تھل:سکندر اعظم کی آمد
سکندر مقدونیہ کے ایک شہر پیلا (Pella) میں پیدا ہوئے۔ مقدونیہ یونان کا ایک پسماندہ ترین علاقہ تصور کیا جاتا ہے۔ جو ا تمیز اور آسیہ وغیرہ علاقوں کے مقابلہ بہت پیچھے تھا۔ سکندر کا باپ قلپ مقدونیہ کا گورنر تھا۔ یونانی مقدونیہ کے لوگوں کو جاہل کہتے تھے۔ ان کا کام مویشی پالنا اور کھیتی باڑی کرنا تھا۔ سکندر خوش قسمت تھا۔ ایک تو وہ ایک گورنر کے گھر میں پیدا ہوا، دوسرا اسے ایک قابل استاد ارسطو ملا جس کی عملی اہمیت نے سکندر کی شخصیت پر ایک گہرا اثر ڈالا ۔ یہ ارسطو جیسے استاد کی وجہ تھی کہ سکندر نے یونان کے تمام علاقوں اور مصر، ایرن، بابل ایشیاء کوچک اور ہندوستان نمک کے علاقوں کو فتح کرنے کا تہیہ کر لیا۔ سکندر کی فتوحات نے صرف یونان ہی نہیں بلکہ ساری دنیا میں دھاک بٹھا دی۔ وہ صرف ایک پر سالار یا ایک بے رحم جنگجو ہی نہیں، بلکہ ایک مفکر بھی تھا۔ اسے تمام شاعد ارتباہ ہوں کی دنیا کو دیکھنے اور ان پر اثر انداز ہونے کا بھی شوق تھا۔ فتح در فتح سکندر جن مخطوں سے گزرا ۔ ان میں اس وقت کی چار بڑی تہذ یہیں تھیں جن کو زیر کرنے کے لیے صرف فوجی حکمت عملی ہی نہیں، بلکہ اپنے عالمانہ انداز فکر ، تاریخی امور ، جغرفیہ وٹیکنا لوجی اور ان خطوں کے نظموں پر مکمل عبور حاصل کرنے کے بعد انہوں نے اپنے سفر کا اغاز کیا۔
سکندر کی پیش قدمی:
سکندر مقدونیہ سے ایشیاء کوچک ( اناطولیہ ) سے ہوتا ہوا مصر پر حملہ آور ہوا اور مصر کے بعد پھر اناطولیہ سے (بابل) عراق اور ایران میں تخت جمشید کو فتح کیا۔ سکندر کا آخری مقام اور ان کی فتوحات کی آخری منزل مشرقی ہند تھی جس کے بارے اس کا کہنا تھا کہ یہ سورج کی دھرتی ہے کہ یہاں سے سورج طلوع ہوتا ہے۔ سکندر نے مصر سے ہندوستان تک کے تمام علاقوں کو زیر کیا اور ارتقائی عمل یونانی فوج خوشی کے ساتھ آگے بڑھتی رہی۔ دشوار اور پر خار راستوں اور بل کھاتی پہاڑیوں اور کئی حاصل ہے مقامات پر معرکہ آرائی کے جوہر دکھاتی ہوئی تہذیب بائل اور تخت جمشید کو پیروں تلے روندتے اہمیت کا انا ہوئے کا کیشین اور ہندوکش کے پر خطر پہاڑی سلسلہ کو عبور کر کے ۳۲۶ ق م (Hadaspace) سکندر دریائے جہلم کے کنارے آپہنچا۔ ان تمام راستوں کی مشکلات اور دارا جیسے ایرانی شہنشاہ ائیلوں میں آبادی کے اور ایرانی فوج کے ساتھ مقابلے اور ہندوکش جیسے سر بہ فلک پہاڑی سلسلہ کو عبور کرنے کے بعد اب سکندر کے سامنے ایک بہت بڑی دیوار جو مشکل کا سبب بنی ہوئی تھی ، وہ دریائے جہلم کے اس پار اس دھرتی کے سپوت مہاراجہ پورس تھا۔ پورس سکندر کی مزاحمت اور مقابلے کے لیے بدمست ہاتھیوں کی فوج کے ساتھ دریائے جہلم کے مشرقی کنارے پر موجود تھا۔
پورس اور سکندر کی فوجی صلاحیت :
سکندرا پریل ۳۲۶ ق م کے وسط میں ٹیکسلا سے روانہ ہوا اور مئی ۳۲۶ ق م کے شروع میں احاطہ کیا دریائے جہلم کے مغربی کنارے پر پہنچا۔ اس سے پہلے کہ ہم دونوں بادشاہوں کے جنگی حالات بیان کریں لیکن میرے خیال میں ضروری ہو گا کہ ان دونوں فوجوں کی جنگی صلاحیت اور اسلحہ کی تفصیل بیان کریں۔
سکندر کی فوجی صلاحیت:
مقدونوی فوج جس کی سربراہی سکندر کے ہاتھ میں تھی اس کی تعداد تقریباً ۵۰۰۰۰تا ۲۰۰۰۰ تھی۔ اس میں ۱۵ ہزار تیر انداز ، ۱۵ ہزار پیدل، ۱۵ هزار توپ خانه، ۵ ہزار شہوار ،ہاتھی اور ۱۰ ہزار سپاہی مختلف امور سر انجام دے رہے تھے۔ اس کے علاوہ سکندر کے پاس ہزار کے قریب مقامی لوگوں کی وہ فوج جو ٹیکسلا کے راجہ ابھی اور کچھ دوسرے علاقوں سے بطور امداد ملے تھے۔ فوج کے علاوہ ۱۵ ہزار سے ۲۰ ہزار افراد عام لوگ تھے جو جہاز رانی کھانے پانے اور فوج کی خدمت پر مامور تھے۔ اس کے علاوہ سکندر کی فوج کے پاس جو ہتھیار تھے، ان کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ ان میں بھاری ذرہ، آہنی ذرہ ، جس کو ہپاسپس کہا جاتا تھا، تلواریں، چار فٹ لیے نیزے، چھ فٹ لمبے دستے اور سریسا ۱۸افٹ ، یوں نیزے کی کل لمبائی ۲۴ فٹ تھی۔ یونانی فوج کے پاس ایک ایسی ہیلمٹ بھی تھی جو چھاتی سے لے کر ٹانگوں تک پورے جسم کا بچاؤ کرتی تھی۔ منجنیق ، جو اس سے پہلے ہندوستانیوں کے پاس نہیں تھی، وہ بھی یونانی فوج کے پاس موجود تھی۔ منجنیق کے ذریعے ۳۰۰ گز دور سے دشمن پر سنگ باری کی جاتی تھی۔ اسے یونانی بلاتس یا کا تا پولنس کہتے تھے۔ سکندر کے پاس تیروں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ تھا جن میں بھاری کمان خطر ناک ترین ہتھیاروں کے طور پر کام کرتے تھے، ان کے نشانے ٹھیک ہدف پر لگتے اور فولادی ڈھال تک کو پھاڑ ڈالتے تھے۔
پورس کی فوجی صلاحیت:
پورس کے پاس جو فوجی قوت تھی اس میں ٹوٹل فوج کی تعداد ۵۰ ہزار کے لگ بھگ تھی جو مغربی پنجاب کے مقامی لوگوں پر مشتمل تھی۔ حلیہ ان کا کچھ یوں تھا کہ یہ طویل القامت لوگ تھے، جن کا قد تقریباً 4 فٹ سے اوپر تھا، رنگت ان کی سیاہ ، داڑھیاں بارعب اور وجاہت آمیز تھیں۔ وردی ان کی نفیس اور کاشن کی تھی۔ یہ لوگ جو کرتا پہنتے تھے دو پاؤں تک لمبا ہوتا تھا۔ تھل پنجاب کی قدیم رم چگڑی، جو سوتی لٹھے کی ہوتی تھی، سر پر باندھتے تھے۔ داڑھی کے ساتھ بڑی بڑی مونچھیں اور سر کے بال جنہیں وہ اچھی طرح سے کنگھی کرتے لیکن ان میں کم لوگ بال کٹواتے تھے۔ یونانی دانشور لکھتے ہیں کہ یہ لوگ دوسرے خطوں کے لوگوں کی طرح عیش پرست نہیں تھے۔ مزید انہوں نے تحریر کیا ہے کہ ہندوستانی راجہ ان مشکل حالات میں ، جب اس کی ہر طرف سے مخالفت ہو رہی تھی، ایک عظیم فوج تیار کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ ہندو ادب کی قدیم رزمیہ تحریروں اور پرانا جات سے معلوم ہوتا ہے کہ راجہ پورس کی فوج میں تو پخانے ، رتھوں شہسواروں اور جنگی ہاتھیوں کی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔
یونانی مورخ ڈایوڈورس کے مطابق راجہ پورس کے بادے، ہزار شہسوار، ایک ہزار بگھیاں اور ۱۳۰ ہاتھی موجود تھے۔ ہندی فوج کے پاس بھی ایک ایسی تیر کمان موجود تھی جو ساڑھے دو اور تین گز لمبا تیر پھینکتی تھی ۔ اس کو آدمی زمین پر رکھ کر چلاتا تھا۔ تیر کا پھل بڑی اور لو ہے دونوں کا ہوتا تھا۔ پورس کی فوج کے پاس دوسرا بڑا ہتھیار لکھی جس کو تین سے چار گھوڑے مل کر کھینچتے تھے ۔ یہ بھی سافٹ اونچی اور فٹ چوڑی ہوتی تھی جبکہ دوسرے ہلکے ہتھیاروں میں اس علاقے کا روایتی کلہاڑا نجر اور چھری شامل تھے۔ یہ دست بدست لڑائی میں استعمال کرتے تھے۔ ہندی فوجی جسم پر آپنی زرہ جو زنجیروں کی بنی ہوتی تھی، پہنتے تھے۔ اس کے علاوہ خونخوار ہاتھی جو ہندوستان میں عام طور پر بادشاہ اور فوج کے پاس ہوتے تھے۔ فردوسی کے شاعرانہ انداز کے مطابق کہ سکندر اور راجہ پورس کی جنگ ۳۲۶ ق م سے لے کر شہنشاہ اکبر کے جرنیل میخم خان اور بنگال کے پٹھان سلطان داؤد کیرانی کے درمیان خونریز جنگ
گیری و تک ہندوستان میں ان ہاتھیوں کا استعمال رہا ہے۔
پورس کے مصنف بدھا پر کاش کے مطابق یونانی فوج ہتھیاروں اور صلاحیت کی وجہ سے دیا۔ انہم اہم تھی جبکہ ہندوستانی فوج بھی ان سے کم نہیں تھی۔ اس نے اپنی جان کے آخری قطرے تک وطن کیا ، انت کا دفاع کیا اور یونانی فوج کو اس طرح کمزور کر دیا کہ وہ لڑنے سے صاف انکاری ہو گئے۔ یہ ہندی فوج کی کامیابی کی ہی وجہ تھی کہ سکندر نے دیکھا کہ جب ان کے جرنیل لڑنے کی بجائے اسے جنگ بندی کا مشورہ دے رہے تھے تو سکندر نے جنگ بندی اور صلح کی کوشش تیز کردی۔
سکندر کی پیش قدمی ہندوستان :
فارس کی آج مینی سلطنت کو فتح کرنے کے بعد فاتح سکندر اب ہندوستان کو بھی زیر کرنا چاہتا تھا کیونکہ اسے اچھی طرح یاد تھا کہ ہندوستانی بادشاہ پورس نے اس کے حریف دارا کی مدد پر آمادگی ظاہر کی تھی بلکہ فوج کا ایک دستہ بھی بھیجا تھا۔ اس کے علاوہ سکندر اپنی تعظیم الشان سلطنت کے جائیگی میں کسی ایسے طاقتور حکمران کا وجود کیسے برداشت کر سکتا تھا جو اس کے لیے خطرے کا باعث ہو۔ اس لیے اس نے مقدونوی فوجیوں کا جذبہ مدھم پڑنے سے پہلے پنجاب پر چڑھائی کرنے کی منصوبہ بندی مکمل کر لی اور سکندر مئی ۳۲۷ ق م میں ایران سے ہندوستان کی طرف روانہ ہوا۔ ہندوکش پہاڑی سلسلہ عبور کرنے کے بعد ایک شہر موجودہ جلال آباد پہنچا۔ افغانستان کے تمام پہاڑی لوگوں اور قبائل پر قابو پانے کے بعد اس نے اپنی فوج کے دو حصے کیے۔ ایک کا کمانڈر جنرل ہیفائشن جبکہ دوسرے کا سر براہ جنرل پر ڈیکاس اور خود ایک حصہ فوج کے ساتھ جلال آباد سے سیدھا دادی کنمبر کا راستہ ٹیکسلا کی طرف کوچ کیا اور جنرل پر ڈیکاس ایک حصہ فوج کے ساتھ سکندر کے پیچھے پیچھے چلتا رہا جبکہ اول الذکر حصہ دریائے کابل کے ساتھ ساتھ گندھارا (نیکلا) کی طرف روانہ ہوا۔
