منکیر و مغربی پنجاب کے علاقوں میں اہم مقام رکھتا ہے کیونکہ یہ ریاست کا صدر مقام ہونے کے ساتھ ساتھ یہاں ایک قدیم قلعہ ہے جو وسیع رقبہ پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ تقریباً چھٹی صدی عیسوی گیت عہد حکومت میں تعمیر ہوا۔ ۱۹۰۰ء صدی عیسوی تک کئی سرداروں اور حکمرانوں کا مسکن رہا لیکن ۲۰ ویں صدی عیسوی کے شروع میں انگریز دور میں اس کی ریاستی حیثیت ختم کر دی گئی۔ ہم پہلے بھی قدیم تھل کی ریاست سیتھیا کا ذکر کر چکے ہیں جو ہنوں کے حملوں کی وجہ سے افراتفری کا شکار ہو گئی تھی۔ مزید گپت خاندان کے نرسمجھ گپت اور سدر گپت کمار گپت کے تمام مغربی ہند پرقبضہ اور کنٹرول کی وجہ سے تھل میں ایک نئی ریاست کا قیام عمل میں آتا دیکھائی دیتا ہے جس کا صدر مقام روڑاں ( متگر ) کے بجائے اس کے شمال میں ۲۰/۱۸ میل کے فاصلے پر آباد ہونے والا نیا شہر منکیر ہ تھا۔ ممکن ہے کہ اس شہر کا قدیم نام کوئی اور ہو۔
” تاریخ ریاست منکیرہ کے مصنف دوست محمد کھوکھر کا بیان جو قابل بھروسہ تو نہیں ہے کہ ملوئی قوم کے ایک راجہ جس کا نام وہ را جیل تحریر کرتے ہیں، نے نتھل کے علاقے پر گیت خاندان کے عہد حکومت میں ایک چھوٹی سیال کھٹری کھیرہ نام کی حکومت قائم کی جس کے صدر مقام کا نام بھی مل کھیر کوٹ تھا۔ جبکہ ایک دوسری عام مقامی روایت ملتی ہے کہ منکیرہ جس مقام پر آباد ہے، یہاں پہلے ایک جھیل ہوا کرتی تھی جس کے دونوں اطراف میں ریت کے ٹیلے تھے اور گرمیوں کے موسم میں اس جھیل میں ٹیلوں سے ریت گرتی رہتی تھی ، اس لیے اس مقام پر آبادی کا نام بھی اس حجبیل کے نام منکری سے منسوب تھاجو بعد میں منکیرہ مشہور ہو گیا۔ یا پھرمل کھیڑا ریاست کے نام سے منسوب یہ ہر آباد ہو جو بعد میں مل کھیڑا ملکھیر، ا نکھیڑا اور پھر منکیرہ مشہور ہوا۔ – منکیرہ نام سے متعلق تمام تر بیان زبانی یا تاریخ منکیرہ کے مصنف جو نا قابل بھروسا ہے، سے استفادہ کیا گیا ہے۔ لیکن مورخ یعقوبی اور بلاذری، جو عرب سپہ سالار محمد بن قاسم کے ہمراہ ہندوستان آئے تھے، کا کہنا ہے کہ ملتان کے شمال میں واقع تھل کا علاقہ خوشاب تک چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹا ہوا تھا اوران تمام ریاستوں پر ہندو راجے حکمران تھے۔ ان میں کچھ حاکم ملتان کے تحت اور کچھ خود مختیار تھے جبکہ خود صوبہ ملتان سندھ کے طاقتور حاکم راجہ داہر کے ماتحت تھا۔ اسلامی فوجوں کی آمد سے قبل تھل چار یا پانچ ریاستوں میں تقسیم تھا۔
