تھل

تھل:واسود یو کشان (۱۴۰ء سے ۱۷۳ء)

واسود یو جس کو سکوں میں بسود یو کے نام سے بھی مشہور کیا گیا ہے، ہوشک کی موت ۱۴۰ء کے بعد کشان سلطنت کا مالک بنا۔ واسود یو ہوشک کا جانشین تو ہو سکتا ہے مگر بیٹا نہیں۔ ممکن ہے کہ واسودیو یوچی یا کشان قبائل میں کسی با اثر خاندان کا فرد ہو جو پہلے کنشک اور ہوشک کے دور حکومت میں کسی اہم عہدے پر فائز ہو یا فوج میں بطور جنرل ۔ لیکن یہ تو حقیقت ہے کہ ہوشک کے والا کے بعد واسود یو کے علاوہ کوئی دوسرا مشخص کنشک کے جانشینوں میں موجود ہی نہیں تھا جو کشان حکومت سنبھالتا۔ یہاں ایک تاریخی خلاء پیدا ہوتا ہے کہ کیا واسود یو کشان خاندان میں سے تھا کیونکہ اس کے خالص ہندی نام سے جو د شنو کا مترادف ہے ، مورخین کو ایک اور وسوسے میں ڈال دیتا ہے کہ آیا یہ بادشاہ کہیں ہندی مقامی تو نہیں۔ مگر اکثریت کی رائے ہے کہ واسو د یو کشان ہی تھا۔ جس طرح مغل بادشاہ اکبر کے دور میں ہندو مذہب کو بہت اہمیت دی جاتی تھی، اسی طرح واسودیو نے بھی بدھ مت کی بجائے ہندومت کوترجیح دی اور تمام بندی دیوی آرد کشو، آرتھو شو لکشمی اور وشوا کی پوجا کرتاتھا۔ یہ اسود یو کے سکوں سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔ واسودیو کو ورثے میں ایک وسیع سلطنت کی جس کا مرکز پشاور تھالیکن اس نے اپنی حکومت کے دور میں دارالسلطنت متھرا میں منتقل کر دیا جو ہندوستان کے عین وسط میں تھا۔

اس طرح وہ پورے ہندوستان پر کنٹرول کر سکتا تھا۔ واسودیو نے اس حکمت عملی کے تحت اپنا دارالخلافہ اندرون ملک منتقل کیا۔ ممکن ہے کہ یہ بادشاہ کہنا ہندوستانیوں کے قریب تھا، اس نے ہندو اکثریت والے علاقوں کا انتخاب کیا اور جلد گردو نواح کے حالات کی نزاکت کو مد نظر رکھتے ہوئے واسو د یو نے ہند و قبائل اور مقامی سرداروں کا اعتماد حاصل کر لیا ۔ صرف یہی نہیں بلکہ اشوک کی طرح جس نے بدھ مت کو سرکاری مذہب قرار دیا ، اس نے بھی ہندومت مذہب کو ملک میں سرکاری مذہب کے طور پر پیش کیا۔ واسودیو کے سکے اس بات کی شہادت دیتے ہیں جن میں ایک طرف (شیوا) دیوتا کی تصویر جو اس کے بیل کے ساتھ ساتھ ترسول اور ہندی بتوں کی دیگر علامات بھی پائی جاتی ہے جبکہ دوسری طرف آرد کشو اور آرتھو کشو اور لکشمی دیوتی کی شبیہہ پائی گئی ہیں۔ واسودیو کے سکے ہندوستان کے اکثر علاقوں میں پائے جاتے ہیں لیکن روڑاں کے مقام سائیڈ بی” سے اس قدر کثیر تعداد میں ملے ہیں جیسے معلوم ہوتا ہے کہ اس بادشاہ کا دارالسلطنت بھی اسی مقام پر تھا۔ سکوں کے متعلق تفصیل اگلے باب میں آئے گی۔ متھرا میں قیام اور ہندومت کی قربت کی وجہ سے واسودیو نے کئی شادیاں مقامی ہندو گھرانوں میں کی تھیں جن کے متعلق مورخین کی صرف رائے پائی جاتی ہے۔

