تھل:آخری کشان بادشاه (۱۷۸ء سے ۳۶۰ ء تک)
و اسود یو ہی وہ کشان بادشاہ تھا جس کے دور تک کشان سلطنت اپنا وجود برقرار رکھ سکی۔ واسو دیو کی موت کے بعد اس عظیم بادشاہیت جس کی بنیاد کڈ فالساور کنشک نے رکھی تھی اس کا زوال شروع ہو گیا۔ ہم پہلے یہ بیان کر چکے ہیں کہ واسودیو کے آخری سالوں اور موت کے فوراً بعد ملک میں جو افراتفری پھیلی اور خود مختیاری کے دعویدار اقوام نے سر اٹھایا تو ملک ایک سے زائد ریاستوں میں تقسیم ہو گیا ۔ ہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ شاہانِ کشان میں سے واسود یو آخری بادشاہ تھا جس نے ہندوستان کے ایک وسیع علاقے پر حکمرانی کی۔ ان کی موت کے بعد تاریخ پر ایک ایسا پردہ پڑا کہ پورے مغربی ہندوستان اور کشانوں سے متعلق کوئی تاریخی مواد میسر ہی نہیں جس سے ہم اس کا اندازہ کر سکیں کہ کشان خاندان کے آخری بادشاہ کون کون تھے اور کس مقام پر حکومت کرتے تھے۔ واسودیو کی موت اگر یقین کے ساتھ ۱۷۸ء ہے تو یہاں سے لے کر ایران کے ساسانی بادشاہ سے تعلق یا گورے ہن کے حملے ۳۶۰ ء سے ۳۷۰ ء تک بالکل تاریخ خاموش نظر آتی ہے۔ اس دوران مشرق میں گپت خاندان کا احوال آتا ہے جس سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ مشرقی ہندوستان میں، اسود یو کی موت کے بعد گپت خاندان نے اپنے قدم مضبوط کر لیے تھے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ تیسری اور چوتھی صدی عیسوی کے دوران کشانوں کا اپنے ملک پر کتنا کنٹرول تھا؟
ان میں واسودیو کا جانشین کون سا آدمی ہوا؟ اس کے متعلق کوئی یقینی امر اور قابل اعتماد شہادت نہیں ملتی سوائے ان سکوں کے جو پنجاب کے مختلف علاقوں جیسے رواں کے ارد گرد میں پائے گئے ہیں۔ ان سکوں کی عبارت سے جوئی غیر ملکی مورخین کی آرا پر منی تحریر ہم تک پہنچی ہیں، جبکہ کچھ وہ سکے جو ہمیں روڑاں اور اس کے گردو نواح کے علاقوں سے ملے ہیں، ان میں کنشک ، ہوشک، واسودیو کے علاوہ باقی تمام سکوں کا تعلق مورخین نے کشان خاندان سے جوڑا ہے۔ ان میں تھوڑی بہت تحقیق کے واسودیو کے سکوں کی مشابہت پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے تاریخ دان کشان خاندان کے اقتدار کو تسلیم کرتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دوسو سال کا عرصہ جس کے دوران کسی بھی نامور بادشاہ کا ذکر نہیں آتا، تو آخر کار یہ اتنا عرصہ کیسے گزر گیا اور کسی مرکزی بادشاہ کے بغیر کیسے اتنی بڑی عظیم سلطنت نے اپنا وجود برقرار رکھا اور تمام قبائلی کس کی اطاعت گزاری میں رہے؟
مشرق میں مگدھ سے گپت خاندان چوتھی صدی عیسوی کے اول میں اس قابل ہو گیا کہ وہ ہندوستان کے ایک وسیع علاقے کو اپنے تصرف میں لاسکے جیسا اس نے کر دکھا یا۔ ممکن ہے کہ جس طرح ہندی پارتھی سردار مغربی پنجاب ” تھل” کے اکثر علاقے پر نیم خود مختیاری کا دعوی کرنے لگے، اسی طرح خود کشان خاندان بھی آخری زمانے کے مغل شہزادوں کی طرح خاندانی کش مکش میں جتلا ہو کر بکھر گئے ہوں اور اپنے اپنے تعلق داری والے علاقے پر قابض ہو کر ریاستی خود مختیاری کا اعلان کرنے لگے ہوں۔ بالکل اسی طرح ہوا۔ کشان خاندان کے کچھ لوگوں نے کابل پر قبضہ کرلیا۔ خاندان کا ایک حصہ پشاور اور ٹیکسلا پر قابض ہو گیا لیکن گندھارا کے جنوب کے میدانی خطہ موجودہ تھل کی صورت حال کچھ اور تھی کیونکہ دریائے سندھ کے مغربی علاقے ایران کی ساسانی حکومت کے قبضے میں تھے جہاں سیستان کے سک ایران کے ماتحت قابض تھے۔ جبکہ دریائے سندھ کے پار کا نقشہ کچھ اس طرح سے تھا کہ اس علاقے پر کشان خاندان کے افراد حکمران تو تھے لیکن طاقت کا اصل سرچشمہ ان ہندی سی تھی و پارتھی سرداروں کے ہاتھ میں تھا۔ وہ ان علاقوں پر اپنا اثر ورسوخ رکھتے تھے۔
