تھل

تھل:گورے ہن

یہ ایک خانہ بدوش قبائل تھے جو ان کے نام سے جانے جاتے تھے ۔ یوچی کی طرح انہوں نے بھی اپنے وطن و علاقے کو خیر باد کہ کر ذریعہ معاش اور چراگاہوں کی تلاش میں تقریباً ۱۳۷۵/۳۷۰ء کے قریب جنوب مغرب کی طرف سفر کا آغاز کیا۔ ہن قبائل ایشیائی جنگلوں کی شی اقوام تھی جو ابتدا میں ہی خانہ جنگی کا شکار ہو گئی جس کی وجہ سے انہیں دو حصوں میں تقسیم ہوتا پڑا۔ ان میں ایک تو دریائے والگا کی وادی کی طرف بڑھا جو آخر کار ۱۳۷۵ء میں وہاں کی ایک آباد کار قوم کا تھ کو دریائے ڈینیوب کی طرف دھکیل دیا۔ جب اس قوم کے بادشاہ قیصر ویلز نے ہنوں کا مقابلہ کیا تو ان دونوں اقوام کے درمیان ایک عرصہ جنگ و جدل کا بازار گرم رہا جس میں آخر کار ۳۷۸، دیلنز ہلاک ہو گئے اور ان تمام علاقوں پر ہن قوم نے قبضہ کر لیا۔ کچھ عرصہ بعد اٹلا جس نے سلطنت روم کی بنیا درکھی وہ انہیں ہن قبائل میں سے تھا۔ ہن اقوام کا دوسرا حصہ وادی سیمون کی طرف روانہ ہوا اور یہ لوگ اول الذکر من حصے کے لوگوں سے مختلف تھا اور بعد میں یہ نسل کے لحاظ ے گورے ہن کے نام سے مشہور ہوئے۔

دریائے سیمون کی وادی میں رہائش کے دوران رفتہ رفتہ انہوں نے طاقت کو بڑھانا شروع کر دیا حتی کہ ۴۸۴ء میں ایران کے شاہ فیروز اس ہن اقوام کے حصے سے لڑتا ہوا مارا گیا۔ جبکہ دوسری طرف چوتھی صدی عیسوی کے اختتام تک گورے جنوں نے کابل میں کشان سلطنت پر حملہ کر کے انہیں بے دخل کر دیا اور دریائے سندھ کو پار کر کے ہندوستان میں داخل ہوئے۔ ہنوں کا پہلا حملہ بظاہر کمزور حالت میں تھا یا پھر ان کی فوج کے ایک تھوڑے حصے نے ہندوستانی علاقوں پر چڑھائی کی جس کا سکندر گیت نے ۴۵۵ء میں سد باب کیا اور حملہ آور فوج کو شکست ہوئی۔ یہ ہن اندرونِ ملک اپنے قدم نہ جما سکے۔ وی اے سمتھ جس نے ہارٹل کا بیان نقل کیا ہے تو اس میں مورخین سکندر گیت کے دور حکومت میں کسی بھی ہن فوج کے حملے کو تسلیم نہیں کرتے ۔ ان کا مزید بیان ہے کہ اگر ۲۵۵ ، اور ۴۶۸ء کے درمیان جس حملے کو سکندر گیت نے روکا تھا، اول تو وہ ہنوں کا حملہ تھا ہی نہیں ، اگر مان بھی لیا جائے تو یہ ان فوج کے کسی کمزور حصے نے کیا تھا جس کی وجہ سے وہ اس لڑائی میں شکست کھا گئے ۔ ڈاکٹر بارش کا بیان ہے کہ کس طرح لڑکھڑاتی کشان سلطنت پر مغرب سے ایک وحشی قوم نے حملہ کیا اور جس نے کابل مغربی ہند کو ہلا کے رکھ کشان سلطنت پر مغرب ۔ دیا۔ گندھارا اور ٹیکسلا جبکہ مزید جنوب اور وسطی پنجاب کے علاقوں پر قابض ہو گئے۔

