تھل

تھل:چندر گپت موریہ اور اس کا خاندانی پس منظر

چندر گپت کے بارے میں مختلف روایات پائی جاتی ہیں۔ ایک روایت یہ ہے کہ اس کا خاندانی نام چندرا گپتا تھا اور مور یہ اس کا لقب تھا جو اس کی والدہ کے نام کی وجہ سے ملا تھا۔ ایک اور روایت میں کہا گیا ہے کہ چندر گپت مگدھ کے شاہی خاندان میں پیدا ہوا مگر اس کی والدہ یا نانی ایک نیچ ذات سے تھی اور اس وقت ہندو مذہب میں مادر نبی یعنی بچے کی خاندانی نسبت اس کی ماں سے دی جاتی تھی ، اس لیے چندر گپت کو نیچ ذات سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ذلتوں کو برداشت کرنا پڑا۔ ایک مرتبہ تو ایسا اتفاق ہوا کہ مگدھ کا بادشاہ جو اس کے خاندان کا سر براہ بھی تھا ، جس کا نام راجہ مہا پد مانند تھا، ناراض ہو گیا اور چندر گپت کوقتل کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ اسی ڈر کی وجہ سے چندر گیت جان بچا کر مغربی پنجاب کی طرف بھاگ گیا۔ ایک اور روایت جو قدیم ہندو مذہب کی روایتوں، تحریروں اور پرانا جات سے ہے کہ چندر گپت ایک نہایت ادنی خاندان میں پیدا ہوا۔ جب اس نے مگدھ کے حاکم مندرس ( نند ) کی کسی وجہ سے ہتک کی جس کے الزام میں اس کو گرفتار کرنے اور قل کا علم ہوا، تو چندر گپت کومغربی ہند کے علاقے گندھارا میں پناہ لینی پڑی۔

ہم بار بار اس بات کی طرف اشارہ کر چکے ہیں کہ ہندوستان کی تمام تر قدیم تاریخ ایسی دھندلاہٹ کا شکار ہوئی کہ سی بھی تاریخی واقعہ سے متعلق یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ قطع نظر اس کے کہ ہم ان یورپی یا مغربی مورخین کے اکتسابات پر بھروسہ کریں۔اسی طرح چندر گپت کے متعلق بھی میک کر نڈل صفحہ ۳۲۷-۴۰۵ پر مدرا راکش کے ناٹک کا حوالہ دیتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ چندر گپت مگدھ کے بادشاہ کا بیٹا تھا جبکہ اس کی ماں کسی اور خاندان سے تھی یا کسی عام قوم کی ہو سکتی ہے۔ مورخ کا بیان ہے کہ چندر گپت کو اسی وجہ سے جلا وطن کر دیا گیا۔ مورخ جٹسن بھی اپنے بیان میں کرنڈل کے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ چندر گپت مگدھ کے شاہی خاندان کا فرد تھا جس کو جلا وطن کر دیا گیا۔ یا انہوں نے کسی وجہ سے از خود اپنے ملک سے بھاگ کر گندھارا کے علاقے ٹیکسلا میں پنا لی۔ اس وقت عالم شباب تھا۔ عمر ۲۵ سال تھی۔ اس کے ساتھ ممکن ہے کہ خاندان کا کوئی فرد بھی نہ ہو۔ وہ مغربی پنجاب کے علاقوں کو بڑی غور سے دیکھتا رہا۔ شاہی خاندان کا اثر تو اس کے خون میں شامل تھا۔ اس کی سوچ اور منزل بہت آگے تھی۔ وہ کسی موقع کی تلاش میں تھا جس سے وہ کچھ فائدہ اٹھاسکے۔ چلتا چلتا جب وہ گندھارا کے پایہ تخت ٹیکسلا تک پہنچا تو اسے امید کی کرن نظر آئی کیونکہ مغربی شمالی ہندوستان میں ٹیکسلا شہر کوعلم و ادب کے لحاظ سے ایک خاص اہمیت ال تھی کہا جاتا ہےکہ ایرانی و چینی دور ے ہی ٹیکسلا میں ایک بہت بڑی یو نیورٹی قائم تھی۔