یہ دونوں فوج کے حصے مختلف قبائل کو زیر کرتے ہوئے مارچ ۳۲۶ ق م کے وسط میں دریائے سندھ کے مقام (اٹک) کے پاس پہنچے۔ دریائے سندھ کو پار کرنے کے بعد تمام فوج ٹیکسلا پہنچی جس کا راجہ ابھی انتظار کر رہا تھا۔ یادر ہے کہ سکندر کی فوج نے ابھی دریائے سندھ پار نہیں کیا تھا کہ ٹیکسلا کے بادشاہ کی طرف سکندر کا اینچی آیا۔ یونانی مورخ کیورٹیٹس کے بیان کے مطابق کہ راجہ ا سبھی نے سکندر کے اچھی کی اچھی طرح دیکھ بھال کی اور اطاعت کا وعدہ بھی کیا۔ اس نے اینچی کے ساتھ بہت سارے تحائف اور اپنی طرف سے سفارت بھیج کر مقدونوی فوج کے ہاتھ مضبوط کرنے کا بھی وعدہ کیا۔ اس طرح راجہ ابھی سکندر کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ سکندر ۳۲۶ ق م اپریل کے اول میں ٹیکسلا پہنچا جہاں راجہ ابھی نے مقدونوی فوج کی خوب میزبانی کی۔ سکندر ایک ماہ تک ٹیکسلا میں رہا اور اس دوران سکندر نے اپنے سی آئی ڈی کے افسران کو طلب کیا اور ان کے ذمے تمام جنوب مشرق کے علاقوں کی رپوٹ مانگی جس کے لیے راجہ ابھی کے آدمی بھی سکندر کے لوگوں کی مدد کے لیے ساتھ ساتھ رہے ۔ انہوں نے ٹیکسلا سے لے کر دریائے جہلم تک تمام علاقوں کے متعلق رپورٹ پیش کی ۔
اس رپورٹ کو دیکھنے کے بعد سکندر نے حسب دستوران بادشاہوں کی طرف اپنے اپنچی بھیجنے کا فیصلہ کیا جس میں صرف ابھار کا راجہ بھیٹر میں جو موجودہ پنڈی کے گردنواح کے علاقوں کا حکمران تھا، اطاعت قبول کرنے پر راضی ہو جنوبی ایشیا گیا جبکہ یہی راج اس سے پہلے پورس کے ساتھ گھ جوڑ کر چکا تھا کہ سکندر کی فوج کے ساتھ لڑائی میں وہ ہندی فوج کی مدد کرے گا۔ اس کے لیے وہ تیاری بھی کر رہا تھا لیکن راجہ ابھی کے مشورے ارتقائی عمل سے انہوں نے اپنا سفیر سکندر کے پاس روانہ کر دیا۔ ڈیوڈ رس باب ۱۷ صفحہ ۸۷ کے بیان کے حاصل ہے مطابق اس راجہ نے اپنے سفیر کو بہت سارے اعلیٰ قسم کے تحائف اور اپنے تمام مقبوضات کو سکندر کے حوالے کرنے کا اعلان نامہ بھی بھیج دیا۔ جس سے سکندر کو یہ امید ہوئی کہ اب اس راجہ کی طرح پورس بھی سر تسلیم خم کر دے گا۔ یہ بات بھی اس کے دماغ میں بار بار شوشا کر رہی تھی کہ سکندر! کب ٹیلوں میں تم ہندوستان کے آخری سرے، جسے یونانی سورج کی دھرتی یعنی سورج جہاں سے نکلتا ہے، تک پہنچو گے؟ کیونکہ اب جب یونانی فاتح ہندوستان میں وارد ہو چکا اور اس نے کچھ حصہ پر قبضہ کر لیا تو اس وقت اس کے سامنے پورے ہندوستان کا نقشہ ظاہر ہو چکا تھا۔
اب صرف اور صرف سکندر کے سامنے مشکل اور ایک دیوار کی طرح بند باندھے ہوئے تھی تو وہ راجہ پورس کی با صلاحیت اور طاقتور فوج تھی جس کی قوت سے صرف سکندر ہی نہیں بلکہ اس کی پوری فوج گھبرارہی تھی۔ سکندر پہلے دیکھ چکا تھا کہ ہندوستانی بادشاہ کا ایک فوجی دستہ جس میں خونخوار جنگی ہاتھی بھی شامل تھے، ان سے لڑنے کے لیے ایران تک جاپہنچے تھے۔ اس کی باہمت فوج اپنے ملک سے ہزاروں میل دور اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہی تھی تو اس کی اپنے ملک اور اپنے ہی وطن میں کیا صلاحیت ہوگی؟ یہ سب باتیں سکندر کے دل و دماغ میں چکرا رہی تھیں جب وہ ٹیکسلا میں راجہ ابھی کے پاس ظہرا ہوا تھا۔ آخری وقت میں راجہ ابھی کی چال بازی اور حکمت عملی نے کام کر دکھا یا جب کوہستانی علاقے انکسار کے راجہ ابھشیر میں نے سکندر کی اطاعت قبول کر لی کیونکہ اس سے پہلے یہ راجہ پورس کے ساتھ مل کر سکندر کی فوج سے مقابلے کے لیے تیاری کر رہا تھا۔
سکندر نے دیکھا کہ پورس کے قریبی ہمسایہ ریاست کے راجہ بھی ابھی کی طرح ہمارے ساتھ پیل چکا ہے اور فوجی امداد کی یقین دہانی بھی کروادی ہے۔ اب یونانی فوج کی ہمت بڑھ گئی۔ سکندر نے سب دستور اپنا اپنی کلیو کیرس بھیجا اور پیغام دیا کہ دوسرے ہندوستانی حکمرانوں کی طرح پورس بھی ان کی اطاعت قبول کر لے اور یونانی بادشاہ کی خدمت میں اپنا سفیر بھیج کر اطاعت کا وعدہ بھی کرے۔ ساتھ اپنی ریاست کی سرحد پر یونانی شہنشاہ اور فوج کا استقبال بھی کرے۔ اس پر پورس نے جواب دیا، اور اس جواب کو فردوسی نے اپنے شاعرانہ انداز میں تحریر کیا ہے کہ وہ غرور سے بولا کہ ہاں ہاں ! ہم اپنی سرحد پر ضرور ملاقات کریں گے لیکن یہ کسی دستر خوان پر نہیں بلکہ میدان
جنگ میں ہوگی ۔
سکندر نے جب یہ جواب سنا تو اس نے اپنی فوج کو کوچ کا حکم دیا۔ یوں یونانی فوج نے مئی ۳۲۶ کے وسط میں ٹیکسلا سے کوچ کیا۔ اس وقت یونانی فوج کے ہمراہ ۵۰ ہزار فوجی اور ۸۵ جنگی ہاتھی بھی تھے جو راجہ اسبھی نے بطور امداد دیے تھے۔ اس طرح یونانی فوج مئی کے آخر تک دریائے ہائیڈا سپس یہ نام یونانی مورخین نے دیا تھا، اصل نام دریائے جہلم کے مغربی کنارے پہنچے۔ یہ ۱۰ میل کا فاصلہ ہے ٹیکسلا سے دریائے جہلم تک جو یونانی فوج نے ۱۵ دنوں میں ملے کیا۔ اس ست رفتاری کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔ سکندر ٹیکسلا سے روانگی سے قبل اور دریائے جہلم تک پورس اور اس کی فوجی صلاحیت کا بغور جائزہ لیتا رہا۔ بالکل اسی طرح جیسے آجکل فاتح امریکہ محلے سے پہلے اس ملک کی جنگی صلاحیت کا جائزہ لیتا ہے اور پھر اسے ارد گرد کے ہمسایہ ریاستوں سے تنہا کر کے حملہ کرتا ہے۔ جیسا کہ امریکہ نے عراق اور افغانستان میں کیا۔ سکندر بھی امریکہ کی طرح فاتح عالم تھا لیکن پورس کی فوجی طاقت اس کو اس طرح ڈرا رہی تھی کہ وہ پھونک چھونک کر قدم بڑھارہا تھا۔ سکندر پورس کی ہمسایہ ریاستوں، جن میں دوست اور دشمن دونوں شامل تھے، پورس کے خلاف کرنے اور اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ تمام انتظامات مکمل ہونے کے بعد سکندر اپنی فوج، جس میں ٹیکسلا کی فوج بھی شامل تھی، دریائے جہلم کے مغربی کنارے پہنچا تو تیز بارشوں کا موسم تھا۔ یونانی فوج کے لیے یہ سفر بھی بہت مشکل اور دشوار تھا۔
سکندر نے ٹیکسلا سے دریائے جہلم تک کون سا راستہ اختیار کیا؟ جنرل چیسنکی کے خیال کے مطابق سکندر نے جہلم کے لیے سیدھا راستہ اختیار نہیں کیا بلکہ وہ کوہ نمک کے جنوبی سرے سالٹ ریخ) کے علاقوں سے ہوتا ہوارہ بتاس اور ٹلہ جوگیاں کے جنوب میں براقع بھنڈ رندی کی گزرگاہ سے ہوتے ہوئے جلال پور شریف کے شمال میں جہلم کے کنارے پہنچا۔ تھم بھی جنرل چیسنکی کی اس رائے سے متفق ہیں۔ وہ بھی مراقم ہیں کہ سکندر نے پنڈی مانکیالا، روہتاس کا راستہ اختیار نہیں کیا بلکہ جنوبی ڈھڈیال، اسمانوت، ونگ سے ہوتے ہوئے جلال پور پہنچا جبکہ یورپی تاریخ دان ملتے ہیں اے برنس، جنرل کورٹ ، جنرل ایبٹ ، وی اے سمتھ اور ای آر بیوان مذکورہ بالا مورخین کے بیانات سے متفق نظر نہیں آتے ۔ ان تمام کے خیال میں سکندر نے بالکل سیدھا راستہ اختیار کیا یعنی درہ بکوالہ شاہ ڈھیری اور روہتاس سے ہوتا ہوا جلال پور پہنچا۔ قدیم مورخ سڑا بو نے بھی موخر الذکر آبادی – مورخین کے بیانات کو صحیح تسلیم کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ سکندر ہمیشہ اپنی نقل و حمل کے لیے پہاڑوں کے دامن کو ترجیح دیتا تھا کیونکہ کھلے میدانوں کی نسبت پہاڑی سلسلہ میں دریاؤں کے پاٹ بہت کم اور کنارے سخت ہوتے تھے۔ اس طرح دریا پار کرنا آسان ہوتا تھا۔ چنانچہ سکندر کیسے کرا جب دریائے جہلم کے مغربی کنارے پہنچا تو دریائے جہلم کے دوسرے کنارے پر اس کا حریف پورس اپنی فوج کے ساتھ خیمہ زن تھا۔
سکندر ودریائے جہلم کے مغربی کنارے:
اب یونانی فوج دریائے جہلم کے مغربی کنارے جلال پور شریف کے سے ۲ میل شمال مشرق میں اور سید پور سے ۴ میل تک جبکہ شاہ کبیر سے ۶ میل کے فاصلے تک پھیلی ہوئی تھی۔ دریائے جہلم اس وقت موسم برسات اور ساتھ ساتھ برف کھلنے کی وجہ سے خوب طغیانی میں تھا۔ یہاں دریا کا پاٹ ۸۰۹ گز تھا۔ ساتھ ہی دریائے جہلم ایسا تند خو اور جوشیلا محسوس ہورہا تھا کہ اس کو پار کرنا صرف مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن لگ رہا تھا۔ دریا کی دوسری جانب پورس جیسا با صلاحیت مین ایک دیوار کی صورت میں خیمہ زن تھا۔ ہندی فوج جس کی تعداد تقریبی ۵۰ ہزارتھی، دیویکل ہاتھیوں، گھوڑوں کی قطاریں، بگھیوں کی لائنیں، خیمے اور قاطیں، ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہ کوئی بار وفق تر ہے۔ اس حالت میں یونانی فوج کے لیے دریائے جہلم کو پار کرنا، جب مہیبت ناک ہاتھیوں کی مسلسل نگرانی نجس ، اعصاب شکن، ہوشیار اور توقعات سے بڑھ کر فوج تناؤ کا شکار نظر آرہی ہو، مشکل تھا۔ ایرین کا بیان ہے کہ یہ بالکل ظاہر تھا کہ یونانی سواروں کے گھوڑے جن پر سکندر کو ناز تھا، ان ہندی دیو ہیکل ہاتھیوں کے مقابلے میں ان بلند قطاروں تک نہ پہنچ سکیں گے جہاں خونخوار اتھی ایک دیوار کی طرح موجود تھے۔
اس لیے ان مشکل حالات اور ان کے حل کے لیے کسی سیاسی حکمت عملی کی ضرورت تھی جس کے لیے سکندر کو کچھ دن انتظار کرتا تھا۔ اس وقت سکندر نے اپنے جنرل کو سنوس کو حکم دیا کہ دریائے سندھ کو عبور کرنے کے لیے جو کشتیاں بنائی گئی تھیں ان کو توڑ کر لایا جائے اور ان کو دوبارہ جوڑ کر دریا پار کرنے کے قابل بنایا جاسکے۔ ان کشتیوں کو دوبارہ جوڑ کر دریا پار کرنے کے لیے ایک بیڑا تیار کیا گیا۔ یونانی فوج کو دو نگلیس در پیش تھیں ۔ ایک تو ان کے سامنے ٹھاٹھیں مارتا ہوا دریا تھا جبکہ دوسرا مشرقی کنارے پر طاقتور بندی فوج جو دشمن کے ساتھ لڑائی کے لیے تیار کھڑی تھی، موجود تھی۔ یونانی فوج یہ دیکھ چکی تھی کہ پورس کو دست بدست لڑائی میں شکست دینا اتنا آسان کام نہیں ، جتنا وہ سمجھ رہے تھے۔ ضرور ان حالات میں یونانی فوج میں خوف کی فضا پائی جاتی ہوگی۔ اسی وجہ سے سکندر کی فوج ایک ا تک مغربی کنارے پر انتظار کرتی رہی اور کسی نہ کسی موقع کی تلاش میں رہی۔ دوسری جانب پورس کی فوج راستہ روکنے اور حملے کو پسپا کرنے کی لگا تار کوشش میں تھی۔