حالات کے مطابق میرے خیال میں بھی ایسا ہونا ممکن ہے کیونکہ واسود یو ایک وسیع سلطنت کا مالک تھا جس کی سر حدیں کابل سے لے کر کشمیر اور گنگا کے میدانوں سے لے کر سندھ آپ کے وسیع سر سبز و شاداب وادی اور پورے چھل سے جنوب کی طرف ملتان تک پھیلی ہوئی تھیں۔ خود بادشاہ اپنے دارالسلطنت متھرا میں ہی قیام پذیر تھا جبکہ ملک کے طول و عرض میں نظام حکومت کس طرح چلتا تھا، یہ یقینی امر ہے کہ پورے ملک میں واسود یو کو ایک مرکزی بادشاہ کی حیثیت حاصل تھی اور اس کو حاکم اعلیٰ کے طور پر تسلیم کیا جاتا تھا۔ پورے ملک میں اس کے نام کا سکہ رائج تھا جو اس بات کی واضح نشانی ہے کہ حاکمیت اعلیٰ کا کوئی دوسرا دعویدار نہیں تھا۔ ہو سکتا ہے کہ ملک میں کوئی صوبے داری نظام حکومت رائج ہو اور ہر صوبے میں گورنر یا کوئی صوبے دار مقرر کیا جاتا ہو جو مرکزی حکومت کے تحت کام کرتا ہو ۔ جس طرح معلوم ہوتا ہے کہ ملک کے مشرقی حصوں میں یعنی وسطی ہندوستان کے اکثر علاقوں پر اندھر خاندان کے ساتھ شراکت اقتدار کوئی معاہدہ ضرور تھا۔ اسی طرح مغربی پنجاب کے علاقے ، دریائے سندھ کے علاقوں تھل اور جنوب مشرق میں سک اور پارتھی یا باختری سرداروں کے ذریعے حکومتی کام چلائے جاتے تھے۔ جیسا کہ قتل کے علاقے روڑاں جو یقیناً ایک صوبہ تھا اور اس صوبے کا سر براہ ایک باختری سردار تھا جو واسودیو کی مرکزی حکومت کے تحت کام کرتا تھا۔ ہم پچھلے باب میں تحریر کر چکے ہیں کہ ملک میں مرکزی کرنسی کے ساتھ ساتھ مقامی صوبے دار یا گورنر بھی اپنے اپنے علاقوں میں اپنے نام کا سکہ جاری کر سکتے تھے جو وزن اور ساخت میں مرکزی سکے سے بہت چھوٹا ہوتا تھا۔ اس سکے کے ایک طرف مرکزی حکومت اور دوسری طرف صوبے دار کے نشانات نقش کروائے جاتے تھے۔ اس کے واضح ثبوت ہمیں روڑاں کے کھنڈرات سے ملے ہیں ۔

یہاں واسودیو کے سکوں کے علاوہ ایک چھوٹا ساسکہ جو واسودیو کے سکہ سے ملتا جلتا ہے، کثیر تعداد میں پایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کشان بادشاہوں نیلوں میں کے متعلق کوئی واضح ثبوت نہیں ملتے جن کی مدد سے واسو د یو یا دوسرے کشان بادشاہوں کے حالات تفصیل سے ہم تحریر کر سکیں۔ المختصر کہ متھرا کے مقام سے جو کتبے ملے ہیں، ان کی تحریروں والا کے سے معلوم ہوتا ہے کہ ۷۴ ء سے لے کر ۹۸ ء تک واسودیو بر سر اقتدار رہا۔

