تھل

تھل:چندر گپت کی سلطنت (۳۲۶ ق م تا ۲۹۸ ق م)

۳۲۱  ق م میں جب مغربی ہند افراتفری کا شکار ہو چکا تھا اور مقامی قبائل نے یونانیوں کے خلاف بغاوت کر کے خود مختاری حاصل کر لی تھی۔ سکندر کی موت کے ساتھ ہی ان کی سلطنت کا شیرازہ بکھر چکا تھا۔ سکندر کے جرنیلوں نے سلطنت کے کئی حصے کر کے آپس میں بانٹ لیے تھے۔ کیونکہ اس وقت مغربی پنجاب گندھارا اور کوہ ہمالیہ کے جنوب میں واقع وسیع میدانی خطہ تھل مقامی قبائل کی خانہ جنگی کی وجہ سے سیاسی لحاظ سے دو چار ہو چکا تھا تو چندر گپت نے اس وقت مغربی پنجاب اور خاص کر گندھارا کی سیاسی صورت حال کا اندازہ کرتے ہوئے اپنی کوششیں تیز کر دیں ۔ وہ اس خلاکو پر کر رہا تھا جو مقامی ریاست اور تباہ حال قبائل کے تتر بتر ہونے اور یونانی فوج کا نو مفتوحہ ہندوستانی صوبوں پر سے عمل دخل ختم ہونے سے پیدا ہوا تھا۔ ۳۲۰ یا ۳۲۱ ق م کے دوران جنوبی گندھارا کے میدانی علاقے موجودہ تھل کی سیاسی صورتحال بگڑ چکی تھی۔ اس صوبے کے یونانی صوبیدار جنزل فلپس کو مقامی افراد نے قتل کر دیا تھا اور خود مختاری حاصل کر لی تھی۔ ساتھ ہی سکندر کی موت سے ہندوستانی علاقوں سے یونانیوں کا اثر زائل ہو چکا تھا۔ سب سے پہلے ہندوستان کے اس علاقے کے مقامی قبائل نے خود مختاری کا اعلان کیا جس صوبے کا گورنر فلوس کیا ۔ تھا۔ انہوں نے یونانی گورنر کو قتل کر کے خود مختاری حاصل کر لی اور یقینا یہ یودھیا جیوی قبائل تھے جو ریاست دو ایک تھل کے باسی تھے۔ شمال مغرب کے اکثر قبائل نے راجہ اسبھی سے بغاوت کر کے کہ انہوں نے ایک ظالم غیر مکی حملہ آور کی مدد کی ، اس وجہ سے علیحدگی اختیار کر لی اور ایک باوقار نوجوان قیادت چندر گپت موریہ کو اپنا سر براہ تسلیم کر لیا۔

وی اسے سمتھ نے ایک قدیم ہندی تحریر ناٹک کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ چندرا گپتا مالی مغربی سرحدی علاقوں کی جنگجو اقوام سے مل کر ایک طاقتور فوج جمع کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ لیکن ضرور اس کام میں اس کے استاد اور مشیر کو تلیہ کا بھی ہاتھ ہو گا۔ اس فوج کی مدد سے پہلے پہل تو چندر گپت نے غیر ملکی افواج کو ہلاک اور ملک بدر کر دیا۔ اس کام کے لیے چندر گپت نے گندھارا کے جنوبی خط کو اپنا مرکز بنایا اور ان جنگی سرداروں سے اتحاد قائم کیا جو ریاست و بیکا کے میدانی خطے میں آباد تھے۔ ہم پہلے باب میں یہ واضح کر چکے ہیں کہ محلہ تھل” کے مقامی را جاؤں نے یونانی فوج کے خلاف سب سے پہلے علم بغاوت بلند کیا تھا اور یونانی گورنر فلوس کو ہلاک دیا تھا۔ چندر گیت نے بھی انہی لوگوں سے اتحاد کیا کیونکہ کوئی ایسی شہادت نہیں ملتی جس سے یہ واضح ہو جائے که چندر گپت نے بھی کسی را جا یا بادشاہ سے اتحاد کا معاہدہ کیا ہو اور ان کو کسی بادشاہت پر فائز کیا گیا ہو۔ ہمیں اس بارے میں جو معلومات ملی ہیں ان سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ چندر گپت نے جب مغربی پنجاب کی سیاسی افراتفری اور غیر معتدل حالات اور روز افزوں بڑھتی ہوئی خانہ جنگی جبکہ ساتھ ہی یونانی فوج کی کمزوری جو سکندر کی موت کے وجہ سے پیدا ہوئی تھی۔

