تھل:یوچی قبائل
یوچی قبائل چین کے شمالی مغربی صوبہ کن سنہ کے رہنے والے تھے۔ یہ ایک علیحدہ پنسل کے لوگ تھے اوران کا منگولی اقوام سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یو چی لوگوں کا حلیہ کچھ یوں تھا کہ رنگ ان کا گلابی قدلمبا اور چوڑے چہرے پر چھپٹی ناک تھی۔ تقریباً ۱۷۰/ ۶۵ اقم کے دوران ان لوگوں کو اس وقت مجبور انقل مکانی کرنا پڑی جب چینی شہنشاہ پی ان ہوانگ لٹی جس نے چین کی حدود اور مملکت کو وسعت دینے کے لیے اور تمام تر چینی علاقوں پر قبضہ کرنے کی مہم سے ہوا نگ لئی اور پوچھا اقوام کے درمیان جنگ ہوئی جس میں یوچی قبائل کو شکست ہوئی اور اس وجہ سے ان کو بہت سارے مسائل سے دو چار ہونا پڑا اور اس شکست کی وجہ سے یوچی اقوام کو اپنے علاقوں سے نقل مکانی کرنا پڑی۔ ان کے بعد یو چی اقوام کے علاقوں پر ایک دوسری قوم جو اکثریت میں پوچھا اقوام سے زیادہ تھی، جوتر کی نام سے مشہور تھی، نے شہنشاہ چی ان ہوانگ لئی کی قیادت میں قبضہ کر لیا۔ یو چی اقوام نے اپنے علاقوں اور اپنے صوبے کو خیر باد کہہ کر مغرب کی طرف اپنا سفر شروع کیا۔ یوچی قبائل میں ایک سے زائد اقوام شامل تھی اور ان کی کل تعداد تقریباً پچاس ہزار سے ایک لاکھ نفوس پر مشتمل تھی جبکہ ان لوگوں کا ذریعہ معاش مویشی پالنا تھا۔
اس لیے ان کے پاس مویشیوں کے بہت بڑے ریوڑ تھے جس کے لیے ان کو کھلی اور آزاد چرا گا ہیں تلاش کرنے کی اشد ضرورت تھی۔ یوچی قبائل نے مغرب کی طرف تکلماں راجنی صحرائے گوبی کے شمال میں واقع دریائے اپنی دوسن کے جنوبی معاون تکے کی وادی جس کو مقامی طور پر کنگیز کہا جاتا تھا، کی میدانی پٹی میں پہنچے تو یہاں ان کی لڑائی وہاں کی مقامی آباد کار چھوٹی سی قوم جو دوئن” کے نام سے مشہور تھی ، سے ہوئی۔ دوئن کی کل تعدادہ اہزار تیر اندازوں پر مشتمل تھی۔ اپنے ملک کو بچانے کے لیے اپنے سے کئی گناہ بھاری طاقت ور دشمن کے ساتھ جنگ کے لیے تیار ہو گئے کیونکہ یوچی کے پاس تقریباً ایک لاکھ کے قریب تیرانداز جنگجو موجود تھے ۔ اس لڑائی میں روشن کو شکست ہوئی ۔ یوچی نے مقامی سرداروں کو قتل کر دیا اور ان کی جاگیروں اور چراگاہوں پر مکمل قبضہ کر لیا۔ کچھ عرصہ اپنے مفتوحہ علاقے میں رہنے کے بعد یوچی قبائل مزید جنوب مغرب کی طرف سرسبز چراگاہوں اور کھلے علاقوں کی تلاش میں آگے بڑھے اور یہاں سے یوچی قبائل نے دو الگ الگ راستے اختیار کیے۔
ایک مغرب اور دوسرا جنوب کی طرف۔ یوچی کا ایک حصہ جنوب کی طرف آگے بڑھ کر تبت کی سرحد پر آباد ہو گیا اور یہ لوگ آخر میں قلیل یو چی کہلائے۔ ان کے ایک بڑے حصے نے مغرب کی طرف جھیل ایسک ، جس کو چینی سیاح ہیون سانگ نے جھیل تسنگ کا نام دیا ہے، سے بھی آگے نکل گئے۔ یہاں پر ایک مرتبہ پھر یوچی قبائل کا سامنا وہاں کی موجود قوم سک سے ہوا جو دوسن کی طرح جنگجو اور مشہور تھی ۔ یہ سک قوم دوسن کے مغرب میں دریائے بیچوں اور سیر دریا کے شمال میں آباد تھے۔ اب یہ علاقے موجودہ ازبکستان، ترکمانستان، وسطی ایشیاء کی ریاستوں میں ہیں۔ سک قوم نے بھی یوچی کا مقابلہ کیا اور لڑائی میں کم تعداد ہونے کی وجہ سے سک قوم کو شکست ہوئی اور ان کو اپنے علاقوں سے نقل مکانی کرنا پڑی۔ ایک مرتبہ پھر یوچی اقوام نے ان مفتوحہ علاقوں پر اپنی آباد کاری شروع کی اور یہ فاتح اقوام ان علاقوں میں رچ بس گئے۔ یہاں پر کچھ عرصہ امن سے گزارنے کے بعد پھر یوچی قبائل کو اس وقت جنگ کا سامنا کرنا پڑا جب دوسن قبائل اپنی شکست اور سرداروں کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے حملہ آور ہو گئی۔
