تھل:راجہ پورس
ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ دس بادشاہوں کی جنگ میں سدا فوج سے شکست کھانے کے بعد پوروکس نے مغربی پنجاب یعنی دریائے جہلم ، چناب اور سندھ تک کے علاقوں کا رخ کیا۔ وہاں وہ تمام مقامی قبائل سے اتحاد کر کے ان علاقوں میں ایک کورد کشتر نام کی سلطنت قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ کچھ عرصہ بعد یہ سلطنت بھی اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکی اور آچمینی بادشاہ سائرس کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد پرو بادشاہ پوتی کی گرفت کمزور ہوتی گئی کیونکہ مصری بادشاہ کی رحم دلی اور نرم رویہ سے تمام ہندوستانی قبائل اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے ان کو اپنا نجات دہندہ سمجھ لیا۔ آچمینی بادشاہ کی واپسی کے ساتھ ہی ایک مرتبہ پھر سے اس علاقے میں افراتفری پھیل گئی۔ وادی سندھ کا پورا خطہ کی ایک خود مختار ریاستوں میں تقسیم ہو گیا تو ان میں ایک آبادی کے ریاست جو دریائے جہلم اور چناب کے سنگم کے شمال میں واقع تھی جس پر پورس قابض تھا۔ راجہ پورس پور دورو یا پوروس، پادار خاندان کا آخری بادشاہ معلوم ہوتا ہے۔ پور و قبائل کے متعلق ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں لیکن خود پورس نام کے متعلق کچھ اقتباسات جو چند ایک مورخین کی آراء پر مبنی ہیں، پیش کرتے ہیں۔ جس طرح پورس نام کے کئی معنی اور پس منظر بتائے جاتے ہیں، اسی کہ ایک پر طرح پورس کی شخصیت بھی تمام لوگوں سے مختلف تھی۔ جیسا کہ بدھا پر کاش اپنی تحریر میں بیان کرتے ہیں کہ لفظ پورس قدیم نام پاؤ رو سے نکلا ہے جبکہ ہندؤں کی قدیم کتاب مہا بھارت میں بھی کیا ، ان گئے پورس کو پاؤڈراؤ کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ اکثر مورخین اسی مشکل اور الجھن کا شکار رہے اور ان احاطہ کیا ۔ دونوں ناموں کو ایک ہی معنی دے دیے اور ان الفاظ کو نام پورو سے جوڑ دیا ۔ قدیم و یدک سمجھوں وابستگی اور میں ہمیں اس نام کی ایک قوم کا ذکر ملتا ہے جو مشرقی پنجاب دریائے راوی اور تیج کی وادی میں آباد ہوں کیونا تھے۔ ان کا حاکم اور سردار پورو نام کا آدمی تھا۔
پور کے متعلق قدیم بندی مذہبی تحریروں کے مطابق آدیتی ڈکس پور تھا یعنی والد کا نام کیا اور والدہ کا نام آدیتی تھا جبکہ ان دونوں میں سے پیدا ہونے والی اولا د پورو مشہور ہوئی ۔ ان کی اولاد میں ویوسون، الا ، پور دوا، آئیو، ناموسا اور یاتی شامل تھے۔ ان میں سے کچھ نے اپنی اپنی ریاستیں قائم کیں اور بادشاہ بھی رہے۔ انہی میں سے ایک یاتی نام کا شخص تھا جسے آخری بادشاہ کہا گیا ہے۔ اس کی دو بیویاں تھیں ۔ ایک ملکہ کا نام دیونانی اور دوسری کا شرمستھ تھا۔ ان دونوں بیویوں سے جو اولاد ہوئی، ان میں پہلی بیوی سے یا دوتر واس جبکہ موخر الذکر سے دوروی، انو اور پورو نے جنم لیا۔ رگ وید اور مہا بھارت کی تحریروں کے مطابق جن دس بادشاہوں کی لڑائی کا ذکر ملتا ہے اور اس جنگ میں شاہ بھارت کے جن دس بادشاہوں کے اتحاد نے سدا فوج کا مقابلہ کیا، ان کی سربراہی پوروکس نام کا بادشاہ کر رہا تھا۔ وہ اسی پورو کی اولاد تھا۔ شکست کے بعد پوروکس گرفتار ہوا اور قتل کر دیا گیا۔ اس کی بیوی نے ایک ایسے بیٹے کو جنم دیا جس کا نام داسیو تھا۔ اس نے آنے والے وقت میں اپنے خاندان کی عزت کو بحال کرنے کے لیے دریائے راوی سے مغرب کی طرف نقل مکانی کی۔