ہندوستان میں کسی مرکزی سیاسی قیادت کی غیر موجودگی ان تمام حالات کے پیش نظر عام زندگی سے نکل کر چندر گپت نے تقریباً ۳۲۲ ق م کے دوران عملی سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔ ضرور ایسا ہوا ہوگا کہ ریاست و بیکا کے صدر مقام میں کچھ عرصہ رہنے اور وہاں پر ایک فوج جمع کرنے کے ساتھ ساتھ ان مقامی سرداروں کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہوں گے۔ چندر گپت اس وقت تک جنوبی گندھارا تھل کے کسی ایسے مقام پر رہا جب تک اس نے تمام اقوام کو اپنی گرفت میں نہ لے لیا ہو گا۔ تقریبا ایک سال کا عرصہ جنوبی علاقوں میں گزار نے اور مقامی قبائل کی طرف سے ہر قسمی مالی و فوجی وسیاسی سپورٹ حاصل کرنے کے بعد چندر گپت نے ۱۸ س ق م کے آخر میں شمال کا رخ کیا۔ وہیکا تھل کے لوگوں کو جو سکندر کے حملے اور یونانی فوج کی قتل و غارت گری اور زخموں سے چور چور اپنی سیاسی اور فوجی طاقت کھو چکے تھے، کسی ایسی سیاسی قیادت کی اشد ضرورت تھی جو ان کی عزت وقار کو بحال کر سکے۔ ان مشکل حالات کے پیش نظر ان قبائل نے چندر گپت موریہ کو نجات دہندہ سمجھ کر اپنا بادشاہ تسلیم کر لیا۔ ایک اچھی خاصی فوج جمع کرنے اور کئی سرداروں کو اپنے ساتھ ملانے کے بعد اب چندر گپت کا اگلا سفر گندھارا کے دارالسلطنت ٹیکسلا پر قبضہ تھا کیونکہ اب کو علیہ کی بھی کوشش تھی کہ کسی طرح جنگ کے بغیر ہی ٹیکسلا چندر گپت کے قبضے میں آجائے۔ اسی دوران جب ٹیکسلا پر حملہ ہوا تو اس وقت کو تلیہ نے بڑا اہم کردار ادا کیا اور بغیر جنگ یا خون خرابے کے راجہ اسبھی کو اس بات پر راضی کیا کہ وہ اپنا تخت و تاج چندر گپت کے حوالے کر دے کیونکہ اس سے پہلے ابھی مقامی قبائل کا رویہ دیکھ چکا تھا کہ یونانی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنے اور ان کی سال قدم اطاعت گزاری کی وجہ سے عوام ان کے خلاف اٹھ چکی تھی ہر طرف بغاوت اور خود مختاری کی آوازیں آرہی تھیں ۔ ان حالات کے پیش نظر ا بھی نے آخر کار ۱۷ س ق م میں اپنی سلطنت چندر گپت کے حوالے کر دی۔