دوسن قوم کے مقتول سردار کے بیٹے نے چینی شہنشاہ کی مدد سے ان پر حملہ کیا تھا۔ اس جنگ میں جو تقریبا ۱۴۰ ق م میں ہوئی اور یو چی قوم کو شکست ہوئی، وہ تمام مفتوحہ علاقے جو انہوں نے دوسن اور سک قوم سے چھینے تھے، خالی کرنا پڑے۔ ممکن ہے کہ علاقے کی تمام تو میں یو چی کے خلاف اتحاد میں شامل ہوئی ہوں۔ مجبور یو چی اقوام کو ایک مرتبہ پھر نقل مکانی کرنا پڑی اور جنوب مغرب کی طرف دریائے سیمون کی دادی میں چلے گئے۔ یہاں بھی یو چی کا واسطہ ایک اور قوم جو پہلے سے ان علاقوں پر آبادتھی، سے پڑا جنہیں چینی ٹا یا کہتے تھے۔ یہ لوگ امن پسند اور صلح جو تھے ۔ اس قوم نے یوچی قبائل سے امن معاہدہ کر لیا اور ایک ساتھ رہنے اور یو چی اقوام کی اطاعت قبول کرنے پر راضی ہوگئی۔ وادی سیمون کی سرسبز و شاداب جدا گاہوں پر مکمل کنٹرول کے بعد یوچی قبائل نے اپنا سیاسی حلقہ اثر دریائے سیمون کے پار باختر کے صوبوں تک بڑھا لیا۔ یہاں ان کے لیے چراگا ہیں بہت وسیع تھیں جہاں انہوں نے خوب قدم جمائے۔ ایک صدی کے قریب عرصہ میں یوچی اقوام نے اپنی خانہ بدوشی کی زندگی کو ترک کر دیا اور مقامی آبادکار بن گئے۔ تقریباً پہلی صدی ق م کے اختتام پر انہوں نے دریائے سیمون کے جنوب اور باختر کے علاقوں پر مشتمل اپنی پانچ ریاستیں قائم کر لیں ۔
بقول وی اے سمتھ باب ۱۰ صفحہ ۳۱۸ یو چی اقوام نے تمام گروپوں کے اتحاد سے • اق م تک حکومتی اور ریاستی نظام مکمل کر لیا۔ یورپی اقوام کی چینی صوبہ کن سہ سے نقل مکانی ۲۵ ا ق م سے لے کر دریائے سیمون اور باختر وغیرہ کے علاقوں میں اپنا معاشی، سیاسی نظام مکمل کرنے اور باقاعدہ حکومتی ڈھانچہ کی تکمیل جو • ا ق م میں مکمل ہوئی ہتک کی کل مدت ۱۵۰ سال بنتی ہے جس میں یوچی قبائل نے اپنا سیاسی سفر پورا کیا۔ اس ۱۵۰ سالہ سفر میں تقریباً ۵۰ سال انہوں نے سفدانہ اور باختر میں اپنے حکومتی نظام کو مکمل کرنے میں صرف کیے ہوں گے۔ باقی تقریباً ۸۰ سے ۹۰ سال خانہ بدوشی کی زندگی بسر کرتے رہے۔ اس دوران ان قبائل میں اندرونی و بیرونی اختلافات اور لڑائیاں بھی ہو ئیں ۔ آپس میں سیاسی اختلافات اور جھگڑے رہے کیونکہ جب ان قبائل نے سفر انہ اور باختر کے علاقوں میں اپنا حکومتی سیٹ اپ مکمل کیا تو یہاں ایک بات کو ضرور سمجھنا ہوگا کہ انہوں نے ان علاقوں پر ایک اتحادی ریاست قائم کیوں نہیں کی اور کیوں بالکل پانچ علیحدہ علیحدہ ریاستیں قائم کر دیں ؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے درمیان کوئی نہ کوئی اختلاف ضرور تھا جس کی وجہ سے ہر قبیلے نے اپنی اپنی ریاست قائم کی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے درمیان قبائلی تقسیم موجود تھی اور یو چی اتحاد میں مختلف تو میں اور نظریات کے لوگ موجود تھے ۔ وہ حالات جو ایک سے زیادہ قبائل کے درمیان اختلاف اور پھر ان تمام قبائل کا ایک معاہدہ پر متفق ہونا واضح ہوتا ہوا نظر آتا ہے لیکن کچھ عرصہ بعد تقریباً ۱۵ ء تک ان کے درمیان وہ تمام اختلافات ختم ہو گئے اور تمام یوچی قبائل ایک معاہدہ کے تحت یورپی قبائل میں شامل کشان قوم جو ممکن ہے کہ ان میں سب سے زیادہ اثر رکھتے ہوں اور تعداد میں بھی زیادہ ہوں گے تو ان میں سردار کے طور پر کڈ فائس اول کو اپنا متفقہ بادشاہ تسلیم کر لیا۔ کہ فائس کشان کا سردار تھا جس کو یورپی مورخین و یا کنڈ فائس اول کے نام سے تحریر کیا ہے۔ یہ وہی کشان بادشاہ تھا جس نے ۲۰ ء تک کابل اور ہندوکش کے شمال کے تمام علاقوں پر اپنی گرفت اور حکومت قائم کر لی تھی۔ بعد میں اسی کشان بادشاہ کی اولاد نے ہندوکش کو عبور کر کے مغربی ہند کے اکثر علاقوں پر اپنا قبضہ کر لیا اور چوتھی صدی عیسوی کے اختام تک حکمران رہے جن کا تفصیلاً ذکر آگے آئے گا۔
کر فائس اول ۴۵۳۱۵:
کنڈ فائس اول یو چی اقوام میں کشان حصے کے جرگہ کا سردار یا سر براہ تھا جو دوسرے تمام یوچی قبائل سرداروں کا تعاون حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ کڈ فائس اول یوچی سلطنت جس نے تمام یوچی قبائل نے قبضہ کیا تھا، اس کا ۱۵ ء تک حاکم اعلیٰ تسلیم کر لیا گیا۔ امور سلطنت اور تخت پر براجمان ہونے کے بعد اب ان کے سامنے اور بہت سارے مسائل در پیش تھے جن میں سرفہرست سلطنت کی وسعت ، مزید علاقوں پر قبضہ اور چراگاہوں اور یوچی قبائل کے لیے ذریعہ معاش شامل تھا۔ اسی لیے انہوں نے اپنے ارادوں کو عملی جامعہ پہنانے کے لیے سب سے پہلے باشتر کے آگے افغانستان پر شب خون مارا کافی جنگ و جدل کے بعد کشان بادشاہ نے تقریباً ۲۰ء کے قریب کابل کو فتح کر لیا۔ کامل اور مشرق کا پہاڑی سلسلہ کا فرستان کی فتح کشان بادشاہ کے لیے نقیمت تھی جس سے ان کی طاقت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ پورے یونان میں، جو اس زمانے میں دنیا کی پر پاور تھی، دیما کو (vima) شہنشاہ کا خطاب دیا گیا۔ ان فتوحات سے کشان بادشاہ کو اپنے مرکز باختر میں اپنی فوجی طاقت کو متکام کرنے کا ایک سنہرا موقع ملا اور اس نے مشرق کے مزید علاقے جس میں ہندوکش کے تمام پہاڑی سرسبز وادیاں دریائے سندھ تک کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیا جبکہ کچھ مورخین کا خیال ہے کہ کڈ فائس اول کی حکومت دریائے سندھ کے پار گندھارا ار تھل کی پٹی دریائے جہلم تک پھیل گئی تھی لیکن اس کے کم ہی شواہد ملے ہیں۔ میرے خیال میں کڈ فائس اول کی حدود سلطنت پاک افغان سرحد یا پھر دریائے سندھ تک تھی ۔
دریائے سندھ کا مغربی پہاڑی سلسلہ جس کو زمانہ قدیم میں کافرستان کہا جا تا تھا، کڈ فائس اول کی سلطنت میں شامل تھا۔ مزید کچھ عرصہ کے بعد کڈ فائس اول نے اپنا دارالسلطنت باختر کی بجائے کابل میں منتقل کر دیا۔ اس سے پہلے کامل اور ٹیکسلا وادی سندھ اور مغربی پنجاب ”تھل“ کے علاقوں پر مشتمل ایک ریاست تھی جو یونانی باختری اور پارتھی حکمرانوں کے قبضہ میں تھی۔ جب کا بل پر کڈ فائس اول نے حملہ کیا تو اس وقت ایک پارتھی سردار میوس ثانی کابل میں حکمران تھا جبکہ ایک دوسری روایت ہے کہ اس وقت کامل کا حکمران ہر میں تھا، یہ ایک پارتھی نسل سے بادشاہ تھا جبکہ میوس ثانی دریائے سندھ سے مشرق کے میدانی علاقوں کا بادشاہ تھا۔