شمال میں خوشاب یا چنیوٹ، جنوب میں اوچ ، دریائے سندھ کے مشرقی کناروں کے ساتھ ساتھ ریاست کروڑ قدیم نام کبیر کوٹ جبکہ چوتھی صدی کا بر بریان اور وسطی تھل کی ریاست مل کھیڑا موجودہ نام منکیرہ ۔ ریاست کروڈ پر لیا نا کا ہندو برہمن راجہ عمران تھاجس نے یہ شہر کو آباد کیا جبکہ وسطی ریاست پر تل کھیڑا نا کا راجہ حاکم تو عرب تاریخ دان یعقوبی صفحہ ۲۵۶ اور تاریخ سندھ کے مصنف مولانا عبدالحکیم صفحہ ۵۶ کے مطابق اسلامی افواج ۷۱۲ تک پورے تھل پر قابض ہو چکی تھیں۔ تمام علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد محمد بن قاسم نے اپنے گورنر مقرر کیے جن میں ملتان کے شمال کے علاقہ کا گورنر احمد بن خزیمہ بن عبتہ کو مقرر کیا جس نے منکیرہ ہی میں ۷۱۵ء کو وفات پائی اور یہاں دفن ہوا۔ اس کا مزار قلعہ منکیرہ کے مغربی کو نہ میں اب بھی موجود ہے۔ ایک عرصہ کے بعد جب اسلامی سلطنت شام کے حالات اندرونی خلفشار اور جنگ وجدل کی وجہ سے بگڑی اور کمزور ہوئی تو 9 ویں صدی عیسوی کے اول میں قنوج کے راجہ نے تمام علاقہ پھل اور مغربی ہندوستان پر قبضہ کر لیا۔
فخر مدیر مبارک شاہ اپنی کتاب ” آداب الحرب والشجاعت“ میں تحریر کرتے ہیں کہ قنوج کے راجہ جس کا نام مندر پال تھا، ۳۷۵ سے ۱۹۸۶ء تک حکمران تھا۔ یہ راجہ قنوج کے طاقتور بھٹی راجپوت خاندان سے تھا۔ اس نے دریائے سندھ کی وادی تک اکثر علاقے یعنی ہندوستان کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیا جبکہ قدیم تاریخ ہند کے مصنف وی اے سمتھ صفحہ نمبر ۴۷۰ باب ۱۵ میں بیان کرتا ہے کہ ۱۰ ویں صدی عیسوی کے آخر میں دوبارہ اسلامی فوج جو پہلے کی نسبت کثیر تعداد میں تھی پہنچ گئی۔ یہ فوج سبکتگین کی سر براہی میں ہندوستان پر حملہ آور ہوئی تو اس وقت مغربی ہند پنجاب کے علاقہ اور تھل پر قنوج کے راجہ وجے پال حکمران تھا۔ ایک دوسرے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ امیر غزنوی سبکتگین نے جب مغربی ہند اور پنجاب پر حملہ کیا تو اس وقت ریاست منکیرہ پر میکن اقوام کے لوگ حکمران تھے۔ اس قوم کے کسی بادشاہ کا نام معلوم نہیں۔ میکن قوم ایک لمبے عرصہ تک تھل کے علاقوں پر حکمران رہی۔ اس نے ۱۲۶۵ء کے قریب غیاث الدین بلبن کے دور میں بابا فرید گنج شکر کے ہاتھوں اسلام قبول کیا جبکہ اس کے آخری دور کے سردار نواب بہاؤ خان کا نام سامنے آتا ہے۔ اس کے بعد ایک طویل عرصہ تک ریاست منکیر و اور تھل کے متعلق کوئی بھی معلومات نہیں تمہیں۔
۱۶ ویں صدی عیسوی میں مغل بادشاہ ہمایوں کے دور میں چاکر خان رند کے خاندان کے ایک سردار یا صا حبزادے میررند خان نے نواب غازی خان کو منکیرہ اور بھکر کی حکومت عطا کی۔
رندخان کی وفات کے بعد اس کے چھوٹے بھائی میر داؤد خان نے اس علاقے پر قبضہ کر لیا جو کچھ سالوں تک برقرار با مگر میرمحمد داؤ ایک بہادر نو جوان تھا۔ اس لیے ڈیرہ اسماعیل خان کے ہوت حکمران اور ڈیرہ غازی خان کے میرانی نواب اس کے خلاف ہو گئے ۔ جب وہ داؤد خان کو قابو میں نہ لاسکے تو انہوں نے متفقہ مغل بادشاہ اکبر سے داؤد خان کی سرکوبی کے لیے امداد کی درخواست کی جس پر عمل کرتے ہوئے شاہی لشکر نے داؤد خان پر حملہ کر دیا۔ اس جنگ میں داؤد خان مارا گیا۔ میر داؤد خان نے ہی میرانی اور بوت سرداروں سے ناچاقی کے دوران قلعہ منکیرہ کو اپنا مسکن بنالیا تھا۔ اس نے اس مقصد کے لیے قلعے کی مرمت اور اس کو وسیع بھی کیا۔ ۱۸ ویں صدی عیسوی کے اختتام تک بلوچ قوم کے کئی سردار ریاست منکیرہ پر قابض رہے اس لیے یہ قلعہ کبھی قلعہ بلوچاں کے نام سے بھی مشہور رہا۔ آخری بلوچ نواب محمد خان سدوز کی ۱۷۸۰ء تک ریاست منکیرہ کا حکمران رہا۔ اسی دوران نواب مظفر خان والی و ملتان نے تیمور شاہ درانی کے حکم پر ۱۷۹۳ء میں عبدالنبی کلہوڑا کو تھل کے علاقے کا حکمران بنادیا جو بیک وقت منکیرہ
اور لیہ کے علاقوں پر قابض رہا۔ جب تیمورشاہ کی وفات کے بعد زمان شاہ درانی افغانستان کا بادشاہ بنا تو نواب مظفر خان نے منکیرہ بھکر اور لیہ کے علاقوں پر حمد خان سروزی المعروف نواب سر بلند خان کو حاکم بنایا اور عبدالنبی کلہوڑا کو بے دخل کر دیا۔ سکھوں کے حملہ ۱۸۰۵ ء تک ریاست منکیره پر نواب سر بلند خان حکمران رہا۔
نواب سر بلند خان کی وفات کے بعد نواب کے نواسے اپنے والد حافظ احمد خان کی سر پرستی میں منکیرہ اور ڈیرہ اسماعیل خان کا حکمران مقرر ہوا کیونکہ نواب سر بلند خان اولاد نرینہ سے مردم تھا۔ اس لیے نواب شیر محمد خانکو ولی عہد بنایا گیا جونواب صاحب کا نواسہ تھا۔ رنجیت سنگھ نے جب پنجاب پر حملہ کیا تو ریاست منکیرہ بھی سکھوں کے حملے سے نہ بچ سکی اور رنجیت سنگھ نے بالآخر نواب خاندان کو شکست دے کر منکیرہ پر قابض ہو گیا۔
پٹی بلنده:
پٹی بلند تحصیل منکیرہ اور ضلع بھکر کا قدیمی قصبہ ہے۔ یہ قصبہ روڑاں کے شمال مغرب میں دس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس کی اچھی خاصی آبادی ہے۔ پٹی باندہ نام کی وجہ تسمیہ جو زیادہ تر مشہور ہے وہ یہ کہ یہ علاقہ ایک بہت بڑی میدانی پٹی تھا اور بارش کے پانی سے یہاں گھاس اور پانی سارا سال دستیاب رہتا تھا۔ نواب محمد خان سدوئی زئی عرف نواب سر بلند خان کے دور میں یہ میدانی پٹی نواب کے گھوڑوں کی چراگاہ تھی جس کی وجہ سے یہ پٹی سر بلند خان کے نام سے منسوب ہو گئی تھی۔ بعد ازاں یہ پٹی بلند خان اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ نام تبدیل ہوا اور پٹی بلندہ کے نام سے مشہور ہو گئی۔ اگر ہم اس کی قدامت اور تاریخ کو دیکھیں تو اس موجودہ قصبہ کے جنوب مشرق میں ۳/۲ کلو میٹر فاصلے پر قدیم آبادی کے آثار اور نشانات پائے جاتے ہیں۔ یہ کھنڈرات تقریباً ایک کلومیٹر کے علاقہ پر پھیلے ہوئے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پر اچھی خاصی آبادی تھی۔ یہاں سے جو سکے ملتے ہیں یا ملے ہیں، ان سے واضح ہوتا ہے کہ اس آبادی کا تعلق ہندو شاہی دور یا اس سے پہلے گپت خاندان کے بادشاہ سکندر گیت اور سمدر گیت جن کا زمانہ چھٹی صدی عیسوی سے ساتویں صدی عیسوں تک تھا۔ قدیم پٹی بلندہ کے کھنڈرات سے معلوم ایسا ہوتا ہے کہ اس مقام پر ۸ ویں صدی عیسوی تک لوگ آباد رہے پھر بیرونی حملہ آوروں کے خوف سے یہ نقل مکانی کر کے منکیرہ کے مقام پر چلے گئے۔ اسلامی افواج جو محمد بن قاسم کی کمان میں مغربی ہندوستان پر حملہ آور ہوئیں تو ان کے ساتھ کچھ عرب مورخ بھی تھے۔ ان میں سے دو ناموں کا ذکر ہم پہلے کر چکے ہیں۔
