تھل:برساتی نالے پر آباد قدیم شہر کے آثار
قصبہ روڑاں کے مقام پر پائے جانے والے قدیم شہر اور آبادی کے آثار کو جب ہم قریب سے دیکھتے ہیں تو فور دماغ میں یہ بات کھٹکنے لگتی ہے کہ اس قدیم شہر کی تعمیر اور آبادکاری کے وقت اس طرح منصوبہ بندی کی گئی کہ جیسا معلوم ہوتا ہے کسی دریا کے کنارے پر ایک شہر آباد کیا گیا۔ ویسے بھی یہ ایک حقیقت ہے کہ اس مقام پر سے ملنے والے آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شہر دو حصوں میں اس لیے تعمیر کیا گیا کیونکہ ان کے درمیان تقریباً ۵۰۰ میٹر کا فاصلہ ہے۔ ایک مغرب کی طرف اور دوسرا مشرق میں۔ ان دونوں شہروں کے درمیان ضرور کوئی چیز حد فاصل ہوگی اور جیسے ہم باقی ہندوستان کو دیکھ چکے ہیں کہ تمام قدیم شہر دریاؤں اور ندی نالوں کے قریب آباد کیے گئے تھے، کوئی بھی شہر، بستی یا قصبہ ایسا نہ تھا جو پانی کی عدم موجودگی میں آباد ہوا ہو کیونکہ قدیم زمانے میں لوگوں کے پاس پانی کے وسائل صرف دریا یا ندی نالے ہی تھے۔ ور تھائی پانی کے حصول کا دوسرا کوئی نظام موجود نہیں تھا۔ اس لیے جب ہم نے روڑاں کے مقام پر قدیم آبادی کے آثار دیکھے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں آبادیوں کے درمیان ضرور کوئی چھوٹا بڑا دریایا برساتی نالہ موجود تھا جس کے کناروں پر آبادیاں قائم کی گئی تھیں ۔ ہم نقشے کی مدد سے بھی ظاہر کریں گے کہ ان قدیم آبادیوں کے درمیان کیسے دریا یا برساتی نالہ موجود تھا جس سے مقامی قبائل اپنے اور مال مویشیوں کیلئے پانی حاصل کرتے تھے۔ شمال سے جنوب مستطیل شکل میں تقریباً ایک سے ڈیڑھ کلو میٹر تک پھیلتے ہوئے آبادی کے نشانات دکھائی دیتے ہیں تو ضرور کوئی وجہ ہوگی۔
ورنہ یہ آبادی مربع شکل میں یا ویسے بھی چاروں اطراف پھیلی ہوئی ہو سکتی تھی۔ المختصر ہوا یہ کہ ان آبادیوں کو ایک ایسے منصوبہ کے تحت آباد کیا گیا کہ ایک سیدھی لائن میں جنوب سے شمال کی طرف۔ ایک اور اہم وجہ یہ ہے کہ ان دونوں شہروں یا قصبوں کا مرکز جنوبی سرے پر تھا جبکہ باقی آبادی اس سے شمال کی طرف دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ سائیڈ اے اور سائیڈ بی“ دونوں مقامات کا اگر مشاہدہ کریں تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان قدیم آبادیوں کا مرکز جنوبی کرے ہوا کرتے تھے اور باقی آبادی شمال مغرب کی طرف تھی ۔ اگر ان قدیم آبادیوں کی جگہ کا قریب سے جائزہ لیا جائے تو بالکل صاف نظر آتا ہے کہ ان کے درمیان واقعی کوئی بڑا برساتی نالہ گزرتا تھا جو مال میں نیم پہاڑی سلسلہ ضلع خوشاب سے آتا تھا اور آگے جنوب کی طرف بہتا ہوا دریائے جہلم میں مظفر گڑھ سے کچھ پہلے رنگ پور کے قریب سے شامل ہو جاتا تھا۔ روزاں کے مقام پر موجود یہ پٹی جو شرقا غربا۲۰۰۰ میٹر چوڑی ہے لیکن شمال جنو با بہت دور تک پھیلی ہوئی ہے جس میں ۵۰۰ میٹر کی درمیانی زمین کی سطح بالکل نیچی اور چکنی ہے جبکہ پانی کی سطح بھی بالکل اونچی سے ۰ افٹ ہے باقی ۷۵۰ میٹر کے قریب علاقہ مغرب اور مشرق میں بھی بالکل پلین ہے جہاں قدیم آبادیوں کے آثار پائے جاتے ہیں۔
ان کے مغرب اور مشرق میں وسیع ٹیلوں کا سلسلہ دور تک شمالاً جنوباً پھیلا ہوا ہے۔ یہ ایک ایسا حلقہ ہے جو ان تمام شواہد کے ساتھ ظاہر موجود ہے اور ہمارے نظریے اور اس خیال کو جو ہم نے پیش کیا ہے، ایک شاہد کے طور پر واضح کرتا ہے۔ جس وقت یہ آبادیاں اور قصبات قائم تھے، اس وقت اس جگہ سے ایک برساتی نالہ یا دریا گزرتا تھا۔ ہمارے پاس کوئی ایسی تاریخی شہادت موجود نہیں ہے کہ جو پہلی یا دوسری صدی عیسوی یا قبل از مسیح یہ ظاہر کرے کہ دریائے سندھ کا مشرقی میدانی خطہ جہاں وادی سندھ کی قدیم تہذیب نے جنم لیا اس کی جغرافیائی حیثیت کیا تھی۔ اگر کوئی تحریری مواد موجود تھا تو موجودہ زمانے کے مورخ اس کو پڑھنے اور سمجھنے سے قاصر رہے۔ جو سمجھ آ بھی گیا تو اس کو بھی بعد میں متنازعہ بنادیا گیا جیسا کہ پری پلس کے مصنف اور یونانی سیاح اپالونیٹس کو۔ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ انہوں نے ۴۳/۴۲ء میں ہندوستان کی سیاحت کی تھی۔ مغربی پنجاب پر ایک پارتھی بادشاہ فرو میں حکمران تھا۔ اس کے متعلق کوئی دوسری بات سامنے نہیں آئی۔
صرف پری پلس کے مصنف کا بیان ہے جو دریائے سندھ کی زیریں حصے کو سیتھیا کا نام دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ یہ تمام علاقہ پارتھی سرداروں کے قبضے میں تھا جو متواتر خاندانی لڑائیوں میں مصروف رہتے تھے ۔ ڈاکٹر میک کر نڈل نے ان کے بیان کا ترجمہ کیا ہے کہ جس کو وی اے سمتھ نے اپنی کتاب میں بھی تحریر کیا ہے مصنف کی بیان ہے کہ اس زمانے میں دریائے سندھ کے سات دہانے ، راستے جگہیں یا گزرگاہیں تھیں، ان میں ایک سب سے بڑا تھا جو جہاز رانی کے قابل تھا۔ مصنف کے مطابق اس دریا کے کنارے پر ایک شہر بھی آباد تھا جس کا نام مورخ نے بر بریکان لکھا ہے اور یہی شہر تجارتی بندرگاہ کے طور پر بھی کام دیتا تھا۔ دارالسلطنت اندرونِ ملک واقع تھا جس کا نام مورخ نے متگر تحریر کیا ہے۔ اس کے ۴/۵ صدیوں بعد جب چینی سیاح نے علاقہ تھل کو مغرب سے مشرق کی طرف عبور کیا تو اس نے اسے ریت کا دریا” قرار دیا۔ بہر حال ہمارا جو خیال اور نظریہ ہے کہ روڑاں کے مقام پر قدیم زمانے میں قصبات اور شہر آباد تھے اور ان کے درمیان ضرور کوئی دریا یا برساتی نالہ گزرتا تھا جس کے واضح آثار اور نشانات پائے جاتے ہیں۔ چکنی مٹی پانی کی بلند سطح، سیاہ ریت جس کو آج کل ” کو رو” بھی کہتے ہیں ، یہ ریت تعمیراتی کاموں میں استعمال ہوتی ہے، بہت سی جگہوں پر اس کی نہیں پائی جاتی ہیں جہاں سے لوگ اسے نکال کر مکان تعمیر کرتے ہیں۔