اس لیے ہندی فوج نے دریا کی نگرانی سخت کر دی۔ اس عرصہ میں یونانی فوج نے کئی بار دریا عبور کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے کیونکہ ان کو ہر بار ہندی فوج شکست دے کر پسپا کر دیتی تھی۔ اگر چہ سکندر اپنی فوج کو اکتوبر تک انتظار کرنے کا مشورہ دے چکا تھا لیکن وہ مسلسل کسی ایسے مقام کی تلاش میں تھا کہ جہاں سے کسی وقت دریا عبور کیا جائے ۔ دوسری طرف مسلسل نگرانی اور عین اس وقت جب دریا عبور کیا جارہا ہو، اس صورت میں پورس کی فوج کے یونانی فوج پر حملے کے امکان کو مد نظر رکھتے ہوئے سکندر پریشان تھا۔ سکندر مزید کچھ عرصہ انتظار کرتے ہوئے ایسے خفیہ راستے کی تلاش میں تھا جس سے پورس کوخیر نہ ہو اوروہ دریا عبور کرے۔ ویسے بھی دریا کے مغرب کا ام علاقہ اور آباد قابل عمران سکندری امداد میں تھے اور عقب سے یونانی فوج کو کوئی خطرہ نہ تا۔ سکندرکو مقامی خبروں اور جاسوں کا تعاون بھی حاصل تھا۔ دوسری طرف مسلسل ٹیکسلا کا راجہ ھی یونانی فوج کی ہرطرح سے کر رہاتھا مال اور فوجی لحاظ سے ابھی کا تعاون بر وقت پہنچ رہا ھا کیونکہ راجہ ابھی اپنے دشمن پورس کی شکست چاہتا تھا۔ اس کے خیال میں یہ منصوبہ بھی تیار تھا کہ اگر ہندوستان کے علاقے سکندر کے قبضے میں آگئے تو وہ تمام تر اس کے تصرف میں آجائیں گے۔
اس کی ایک تو سلطنت میں وسعت پیدا ہو جائے گی ، دوسرا دشمن کی طرف سے خطرہ بھی ٹل جائے گا جو میشہ ابھی کے سر پر سوار رہتا تھا راجہ ابھی اور پورس کے درمیان کئی مرتبہ جنگ ہو آبادی – بھی تھی، اس لیے ابھی یونانی فوج کی دل کھول کر مد کر رہا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی طرح اس کے دشمن پورس کی فوجی قوت کمزور پڑ جائے۔ اس لیے راجہ ابھی سکندر کے سامنے سب کچھ پیش کرنے کے لیے تیار ہو گیا۔
آرین کے بیان کے مطابق کہ اس وقت ٹیکسلا کے بادشاہ راجہ ابھی نے چاندی کے ۲۰۰ توڑے، جن کی مالیت سونے کے ۱۵ توڑے بنتی ہے، سکندر کو پیش کیے۔ اس وقت ایک تو ڑا تین ہزار سونے کے سکوں، جنہیں ورک کہا جاتا تھا، کا ہوتا تھا۔ ایک ورک کی قیمت ۵ ڈالر کے برابر لائی جاسکتی ہے۔ اس طرح راجہ اسبھی نے ۴۵ ہزار ورک جن کی مالیت ۲۲۵۰۰۰ ڈالر نتی ہے یونانی فوج کو دیے اور ان کے علاوہ تین ہزار بیل ، دس ہزار بھیٹریں، ۷۰۰ گھوڑے، تھی اور پانچ ہزارفوجی ساتھ ہی اپنی خدمات اور حاضری، یہاں تک کہ دار الحکومت ٹیکسلا بھی یونانی فوج کے لیے خالی کرنے کی بھی پیش کش کی تھی ۔ ابھی سکندر کو اتنی بڑی تعداد میں امداد اور وجی سے اقتدار کی کیا وجہ ہوتی تھی اس کا جواب یہ ہے کہ راجہ ابھی کے دماغ میں دو مقصد تھے۔ ایک تو یہ کہ سکندر کا اعتماد حاصل کر لے اور دوسرا یہ کہ یونانی فوج کی قوت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے ارد گرد کے ماحول کو دشمنوں سے صاف کر لے۔ یہی وجہ تھی کہ ابھی خود پانچ ہزار اہوں کے ساتھ سکندر کی حفاظت پر مامور تھا۔ وہ یونانی فوج کے عقب میں ہر خطرے سے نمٹنے کے لیے تیار تھا۔ اس لیے سکندر بے فکر ہو کر اپنی تمام تر توانائی صرف اور صرف پورس اور اس کی فوج کے خلاف استعمال کر رہا تھا۔ ایک طرف سکندر ایک خفیہ راستے کی تلاش میں تھا کہ کسی طرح پوری کو کانوں کان خبر بھی نہ ہو اور دریا عبور کر لیا جائے ۔ دوسری طرف مشرقی کنارے پر پورس بھی زیہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے اپنے ہاتھیوں سمیت یونانی فوج کی مخالف سمت پیش قدمی کرتا رہتا تا ہی رات ملے پسپائی ، پیش قدمی ، تعاقب اور آنکھ مچولی ہوتی رہتی تھی۔ اسی دوران جنگی جھنڑ میں ہوتی رہیں اور فوجی اسلحہ سے لیس اپنی تلوار میں ہاتھوں میں لیے کشتیوں پر سوار ہو کر مسلسل دریا میں گشت کرتے رہے۔
کبھی کبھی بڑھتے ہوئے جزیروں پر چڑھ جاتے اور دونوں اطراف کے فوجیوں کے رمیان مقابلہ ہوتا۔ ایک روز یونانی فوج کے کمانڈ رسما کوس اور نکانو کچھ جذباتی سپاہیوں کے ہمراہ ایک چھوٹے سے جزیرے اترے جہاں پہلے سے پورس کے فوجی موجود تھے۔ ان مقدو نوی حملہ آوروں نے کچھ ہندی فوجیوں کو ہلاک کر دیا تاہم پورس کی طرف سے فوج کا ایک دستہ جب اس آباے پر پہنا اور مقدونوی فوجیوں پر جوابی حملہ کیا تو کافی تعداد میں سکندر کے فوجی ہلاک ہو گئے اوران میں کچھ جان بچا کر واپس بھاگ گئے اور اپنے پڑاؤ میں جا کر دم لیا۔ اس معرکہ کو دیکھ کر پاس کی فوج میں مسرت و شادمانی جبکہ یونانی فوج میں مایوسی پھیل گئی ۔ ایک طرف دونوں کناروں پرنوجوں کے درمیان رسہ کشی اور جھڑ پیں جاری رہیں تو دوسری طرف سکندر کسی طرح دریا کو عبور کر نے اور پورس پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کرتا رہا۔ تقریباً ایک ماہ انتظار اور لگا تار کوششوں کے بعد فوج کے اعلیٰ عہدیداروں یعنی سی آئی ڈی افسران کی مشاورت سے ایک ایسی جگہ کا انتخاب کر لیا گیا جہاں یونانی فوج خاموشی سے دریا عبور کر سکتی تھی ۔ یہ جگہ فوجی پڑاؤ سے تقریبا ۱۷ / ۱۸ میل جنوب شمال میں تھی جہاں سے دور پای مغرب کی طرف رخ موڑ لیتا تھا۔ یہ مقام جلال پور کے شمال مشرق میں واقع تھا۔ یورپی مورخین تخم اور تارن کی تحقیق کے مطابق جلال پور کے قریب ندر بال جبکہ آرین بھی جلال پور کے قریب کا مقام تسلیم کرتے ہیں۔
لیکن ایبٹ اور سمتھ کا خیال ہے کہ جلال پور کے قریب منڈیالہ اور کوٹھرا گاؤں کے درمیان کی پہچان دریا میں کوئی موڑ نہیں اس لیے یہ جگہ جہلم شہر سے کوئی ۱۵/۱۴ میل دور تھی لیکن سکندر کے ہم سفر ارتقائی عمل مورخین نے لکھا ہے کہ انہوں نے اپنے کیمپ سے ۱۷ میل دور جنوب میں دریا عبور کیا۔ اگر سکندر اپنے پڑاؤ سے شمال کی طرف جا کر دریا عبور کرتا ہے تو ایبٹ اور اسمتھ کا قول درست مانا جائے تین مرتبه اور اگر در یا جنوب جاکر عبور کیا گیا پھر تو ھم اور تارن، آرین کا خیال درست ہے۔ اتنا قدیم واقعہ جس کو ۲۳۰۰ سال گزر گئے ہیں، اس وقت اور آج کا دریا راستہ کافی حد تک تبدیل ہو چکا ہے۔ جو معلومات ہم تک پہنچی ہیں، وہ تمام کی تمام ان یونانی مورخین کے بیانات ہیں جو اس وقت سکندر کے ہم سفر تھے۔ وہ اجنبی ہونے کی وجہ سے علاقہ اور جگہ کے نام کا تعین نہیں کر سکتے تھے، اس لیے انہوں نے اندازہ لگا کر کہا کہ سکندر نے اپنے کیمپ سے تقریبا ۱۷ میل دور جا کر دریا عبور کیا ۔ جبکہ مقامی طور پر کسی بھی ہندوستانی قدیم تحریر یا مذہبی پرانا جات میں اس جنگ سے متعلق کوئی واضح بیان نہیں ۔ اس لیے تمام مورخین اس جنگ کے موقع محل اور جنگی کارنامے، فتح اور شکست کے صحیح نتائج جانے کیلئے مشکلات کا شکار ہے۔ اس بات کو دنیا میں عام کر دیا گیا کہ سکندر نے پورس کو ہوئی تھی جس کی تفصیل اس مضمون کے آخر میں آئے گی۔ کست دی جبکہ خود یونانی مورفین کے بیانات نے واضح کر دیا کہ شکست پورس کو نہیں بلکہ سکندر کو ہوئ تھی جس کی تفصیل اس مضمون کے آخر میں آئے گی۔
آخر کار سکندر نے اس مقام کا انتخاب کر ہی لیا جہاں سے انہوں نے دریا پار کرنا تھا۔ بہت محتاط طریقے سے نقل و حمل کی منصوبہ بندی کی گئی ۔ فوج کے دو حصے کیے گئے ۔ ایک حصہ خاص جو انہوں نے اپنی کمان میں ساتھ لے لیا ، جن میں شہوار گھڑ سوار، تیرانداز شامل تھے۔ جبکہ دوسرا حصہ فوج تھی جس میں ۵ ہزار ہندوستانی فوجی بھی شامل تھے ، دراجہ اسبھی نے بطور امداد دیے تھے۔ یونانی جرنیل پولی پر کان الکتاس ، آرا کوشین کمان میں کہا گیا کہ وہ اس وقت تک دریا کے مغربی کنارے اپنے کیمپ میں موجود ہیں ، جب تک کہ وہ دریا کی دوسری جانب ان دہشت کی علامت ہاتھیوں کو جنگ میں مصروف نہ کر لے۔ جب یہ تمام انتظام مکمل ہو گئے تو سکندر نے ایک ملک جنگی چال چلی۔ اس کے افسروں میں ایک اطلوس نام کا جنرل تھا جس کی شکل وصورت اور قد وقامت بالکل سکندر کے مشابہ تھی۔ مماثلت اتنی تھی کہ وہ کسی کو بھی شے میں ڈال سکتا تھا۔ سکندر نے بڑی چالاکی سے اطلوس کو شاہی تاج اور لباس پہنے اور سکندر کے ذاتی خیمے میں رہنے کی جازت دے دی۔ شاہی حفاظتی دستہ جو سکندر کی حفاظت کے لیے مامور تھا۔ بدستور تعینات رہا اور شاہی جھنڈ ابھی لہراتا رہا۔