کڈ فائس اول نے معاشی، سیاسی، فوجی تقویت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے شہنشاہ کا لقب اختیار کرنے اور اپنے آپ کو یونانی بادشاہ ہر کولیس کے ساتھ ہمسری کا دعوا کرنے کے خیال میں اپنے نام کا سکہ بھی جاری کیا جو یونانی بادشاہوں کے سکوں سے مشابہت رکھتا تھا۔ کڈ فائس اول نے ۴۵ ء تک کابل اور باختر کے علاقوں پر حکومت کی اور تقریبا ۰ ۸ سال کی عمر میں وفات پائی۔ اس نے کل ۳۵ سال حکمرانی کی اور اس کی کر فائس دوئم ۴۵ تا ۷۸ : وقات کے بعد کڈ فائس دوم نے عنان حکومت سنبھالی جو ممکن ہے کہ کنڈ فائس اول کا بیٹا ہو۔ مورخین کی تحریروں اور تاریخی حوالہ جات سے معلوم ہوتا ہے کہ کنڈ فائس دوئم کڈ فائس اول کا ہٹا اور جانشین تھا جسکو چینی پن کو چنگ کہتے ہیں۔ سکوں کی عبارت میں ان کا نام و یا کنڈ فائس لکھا ہے۔
اپنے باپ کی وفات کے بعد اس نے تخت سنبھالا اور یہ ایک باہمت اور پر عزم بادشاہ تھا۔ اس نے اپنی تمام تر کوشش اور طاقت باپ کی دی ہوئی سلطنت کو وسیع کرنے پر صرف کر دی۔ کڈ فائس دوئم نے اپنی ریاست کی سرحدوں کو پار کر کے دریائے سندھ کے مشرق اور جنوب میں مغربی پنجاب کے وسیع میدانوں موجودہ تھل” کے اکثر علاقوں پر قبضہ کر لیا جبکہ کسی حد تک اس بات کے بھی شواہد ملے ہیں کہ دریائے گنگا کی وادی کے کچھ حصے اور بنارس تک کے علاقوں کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ ساتھ ہی شمال کے پوٹھو ہاری سلسلہ کے علاقے گندھارا، کوہستان اور دریائے جہلم کے پار کشمیر تک کے علاقوں کو اپنی عمل داری میں لے لیا۔ گندھارا کے جنوبی میدانی علاقے جن میں میانوالی، بھکر، خوشاب، لیہ، مظفر گڑھ کے اضلاع تک چھل” کے اکثر علاقے کٹ فائس دوئم کی عمل داری میں تو ضرور تھے لیکن یہ علاقے پارتھی سرداروں کے قبضے میں تھے۔ جو ایک سے زائد چھوٹی چھوٹی ریاستوں پر حاکم اور قابض تھے۔ یہ تمام پارتھی سردار کسی نہ کسی طرح ایک مرکزی حکومت کے زیر اثر کام کرتے تھے۔
ان میں ایک سردار سب سے زیادہ طاقتور تھا۔ ممکن ہے کہ وہ ایران کی پارتھی حکومت کی طرف سے ان علاقوں پر حاکم اعلیٰ کی حیثیت سے حکومت کرتا ہو۔ یہ وہ بادشاہ تھا جو سکوں اور دوسری تاریخی شواہد کی معلومات کے مطابق تاریخ کا گمنام بادشاہ مشہور تھا۔ اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ بادشاہ کنڈ فائس دوئم کا ہم عصر تھا۔ اس کا ذکر پہلے بھی آچکا ہے۔ یہ سوڈر میکس کا لقب استعمال کرتا تھا۔ کٹیلاگ آف کائنز ان دی انڈین میوزیم میں ان سکوں پر جو نام تحریر ہے، وہ سیا سر یٹاس لکھا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس بادشاہ نے کشان بادشاہ کی اطاعت قبول کرلی ہو اور باج گزار کے طور پر کڈ فائس دوئم کے زمانہ میں حکومت کرتا رہا کیونکہ کشان بادشاہ کے ساتھ ساتھ اس کے نام کا سکہ بھی جاری ہو تا رہا۔ دوسری طرف تمام ہندی – پارتھی سردار جو گندھارا کے جنوب میدانی علاقوں پر قابض تھے ، مقامی طور پر اپنے اپنے نام کا سکہ بھی جاری کرتے رہے۔ یہ مقامی طور پر تیار ہونے والے سکے مرکزی سکوں کی نسبت بہت چھوٹے اور وزن میں کم ہوتے تھے ۔ یہ شکل وصورت میں کچھ حد تک مرکزی سکوں سے مطابقت رکھتے تھے۔