ان میں سے ایک یعقوبی تھا جو اپنی تحریر” نامی کتاب کے صفحہ ۲۵۶ پر لکھتا ہے کہ ملتان کے شمال میں پورے تھل کا علاقہ خوشاب تک ۳/۴ ریاستوں میں بنا ہوا تھا جن پر تمام تر ہندو راجے حکمران تھے جو سندھ کے راجہ داہر کے ماتحت تھے۔ اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پٹی بلندہ کے مقام پر آبادی جس میں اکثریت ہندو تھی، وہ مسلم حملہ آوروں کے خوف یا ان کی وجہ سے نقل مکانی کر کے شمال میں ۱۵ کلو میٹر کے فاصلے پر آباد مرکزی شہر منکیرہ منتقل ہو گئی۔ ان کھنڈرات سے ملنے والے آثار قدیمہ کے نمونوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ تمام تر آبادی اور حکومت ہندو مذہب سے تعلق رکھتی تھی۔
قلوه حیدر آباد تحل:
یہ قلعہ ریاست اموانی“ کا صدر مقام تھا۔ منکیرہ سے مشرق کی طرف تقریباً ۱۲ میل کے فاصلے پر مین تریموں گھاٹ کے راستے پر واقع تھا۔ کچھ روایات کے مطابق یہ قلعہ اموانی میکن قوم کے ایک سردار نے 990ء میں تعمیر کروایا لیکن ایک دوسری روایت سے پتہ چلتا ہے کہ یہ قلعہ بلوچ خاندان کے ہوت قبیلہ جو ڈیرہ اسماعیل خان میں حکمران تھا، نے تعمیر کروایا ۔ جلال الدین محمد اکبر مغل بادشاہ کے دور میں محمد اسماعیل خان ہوت نے اپنے ایک بیٹے یا کسی قریبی رشتہ دار کو بطور جاگیر عطا کیا تھا جبکہ ایک بیان یہ بھی پڑھنے کو ملتا ہے کہ ہوت و میرانی بلوچ کے اتحاد نے جسکانی بلوچ نواب محمد خان سے ناراضگی کے بعد حیدر خان ہوت کو ایک حفاظتی چو کی تعمیر کرنے کا حکم دیا جس پر انہوں نے اپنے نام پر قلعہ حیدر آباد تعمیر و آباد کیا جو بعد میں حیدر آباد تھل کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ قلعہ پتہ اینٹوں سے تعمیر کیا گیا تھا۔ قلعہ قدیم پانچ ایکڑ رقبہ پر محیط ہے۔ اب اس قلعہ کی حالت خراب ہو چکی ہے۔ کسی زمانے میں اس کی رونق پورے آب و تاب میں ہوا کرتی تھی ۔ اس قلعہ کا دروازہ مغرب کی طرف کھلتا تھا۔ اس کی چار دیواری کے ساتھ تین تین برنج تھے جو قلعے کی حفاظت کے لیے بنائے گئے تھے۔ قلعے کے اندر ایک پانی کا کنواں بھی تھا جو پانی کی اندرونی ضرورت پوری کرتا تھا جبکہ قلعہ کے باہر چاروں طرف کنویں تھے جو خندق کو پانی سے بھرنے کے لیے مد د یتے تھے۔ اس وقت قلعہ حیدر آباد تھل کھنڈرات اور ڈھیر کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
انگریزوں کے دور میں اس کی پختہ اینٹیں اتار کر بھنگ نا بھکر سڑک کو پختہ کرنے کے لیے سونگ تعمیر کیا گیا۔
لیہ ( قدیم نام لیہہ ):