باقی ماندہ فوج کو حکم دیا گیا کہ وہ نعرے بازی اور آگ کے بڑے بڑے آلا ؤ جلائے رکھیں اور ہندی فوج کے سامنے اپنی نقل و حمل پہلے کی طرح جاری رکھیں تا کہ پورس اور اس کی فوج یہ سمجھے کہ یونانی فوج ابھی تک اپنے کیمپ میں موجود ہے اور اس کا دریا عبور کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ دوسری طرف پورس جنگی حکمت عملی اور اپنی تمام تمام تر توانائی اس بات پر مرکوز کیے ہوئے تھا کہ سکندر کی فوج کسی طرح آسانی سے دریا عبور نہ کر سکے۔ پورس یہ چاہتا تھا کہ یونانی فوج جس وقت در یا عبور کر رہی ہو، عین اسی وقت ہندی فوج پر ہلہ بول دیا جائے تا کہ وہ جنگ کے لیے اپنی تیاری مکمل نہ کر سکے۔ اس حکمت عملی پر چلتے ہوئے پورس نے اپنے بیٹے اور ایک دوسرے کمانڈر کو خاص فوجی دستوں کے ساتھ یہ ذمہ داری سونپ رکھی تھی کہ وہ دریا کی مکمل نگرانی کریں تا کہ کہیں سے بھی سکندر کی فوج در یا آسانی سے پار نہ کر سکے۔ دوسری طرف مقد و نوی کمانڈر مسلسل اس کوشش میں تھا کہ موقع ملنے پر وہ کسی طرح خاموشی سے دریا عبور کر کے دشمن فوج پر حملہ کر دے۔ ایک رات جب بارش کے ساتھ تیز آندھی چل رہی تھی، آسمانی بجلی کی چمک اور دل دہلا دینے والی کڑک دار آوازیں ایسے خوفناک مناظر جیسے پہاڑیاں اور جنگل دہشت ناک انداز میں گونج رہے تھے، اس سیاہ رات میں سکندر نے اپنی فوج کو دریا عبور کرنے کا حکم دیا۔ مقدونی فوج نے ایسی حکمت عملی ترتیب دی کہ ہر ۱۰۰ سے ۵۰ گز کے فاصلے پر ایک ہرکارہ کھڑا کیا گیا جو ایک دوسرے کو دیکھ سکتے تھے۔
یہ فوج کے دونوں گروپ کے درمیان پیغام رسانی کا کام سرانجام دے رہے تھے۔ سکندرا اپنی آدھی فوج کے ساتھ آہستہ آہستہ چلتا ہوا آخر کار ایک ایسے مقام تک پہنچے میں کامیاب ہو گیا جہاں سے دریا میں موڑ تھا اور ایک دریائی نالہ اس دریا سے الگ ہو رہا تھا، اس کی وجہ سے ایک تو دریا کا پاٹ کم ہو جاتاتھا، دوسرادر یا مں پانی بھی کم تھا۔ رات کے تیسرے پہر جب بارش تھم چکی تھی اور بادلوں نے آسمان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا، سکندر نے اپنی فوج کے کمانڈروں کو حکم دیا کہ دریا یہاں سے پار کیا جائے۔ یونانی تاریخ دان ارسطو بولس کے بیان کے مطابق مقدونوی فوج وہ کشتیاں جو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ساتھ لائی تھی اور ان کو دوبارہ جوڑ کر کناروں پر موجود درختوں میں چھپارکھا تھا، کے ذریعے دریا عبور کرنا شروع کر دیا۔ گھڑ سواروں نے اپنے گھوڑوں کے ذریعے جبکہ باقی فوج اور اسلحہ ان کشتیوں پر لاد کر اپنا سفر شروع کیا۔ سکندر خود ایک بڑی کشتی پر سوار تھا جو اس قافلے کے کہ ایک آگے آگے چل رہی تھی۔ تاہم اس علاقے سے لاعلمی کی وجہ سے مقدونوی فوج اپنے ہدف کی بجائے ایک ایسے مقام تک جا پہنچی جہاں ایک جزیرے کی وجہ سے دریا کا پاٹ بہت چوڑا اور وسیع ہوتا چلا جاتا تھا جبکہ جزیرے کے ارد گرد پانی بھی گہرا تھا۔ گھڑ سوارا اپنے گھوڑوں کی گردن کے سوا پانی میں ڈوبے ہوئے تھے جبکہ تیراک فوج بھی گردن تک پانی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ دوسری طرف بارش کی وجہ سے اوپر کی طرف سے آنے والے پانی کے ریلے اتنے تیز تھے کہ یونانی فوج کے لیے سنجان مشکل تھا۔ اس صورت حال میں بہت سارے فوجی اور ساز و سامان پانی میں بہہ گیا۔
تمام یونانی فوج حوصلہ ہارگئی۔ خود سکندر بھی اس موقع پر اتنا بے چین ہوا کہ اس نے اپنے اعداد کے نام سے عالیہ کمات کہنا شروع کر دیے کہ اے اہل تھیز ! کیا تم یقین کرو گے کہ میں نے تمہاری وفاداری اور خوشی کے لیے ان خطرناک راستوں سے سفر اختیار کیا ہوا ہے، آپ ہی ہماری مدد کریں۔ آخر کار بڑی مشکل اور کئی جانوں کے ضائع ہونے کے بعد سکندر اپنی فوج کے ہمراہ در یا عبور کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ سب سے پہلا شخص سکندر تھا جس نے دریا کے مشرقی کنارے پر قدم رکھا۔ یہ کری کا میدان تھا، اس کے مشرق میں چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں تھیں اور یہ ۵/۴ میل تک پھیلا ہوا تھا۔ یہ وہ مقام تھا جہاں آج کل سروال ، بکڑ ال اور سکھ چین ، نکایا کے گاؤں آباد ہیں۔ دریا پار کرنے بعد سکندر میں درست کرنے ، تو پخانے اور گھڑ سوار دستوں کے ساتھ آگے بڑھنے کی تیاریوں میں مصروف ہی تھا ، یعنی ابھی سکندر کی فوجیں سنبھلنے نہ پائی تھیں کہ پورس کے بیٹے کی قیادت میں پنجابی فوج کے ایک دستے نے سکندر کا راستہ روک لیا۔ یونانی مورخ ارسطو بولس جو سکندر کے ساتھ تھا، کہتا ہے کہ پورس کے بیٹے نے سکندر پر دھاوا بول دیا۔ فوج کے اس دستہ میں بگھیاں شامل تھیں جبکہ تو لومی کا بیان ہے کہ ۱۲۰ بگھیاں اور دو ہزار فوجی شامل تھے۔
میدان جنگ :
ہم نے یونانی اور یورپی مورخین کے بیانات کو تفصیل کے ساتھ تحریر کیا ہے جس سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ سکندر نے اپنی کچھ فوج کے ساتھ دریا عبور کیا۔ یونانی فوج دریا کے مشرقی کنارے پر اتری ہی تھی کہ پورس کے بیٹے نے دو ہزار گھڑ سواروں کے ہمراہ سکندر کی فوج پر حملہ کر دیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مقدونوی کمانڈر اپنی آدھی فوج کے ساتھ خوفناک سیاہ رات اور بارش کے ساتھ ساتھ بھرے ہوئے طوفان میں دریا عبور کرنے کے لیے اپنے کیمپ سے بڑے خفیہ طریقے سے نکلے اور اس مقام سے جہاں سکندر اور پورس کی فوجیں مد مقابل خیمہ زن تھی ، تقریباً کامیل دور، اس سے سفر کم بھی ہو سکتا ہے، جہاں دریا بالکل دونوں اطراف سے گھنے درختوں میں گھرا ہوا تھا، پہنچے۔ رات کے تیسرے پہر یعنی صبح صادق سے کچھ دیر قبل، مقدونوی فوج نے در یا عبور کرنا شروع کیا اور صبح ہونے تک وہ مشرقی کنارے پر پہنچے گئے۔ اس بات کو تو تمام مغربی تاریخ دان بیان کرتے ہیں اور ہمیں بھی یونانی فوج کی حکمت عملی اور خفیہ کارناموں کو ضرور تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ سکندر نے بڑے احسن انداز سے یہ حکمت عملی ترتیب دی لیکن میرا سوال یہ ہے کہ ایک فاتح عالم جس نے اپنا سفر مقدونیہ سے شروع کیا تھا اور پورے ایشیا ، کوچک اور ایرانی شہنشاہ دارا جیسے طاقتور حکمر ان کو اپنے پیروں تلے روندتا ہوا دریائے جہلم کے مشرقی کنارے پہنچا تھا، وہ کون سے طاقتور ہاتھ تھے جنہوں نے اس فاتح عالم کو اس طرح پریشان کیا کہ وہ جنگ بندی کرنے پر مجود ہو گیا اور اسے اپنے تمام مفتوحہ علاقے اس کے حوالے کرنے کا اعلان کرنا پڑا۔ مجھے بڑا افسوس ہے ہندو پاک کے تاریخ دانوں اور مورخین پر کہ انہوں نے اس دھرتی اور اپنی مٹی کا حق نمک ادا نہیں کیا بلکہ انہوں نے ان یونانی تاریخ دانوں کے بیانات کو صحیح مان کر اس بات کی تصدیق کر دی کہ جہلم کی جنگ میں فتح سکندر کو ہوئی اور راجہ پورس گرفتار ہو کر مقدونوی کمانڈر کے سامنے پیش ہوا۔ حالانکہ یہ اس فاتح کے خلاف بہت بڑا پروپیگنڈا تھا جو اپنے وطن، اپنی ریاست، دھرتی اور علاقے کی عزت اور وقار کی خاطر اپنی جان دینے تک تیار ہو گیا ۔ فاتح عالم کو دریا جہلم کے مغربی کنارے سے لے کر کابل، ایران، ایشیاء کو چک، مصر اور مقدونیہ تک مکمل سپورٹ اور حمایت حاصل تھی۔
دریا جہلم کی دوسری جانب موجود ہندوستانی حکمران پورس کے لیے ہر طرف سے امداد کے گیری دا راستے بھی بند کر دیے گئے تھے۔ یہاں تک کہ پورس کے وہ ساتھی جو اس سے پہلے وعدہ کر رہے تھے کہ اگر آپ فاتح عالم کے خلاف مزاہمت کرتے ہیں تو ہم آپ کے ساتھ ہیں ، وہ بھی جنگ کے کیسے کرنا وقت وعدہ خلافی کر کے مقد د نوی فوج کی مدد کرتے رہے۔ ان تمام حالات کے باوجود یہ عظیم لیڈر دشمن فوج کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی مانند پر عزم انداز سے ڈٹا رہا اور دشمن فوج کی ایک ایک حرکت کو بڑے احسن انداز سے دیکھتا رہا۔ ہم نے ارسطو بولس کے بیان کو دیکھا جس میں انہوں نے کہا کہ پورس کا بیٹا فوجی ٹیم کے ساتھ جاسوسی کے لیے گشت کر رہا تھا کہ حادثاتی طور پر سکندر کی فوج سے جا کرایا۔ میرے خیال کے مطابق پورس نے مقدونوی فوج کے اس دستہ کے مقابلے میں ا قاعدہ جنگی فوج ٹیم روانہ کی تھی جس کی قیادت س کا بیٹا کر رہا تھا۔ اس وقت دریا کے اندر موجود پارس کے فوجی نو جوانوں نے خبر دی ہوگی کہ جب سکندر کی فوج کا ایک حصہ اپنے کیمپ سے روانہ ہوا تھا۔ ہندی فوج کے جاسوس اس مقدونوی فوجی دستہ کی مکمل نگرانی کرتے رہے ہوں گے اور چین فوج کی تمام حرکات کو دیکھتے رہے ہوں گے ۔ اس کی اطلاع لمحہ بہ لمحہ پورس کو پہنچتی رہی ہوگی۔ جب پورس کو یہ اطلاع ملی ہوگی کہ یونانی فوج کا ایک دستہ دریا پار کرنے کی کوشش میں مغربی کنارے کے ساتھ ساتھ چل رہا ہے تو ضرور پورس نے دشمن کے مقابلے کے لیے فوجی دستہ روانہ کیا ہو گا جو تمام ضروری اسلحہ سے لیس تھا۔
