تھل: یونانی بادشاہ سائرس یا کورش اعظم ۔ راجہ سوفیٹس
ہم نے بڑی محنت اور اختصار کے ساتھ اس یونانی بادشاہ کے متعلق معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس بادشاہ کے بارے میں جو مغرب کی آچمینی سلطنت کا حکمران تھا اور چھٹی صدی قبل مسیح میں دریائے سندھ کو عبور کر کے ہندوستان پر حملہ آور ہوا، اس کے متعلق ایک سے زائد روایات پائی جاتی ہیں جن کے لیے ہم نے تحقیق کی کوشش کی ہے۔ بادشاہ کے بارے میں تاریخ میں رحمدل اور نرم مزاج امن اور اتحاد کا دعوے دار ظلم اور بر بریت کے خلاف آواز بلند کرنے والا جیسے الفاظ استعمال کیے ہیں ۔ اس بادشاہ کے دو تین نام سامنے آئے ہیں۔ سائرس ام زیادہ تحریروں میں آیا ہے جبکہ دوسرا نام کورش اعظم ۔ اس نام کو بھی مسٹر کو کبھی کے علاوہ کچھ دوسرے مورخین نے بھی تحریر کیا ہے اور تیسرا نام راجہ سوئیس جس کو بدھا پرکاش نے یونانی راجہ سو فیٹس کے نام سے تحریر کیا ہے۔ نام سے ہٹ کر ان میں ایک بات ضرور مشترک ہے ، وہ یہ کہ ان کی ہندوستان آمد کی تاریخ سب نے ۶ ویں صدی قبل مسیح تحریر کی ہے۔ جبکہ اس کا دوسرا ثبوت یہ ہے کہ ان سب مورخین نے اس بادشاہ کے ہندوستان پر حملے کو گور و سلطنت کا زوال بتایا ہے کہ اس یونانی حملہ آور کے سامنے کس طرح کو رو بادشاہ پکوتی نے ہتھیار ڈال دیے۔
ہم آگے بڑھنے سے ارتقائی عمل پہلے کچھ اسلامی تاریخوں کے حوالے دیں گے جو ان یونان مصری بادشاہوں کے متعلق ملتے ہیں۔ ان میں تاریخ اسلام جس کے مصنف فروغ کاظمی ایک شیعہ عالم ہیں، اپنی تحریر میں بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت ابراہیم علیہ سلام نے عراق سے شام کی طرف ہجرت کی تو اس وقت مصر پر طولیس نام کا بادشاہ حاکم اعلیٰ تھا۔ جب حضرت یوسف کو ۱۹۷۴ ق م میں مصر میں قید کیا گیا ، اس وقت مصر کا بادشاہ ریان عرف عزیز مصر تھا۔ اسی بادشاہ کا پوتا ولید بن مصعب حضرت موسی کے زمانے میں مصر کا بادشاہ تھا۔ یہ ۱۵۷۴ ق م کا ہے۔ جب حضرت موسیٰ مصر سے ہجرت کر کے بیت المقدس کی طرف روانہ شفیع صا گہری و ہوئے تو وہاں ہامان اور فاروق بادشاہ تھے اور حضرت الیاس کے زمانے میں اجینا نام کا بادشاہ شام کہ ایک میں جبکہ مصر میں نکوہ نام کا بادشاہ تھا۔ بخت نصر بابل کا بادشاہ تھا جس نے بیت المقدس پر حملہ کیا اور کیسے کر بنی اسرائیل کا قتل عام کیا۔
براعظم ایشیاء ( مشرق وسطی ) کی تاریخ کا اہم واقعہ آ مینی سلطنت کا قیام ہے۔ ساتویں صدی ق م میں آشوری بادشاہ سلگا تھ پلیسر سوم نے قتل و غارت اور دہشت کیا ، انتہ گردی کے باعث مغربی ایشیاء کے لوگوں کو سخت خوف و ہراس اور پریشان کن حالات سے دو چار کر رکھا تھا۔ ممکن ہے کہ یہ آشوری بادشاہ بخت نصر یا اس کی اولاد میں سے کوئی دوسرا شخص تھا جن کو اسلامی تاریخ میں کسدی کہا گیا ہے۔ فلم اور لوٹ مار انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ جنگی خطہ کے خانہ بدوشوں کی لوٹ مارے عوام کا جینا محال ہو چکا تھا تو ان پریشان کن حالات میں ایک رحم دل اور نرم مزاج رکھنے والا انسان نمودار ہوا ۔ اس بادشاہ کے متعلق اسلامی تاریخ اور تفسیر القرآن میں کوئی تصدیق نہیں ملتی۔ یہ آشوری آ مینی ،یہ سب یورپی مورخین کے دیے ہوئے نام ہیں کیونکہ تغیر قرآن اور اسلامی تاریخ میں کسی ایسے رحمدل بادشاہ کا ذکر نہیں ہے ماسوائے حضرت سلیمان کے۔