لیہ جنوبی وسطی پنجاب کا ایک ضلع ہیڈ کوارٹر ہے اور تھل کا مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ ایک قدیم شہر بھی ہے۔ لیہ کے ساتھ بہت ساری قدیم تہذیب و ثقافت کا تعلق جوڑا جاتا ہے۔ اس سے متعلق بہت ساری تاریخی روایات بھی دیکھنے کوملتی ہیں جو یہ شہر کی آبادی اور نام کی وجہ تسمیہ کے بارے میں تحریر کی گئی ہیں۔ ان میں ایک بیان جو جدید تاریخ لیہ کے مصنف نے تحریر کیا ہے کہ لیہ شہر جس جگہ کو بیان کیا گیا ہے یہاں "لیاں کافی تعداد میں اگی ہوئی تھیں ، یعنی لیاں کا جنگل ، جس کو کاٹ کر لیہ شہر آباد کیا گیا تھا۔ ایک دوسری روایت جو بلوچ قوم اور ان کی تاریخ“ کی کتاب صفحہ نمبر ۳۶۲ پر رقم ہے کہ نواب غازی خان دوئم میرانی کے چار بیٹے تھے۔ ہر ایک بیٹے نے اپنے نام کا ایک شہر آباد کیا۔ ان میں ایک کمال خان میرانی جس نے ایک شہر دریائے سندھ کے مشرق کنارے شہر آباد کیا۔ یہ شہر کوٹ کمالیہ کے نام سے مشہور ہوا۔ کچھ عرصہ بعد یہ شہر ” کمالیہ اور مابعد صرف کلیہ مشہور ہو گیا۔
اس کے علاوہ اور بہت ساری زبانی روایت ملتی ہیں جن سے لیہ شہر کو منسوب کیا جاتا ہے مگر ان ساری تاریخی تحریری یا زبانی شہادتوں میں حقیقت بہت کم پائی جاتی ہے۔ ایک تیسری تاریخی شہادت جو خاصی قدیم تحریروں میں پائی گئی ہے اور اس میں حقیقت کا پہلو بھی نمایاں طور پر نظر آتا ہے وہ قدیم تاریخ ہند وی اے سمتھ کی کتاب باب ۱۴ صفحہ نمبر ۴۶۲ جس میں مصنف نے تحریر کیا ہے کہ ہندو شاہیہ خاندان کا ایک برہمن حللہبیا راجہ بیچ کے ملتان، کروڑ ، خوشاب پھل پر حملہ آور ہوا اور ۷ ویں صدی عیسوی ۶۳۰-۴۰ کے بعد تھل دریائے سندھ کے مشرقی خطہ میں برسر اقتدار آیا۔ خود بیچ بھی ہندو برہمن خاندان سے تھا۔ چینی سیاہ ہون سانگ جو ساتویں صدی عیسوی کے وسط میں ہندوستان آیا ، کا کہنا ہے کہ دریائے سندھ کا تکونی علاقہ سندھ کی سلطنت کا ایک صوبہ ہے جس پر ہندو برہمن قابض ہیں ۔ سیاح اس علاقے کو او۔ تین ۔ پو۔ چی ۔ لو“ کا نام دیتا ہے جبکہ تاریخ سندھ میں بحوالہ چچ نامہ قلمی کے لکھا ہے کہ ۶۲۷ء کے قریب راجہ بیچ نے ملتان پر حملہ کیا تو ملتان کا حاکم اعلیٰ مع اپنے اہل وعیال کسی نا معلوم مقام کی طرف بھاگ گیا جس کے بعد ملتان پر بیچ کا قبضہ ہو گیا۔
وہاں اس نے ایک ٹھا کر کونگران مقرر کیا اور خود کروڑ اور برہما پور، دریائے سندھ کی تکونی ریاست اور علاقے کر مطیع اور فتح کیا۔ ان میں قدیم تھل کی اہم ریاست کروڑ بھی شامل تھی۔ ممکن ہے اس ریاست کا صدر مقام بھی کروڑ شہر ہی ہو ۔ اسے بھی فتح کرنے کے بعد راجہ پیچ نے یہاں ایک برہمن "للیا” کو حاکم مقر رکیا جس نے بعد میں دریائے سندھ کے مشرقی کنارے ایک شہر کی بنیاد رکھی جو کہ اس راجہ کے نام سے للہیا” سے منسوب تھا۔ بعد میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتا ہوا آج لیہ مشہور ہے۔