ہاں ایک غلطی ہندوستانیوں سے ضرور ہوئی کہ وہ یہ اندازہ نہ لگا سکے کہ کیا خود سکندر کیمپ میں ہے؟ یا اس دستہ میں شامل ہے جو دریا عبور کرنے کی کوشش کر رہا ہے؟ ہندی فوج نے یہ سمجھا ہوگا کہ سکندر خود تو پڑاؤ میں موجود ہے اور اس کا جنرل کچھ فوج کے ساتھ و یا عبور کرہا ہے۔ مورخین کے بیان کے مطابق ایسا پہلے کئی مرتبہ کیا گیا تھا جس میں مقدونوی فوج نا کام ہوتی رہی تھی۔ میرے خیال میں پورس سے ایک بڑی غلطی یہ ہوئی تھی کہ وہ یہ نہ سمجھ سکا کہ یونانی بادشاہ اسی دستہ میں شامل ہے۔ اگر پورس کو یہ بات معلوم ہو جاتی کہ سکندر خود اپنی فوج کے آدھے حصہ کے ساتھ دریا پار کر رہا ہے تو پھر پورس بھی خود اچھی خاصی فوجی قوت کے ساتھ سکندر کے مقابلے کے لیے جاتا۔ آپ جنگی تاریخ کا مطالعہ کر لیں۔ جنگ میں اصل ہدف فوج کا سپہ سالار یا حاکم ہوتا ہے، جیسا کہ آپ نے دیکھا ایرانی فوج کو شکست کیوں ہوئی ؟ دارا خود دوران جنگ میدان سے غائب ہو گیا تو اس کی فوج نے سکندر کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ اس لیے اگر پورس کو سکندر کے بارے میں یقین ہو جاتا تو پورس پوری طاقت کے ساتھ حملہ کرتا۔ اس موقع پر ممکن ہے کہ سکندر کا کام تمام کر دیتا لیکن اس کو اطلاع مقعد دونوی فوج کے ایک دستے کی تھی، اس لیے اس نے ایک کمز ور حملہ کیا۔ لیکن یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ پورس کا بیٹا سکندر کے سامنے اچانک نمودار ہوا ہو ۔ دریا کے دونوں کناروں پر ایک جیسی حکمت عملی تیار کی گئی تھی۔
سکندر اگر اس خیال میں تھا کہ وہ ہندی فوج کی لاعلمی میں دریا عبور کر لے گا تو یہ اس کی خام خیالی تھی۔ ادھر پورس کے فوجی دستے سکندر کے تعاقب میں ان کے ساتھ ساتھ پیش قدمی کر رہے تھے ۔ جو نہی سکندر اور اس کی فوج نے دریا عبور کر کے خشکی پر قدم رکھنا چاہا، آگے پورس کے بیٹے نے دشمن فوج پر حملہ کردیا۔ ہم یہ پہلے بیان کر چکے ہیں کہ ہندوستانی فوج سکندر کی فوجی طاقت کا صیح اندازہ نہ لگا سکی تھی، اس لیے جلد بازی میں مختصر فوجی قوت کے ساتھ حملہ کیا گیا۔ پھر بھی ہندوستانی سپاہیوں نے بڑی دلیری کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کیا اور مقدونوی فوج کو کافی نقصان پہنچایا۔
حملہ کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تولومی کا بیان ہے کہ اس حملے میں سکندر خود بھی بھی ہوگیا اور اسکا گھوڑا ابو فالس بھی ہلاک ہو گیا۔ مورخ جٹسن کا بیان ہے کہ جب سکندر کا گھوڑا منہ کے بل زمین پر آگرا، اس وقت اگر فورا سکندر کے معاونین اور محافظ دستہ اس کی طرف نہ لپکتا تو مکن ہے کہ سکندر گھوڑے کی طرح خود بھی ہلاک ہو جاتا۔ سکندر نے اس اچانک حملے میں شکست کے پیش نظر اپنی فوج کو پیچھے بہنے کا حکم دیا۔ مقدونوی دستوں نے دریا کے کنارے گھنے درختوں کی آڑ میں خود کو منظم کیا۔ سکندر نے فوج کی صفوں کو درست کیا اور تیر اندازوں اور گھڑ سواروں کو دوبارہ پیش قدمی کا حکم دیا۔ پورس کے دستوں کو دو طرح کی مشکلات قطع ساء گیری ده در پیش تھیں۔ ایک تو یہ کہ وہ دشمن کی نسبت تعداد میں کم تھے جبکہ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ بارش کی وجہ کیسے کرنا سے پانی خاصا جمع ہو چکا تھا جس سے زمین چکنی ہو گئی تھی۔ ہندی فوج کی بگھیاں کو چلنا مشکل ہو گیا کیا، ان تھا۔ یعنی ان کے لیے دشمن کا مقابلہ نامکن ہو کر رہ گیا تھا۔ پورس کے فوجی سکندری فوج کے تیروں احاطہ کیا سے بچنے کے لیے ان بگھیوں کی آڑ میں چھپ کر مقعد دانوی فوج پر تیر برسہار ہے تھے۔ تیراندازی کا یہ سلسلہ ابھی تک جاری تھا۔ اسی دوران راجہ پورس کو اطلاع کر دی گئی کہ سکندر خود اپنی آدھی فوج کے ساتھ دریا پار کر چکا ہے اور دونوں فوجی دستوں کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں۔
مورخ کیوریٹس کا بیان ہے کہ پورس کو جب یہ اطلاع ہوئی تو اس نے فورا اپنے بھائی ہگاس کو چار ہزار گھڑسوار اور ایک سو جھیوں کے ساتھ روانہ کیا اور دشمن فوج کو گھیرے میں لینے کا حکم دیا۔ بعد میں خود پورس بھی باقی ماند فوج کی صف بندی کرتا ہوا میدان جنگ کی طرف تیزی سے روانہ ہوا۔ مقدد نوی فوج جو ابھی تک دریا کے پار موجود تھی، اس کے مختلف سمت ایک مختصر فوج چھوڑی جس میں پانچ سو سپاہی اور ۳۵ ہاتھی تھے ۔ آرین کی تحقیق کے مطابق پورس جس فوجی دستہ کی کمان کر رہا تھا، اس میں چار ہزار گھڑ سوار، تین سو بکھیاں، دوسو ہاتھی اور تیں پیارے شامل تھے۔ ڈالیو ڈورس کہتا ہے کہ ایک ہزار گھڑ سوار ۵۰ پیادے اور ۱۳۰ گجھیاں تھیں جبکہ پلوترک کا بیان ہے کہ پورس کی فوج میں دو ہزار گھڑ سوار اور میں ہزار پیادے شامل تھے۔ ہم ان مورخین کی آرا کو تسلیم کرتے ہیں کہ پورس کی جو فوج تھی ، دو اس کے ہمراہ تھی۔ جب میدان جنگ میں پہنچا تو اس وقت دونوں فوجوں کے درمیان لڑائی جاری تھی۔ لڑائی میں دونوں طرف سے نقصان ہو رہا تھا لیکن ہندی فوجی دستے مقدونوی فوج کے دباؤ میں آرہے تھے۔ اس وقت میدانِ جنگ کے حالات اچانک تبدیل ہو گئے جب پورس اپنی باقی ماندہ فوج کے ساتھ نمودار ہوا۔ یونانی فوج پورس کے لشکر کو دیکھ کر سوچ میں پڑگئی کہ ہر طرف دہیکل ہاتھیوں، بڑی بڑی بگھیوں اور شہسواروں کے علاوہ ویشنو تخنیش دیوتا کی تصویر والے جنگی پر چم لہرا رہے تھے۔ یوں ہندی فوج ایک قلعہ نما شہر کا منظر پیش کر رہی تھی ۔ کیوریٹس اور پولیا نوس دونوں کا بیان ہے کہ یونانی صرف ان وحشی ہاتھیوں کو نہیں بلکہ خود پورس کو دیکھ کر بھی ششدر رہ گئے کیونکہ پورس ایک لمبے قد کا آدمی تھا۔
ہندی فوج کی جب صف بندی کی گئی تو اس میں سب سے آگے ۸۰ ہاتھی تھیں تیس گز کے فاصلے پر کھڑے کیے گئے اور ہاتھیوں کے پیچھے آتشیں ہتھیاروں سے لیس سپاہی تعینات کیے گئے۔ مورخ تارن کا بیان ہے کہ جب ہندی فوج کی صف بندی مکمل کی گئی تو پورس ایک طویل قامت اور عظیم ہاتھی پر سوار تھا جس کی وجہ سے وہ تمام لشکر سے نمایاں نظر آرہا تھا۔ اسے دیکھ کر یونانی فوجیوں میں عجیب کی ہیبت پیدا ہوگئی جو اس سے پہلے بائیں جانب ہتھیار سنبھالے جنگ کے لیے تیار کھڑے تھے۔ اب مجبوراً ان کو پیچھے ہٹنا پڑا ۔ سکندر جو خود بھی دشمن فوج کا بغور جائزہ لے رہا تھا، پریشان حال فوج کی اگلی صفوں میں پہنچا اور اس نے یونانی فوج سے خطاب کرتے ہوئے یہ تاریخی جملہ کہا کہ ہمارے سامنے ایک ایسا خطرہ موجود ہے جو ہماری ہمت و حوصلے کے شایان شان ہے، ہمیں وحشی ہاتھیوں کے ساتھ ساتھ غیر معمولی دلیری کے حامل فوجیوں سے ایک ساتھ مقابلہ کرنا ہے۔”
سکندر کے اس خطاب کے بعد یونانیوں نے اپنی صفیں درست کیں ۔ سکندر نے لڑائی کے لیے ایک سادہ حکمت عملی اختیار کی اور شکر کے دائیں اور بائیں جانب گھڑ سواروں کو تعینات کیا۔ درمیان میں برق رفتار دستہ سے یونانی بپاپتس کہتے تھے اور زرہ بند فالینکس کھڑے کیے گئے تھے اور شکر کے اردگرد ہتھیاروں سے لیس سپاہی تعینات کیے گئے۔ دریا کی دوسری جانب جو پڑاؤ میں یونانی شکر موجودتھا، اس کوحکم دیا گیا کہ جب تک وہ ان ہاتھیوں کو جو دہشت کی علامت سمجھے جاتے تھے ، جنگ میں مصروف نہ کر لیں ، اس وقت تک آپ انتظار کریں ۔ جو نہی ہندی فوج اور ہاتھی مصروف جنگ ہو جائیں تو آپ فورا عقب سے حملہ کریں گے۔ سکندر نے اپنی فوج کے دو حصے کیے۔ ایک کی کمان اس نے خود سنبھالی اور دوسرے کی جنرل کو ہنوس کے سپرد کی معلوم ۔ ایسا ہوتا ہے کہ یونانی فوج میں سکندر کا اہم ترین اور پر اعتماد جرنل کو ہنوس ہی تھا۔ سکندر نے گھڑ سواروں اور تیر اندازوں کی بڑی تعداد اپنے ساتھ رکھی اور خود ہندی فوج پر سامنے حملہ آور ہوا جبکہ کو ہنوس کے پاس پیادہ فوج زیادہ شہسوار کم تھے، اس لیے اس کو حکم دیا گیا کہ لڑائی کے دوران دشمن فوج پر کیسے کہ عقب سے حملہ کرتا ہے جبکہ ان کے سامنے پورس فوج بھی مکمل ہو چکی تھی۔
جنگ کا دوسرا حصہ:
جب دونوں اطراف سے جنگی حکمت عملی اور فوجی تیاری مکمل ہو گئی تو اس موقع پر جنگ ہے پہلے راجہ پورس نے سکندر کو اپنے حوالے کرنے اور گرفتاری کا حکم دیا کیونکہ وہی اس کا ذاتی ڈین تھا۔ مغربی مورخ جٹسن کا بیان ہے کہ سکندر نے اس مطالبے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے فوج کو عام حملے کا حکم دیا۔ مورخ تارن کا بھی بیان ہے کہ جب دونوں طرف سے فوجی تیاریاں مکمل ہوگئی ہے ر نے سکندر کوگرفتاری دینےکا حکم دیا یعنی والی کا مطالبہ کیا۔ ان حالات سے پوزیشن روان ؟ جاتی ہے کہ پورس اپنی فوجی قوت پر بھروسا کیے ہوئے تھا، نہ کہ کسی دباؤ میں تھا۔ اس نے یونانی فوج کو شکست دینے کا تہیہ کر رکھا تھا۔ سکندر نے کوئی موقع ضائع کیے بغیر فوج کو حملہ کرنے کا اشارہ کیا تو یونانی تیر انداز ہندی فوج پر تیزی سے حملہ آور ہوئے۔ سکندر خود شہسواروں کی کمان کر رہا تھا۔ تابڑ توڑ حملے شروع کر دیے گئے۔ پورس کے سپاہی ابھی تک اپنی صفوں میں تھے، اس لیے اچانک حملے کی وجہ سے پورس کی فوج دو حصوں میں بٹ گئی ۔ مغربی مورخین ، آرین جٹسن اور ڈایو ڈورس کے بیانات کو بدھا پرکاش نے بڑی تفصیل کے ساتھ تحریر کیا ہے کہ یونانی فوج کے پہلے حملے میں ہندی فوج کا کافی جانی نقصان ہوا۔ اس وقت پورس کی فوج دو مشکلوں میں پھنس گئی۔ ایک تو یونانی فوج کا حملہ اچانک اور اتنا شدید تھا کہ جسے روکنا مشکل تھا۔