اس سکے کا لین دین صرف اس ریاست میں ہی ہوتا تھا جہاں اس کرنسی کو جاری کیا جاتا تھا۔ ان تمام پارتھی سرداروں اور حکمرانوں نے کڈ فائس دوئم کی طاقت کے سامنے مجبوراً اطاعت قبول کر لی جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کشان بادشاہ کو ان علاقوں پر فوج کشی نہیں کرنی پڑی۔ کڈ فائس دوئم کی حکومت کا زمانہ غالباً طویل تھا۔ اس کے متعلق مورخین کی مختلف آرا سلام منے آئی ہیں۔ وی اے سمتھ نے ان کی کل مدت حکومت ۳۳ برس یعنی ۴۵ ء سے ۷۸ تک جبکہ تم نے ۲۰ برس اور مٹر آر ڈی بغیر جی اور پروفیسر لیوڈر ۲۱ برس لیکن کچھ مناظر کو مدغم کر دیا ہے لیکن یہ تمام مورخین کنشک کی تخت نشینی جو ۷۸ء میں ہوئی ، پر متفق نظر آتے ہیں۔ ممکن ہے کہ ۷۸ء میں کنشک کی تاج پوشی ہوئی ہو اور کنڈ فائس دوئم اس سے کچھ عرصہ پہلے وفات پاچکے تھے تو ان اعداد وشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی حکمرانی کی کل مدت ۴۰ برس ہوگی جو کچھ حد تک صحیح بھی ہے۔
کنشک ۷۸ ۶ تا ۱۲۳ء:
کنشک کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ کشان یا بقول رشتہ کشن قوم کے بادشاہوں کا جانشین تھا جبکہ موخر الذکر کشان بادشاہ دوئم کا بیٹا تھا۔ بیٹا تھا یا ہیں، یہ ایک حقیقت ضرور ہے کہ کنشک کا تعلق یو چی جرگے کے کشن یا کشان حصے سے تھا۔ خروشی طرز تحریر میں اس قوم کا کشن جبکہ ساسانی اور چینی تحریروں میں کشان لکھا ہے لیکن یہاں صرف فرق طرز تحریر کا ہے نہ کہ لفظ کشان کا ۔ یہ امر یقینی ہے کہ کنشک ہی وہ کشان بادشاہ ہے جو کنڈ فائس کا جانشین یا بیٹا تھا۔ ڈاکٹر فلیٹ (ہے۔ آر۔ اے۔ ایس ) ۱۹۱۳-۱۹۰۶-۱۹۰۵ – ۱۹۰۳ء کے مضامین برلن کے ڈاکٹر اور فرینک اور جمیز کینڈی کی رائے کہ کنشک ، واہشک ، ہوشک، اور بسود یو، یہ تمام بادشاہ شاہان کڈ فائس سے پہلے گزرے ہیں جبکہ وہی اسے سمتھ نے ان تمام مذکورہ بالا علماء کے بیانات کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے یہ ظاہر کر دیا ہے کہ کنشک ہی کڈ فائس دوئم کا جانشین تھا اور ۷۸ء میں کنڈ فائس دوئم کی موت کے بعد تخت کا مالک بنا اور ان کی مدت حکمرانی کے متعلق بھی بہت ساری آراء سامنے آئی ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ کنشک نے ۷۸ ء سے ۹۰ ء تک کل ۱۰-۱۲ سال حکومت کی جبکہ کچھ بیانات سے ان کی مدت حکومت ۷۸ ۶ تا ۱۲۸ ء ظاہر کی گئی ہے۔
ڈاکٹر فلیٹ مضمون ۱۹۰۳ء میں ۵۸، جبکہ بھنڈار کر ان کا آخری زمانہ ۲۷۸ مگر ان کا نظر صریحاً نا قابل قبول ہے۔ اصل اختلاف کنشک کی تخت نشینی کے سن پر ہے کہ ایک جماعت ۵۸ ، جبکہ دوسری ۷۸ مگر ڈاکٹر مارشل جو بعد میں جان مارشل کے نام سے مشہور ہوا، انہوں نے ٹیکسلا کے آثار قدیمہ کی کھدائی سے یادر ہے کہ ڈاکٹر مارشل ہی ۔ آئی۔ ای ناظم محکمہ آثار قدیمہ ہند تھے ۔ کھدائی سے ملنے والے نمونوں کی مدد سے واضح کر دیا ہے کہ کنشک دوسری صدی عیسوی کے اول تک ہندوستان کے اکثر علاقوں پر حکمران ہے۔ کنشک کڈ فائس بادشاہوں میں کسی کا بیٹا تھا یا نہیں ، وی اے سمتھ کے مطابق کنشک کشان قوم کا فروضرور تھا اور ان کے باپ کا نام وجبشپ تھا لیکن کنشک ایک مضبوط اور اعلیٰ حکمت عملی سے سرشار انسان تھا۔