روڑاں کی سائیڈ ” اے”:
ہم نے روڑاں کے آثار اور کھنڈرات کو دو تین علیحدہ حصوں میں تقسیم کر دیا ہے تا کہ سمجھنے میں آسانی ہو۔ یہ کھنڈرات کافی رقبہ پر دور دور تک پھیلے ہوئے ہیں اور ان کے ادوار کے متعلق کچھ ابہام موجود ہے۔ یہاں کے آثار قدیمہ کے نمونوں سے حاصل ہونے والی تاریخوں سے پتہ چلتا ہے کہ آخری دور تیسری صدی عیسوی کے آخر یا چوتھی صدی عیسوی کے ابتدا تک آتا ہے۔ جو سکے سائیڈ بی“ سے ملے ہیں، ان کے ذریعے حاصل کردہ معلومات کے مطابق سائیڈ اے کا آخری دور ہو لٹک کا زمانہ تھا جبکہ اس سے قبل کنشک ، باختری اور پارتھی بادشاہوں کے سکے بھی ملے ہیں جن میں اپالو ڈوٹس، سٹرنگس اور مندر شامل ہیں۔ اس سے مزید نیچے کی تہہ کو دیکھیں تو قبل از مسیح تیسری اور چوتھی صدی جب یہ علاقے یودھیا جیوی قبائل اور ان کے اتحادی اقوام کے قبضے میں تھے ، یہاں ان اتحادی اقوام کے سکے بھی پائے گئے ہیں جو یودھیا جیوی قبائل کے مشترک نام سے جاری کیے جاتے تھے ۔ چوتھی صدی قبل مسیح میں یہ علاقہ انہی جنگجو اقوام کے زیر تسلط تھا۔ ایک بڑی ریاست جس کو مورخین نے وہیکا یا و بیک کا نام دیا ہے، کا مرکزی مقام روڑاں کی سائیڈ ے پر تھا۔
یودھیا قبائل ہندوستان کے قدیم قبائل میں شمار ہوتے ہیں اور یہ لوگ جنگجو خصلت کے مالک تھے۔ یہ ہمیشہ آزاد اور خود مختیار زندگی بسر کرنے کے عادی رہے اور کبھی کسی مرکزی یا حاکم الیٰ کے ماتحت نہیں رہے۔ اس لیے جب چوتھی صدی قبل مسیح میں مغربی ہند ایک سے زائک ریاستوں اور حکمرانوں میں بٹا ہوا تھا تو جنوبی گندھارا کا میدانی علاقہ تھل اکثر خانہ بدوش جنگجو اقوام کے قبضے میں تھا۔ ان سب میں طاقتور اور مشہور قوم یودھیا تھی جو کچھ دوسری خود مختیار قوموں کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو گئی یہ ایک بڑے علاقے پر قابض تھی۔ اور یہ علاقہ ریاست و ہیک کے نام سے مشہور تھا۔ اس سے بھی قدیم تہذیب کے بھی آثار پائے گئے ہیں جن میں سیلٹی برتنوں کے ٹکڑے یعنی سیاہ پالش والے برتن جبکہ پتھر کا چورا اور سرخ مٹی کو ملا کر بنائے گئے۔ برتنوں کے ٹکڑے بھی سائیڈ اے” پر پائے گئے ہیں۔ ان دونوں برتنوں کے ٹکڑوں کا یونانی تہذیب سے تعلق ہے۔ اس یونانی تہذیب و ثقافت کو فرعون مصر سائرس اعظم جو چھٹی صدی قبل مسیح میں ہندوستان آیا، نے متعارف کروایا۔ جبکہ ممکن ہے کہ یہ تہذیب ایرانیوں نے یہاں تک لائی ہو جو چھٹی صدی قبل مسیح کے اختتام تک مغربی ہند کے علاقوں پر قابض رہے۔ ان تمام تاریخی حوالوں اور آثار قدیمہ کے نمونوں سے حاصل کردہ معلومات کی روشنی میں ہم اس نتیجہ پر پہنچ جاتے جو ایک حقیقت ہے کہ سائیڈ ” اے” کا تعلق وادی سندھ کی تہذیب کے ارتقائی دور سے ہوتا نظر آتا ہے۔