پورس کا ایک اہم ہتھیار تجھیاں تھیں جو بارش کے پانی اور کیچڑ کی وجہ سے اس حملے کو روکنے میں نا کام ہو رہی تھیں ۔ اس موقع پر ہندی فوج کو مجبوراً پیچھے ہٹنا پڑا اور شہوار دوستوں کو دشمن فوج کا مقابلہ کرنے کا حکم دیا گیا۔ پورس کے گھڑ سوار دستوں نے دشمن فوج پر چاروں اطراف سے حملہ کیا ۔ یونانی فوج کا دستہ جو سکندر کی کمان میں تھا ، ہندی سپاہیوں کے گھیرے میں آگیا اور اس کو کافی جانی نقصان پہنچا۔ اس حملے میں سکندر کے کئی سپاہی اور گھوڑے بلاک ہو گئے لیکن پورس کے فوجی اس مشکل حالت میں پھنس گئے جب یونانی فوج کے جرنل کو ہنوس نے پورس کی فوج پر عقب سے حملہ کر دیا۔ یونانی فوج ہندوستانی فوج کی صفوں میں داخل ہو گئی۔ اس سے پورس کا لشکر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ سامنے سے سکندر نے دھاوا بول دیا جبکہ عقب سے کو ہنوس نے شدید حملہ کر دیا ، اب پورس کے سپاہی اپنا دفاع کرنے پر مجبور ہو گئے۔ گھڑ سواروں نے بھاگ کر بگھیاں اور ہاتھیوں کے پیچھے اور درمیان میں پناہ لی۔ اب پورس نے پیادہ فوج کو کاروائی کرنے کا حکم دیا لیکن یونانی شہسواروں کو غضبناک حملہ کرتے اور اپنے سپاہیوں کو ہلاک ہوتے دیکھ کر پورس نے فوراً اپنا اہم ہتھیار آزمانے کا فیصلہ کیا اور ہاتھیوں کی پیش قدمی کا حکم دیا ۔ دیو ہیکل وحشی ہاتھی دینے چنگھاڑتے ہوئے آگے بڑھے اور یونانی گھوڑوں کو اس طرح دہشت زدہ کر دیا کہ گھوڑے میدان جنگ سے بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔ ہاتھیوں کے حملوں سے میدان جنگ کا نقشہ تبدیل ہونے لگا تو سکندر نے دوبارہ اپنی فوج منظم کی ۔ ایک بار پھر یونانی گھڑ سوار حریف فوج پر حملہ آور ہوئے لیکن ہاتھی ایسی بلائیں تھیں جن کا توڑ یونانیوں کے پاس نہیں تھا۔ اب گھمسان کی ہی لڑائی ہو رہی تھی۔ ہر طرف لاشیں ہی لاشیں پڑی تھیں۔ دوست دشمن کی پہچان مشکل ہو نا تھی۔
ان ہاتھیوں نے یونانی لشکر میں خوف و ہراس پھیلا دیا ۔ ان کی دل دہلا دینے والی چنگھاڑوں نے صرف گھوڑوں، بلکہ یونانی فوجیوں کو بھی اس طرح خوف زدہ کر دیا کہ وہ صفوں کو تو ڑتوڑ کر بھاگنے لگے۔ وہ یونانی فوج جو تھوڑی دیر پہلے فتح مندی کے نعرے لگارہے تھے اب ان ہاتھیوں کے حملوں سے بچنے کے لیے گھنے درختوں میں چھپنے کی جگہ تلاش کر رہی تھی۔ ان بدلتے ہوئے حالات کو دیکھ کرسکندر نے اپنی اگر پانی اور تھر اشین بٹالین کو ہاتھیوں کے مقابلے کے لیے میدان جنگ میں اترنے کا حکم دیا۔ یہ فوج کا پیدل دستہ جو ہلکے ہتھیاروں سے مسلح تھا، دست بدست جنگ میں مہارت رکھتا تھا۔ اس نے ہاتھیوں اور مہاوتوں پر تیر کی بارش کر دی۔ مورخ ڈایوڈورس حملے کے بارے تحریر کرتا ہے کہ یونانی سپاہیوں نے مہاوتوں کے ساتھ ساتھ شفیع صاح ہاتھیوں کوبھی زخمی کر دیا۔ ان زخموں کی وجہ سے ہاتھی غضبناک ہو کر یونانیوں کو پاؤں تلے روندتے گیری دی ہوئے ان کا کچومر نکالنے لگے۔ زیادہ خوفناک صورت یونانیوں کے لیے اس وقت پیش آئی جب کیسے کر یہ ہاتھی یونانی سپاہیوں کو ونڈ میں لے کر اوپر بیٹھے مہاوتوں کے آگے پھینک دیتے۔ کئی مورخین نے کیا ، ان جنگ کی اس صورت حال کے متعلق لکھا ہے کہ اب یونانی فوج حملہ کرتے اور جب ہاتھی ان کی احاطہ کیا طرف بڑھتے تو وہ بھاگ کر قریبی جنگلات میں پناہ لیتے ۔
اس صورتحال کو دیکھ کر سکندر نے گھوڑوں پر موجود آتشگیر مادے کو آگ لگا کر ان ہاتھیوں کے بیچ میں چھوڑ دیا۔ گھوڑے آگ کی وجہ سے ادھر ادھر بھاگ رہے تھے ۔ ان گھوڑوں کے ساتھ ساتھ دوشی اتی بھی ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ یونانیوں نے بھاری کلہاڑوں اور غم دار تلواروں سے ہاتھیوں کے پیروں اور سونڈوں پر کاری ضربیں لگائی۔ مورخین کا بیان ہے کہ اس موقع پر زخمی جانور بلبلا اٹھے مہاوتوں کے لیے انہیں کنٹرول کرنا مشکل ہو گیا۔ زخمی ہاتھی پلٹے اور انہوں نے خود اپنی فوج کے ہی
کچھ سپاہیوں کو کچل کر رکھ دیا۔ اس صورتحال سے پورس اور اس کے جرنیلوں میں مایوسی پیدا ہوگئی۔ ان بدلتے ہوئے حالات کو دیکھ کر حضر دماغی اور حمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے پورس نے چالیس ہاتھیوں کا ایک دستہ اپنے ہاتھ میں لیا۔ ڈایوڈورس تفصیل سے لکھتا ہے جسے بدھا پر کاش نے اپنی کتاب میں تحریر کیا ہے کہ پورس ، جو ایک عظیم الشان ہاتھی پر سوار تھا، نئے حو صلے اور ہمت کے ساتھ دشمن فوج پر ٹوٹ پڑا۔ مورخ پلوترک کا بیان ہے کہ پورس کی طاقت تمام فوجیوں سے زیادہ تھی۔ اس کا قد اور زرہ بند چھاتی جو عام ہندستانی فوجیوں سے دگنی تھی، وہ جو نیزہ پھینکتا ، یونانیوں کو چیرتا چلا جاتا۔ اس موقع پر میدانِ جنگ کا جو نقشہ کیوریٹس نے بیان کیا ہے اور آرین بھی اس کی جائید کرتے ہیں کہ میدان جنگ میں دہشت ناک ہاتھی جھوم رہے تھے، مہاوتوں نے ہاتھیوں سے اتر کر ایک طرف پناہ لے لی تھی ، سکندر کے تمام شہسوار دستے اب ایک بٹالین میں جمع ہو گئے تھے اور ہاتھیوں پر ہلکے ہتھیاروں سے حملہ کرتے لیکن جب ہاتھی ان پر ٹوٹ پڑتے تو یونانی بھاگ کر جنگل میں پناہ لیتے۔ بے قابو ہاتھی ادھر ادھر جھوم رہے تھے ۔ وہ سامنے آنے والے ہر شخص کو روند ڈالتے یا سونڈ میں جکڑ کر ہلاک کر دیتے۔ اسی دوران جرنل کر اترس دریا عبور کر کے لڑائی میں شامل ہو گیا تھا۔
اس نے دشمن فوج کو کافی جانی نقصان پہنچایا۔ آٹھ گھنٹے جاری رہنے والی لڑائی میں دونوں اطراف سے کافی جانی و مالی نقصان ہوا۔ آرین اور کیورٹیس کے بیان کے مطابق اب پورس بھی زخمی ہو چکا تھا۔ اس کے دائیں کندھے پر گہر از غم آیا تھا جبکہ ہاتھی کے جسم میں بھی کافی تیر پیوست تھے۔ مہاوتوں نے پورس کو نیچے اتار کر آرام کرنے کا مشورہ دیا جبکہ دوسری طرف خود سکندر بھی زخموں سے چور چور ہو چکا تھا۔ اس کا گھوڑا زخموں کی وجہ سے نیچے گر گیا تھا۔ پورے میدان جنگ میں وحشی ہاتھی دہشت ناک حالت میں پھر رہے تھے۔ جس طرف ان کا منہ آتا بڑھتے جاتے۔ انسان حیوان جو بھی ان کے سامنے آتا ، وہ اس کو روند ڈالتے ۔ ان کو دوست دشمن کی کوئی پہچان نہ رہی تھی۔ دونوں فوجوں کے درمیان ایک فرق ضرور تھا، وہ یہ تھا کہ پورس کے سپاہی میدان جنگ ہی میں بگھیوں کے پیچھے پناہ لیے ہوئے تھے۔ ایک تو وہ دشمن فوج کے تیروں سے بچ جاتے ، دوسرا ان باقیوں کے حملے سے بچ جاتے تھے جو بے ہوشی کی حالت میں پورے میدان جنگ میں جھوم رہے تھے۔
یونانی فوجی ہاتھیوں سے بیچ کرحملہ کرتے لیکن جب یہ وحشی ہاتھی ان کی طرف لپکتے تو وہ بھاگ کر نگل میں پناہ لینے پرمجبور ہوجاتے۔ صبح سے شروع ہونے والی لڑائی مسلسل تیسرے پر جاری تھی۔ دونوں طرف کی فوجوں کا یقینا اتنا نقصان ہوا کہ جس کا کوئی حساب نہیں لگایا جاسکتا۔ ارتقائی عمل پاہیوں کے علاوہ یونانی فوج کے اکثر گھوڑے ہلاک ہو چکے تھے جبکہ پورس اور سکندر خود بھی شدید زخمی تھے۔ مورخ آرین اور تارن دونوں کا خیال ہے کہ سکندر کی فوج کا جانی نقصان زیادہ ہوا تھا۔ سکندر کے اس وقت حالات خراب ہو گئے جب یونانی سپاہیوں نے لڑنے سے انکار کر دیا۔ حثی (ایتھوپیائی ) عہد نامے سیوڈو کا ستھنز میں مغربی مورخ بیج کی تحقیق کے مطابق کہ یونانی آبادی کے فوجیوں نے ایک موقع پر یہ بھی کہ دیا کہ ہم ہتھیار پھینک کر پورس سے جاملیں گے۔ اسی مورخ والا کے نے مزید لکھا ہے کہ سکندر کے اکثر گھوڑے تہ تیغ کر دیے گئے تھے۔ یونانی فوجی روتے اور کتوں گیری دا کی طرح بین کرتے تھے۔ سکندر ان حالات کو دیکھ کر اپنے سپاہیوں کے درمیان آکھڑا ہوا۔ اس کہ ایک وقت سکندر خود بھی ذہنی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور پریشان تھا کیونکہ یونانی فوج میں مایوسی پھیل گئی تھی۔
فوج کا ایک بڑا حصہ برباد ہو گیاتھا۔ باقی فوج نے اکٹھے ہو کر لڑنے سے انکار کر دیا۔ کچھ مورٹین کا خیال ہے کہ ہر پانی فوج کا ایک گروپ جس میں یونانی چھنیز اور ایرانی شامل تھے۔ بغاوت کرنے اور میدان جنگ سے بھاگنے کی تیاری کر رہے تھے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے سکندر کے وفادار جرنیلوں نے جنگ روکنے اور امن معاہدہ کرنے کا مشورہ دیا۔ سکندر نے جنگ کا پانسہ پلٹتے دیکھ کر فورا جنگ بند کرنے کا حکم دیا اور اپنی فوج کی صفوں سے باہر نکل کر بلند آواز میں ہندی فوج اور بادشاہ کے نام پیغام دیا کہ اے پورس شہنشاہ ہند ! سنو میں تمہاری قوت اور بہادری کا اندازہ لگا چکا ہوں ۔ اب میرا دل شکست خوردہ ہے۔ مجھے اپنی تھکن کا احساس ہے۔ میں خود اپنی زندگی ختم کرنے کی کیفیت سے دوچار ہوں۔ میں اپنے سپاہیوں کو اس پر مجبور نہیں کرتا کہ وہ اپنی زندگیاں ہمارے لیے ختم کریں۔ حوالہ بدھا پر کاش صفحہ نمبر ۱۰۴ / ۱۰۵ جبکہ مورخ پلوترک بھی بیان کرتا ہے کہ سکندر لڑائی بند کرنے اور صلح کا خواہش مند تھا۔ پورس قطعی طور پر یونانیوں سے بات چیت کرنے پر آمادہ نہیں تھا۔ سکندر اور اس کی فوج مایوس ہو چکی تھی لیکن دوسری جانب پورس خود بھی شد ید زخمی تھا اور اس کی فوج کے بھی کافی سپاہی ہلاک ہو چکے تھے۔ ہندی فوج کی بھی خواہش تھی کہ کسی طرح لڑائی بند ہو جائے۔
جنگ بندی :