یہی کشان بادشاہوں میں ایک تھا جو اپنے پیچھے ایسا نام چھوڑ کر گیا جسے ملکی روایت نے فراموش نہ ہونے دیا بلکہ ہندوستان کی حدود سے باہر بھی مشہور و نامور تھا۔ انہوں نے اپنے جد اعلیٰ کی طرح فوجی طاقت اور حدود سلطنت کو وسیع کرنے کی کوششیں کیں۔ کیونکہ اس سے پہلے کشان سلطنت کی سرحدیں افغانستان اور ایشیاء کے گرد نواح جبکہ مشرق میں گندھارا کے صرف شمالی حصوں تک محدود تھیں ۔ کشان سلطنت کا مرکز کابل میں تھا۔ کنشک نے اس ارادے سے کہ وہ اپنی فوجی طاقت کو وسطی ہندوستان کے سرسبز میدانوں تک لے جائے اور مزید دریائے سندھ کی سرسبز وادی ( موجودہ تھل ) جو ملتان تک پھیلی ہوئی تھی ، پر قبضہ کر لے۔ اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کنشک نے اپنا دارالسلطنت کابل کی بجائے پر سپور موجودہ پشاور منتقل کر دیا۔ کنشک کے لیے یہ ضروری تھا کہ وہ پشاور کے مشرق میں کو ہسار اور جنوب میں واقع ہندوستان کے سر سبز میدانی علاقوں پر قبضہ کرے جہاں پہلے ہندی پارتھی سردار حکمران تھے۔ کنشک نے اپنی حکمت عملی اور فوجی قوت کے ذریعے ان تمام علاقوں پر قبضہ کر لیا اور مزید کشان فوج جنوب میں ملتان، بہاولپور، اور زیریں سندھ کے علاقوں تک چلی گئی ۔ جبکہ ایک تھوڑے عرصہ میں وسطی ہند کے متھرا، پاٹلی پتر اور کشمیر جبکہ دریائے گنگا اور جمنا کے میدانوں تک اپنا تسلط قائم کر لیا۔
کنشک کی طاقت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ کشان فوج ایرانی سرحد تک جا کر ایک پارتھی بادشاہ پر بھی حملہ آور ہوئی ممکن ہے کہ وہ خسرو پرویز یا کوئی دوسرا شہزادہ ہو۔ یہ جنگ ۱۰۸ بو میں ہوئی۔ کنشک کی فوجی مہم جو انہوں نے ہندوستان اور اپنی سلطنت سے باہر بھی فوج کشی کی جس میں ان کا سب سے طاقتور اور حیران کن کام کا شغر ، یا رقند اور نتین پر حملہ تھا۔ یہ وہ علاقے تھے جو چینی ترکستان کے قریب تبت کے شمال میں پامیر کے مشرق میں واقع تھے اور یہ تمام علاقے چینی شہنشاہ کے باج گزار تھے۔ کنشک نے کھلم کھلا اور دلیری کے ساتھ ہمسری کا دعوی کرتے ہوئے چینی شہنشاہ کی بیٹی سے شادی کا پیغام بھیجا۔
جنرل پن چونے جو چینی فوج کا سر براہ تھا، نے اپنے آقا کی بے عزتی سمجھتے ہوئے اپیچی کو گرفتار کر لیا۔ کنشک کو جب اس بد سلوکی کی اطلاع ہوئی تو اس نے ستر ہزار فوجی اپنے نائب سلطنت ” سہی” کی کمان میں تیار کر کے چینیوں پر حملہ کرنے کے لیے روانہ کر دیے۔ جونہی یہ فوج تا شکر خان کے پہاڑی راستوں سے جو چودہ ہزارفٹ بلند پہاڑ تھے ، جو موجودہ کوہستان کے سری کول میں واقع ہے، سے گزر کر یا رقند کے میدانوں میں اتری، کشان فوج جو پہلے دشوار راستوں کی مشکلات اور سخت ذہنی پریشانی کی وجہ سے کمزور ہو چکی تھی ، وہ بے یقینی کی حالت میں مبتلا بہ کیا ملا آسانی چینی فوج کے آپنی پنجے میں آگئی جس کی وجہ سے لڑائی جو ایک مختصر وقت تک ہوئی ، کشان فوج کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس طرح کشان فوج کو چینی شہنشاہ کے سامنے سرنگوں ہونا پڑا۔ مجبوراکشان جنرل نے ایک بڑی رقم بطور تعاون ادا کر کے پیر غمال فوج کو رہا کروایا۔ ان دونوں صورتوں میں کنشک کی حکمت عملی کار فرما تھی کہ اپنے ملک سے اتنی دور حملہ آور ہونا اور پھر اپنی گرفتار فوج کو بہت جلدی رہا کرونا۔ کچھ عرصہ بعد کنشک خود اپنی فوج کی کمان کرتے ہوئے جو تعداد میں ایک لاکھ سے بھی زائدتھی ، دو بار ان علاقوں پر حملہ آور ہوا۔ اس مرتبہ چینی فوج کی قیادت پن چوکی جگہ کوئی اور جنرل کر رہا تھا۔ کنشک اس مرتبہ کامیاب رہا اور اپنی تمام گرفتار شدہ فوج کی رہائی اور تعاون کا بدلہ لے لیا۔