لیہ شہر تقریبا ساتویں صدی عیسوی کے آخر میں آباد ہوا کیونکہ ۸ ویں صدی کے شروع تک بیچ خاندان بر سر اقتدار رہا۔ لیا اور اس کا خاندان عربوں کی آمد تک اس علاقے پر حاکم رہا۔ وی اے سمتھ نے اپنی کتاب قدیم تاریخ ہند میں للیا برہمن کو ہندوشاہی خاندان کا ایک فرد لکھا ہے اور للہیا بر من کا حملہ مغربی پنجاب پر 9 ویں صدی عیسوی میں تحریر کیا ہے۔ مصنف مزید تحریر کرتا ہے کہ لیبیا کا خاندان ، اویں صدی عیسوی یک حکمران رہا۔ اس یورپی مورخ نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ دریائے سندھ کے کنارے للہیا برہمن نے اپنے نام سے منسوب ایک شہر تعمیر کرایا اور اس خاندان کا خاتمہ بھی مسلمان حملہ آوروں نے کیا۔ سنگین امیر غزنوی او محمود غزنوی کی فوج کے ہاتھوں ان ہندور یاستوں کا خاتمہ ہوا۔ ا اویں صدی عیسوی میں لیہ کروڑ مسلمان حکمرانوں کے قبضہ میں رہا۔ کبھی ملتان کے سروز کی نواب حکمران ہوئے تو کبھی ڈیرہ غازی خان کے میرانی اور بھی جسکانی بلوچ سردار اس علاقے پر حکمران رہے۔ تھل کا آخری مضبوط قلعہ منکیر جس کا آخری حکمران نواب سر بلند خان سدوز کی تھا، ۷ اویں صدی تک حکمران علاقہ چھین کر برصغیر میں شامل کر لیا۔ رہا اور آخر کا رنجیت سنگھ نے اس علاقے پر قبضہ کر لیا۔ سکھوں کے بعد انگریزوں نے ان سے یہ علاقہ چھین کر برصغیر میں شامل کر دیا گیا۔
کروڑ لعل عیسن :
قدیم لفظ کرد ر اور جدید شہر کروڑ لعل عیسن دریائے سندھ کے مشرقی کنارے واقع ہے۔ جبکہ تھل کے مغربی کنارے وادی سندھ کے قدیم شہروں میں کروڑ کو ایک حیثیت اور اہم مقام حاصل ہے۔ اس کو ہر دور میں با قاعدہ ایک تاریخی اور سیاسی حیثیت حاصل رہی ۔ کبھی تجارتی بندرگاہ تو کبھی ریاست کا صدر مقام یعنی ہر دور میں یہ شہر رونق ، آباد کاری اور تباہی و بربادی کے مناظر و مراحل سے گزرتا رہا۔ تھل کے تمام قدیم مقامات میں سے جن میں لیہ ، جو اس وقت ضلعی ہیڈ کوراٹر ہے، بھکر ہمشیر اور باقی جدید شہر چوک اعظم اور فتح پور، ان سب سے کروڑ زمانہ ماقبل تاریخ سے آباد چلا آرہا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ اس کا مقام مختلف ادوار میں تبدیل ہوتا رہا ہولیکن زیادہ فاصلہ کی دوری نہیں ہوئی ہوگی ۔ کروڑ کا سابقہ نام جو اکثر کتب میں تحریر ہے، وہ کرور ہے۔ ہندومت کی قدیم تحریر مہا بھارت میں مغربی ہندوستان کے علاقے میں ایک کو رو کشتر نام کی ریاست کا ذکر آیا ہے جبکہ جدید نام کروڑ ہے جو بہت تھوڑی تبدیلی کے ساتھ مشہور ہوا لعل عیسن کے اضافے سے کروڑ لعل عیسن پکارا جانے لگا۔