بہر حال جو کچھ تاریخ کی کتابوں میں تحریر تھا ہم نے اس پر استفادہ کیا ہے۔ آچمینی شہنشاہ سائرس نے چھٹی صدی قبل مسیح کے شروع میں ملگا تھ پلیر کے خلاف آواز اٹھائی تو ان تمام پریشان حال لوگوں نے ان کے ساتھ امن اور اتحاد کا وعدہ کیا جس میں تمام صوبوں کی رعایا نے سائرس اعظم کا خیر مقدم کیا اور ان کو نجات دہندہ کے طور پر گلے لگایا اور ان کا ساتھ بھی دیا جس سے سائرس نے آشوری بادشاہ سلگا تھ کا تختہ الٹ دیا اور ایشیاء کوچک تک تمام ریاستوں کے ساتھ اچھے تعلق پیدا کرلیے۔ چھٹی صدی قبل مسیح کے وسط میں سائرس نے اپنی سلطنت کے مشرقی صوبے جن میں ایران کا تمام علاقہ شامل تھا، پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے بعد دریائے سندھ کو عبور کر کے وادئی سندھ کے ان زیریں حصے پر قابض ہو گیا جو آج کل تھل کے نام سے مشہور ہے۔ دریائے سندھ کی مشرقی میدانی پٹی جو دریائے جہلم تک پھیلی ہوئی تھی ، پر قدم جمانے شروع کیے جو آہستہ آہستہ کوہ ہمالیہ ٹیکسلا سے لے کر جنوب میں دریائے سندھ اور جہلم کے سنگم تک کے تمام علاقے کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔
سائرس اعظم نے دریائے سندھ کسی مقام سے عبور کیا۔ اس کے بارے میں کوئی واضح ثبوت تو نہیں ملا مگر خیال یہ ہے کہ اس مصری بادشاہ نے ایران سے سیدھا مشرق کی طرف پیش قدمی شروع کی۔ وہ بلوچستان سے ہوتا ہوا ڈیرہ غازی خان سے اوپر کسی مقام سے دریا عبور کیا ہوگا۔ کیونکہ اس مغربی حملہ آور کے متعلق صرف اتنا معلوم ہے کہ سائرس اعظم نے دریائے سندھ اور جہلم کو اپنا مرکز بنا یا جہاں پہلے ایک کورو بادشاہ کوستی مغربی ہندوستان پر حکمران تھا۔ کورو بادشاہ چکوتی نے پہلے پہل اس مصری بادشاہ کے ساتھ دوستانہ مراسم قائم کر لیے اور بعد میں ہندی بادشاہ نے مصری بادشاہ کی اطاعت قبول کر لی۔ لیکن ان دونوں بادشاہوں کے درمیان اس وقت اختلاف پیدا ہو گیا جب اس مصری بادشاہ نے ہندوستانیوں کے ساتھ رحمدلی اور حد سے زیادہ نرمی اختیار کی۔
اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ بہت ہی رحم دل، عادل اور اپنی رعایہ کے ساتھ بڑی نرم گوشی سے پیش آتا تھا۔ اس پیار کے رشتے نے ان کے لیے ہندوستانیوں میں جذبہ پیدا ہوا اور اسے ایک دیوتا کے طور پر مانا شروع کر دیا۔ جبکہ اس کے علاوہ سائرس اعظم ہندوؤں کے بادشاہ کے نام سے بھی مشہور ہوا۔ ممکن ہے کہ سائرس ہی وہ بادشاہ تھا جس کو ڈی ڈی کو سبھی نے کورش اعظم کے نام سے مشہور کیا۔ مٹر کو بھی نے اپنی کتاب قدیم ہندوستان باب نمبر ۶ صفحہ ۱۸۰ پر تحریر کرتے ہیں کہ سیاه روغن والے برتنوں کا زمانہ چھٹی صدی ق م ش ۔س۔ (NBP) کا دور یہ سیاہ روغنی برتن جن کا تعلق ماہر آثار قدیمہ یونانی تہذیب سے جوڑتے ہیں ۔ مورخ کے مطابق یہ مٹی کے برتن تقریباً چھٹی صدی قیام میں ہندوستانی علاقوں میں نمودار ہوئے ۔ جبکہ سائرس کی آمد ہندوستان میں تقریباً چھٹی صدی قبل مسیح ہے۔ تو معلوم ہوا کہ اس تہذیب کو ہندوستان میں سائرس اعظم نے متعارف کروایا۔