ٹیکسلاکو باقی ماندہ ہندوستان کی نسبت ایک خاص مقام اس لیے حاصل تھا کہ یہ مغربی دنیا اور حملہ آوروں کے راستے میں تھا۔ ہندوستان میں تمام تر بیرونی حملے کابل ، پشاور اور ٹیکسلا کے راستہ سے ہوتے۔ اس لیے سرحد چو کی اور مقام کی حیثیت رکھتا تھا۔ باقی ہندوستان کو محفوظ رکھنے کا بھی ٹیکسلا ہی ایک ذریعہ تھا۔ چندر گپت کا ٹیکسلا پر مکمل قبضہ اور کنٹرول حاصل کرنے اور با ضابطہ شاہی نظام حاصل کرنے کے بعد اس نے اپنے استاد کو تلیہ کو اپنا ایک سینئر وزیر و مشیر مقرر کیا۔ کوتلیہ کے گبری و پاس قانون ، دفاع ، اور امور داخلہ فوجی حکمت عملی کے محکمے تھے۔ چندر گپت اس کے علاوہ کو تالیہ کو کیسے کہ ہرا ہم اور ضروری معاملات میں بھی شریک کرتا بلکہ کوتلیہ کی ہی حکمت عملی اور مشوروں سے چندر کیا ، اللہ گپت اپنا ہدف یا سفر اختیار کرتے۔ جبکہ کچھ مورخین کا خیال ہے کہ کو حلیہ چندر گپت کے ساتھ اقتدار میں برابر کا شریک تھا۔ اگر ان دونوں کے درمیان حکومت مشتر کہ نہیں تھی تو پھر یہ بات یقینی ہے کہ و علیہ کوحکومت میں ایک اہم حیثیت حاصل تھی ۔ چندر گپت اپنا کوئی بھی قدم اپنے وزیر کوتلیہ چانکیہ کے مشورے کے بغیر نہیں اٹھاتا تھا۔ دراصل تاریخ میں ہر دور میں ایسا ہوتا ہے کہ حکومت کے اندر شہنشاہ کے علاوہ تقریباً کسی ایک فرد کو مرکزی اہم حیثیت حاصل ہوتی ۔ ۳۱۷ ق م تک ٹیکسلا پر مکمل کنٹرول اور قبضہ کرنے کے بعد چندر گپت موریہ کا وہ خواب جس کو وہ پورا کرنے کے کے لیے بے تاب تھا ، اس کی کوشش تھی کہ جتنا جلد ہو سکے ، وہ اپنے ملک پر قبضہ کرلے۔ انہی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے چندر گپت نے اپنی فوجی طاقت میں اضافہ کرنے کی کوشش شروع کر دی جس میں وہ کامیاب بھی ہو گیا۔ چندر گپت شمالی مغربی پنجاب کی جنگجو اقوام اور راجہ ابھی سے ورثہ میں ملنے والی فوج کے ہمراہ بد نام رشتہ داروں کی سلطنت مگدھ پر حملہ آور ہوا۔ وہ کامیاب ہوا اور فتح اس کی مقدر ٹھہری۔ مگدھ کے بادشاہ نے اپنا تخت چندر گپت کے حوالے کر دیا۔

اب مگدھ سے لے کر ٹیکسلا اور یائے سندھ تک اس کی حکومت تھی کیونکہ اس وقت تک راجہ پورس قتل یا بلاک ہو چکا تھا جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یونانی جنرل یوڈ یمس جو سکندر کی طرف سے پورس اور ابھی پر نگران تھا نے دھوکے سے پورس کوقتل کر دیا اور ہندوستان سے فرار ہو گیا۔ مدہ پر قبضہ اور چندر گپت کی فوجی طاقت و صلاحیت کو دیکھتے ہوئے مگدھ کی عوام اس نوجوان بادشاہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے بڑی تعداد میں اس کی فوج میں شامل ہو گئے جونند خاندان سے تنگ تھے۔ مگدھ پر قبضہ کے بعد وہاں سے ایک بڑی فوج چندر گپت کے ہاتھ آئی۔ ۳۰۵ ق م تک مغربی ہندوستان کے تمام علاقے ایک مرکزی حکومت میں آچکے تھے جہاں پہلے مختلف قبائل نے چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم کی ہوئی تھیں ۔ اب چندر گپت کے پاس اتنی طاقت موجود تھی کہ وہ کسی طرح کے بھی بیرونی خطوں کا مقابلہ کر سکتا تھا۔ اس دوران تقریبا ۳۰۵ یا ۳۰۴ قبل مسیح میں سکندر کے ایک جرنیل سائلو کس ٹیکسٹار نے اپنے پیش رو کے فاتحانہ راستے پر قدم بقدم چلتے ہوئے دریائے سندھ کو عبور کیا اور سلطنت گندھارا پر حملہ آور ہوا۔ یونانی کمانڈر کو یہ معلوم نہ تھا یا وہ اندازہ ہی نہ کر پایا کہ ہندوستان اب ایک عظیم شہنشاہت و سلطنت کے دھارے میں بدل چکا ہے اور هندوستانی بادشاہ ایک ایسی فوجی طاقت بن چکا ہے کہ جس کو شکست دینا صرف مشکل ہی نہیں بلکہ ممکن بھی تھا۔ چندر گپت کی فوجی صلاحیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے پاس ہزار جنگی ہاتھی، ۳۰ ہزار سوار ، ۲۰ ہزار پیادے اور ایک بڑی تعد اور تھوں کی بھی موجود تھی۔