کروڑ کو حمل عیسن کا خطاب جناب حضرت شیخ محمد یوسف المعروف مخدوم لعل عیسن جو ۱۳ ربیع اول – ۹۵ ہجری اور ۱۵۴۲ء میں یہاں تشریف لائے ، اور ان کا مقبرہ بھی کروڑ شہر میں ہی ہے، کی نسبت سے یہ نام ملا۔ کروڑ کی قدیم تاریخ کے بارے میں ابھی تک کوئی واضح تحقیق سامنے نہیں آئی۔ صرف کچھ کتب میں بطور روایت یا واقعہ کے تحریر کیا گیا ہے۔ ان میں تاریخ سندھ ، قی نامہ بلوچ قوم اور اس کی تاریخ، البیرونی کی کتاب الہند ، جبکہ ایک قدیم تحریر پری پلس کے نام سے منسوب کتاب جو پہلی صدی عیسوی کے آخر میں لکھی گئی، میں ذکر ملتا ہے۔ اس کا مصنف دریائے سندھ کے کنارے ایک تجارتی بندرگاہ کے متعلق کہتا ہے کہ بر بر یکان نام کا یہ شہر ریاست سیتھیا کی تجارتی بندرگاہ ہے۔ پہلی صدی کے بعد یہ شہر کروز یا کروڑ کے نام سے منسوب ہوا اور ریاست کے صدر مقام کی حیثیت سے سامنے آیا ۔ وہاں ایک قدیم قلعہ بھی موجود ہے جس کے اب صرف آثار اور ٹوٹی پھوٹی دیوار میں نظر آتی ہیں کیونکہ جس طرح تھل کے دوسرے قدیم مقامات قلعہ منکیرہ حیدر آباد، بھکر ، خوشاب ویران ہو گا ہو کر اپنا تہذہبی وثائق اور تاریخی حیثیت کھو چکے ہیں ، اسی طرح کا حال کروڑ کا ہے۔
کچھ تو حکمہ آثار قدیمہ کی غفلت کی وجہ سے ان مقامات کا اصلی رنگ وروپ سامنے نہ آسکا اور کچھ غیرذمہ دار مصنفین اور تاریخ دانوں نے حقیقت کو بدل ڈالا اور ان کے ناموں کو اس طرح مسخ کر دیا کہ اب ان کی پہچان کرنا بھی مشکل ہو گئی ہے۔ جیسا کہ گرو اعل عیسن کو ایک سے زائد نام دے کر اس کی تاریخی حیثیت کو تبدیل کر دیا گیا۔ کروڑ کو کہیں دو پیال گڑھ، کہیں دیا پور اور کہیں کہیر کوٹ نام دیا گیا۔ حالانکہ تمام قدیم تاریخوں میں اس کا نام صرف کرور یا کروڑ رہا ہے۔ البیرونی نے بھی یہی نام دیا ہے جبکہ تاریخ سندھ اور پیچ نامہ میں بھی لفظ کرور آیا ہے اور آج تک کروڑ ہی پکارا جاتا ہے۔ کروڑ کسی زمانے میں اس علاقے کی ریاست کا صدر مقام تھا لیکن اب ضلع لیہ کی تحصیل ہے۔ ۱۹۵۵ء میں تھل کینال پروجیکٹ کے آنے سے کروڑ کے آس پاس کے علاقے چالیس میل تک آباد اور سیراب ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے تمام قدیمی مقام اور آثار قدیمہ کے نمونے غائب ہو گئے ہیں۔
کوٹ چوبارہ:
چوبارہ ضلع لیہ کی تیسری بڑی تحصیل ہے جو کہ تھل کے عین وسط میں واقع ہے۔ یعنی یہ صحرا میں گھرا ہوا قلعہ چو بارہ جو ایک چھوٹا سا کوٹ نما قلعہ تھا جواب بالکل منہدم ہو چکا ہے۔ اب اس گیا جو دوسرے لفظوں میں ایک حفاظتی چوکی تھی۔ مقام پر تھانہ چوبارہ کی عمارت تعمیر ہو چکی ہے۔ چوبارہ کے مقام پر ایک چھوٹے سائز کا قلعہ تعمیر کیا ایک روایت میں آتا ہے کہ حاکم ملتان سید خضر شاہ جو امیر تیمور کے قبضہ ہندوستان ۱۴۰۹ء میں امیر جمور کی طرف سے صوبہ ملتان کا حاکم مقرر کیا گیا، نے ان علاقوں میں حفاظتی چوکیاں تعمیر کروائی تھیں جن میں گڑھور، چوبارہ اور لیہ کے عارضی قلعے شامل تھے۔