اس کے علاوہ اس عظیم بادشاہ نے ہندوستانیوں کے لیے اور بھی بہت نئے طور طریقے جن آبادی کے میں پڑھنے لکھنے کا رواج، کاشتکاری اور جدید برتن سازی اور مذہبی رسومات کا نیا طریقہ شامل تھا۔ ان سب میں سے جو اہم بات تھی وہ ایک تو کاشتکاری اور دوسرابتوں کی پوجہ کیونکہ ممکن ہے گیری دی کہ سائرس کا تعلق بھی مصر کے فرعون گروپ سے ہو اور خود کو خدا کا لقب دیتا ہو۔ بہر حال یہ بات کہ ایک کیسے کرتے ابھی تک میری تحقیق سے باہر ہے کہ سائرس اعظم کا تعلق مصر، یونان کے کس گروپ یا خاندان سے دیا۔ انہوں تھا۔ کیونکہ ہم مغربی ہندوستان کی قدیم تاریخ پر کام کر رہے ہیں اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ کیا ، ان احاطہ کیا۔ اس طرح آج مینی بادشاہ نے دریائے سندھ اور جہلم کے درمیانی خطہ کو اپنا مرکز بنایا۔ اسی بادشاہ ور آپ کے دور میں آچمینی ایرانی قبائل کی ایک بڑی تعداد نے دریائے سندھ کے مشرقی کنارے جھل میں رہائش اختیار کی ۔ ایک عرصہ تک ٹیکسلا میں آچمینی ایرانیوں کی بڑی تعد ادر ہائش پذیر تھی۔ اس وقت مغربی ہند میں ٹیکل کو ایک مرکزی حیثیت حاصل تھی ۔ ساتھ ہی ایک اور نام یونانی
راجہ سویٹس بھی چھٹی صدی قیام کے وسط میں ہندوستان آیا۔
ہندوستانی مورخ بدھا پر کاش کے بیان کے مطابق ایرانی آچمینی لوگوں کی دعوت یونانی راجہ سوفیٹس ہندوستان میں داخل ہوا۔ ان کی سلطنت کا مرکز پہلے تو دریائے سندھ اور جہلم تھالیکن کچھ عرصہ کے بعد انہوں نے اپنی سلطنت کو وسعت دے کر دریائے راوی تک بڑھادیا تھا۔ اس یونانی راجہ کی آمد بھی چھٹی صدی ق م میں ہوئی جبکہ ایرانی شہنشاہ دارا کی فوج جس کی کمان جنرل رستم کر رہا تھا تقریباً ۲۱ ۵ ق م میں مغربی پنجاب پر حملہ کر کے قابض ہو گیا تھا جو ایک عرصہ تک دریائے سندھ کے مشرقی میدانوں تھل اور شمال میں ٹیکسلائیک کا علاقہ دارا کی حکومت میں شامل تھا۔ اس وقت دارا کی سلطنت کا ۲۰ دیں صوبہ تھا۔ تھل ۔
مغربی پنجاب اس طرح ایک ہی صدی میں تین چار مغربی حملہ آوروں کا ہندوستان میں ایک فرق ضرور ہوگا ۔ بہر حال تھل کا علاقہ ایک عرصہ تک آ مینی اور ایرانی لوگوں کی آماجگاہ بنا رہا۔ یہاں تک کہ ان کے مقامی لوگوں کے ساتھ رشتہ ازدواج بھی طے ہو گئے اور یہ رشتے شکل و صورت کی بنا پر ہوتے تھے نا کہ دولت و جہیز کی وجہ سے۔ سڑابو کے بیان کے مطابق خوبصورت اور صحت مند بچوں کے درمیان رشتے ہوتے تھے۔ سڑا بو اس وقت کے ازدواجی رسم و رواج تحریر کرتے ہیں کہ جو بچہ پیدا ہوتا تھا اس کا ایک ڈاکٹر معائنہ کرتا تھا۔ اگر بچہ جسمانی طور پر فٹ اور صحت مند ہوتا تو اس کو جینے کا حق دیا جاتا اور اگر اعصابی طور پر وہ بچہ کمزور ہوتا تو اسے حکام کی منظوری سے قتل کر دیا جاتا تھا۔
اس باب میں ہم نے چھٹی صدی قسم کا ذکر کیا ہے مورخین کے بیانات اور تاریخی حوالہ جات کی بدولت مغربی ہندوستان کے اس حصہ تھل میں ایک سے زائد حملہ آوروں اور حکمرانوں کا نام آتا ہے۔
ان میں سائرس اعظم دوسرا کورش اعظم اور تیسر اراجہ سوفیٹس جبکہ چھٹی صدی قبل مسیح کے آخر میں ایران کے دارا گشتاسپ اور ان کے جنرل رستم جو ایک عرصہ تک مغربی پنجاب کے علاقہ متھل”
پر قابض رہا۔
باقی تینوں حکمرانوں کے بارے کوئی خاص معلومات نہیں ملتی ہیں۔
نوٹ: یہ مضمون ملک محمد شفیع کی کتاب (قدیم تاریخ تھل) سے لیا گیا ہے۔