روڑاں ضلع لیہ تحصیل چوبارہ یونین کونسل نواں کوٹ کا ایک قدیم قصبہ ہے جو صحرائے تھل کے عین وسط میں ضلع بھکر کی تحصیل منکیرہ کی سرحد پر واقع ہے۔ یہ کی تحصیل چوبارہ اور بھکر کی تحصیل منکیرہ یہ دونوں شہر تھل کے درمیانی علاقے میں اس طرح آباد ہوئے کہ ان دونوں شہروں کو شمال سے جنوب یا جنوب سے شمال ایک لائن میں تعمیر کیا گیا اور ان کی اس وقت کوئی وجہ ضرور ہوگی جب یہ شہر آباد کیے گئے۔ اگر ہم ان کا محل وقوع کچھ اس طرح دیکھیں کہ شمال میں میانوالی اور جنوب میں ملتان تو بھی یہ دونوں شہر ایک قطار میں آتے ہیں۔ جبکہ روڑاں کا قصبہ بھی ان ہی کی لائن میں منکیرہ اور چوبارہ کے درمیان واقع ہے۔ اگر ہم ان تینوں مقامات کا تقابل دریائے سندھ اور جہلم سے کریں تو دونوں اطراف سے وقفہ برابر ہے۔ اگر ہیڈ تریموں سے دریائے سندھ کے مشرقی کنار ہے قدیم شہر کروڑ کی جانب لائن کھینچیں تو روڑاں کا مقام درمیان میں، اگر میانوالی سے ملتان کی طرف لائن کھینچیں تو پھر بھی روڑاں درمیان میں آتا ہے۔ یہ کوئی وجہ ضرور تھی کیونکہ جب زمانہ قدیم میں روڑاں کے مقام پر شہر آباد کیا گیا تو اس کو چاروں اطراف سے منصوبہ بندی کے تحت تعمیر کیا گیا۔
روڑاں کے محل وقوع سے متعلق مزید تفصیل اس کے نقشہ میں دیں گے۔ اس وقت روڑاں کا قصبہ پسماندہ ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے جو تھل میں سب سے کم ترقی یافتہ ہے۔ اگر اس کو ایک مربع کلو میٹر میں دیکھا جائے تو روڑاں کا قصبہ ۱۰ چھوٹی چھوٹی بستیوں پر مشتمل ہے جس کی آبادی تقریبا ایک ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ یہاں پر بہت ساری قو میں آباد ہیں۔ اس علاقے کا نام روزاں پاک و ہند کی تقسیم سے بھی پہلے سے چلا آ رہا ہے۔
روڑاں کی وجہ تسمیہ:
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس علاقے کا نام روڑاں کیوں، کب اور کس نے دیا تھا اس کے متعلق دو روایتیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس علاقے میں کثرت سے روڑے پائے جاتے تھے جن کی وجہ سے اس علاقے کا نام روڑاں پڑ گیا لیکن یہ کوئی معقول روایت نہیں۔ جبکہ دوسری روایت یہ ہے کہ قبل از پاکستان یہاں ایک ہندو قوم اروڑہ بہت زیادہ تعداد میں آباد تھی۔ یہ شہادت قابل قبول بھی ہے۔ ۱۸۷۸ء میں جب ہندوستان برصغیر تھا اور برٹش گورنمنٹ کے قبضے میں تھا تو پورے برصغیر میں زرعی اصلاحات کی گئیں۔ ۱۸۷۸ء اور اس کے بعد کی تاریخ میں ہمیں یہاں اروڑہ خاندان کی جاگیریں اور علاقے پر ان کا سیاسی اثر رسوخ نظر آتا ہے۔
جبکہ تاریخ پنجاب کے حوالے سے کہ جب رنجیت سنگھ کی فوج نے منکیرہ اور لیہ کے علاقوں پر قبضہ کیا تھا تو اس وقت مسلمانوں کی بجائے انہیں ہندو اروڑہ قوم کے لوگوں کو قلعہ منکیرہ اور لیہ بطور باج گزار حکمران مقرر کیا۔ انگریز فوج کے قبضے کے بعد لیہ کو ۱۹۲۹ء میں تحصیل کا درجہ دیا گیا تو اس وقت ضلع کو 9 ذیل میں تقسیم کر دیا گیا۔ ان میں ایک ذیل نواں کوٹ بھی تھی۔ اس ذیل نواں کوٹ کا پہلا ذیلدار اروڑ وٹل نامی ایک ہندو کو مقرر کیا گیا۔ اروڑہ مل کانی عرصہ تک ذیلداری کرتا رہا۔ نواں کوٹ کے ایک مسلمان سردار قیصر خان ممسی جو موجودہ قیصر خان عمسی ایم۔ پی۔ اے کا دادا تھا، کے ساتھ الیکشن میں اروڑہ پل ہار گیا اور شکست کے دکھ میں مرگیا۔ ان حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس علاقے کا نام پہلے اروڑہ پڑا لیکن بعد میں تبدیلی زبان اور عام لوگوں کے مختلف بول چال کی وجہ سے اروڑہ کی بجائے روڑاں مشہور ہو گیا جو آج تک مشہور ہے۔