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لڑائی بند کیسے ہوئی اور کیوں ہوئی ؟ اس سوال کے جواب کے لیے ہم اپنا نقطہ نظریہ پیش کرنے سے پہلے ان مغربی مورخین کے بیانات کا مطالعہ کرتے ہیں جنہوں نے اس جنگ سے متعلق تحقیق کی ہے۔ ان تمام مورخین کے بیانات کو بدھا پرکاش نے این کتاب مہاراجہ پورس” میں تحریر کیا ہے۔ آرین کا بیان ہے کہ پورس میدان جنگ سے بھاگا نہیں تھا، وہ اس وقت تک لڑائی میں مصروف رہا جب تک ہندوستانی فوج متحد ہو کر لڑ رہی تھی۔ ترین کے بیان سے واضح ہو جاتا ہے کہ پورس قطعی طور پر لڑائی نہیں کرنا چاہتا تھا اور نہ سکندر سے کوئی شرائط یا امن معاہدہ کرنا چاہتا تھا۔ آرین نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ سکندر کا اچھی لیسلیس نامی شخص جب پورس کے پاس پیغام لے کر آیا تو پورس نے اس پر نیزے سے وار کیا ین المسلیس جان بچا کر بھاگ گیا۔ کیورٹیس جنگ کا اختتام کچھ یوں بیان کرتا ہے کہ سکندر پورس کے تعاقب میں خود جانا چاہتا تھا لیکن اس کا گھوڑا زخموں سے چورمنہ کے بل گر کر ہلاک ہو گیا تھا۔
سکندرکو گھوڑ ا تبدیل کرنے میں تاخیر ہو گئی، اس لیے ٹیکسلیس اپٹی کو بھیجا گیا ۔ کیورٹیس کا بیان ہے کہ پورس نے بلند آواز میں کہا کہ میں آپ کے بھائی کو جانتا ہوں جس نے سلطنت بیچ دی۔ اس کے ساتھ ہی پورس نے ایک زہریلا تیر سیلیس کو مارا جو اس کی پشت سے ہوتا ہوا سینہ سے نکل گیا۔ اس کے ساتھ ہی پورس نے اپنی فوج کی کمان سنبھالی اور یونانی دوستوں کا مقابلہ کرنے کے لیے دوبارہ پیش قدمی کی۔ کیوریس اس جھڑپ کے متعلق لکھتا ہے کہ مقدونوی سپاہیوں نے پورس کے لشکر پر نیزوں سے شدید حملہ کیا۔ اس حملہ میں پورس کو شدید زخم آئے۔ وہ ہاتھی سے نیچے اتر آیا بلکہ خودشا ہی ہاتھی بھی زمین پر بیٹھ گیا۔ کیوریش بیان کرتا ہے کہ اس موقع پر جب بہت سے ہندوستانی سپاہی اور ہاتھی پورس اور اس کے ہاتھی کے ارد گرد جمع ہو گئے تو سکندر کو گمان ہوا کہ پورس لڑائی میں مر گیا ہے۔ کچھ یونانی سپاہی پورس کی طرف بڑھے کہ اس کے جسم سے آہنی زرہ اور ہتھیار اتار لیں تو پورس کے ہاتھی نے خطرہ محسوس کرتے ہوئے پورس کو اپنی سونڈ کے ذریعے دوبارہ اپنی پشت پر سوار کیا۔ اس کے ساتھ ہی دوبارہ یونانی فوج نے پورس پر تیروں کی بارش کر دی جس سے اس کی موت واقع ہو گئی۔ اس کو ایک گاڑی میں بٹھایا گیا۔ معلم نہیں کہ کورٹیس جنگ کے اختتامی حالات لکھتے وقت کس حال میں تھے، ایک طرف انہوں نے کہا کہ پورس کی موت واقع ہوگئی، دوسری طرف بیان کرتا ہے سکندر جب زخمی پورس کے پاس پہنچا تو اس نے پورس سے سوال کیا کہ آپ مجھ سے کیسے سلوک کی امید رکھتے ہیں۔
گیری دا کیورٹی اور آرین کے بیانات میں کافی حد تک تضاد پایا جاتا ہے۔ کیورٹیس کا بیان کہ کیسے کرنا پورس زخمی ہونے کے باوجو د میدان جنگ سے باہر نکلا اور سکندر اس کا تعاقب کرنا چاہتا تھا لیکن گھوڑا زخمی ہونے کی وجہ سے ایسا نہ کر سکا۔ دوسرا بیان کہ پورس کے تعاقب سے پہلے سکندر نے فیکسلیس کو پورس کے پاس بھیجا تو پرس نے غصے میں آکر اسے نیزہ مارا جس سے وہ زخمی ہو گیا۔ کیوریٹس نے پہلا بیان دیا کہ خود کسلیس ورس کے پاس گیا اور وہ پورس کے تیر سے زخی ہوکر مر گیا۔ اب وہ کہتا ہے کہ ٹیکسلیس کا بھائی گیا اور زخمی ہوا۔ تیسرے بیان میں کیورٹیس کہتا ہے کہ یکسلی کا بھائی نبی ہو کر مر گیا جس سے یونانی فوج غصے میں آئی اور انہوں نے پورس پر تیروں کا بارش کر دی۔ تھی جس پر پورس سوارتھا کو بلاک کر کے زخمی پوری کوگرفتار کر لیا گیا لیکن آرین اس اقی کواس طرح بیان کرتا ہے کہ کی سفارتی مشنوں کی ناکامی کے بعد سکندر نے آخر میں پورس کے دوست میروس کو بھیجا جس نے بڑی کوشش کے بعد پورس کو مجبور کر کے دونوں جرنیلوں کی ملاقات کروائی۔ ممتاز مورخ ڈیوڈورس کا نکتہ نظر کیورٹیس سے مختلف ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ پورس انتہائی دلیری کے ساتھ لڑتا رہا۔ وہ زیادہ زخموں کی وجہ سے اور خون بڑی مقدار میں بہنے سے نقاہت محسوس کرنے لگا۔
کچھ دیر کیلئے انہیں آرام کا مشورہ دیا گیا اور ہاتھی پر سوار کرایا گیا۔ میدانِ جنگ میں افواہ پھیل گئی کہ پورس مر گیا ہے، اس صورتحال کے پیش نظر ہندوستانی فوجی میدانِ جنگ سے بھاگ نکلے اور اس طرح پورس کو زخمی حالت میں گرفتار کر لیا گیا۔ اس تبصرے میں کہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کرٹیکسلیس خود یا اس کا بھائی میروس اور دیگر ایچی سکندر کی طرف سے پورس کے پاس جنگ بندی کے لیے اور نہ ہی اس بات کا ذکر ہے کہ سکندر اور پورس کے درمیان کوئی بات چیت ہوئی۔ ایک اور تاریخ دان پلوترک جنگ کے خاتمے کی بابت تحریر کرتا ہے کہ جب پورس کو قیدی بنا لیا گیا تو سکندر نے اس سے پوچھا کہ کہ بتاؤ تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ پورس نے جواب دیا که جو ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ سے کرتا ہے۔
سکندر نے پورس سے دریافت کیا کہ کوئی تمہاری خواہش تو پورس نے کہا کہ سب کچھ۔ اس کے بعد سکندر نے پورس کو بادشاہت پر بحال کر دیا اور ساتھ ہی اپنے تمام مفتوحہ علاقے شاہی خطاب ( ستراب ) وائسرائے بھی عطا کیا۔ پلو ترک کا بیان ہے کہ سکندر نے پورس کو شاہی خطاب دیا ستر اپ کا دئسرائے مقرر کیا حالانکہ اس قسم کا بیان کسی دوسرے مورخ نے نہیں دیا۔ باقی کے نزدیک صرف پورس کی سلطنت اس کو واپس کر دی گئی۔ ایک اور راوی جینسن کی داستان ہے، وہ لکھتا ہے کہ پورس جب دوسری بار زخمی ہوا تو اس کو قیدی بنا کر ایک مکان میں بند کر دیا گیا۔ وہاں اس نے کھانے پینے سے انکار کر دیا اور نہ ہی اپنے علاج معالجہ کی اجازت دی۔ جٹسن کا بیان ہے کہ پورس شاید کسی چیز کی بھی خواہش نہیں رکھتا تھا۔ سکندر نے اس کی بہادری کا احترام کرتے ہوئے اس کی جان بخشی اور ساتھ ہی اس کی سلطنت واپس کر دی اور ستر اپ کا وائسرائے بھی مقرر کردیا۔ ایشیائی اور افریقی روایتیں جن پر سکندر اور پورس کے درمیان جنگ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
کسی طرح سکندر کے گھوڑوں اور سپاہیوں کہ جمہ تیغ کر دیا گیا جس سے یونانیوں کے اندر مایوسی کی لہر دوڑ گئی ۔ یہاں تک کہ یونانی روتے اور کتوں کی طرح آوازیں نکالتے تھے۔ ان کی بے بسی اس انتہا تک پہنچ گئی ہ وہ سکندر کا ساتھ چھوڑ کر پورس کے فوج میں شامل ہونے کا سوچنے لگے جبکہ ایک حبشی ( ایتھو پائی ) عہد نامے میں اس جنگ سے متعلق یوں لکھتا ہے کہ سکندر نے جب اپنی فوج میں بزدلی کا حال دیکھا تو اپنے سپاہیوں کے درمیان کھڑا ہو گیا جو خود بھی ذہنی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا تھا۔ فوجیوں کو جنگ روکنے کاحکم دیا اور بلند آواز میں چلاتے ہوئے کہا کہ مجھے تمہاری تھکن کا احساس ہے، معلوم نہیں کیوں ہم یہاں آکر خوار ہور ہے ہیں ۔ اب اگر چہ میں خود اپنی زندگی ختم کرنے کی کیفیت میں ہوں اور یونانی جوانوں کو ایسے حالات کا شکار کرنے کا بھی ذمہ دار ہوں۔“ اس کے فورا بعد سکندر نے جنگ بندی منصوبے پر کام تیز کر دیا اور پورس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا "اے پورس ! مجھے آپ کی بے پناہ قوت کا اندازہ ہو چکا ہے۔ یہ مناسب نہیں کہ ہم اپنی وفادار فوج کے بدلے اپنی زندگی بچا ئیں۔ آؤ ہم دونوں فوجوں کی لڑائی بند کرنے کا حکم دیں۔“ جبکہ ایک دوسرے مورخ جوزف بن گوریان نے اپنی کتاب تاریخ یہود میں تحریر کیا ہے کہ ایک کہ جب سکندر کو اپنی فوج کی بزدلی کا علم ہوا تو اس نے شاہ ہند کی طرف ایک پیغام بھیجا کہ جنگ کیسے کرے بندی کر کے اور فوجوں کو پیچھے بنا کر اپنی ہی تلواروں سے دونوں جنگ کا فیصلہ کر لیں یا امن معاہدہ شامل تھا۔
ان کے علاوہ فردوسی بھی اپنی تصنیف شاہ نامہ میں ایشیائی، افریقی ، بشی عہد نامے اور احاطہ کیا جوزف بن گوریان کے بیانات کی تائید کرتے ہوئے راقم طراز ہے کہ جب لڑائی انتہائی تکتے تک بھی گئی تو سکندر نے پورس کو قاطب کرتے ہوئے کہا کہ اے عظیم انسان !ہم دونوں کی فوجیں لڑائی سے تھک گئی ہیں۔ جنگلی درندے ہاتھی انسانی کھوپڑیاں کچل رہے ہیں ۔ گھوڑوں کے پاؤں ساہیوں کی ہڈیاں توڑ رہے ہیں اور ہم دونوں دلیر اور ہم پلہ ہیں تو پھر فوجیوں کا قتل عام کیوں اور ہے زخمی زندگی کس کام کی ۔
فردری نے آخر میں لکھا ہے کہ معلوم ہوتا ہے سکندر کی فوج کا جانی نقصان زیادہ ہوا جس کی وجہ سےاسے لڑائی بند کرنے کی راہ اختیار کرنا پڑی۔ ممتاز مورخ تارن بھی ان قدیم روایتوں کو درست مانتے ہیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم ان مغربی مورخین جن کی تعداد پانچ چھ ہے کے بیانات کو کس طرح سے دیکھیں جنہوں نے پورس اور سکندر کے درمیان جنگ کے واقعات کو م نے کیا۔ یہ تمام کسی ایک نکتہ پر متفق ہوتے نظر نہیں آتے لیکن ایک بات جو تمام مورخین نے بے الفاظ میں بیان کی ہے ، وہ یہ کہ سکندر نے خود لڑائی روکنے اور پورس سے بات چیت کرنے کے لیے اپنی بھیجے اور پورس کو اس کی تمام سلطنت واپس کر دی۔ ساتھ ہی انہوں نے تحریر کیا ہے کہ سکندر نے پورس کی بہادری کا احترام کرتے ہوئے ان سے نرم رویہ اختیار کیا۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ سکندر جیسا سخت مزاج انسان جس نے مقدونیہ سے لے کر ایشیا کوچک ایران اور ہندوستان تیک انسانوں کا قتل عام کیا ، نے مساگا کے قیدیوں کی جان بخشی کے وعدوں کے باوجود قتل عام کیا اور ایرانیوں کے قتل عام کا حکم دیا۔ جو اپنی فوج کے کئی جرنیلوں کو قتل کرنے کا مجرم بھی تھا۔ یہ باتیں مورخ بھول جاتے ہیں کہ سکندر کے ہاتھ سے دشمن تو کیا خود دوست بھی محفوظ نہ رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پوری دنیا کی تاریخ ماسوائے پیغمبر اسلام اور خلفاء کے علاوہ کوئی فاتح مفتوح قوم کے ساتھ ہم دلی یا نرمی اختیار نہیں کرتا۔ یہاں تو معاملہ اس سے بھی آگے ہے کہ سکندر پورس کو اس کی سلطنت کے علاوہ تمام فتح کیے ہوئے علاقے بھی دینے پر تیار ہو گیا۔