یعنی اگر ہم قدیم روڑاں کا تاریخی رشتہ اس طرح قائم کریں جیسے کشان ۶۵ ء سے ۳۸۰ ء اس سے پہلے ۱۶۵ ق م تک باختری اور پارتھی اس سے بھی پہلے ۳۲۰ ق م گپت موریہ ۔ موریہ سے قبل ۲۰۰ ق م تک مختلف قبائل اور یودھیے ، ان سے پہلے مالوے، کشورائے ، کورد، وغیرہ۔ ایرانی مصری، یونانی ۲۰۰ ق م تک کو رو اور پانڈو وغیرہ مختلف ہندو راہے اور ۸۰۰ تا ۱۰۰۰ ق م آریہ اور ۱۵۰۰ سے ۲۰۰۰ ق م تک در اور دی قوم اور تہذیب وادی سندھ کے ارتقائی زمانہ تک۔
اروڑاں کی سائیڈ ”بی“:
سائیڈ بی ، اروڑاں کی سائیڈ اے کے نیست و نابود ہونے کے بعد آباد ہوئی ۔ ائے کے ویران ہونے کی وجوہات تو ہم پہلے بیان کر چکے ہیں۔ یہ مقام اے کے مغرب میں اس نالہ کے مغربی کنارے پر واقع ہے۔ اس مقام پر جو آبادی قائم ہوئی اس کا تعلق واسود یو کشان اور آخری کشان بادشاہ کے دور پانچوی صدی عیسوی کے آخر تک ہے۔ ”بی“ کے مقام پر آباد شہر کو ہن وحشی قبائل حملہ آوروں نے تباہ و برباد کیا۔ میرے خیال کے مطابق یہ شہر بہنوں کے پہلے حملے میں جلا کر خاکستر کر دیا گیا کیونکہ ہن حملہ آوروں نے ہندوستان پر پہلا حملہ پانچویں صدی عیسوی کے وسط میں کیا تھا۔ ویسے تو اس حملے کو سکندر گیت نے ناکام بنادیا اور بہن افواج کو شکست کے بعد واپس لوٹنا پڑا لیکن ڈاکٹر ہارٹل کے مطابق واسودیو کی موت کے بعد افراتفری کے شکار کشان سلطنت کو اس وحشی قوم نے ہلا کے رکھ دیا۔ یہ قوم کابل سے مغربی ہند میں داخل ہوئی اور دریائے سندھ اور جہلم کے درمیانی علاقے موجودہ تھل جو اس وقت ریاست سیتھیا کے نام سے مشہور تھی، کو تباہی سے دو چار کرتی ہوئی جب وسطی ہند میں داخل ہوئی تو ان حملہ آوروں کا راستہ خاندان گپت کے ایک راجہ نے روکا۔ ہم اگر بی کے مقام سے ملنے والے آثار قدیمہ کے نمونوں کو دیکھتے ہیں جن کا تعلق تیسری چوتھی اور پانچوی صدی عیسوی سے ہے۔
اس مقام سے جو سکے ملے ہیں ان کا تعلق زیادہ تر و اسود یو اور آخری کشان بادشاہ سے ہے جبکہ کچھ سکے مقامی سرداروں جن کو میتھی سردار کہا جاتا تھا، سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہم نے یہ دیکھا ہے کہ ائے کی طرح سائیڈ بی“ بھی شمال اور جنوب مستطیل شکال میں دو کلو میٹر کے علاقہ پر پچھلی ہوئی ہے۔ آبادی کے نشانات موجود ہیں۔ اس شہر کی ترتیب بھی کچھ اس طرح سے ہے کہ شہر کے وسط میں زیادہ گنجان آبادی تھی جو اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ یہاں خاص اور حکمران طبقہ کے لوگ آباد تھے ۔ شمال اور جنوب میں عام لوگ آباد تھے۔ اس کے گردو نواح میں چھوٹی چھوٹی بستیاں آباد تھیں جہاں کاشتکار مزدور اور کاریگر طبقہ کے لوگ آباد تھے ۔ "بی” کے مغرب میں دو کلو میٹر کے فاصلے پر ایک بستی کے نشان پائے گئے ہیں جس سے معلوم ہوتا کہ یہاں مویشی پال لوگ آباد تھے۔
آثار قدیمہ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ان تمام لوگوں آپس میں خاصہ تعلق تھا ایک ہی مذہب اور حکم کے ماننے والے تھے ۔ اس علاقہ جس کو ریاست سینتھیا کہا جاتا تھا کیونکہ اس علاقے میں سی تھی قبائل بہت زیادہ تعداد میں آباد تھے۔ سیت تھی قبائل کا تعلق ایران کے ایک صوبے سے تھا اس لیے اس علاقہ پر بھی ایرانی حکومت کا بہت
زیادہ عمل دخل پایا جاتا تھا۔
سائیڈ ” آر“:
” آر“ وہ مقام اور جگہ ہے جہاں سے خیال کے مطابق تیسری اور چوتھی صدی عیسوی تک کوئی دریا سندھ کا معاون دریا یا کوئی برساتی نالہ گزرتا تھا کیونکہ موسم برسات میں جب بارشیں زیادہ ہوتی ہیں تو تب شمال میں نیم کو ہستانی سلسلہ سے آنے والا پانی ان راستوں سے گزرتا تھا۔ تقریباً موجود تھل میں تین چار مقامات پر سے ایسے نالوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ہم پہلے بھی عرض کر چکے ہیں کہ پورے تھل کا مخطہ جو بھی تہذیب وادی سندھ کا ارتقائی مقام تھا، جہاں قدیم تہذیب و ثقافت اور انسانی آبادیوں کے نشانات پائے جاتے ہیں، کی تحقیق کرنا اشد ضروری ہے۔ اگر یہ کام کسی ماہر آثار قدیمہ کی ٹیم کی نگرانی میں کرایا جائے تو ہماری سوچ سے بھی بڑھ کر قدیم تاریخ کے راز افشاں ہوں گے۔ بدقسمتی سے برٹش گورنمنٹ کے بعد اس کام کی طرف کسی نے توجہ نہیں دی۔ بہر حال پر شکوہ نوٹ کے بعد میں اپنے مضمون کی طرف آتا ہوں کہ موسم برسات میں پانی کے جو راستے اس علاقہ تھل سے گزرتے تھے، ان میں ایک راستہ موجودہ روڑاں کے مقام سے گزرتا تھا۔
یہ بات دونوں صورتوں میں تسلیم کی جاسکتی ہے کہ اس مقام سے گزرنے والا چھوٹا دریا ہے یا یہ دریائے سندھ کا معاون تھا یا کوئی شمال میں واقع خوشاب کے شمالی پہاڑی سلسلہ سے برسات کا پانی ہوتا۔ اس سے متعلق دو تین آرا ہو سکتی ہیں جس میں سب سے مضبوط دلیل یہ ہے کہ دریائے سندھ کا ہی معاون دریا ہو سکتا ہے۔ اس کے متعلق ایک مورخ کا بیان جس کا ذکر میں پہلے بھی کر چکا ہوں وہ کہ پری پلس کے مصنف یونانی سیاح اپالونیکس جو ۴۲۳ء میں ہندوستان آیا۔ اس وقت مغربی ہند پر ایک پر تھی بادشاہ فروٹمیں حکمران تھا۔ پری پلس کے بیان کے مطابق جس کا ڈاکٹر میک کر نڈل نے بھی ترجمہ کیا ہے، اور اس بیان کو دی۔ اے سمتھ نے اپنی کتاب قدیم تاریخ ہند کے باب نمبر ۹ اور صفحہ نمبر ۲۸۸ پرتحریر کیا ہے۔ اس زمانے میں دریائے سندھ کے سات دہانے تھے۔ ان میں ایک سب سے بڑا تھا جو جہاز رانی