یہ وحشی قوم ہن تھی جو مشرق کی طرف اندرون ہندوستانی علاقوں پر حملہ آور ہوئے جہاں ان کو سکندر گیت نے روگ لیا اور واپسی پر مجبور کر دیا۔ مورخین کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہن حملہ آوروں نے مغربی پنجاب کے تمام علاقے ٹیکسلا سے لے کر ملتان تک دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ موجودہ تھل کو پہلے حملے میں فتح کرلیا تھا۔ یہ یمکن ہے کہ حملہ آور کابل کو فتح کرنے کے بعد پشاور اور ٹیکسلا ر حملہ کیا اور ان علاقوں پر قبضہ کرنے کے بعد مزید جنوب کی طرف میدانی علاقوں پر حملے شروع کیے اور ظاہر ہے کہ ان علاقوں کو بھی زیر کرنے کے بعد ہی وہ مشرق کی طرف بڑھے اور وسطی ہندوستان میں ان غیر ملکیوں کا راستہ سکندر گیت نے روکا اور کس طاقت سے ان وحشیوں کا مقابلہ کیا یہ تمام عمل طلب باتیں ہیں جن کے متعلق تحقیق کرنے کی ضرورت ہے لیکن مورخین کی آراء ہیں کہ ہنوں کی یہ کمز ور فوج تھی جو ۴۷۰ء کے دہائی ہندوستان پر حملہ آور ہوئی۔ یہ غلط ہے کیونکہ ہن فوج کابل سے لے کر پشاور اور ٹیکسلا ، مغربی ہند پھر متھرا اور مگدھ تک مسلسل جنگ اور لڑائیوں میں مصروف رہی۔ ظاہر ہے کہ ہر جگہ ان کا مقامی آبادکاروں نے مقابلہ کیا ہوگا ، زخمی اور ہلاکتیں بھی سارے مسائل در پیش رہے ہوں گے ۔ ہوئی ہوں گی۔ ہن فوج اپنے وطن سے دور غیر ملک میں جنگ کر رہی تھی ، اس لیے اس کو بہت کشان سلطنت پہلے ہی افراتفری کا شکار ہو چکی تھی ۔ ہن فوج کامیاب ہوگئی اور اس نے مقامی آبادیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے۔

وحشت اور بربریت کا یہ حال تھا کہ شہروں کے شہر، قصبات اور دیہات حتی کہ سرسبز و شاداب کھیتوں کو بھی مع انسان جلا کر خاک کر دیا۔ ان کے متعلق ہم تفصیلی گفتگو سے چل کر کریں گے۔ لیکن یہ وحشی جب اندرونِ ہند پہنچے تو ان حملہ آوروں کا مقابلہ ایک طاقتور فوج جس کی قیادت سکندر گپت کر رہا تھا ، سے ہوا جو اس وقت تک وسطی ہندوستان میں اچھی خاصی طاقت حاصل کر چکا تھا۔ وہ پیٹی مترقوم کی شکست کے بعد ۴۵۵، تخت پر بیٹھا تھا۔ یہ وحشی قوم ملک کے آباد شہروں اور سرسبز میدانوں کوتباہ کرتی ہوئی اندرون ہند پہنچی تو ان کا مقابلہ سکندر گپت جیسے کار آزمودہ مناسب ہمت اور جرات والے بادشاہ سے ہوا جس نے ان وحشیوں کو شکست دی۔ بقول ھم آرکیالوجیکل رپورٹ جلد اول کے مطابق یہ جنگ بنارس کے مشرق میں موجودہ ضلع غازی پور کے قریب بھتری کے مقام پر ہوئی۔ اسی مقام پر سکندر گیت نے فتح کا مینار تعمیر کروایا جس کے کتبے پر اس جنگ کے متعلق واقعات درج ہیں۔ کتے میں لکھا ہے کہ سکندر میت کرشن کی طرح جو اپنے دشمنوں کو قتل کر کے ماں کی خدمت میں حاضر ہوا تھا ، فتح کی خبر اپنے ماں تک پہنچائی جو ابھی تک زندہ تھی اور اپنے باپ کی روح کو ثواب پہنچانے کے لیے اس فتح کے مینار کے سرے پر وشنود یوتا کا بت بنوایا تھا جس پر وحشی حملہ آوروں کے پنجے سے دیوتاؤں کے فضل وکرم سے ملک کو رہائی ملی۔

 نوٹ: یہ مضمون ملک محمد شفیع کی کتاب (قدیم تاریخ تھل اور روڑاں کے آثارِقدیمہ) سے لیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com