اس سے متعلق دی۔ اے سمتھ نے مسٹر آر ڈی بینرجی اور فان سیلٹ سیخ فونگر کٹیلاگ کیسے کر آف کائنز ان انڈین میوزیم جلد اول لوح ۱۲ کے حوالے اور بیانات کو اپنی کتاب قدیم تاریخ ہند دیا ۔ اتم باب ۱۱ صفحه ۳۵۳ میں تحریر کرتے ہیں کہ کشانوں کے مطابق واسودیو ۱۰۰ ء تک ہندوستان میں حکمران رہا جبکہ یہ ۱۷۸ء کے برابر بناتا ہے۔ اس طرح تو واسودیو کی کل مدت حکمرانی ۴۰/۳۵ سال کے لگ بھگ بنتی ہے۔ اسی طرح کشان جو وقتی طور پر سن استعمال کرتے تھے اس کے مطابق واسود یو کا خاتمہ ۱۰۰ء میں ہوا۔ اس کی موت جو ۱۷۸ء کے قریب ہوئی ۔ ساتھ ہی اس بات کے اشارے بھی ملتے ہیں کہ کشان سلطنت کا انحطاط بھی شروع ہو گیا کیونکہ واسود ہو کے آخری زمانے میں کشان سلطنت کے اکثر علاقوں میں بغاوت اور افراتفری شروع ہو گئی تھی۔ مشرق سے گپت خاندان نے سر اٹھایا جبکہ جنوب کے سترپوں میں سک سرداروں نے بغاوت کر دی اور اندرون ملک کئی جنگجو سرداروں نے کشان حکومت سے انحراف کر دیا تھا۔ واسودیو کی موت کے بعد کشان سلطنت ایشیاء کی دوسری حکومتوں کی طرح زوال و انحطاط سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ اس کی وفات کے کچھ عرصہ بعد شمال کے اکثر علاقے چھوٹے چھوٹے رجواڑوں میں تقسیم ہو گئے اور خود مختیار ہو گئے۔ بہت ساری عارضی ریاستیں وجود میں آچکی تھیں ۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ خود و اسود یو کے دور اقتدار میں ہی شمالی ہند کے علاقوں میں حکومت اعلیٰ کے وجود کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔

ملک کا دار الحکومت پشاور سے منتظر انتقل کرنا تھا۔ ان کمزوریوں کے ساتھ واسودیو کی موت نے کشان سلطنت کا ہی نقشہ بدل دیا۔ مغرب سے ایک مرتبہ پھر ایرانی حکومت نے دریائے سندھ کے پارا اپنا اثر رسوخ بڑھانا شروع کر دیا۔ مشرق میں متھرا پاٹلی پتر میں گپت خاندان نے سر اٹھایا۔ اندرون ملک خاص کر مغربی پنجاب کے علاقوں میں بہت سارے خاندانوں نے گیت سے مل کر بغاوت کر دی جن میں آبھیر، گرد بھل، سک، یون یا ہلیک شامل تھے۔ ہو سکتا ہے کہ ان میں کچھ اجنبی خاندان باختری اور پارتھی بھی ہوں گے۔ انہوں نے چھوٹے چھوٹے علاقوں پر اپنا تسلط قائم کر لیا لیکن تمام گپت خاندان باج گزار تھے۔ بہر حال تیسری صدی عیسوی کی تاریخ کے لیے کوئی بھی مکمل مواد موجود نہیں جس کی شہادت پر ہم کسی نتیجہ پر پہنچ سکیں۔ قدیم ہندی تحریر پرانوں کے پریشان کن بیانات سے اس پر فتن زمانے کے حالات کے متعلق جو شہادت موجود ہے ، اس بات کا امکان بظاہر کم ہے کہ ہم اس وقت کی حالات کی تشریح یا اس کی تاریخی شکل و صورت پیش کر سکیں۔ پنجاب کے ان علاقوں میں جو دریائے سندھ اور جہلم کے درمیان واقع تھے، جوغیر ملکی سردار حکمران تھے، ان حکمرانوں میں اکثر باختری اور یونانی اور پارتھی شامل تھے اور موجود تھل کی اس سرسبز میدانی پٹی پر ہنی کا قبضہ تھا۔