روڑاں عہد قدیم میں:
قدیم ہندوستان کی پہچان وادی سندھ کی تہذیب ہے جس کا ارتقاء آج سے تقریباً ۸ ہزار سال پہلے ہوا۔ وہ وادی جس کو ہم اس قدیم تہذیب کی جائے پیدائش گردانتے ہیں ، خطہ یا سرزمین جہاں سے تہذیب وادی سندھ کی ابتداء ہوئی ، یہ دریائے سندھ کا مشرق کا علاقہ ہے جو میانوالی اور خوشاب کے اضلاع سے لیکر جنوب کا میدانی خطہ جس کو آج کل تھل یا ریگستان بھی کہا جاتا ہے، سے شروع ہو کر جنوب میں سمندر تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ وہ علاقے تھے جہاں سے تہذیب وادی سندھ نے اپنا ارتقائی سفر شروع کیا۔ ہم آج سے ۵/۴ ہزار سال پیچھے جائیں تو ان کالے رنگ اور چھوٹے قد والے دراوڑی نسل کے لوگ جو اصل میں اسی سرزمین کے سپوت تھے، اور یہ لوگ انسانی زندگی کی ابتدائی مراحل میں تھے اور ابھی تک انہوں نے مکمل تہذیب و ثقافت کے وہ راز حاصل ہی نہیں کیے تھے جن سے ان کی زندگی ایک تہذیب یافتہ انسان کا مقابلہ کر سکتی۔ یہ قدیم انسان اور تہذیب و ثقافت جو بعد میں اس سرزمین کی پہچان بنی، کہاں سے اور کیسے آئی؟ اس کے متعلق بہت ساری روایات پائی جاتی ہیں۔ میں زیادہ تفصیل میں نہیں جاتا اور اختصار سے عرض گزار ہوں کہ بقول مورخین آج سے ۱۰/۸ ہزار سال پہلے تک ہندوستان کا تمام میدانی خطہ شمالی پہاڑی سلسلے سے آنے والے پانی کے بہاؤ کی لپیٹ میں تھا جس کے متعلق ہم بیان کر چکے ہیں۔
لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اس پانی کے بہاؤ میں کمی واقع ہوئی اور اس وجہ سے پانی نے دریاؤں کی شکل اختیار کر لی۔ اب ہندوستان کا میدانی علاقہ ایک جزیرہ نما شکل اختیار کر گیا۔ ان جزیروں پر پانی کی جگہ گھاس اور درختوں نے لے لی۔ اب کو ہستان کے نیچے کا جنوبی میدانی خطہ سرسبز و شاداب جنگلات میں تبدیل ہو گیا۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب انسان اور حیوان پہاڑوں کی تنگ دست زندگی سے نجات پانے کی کوشش کر رہے تھے۔ موقع پاتے ہی انسانوں نے پہاڑی غاروں کو چھوڑ کر ان سرسبز و شاداب میدانی علاقوں کا رخ کیا اور دریائے سندھ کے مشرقی کناروں کے ساتھ ساتھ آباد ہوئے۔ سب انسانوں نے مل جل کر رہنے اور کا شیکاری کا طریقہ اختیار کیا اور ساتھ ہی فن و ثقافت سے نا آشنا قدیم انسان نے ایک خاندانی سماج کی شروعات کیں اور اس طرح چھوٹی چھوٹی بستیوں کا قیام کیا جو ایک ہزار سال بعد تہذیب یافتہ انسانی شہروں میں تبدیل ہو گئیں۔ جیسا کہ ہر پہ اور موہنجودڑو اور بہت سارے مقامات ایسے بھی ہیں جن کے نشانات تو ملتے ہیں لیکن ان کھنڈرات اور آثار کے متعلق تحقیق اور ریسرچ کسی پا یہ انجام تک نہیں پہنچی۔ جیسا کہ روڑاں کا مقام ۔ حالانکہ تھل کے اکثر علاقوں میں جگہ جگہ ایسے قدیم آبادیوں کے نشان پائے جاتے ہیں لیکن بد قسمتی سے یہ علاقے قدیم ہندوستان کی تاریخ کا حصہ نہ بن سکے اور بے بسی کے عالم میں ریت کے ٹیلوں میں مدفون پڑے ہیں۔ ان میں سے ایک روڑاں کے کھنڈرات اور آثار قدیمہ بھی ہیں جن کی تاریخی اہمیت کو مجھ جیسے نا اہل شخص نے اجاگر کیا۔ یہ کچھ دوستوں کی مہربانی ہے وگر نہ بندہ ناچیز کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا۔