یونانی فوج کو ایک سخت مقابلے کے بعد شکست سے دو چار ہونا پڑا۔ سائلوکس نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ چندر گپت سے امن معاہدہ کر لیا اور چندر گپت کی سلطنت کو تسلیم کر لیا گیا۔ ایک روایت میں یہاں تک کہا گیا ہے کہ دونوں بادشاہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے پر راضی ہوئے اور معاہدہ کے تحت یونانی جرنل نے اپنی بیٹی کا رشتہ چندر گپت کو دے دیا۔ اس کے بدلے میں چندر گپت نے تحہ کے طور پر ۵۰۰ ہاتھی سائکلوس کو دیے ۔ یونانی جرنل جب ہندوستان سے واپس ہوا تو اس نے دریائے سندھ کے مغرب میں مفتوحہ علاقے جن میں پیروینی، سڈنی، آریہ یا آرا کو سیه موجوده کابل، ہرات اور قد مارا شامل تھے ، چندر گپت کی سلطنت میں شامل کر دیے۔ مغربی مورخ میکا ستعمیر جس کو سائکلوکس نے اپنٹی کے طور پر چندر گپت کے دربار میں تھوڑا تھا، کا بیان ہے جو انہوں نے اپنی تحریر انڈیا میں دیا کہ یہ معاہدہ ۰۳ ۳ ق م میں ہوا۔

وہ بیان کرتے ہیں کہ ۳۰۱ ق م تک شالی مغربی ہندوستان ک از روئے تاریخ چندر گپت وہ پہلے وائسرائے یا شہنشاہ ہے جس کی سلطنت کی سرحدیں مشرق میں گنگا اور خلیج بنگال جنوب مغرب میں بحیرہ عرب سے ہوتی ہوئی کاہل ہرات، آرا کوسی تک پھیلی ہوئی تھی ۔ بقول میگا ستھیز چندر گپت دنیا کی ایک عظیم الشان سلطنت اور فوج کے مالک بن چکے ہیں۔ چندر گپت موریہ نے کل ۲۳ برس حکومت کی وہ ۲۹۸ ق م میں تخت و تاج سے دستبردار ہوا جبکہ ایک روایت کے مطابق اس کی طبعی موت واقع ہوئی تھی۔ اس کے بعد سلطنت کا وارث اس کا بیٹا بند و سار ہوا۔ چندر گپت کے بارے میں بہت کم تاریخی مواد دستیاب ہے بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ چندر گپت کے دور حکومت کے حوالے سے ایک اہم مغربی مورخ میگا تھنیز اس کے دربار میں بطور سفیر تھے ، اس کے نوٹس جن کو بعد میں ایک کتاب کی شکل دے کیا ملا دی گئی اور انڈیکا کے نام سے مشہور ہوئی۔

حالانکہ ان بیانات کے چند اجزا محفوظ رہ گئے ہیں۔ ان بیانات کو شوان بیک نے جمع کیا اور بعد از تی میگا ستھیز کے نام سے ایک کتاب کی شکل میں شائع کیا۔ جبکہ ۱۸۴۶ء میں اس کا ترجمہ میک کر نڈل نے کیا ان شنٹ انڈیکا ایز ڈس کر الیڈ بائی اور آرین نے اس کا ترجمہ ۱۸۷۷ء میں میگا تھینز اینڈ ایرین لندن ۱۸۷۷ء کے نام سے کیا۔ حالانکہ چندر گپت کے مشیر خاص او استاد کوتلیہ نے بھی ایک کتاب ارتھ شاستر کے نام سے لکھی جو صرف قانونی اور فوجی اصلاحات کے حوالے سے ہے۔ اس کتاب میں بھی چندر گپت موریہ کے تاریخی حوالے سے کسی قسم کی معلومات نہیں ملتی ۔ اس کو میں نے بڑی مشکل سے حاصل تو کر لیا لیکن به قدیم تاریخ تھل کے لیے مددگار نہیں ہو گی۔

ایک دوسری قدیم ہندی تحریر جسے ناٹک کے نام سے پکارا جاتا ہے، پانچویں صدی عیسوی میں مدارا کش نے لکھی تھی جس کا مطالعہ ہم نہیں کر سکے۔ اس میں بھی چندر گپت کے خاندانی اور سیاسی صورتحال پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

 

 

 

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com