کنشک ایک عظیم بادشاہ ہونے کے ساتھ ساتھ بہادر اور جنگجو انسان بھی تھا ۔ تمام کشان بادشاہوں میں کنشک ہی ایک بادشاہ تھا جس نے چینی اور یونانی ہر کولیس جیسے شہنشاہوں سے ہمسری کا دعوی ثابت کر دکھایا۔ کنشک کے دور میں کشان سلطنت کی سرحدیں چین سے لے کر ایران اور وسطی ایشیاء اور جنوب مشرق میں ملتان، بہاول پور وسطی سندھ سے ہوتی ہوئی سمندر اور مشرقی دریائے گنگا اور جمنا کے میدانوں تک پھیلی ہوئی تھی ۔ کنشک کا شمار دنیا کے ان چند عظیم شہنشاہوں میں ہوتا ہے جو روم، یونان، ایران اور چین کے علاقوں پر حکمران تھے۔ کنشک نے اپنے نام کا سکہ بھی جاری کیا۔ سکوں میں کنشک شہنشاہ کے طور پر ظاہر کیا گیا ہے جن کی تفصیل آگے سکوں کے باب میں آئے گی۔ اس بادشاہ نے تقریباً چالیس برس حکومت کی ۔ کنشک کی وفات ۱۲۳ء کے قریب ہی ہوئی تھی۔ اس کے جانشین ہوشک اور واشک کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ہوشک اور واشک دونوں کنشک کے بیٹے تھے اور باپ کی زندگی میں دونوں ہندوستان کے وسطی اور مغربی علاقوں پر بطور نائب حکمران تھے۔ واشک متھرا کے آس پاس کے علاقوں پر جبکہ ہوشک مغربی پنجاب موجودہ تھل اور روڑاں کے علاقوں پر باپ کے ساتھ شریک اقتدار تھا جو بعد میں باپ کی موت بعد برسراقتدار آئے۔
واشک ہوشک:
تاریخی حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ واشک اور ہوشک دونوں کنشک کے بیٹے تھے اور باپ کے ساتھ اندرون ملک حکومتی کام سر انجام دیتے تھے۔ اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ متھرا کے مقام پر پائے جانے والے سکوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دونوں ایک ساتھ حکمران تھے۔ اس وقت خود کنشک بھی ایک مرکزی قائد کی طرح موجود تھا۔ روڑاں کے مقام پر بھی ان دونوں کے سکے پائے گئے ہیں جبکہ خود کنشک کے سکے بھی ملے ہیں۔ ان شہادتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں بھائی کنٹک کی زندگی میں ان کے ساتھ شریک اقتدار تھے یا بطور نائب حکومتی کام سرانجام دیتے تھے کیونکہ جب کنشک نے ۱۰۲ء میں مغربی چین کے صوبوں کا شغر یا رقد پر حملہ کیا اور وہ جنگ و جدل میں مصروف تھے تو اس وقت ملک ان دونوں بھائیوں کی عمل داری میں تھا۔ ان دونوں میں بڑا کون تھا؟ یازیادہ اختیار کس کے پاس تھا ؟ تو اس حوالے سے کوئی واضح ثبوت نہیں۔
ممکن ہے کہ ہوتک بڑا ہو، لیکن یہ بات واضح ہے کہ ہوشک کو زیادہ اختیار حاصل تھا۔ وہ حکومتی کاموں میں اہمیت رکھتا تھا۔ یہاں تاریخ خاموش ہے کہ کشان خاندان کی سیاسی صورتحال کنشک کی موت کے بعد کی شکل اختیار کرگئی تھی۔ اس خاندان میں کتنے لوگ تھے کہ خاندان کو کئی حصوں میں تقسیم کر دیا۔ وہ حالات کیا تھے جن کے باعث کشان سلطنت کنشک کے بعد اپنا وجود قائم نہ رکھ سکی؟ وہ وجہ خاندانی اختلاف یا کمزوری ہی کبھی جائے گی۔ بہر حال جو بھی حالات تھے ، کشان شہزادوں میں خانہ جنگی، اختلاف یا امن پسندی جیسی تمام باتوں کے بیچ یہ کمزوری واضح تھی کہ کنشک کی موت ۱۲۳ء اور ہوشک کے جانشین بننے کے بعد کشان سلطنت میں رنگ و روپ اور طاقت باقی نہ رہی۔ ملک کے کئی حصے علیحدہ ہو گئے۔ جو ملک باقی بچا، اس کی باگ ڈور ہو شک نے سنبھالی۔
ہوشک ۱۲۳ء:
