تھل:وادی سندھ کے قدیم مقام
ہر پہ اور موہنجو دڑو یہ ایسے مقامات ہیں جنہیں وادی سندھ کے ان قدیم آباد شہروں میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ یہ تہذیب وادی سندھ کے اہم ترین مقامات ہیں جن کا واضح ثبوت ان مقامات سے ملنے والے آثار قدیمہ کے نمونے ہیں یہ دونوں شہر اول ذکر دریائے سندھ کے کنارے صوبہ سندھ کے شہر کے مقام جبکہ موخر الذکر اس کے ۴۰۰ میل شمال مشرق میں دریائے رادی کی پرانی گزرگاہ کے مغربی کنارے صوبہ پنجاب کے شہر ساہوال کے قریب واقع ہے۔ یہ دونوں شہر ایک منصوبہ بندی کے تحت تعمیر کیے گئے تھے اور یہ تین تین میل کے رقبے پر پھیلے ہوئے تھے۔ جبکہ موہنجوداڑو ایک اونچے ٹیلے پر ایک قلعہ نما جومستطیل بلاکوں سے بنی شطرنج کی بساط جیسے پلان پر بنایا گیا اور جس کی اونچائی ۵۰فٹ تک تھی۔ اس شہر کو پختہ اینٹوں اور ٹھوس میناروں کے ذریعے سے مضبوط کیا گیا تھا جبکہ ہڑپہ کی بھی تعمیرات پختہ اینٹوں سے کی گئی تھی جو ۴ / ۱۲ انچ لمبائی چوڑائی اور ۱۲انچ موٹائی میں تھی جن کو خود میں نے بھی ہڑپہ جا کر دیکھا تھا۔
یہ شہر کیونکر تباہ ہوا اور کون لوگ ان کی بربادی کا سبب بنے آیہ سب کچھ پہلے بیان ہو چکا ہے۔ بہت سارے مورخین نے ان حالات کو وضاحت سے تحریر کیا ہے اور ہم صرف ان مقامات سے حاصل ہونے والی تحقیق اور اجرا کردہ اعداد وشمار پیش کر کے تہذیب وادی سندھ کی ارتقائی عمر کا اندازہ لگانے کی کوشش کریں گے۔ حالیہ برسوں تک سندھ کی تہذیب کے عہد کا تعین اور معلومات مکمل طور پر مغربی ایشیاء بالخصوص میر اور کار کے ساتھ رابطوں پر مبنی تھی جن کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔ میسو پوٹیمیا تک کے علاقوں میں تحقیق سے جو تاریخیں اخذ ، وئی ان کے مطابق ۲۳۷۰ ق م عبد سرگون سے لے کر ۷۰۰ اقم جاتا ہے جبکہ ایک دوسری تحقیق جو ۱۹۴۶ء چینی سلونیہ میں کی گئی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرگون کا عبد ۲۵۰۰ سال قبل مسیح تک جاتا ہے جبکہ وادی سندھ کے ان مقامات کی جو تحقیق ریڈیو کاربن یا کار بین ۱۴ کے ذریعے چینی سلونیہ اور بیٹی کی ٹانا انسٹی ٹیوٹ آف فنڈا مینٹل ریسرچ میں کی گئی ان کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
نمبر1: کوٹ ڈیجی تمدن کی سب سے نیچے کی تہہ کے نمونوں کے اعداد و شمار ۲۶۰۵ ق م تا ۲۴۱۷ ق م –
نمبر2: ہر پر والی تہہ ۲۱۰۰ ق م تا ۱۹۷۵ ق م کالی لگن
نمبر3: ہر پر تمدن کے بعد ۱۹۱۰ ق م تا ۷۹۰ اقدام جبکہ ایک درمیانی شبه ۱۹۲۰ تا ۱۹۳۰ ق م
نمبر4: موہنجوڈرو کے مقام سے جو جل کر کوئلہ کی طرح اناج کے دانے جو بہت عرصہ ہوا پائے گئے تھے جنہیں ایک دیرینہ تہہ سے برآمد کیا گیا، ان کو ۶۵۰ ا ق م تا ۲۰ ۷ اق م بتایا گیا۔
نمبر5: لو تھل ہر پہ والے دور ( لوتھل اے) ایک سے چار دور کے نمونے ۲۰۰۰ تا ۲۰۱۰ ق م جبکہ دور چارا سے ۱۸۹۵ تا ۹۰ ۷ اق م قرار پائی ہیں۔ ہاں یادر ہے کہ ان ریڈیو کاربن تاریخوں کی اہمیت کا اندازہ لگاتے وقت غلطی کے کچھ ذرائع کو یاد رکھنا ہوگا۔ ان میں غلطی کا عنصر موجود ہے کیونکہ تمام شہروں کے جو نام اور اعدادو شمار بیان کیے ہیں، یہ تمام کے تمام انگریز مورخین کے اجرا کردہ رپوٹوں سے حاصل کیے ہوئے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک بھی مقام کا نام مقامی زبان یا تاریخ کے حوالے سے نہیں ملا۔ اس لیے ہماری مجبوری ہے کہ ہم نے ان کو ہی صحیح مانتا ہے۔ سرمورٹیمر وہیلر کی کتاب وادی سندھ اور تہذیبیں صفحہ نمبر اے تا ۷۴ سے حوالہ دیا گیا ہے۔
ان تمام شواہد سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان تمام رپوٹوں کے مطابق تو دادی سندھ کی تہذیب کا ارتقائی دور ۲۰۰۰ سے ۲۵۰۰ سال قبل مسیح ہے لیکن ٹیکسلا کی کھدائی کے دوران سرجان مارشل نے وادی سندھ کی تہذیب کے ارتقائی زمانے میں مزید ۲۰۰۰ سالوں کا اضافہ کر دیا ہے۔ اس طرح ہمارے اس نظریے کو اہمیت ملتی ہے جس میں ہم نے وادی سندھ کی تہذیب کے ارتقاء کا زمانه ۵۰۰۰/۴۰۰۰ سال قبل مسیح قرار دیا ہے۔
نوٹ: یہ مضمون ملک محمد شفیع کی کتاب (قدیم تاریخ تھل) سے لیا گیا ہے۔