یہ تمام سردار کشانوں کی حاکمیت اعلیٰ کو تسلیم کرتے اور ان کے باج گزار تھے۔ جنہوں نے تھوڑی بہت تعریف کے ساتھ واسودیو کے سکے بھی جاری کرتے تھے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح ان کا تعلق کشان سے تھا۔ اس قسم کے تمام سکوں کی عبارت تبدیل کر کے یونانی طرز تحریر سے لکھی گئی ہے ان کے ایک طرف تو شہنشاہ کا نام محفوظ ہے مگر دوسری طرف کچھ الفاظ تحریر کیے گئے ہیں جیسے بھ، ک، وی اسی طرح کے الفاظ روڑاں کے کھنڈرات میں بھی مٹی کے ڈھلو پر پائے گئے ہیں۔ مثلاً دی ، دا ، وا۔ اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سردار جو ہندوستان کے اکثر علاقوں پر حکمران تھے، پنجاب کابل کے کشان فرمانرواؤں کو اپنا حاکم اعلی تسلیم کرتے رہے کیونکہ اس بات کے اشارے ملتے ہیں کہ ایک عرصہ تک خاندان کشان کے افراد نے پنجاب، کابل پر اپنا سکہ جمائے رکھا تھا اور پانچویں صدی عیسوی
کے اول میں سفید ہنوں نے بالآخر ان کا خاتمہ کر دیا۔

عالمگیر دباء ۱۶۷ء:

یہ وباء جو ۱۶۷ء میں بال سے شروع ہوئی ، اس نے دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی کو بلاک کر کے رکھ دیا ممکن ہے کہ ہندوستان بھی اس سے محفوظ نہ رہا ہو اور کشان سلطنت بھی اس ہلاکت خیز وباء سے دو چار ہوئی ہو۔ یہ وبا بابیل کے علاقے سے شروع ہوئی اور اس نے کئی سالوں تک رومی اور پارتھی سلطنتوں کو برباد کیے رکھا۔ وی، اے سمتھ نے یوٹروپٹس کے حوالے سے لکھا ہے کہ سید با ۱۹۷۰ ، قیصر ردم مارکس آریلیس کے زمانے میں پڑی تھی۔ اس نے روما کے شہر اٹلی اور صوبہ جات میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو بلاک کر کے رکھ دیا تھا۔ روم کی تمام کی تمام فوج اس وبا کی نذر ہو گئی تھی۔ ایک رومی مصنف جس کا نام نیو بھر لکھا ہے، کا بیان ہے کہ قدیم دنیا جو اس دبا کے اثرات کی وجہ سے تباہ ہوئی، دوبارہ بھی سنبھل نہ سکی۔ اس کا مزید بیان ہے کہ کیسے ممکن ہے کہ ہندوستان اس دہاکے اثرات سے محفوظ رہا ہو جواس کی پڑوی ریاستوں کو دبوچ رہی تھی ۔ ویسے تو اس قسم کی بہت ساری ہلاکت خیز و با میں انسانی تاریخ میں پیش آچکی ہیں لیکن سب سے زیادہ جبکہ باقی دنیا کے اعداد وشمار معلوم نہیں۔ انسانی تباہی اس وباء سے ہوئی ۔ کہا جاتا ہے کہ صرف روم میں دو سے تین لاکھ افراد ہلاک ہوئے بعض مورفین نے لکھا ہے کہ ایشیا کے تمام دریا انسانی لاشوں سے بھر گئے ۔ شہروں کے شہر تباہ و برباد ہو گئے۔ کئی ایسی بستیاں جو پہلے انسانی نشوونما سے آباد ہوئیں، اس ہلاکت خیز و بانے اجاڑ ڈالیں۔ دنیا میں ترقی کی راہ پر گامزن بہت سارے قبائلی علاقے صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ ہسٹری آف دی رومنز انڈر دی امپائر صفحه ۳۳/۳۵۸ باب ۶۸ کے حوالہ سے لکھا گیا ہے کہ یہ دبا ء ۱۷۰ ء تک تباہی پھیلاتی رہی۔

 

 

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com