ہوشک اپنے باپ کی موت کے بعد ۱۲۳ء میں کشان سلطنت کا مالک بنا جس میں کابل سے کشمیر تک اور ٹیکسلا اور جنوب مشرق میں منتصر امغربی پنجابی ملتان تک کے علاقے شامل تھے۔ گیا ملالہ ہو شک کے سکے اکثر ہندوستان میں پائے جاتے ہیں جبکہ ان کے کچھ سکے روڑاں کے مقام سائیڈ سائیڈ اے سے ملے ہیں جس سے ان کے ہندو مذہب کی عکاسی ہوتی ہے نہ کہ بدھ مت کی کیونکہ ان کے سکوں پر آرد کشو دیوی کی مورتی بنی ہے جو ہندو مذہب سے تعلق کو ظاہر کرتی ہے۔ ہوشک کے متعلق مشہور تھا کہ وہ بدھ مت مذہب کا پیروکار تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہو شک پہلے بدھ مت مذہب رکھتا تھا لیکن بعد میں اس نے بدھ مت کو چھوڑ کر دوسرے مذہب کی طرف رجوع کیا۔ ہو شک نے ایک سے زائد قسم کے سکے رائج کرائے تھے۔ وہ ہندی ، یونانی اور ایرانی دیوتاؤں سے عقیدت رکھتا تھا۔ اس لیے اس نے اپنے سکوں پر بہت ساری مورتیاں نقش کروائی تھیں جس طرح ہر کیس نے سرایس (سرایو) کی پرتش کی جبکہ سکندر نے اپنے بیٹے وساکھ کے ساتھ آگ کے دیوتا فیرو کی تصویریں بنوائیں۔
ہوشک کے سکوں پر بدھ مت کی مورت یا نام نہیں پائے گئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بادشاہ بدھ مت مذہب میں بہت حد تک راسخ الاعتقاد نہ تھا۔ ہو شک کے جو سکے روڑاں کے مقام سے ملے ہیں، ان پر بھی ہندومت کا اثر پایا جاتا ہے۔ ہوشک کے اندر مذہب کی طرح اپنی سلطنت کو وسیع کرنے کا بھی جنون تھا۔ جس میں اس نے بڑی حد تک کوشش کی لیکن وہ اس کام میں کامیاب نہ ہو سکا جبکہ کچھ عرصہ کے بعد خود اس کی اپنی سلطنت اس کی گرفت سے نکلنے لگی۔ ممکن ہے کہ اس نے اپنی حکومت اور ملک کو بچانے کے لیے دوسری طاقتوں سے بھی رابطے کیسے ہوں جن میں یونانی، ایرانی اور چینی شامل ہیں۔ ان سے سفارتی تعلقات کو قائم کرنے کی کوشش کی گئی ہوگی کیونکہ ہوشک کے ایرانی حکومت کے ساتھ تعلق کے کچھ اشارے بھی ملتے ہیں۔
ہو شک نے کتنا عرصہ حکومت کی؟ اور ملک پر اس کا کنٹرول کس طرح تھا ؟ اس سے متعلق کوئی تاریخی ثبوت واضح نہیں۔ صرف ایک وہ مورخ جنہوں نے ہوشک کے سکوں پر تحقیق کی ہے، ان میں اشین راج ترحمتی ترجمه باب اصفحه ۱۶۸ بیل لائف آف ہیون سانگ صفحه ۶۸ حواله وی اے سمتھ صفحہ ۳۵۳، باب ۱۰ جبکہ وی اے سمتھ کیٹلاگ آف کا نزان انڈین میوزیم جلد اول لوح ۱۲ گارڈنر، برٹش میوزیم کیٹلاگ آف گر یک اینڈ انڈو میتھین گنگس ان تمام شہادتوں کو یکجا کر کے جو وضاحت وی اے سمتھ نے اپنی کتاب قدیم تاریخ ہند باب ۱۰ صفحہ ۳۳۴ – ۳۳۳ میں دی ہے۔ اس کے مطابق ہوشک ۱۲۳ء سے ۱۴۰ء تک حکمران رہا۔ اس دستاویز سے بادشاہ کی نہایت عمدہ شخصیت کو ظاہر کیا گیا ہے۔ ہو شب کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ مستقل مزاج تھا۔ اس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی اور ناک لمبی تھی۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کے زمانے تک کشان سلطنت میں کی کسم کا کوئی فتنہ یا کی واقع نہیں ہوئی لیکن پہلے جیسی شان و شوکت بھی اب ڈھیلی پڑ چھی تھی۔ اس کے جانشین کے متعلق بھی ایک بہت بڑا ابہام پایا جاتا ہے جس کا تاریخ اب تک کوئی فیصلہ نہیں کرسکی ۔ جانشین کے متعلق ہم آگے تفصیل سے ذکر کریں گے۔
نوٹ: یہ مضمون ملک محمد شفیع کی کتاب (قدیم تاریخ تھل اور روڑاں کے آثارِقدیمہ) سے لیا گیا ہے۔