس نے وحشت کے پہاڑ توڑ ڈالے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس پوری بحث اور بیان بازی کے بعد کیا ہم کسی نتیجے پر پانچ پائے ہیں یا نہیں؟ اس کا ایک سیدھا سا جواب ہے کہ آریہ ایک قوم تھی جس میں مختلف قبائل شامل تھے اور انہوں تقریباً دو ہزار سے اٹھارہ سو سال قسم کے دوران مغربی پہاڑی دروں کے راستے سے دریائے سندھ کو پار کیا اور مغربی ہندوستان دریائے سندھ کی وادی پر حملہ آور ہوئے جن کو بعد میں لفظ قوم آریہ سے منسوب کیا گیا ہے۔ یہ بھی معلوم نہیں کہ اس قوم کو آر سیہ نام کیوں اور کیسے دیا گیا یا پھر انگریز مورخین نے اس قوم کو آریہ کے نام سے مشہور کیا جیسا کہ ہن” قوم چوتھی صدی عیسوی میں ہندوستان پر حملہ آور ہوئی اور یہاں ان کو گورے ہن کا نام دیا گیا جسے پوری امریکن، برٹش کو انگریز گورے یا ولائی کا نام دیا گیا تھا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ تمام تر قبائل جو آریہ قوم میں شامل تھے اور ان کا سابقہ وطن ایرانی یا آریائی ملک کے قریب ہونے کی وجہ سے ان کو آریہ کہا گیا۔ ہندوستانی، پاکستانی، عربی اور یورپی قوم وغیرہ ۔ لیکن جہاں تک لفظ آریہ کا مطلب یا معنی ہے تو اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ آج سے تقریبا دو ہزار سال قبل مسیح لفظ آریہ کا کیا مطلب تھا اور یہ نام ان کو کیوں دیا گیا یہ کسی کو بھی معلوم نہیں ۔ صرف قیاس آرائی کے طور پر لفظ آریہ کو بہت سارے معنی دے دیے گئے۔
جیسا کہ لفظ آریہ کو انگریزی میں آرین جبکہ فارسی میں آئر ، اس کے علاوہ بھی اس لفظ کے دوسری زبانوں میں کوئی اور معنی ہو سکتے ہیں۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ لفظ آریہ یا آئر اور ایران کا آپس میں ضرور کوئی گہرا تعلق ہے۔ یہ تینوں لفظوں کا واسطہ یا تعلق ایک ہی گرائمر سے ہے۔ اگر ہم اس حقیقت کو تسلیم کر لیتے ہیں کہ لفظ ایران اور آر یہ ایک ہی زبان کے الفاظ ہیں تو پھر ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ آریہ قوم کا اصل وطن یا جائے پیدائش سلطنت فارس، جو بعد میں ایران کے نام سے مشہور ہوئی ، کے مشرقی سرحدی علاقے تھے۔ یا پھر اس قوم کو آریہ اس لیے پکارا گیا کہ جیسے سکندر کو یونانی اور اس کے بعد آنے والے یونانیوں کو باختری، کشانوں کو یو چی حالانکہ یوچی کوئی باقاعدہ قوم نہیں تھی، یہ بہت سارے قبائل پر مشتمل ایک گروپ تھا جس کو یو چی کہا گیا۔ اسی طرح اس گروپ کو بھی آریہ کہا گیا ۔
ایک سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مثال کے طور پر آر یہ لوگ در اوڑی قبائل کی نسبت خوبصورت، گوری رنگت ، لمبا قد اور جسمانی طور پر صحت مند جبکہ دوسری طرف وادی سندھ کے مقامی لوگ کالے رنگ، چھوٹے قد ، بدصورت چہرہ اور کمزور جسم رکھتے تھے ہو سکتا ہے کہ اس جسمانی برتری کی وجہ سے بھی ان کو آر یہ پکارا گیا ہو اور یہ ممکن ہے کہ اس وقت ان علاقوں میں بولی جانے والی زبان لفظ آریہ کے معنی خوبصورت ، اعلی، طاقتور ہو لیکن یہ بات زیادہ قابل بھروسہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ قبائل ایرانی سلطنت کے قریبی علاقوں کے باشندے ہونے کی وجہ سے آریہ کہلاتے ہوں جیسا کہ آئر یہ یا آئر اور بعد میں یہ لفظ مختلف زبانوں میں تبدیل ہوتا ہوا لفظ آریہ مشہور ہوا۔
نوٹ: یہ مضمون ملک محمد شفیع کی کتاب (قدیم تاریخ تھل) سے لیا گیا ہے۔