اس کا خاندان دریائے چناب، جہلم اور اور سندھ کے دو آبوں میں آباد ہوا۔ داسیو نے اپنے خاندان اور کچھ دوسری اقوام سے مل کر ان علاقوں میں پور وسلطنت کی بنیاد رکھی۔ ی وای کورد کشتر سلطنت تھی جس کو پورو بادشاہ داسیونے کور وقبائل سے اتحاد کر کے قائم کی تھی۔ آنے والے وقت میں یہ سلطنت اکثر پنجاب کے علاقوں مغرب دریائے سندھ سے لے کر مشرق میں اتر پردیش الہ آباد تک پھیل گئی تھی۔ اس خاندان کے بہت سارے بادشاہ گزرے ہیں جن میں تر اسے داسیو کا بیٹا ہر ان تر کسی ٹر یا رونا اور کرد شروان نے تاریخ میں خاص مقام حاصل کیا ہے۔ پورو بادشاہ سمارانہ، جس کا ذکر ہم پچھلے باب میں کر چکے ہیں ، اسی خاندان سے تھا۔ اس کی سلطنت مغرب سے دریائے سندھ تک پھیلی ہوئی تھی اور درمیان کا تمام میدانی علاقہ تھل اس کی حکومت میں تھا۔ اس کی شاہی مشرق میں اتر پردیش الہ آباد اور دریائے جمنا سر سوتی تک سارے پنجاب پر تھی جس نے بھارتی حکمرانوں کے لیے بہت مشکلات پیدا کر دی تھی ۔
اسی دوران کچھ نے قبائل نکلوں اور کوروں جیسے منظر عام پر نمودار ہوئے ۔ مہا بھارت کی ایک روایت کے مطابق کہ کس طرح نکلوں نے پورو بادشاد سمورا نہ کو شکست دے کر مغرب کی طرف دریائے سندھ کے کناروں کے طرف پسپا کر دیا۔ سمارانا کا بیٹا جو ملکہ بہتی کے بطن سے تھا ، نے اپنی سلطنت کو وسعت دی اور ایک نیا اتحاد قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا جسے پور وکورو نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ قدیم روایتوں میں اس اتحاد کے حوالہ سے کا ڈرین اور کوروسوانا کے نام ملتے ہیں۔ ہندی ادب میں اسے کورد کشتر یا اتر کورد کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس بادشاہ کے تین بیٹے تھے، پارکستاء جنہو، اور سندھوان۔ ان میں آخری بیٹا سندھوان کا ایک طاقتور حکمران ثابت ہوا۔ اس کا ایک بیٹا جنم جایا تھا جو باپ کی طرح طاقتور اور مضبوط حکمران ثابت ہوا۔ اس نے کو روکشتر یعنی اپنی سلطنت کو چار چاند لگا دیے۔ اس کے دور میں خوشحالی اس قدر تھی کہ قدیم منکرت تحریر کے باب (۱۲۷-۱۰-۷- XX) میں اس بادشاہ کے دور کے حالات بیان کیے گئے ہیں جس سے معلوم ہوا ہے کہ اس بادشاہ کے دور میں دودھ اور شہد کی اتنی فراوانی تھی کہ لوگ اپنے مہمانوں کے سامنے پانی کی جگہ یہ مشروبات پیش کرتے تھے۔