چندرگپ نے اس موقع کو غنیمت سمھا اور حصول تعلیم کے لیے اس جگہ کا انتخاب کیا۔ کچھ عرصہ ہی تو اس نے عام شہری کی طرح زندگی برکی اوراپنی تعلیم پر مرکوز کی لیکن اس دوران چندرگپت کی ملاقات ایک ہندو برہمن، جس کا نام کو تلیہ چانکیہ تھا، سے ہوئی ۔کوتلیہ ٹیکسلا یو نیورسٹی کے ایک مایہ از استاد اور لائق و ہوشیار عالم سمجھے جاتے تھے۔ وہ کو حالیہ جس کو ہندوستانی ارسطو کا لقب دیا جاتا ہے، کی ایک ہی نظر نے بھانپ لیا کہ شاہی خاندان کا سپوت با صلاحیت اور با ہمت ہے اور چندر میت اس قابل ہے کہ تباہ حال ملک کو اور پریشان قوم جو آپس کی سیاسی بد نظمی اور یونانی حملوں سے بھری ہوئی ہے، کو جمع کر سکتا ہے۔ کیونکہ کو تلیہ خود اس قابل نہیں تھا کہ وہ کوئی فوجی یا شاہی منصب سنبھال سکتا۔ کوتلیہ کے اندر علمی صلاحیت، سیاسی سوچ ، علاقائی طرز کی فکر اس کے دل و دماغ پر ہر وقت اثر انداز ہوتی رہتی لیکن اس کی جسمانی حالت یہ تھی کہ وہ ٹانگوں سے معذور تھا۔ میڑھی ٹانگوں کی وجہ سے چلنے پھرنے سے قاصر تھا۔ اس لیے اس کی سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جس طرح کی قیادت کی ضرورت تھی، وہ با صلاحیت نوجوان چندر گپت میں نظر آئیں جس کی کو تعلیہ کو ضرورت تھی۔

اپنی سوچ کو مد نظر رکھتے ہوئے کو تلیہ نے دوران تعلیم چندر گپت کی بالکل اسی طرح فوجی اور عملی تربیت کی جس طرح ارسطو نے سکندر کی تربیت کی تھی۔ یہ چندر گپت کی خوش نصیبی تھی کہ اس کو کو تعلیہ جیسا لائق و ہوشیار عالم و مشیر مل گیا تھا۔ چندر گپت کو استاد کے مشوروں اور عملی تربیت کی مدد سے تخت و تاج ملا اور مغربی ہندوستان کے ایک وسیع علاقے پر اپنی سلطنت قائم کی۔ اس کے علاوہ جب چندر گپت ٹیکسلا یو نیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہا تھا تو اس دوران ۳۲۶ ق م میں سکندر اعظم ہندوستان میں وارد ہوا۔ یہ یونانی بادشاہ اپنی فوج کے ہمراہ ایک ماہ تک راجہ اسبھی کے ہاں ٹیکسلا میں رہا تو چندر گپت کو سکندر سے ملنے کا صرف موقع ہی نہیں ملا بلکہ اس نے یونانی فوج کی قوت اور صلاحیت کا بغور جائزہ بھی لیا۔ اس وقت سے اس کے دل اور دماغ میں جذبہ اور حسرت کی پیدا ہو گئی اس غیر ملکی حملہ آور کے رویے سے کہ وہ کس طرح بے دھڑک ہندوستان کو اپنے پیروں تلے روند رہا ہے۔ بالآخر چندر گپت نے مادر وطن کی حفاظت کو اپنا معمول بنا لیا اور انہی جذبوں کی بدولت اس نے ایک وسیع سلطنت کی بنیا د رکھی ۔

 

 نوٹ: یہ مضمون ملک محمد شفیع کی کتاب (قدیم تاریخ تھل اور روڑاں کے آثارِقدیمہ) سے لیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com