اسی طرح ”تھل“ کا موجودہ علاقہ دریائے سندھ اور جہلم کے درمیان واقع ہے۔ شمال میں نیم پہاڑی سلسلہ موجودہ ضلع میانوالی تک اور جنوب میں دریائے سندھ اور جہلم کے سنگم تک یہ ہندی پارتھی سرداروں کے قبضے میں تھا۔ مورخین نے اس علاقے کا نام سی تھیا بتایا ہے ۔ یادر ہے کہ سیتھیا ہی موجودہ تھل کا نام تھا۔ اس علاقے کے وسط میں روڑاں اور اس کے گردو نواح کے علاقوں پر مشتمل ایک ریاست تھی جہاں ایک سے زائد لوگ دعویدار ہونے کے ثبوت ملتے ہیں۔ یہ ثبوت صرف سکوں کی صورت میں ہیں۔ روڑاں کی سائیڈ بی میں جو سکے پائے گئے ہیں، ان میں کچھ خود واسودیو کے ہیں جبکہ ہوشک اور آخری کشان بادشاہ کے علاوہ کچھ ایسے سکے بھی دریافت ہوئے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک طرف تو آخری کشان بادشاہ دوئم سوئم کے نام محفوظ ہیں لیکن دوسری سائیڈ کچھ تبدیل نظر آتی ہے۔ ان میں ہندی یانگاری برو ہمی اور خروشتی وغیرہ زبان کے کچھ ایسے الفاظ تحریر کیے گئے ہیں جس طرح انگلش میں tha-wa-ba حرکت کے الفاظ ۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان ایشیائی سرداروں کے نام ہیں جو کافی عرصہ سے پنجاب کے اس میدانی مخطے میں قابض تھے اور یہ قبائلی کسی نہ کسی طرح مرکزی حکومت کے تحت ان علاقوں پر حکومت کر رہے تھے۔ ان میں یونانی باختری اور پارتھی سردار مشہور ہندی سیتھی شامل تھے۔
یہی وجہ تھی کہ اتنا طویل عرصہ تک علاقے کا نظم و نسق چلتا رہا جبکہ کوئی نہ کوئی کشان خاندان کا فرو ضرور بطور مرکزی یا حاکم اعلیٰ کے طور پر ان میں موجود رہتا تھا۔ لوگ اس کشان فرد کی اطاعت کرتے تھے۔ ان حالات کے ساتھ ہی ایک مرتبہ پھر مغربی پنجاب کے اس علاقے پر ایران کی ساسانی حکومت کا اثر نظر آتا ہے۔ وجہ تو معلوم نہیں ہوسکی کہ ایران کا ہندوستانی علاقوں پر عمل دخل کیسے ہوا لیکن یہ بات واضح ہے کہ یہاں ہندوستانی علاقوں مشمول روڑاں میں دریافت ہونے والے سکے جو اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں، جن کی تفصیل وی اسے سمتھ کٹیلاگ آف کا ئنز ان انڈین میوزیم جلد اول صفحہ ۸۸-۸۹ (اشاعت ۱۹۰۶ء) ان کشان دور کے آخری بادشاہ جس کو سکوں میں Great Kushan مشہور کیا گیا۔ وی اے سمتھ کا بیان ہے کہ اسی کشان بادشاہ کے سکوں کی ایک طرف آگ کی قربان گاہ کی تصویر پائی گئی ہے جو صرف ایرانی بادشاہوں کے سکوں پر پائی جاتی تھی۔ خود اس کشان بادشاہ جس کا نام شاید گرمیس تھا، کوسکوں پر ایرانی لباس میں ملبوس دیکھا گیا ہے۔
ہیروڈوٹس کے مطابق چوتھی صدی عیسوی کے اول میں ایک کشان بادشاہ نے اپنی بیٹی ایران کے ساسانی بادشاہ ہر مرد سے بیاہی تھی اور اس رشتہ کے سبب ایران کی بڑھتی ہوئی طاقت جس میں سیستان کے سک مغلوب ہونے پر مجبور ہوئے اور اطاعت قبول کر لی۔ اسی طرح ممکن ہے کہ کشان خاندان کے بچے کچھے افراد نے اپنی ساکھ کو سہارا دینے کے لیے ایران کے حکمرانوں سے رابطے کیے ہوں کیونکہ اس وقت کشان خاندان زندگی کی آخری سانسیں لے رہا تھا۔ ایک اور شہادت جو کہ ۳۶۰ء میں جب شاہ پور دوم نے آمدہ کے مقام پر رومی فوج کے ساتھ جنگ لڑی یہ مقام دریائے دجلہ پر واقع ہے جو آجکل دیار بک جہاں عراق کا ملک آباد ہے۔ ایرانی فوج میں ہندی فوجی اور ہاتھی بھی شامل تھے جن کی کمان ایکی بڈھا بادشاہ گر بیس کر رہا تھا۔ اس بادشاہ کو فوج میں سب سے زیادہ عزت کی جگہ دی گئی تھی۔ ھم نے اپنی کتاب نیوسمیٹک کرانیکل صفحہ ے پر انیس ماری لیٹس کا بیان نقل کرتے ہیں کہ چیونٹی قوم در اصل ہندوستانی کشان تھے۔ ان تمام حالات کے پیش نظر تیسری صدی عیسوی یا چوتھی صدی کے اول کمک کشان سلطنت کے حالات سے گرد آلود رہے کہ کسی بھی ایسے حالات کی پشین گوئی مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ صرف دوہ کے جو جگہ جگہ تبدیل شدہ حالت میں پائے گئے ہیں، ان کی رو سے مغربی ، یورپی مورخین نے چند ایک آرا پیش کی ہیں جن میں حقیقت میں بہت بڑا تضاد پایا جاتا ہے لیکن اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی بھی دوسرا راستہ موجودہی نہیں سوائے ان مورخین کی آراء کو تسلیم کرنے کے۔ ہم مزید آگے ان حالات پر بحث کریں گے کہ وادی سندھ کے ان وسطی وزیریں علاقوں میں تیسری اور چوتھی صدی عیسوی میں سیاسی منظر نامہ کیا تھا۔