مورخ یہ بیان کرتے ہوئے می نتیجہ اخذ نہ کر سکے کہ میروس جس کو سکندر نے بطور ثالث مقرر کیا، پورس کا پرانا دوست بھی تھا جس نے اپنے دلائل سے پورس کو امن معاہدہ اور جنگ بندی پر راضی کر لیا۔ ہم حالات کے پیش ظر یہ کہنے کے لیے حق پر ہیں کہ شکست سکندر کو ہوئی اور فاتح پورس تھا۔ کیونکہ تمام شرائط منوانے کے بعد ہی پورس نے سکندر سے ملاقات کی اور صلح کا ہاتھ بڑھایا۔ جو شرائکل ہندی بادشاہ کی طرف سے دی گئی تھی ، ان کے نکات میں پورس کا شاہی اعزاز اور وقار بدستور سلطنت اور گردو نواح کے مفتوحہ علاقوں سے سکندر کو بیدخل ہونا۔ یہ معاہدے اس وقت طے پائے گئے جب جنگ ابھی جاری تھی، دونوں طرف کی فوجیں بھی لڑائی میں مصروف تھیں جب سکندر نے اپنی فوج کی صفوں سے نکل کر پورس کا استقبال کیا ان حقائق سے یونانی تاریخ دانوں کا جانبداری سے پردہ اتر جاتا ہے۔ حالانکہ آرین جو خود ایک مغربی مورخ ہے، اس کے اس بیان کے بعد کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی جس میں اس نے کہا کہ بات چیت میں پہل سکندر نے کی تھی۔ پورس کے جارحانہ رویہ نے یونانی بادشاہ کو امن معاہدے کے لیے مجبور کیا۔ سکندر یہ دیکھ چکا تھا کہ اگر اس نے صلح کا ہاتھ نہ بڑھایا تو ہندوستان فوج کے ہاتھوں اسے مزید نقصان اٹھانا پڑے کا جس کے لیے اس کی فوج تیاری نہیں تھی۔ اس لیے سکندر پورس کی ہر بات تسلیم کرنے اور لڑائی بند کروانے میں کامیاب ہو گیا۔
سکندر اس لحاظ سے فتح یاب تصور کیا جا سکتا ہے کہ اس نے پورس کو جنگ بندی پر راضی کر کے اپنی اور فوج کی جانیں بچالیں جبکہ پورس اس لیے فاتح ہے کہ اس نے اطاعت گزاری کے بجائے برابری کی بنیاد پر معاہدہ کیا اور اپنی سلطنت شاہی وقار کے ساتھ برقرار رکھی اور اس میں توسیع بھی کر لی۔ دونوں بادشاہوں نے اپنی اپنی جگہ کامیاب حکمت عملی اختیار کی۔ سکندر نے لڑائی میں شکست فاش سے بچنے کے لیے پورس کو جنگ بندی پر راضی کر لیا جبکہ پورس نے مزید خون خرابے سے بچ کر اپنی سلطنت کو محفوظ بنالیا۔ یہ وہ حقیقت تھی جو آج تک ہندوستانیوں کے علم سے اوجھل تھی۔ جنگ جہلم کے اصل حقائق کو دبا دیا گیا اور یونانی تاریخ دانوں نے تضادات کے پردے میں یہ بات مقبول عام کر دی کہ اس جنگ میں پورس کو شکست ہوئی جبکہ ہندوستانی تاریخ دان حقائق سے نظر چرا کر اختلافات کا شکار ہو گئے ۔ اس طرح ہندوستانی ہیرہ راجہ پورس کے کارنامے دھندلاہٹ کا شکار ہوئے۔
راجہ سو بھائی (سوفائی ٹیز ):
سکندر پورس کے ساتھ جنگ بندی اور امن معاہدے کے بعد تیس دن تک اس مقام پر یتیم رہا جہاں راجہ پورس کی فوجی چھاؤنی تھی۔ یہاں سکندر آرام کرنے کے ساتھ ساتھ زخمیوں کی مرام پٹی اور علاج کیا جاتارہا۔ بعد ازاں سکندر نے اپنا سفر شروع کرنے کے لیے تیاریاں کیں۔ ساتھ سے نکل کر پورس کا استقبال کیا ان حقائق سے یونانی تاریخ دانوں کا جانبداری سے پردہ اتر جاتا ہے۔ حالانکہ آرین جو خود ایک مغربی مورخ ہے، اس کے اس بیان کے بعد کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی جس میں اس نے کہا کہ بات چیت میں پہل سکندر نے کی تھی۔ پورس کے جارحانہ رویہ نے یونانی بادشاہ کو امن معاہدے کے لیے مجبور کیا۔ سکندر یہ دیکھ چکا تھا کہ اگر اس نے صلح کا ہاتھ نہ بڑھایا تو ہندوستان فوج کے ہاتھوں اسے مزید نقصان اٹھانا پڑے کا جس کے لیے اس کی فوج تیاری نہیں تھی۔ اس لیے سکندر پورس کی ہر بات تسلیم کرنے اور لڑائی بند کروانے میں کامیاب ہو گیا۔ سکندر اس لحاظ سے فتح یاب تصور کیا جا سکتا ہے کہ اس نے پورس کو جنگ بندی پر راضی کر کے اپنی اور فوج کی جانیں بچالیں جبکہ پورس اس لیے فاتح ہے کہ اس نے اطاعت گزاری کے بجائے برابری کی بنیاد پر معاہدہ کیا اور اپنی سلطنت شاہی وقار کے ساتھ برقرار رکھی اور اس میں توسیع بھی کر لی۔ دونوں بادشاہوں نے اپنی اپنی جگہ کامیاب حکمت عملی اختیار کی۔
سکندر نے لڑائی میں شکست فاش سے بچنے کے لیے پورس کو جنگ بندی پر راضی کر لیا جبکہ پورس نے مزید خون خرابے سے بچ کر اپنی سلطنت کو محفوظ بنالیا۔ یہ وہ حقیقت تھی جو آج تک ہندوستانیوں کے علم سے اوجھل تھی۔ جنگ جہلم کے اصل حقائق کو دبا دیا گیا اور یونانی تاریخ دانوں نے تضادات کے پردے میں یہ بات مقبول عام کر دی کہ اس جنگ میں پورس کو شکست ہوئی جبکہ ہندوستانی تاریخ دان حقائق سے نظر چرا کر اختلافات کا شکار ہو گئے ۔ اس طرح ہندوستانی ہیرہ راجہ پورس کے کارنامے دھندلاہٹ کا شکار ہوئے۔
راجہ سو بھائی (سوفائی ٹیز ):
سکندر پورس کے ساتھ جنگ بندی اور امن معاہدے کے بعد تیس دن تک اس مقام پر یتیم رہا جہاں راجہ پورس کی فوجی چھاؤنی تھی۔ یہاں سکندر آرام کرنے کے ساتھ ساتھ زخمیوں کی مرام پٹی اور علاج کیا جاتارہا۔ بعد ازاں سکندر نے اپنا سفر شروع کرنے کے لیے تیاریاں کیں۔ ساتھ ہی اس نے اپنے افسروں اور ہندی راجاؤں کے ایلچیوں کو ایک مجلس میں جمع کیا اور ان سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ دریائے جہلم سے چناب تک کا درمیانی علاقہ راجہ پورس کے حوالے کر دیا جائے۔ مورخین کے مطابق اس علاقے میں ۲ ہزار شہر آباد تھے اور جنوب میں دریائے جہلم کے دونوں اطراف میں آباد قبائل کی تعداد ے تھی۔ ان میں گلاؤ، کنکوئی اور گلاؤسی قائل بھی شامل تھے۔ تاریخ دانوں کے مطابق اس علاقے میں ان کے ۷۳ شہر آباد تھے جن کو قبضہ کے بعد پورس کی سلطنت میں شامل کر دیا گیا۔ ہر شہر کی آبادی پانچ ہزار لوگوں پر مشتمل تھی بلکہ کچھ تو دس ہزار کے قریب بھی تھے۔ سکندر نے سفر شروع کرنے کے لیے ان کشتیوں کو جوڑا جوان کے ساتھ لائی گئی تھیں۔ ایک بحری بیڑا تیار کیا جس میں تیس تیس چپوں والے آٹھ جہاز اور باقی چھوٹی کشتیاں تھی جو اکثر مال برداری کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔ ان تمام کو ملا کر کل تعداد ۳۰۰ بنتی تھی۔ اس طرح یونانی فوج نے اکتوبر ۳۲۶ ق م کے آخر میں اپنا سفر شروع کیا۔ کشتیوں اور جہازوں کے علاوہ سکندر نے خود کو محفوظ رکھنے کے لیے گھڑ سوار فوج کی ایک بڑی تعداد کی کمان جزئل ہے نے اسیشن اور کریٹر اس کے سپرد کرتے ہوئے انہیں حکم دیا کہ دریا کے دونوں کناروں کے ساتھ ساتھ چلیں جبکہ ایک اور جرنل فلپس کو ایک دستہ کے ساتھ اپنے پیچھے چلنے کا حکم دیا۔ گھڑ سواروں کے ساتھ ساتھ دو سو جنگی ہاتھی بھی موجود تھے۔
اس طرح یونانی فوج تین دن کے بعد ایک ایسے مقام پر پہنچی جہاں دریائے جہلم کے مغربی کنارے پر راجہ سو بھائی کی حکومت قائم تھی ۔ یہ سلطنت کو ہستان نمک اور اس کے زیریں علاقوں پر مشتمل تھی۔ سڑا ہو ( باب ۱۵ صفحہ ۳۰) کے بیان سے راجہ سو بھارتیہ کی سلطنت میں ایک نمک کا پہاڑ بھی آتا تھا جو پورے ملک کے لیے کافی تھا۔ برٹش فوج کے افسر هم اپنی کتاب این همٹ جیو گرافی صفحہ ۱۵۵) پر لکھتا ہے کہ راجہ سو بھائی کی حکومت دریائے جہلم کے مغربی کنارے کے علاقوں پر مشتمل تھی۔ اس نے دو مقامات کی نشاندہی کی ہے کہ اک احمد آبار اور دوسرا بھی ہو۔ میرے خیال میں مصنف کو اس مقام کی نشاندہی کرنے میں غلطی ہو گئی ہے۔ کیونکہ ھم سو بھائی کی حکومت جہلم کے مغرب میں بتاتے ہوئے ساتھ بھیرہ کا ذکر کرتے ہیں۔ بھیرہ شہر تو دریائے جہلم کے مشرقی کنارے پر واقع ہے۔ جنوبی این احد آباد کا مقام حیح ہوسکتاہے کیونکہ ایک واحد آباد کا قصبہ ضلع خوشاب میں آتا ہے، دوسرا نمک کا پہاڑ بھی دریائے جہلم کے مغرب میں خوشاب ہی میں واقع ہے۔
اس طرح راجہ سو بھائی کی سلطنت موجودہ ضلع خوشاب اور اس کے شمال میں واقع نیم پہاڑی سلسلے پر ہوگی ۔ سکندر نے اپنے جرنل کیر ایرس کو حکم دیا کہ وہ فورا اس راجہ کی حکومت پر قبضہ کر لے۔ سکندر کو یہ خدشہ لاحق ہوا تھا کہ کہیں اس کے حملے سے پہلے ہندو راجہ یونانی فوج پر حملہ نہ کر دے۔ اس نے فوراً حکم جاری کر دیا۔ جب یونانی فوج اس راجہ کے ملک کی سرحدوں میں داخل ہوئی تو سو بھائی نے جنگ سے قطع نظر خود کوسکندر کی اطاعت کے لیے پیش کردیا حالانکہ اس کے پاس بھی ۱۰۰ جنگی ہاتھیوں کے علاوہ کافی بڑی فوج تھی۔ ممکن ہے کہ یونانی فوج کے مقابلے میں وہ خود کو کمزور سمجھتا ہو۔ سکندر نے اس مقام پر ایک دن اور ایک رات قیام کرنے کے بعد اور راستے کو اپنے لیے محفوظ بنانے کے بعد اپنا سفر جنوب کی طرف شروع کیا اور تیسرے دن یونانی فوج دریاؤں کے سنگم یعنی ” تریموں کے مقام سے شمال میں کچھ فاصلے پر پہنچی۔
نوٹ: یہ مضمون ملک محمد شفیع کی کتاب (قدیم تاریخ تھل اور روڑاں کے آثارِقدیمہ) سے لیا گیا ہے۔