کے قابل تھا۔
ای دریا پر تجارتی بندر گاہ تھی۔ یہ چھوٹا سا در یا کہاں اور کس جگہ پر اختام پذیر ہوتا تھا؟ کیا یہ پھر سے دریائے سندھ سے مل جاتا تھا ؟ یا دریائے جہلم سے ملتا تھا یا پھر سر زمین کھل میں بڑی بڑی جھیلوں کی صورت میں تقسیم ہو کر رک جاتا تھا ؟ اس بات کو سمجھنا بہت ہی مشکل کام ہے کیونکہ ہمارے پاس قدیم تاریخ ہند کا کوئی وجود ہی نہیں جس کی مدد سے ہم ایسے مشکل ترین مسائل کو حل کر سکیں۔ بعید النظر میں غیر ملکی مورخین کی آرا جو انہوں نے ۱۸ دیں اور 19 ویں صدی عیسوی میں تحقیق اور ریر بیچ کے دوران دیں، وہ بھی تو ایک نظریہ اور اندازہ ہے، انسانی سوچ کی عکاسی ہے۔
اسی طرح جیسے ہم نے روڑاں کے زمینی حالات اور آثار قدیم کی مدد سے اپنے آپ کو قائل کر لیا ہے کہ یہاں سے کوئی ضرور چھوٹا سا در یا گزرتا تھا جس کی وجہ سے یہاں پر شہر اور قصبات کی آباد کاری ممکن ہوئی جس طرح ایک شہر جو سائیڈ ” اے” کے نام سے بھی آباد ہوا اور پھر بی” کے مقام پر بھی ایک شہر آباد ہوا۔ یہ بالکل دریا کے رخ پر آباد کیے گئے تھے۔ اس کے کنارے شمالاً جو ہا تھے۔ اگر ہم ان شہروں کے کھنڈرات کو دیکھتے ہیں تو کوئی شک کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ دیسے بھی اگر ہم موجودہ وقت میں ان مقامات کو توجہ سے دیکھیں تو جیسے ائے“ اور ”بی“ پر آبایوں کے نشانات پائے جاتے ہیں اسی طرح سائیڈ” آر” کی جگہ بھی بالکل واضح نشانات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ یہاں سے ضرور کسی نہ کسی طرح پانی کی موجودگی کا پتہ چلتا ہے۔ ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں کہ سائی” آر کے مقام پر اس وقت بھی باقی علاقے کی نسبت پانی سطح بلند ہے، بقی پور پھل کا علاقہ ریت کے ٹیلوں کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے جبکہ کہ سائیڈ ” آر کے مقام پر سرخ اور سادہ چکنی مٹی پائی جاتی ہے۔
دوسرا یہ کہ وہ ریت جو تعمیرات میں استعمال کی جاتی ہے وہ بھی اس جگہ سے ملتی ہے جس کو عام زبان میں کو رو کہتے ہیں۔ خود راقم الحروف نے ایک مقام پر کھدائی کرائی تو تقریباً آٹھ دس فٹ تک سیاہ ریت کی ایسے نہ پر تھی جیسے آج کل کے دریاؤں میں ہوتی ہے۔
نوٹ: یہ مضمون ملک محمد شفیع کی کتاب (قدیم تاریخ تھل اور روڑاں کے آثارِقدیمہ) سے لیا گیا ہے۔