دوسری روایت میں ہے کہ بھکر اور منکیرہ کے بلوچ سرداروں نے صوبہ ملتان کے حاکم کے ڈر سے یہ حفاظتی چوکیاں تعمیر کروائی تھیں جن میں چوبارہ، نواں کوٹ اور مہرنے والا کوٹ شامل ہے۔ میرے خیال کے مطابق کوٹ چوبارہ سید خضر شاہ حاکم مامتان نے تعمیر کروایا جبکہ نواں کوٹ کی چو کی منکیرہ کے بلوچ سرداروں نے تعمیر کرائی تھی۔ چوبارہ اور نواں کوٹ کے درمیان ۲۲ کلومیٹر کا فاصلہ حائل ہے۔ یہاں صوبہ ملتان کی عمل داری کو روکنے کے لیے بلوچ سرداروں نے نواں کوٹ میں ایک چھوٹا سا قلعہ تعمیر کروایا جہاں عارضی طور پر کچھ فوج رکھی جاتی تھی۔ جیسا کہ اب سرحدوں پر بارڈ رفورس رکھی جاتی ہے۔
نواں کوٹ:
نواں کوٹ ایک چھوٹا سا قلعہ نما کچی اینٹوں سے بنا ہوا تھا جس میں ۲ / ۳ برج جن کی اونچی تقریبا دس میٹر یعنی ۳۰ سے ۴۰ یا ۵۰ فٹ اونچائی، بنے تھے۔ ان برجوں میں پچاس فوجیوں کے رہنے کی جگہ تھی اور برجوں کو آپس میں حفاظتی دیوار سے بند کیا گیا تھا۔ یہی طریقہ چوبارہ قلعہ کا بھی تھا لیکن قلعہ چوبارہ سائز میں نواں کوٹ سے تھوڑا بڑا تھا۔ اور اس میں نواں کوٹ کی بجائے زیادہ فوج رہنے کی جگہ تھی۔ چوبارہ اور نواں کوٹ کے قلعے اب منہدم ہو چکے ہیں ۔ قلعہ چوبارہ کے آدھے رقبہ پر تھا نہ چوبارہ کی عمارت تعمیر ہو چکی ہے اور آدھے رقبہ پر لوگوں نے قبضہ کر کے گھر تعمیر کر لیے ۔ قلعہ نواں کوٹ کے مقام پر بھی مقامی زمیندار قوم مگسی نے قبضہ کر لیا ہے۔ قلعہ کی عمارت کو گرا کر گھر تعمیر کر لیے گئے ہیں۔ اسی طرح جیسے قلعہ منکیرہ کو منہدم کر کے لوگوں نے گھر تعمیر کر لیے ہیں، پورے تھل میں آثار قدیمہ کے ورثے کو برباد کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ کوئی بھی پوچھنے والا نہیں ہے ۔ ہمارے تاریخی مقامات ایک ایک کر کے صفحہ ہستی سے مٹتے جارہے ہیں۔ اس لیے ہم نے کوشش کی ہے کہ کسی حد تک ان تاریخی مقامات کی مکمل نہیں تو سرسری تاریخ قلم بند کریں۔ مہرے والا کوٹ : مہرے والا کوٹ ایک حفاظتی چوکی تھی جہاں چوبارہ ونواں کوٹ کی طرح حفاظتی اور مخبرفوج رہتی تھی۔
مہرے والا کوٹ موجودہ شہر فتح پور اور منکیرہ کے درمیان واقع تھا جہاں TDA کی وجہ سے زمین آباد ہوگئی تو چوبارہ نواں کوٹ کی طرح یہ کوٹ بھی کسانوں نے ویران کر دیے۔ جس مقام پر مہرے والا کوٹ موجود تھا، ۱۸۷۰ء میں یہ زمین ایک کسان کو الاٹ کر دی گئی جس کی وجہ سے یہ تاریخی ورثہ برباد ہو گیا۔ ان کوٹوں کے متعلق ہمیں جو تاریخی مواد ملتا ہے، ان میں دو طرح کی رائے پائی جاتی ہے۔ ایک تو یہ کہ یہ کوٹ امیر تیمور لنگ نے جب ہندوستان پر حملہ کیا تو ملتان اور اس کے آس پاس کے علاقوں پر سید خضر شاہ کو مقرر کیا اور یہ کوٹ بھی سید خضر شاہ نے تعمیر کروائے جبکہ دوسری روایت میں معلوم ہوتا ہے کہ میر داؤد خان رند بلوچ نے ڈیرہ اسماعیل خان ہوت سردار اور ڈیرہ غازی خان کے میرانی سرداروں سے اختلاف کی وجہ سے یہ کوٹ تعمیر کروائے۔ جو معلومات ہمارے پاس ہیں ان کے مطابق یہ کوٹ میر داؤدخان رند نے ہی تعمیر کروائے تھے۔
نوٹ: یہ مضمون ملک محمد شفیع کی کتاب (قدیم تاریخ تھل اور روڑاں کے آثارِقدیمہ) سے لیا گیا ہے۔