روڑاں کے آثار قدیمہ دوحصوں میں منقسم ہیں جن کو آسانی سے سمجھنے کے لیے میں نے سائیڈ ائے اور سائیڈ بی کا نام دیا ہے۔ سائیڈ اے مشرق کی طرف اور سائیڈ ” بی“ مغرب کی طرف جن کی تفصیل اگلے باب میں آئے گی۔ سائیڈ ائے قدیم ہے یہاں سے جو آثار ملے ہیں جن میں سب سے اہم چیز سکے ہیں۔ یودھیا جیوی سے لے کر باختری حکمران تک جبکہ یہاں تو سکندر یونانی کے حملے کا بھی پتا چلتا ہے کہ جس وقت مقدونوی افواج نے حملہ کیا اس وقت تھل کے علاقے پر یودھیا جیوی کی حکومت تھی اور یہ علاقہ و بیکاریاست کے نام سے مشہور تھا۔ جبکہ سائیڈ بی“ سے صرف کشان بادشاہوں کے سکے ملے ہیں جنہوں نے چوتھی صدی عیسوی کے آخر تک کی اور بعد میں اس شہر کو گورے ہن بادشاہ نے نیست و نابود کر دیا۔ کشانوں کے علاوہ گپت خاندان کے سمدر گپت اور کمار گپت کے سکے بھی پائے گئے ہیں۔ روڑاں جیسے پورے تھل میں ہزاروں مقامات پائے جاتے ہیں جہاں تہذیب وارئی سندھ اور اس کے بعد آنے والی اقوام کی آبادیاں تھیں ۔ جگہ جگہ ریت کے ٹیلوں میں ان کے نشانات ملتے ہیں لیکن یہ بات ایک حقیقت ہے کہ پورے تھل کے علاقے میں میانوالی سے لے کر ملتان تک قدیم تاریخ جو قبل از مسیح سے بھی پہلے اگر کوئی ریاست کا مرکزی مقام تھا تو وہ صرف روڑاں کے مقام پر واقع تھا۔ تقریباً ایک کلو میٹر سے دو کلو میٹر پر محیط وسیع علاقے میں کھنڈرات پائے جاتے ہیں۔ تھل سے متعلق تاریخی مقام نہ ہونے کی وجہ سے ایک پریشانی ہوتی ہے کہ یہاں جو شہر آباد تھا اس کا نام کیا تھا؟ کیونکہ یہاں جو اقوام رہ چکی ہیں، ان کے متعلق تو علم ہو گیا ہے لیکن جگہ کا نام ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا ۔ کچھ قدیم تحریروں سے اشارے ملتے ہیں لیکن ان کی صحت سے متعلق ابہام ضرور پایا جاتا ہے۔
ہمیں یہاں سکوں کے علاوہ کوئی دوسرا تحریری مواد نہیں ملاجس سے ہم معلومات حاصل کر سکتے ۔ ایک بہت قدیم تحریر جو بعد میں پری پلس نامی کتاب سے مشہور ہوئی، کے مصنف کے متعلق بھی مورخین میں اختلاف پایا جاتا ہے جو ۸۰ء میں لکھی گئی تھی۔ اس کتاب کے مصنف کا بیان ہے کہ دریائے سندھ کے پار مشرقی علاقہ موجودہ تھل سینتھیا ریاست کے نام سے مشہور ہے اور یہاں پارتھی سرداروں کا قبضہ ہے۔ دارالسلطنت اندرون ملک جس کا نام بقول پری پلس آف دی ایر پتھر لین کی مستمر ” تھا۔ اس ریاست کی بندرگاہ کا نام نبر بر یکان تھا جو بڑے دریائی رہانے پر واقع تھا۔ ہم نے اس بات کو ذہن میں لاتے ہوئے بڑی کوشش اور تحقیق کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے که بندرگاه بر بر یگان موجودہ کروڑ لعل عیسن شہر کے مقام پر واقع تھا جبکہ دارالسلطنت منگر روژاں کے مقام پر تھا جس کیلئے ہم وضاحت بھی دیں گے۔
نوٹ: یہ مضمون ملک محمد شفیع کی کتاب (قدیم تاریخ تھل اور روڑاں کے آثارِقدیمہ) سے لیا گیا ہے۔