چھٹی صدی قبل مسیح کے دوران ایک پر عزم بادشاہ کوستی کا نام سامنے آیا جس کا تعلق پورو قبائل سے تھا۔ اس بادشاہ کے دور میں آچمینی فاتح سائرس اعظم نے ہندوستان پر حملہ کیا تو پہلے گبری کا پہل پر دو بادشاہ نے آمینی فاتح سے امن معاہدہ اور دوستانہ مراسم استوار کیے لیکن بعد میں انہوں نے جارحانہ رویہ اختیار کیا جس کی وجہ سے اس کی حکومت میں افراتفری پھیل گئی اور تمام ہندوستانی کیسے کرا قبائل نے سائرس اعظم جو ایک نرم خواور رحمدل بادشاہ تھا کو اپنا شہنشاہ تسلیم کر لیا۔ اسے ہندیوں کے کیا ، ان بادشاہ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ آخر کار یونانی بادشاہ کی بڑھتی ہوئی طاقت سے سندھ اور شمال میں ٹیکسلا تک تمام گندھارا پر قبضہ کرلیا لیکن آچینی شہنشاہت کے خاتمے ۵۱۵-۲۰ ق م تک ان لاقوں پر ایرانی شہنشاہ دارا اول کا قبضہ اورتسلط کی وجہ سے پوروکور و سلطنت افراتفری کا شکار ہوگئی لیکن چوتھی صدی قبل مسیح کے اول میں ایرانی بادشاہ دارا کو یونانی تھنیز میں بغاوت کا سامنا کرنا پڑا تو اس میں پورو نے خود کو قلم کر کے دریائے سندھ اور جہلم ، چناب کے میدانی علاقوں میں دوبارہ اپنا قبضہ بحال کر لیا۔
اس میں دوسرے بہت سے قبائل شامل تھے جنہوں نے ایرانی تسلط کے خلاف بغاوت میں حصہ لیا لیکن سڑا بو اور سراوال شین جو ایک یورپی مورخ ہے، تحریر کرتے ہیں کہ ا مرتبہ وہ پہلی پور دکور و سلطنت اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکی۔ بہت سار – ۔ بہت سارے قبائل اپنے اپنے توں پر قابض ہو گئے ۔ ان میں ایک مشہور نام پو رو بادشاہ راجہ پورس کا بھی تھا جس کا تعلق پورد خاندان سے تھا۔ پورس ایک طاقتور حکمران تھا لیکن اس کی ریاست دریائے جہلم اور چناب درمیان واقع تھی جس کا مرکز ندانا کا شہ تھا جو دریائے جہلم کے مشرقی کنارے کوہ نمک کے درمیان واقع تھا۔ پورس کی دریائے جہلم اور سندھ کے درمیان تمام میدانی خطہ تھل“ پر بھی گرفت تھی۔ یہاں پر موجود سرش قبائل راجہ پورس کے خلاف بغاوت کرتے رہتے تھے۔ پورس اپنے دور کا ایک طاقتور حکمران تھا۔ اس کی طاقت کا چر چا ایران سمیت کئی دوسرے ممالک میں مشہور تھا۔ ہندوستان میں پرانا جات اور تاریخی مسودے کے حوالہ سے پورس کو بڑی عزت اور خصوصی حیثیت حاصل تھی ۔ اس طرح سے پورس پورو خاندان کا آخری بادشاہ ثابت ہوا۔ اس کے بعد کسی پورو بادشاہ سے متعلق ہندوستانی تاریخ میں حوالہ نہیں ملتا۔
راجہ پورس کا خاندان :
راجہ پورس کے خاندان کے متعلق بہت سارے قدیم تاریخی حوالے اور کافی سارے مورخین کی آراء پائی جاتی ہیں جن کے مطالعہ سے کچھ حد تک معلومات حاصل کی گئی ہے۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہے۔ رگ دید باب (۱-۳۶-۱) کے ایک پیرے میں سیان پورو کے کئی معنی بیان کیے ہیں۔ کو الہ بدھا پر کاش جبکہ ویدک بھیجوں میں پاسکانے اس قبیلے کا ذکر کیا ہے۔ پرانوں اور مہا بھارت میں بھی پورس یا پوروس کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان سب کی تحقیق سے معلومات سامنے آئی ہیں کہ کس طرح ڈکسا اور ان کی بیوی آدیتی کی اولاد تھی۔ بچوں کی تعداد میں پہلا ویوسون، دوسرا الا، پورووا، آئیو، ناموسا اور یاتی شامل تھے۔ پھر ان کے آخری بچے یا تی کی دو بیویاں تھیں۔ ایک دیویانی اور دوسری شر مستھ۔ دیویانی کے بطن سے ایک بچہ تھا جس کا نام یا دو ترس تھا جبکہ دوسری بیوی شر مستھ کے بطن سے تین بیٹے تھے، پہلا دور وہی دوسرا انو اور تیسرا پورو پورو اس مشہور قبیلے پر روڈ یا پاؤرس کا بانی تھا۔ یہ وہی مشہور بادشاہ پور وکس ہے جس نے رگ وید میں دس بادشاہوں کی ذکر کردہ لڑائی میں اتحادی فوج کی قیادت کی تھی۔ یہ جنگ بھارت واستھ کے خلاف لڑی جارہی تھی۔ اس جنگ میں پوروکس کو شکست ہوئی۔
وہ خود مارا گیا اور اس کی موت کے بعد اس کی بیوی پورو کسانی، جو شاید پہلے حاملہ تھی، نے ایک بیٹے ترا سے داسیو کو جنم دیا۔ شاہ بھارت واستھ کی موت کے کچھ عرصہ بعد سدوں کی سلطنت بحران کا شکار ہوگئی۔ سدا قبائل کے کچھ جنگجو سرداروں نے داستھ کے جانشین بیٹے کو قتل کر کے آگ میں جلا دیا۔ اور اس دوران بھارتیوں کے درمیان خانہ جنگی کی صورت حال کے پیش نظر پور وکس کا بیٹا تر سے داسیو پھر سے اپنے قبیلے اور تر بترفوج کو اکھٹا کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
ہیی وہ پور سلطنت تھی جس کا آخری بادشاہ راجہ پورس جو دریائے جہلم اور چناب کے شفیع صاحه درمیان نندانا کے علاقے کا حکمران تھا کیونکہ ترا سے داسیو کی سلطنت مشرق میں دریائے راوی گہری دیے شمال میں ٹیکسلا مغرب میں دریائے سندھ اور جنوب میں مانتان تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس کے بعد ان کے جانشین جن میں ہران، ترکسی، ٹریا رونا، کروشروان، سموارانا، کورو، پارکستیا ، جنہو، سدھنوان کیا ، ان اور تم جایا اس سلطنت پر حکمران رہے۔ چھٹی صدی قبل مسیح کے وسط میں مصر کے بادشاہ سائرس احاطہ کیا۔ اعظم نے جنم جایا کا تختہ الٹ کر دریائے سندھ اور جہلم کے علاقہ تھل پر قبضہ کر لیا۔ آچمنی بادشاہ کے حملے کے بعد ۴۸۵ ق م میں دارا اول کے دور تک یہ علاقہ ایران کے ماتحت رہا۔ اتھر وادید کے باب (۷-۱۰-۱۲۷- xx ) حوالہ بدھا پر کاش کے مطابق جنم جایا کے بیٹے سرت سین، اگر سین بھیم سین کا بھی ذکر ہے لیکن ان کی زیادہ تفصیل نہیں ملتی جبکہ جنہوں کے بیٹے سر تھا اور اس کے جاشین پادردا، ترنیپ، دیوا چی، بلہ کا، سنانو بھسما، چترن گدا چتر دایا کا ذکر ہے جنہوں نے پانچویں صدی قدم کے آخر میں آچمینی سلطنت کے زوال کے بعد پورو خاندان کی قوت بحال
کرنے کامیابی حاصل کی ، اس کام میں پادروا کے بیٹے پر جیپ کو خاندان کی قوت بحال کرنے کا کریڈٹ دیا جاتا ہے۔ اس کے تین بیٹے تھے ۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ آج مینی بادشاہوں کا گندھارا مغربی پنجاب کھل ” سے تسلط ختم ہوتے ہی یہاں مختلف قبائل نے سر اٹھایا جو اپنے اپنے علاقوں پر قابض ہو گئے جبکہ پورو خاندان نے دریائے جہلم کے اس پار کے علاقے پر اپنا قبضہ جمایا جہاں چوتھی صدی قیام کے وسط میں اسی پور و خاندان کے آخری بادشاہ راجہ پورس حکمران تھا جس کی سکندر یونانی سے ۳۲۶ ق م میں دریائے جہلم کے کنارے جنگ ہوئی جس کی تفصیل آگے آئیگی ۔
نوٹ: یہ مضمون ملک محمد شفیع کی کتاب (قدیم تاریخ تھل) سے لیا گیا ہے۔